جنگ اخبار کا سلمیٰ خان سےایک انٹرویو

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

روزنامہ جنگ انٹرویو[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت گوئی و نعت خوانی وہ نعمائے خداوندی ہیں کہ جن سے ہر ذی شعور بہرہ مند ہونے کی خواہش رکھتا ہے۔اگر شعرائے کرام نعت گوئی کو اپنے لیے ایک مقدّس اعزاز سمجھتے ہیں، تو نعت خواں بھی محبّت و سرشاری کے عالم میں حضرت محمد ﷺ پر عقیدت کے پُھول نچھاور کرتے ہیں۔ ماضی میں نعت خوانی و نعت گوئی دونوں ہی شعبوں میں مَردوں کی حُکم رانی رہی اور کسی حد تک اب بھی ہے، لیکن گزشتہ ایک دہائی کے دوران خواتین کی قابلِ ذکر تعداد بھی مدحتِ رسولﷺ کی جانب راغب ہوئی۔یہی وجہ ہے کہ اب جہاں خواتین شعراء کے نعتیہ کلاموں کے مجموعے اردو ادب کا حصّہ بن رہے ہیں، وہیں نعت گو خواتین بھی ٹی وی، ریڈیو اور مختلف مذہبی مجالس اور محافلِ نعت میں نبیٔ آخرا لزّماں ﷺ کی شان میں گُل ہائے عقیدت پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ ان ہی خواتین میں راول پنڈی سے تعلق رکھنے والی نعت خواں اور اینکر پرسن، سلمیٰ خان بھی شامل ہیں، جنہوں نے نعت خوانی کے میدان میں ایک ایسا انقلاب آفریں قدم اٹھایا، جسے بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ سلمیٰ خان ’’صراطِ نعت ایسوسی ایشن‘‘ نامی تنظیم کی بانی ہیں، جس کا بنیادی مقصد مُلک بَھر کی نعت خواں خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے علاوہ عشقِ رسولﷺ کے جذبے سے سرشار بچّیوں اور خواتین کو مدحتِ رسول ﷺ کے لیے وسائل و مواقع فراہم کرنا اور اُن کی خداداد صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے۔انہوں نے اسلامیات اور صحافت میں ماسٹرز کیا ہے۔ گزشتہ دنوں ہماری صراطِ نعت ایسوسی ایشن کی چیئرپرسن، سلمیٰ خان سے خصوصی گفتگو ہوئی، جو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

س :نعتیہ شاعری اردو ادب کا اَن مول سرمایہ ہے، لیکن گُل دستۂ نعت میں مَردوں ہی نے زیادہ پُھول سجائے ۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

ج :اس ضمن میں ہمیں پہلے نعت خوانی کی تاریخ کا مختصر جائزہ لینا ہو گا۔ مدحتِ رسولﷺ کا سلسلہ دَورِ نبویؐ ہی میں شروع ہو گیا تھا، جو بہ فضلِ خداوندی آج بھی جاری و ساری ہے اور ان شاء اللہ تاقیامت چلتا رہے گا۔ نعت سے مراد نبیٔ کریم، حضرت محمد ﷺ کی منظوم مدح و ستایش ہے۔ اس تعریف کی رُو سے دَورِ نبویؐ کے اوّلین نعتیہ اشعار میں حضورِ اکرم ﷺ کے عمِ محترم، حضرت ابو طالب کے معروف قصیدے کا یہ مشہور شعر بھی شامل ہے کہ؎ (ترجمہ)’’ اصلی رنگت والا، جس کے چہرے کا واسطہ دے کر بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کا سہارا، حاجت مندوں کی پناہ۔‘‘ بعد ازاں، صحابہ کرامؓ کی جانب سے نعت گوئی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ اہلِ علم نے ایسے کم و بیش 200صحابہؓ اور صحابیاتؓ کے نام گِنوائے ہیں کہ جنہوں نے نعت گوئی کا شرف حاصل کیا۔ ان میں حضرت حسّان بن ثابتؓ، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ ، حضرت کعب بن مالکؓ اور حضرت کعب بن زہیرؓ کے نام شامل ہیں۔ نیز، صحابیاتؓ بھی اس میدان میں پیچھے نہ تھیں۔

س :بر ِصغیر میں نعت گوئی کی روایت کتنی قدیم ہے؟

ج :برِصغیر میں نعت گوئی کی تاریخ چار سے پانچ صدیوں پرمحیط ہے اور یہاں زیادہ تر اردو اور پنجابی میں نعتیہ شاعری کی گئی۔ اردو ادب میں اٹھارویں صدی کے نعت گو شاعر، ولی دکنی کا بے حدعُمدہ نعتیہ کلام موجود ہیں، جن سے شمالی ہند کے شعراء نے بھی استفادہ کیا۔ پھر کلاسیکی اردو ادب میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر گزرا ہو کہ جس نے نعتیہ اشعار نہ کہے ہوں۔ 19ویں صدی کے نصف اوّل کے نعت گو شعراء میں کرامت علی شہیدی، مومن اور شیفتہ نمایاں ہیں۔ اسی صدی کے نصف آخر میں امیر مینائی، داغ، حسن رضا بریلوی اور وارثی نے نعتیں لکھیں، جب کہ محسن کاکوروی اور مولانا احمد رضا خان بریلوی نے تو خود کو صنفِ نعت کے لیے وقف ہی کر دیا تھا۔ بعد ازاں، مولانا الطاف حسین حالی کی نعتیہ شاعری کی صُورت اردو نعت میں ایک نئے طرز کا ورود ہوا ، جب کہ مولانا ظفر علی خان اور علّامہ اقبال نے اس فن کودوام بخشا۔ پھر ان سے متاثر ہو کر حفیظ جالندھری، ماہر القادری، احسان دانش، نعیم صدیقی اور دیگر شعراء نے موضوعات میں وسعت پیدا کرتے ہوئے نعتیہ اسلوب میں نئے تجربات کیے۔ یہی وجہ ہے کہ 20ویں صدی کی نعتیہ شاعری کئی اعتبار سے کلاسیکی نعت سے مختلف نظر آتی ہے اور اس روایت کے بانی و مؤجد، حفیظ تائب مرحوم ہیں۔ گرچہ نعتیہ شاعری کے گُل دستے میں تابش دہلوی، باقی صدیقی، قیوم نظر، احمد ندیم قاسمی، اعظم چشتی، عبدالعزیز خالد، انجم رومانی، مظفّر وارثی اور خالد احمد سمیت دوسرے شعراء نے بھی اپنے اپنے پُھول سجائے، مگر حفیظ تائب مرحوم نے جس طرح صنفِ نعت کو اپنایا، اُس کی اردو شاعری میں مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے پنجابی میں بھی نعتیہ کلام لکھا ۔ ہم خواتین کے لیے جن شعراء کے نعتیہ کلام کا انتخاب کرتے ہیں، اُن میں حفیظ تائب سرِ فہرست ہیں۔

س :آپ کو نعت خوانی سے کب اور کیسے دِل چسپی پیدا ہوئی؟

ج :میرا تعلق پشتون فیملی سے ہے۔ مذہبی گھرانا ہونے کے باعث ابتدا ہی سے سیرتِ رسولﷺ کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور پھر اسی کی وجہ سے نعت خوانی کا شوق پیدا ہوا۔ مَیں اپنے اسکول کی سب سے بہترین نعت خواں تھی ، ہر تقریب کے آغاز میں نعت خوانی کیا کرتی ۔ پھر مَیں نے اسکولز کی سطح پر ہونے والے نعت خوانی کے بے شمار مقابلوں میں اوّل انعام بھی حاصل کیا ۔ بعدازاں، یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا ۔ محلّے میں کہیں بھی نعت خوانی کی کوئی محفل ہوتی، مُجھے ضرور مدعو کیا جاتا۔ نیز، کالج کی سطح پر بھی یہ سلسلہ جاری رہا،تو اس قدر پزیرائی ملنے پر نعت خوانی ہی کو زندگی کا مقصد بنا لیا۔

س :نعت خواں خواتین کے لیے تنظیم بنانے کا خیال کیسے آیا؟

ج :مَیں نے’’ صراطِ نعت ایسوسی ایشن‘‘ بنانے کا ارادہ آج سے 12برس قبل یہ دیکھتے ہوئےکیا تھا کہ پاکستان میں نعت خواں خواتین کی تعداد توخاصی ہے، لیکن اُن میں سے اکثر مَردوں کی محتاج ہیں ۔ اُن کے پاس اپنا ایسا کوئی پلیٹ فارم نہیں کہ جس کے ذریعے نعت خوانی کے شعبے میں کوئی مقام بنا سکیں۔ تاہم، مُجھے شادی کے بعد 2018ء میں اپنے اس ارادے کو عملی شکل دینے کا موقع ملا۔ مَیں نے دُخترانِ اسلام کو زیورِ نعت سے آراستہ کرنے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت یہ تنظیم قائم کی ہے اور اسے چلانے کے لیے کسی سے چندہ یا عطیات نہیں لیتی۔ ایسوسی ایشن کے بنیادی مقاصد میں نعت کے حوالے سے خصوصاً خواتین میں شعور و آگہی پیدا کرنا، نعت خواں بچّیوں اور خواتین کے لیے معیارِ کلام کے ساتھ حُسنِ ادائیگی اور بحر و ترنّم کی تربیت، اُن کی علمی و ادبی رہنمائی کے لیے مختلف سیمینارز اور تقریبات کا انعقاد اور خواتین کو نعتِ رسول کریمﷺ کے مقاصد سے آگہی فراہم کرنے کے لیے اُن کی مختلف علماء اور اسکالرز کے ساتھ علمی و فکری نشستوں کا اہتمام شامل ہے۔ مَیں مستقبل میں ایک ایسی اکیڈمی بھی قائم کرنا چاہتی ہیں کہ جہاں معتبر ماہرینِ فن اور اساتذۂ کرام کی نگرانی میں اصلاحِ نعت اور نعت شناسی کا عمل ا ٓگے بڑھایا جائے۔ چُوں کہ ہماری تنظیم نعت خوانی کی خواہش مند بچّیوں اور خواتین کو اپنی صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کے مواقع فراہم کرنا چاہتی ہے، لہٰذا ہم جدید سہولتوں سے آراستہ اسٹوڈیوز بھی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ہماری خواہش ہے کہ خواتین اور بچّیاں گانوں ، غزلوں کی طرز پر نعتیں پڑھنے سے گریز کریں اور اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے ہم باقاعدہ تحریک کا آغاز کریں گے۔ میری ایک آرزو یہ بھی ہے کہ خواتین معیاری نعت خوانی کے فروغ و ترویج میں ہمارا ساتھ دیں اور نعت خوانی کی صُورت تبلیغِ دین کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

س : تنظیم کو کس قدر پزیرائی ملی اور اس وقت اس میں کتنی خواتین شامل ہیں؟

ج :الحمد للہ، ہماری ایسوسی ایشن کو توقعات سے بڑھ کر پذیرائی مل رہی ہے۔ آج سے ایک برس قبل جب ہم نے اس نیک کام کا آغاز کیا تھا،تو صرف 12خواتین تنظیم کا حصّہ تھیں، جب کہ آج ہماری ارکان کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ ہماری ایسوسی ایشن سے وابستہ نعت خواں خواتین اور بچّیاں پاکستان نیشنل کائونسل آف آرٹس، پاکستان لوک وَرثہ، راول پنڈی آرٹس کائونسل اور اسلام آباد پریس کلب میں منعقدہ نعتیہ محافل میں گُل ہائے عقیدت پیش کر چکی ہیں، جب کہ خواتین کے عالمی یوم پر ہم نے ایوانِ صدر اور نارویجن سفیر کی رہایش گاہ پر منعقدہ تقاریب میں بھی شرکت کی تھی۔

س :آپ کی تنظیم میں طالبات کا تناسب زیادہ ہے یا ملازمت پیشہ اور گھریلو خواتین کا؟

ج :آپ کو یہ جان کر خوش گوار حیرت ہو گی کہ ہم سے رجوع کرنے والوں میں طالبات، خواتینِ خانہ اور ملازمت پیشہ خواتین سب ہی شامل ہیں۔ ہم سے نعت خوانی کی خواہش مند میڈیکل اور انجینئرنگ کی طالبات نے بھی رابطہ کیا ہے۔ پھر ان دنوں گھریلو خواتین میں بھی میلاد اور محافلِ نعت منعقد کرنے کا شوق بڑھتا جا رہا ہے، تو ایسی خواتین نے بھی اپنے شوق کی تکمیل کے لیے ہم سے رجوع کیا ہے۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ہر عُمر اور طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کے دل عشقِ رسول ﷺ سے معمور ہیں اور وہ نعت خوانی کے ذریعے اس کا اظہار بھی چاہتی ہیں۔ میں یہاں یہ بھی بتانا چاہتی ہوں کہ میری 10سالہ بیٹی بھی نعت خوانی میں خاصی دل چسپی رکھتی ہے۔

س :کیا آپ سے رجوع کرنے والی تمام خواتین میں نعت خواں بننے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے؟

ج :ہم سے رجوع کرنے والی کم و بیش 80فی صد طالبات اور خواتین کی آواز نعت خوانی کے معیار پورا اترتی ہے ، پھر ہم تربیت فراہم کر کے اُن کی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کر دیتے ہیں، جب کہ نعت خوانی کے معیار پر پوری نہ اترنے والی خواتین ہماری محافلِ نعت میں شرکت کر کے اپنا شوق پورا کرلیتی ہیں۔ نیز، اس کا ایک حل ہم نے یہ بھی نکالا ہے کہ ہم دو خوش الحان اور دو عام آواز والی خواتین یا بچّیوں کا گروپ بنا کر اُن سے کورس کی صُورت نعتیہ کلام پیش کرواتے ہیں۔

جنگ نیوز وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خان کی ہدایت پر ان دنوں مُلک بھر میں شجر کاری مُہم جاری ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی ہم شیرہ،مریم بائی کے نواسے اور ممتاز قانون داں، لیاقت مرچنٹ نے 19اگست کو برطانیہ سے آئے اپنے پوتوں اوربانیٔ پاکستان کے لکڑ نواسوں، رافع اور ناتھانیل (Rafe and Nate) کے ساتھ مزارِ قائد پر حاضری دینے کے بعد مزار کے احاطے میں گل مہر کا درخت لگا کر مُلک کو سرسبز بنانے کی جدوجہد میں اپنا حصّہ ڈالا۔ اس موقعے پر پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح کی املاک کے ٹرسٹی، لیاقت مرچنٹ کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے پوتے ان یادگار لمحات کو کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے۔ جنگ،’’ سن ڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی دل چسپی کے لیے اس موقعے پر لی گئی تصاویر پیشِ خدمت ہیں س :آپ کی تنظیم کو کن معروف نعت خوانوں کی رہنمائی و سرپرستی حاصل ہے؟

ج :نعت خوانی کے شعبے میں مُجھے معروف نعت گو شاعر اور نعت خواں، الحاج صبیح الدّین رحمانی اور سرور حسین نقشبندی جیسے اساتذہ کی رہنمائی حاصل رہی اور تنظیم سے وابستہ طالبات اور خواتین کو فنِ نعت کے اسرار و رموز سکھانے میں بھی ان سمیت دیگر سینئر نعت خواں ہماری رہنمائی و سرپرستی کر رہے ہیں۔

س :آپ نے ایک منفرد کام کا بیڑا اٹھایا ہے، تو کیا کچھ مشکلات بھی پیش آئیں؟

ج :جب مَیں نے تنظیم کی بنیادی رکھی، تو بعض افراد نے کہا کہ اتنی ساری خواتین کو ساتھ لے کر چلنا ایک کٹھن کام ہے۔ پھر کئی خواتین نے بھی حوصلہ شکنی کی، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ہمیں ابھی تک کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تنظیم کسی قسم کے لالچ و حرص کے بغیر نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ مدحتِ رسولﷺ جیسے مقدّس کام کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ چوں کہ مَیں اور تنظیم کی دیگر عُہدے داران اپنی مدد آپ کے تحت ہی ایسوسی ایشن چلا رہے ہیں، لہٰذا روپے پیسے کا بھی کبھی کوئی تنازع پیدا نہیں ہوا۔ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کی خاطر نچلے اور متوسّط طبقے کی بچّیوں اور خواتین کو معیاری نعت خواں بنا رہے ہیں۔ ہم نعت خوانی کی شوقین بچّیوں اور خواتین کے دل و دماغ میں روزِ اوّل ہی سے یہ بات بٹھا دیتے ہیں کہ انہیں ذاتی تشہیر اور نمود و نمایش کی بہ جائے جذبۂ عشقِ رسولﷺ سے سرشار ہو کر نعت خوانی کرنی ہے اور پھر وہ اسی اصول پر عمل پیرا رہتی ہیں۔