جگمگ نورنہایا رستہ (خصوصی مطالعہ) ، امین راحت چغتائی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

امین راحت چغتائی۔روالپنڈی

جگمگ نور نہایا رستہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(ایک مطالعہ)

جلیل عالی ہمارے صاحبِ اسلوب شاعر ہیں اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں فکرو فن کے جوہر اجاگر کرتے رہتے ہیں ۔میاں محمد بخش کے لہجے سے خصوصی رغبت رکھتے ہیں جواہلِ دل کو لُوٹ لیتا ہے۔اس لہجے کی ایک جھلک ان کی غزل میں بھی ملتی ہے اور حمد و نعت میں بھی۔اس بار وہ مناجات کی صورت میں بارگاہِ ربّ ا لعزت اور دربارِ رسالتؐ میں عرض پرداز ہیں ۔مناجات دراصل سرگوشی کے انداز میں خالقِ ارض و سما کو حاضر جان کر اس کی جناب میں عجز و انکسار سے راہِ ہدایت پانے کی استدعا کا نام ہے۔اس گیارہ بندوں پر مشتمل مناجات میں بھی ایسا ہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔زبان سہل ہے اور دل نشیں بھی ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاعر رات کے پچھلے پہردو زانوبیٹھا ہے۔دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں۔اور لبِ عجز و نیاز پر بار بار ایک ہی جملہ آ رہا ہے کہ اے اللہ !تو مجھے نعتِ محمد ؐوالے راستے پر گامزن کردے جو’’ جگ مگ نور نہایا‘‘ بھی ہے اور ’’ خیر و برکت والا ‘‘ بھی۔یہ بڑی دل آویز نعت ہے جو مناجات کے پردے میں کہی گئی ہے۔اس میں اجازت تو ربِ کائنات سے طلب کی جا رہی ہے اورشاعر اوصاف بیان کرتا چلا جا رہا ہے سرورِؐ کائنات کے۔اس سلسلے میں وہ قصیدے کی تشبیب والی تکنیک بھی استعمال کرتا ہے۔اور ایک مقام پر پہنچ کر خالقِ بزرگ و برتر سے استدعا کر کے یوں گویا ہوتا ہے۔

لاکھ سلام اسے جس دل پر رب نے آپ اُتارا رستہ

اس ؐنے دکھایا کیسا رستہ سیدھا، سادہ ، سچا رستہ

اور براہ راست رسولِ اکرمؐ کی توصیف پر آجاتا ہے۔لیکن احتراماً صیغۂ غائب ہی استعمال کرتا چلا جاتا ہے۔پھر اظہارِ محبت و عقیدت کے وہ جوہر دکھاتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کیف و سرور کا دریا موجزن ہے۔جذبات کی فراوانی ہے۔اورشاعرسرورِؐ کائنات کے قدموں پر الفاظ کے موتی نچھاور کر رہا ہے۔یاد کیجئے کہ ’’ تشبیب‘‘ کالفظی معنیٰ’’ آگ سلگانا‘‘ یا ’’ عشق کا بیان‘‘ کرنا ہے۔

جلیل عالی کے فن کی خوبی یہ ہے کہ وہ جذبات کی فراوانی میں بھی اپنا لہجہ دھیمہ رکھتے ہیں اور شعر کو مقامِ اطاعت سے آگے بڑھنے نہیں دیتے۔انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ حضوؐرختمی مرتبت ،شارع علیہ السلام ہیں۔شریعت سے تجاوز عقیدت کے اعمال بھی ضائع کر دیتا ہے۔شریعت ،خدا کی پیدا کی ہوئی راہِ راست سے عبارت ہے ۔اسی لئے عالی نے بہت سوچ سمجھ کر نناوے اشعار کی نعت نما مناجات میں ’’اھدِ نا الصراط المستقیم ‘‘ کے حوالے سے رستہ کی ردیف کا انتخاب کیا ہے اور اسے بہ حسن و خوبی نباہا ہے۔انہوں نے حضوؐر کے متعین کردہ رستے کے اتنے پہلو اجاگر کر دیئے ہیں کہ قارئین پڑھتے جائیں اور شاعر کی ژرف نگاہی اور ہنر وری کو داد دیتے جائیں۔میرے ؤقف کی تصدیق کے لئے اس بیش بہا ذخیرے کے چنداشعار دیکھئے:

اُسؐ نے بچھایا فرشِ دل پر عرشِ بریں سے اترا رستہ

کتنے زمانوں، وقت نے دیکھا تارا تار ا اسؐ کا رستہ

اللہ ! اللہ ! ، آقا! آقا ! واحد منزل ، تنہا رستہ

ایک وہی ؐ تہذیب کی منزل ایک وہی عرفان کا رستہ

اسؐ کے سفر کی سمت مطابق وقت نے اپنا بدلا رستہ

کیا کیا شوق بہشتوں جانب دھڑکن دھڑکن بڑھتا رستہ

جلیل عالی کی شاعری کا ایک اور دلکش پہلو جس کی طرف میں نے ابتدائی سطور میں اشارہ کیا تھا، میاں محمد بخش کے لہجے سے تعلق رکھتا ہے۔اردو میں میراور پنجابی میں میاں محمد بخش کا ’’سیف الملوکی‘‘لہجہ سیدھا کلیجے پر ہاتھ ڈالتا ہے اور قاری تڑپ اٹھتا ہے۔عالی ؤ خرالذکر لہجے سے زیادہ متاثر ہیں ۔متاثر کیا، یوں کہئے کہ وہ بھی ’’از دل خیزد،بر دل ریزد ‘‘کے اربابِ کمال میں شامل ہیں۔اور

مجھ پر کھول خدایا رستہ نعت ِ محمد والا رستہ

کا مطلع کہہ کر اپنی مناجات کی ابتدا ہی مذکورہ لہجے میں کرتے ہیں۔اور پھر ان پر ایسے خیال افروز اشعار کا نزول شروع ہو جاتا ہے۔

جہل کے گھور اندھیروں اندر جگ مگ نور نہایا رستہ

دُور کرے سب دہرخسارے خیر و برکت والا رستہ

۔۔۔

ہر اک سوچ خسارے والی اور یہ نفعوں والا رستہ

اُسؐ کے لحن میں چپ صحراؤں پیار کی بولی بولا رستہ

اسؐ نے تمام زمانوں خاطر راتوں جاگ کے سوچا رستہ

یہی نہیں ،عالی ایک شعر میر اور میاں محمد بخش کے ملے جلے لہجے میں کہہ کر دل کو مزید کیف و سرور بخش گئے ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں:

کیوں بھٹکو ہو سوچ تھلوں میں اور کرو ہو کھوٹا رستہ

یہاں تک تو بات تھی لہجے کی ۔ابھی جلیل عالی کی فکر کے بہاؤ کا ذکر باقی ہے۔اس کی مناجات کا موضوع ہی ایسا انسانیت افروز ہے کہ اس پر لکھنا عین سعادت ،سیرت سے رجوع اور راہِ خیر الورؐایٰ کو حرزِ جاں بنانا ہی معراجِ تعینات ہے۔عالی، اپنی مناجات میں’’رستہ ‘‘ کو بطور علامت استعمال کر کے اس کی شرح بھی بیان کرتے جاتے ہیں ۔یعنی کون سا رستہ ؟،نعتِ محمدؐ والا رستہ ؛سینوں بیچ بنایا رستہ ؛شب زاروں میں دمکا رستہ ؛سیدھا ،سادہ، سچا رستہ۔ قاری بار بار پڑھتا جاتا ہے ۔بار بار پڑھتا جاتا ہے۔پھر اس پر وہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے جسے اربابِ دل ’’وجد ‘‘ کہتے ہیں اور پھر وجد کے عالم میں قاری اور شاعر دونوں کی زبان پر بے اختیار جاری ہو جاتا ہے۔

اللہ ! اللہ ! ، آقاؐ ! آقاؐ ! کیسی منزل ، کیسا رستہ

اللہ ! اللہ ! ، آقاؐ ! آقاؐ ! واحد منزل ، تنہا رستہ

اللہ ! اللہ ! ، آقاؐ ! آقاؐ اپنی منزل ، اپنا رستہ

اللہ ! اللہ ، آقاؐ! آقاؐ! منزل منزل ، رستہ رستہ

قدم قدم قرباں دل اس ؐ پر جس کے وسیلے پایا رستہ

ذکراً کثیراً،نقشبندی سلسلے کا وصفِ خاص ہے جسے تطہیرِ قلب کے لئے پڑھا جاتا ہے اور اس کا ایک مخصوص ’’ردھم ‘‘ہے۔اہلِ طریقت ایک دائرے میں بیٹھ جاتے ہیں اور ذکر کا آغاز آہستہ ردھم سے ہوتا ہے ۔پھر تیز اور پھر تیز تر۔ یہ سلسلہ کچھ دیر تک جاری رہتا ہے ۔اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ’’ اللہ ہُو‘‘ کی ضرب براہِ راست دل پر پڑ رہی ہے۔۔علائقِ دنیا موقوف ہوگئے ہیں ۔دل،ذکر ختم ہو جانے کے بعد بھی ’’اللہ ہُو‘‘ کی آواز کچھ دیر تک سنتا رہتا ہے۔جس سے تطہیرِقلب کا سامان ہو جاتا ہے اور سوچ کی راہیں کھل جاتی ہیں۔

مذکورہ اشعار بھی اگر اسی اہتمام سے پڑھے جائیں تو کیا عجب خیر کی کتنی راہیں کھل جائیں۔ان اشعار کا ردھم ہی کچھ ایسا ہے کہ بے اختیار انہیں دائرے میں بیٹھ کر پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔بس یوں سمجھ لیجئے کہ عالی کی فکر کا بہاؤ قاری کو براہِ راست تطہیرِ قلب کی دعوت دے رہا ہے۔

اس مناجات کی سادگی میں بہت پُرکاری ہے۔عالی ہوش سے نعت کہنے والے شاعر ہیں۔آدابِ رسالت ہمہ وقت پیشِ نظر رہتے ہیں۔قدم قدم پر یہ احتیاط دامن گیر رہتی ہے کہ بارگاہِ رسالتؐ میں استدعا کے لئے شایانِ شان الفاظ کا انتخاب کیا جائے ۔شکوہِ الفاظ کی بجائے آسان اسلوبِ اظہار اختیار کیا جائے۔عجز و انکسار کو شعار بنایا جائے ،شکوہ ،الفاط کا ہو یا لباس کا ،دونوں کا مقصد اپنے ممدوح یا مخاطب کو متاثر یا مسحور کرنا بھی ہوتا ہے ۔لیکن عالی خالق و مالک کے دربار میں اس راستے پر چلنے کی توفیق مانگ رہا ہے جو رسالت مآبؐ کا راستہ ہے۔اورساتھ ہی یہ التجا کر رہا ہے کہ:

دُھول رہوں اُسؐ کے قدموں کی اور ہے باقی جتنا رستہ

جلیل عالی کے ہاں اظہار اور دعائے مدعا میں کوئی فرق نہیں ہے ۔صدق و صفا کے مسلک میں تو بس رضائے خالق و پیغمبرِ خالق ہی حاصلِ مدعا سمجھی جاتی ہے ۔محسوس ہوتا ہے کہ عالی کی فکر اور نعت دونوں اُسوۂ حسنہ سے بہ حسن و خوبی استفادہ رکھتے ہیں ۔زیرِ نظر مناجات میں وہ سب کچھ ہے جو ایک مقام آشنا کے کلام میں ہونا چاہئے۔سوز و گداز اور حزم و احتیاط نے عالی کے نظریۂ فن کو بہت نکھار بخشا ہے ۔جس رہبرِ عقل و ہوش اور مرسلِؐ حق نیوش کی راہ پر چلنے کی انہوں نے تمنا کی ہے ،خالقِ ارض و سما نے وہ پوری کر دی ہے۔الحمد لللہ!


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت | نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25