حافظ مظہرالدین جدید اُردو نعت کا پیش رو ۔ امین راحت چغتائی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg

امضمون نگار: امین راحت چغتائی

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Hafiz Mazharuddin's devotional (Naatia) poetry has been discussed in the article place hereunder. Since devotional poetry is of public attraction poetry, its evaluation is done by two different angles [1]Poetry possessing general appeal, and [2] Poetry containing literary values. The 2nd kind of poetry is always much applauded by literary critics. Hafiz Mazharuddin's devotional poetry contains high literary values and therefore has been evaluated in depth in this article. The uniqueness of devotional poetry, exposing its merits of beauty of expression and quality of using appropriate words is highlighted in order to introduce rich poetry of Hafiz Sahib.

حافظ مظہرالدین جدید اُردو نعت کا پیش رو[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

وہ بڑی سعادتوں کاعہد تھاجس میں حافظ مظہر الدین ؒ ( ۱۹۱۷ء۔۱۹۸۱ء) زندہ تھے اورنعت گوئی سے اردوادب میں ایک خاموش انقلاب برپاکررہے تھے۔ اُن کااُسلوب ،غیر روائتی،منفرد اور تازہ ہواکے جھونکے کی طرح تھا۔ اُن کی نعت میں لطافت آفرینی ،نادرہ کاری اور مرصع کاری کے سبھی اوصاف تھے ۔کوئی شعر، کوئی ترکیب اورکوئی خیال ایسانہ تھا جوآدابِ رسالت یاتقاضائے توحید سے مُعَارِض ہو۔اورہوتا بھی کیسے حافظ صاحب نے ساری عمر عشقِ رسولV میں بسرکی تھی۔ مقام آشناو حق آگاہ شاعر تھے۔ میں اُن کے مجموعہ ہائے نعت ،تجلیات ،جلوہ گاہ اور بابِ جبریل کی بیشتر نعتوں کا پہلا سامع تھا۔ میرا،اُن کاساتھ تیس برس رہا۔ ساری نشست کاایک غیر تحریر شدہ معاہدہ یہ تھاکہ اِس میں بہ استثنائے مجبوری کوئی تیسرا شخص مداخلت نہ کرے۔ معاہدے کی بالعموم اِس قدر پابندی کی جاتی کہ حافظ صاحب مجھے اپنی نشست گاہ میں داخل ہوتادیکھتے ہی اپنے ارادت مندوں تک کو فوراً رخصت کردیتے۔ اورپھرہم ’’مقاماتِ حریری سے مقاماتِ آہ وفغاں‘‘تک سبھی امور پربڑے اطمینان سے گھنٹوں گفتگو کرتے۔ تازہ کلام ،بالالتزام سنایا جاتا۔ حافظ صاحب پر نعت سناتے وقت رقت طاری ہوجاتی اوراِس قدر آنسو بہتے کہ اُن کی ریش بھیک جاتی۔ تخلیے میں گفتگو کاایک جواز یہ بھی تھا کہ ہم یادِ سرکار V میں دل کھول کر روسکیں۔

میں نے اپنی ۸۷ سالہ زندگی میں دوشاعر ایسے دیکھے جواپنی نظم اور نعت سے غزلیہ مشاعروں کو اُلٹ دیا کرتے تھے۔ اِن میں سے ایک تو مشہور نظم گو پروفیسر شورعلیگ تھے اور دوسرے نعت کے سرخیل ، حافظ مظہر الدین۔حافظ صاحب نے مشاعروں میں ہمیشہ نعت یانظم پڑھی، اور بڑے ثقہ ادباو شعراء سے خراجِ تحسین وصول کیا۔ جاذبِ نظر خدوخال ،نشیلی آنکھیں، گھٹے ہوئے جسم پر شیروانی ڈاٹے، سیاہ جناح کیپ زیبِ سر کئے، جب مشاعرے میں مائیک پرآتے تواُن کی پُر کشش شخصیت اور پاٹ دارآواز سامعین پر چھا جاتی اور پھروہ جس شعر کے جس لفظ یاترکیب پر جس طرح چاہتے داد پاتے۔ اب بھی غزل کے مشاعرے میں نعت پڑھنا کوئی آسان کام نہیں، پچاس یاساٹھ کی دہائی میں تو فی الواقع یہ بہت دشوار تھا۔ مگر حافظ صاحب کی مشکل پسند طبیعت ایسے ہی کاموں سے آسودہ ہوتی تھی۔

حافظ صاحب نے نعت کوادبِ عالیہ کاجزوبنادیاتھا ۔نعت اپنے تمامتر روحانی کیف ومستی کے ساتھ، ادب کے اُس مقام پر نظر آتی تھی، جہاں بڑے سے بڑا ادیب بھی سر دُھنتا تھا۔داد دیتا تھا اور کلام کو ہاتھوں ہاتھ لیتا تھا۔ حافظ صاحب شعر کیاکہتے تھے ،الفاظ کے نگینے جڑجاتے تھے ۔مرصع کاری کا فن قدرت کی عطاتھی۔ مترنم بحروں کاانتخاب،شعری نغمگی، فکرکی بلندی ومعنیٰ آفرینی ،اپنے پیرومرشد خواجہ سراج الحقؒ کے فیضانِ نظر اور والدماجد مولانا نور الدینؒ کی آغوشِ تربیت کا نتیجہ تھی۔ والد ماجد کے ارادت مندوں میں مولانا مرتضیٰ خاں میکش،حفیظ جالندھری ،مولانا عبدالمجید سالک ، حاجی لق لق، صوفی غلام مصطفی تبسم اَور ساحر صدیقی ایسی نابغۂ روزگار شخصیتیں شامل تھیں۔اِن کی صحبتوں میں حسنِ ذوق وحسنِ شعر نکھر نکھر گیا ہوگا۔ایک سیلانی بزرگ صوفی عبدالرزاق رامپوری بھی اجمیر شریف کی روح پرور فضاؤں کے پروردہ، ست کوہا،ضلع گوردا س پور میں والد کے آستانے سے آلگے تھے۔ صرف ونحو اَور فنِ عروض کے ماہر تھے۔ امیرمینائی ؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔ خود شعر نہیں کہتے تھے۔شعر کے زرگر تھے۔ اُن کی زرگری بھی حافظ صاحب کے کام آئی۔ حافظ صاحب نے کسی زمانے میں اپنے کوائف لکھنے کی ٹھانی تھی۔لیکن ایک صفحہ لکھ کر طبیعت اُچاٹ ہوگئی ہوگی۔ ارادہ ترک کردیا یہی ایک صفحہ اُن کے صاحبزادگان کے ہاتھ لگا جس سے مذکورہصدرمعلومات حاصل ہوئیں۔

حافظ مظہر الدین، سلسلۂ چشتیہ صابر یہ کے وابستگان اَور خلفامیں سے تھے۔ جیسا کہ اُ ن کی ایک منقبت کے آخری مصرع سے بھی ظاہر ہے کہ ’’دل ہَے صابرؒ پہ فدا،جان ہَے قربانِ فریدؒ ‘‘۔

لیکن پیر جماعت علی شاہؒ کے مدرسۂ نقشبندیہ اَور مشہور دینی درسگاہ دیوبند کے بھی فیض یافتہ تھے۔ اَور یہیں حضرت سیماب اکبرآبادی کے زمرۂ تلامذہ میں داخل ہوئے۔ اَور تازندگی اپنے استاد کاذکر بڑی محبت سے کرتے رہے۔

حافظ صاحب کی دلکش شخصیت بڑی پہلودارتھی۔ اُنھوں نے قرآنِ کریم ،پٹیالہ کے ایک متمول تاجر خاندان کی حافظۂ قرآن خاتون سے حفظ کیا۔یہ خاندان اُن کے والد کے ارادت مندوں میں سے تھا۔ مگردرسِ نظامی کی تکمیل حزب الاحناف ،لاہور سے کی۔اُن کی روحانی و ادبی تربیت میں سب سے زیادہ دخل ،اُن کے اپنے میلانِ طبع کاتھا۔ طبیعت میں جلال وجمال کابڑا دلچسپ امتزاج رکھتے تھے۔بذلہ سنج تھے۔ جلوت میں جانِ محفل بننا جانتے تھے ۔اور ؂

’’اللہ رے اُس نگاہ کی معجز نمائیاں

ہراک کوتھا گماں کہ مخاطب ہمیں رہے‘‘

کااطلاق اُن پر بھی کیاجاسکتا تھا۔

ادبی نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حافظ صاحب کی نعت میں جوادبی چاشنی تھی وہ آہستہ آہستہ ہمارے شعری ادب کے مزاج میں رچتی گئی اور پھر وہ مرحلہ آگیاجب ہمارے عصری ادب کے ایک بڑے ادبی مجلّے ’’ستون‘‘ میں نعت کی باقاعدہ اشاعت ہونے لگی اور ہمارے سبھی بڑے شعرا بطورِ خاص نعت کہنے لگے۔ میں خود اِسی تحریک کے ریلے میں نعت کی طر ف آیا۔ جس طرح نعت کوادبی رنگ دینے کی سعادت حافظ مظہرالدین کے حصے میں آئی، اُسی طرح نعت کوادبی مقام دینے کااعزاز جناب احمد ندیم قاسمی کوحاصل ہوا۔ اورانھوں نے خودبھی پورے انہماک سے نعت کہی۔ اِس کے بعد دیگر ممتاز ادبی رسائل نے بھی نعت کے ادبی مقام کااعتراف کیا۔مگراِس بات کااقرار لازم ہے کہ یہ حافظ مظہرالدین ؒ کے اسلوبِ بیان کاحسن ہے جس سے آج کی ادبی نعت ضوریر ہے۔

حافظ صاحب کی نعت کے محاسن پرابھی بہت کم لکھاگیا ہے ۔ وہ شانِ الوہیت اورشانِ رسالت کے بیان میں حفظِ مراتب سے بخوبی آگاہ تھے۔ عام طور پر دیکھاگیا ہے کہ جوشعرا توحید ورسالت کے بیان میں محتاط ہوتے ہیں وُہ شعر کے جمالیاتی پہلوکو بسااوقات نظر انداز کرجاتے ہیں۔ لیکن حافظ مظہرالدین کاجمالیاتی ذوق ،اُن کے شعور کے پہلو بہ پہلو سفر کرتا ہے۔ اور جہاں ضرورت محسوس ہوتی ہے ،فوراً کمک کو پہنچتا ہے ۔اورشعر اپنے منصبِ جمال پر پوری طرح جلوہ افروز نظر آتا ہے۔حافظ صاحب کا نعتیہ کلام ،بنیادی طورپر جمالیاتی شاعری سے متصف ہے۔ میں اُنھیں شاعرِ جمال سمجھنے میں کبھی متذبدب نہیں ہوا۔اُن کی نعت کایہ اتنا بڑاوصف ہے کہ اِس پر ایک مضمون باندھا جاسکتا ہے ۔اوریہ وُہ خصوصیت ہے جواُنھیں معاصر نعت گوشعرا سے ممتاز کرتی ہے۔

یوں توظاہر ہے کہ نعت،عشقِ رسولV سے ہی عبارت ہے۔ مگرحافظ صاحب کے ہاں یہ عشق ،رقصاں نظر آتاہے۔ صوفیاء کے نزدیک عشق اور رقص، سرمستی کی ارفع ترین کیفیت کانام ہے۔ یہ انوکھی کیفیت ہے جس کااظہار ازخود ہوتا ہے۔انسان اِس پر قدرت نہیں رکھتا ۔اگریہ کیفیت کسی ضابطے کی پابند ہوتی توعشق یارقص کہلاتی ہی کیوں ۔مگردیکھیے کہ یہ دیوانہ بکارِ خویش کتنا ہوشیار ہے کہ عشق بھی کرتا ہے ۔ رقص بھی کرتا ہے ۔کیف وسرمستی کااظہار بھی کرتا ہے اور دامن کوبھی تارتار ہونے سے بچائے رکھتا ہے کہ وُہ جس شاہوں کے شاہ دربار میں حاضری کی تمنّا رکھتا ہے وُہ شارع علیہ السلام کا دربار بھی ہے۔ مثال کے طور پر حافظ صاحب کایہ شعر پڑھیے اور دیوانے کی ہوشیاری کی داد دیجیے ؂

آرزو ہَے کہ جب جاں ہوتن سے جدا، سامنے روئے زیبائے سرکارؐ ہو

میرا ہر لمحہ ہو مستیوں کا امیں، میرا ظلمت کدہ نورالانوار ہو

حافظ صاحب کی نعت میں عشق اوررقص کوبہت دخل ہے۔ نعت کہتے وقت اُن پر جوکیفیت طاری ہوتی تھی، اُس کا میں عینی شاہدہوں۔ ایسے لمحوں میں میرا درآنامیری خصوصی مراعات میں سے تھا۔وُہ نعت کہتے وقت اپنی نشست گاہ میں ایک مخصوص آرام کرسی پر بیٹھے تھے۔ سامنے ایک لمبی تپائی پر اُن کاایک پیڈ،قلم ، پنسل ،ربر،بلیڈ،گوند کی شیشی، کاپی، ایک شیشے کاگول پیپر ویٹ اور چند دیگر متعلقہ اشیاء بڑے قرینے سے سجی ہوتی تھیں۔ ناشتے کے بعد حقے کے جلو میں نشست گاہ میں وارد ہوتے۔ کچھ دیر استغراق کے عالم میں رہتے۔مصرعِ طرح صبح اُٹھتے ہی دماغ میں گھومنے لگتا تھا۔ بحر، قافیہ ردیف ، کاانتخاب بسترِ خواب پرہی ہوچکا ہوتاتھا۔حقے کی نَے سے جلدی جلدی چھوٹے چھوٹے کش لگاتے ۔سررقص میں آتا اور گنگناہٹ کے ساتھ اشعار کانزول شروع ہوجاتا ؂

رقص کرتے ہوئے سامانِ سفر باندھا تھا

وجد کرتے ہوئے سرکار تک آ پہنچے ہیں

بعض اوقات قلبی کیفیت سے بے قابو ہوجاتے توگنگناتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں سے تپائی پرتھاپ بھی دیتے۔سربدستور جھومتا رہتا اورآنکھیں وضو میں مصروف ہوجاتیں ؂

بے وضو عشق کے مذہب میں عبادت ہے حرام

خوب رولیتا ہوں خواجہ کی ثنا سے پہلے

جب ’’مشتاقی وعبوری ازحد گزشت یارا‘‘ کی کیفیت طاری ہوتی، طبیعت مچلتی تو پھردونوں بازو دیوانہ وار اوپر اُٹھا کرحق حق کانعرہ لگاتے۔ یہ دراصل اندرونی کرب کے اخراج کاایک انداز ہوتا۔ چڑھی ہوئی آنکھیں معمول کی حالت پرآجاتیں۔آنسو تھم جاتے۔رقص بند ہوجاتا ۔چہرے پر طمانیت کی لہرسی دوڑ جاتی۔ کرسی کی ہتھی پر پڑے’’پرنے ‘‘ سے آنسو پونچھتے اوراپنے قدیم وضع کے موٹے سے نارنجی رنگ کے فونٹین پن سے پیڈ کے ایک ورق پر نعت لکھنے میں مصروف ہوجاتے۔ حافظ صاحب نے بجاہی توکہا تھا ؂

اُن ؐ کا فیضانِ نظر ہَے، اُنؐ کا فیضانِ جمال

یہ جو کیف و رنگ کا عالم مری محفل میں ہَے

ادبی سطح پر دیکھا جائے توحافظ صاحب کی نعت، اکابر شعرا کے کلام کے ہم پلہ دکھائی دیتی ہے۔ الفاظ وتراکیب کاانتخاب ایسا کہ کہیں مترادف ہم وزن لفظ رکھ کردیکھیں ، مفہوم بدل جائے گا۔حشو و زوائید سے پاک، سرمستی سے سرشار رواں دواں شعر ۔احتیاط اور سرمستی ،دونوں متضاد عوامل ۔ مگر حافظ صاحب کے ہاں پہنچ کر، دلآویر امتزاج کے مظہر ۔فارسی زبان میں ایک لفظ ’’نفس ربا‘‘ ہے، جس کامعنٰی ہے وُہ کلام جس کا پڑھنا ،زبان پرسہل ہو، دشوار نہ ہو۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ترکیب ،حافظ صاحب کی نعت ہی کے لیے تراشی گئی تھی۔ وُہ بڑی عظمتوں والے شاعر تھے۔ اُن کاکلام کہیں سے پڑھیے ۔شعرمیں کہیں جھول محسوس نہیں ہوگا۔ آنحضور V کے حسن وجمال کی کیفیت سے سرشار کلام، اہلِ دل اور اہلِ نظر دونوں کوسیراب کرتا ہے۔ یہ مقاماتِ سیرت اور مکارمِ اخلاق کاترجمان بھی ہے۔ اور روحِ عصرکے تقاضوں کاپیش رو بھی۔ یہ باطنی ارادت بھی رکھتا ہے اور فکر کی لطافت بھی۔ یہ انفغال نہیں، فعال ہے ؂

میں اب بھی نغمہ بلب، سایۂ کرم میں ہوں

میں کل بھی نغمہ بلب، سایۂ کرم میں تھا

حافظ صاحب ،کثیر الکلام اور قادرالکلام شاعرتھے۔اُن کی دوکتابیں شمشیروسناں اور حرب وضرب قومی نظموں یعنی حرکت وعمل کے پیغام پرمشتمل مجموعہ ہائے کلام ہیں ۔تجلیات (۱۹۶۹ء) ،جلوہ گاہ(۱۹۷۵ء) ،بابِ جبریل (۱۹۷۸ء) اور میزاب نعتیہ کلام کے مجموعے ہیں۔ نثرمیں وادئ نیل، جرجی زیدان کے عربی ناول کاترجمہ ہے۔ نشانِ راہ کی دو جلدیں دینی افکار ومسائل سے تعلق رکھتی ہیں۔ ’’نورو نار‘‘ حافظ صاحب کاغیر مطبوعہ متصوفانہ غزلیہ کلام ہے۔ روزنامہ تعمیر ،راولپنڈی اور روزنامہ کوہستان/ راولپنڈی /لاہور /ملتان میں لکھے گئے فکاہیہ کالم ’’پھول اور کانٹے‘‘اور نشیب وفراز ابھی تدوین وتالیف کے منتظر ہیں۔ مگرحافظ صاحب کااصل میدان، نعت ہے ۔جو ساری دانش گاہوں میں تحقیق و تحریر کی سطح پراعتنا چاہتی ہے۔

مختصر یہ کہ حافظ صاحب اُس نعت گو قبیلے کے گلِ سرسبد تھے جس کی فکر ی وعملی تربیت خالص علمی، دینی ورادبی فضا میں ہوئی تھی۔اور جوقال اللہ وقال الرسول ؐ کے تقاضوں کوحرزِ جاں بنائے رہا۔ اور جس کے نزدیک سودوزیاں مہمل الفاظ سمجھے جاتے تھے ؂

عشق میں لٹ کے سربسر شاد تھے سارے دیدہ ور

مال و منال کا زیاں ، اُن کے لیے زیاں نہ تھا

دراصل حافظ صاحب کی شاعری کے دوادوار ہیں۔ایک دورر جزیہ شاعری یاقوی نظموں سے تعلق رکھتا ہے اوردوسرا نعتیہ شاعری سے۔ رجزیہ شاعری، قیامِ پاکستان اور کشمیر کی تحریکِ حریت کااحاطہ کرتی ہے۔ رجزیہ شاعری چوں کہ شکوہِ الفاظ ،ولولہ انگیزی جذباتی آہنگ اور تلمیحات سے عبارت ہے ،لہٰذا حافظ صاحب کے ہاں یہ تمام اجزائے شاعری بھرپور انداز میں موجود ہیں۔ اوراثر آفرینی کے تمام تقاضوں کوپورا کرتے ہیں۔جن دورجزیہ نظموں کے مجموعوں کاذکر مذکورہ بالاسطور میں ہوا وہ بالترتیب ۱۹۵۰ء اور ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئے تھے۔اِن مجموعوں میں حافظ صاحب کی رجائیت نے جواسلوبِ اظہار اپنایا ہے وہ اُن کے محکم ایمان اور پاکستان سے نظریاتی وجذباتی وابستگی کا بین ثبوت ہے۔ قرآنی تلمیحات کوپاکستان کے پس منظر میں جس مؤثر انداز میں اُنھوں نے استعمال کیاہے وُہ ان کے ایقان ،فکری آسودگی اورشعری احتیاط کاغماز ہے۔ اُنھوں نے شعرکو شعر کے مقام سے گرنے نہیں دیا ۔نیز صحافت اورشاعری میں جوحدِ فاصل موجود ہے اُسے عبور کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ نتیجتاً اُن کی رجزیہ شاعری بھی اُن کی شعری عظمتوں کواُسی طرح اُجاگر کرتی ہے جس طرح اُن کی نعتیہ شاعری۔ مثلاً ۱۹۴۷ء کی ہجرت کے دوران پاکستان کی سرزمین پرقدم رکھتے ہوئے اُنھوں نے سب سے پہلے جونظم کہی اُس کاابتدائیہ یہ تھا:

جہانِ نومیں جذباتِ فراواں لے کے آیاہوں

میں قطرہ ہوں ،مگردامن میں طوفاں لے کے آیا ہوں

حذر اے کفر کے طوفاں ،قسم ہے زورِ حیدر کی

ترے مدِ مقابل جوشِ ایماں لے کے آیا ہوں

بہرحال ذکر ہورہاتھا ۔حافظ صاحب کی نعت کاجووُہ اپنے عہدِ شباب سے ہی کہتے چلے آرہے تھے ۔لیکن قیامِ پاکستان کے بعد اُنھوں نے نعت کو بھی ایک ایسا رنگ وآہنگ دیا جوبعد میںآنے والوں کے لیے ایک نیا معیار بن گیا۔ حافظ صاحب نے نعت کواُس کے روایتی سانچوں سے نکال کر جدید عہد کے تقاضوں کے مطابق فکر ومعنیٰ کونئی وسعتیں عطا کیں اورسب سے بڑھ کریہ کہ اُنھو ں نے عشقِ رسولؐ کے آداب سکھائے۔ یہ ایسا نازک مقام ہے۔ جہاں عشقِ رسولؐ کو اطاعتِ رسولؐ نہ سمجھنے والے شاعر کے لیے الجھاؤ کے امکانات ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔ حافظ صاحب نعت کوبھی ’’مواحد‘‘ سمجھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک تمام اصنافِ سخن میں سے نعت توحید پسند ہے۔ تمام ضمائر کامرجع ایک ہی ذات ہے اور اِس ذاتِ واحد کامقام۔

عبدویگر، عبدہٗ چیزے دگر

ماسرا پا انتظار، او منتظر

اوریہ التجا بھی اِسی مقام کے پیشِ نظرکی گئی ہے کہ

مکن رسوا، حضورِ خواجہؐ ،مارا

حسابِ من، ز چشمِ او نہاں گیر

دوسری بات جواُنھیں دیگر نعت گوشعرا سے ممتاز کرتی ہے وُہ نعتیہ شاعری میں اُن کانظر یاتی رویہ ہے۔ عام نعت گوشعرا صفات کے ذاکر ہیں جبکہ حافظ صاحب کاموضوع ،حضور ختمی مرتبت V کی ذات ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ صوفیا کے نزدیک صفات کاذاکر مسافر ہے،صاحبِ منزل نہیں۔ صفات جادہ ہے اور ذات منزل ہے اوریہ بات توطے ہے کہ صاحبِ منزل ،منزل کی بات کرتا ہے اور مسافر راہ کی جستجو کرتا ہے کیوں کہ صفات کامقصود ذات ہے۔ خوشبو پھیلتی ہے تو اُس کامقصد پھول تک لے جانا ہوتا ہے ۔روشنی کے انوار پروانے کی راہ بنتے ہیں اور یہ راہ اُنھیں شمع تک لے جاتی ہے۔ لیکن حافظ صاحب کی نعت ،منزل آشنا ہے۔ مثال کے طور پر اُن کی نعتیہ نظم ’’معراج ‘‘ دیکھیے ؂

کوئی جز سرورِؐ دیں، عرشِ بریں تک پہنچا

کس نے قصرِ شہِ لالوک کازینہ دیکھا

یہاں عرش کوزینہ قرار دیاگیا ہے کیوں کہ عرش ،معراج کاجادہ ہے،منزل نہیں۔عرش کے لیے ’’زینے‘‘کی تشبیہہ ،اِس تناظر میں اِس سے پہلے کسی نعت گوشاعر نے استعمال نہیں کی(لفظ ’’لولاک ‘‘ کی بحث’’ مشکلاتِ نعت ‘‘والے مضمون میں گزرچکی ہے )۔ اورجہاں تک آدابِ عشق کاتعلق ہے ، اِس کے تقاضے تو اُنھوں نے ’’تجلّیات ‘‘ میں ہی بیان کردئیے تھے ؂

نام لے باوضو مدینے کا بات کرباوضو مدینے کی

آکہ تکمیلِ جذب وشوق کریں آکریں گفتگو مدینے کی

یاپھر اِن اشعار پرغور کیجیے:

حضورؐ! ایک نظر ،اِک نگاہِ بندہ نواز

حضورؐ! ایک نظر،اِک نگاہ بھی ہے بہت

مقربین کاحصہ ہے منزلِ محبوب

مرے لیے تومدینے کی راہ بھی ہَے بہت

اِسی کیفیت کے کچھ اوراشعار دیکھیے:

وارفتگی میں شوقِ زیارت توہے مگر

شائستۂ جمال ہے میری نظرکہاں

بے وضو عشق کے مذہب میں عبادت ہے حرام

خوب رولیتا ہوں خواجہؐ کی ثنا سے پہلے

آج مظہر سے سرِ راہ ملاقات ہوئی

آج ہم نے بھی سگِ کوئے مدینہ دیکھا

جویہ کہیں کہ فقر کی شان میں دلکشی کہاں

اُن کو درِ رسولؐ کا مجھ سا گدا دکھا کہ یوں

حافظ صاحب کی نعت عجیب کیفیات کی حامل ہے۔ اُن کے ہاں احترام وآداب کاتقاضایہ ہے کہ حضور رحمت للعٰلمینؐ کے قرب کی خواہش کرنے کی بجائے اُن ؐ کی خاکِ کفِ پاکے وصل کی آرزو کی جائے اورحضور ؐ کے روضۂ اقدس کی جالی کو چومنے کی بجائے اُنؐ کی دہلیز کی خاک کوسرمۂ چشم بنایا جائے اورحرمِ نبیV کے سایۂ دیوار کواپنی سب سے بڑی سعادت سمجھاجائے ۔یاپھر دعائیہ نعت وُہ اِس جذب وکیف سے کہتے تھے کہ اُسے سننے یاپڑھنے پر بھی وجد طاری ہوجاتا تھا۔ ایسی ہی اُن کی ایک نعت آج سے کم وبیش چالیس سال پہلے جہاں بھی پڑھی جاتی تھی،محفل کوالٹ دیتی تھی۔اُس کے دو شعر آپ بھی پڑھ لیجیے۔

اِدھر بھی کوئی ابرِ رحمت کا چھینٹا، اِدھر بھی نظر بے سہاروں کے والی

نگاہوں میں ہے تیری بخشش کا عالم، کھڑے ہیں ترے در پہ تیرے سوالی

ہمیں پھر عطا ہو جلالِ ابوذرؓ، ہمیں پھر عنایت ہو شانِ بلالی

دمکتے رہیں تیرے گنبد کے جلوے، سلامت رہے تیرے روضے کی جالی

حافظ صاحب کورقصاں بحریں اور زمینیں منتخب کرنے میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ اُن کی نعت میں جذبات کاایسا شائستہ دوارفتہ اظہار ہوتاتھا کہ صاحبِ حال قاری رقصِ بسمل کامنظر دہرانے لگتاتھا ۔اِس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:

کب مرا دل تھا بے حضور ،کب مری آنکھ ترنہ تھی

بندہ نوازؐ کی نظر کب مرے مال پر نہ تھی

تیرے فیضانِ محبت ،ترے اکرام کے بعد

اوراللہ سے کیامانگوں ،اِس انعام کے بعد

دشتِ غم میں بھی تری یاد مرے ساتھ رہی

عشق تنہا تھامگر بے سروسامان نہ تھا

تھم اے بیتابئ شَوقِ فراواں ،کچھ سنبھلنے دے

ٹھہراے دل کہ وقتِ مدحتِ خیرالانامؐ آیا

ترانور صبحِ ازل کی ضَو،ترا نورشامِ ابدکی لَو

ترانور جلوۂ صبح بھی،ترانور جلوۂ شام بھی

اِسی آرزو میں مری عمر گزری، اِسی آس میں مَیں نے دن ہَیں گزارے

سکوں ریز ہوں گی مدینے کی گلیاں ، مزادیں گے طیبہ کے رنگیں نظارے

غزل کی ہےئت میں نعت کہنے میں دِقت یہ ہے کہ آدابِ نعت پیشِ نظر نہیں رہتے،غزل کے مضامین درآتے ہیں۔یاپھر نعت گوئی کے ریلے میں بہتے ہوئے ایسے اشعار نوکِ قلم پرآجاتے ہیں جنھیں پڑھنے سے فوراً احساس ہوتاہے کہ شاعر کاذوق شائستہ جمال نہیں۔ اگر نعت گوشعرا عشقِ رسولؐ کو کیف ومستی سے تعبیر کرنے کی بجائے اطاعتِ رسولؐ پر محمول کریں تو مقتضیاتِ نعت بھی پیشِ نظر رہیں گے اورشاعر بھی شائستۂ دربار رہے گا ۔حافظ صاحب کے ہاں اِن دونوں تقاضوں کااحساس بدرجۂ اتم موجود ہے۔ اُن کی نعت میں آپ کبھی غزل کارنگ نہیں دیکھیں گے۔ان کے الفاظ کاانتخاب ہی ایسا ہے کہ انھیں غزل کامزاج دیاہی نہیں جاسکتا ۔اورجہاں تک نعت کی شائستگی کاتعلق ہے وہ توکوئی اُن سے سیکھے ۔مگر یہ بھی ،دراصل، رسولV کے گھرانے کاہی فیضان ہے جس کے باعث حافظ صاحب کی نعت سرخرو نظرآتی ہے۔ دیکھیے! اِس گھرانے کی نعت کارنگ کیاتھا۔ خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراؓ ایک نعتیہ مرثیے میں فرماتی ہیں (ترجمہ) :

’’جس نے ایک مرتبہ بھی حضورV کے پاؤں کی خاک سونگھ لی، تعجب کیاہے کہ اگر وُہ ساری عمر کوئی اورخوشبو نہ سونگھے ۔‘‘

اورحضرت امام زین العابدینؒ کے نعتیہ مرثیے کایہ شعر دیکھیے (ترجمہ) ’’اے بادصبا! اگرتیرا گزر سرزمینِ حرم تک ہوتو میراسلام اُس روضہ کو پہنچا جس میں نب�ئ محترم V تشریف فرماہیں۔‘‘

دونوں برگزیدہ ہستیوں کے نعتیہ کلام میں جذبات کے اظہار میں جو احتیاط برتی گئی ہے ،وہی ہمارے لیے معیار کادرجہ رکھتی ہے۔ فخرِ موجودات ،حضور ختمی مرتبت ؐ ،خاتونِ جنتؓ کے لیے ایک مشفق باپ کی حیثیت بھی رکھتے تھے۔ ایسی صورت میں اگروہ اپنی وارفتگی کااظہار اِس سے بھی زیادہ گہرے جذبات کے ذریعے کرتیں توحق بجانب ہوتیں لیکن اُنھوں نے رخسار وگیسو یاکملی کاذکر کرنے کی بجائے آنحضور V کی خاکِ کف پاکی خوشبو کے حوالے سے اپنی محبت کااظہار کیا۔ اِس لیے کہ حضورؐ اپنی بیٹیؓ کے لیے باپ ہی نہیں امام الانبیاء V بھی تھے۔ اِسی طرح حضرت امام زین العابدینؒ نے یہ کہیں نہیں کہاکہ اگروہاں سے اذنِ حضوری ملاتو میں جاکر روضۂ اطہر کاطواف کرتے ہوئے ،جالیوں کو چوم چوم کر سلام پیش کروں گا۔ اُنھوں نے یہ بھی کہیں نہیں کہاکہ حضورؐ ! مجھے اپنے بازوؤں میں لے لیجیے ،میری تلاش میں سارے زمانے کی گردشیں ہیں۔ اِس لیے کہ جس گھرانے میں عشق کامفہوم بارگاہِ حق میں سرکانذرانہ پیش کرناہو،وُہ عشق کو سراپا اطاعت کے سِوا اور کچھ سمجھ ہی نہیں سکتا۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے مقام آشنا بزرگ شعرانے جب بھی نعت کہی ،حضور اکرمV کی خاکِ کفِ پاکو چومنے کی آرزو کی اورسگِ کوئے مدینہ بننے کی دعامانگی۔بلکہ اِن شعرا کی خوشی کاتو اُس وقت کوئی ٹھکانا ہی نہیں ہوتا جب تاجدارِ مدینہV کے کوچے کاکوئی کتّا اُن کادامن کھینچتا ہے اور کھینچ کراُس جانب لے جاتا ہے جس جانب دل کھینچا جاتا ہے لیکن اِسے بھی سوءِ ادب سمجھ کر ہمت نہیں پڑتی۔ بعض اوقات عجزوانکسار کایہ عالم ہوتاہے کہ اُس کوچے کے کتّے سے بھی اپنے احوال کہنے کی جرأت نہیں ہوتی اورانجامِ کار شاعراپنے آپ کوہی اُس در کا کتّا سمجھ کر احوالِ دل کہہ دیتا ہے۔ عجزو انکسار کی دونوں کیفیتوں کے حامل یہ دواشعار بغور پڑھیے اور دیکھیے کہ نعت گواپنی عاجزی کے کس مقام سے شعر کہتا ہے :

شادم کہ دامنم سگِ کوئے تو میکشد

ہیں شادئ دگر کہ بسوئے تو میکشد

ترجمہ: ’’ میں خوش ہوں کہ میرادامن تیرے کوچے کا کتا کھینچ رہاہے اوریہ امرمزید خوشی کاباعث ہے کہ وہ کھینچ کرتیری ہی طرف لے جارہاہے ۔‘‘

اب مذکورہ بالا دوسری کیفیت کاشعر دیکھیے:

چوں باسگت نتوانم کہ عرضِ حال کنم

بخویش گویم و خود را سگت خیال کنم

ترجمہ: ’’چوں کہ تیرے (کوچے کے) کتّے سے بھی عرضِ حال کہنے کی جرأت نہ ہوسکی، اِ س لیے اپنے آپ کو ہی تیرا کتّا سمجھ کرخود سے اپنا حال کہہ لیا۔‘‘

لیکن نعت میں اِن لطیف احساسات وآداب کوملحوظِ خاطر رکھنے کی سعادت اُنہی شعرا کونصیب ہوتی ہے جو مقام آشنا ہوں اورالحمداللہ حافظ صاحب کا شمار اِسی زمرے میں ہوتا ہے ؂

اُن کے صدقے جنھیں یادِ شہِ ابرار ملی

اُن کے قربان جن آنکھوں نے مدینہ دیکھا

آج مظہر سے سرِ راہ ملاقات ہوئی

آج ہم نے بھی سگِ کوئے مدینہ دیکھا

حافظ صاحب کی نعت میں غزل کارچاؤ اپنی پوری حشرسامانیوں کے ساتھ جلوہ گرہے لیکن اُن کا طرزِ احساس، اُن کاقلم اوراُن کے الفاظ ،اُس V اوجِ ماہ سے اونچا مقام رکھنے والے کی رہگذر بننے کی آرزو سے آگے نہیں بڑھتا ۔جن شعرا نے قیامِ پاکستان کے بعد نعت کے میدان میں قدم رکھا، اُن پر حافظ صاحب کا بہت بڑا احسان ہے کہ اُنھوں نے نعت کے فن کونہ صرف نیا پیرایۂ اظہار دیابلکہ شائستگی کے آداب بھی سکھائے اورسب سے بڑھ کریہ کہ غزل ایسی کافرہ صنفِ سخن کومومن بنادیا:

مَیں خستہ دل کہاں، درِ خیر البشرؐ کہاں!

پہنچی ہے اضطراب میں میری نظر کہاں

رہِ مدینہ میں قدسی بھی ہَیں جبیں فرسا

بہ آرزو ہے مری جاں بھی خاکِ راہ بنے

جو درد سینے میں اُٹھے وہ اُنؐ کی ہو بخشش

جو ٹیس اُٹھے وہ رحمت کا اِک بہانہ ہو

دل تپیدہ ملے، چشمِ اشکبار ملے

حضورؐ! کوئی محبت کی یادگار ملے

اِس میں شک نہیں کہ اردو نعت میں تغزل کاباقاعدہ اہتمام امیرمینائیؒ سے ہوتاہے اور اردو صنفِ نعت پراُن کے احسانات کی فہرست بہت طویل ہے۔پھراپنے عہدسے قریب تر ہوتے ہوئے گردو پیش پر نظر ڈالتے ہیں تو بیدم وارثی ؒ (۱۸۸۲ء تا ۱۹۳۶ء) کی نعت میں رنگِ تغزّل نظرآتا ہے۔ اُن کے کلام میں انفرادیت توہے لیکن بسااوقات اُن کا سوزوگداز نعت پر غزل کارنگ اِ س قدر چڑھا دیتے ہیں کہ نعت اورغزل کے آداب میں خطِ امتیاز کھینچنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اِس لحاظ سے حافظ مظہر الدین ؒ کی نعت سب سے الگ ایک ادیبانہ شان رکھتی ہے۔ اُنھوں نے کسی کا رنگ قبول نہیں کیا۔ اُنھیں کسی کا پیرایۂ اظہار پسند نہیں آیا۔ اُن کے شعری مزاج نے کسی کاجامۂ الفاظ وتراکیب پہننا گوارا نہیں کیا۔ اُن کے شوقِ طلب نے اپنی رہگذر کاتعیّن خود کیا اور پھر اِس شوقِ طلب کی یکسوی کایہ عالم ہے کہ کسی کی رفاقت بھی قبول نہیں کی مبادا انہماک میں فرق آجائے۔ یہی وُہ شعری خصوصیات ہَیں جوکسی شاعرکو انفرادیت عطا کرتی ہیں۔ حافظ صاحب کی نظر ہمیشہ سرکارِ V دوجہاں کی رحمت وبخشش کے گہربار دھارے پررہی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی نعت سے شوق کی سرمدی لذتیں بھی جھلکتی ہیں اور حزم واحتیاط بھی۔اُنھوں نے نعت کواُس مقام پر پہنچادیا جہاں بقول ریاض خیرآبادی ؂

ہمیں خدا کے سوا کچھ نظر نہیں آتا

نکل گئے ہیں بہت دور جستجو کرتے

اوراِس جستجو کوسمجھنے کے لیے مابعد الطبیعاتی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے کہ اِس کی تجسیم ممکن نہیں۔