حدائقِ بخشش کے صنائع بدایع پرایک اورنظر۔ ڈاکٹرصابر سنبھلی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

مقالہ نگار : ڈاکٹر صابر سنبھلی۔بھارت

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

حدائقِ بخشش کے صنائع بدائع پرایک اور نظر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT:

Collection of Naatia Poetry of Aala Hazrat Ahmad Raza Khan Brailvi carries ample examples of stylistic beauty of use of similar formed words of different meanings in order to beautify couplets in literary terms. This article cites some beautified couplets from that collection. Use of words carries similarities of sound and forms of words in the same verse by the poet have been highlighted in this article.

حضرت رضاؔ بریلوی کاشاعرانہ کلام کمیّت کے لحاظ سے بہت سے شاعروں کے کلام سے خاصا کم ہے ،لیکن کیفیت کایہ عالم ہے کہ اس پر بہت کچھ لکھے جانے کے باوجود ابھی مزید بہت کچھ لکھے جانے کی گنجائش ہے ۔

شاعری کافنّی پہلو فکری پہلو کے مقابلے فن کار کی توجہ اپنی جانب زیادہ کھینچتا ہے اور اس کی تفصیل عام قاری کو بھی اچھی لگتی ہے ۔ حضرت رضاؔ بریلوی کی شاعری کے دونوں پہلوؤں پر اگر چہ کافی لکھا جا چکا ہے مگر میراخیال ہے کہ فنّی پہلو پر فکری پہلو کی نسبت کم توجہ دی گئی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اس کلام میں برتی گئی صنائع بدائع پر ہمارے اہل قلم نے خوب خامہ فرسائی فرمائی ہے ۔اس کے باوجود بعض ایسی خوبیاں بیان ہونے سے رہ گئیں ،جو سامنے کی چیز نہیں ہیں ۔ اگر چہ وہ تعداد میں زیادہ نہیں ہیں ۔اس تحریر میں کچھ ایسی ہی خوبیوں کوظاہر کیا جائے گا ۔ ان میں کچھ کو شاید نام بھی نہیں دیے گئے ہیں ۔

پہلے ایک مقطع ملاحظہ فرمائیے

ہے تو رضاؔ نرا ستم جُرم پہ گر لجائیں ہم

کوئی بجائے سوزِ غم ساز طرب بجائے کیوں

خط کشیدہ دونوں لفظ تحریر میں بھی اور تلفظ میں بھی اتنے قریب ہیں کہ اگر عبارت یا مصرع میں نہ ہوں بلکہ الگ الگ ہوں توان کی دوئی کا تصوّر بھی محال ہوگا ۔ہوسکتا ہے کہ کسی ماہرِرسم الخط کوتحریر میں یہ جداگانہ نظر آئیں مگر سامع سے ان کے مفہوم پر غور کیے بغیر دو(۲) لفظ سمجھنے کی امید بہت کم ہے۔ اِس کے باوجود دونوں کے معنی اتنے جداگانہ ہیں کہ اُن میں کوئی ذراسا بھی علاقہ نہیں۔ہمزہ کاہونا یا نہ ہونا (بجائے اور بجائے) ،یا پہلے بجائے کی ’’ب‘‘ کو جدا کرکے لکھنا ( یعنی بہ جائے )کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے دعواے بالا کی تردید ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ یہاں جس صفت کاذکر کیاگیا ہے وہ تحریر سے نہیں بلکہ تلفظ اور سماعت سے متعلق ہے ۔خواہ اُس کا کوئی نام ہو۔

ایک شعر ہے


تیرے بے دام کے بندے ہیں رئیسان عجم

تیرے بے دام کے بندی ہیں ہزارانِ عرب


’’بے دام‘‘ دونوں مصرعوں میں ہے مگر الگ الگ معنی میں ہے ۔پہلے ’’بے دام‘‘کا مطلب ہے بلا قیمت ، یعنی ایسے غلام جوخرید ے نہ گئے ہوں ( ظاہر ہے کہ ایسے غلام بے حد وفادار ہوا کرتے تھے)اور دوسرے بے دام کے معنی ہیں ’’بغیر بندھن والے‘‘ یعنی جن کو باندھ کر نہ رکّھا جاتا ہو۔ظاہر ہے کہ یہ صنعت ہمارے علمِ بلاغت میں بہت پہلے سے ہے اوراس کا استعمال شعرا کرتے آئے ہیں ۔ ایسی حالت میں اس صنعت کے استعمال پر شاعر کی بہت زیادہ تحسین نہیں کی جاسکتی اس لیے کہ اس میں کوئی نئی یاخاص بات نہیں ہے لیکن جوخاص بات ہے وہ قاری کو تب معلوم ہوتی ہے جب وہ دونوں مصرعوں میں بے دام صفت کے ہر دو (۲)موصوف پر غور کرتا ہے ۔ بندے یعنی غلام ہیں تو مفت کے ہیں اور بندی یعنی قیدی ہیں تو بغیر بندھن کے ہیں قیدی ہر وقت قید سے رہائی چاہتا ہے ،موقع ملے تو فرار بھی ہوجاتا ہے ۔ لیکن یہ قیدی ایسے ہیں کہ اِن کو’’دام‘‘ یا ’’ کوٹھری‘‘ میں رکھنے کی ضرورت نہیں۔اس پر مزید لطف یہ ہے کہ ’’بندے‘‘ اور’’بندی‘‘ کے تلفُّظ میں بڑی مماثلث ہے اگر ان دونوں لفظوں کو کوئی جلدی میں بولے اور یاے معروف ویا ے مجہول پر زور نہ دے تو دونوں لفظوں کاالگ لفظ ہونا بھی معلوم نہ ہو لطف بالائے لطف یہ ہے کہ یہ بندی ہزار انِ عرب ہیں ۔جوبے عقل پرندے ہیں اورآزادی کے ساتھ ہواؤں میں اُڑنے کے عادی ہیں ان کو قَفَسْ میں بند رہنا بھلا نہیں لگتا ۔ان سب باتوں پر غور فرمائیے تو معلوم ہوگا کہ یہ شاعری کی کوئی معمولی صنعت نہیں ہے ۔


ایک شعر اور ملاحظہ فرمائیے


مےَ کہاں اور کہاں میں زاہد

یوں بھی تو چھکتے ہیں چھکنے والے


’’مَے ‘‘ اور ’’میں‘‘ دونوں الگ الگ لفظ ہیں مگر تلفُّظ میں اتنے قریب ہیں کہ مغائرت کااحساس بھی نہیں ہوتا ۔ دونوں ایک چھوٹے مصرع میں ہیں جس میں کل چھے ۶ الفاظ ہیں ۔دو( ۲) یہ اور چار(۴) ان کے علاوہ ۔اس سے شعر کا حُسن دوبالا ہوگیا ہے ۔


ایک رباعی کامصرع ثانی ہے


ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ


’’ان سا ‘‘ ایک (۱) باراور ’’انسان ‘‘ دو(۲)بار آیا ہے ۔’’انسان ‘‘ میں ’’ان سا‘‘ سے ’’نون‘‘ زائد ہے ۔مصرع میں ان تینوں لفظوں کے ایک ساتھ آجانے سے صوتی دلکشی پیدا ہوگئی ہے ۔شاید اہل بلاغت نے اس خوبی کوکوئی نام نہیں دیا ہے ۔


حدائق بخشش حصہۂ دوم میں ’’نظم معطّر‘‘ کی ایک رباعی کے دو مصرعے اس طرح ہیں


جاں بخش مرا بپائے عبدالقادر

جا بخش تہِ لِوائے عبدالقادر


پہلے مصرع میں ’’بخش‘‘ سے پہلا حرف نون غنّہ ہے ، نون بالا علان نہیں ۔اگرچہ پیش نظر نسخے میں ’’نون بالا علان ہی طبع ہوا ہے ( یہ سہوکتابت ہے) اب دونوں مصرعوں کے ابتدائی الفاظ کو پڑھ کر دیکھیے۔ تیزی سے پڑھنے اور رواروی میں سُنّے میں دونوں مصرعوں کاآغاز ایک جیسا لگتا ہے ۔ یہ بھی صنعت گری ہی ہے ۔

(vi) بلاغت میں ایک صنعت ہوتی ہے واسع الشفتین۔ اس کی تعریف یہ ہے کہ عبارت یا شعر پڑھیں تو ہونٹ سے ہونٹ نہ ملیں ۔ بحرالفصاحت میں مولانا نجم الغنی خاں نجمی راؔ م پوری نے اس کی مثال میں چھ(۶) شعر لکھے ہیں ۔پہلا شعر محمد امین بنارسی کاہے ۔ وہ اس طرح ہے :


جی سے کہہ دو کہ آہِ سرد کے ساتھ

ٹھنڈے ٹھنڈے چلے تو چل نکلے


بحر الفصاحت میں مولانا نجم الغنی خاں نجمی ؔ کی تفصیل پسندی کایہ عالم دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک ایک صنعت کی مثالوں میں متعدد شاعروں کے چالیس چالیس ،پچاس پچاس شعر نقل کردیتے ہیں اور صفحے کے صفحے سیاہ کرتے چلے جاتے ہیں ۔ مگر اس صنعت کی مثال میں مندرجۂ بالا شعر کے علاوہ انہوں نے پانچ شعر اور نقل کیے ہیں،جن میں دو، نظیر اکبر آبادی کے اور ایک ایک میر نجف علی بیباکؔ ، نظام اورانشاؔ کے ہیں ۔صاحب بحر الفصاحت شعر وادب کے بڑے عالم تھے ۔رام پور اسٹیٹ کی رضا لائبر یری کے ناظم اعلیٰ بھی رہے ۔ذاتی کتب خانہ بھی اچھاخاصا تھا ۔محنت سے کبھی نہیں گھبرائے ۔ اشعار تلاش کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہوگی ۔ لیکن اردو کے دو اوین میں اُن کو پانچویں کے بعد چھٹا شعر دستیاب نہیں ہوا ۔ظاہر ہے کہ مشکل صنعت ہے ۔شعرکی بات تو الگ رہی اگر ہم کوئی ایسا جُملہ بولنا چاہیں جس کی ادائیگی میں لب ایک دوسرے سے نہ ملیں تو بڑی مشکل سے کامیابی ملے گی ۔ شاعری میں تو اور بھی بہت سی پابندیاں ہوتی ہیں۔


لیکن جناب رضاؔ بریلوی نے انتہا درجے کی مصروفیات ہوتے ہوئے اس صنعت میں بارہ اشعار کی ایک نعت عطا فرمائی ہے ، جس کو پڑھتے رہیے ہونٹ نہیں ملیں گے ۔یہ نعت حدائق بخشِش کے حصّہ سوم میں شامل ہے ۔ چونکہ یہ جلد عموماً دستیاب نہیں ہے ۔ اس لیے یہ نعت تمام وکمال یہاں نقل کررہا ہوں تاکہ قارئین کی دلچسپی کاسامان ہو ۔


غور کرنے کامقام ہے کہ جناب رضاؔ بریلوی اگر شاعر ہی ہوتے اور شاعری کے علاوہ اُن کی دیگر مصروفیات نہ ہوتیں تب کیا کچھ کر کے دکھادیتے اس کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا ۔نعت پاک یہ ہے۔


سیّدِ کونین ، سلطانِ جہاں

ظلِّ یزداں ، شاہِ دیں ، عرش آستاں

کُل سے اعلیٰ ، کُل سے اولیٰ ، کل کی جاں

کُل کے آقا ، کُل کے ہادی ، کُل کی شاں

دِلکشا ، دلکش ، دلآرا ، دلستاں

کانِ جان و جانِ جان و شانِ شاں

ہر حکایت ، ہر کنایت ، ہرادا

ہر اشارت دل نشین و دل نشاں

دل دے ، دل کو جان ، جاں کو نور دے

اے جہانِ جان واے جانِ جہاں !

آنکھ دے اور آنکھ کو دیدارِ نور

روح دے اور روح کو روح جناں

اللہ اللہ یاس اور ایسی آس سے

اور یہ حضرت ، یہ در یہ آستاں

توثنا کو ہے ثنا تیرے لیے

ہے ثنا تیری ہی دیگر داستاں

تو نہ تھا تو کچھ نہ تھا ، گر تونہ ہو

کچھ نہ ہو ، تو ہی تو ہے جانِ جہاں

تو ہو داتا اور اوروں سے رَجا

تو ہو آقا اور یادِ دیگراں

التجا ہے شرک و شر سے دور رکھ

ہو رضا تیرا ہی غیر از این وآں

جس طرح ہونٹ اس غزل سے دور ہیں

دِل سے یوں ہی دور ہو ہر ظنّ وظاں

(صفحہ ۵۰۔۴۹)


عربی فارسی اور اردو میں شاعری کی انیس بحریں رائج ہیں ۔ان میں ایک بحر وافِر بھی ہے۔بحر وافِر کے بارے میں مولانا نجم الغنی خاں نجمی ؔ بحر الفصاحت میں رقم طراز ہیں:


’’ مُفا عِلتُن مُفا عِلتُن مُفا عِلتُن مُفا عِلتُن دوبار ۔وافِر فاکے کسرے سے اس لیے کہتے ہیں کہ اس بحر میں شعر بہت کہے گئے ہیں یا اس بحر میں دکات کثرت سے ہیں ۔ یہ بحر عربی سے خصوصیت رکھتی ہے ۔ریختہ میں مستعمل نہیں بعض شعراے فارس نے بہ تکلُّف اس میں شعر کہے ہیں۔‘‘


وافِر مثمنّ سالم :طالب کہتا ہے

ڈرا کے کہا بھلا بے بھلا خفا جوذرا ہوا صنم

مرا بھی ذرا گِلہ نہ رہا ہنسا جو گیا مجھے یہ ستم


ڈراک کہا مُفا عِلتُن بلا بِ بلا مُفا عِلتُن خفاجُ ذرا مُفا عِلتُن ہوا وُ صنم مُفا عِلتُن

مرا بِ ذرا مُفا عِلتُن گِلہ نَ رہا مُفا عِلتُن ہساجُ گیا مُفا عِلتُن مجے یہ ستم مُفا عِلتُن

(قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان نئی دلّی ایڈیشن ۲۸۴)


اس بحر کی مثال کے لیے بھی نجمیؔ صاحب کو مذکورہ بالا ایک شعرہی دستیاب ہوا انہوں نے اس کتاب کی مثالوں کے لیے خود بھی شعر کہے ہیں، لیکن اس بحر کی مثال کے لیے ایک مصرع بھی نہیں کہا۔ حضرت رضا ؔ بریلوی نے اس بحر میں ایک طویل نعت عطا فرمائی ہے حدائق بخشِش حصہ دوم میں ملاحظہ فرمائیے:


زمین و زماں تمہارے لیے مکین و مکاں تمہارے لیے

چُنین و چُناں تمہارے لیے بنے دو جہاں تمہارے لیے


اس نعت میں پینتس(۳۵) اشعار ہیں۔نتیجہ یہ برآمدہوتا ہے کہ اسلامیات خصوصاً فقہ حنفی کے اپنے عہد کے عظیم ترین عالم اور کتنے ہی دیگر علوم وفنون کے ماہر ، عبقری شخصیت کے حامل اس یگانۂِ روزگارہستی کی قدرت شاعرانہ میں بھی کسی طرح کاشک نہیں کیا جاسکتا ۔