حمد ونعت پر میرے اور میرے عزیز تلامذہ کے تحقیقی مقالوں کا تعارف- ڈاکٹر محمداسماعیل آزادؔ فتح پوری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مضمون نگار: ڈاکٹر محمد اسماعیل آزادؔ فتح پوری (یوپی )

مطبوعہ : دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

حمد و نعت پر میرے اور میرے عزیز تلامذہ کے تحقیقی مقالوں کا تعارفکر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

راقم اپنی زیر نگرانی حمد اور نعت پر پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری یافتہ رسرچ اسکالرز اور ان کے موضوعاتِ نعت پر خامہ فرسائی سے پیشتر مناسب سمجھتا ہے کہ وہ اوّلاً بہ حیثیت ریسرچ سپروائزر اپنی بابت چند باتیں حوالۂ قرطاس کردے۔

راقم کے والد معظم حافظ محمد جمیلؒ ایک مخیر اللہ والے بزرگ تھے، جو غرباء و مساکین کی امداد بہت فراخدلی اور کشادہ دستی سے کرتے تھے۔ انہوں نے راقم کی تعلیم و تربیت بڑے اشتعال و انہماک سے کی، جس کا ثمرہ یہ ہے کہ اس نے اپنا تعلیمی سفر بحسن و خوبی انجام پذیر کیا۔ اور اس نے اپنی تعلیمی زندگی کے ہر امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اس نے ابتدائی دس سالوں کا وقفہ مذہبی و دینی علوم کی تحصیل میں کیا اور 1958ء تک عربی و فارسی کے جملہ علوم و فنون کی تکمیل کی۔ اس کے بعد اس نے عصری علوم کی تحصیل کی جانب رخ کیا۔ جولائی 1958ء میں اس کا داخلہ انگریزی کے نویں کلاس میں ہوا۔ اس نے عصری علوم کی تحصیل میں دس سال صرف کرکے ایم۔ اے، ایل ایل-بی تک کی ڈگریاں نمایاں کامیابی کے ساتھ حاصل کیں۔ اسے اس کی تعلیمی زندگی میں از ابتدا تا انتہا علمی و لیاقتی وظائف ملتے رہے، جس میں ملک کا مقتدر وظیفہ جے۔ آر۔ ایف۔ بھی شامل ہے۔

پی ایچ۔ ڈی ڈگری کے لئے اس کا موضوعِ تحقیق ’’اردو شاعری میں نعت‘‘ تھا۔ اس کا محوّلہ بالا یہ مقالہ زیور طبع سے آراستہ ہوچکا ہے، جو تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ جلد اوّل کا عنوان نعتیہ شاعری کا ارتقا (عربی و فارسی کے خصوصی مطالعہ کے ساتھ) ہے، جو 420 صفحات کو محیط ہے۔ اس جلد کے پہلے باب کا عنوان ’’نعت: تحقیق و تنقید‘‘ ہے، جس پر اسے دس ضمنی عنوانات میں منقسم کرکے، سیر حاصل بحث کی گئی ہے، جو 92 صفحات کو محیط ہے۔ دوسرے باب کا عنوان ’’عربی کے مشہور نعت گو شعراء‘‘ ہے۔ جس پر بحث، اسے دو ضمنی عنوانات: ’’عہد نبوی کے شعراء‘‘ اور ’’عہد نبوی کے بعد کے اہم شعراء‘‘ میں منقسم کرکے کی گئی ہے، اس باب میں ایک سو نو (109) صفحات ہیں۔ تیسرے باب کا عنوان ’’فارسی میں نعت گوئی کا ارتقا ٔاور فارسی کے مشہور نعت گو شعراء‘‘ ہے۔ یہ باب ایک سو اکیانوے (191) صحافت کو محتوی ہے۔ راقم کی یہ کتاب 1988ء کی مطبوعہ ہے۔

بطور جملہ معترضہ عرض ہے کہ راقم کی اب تک کی مطبوعہ کتابوں کی تعداد اڑتیس (38) ہے، جس میں کی نو وارد کتاب کا نام ’’مولانا حسرتؔ موہانی اور فتح پور‘‘ ہے، جو اسی دسمبر 2016ء کی مطبوعہ ہے۔

آمدم بر سر مطلب! راقم نے اردو کی نعتیہ شاعری پر بحث اپنی مصنفہ کتاب، ’’اردو شاعری میں نعت‘‘ کی دو جلدوں میں کی ہے، جن میں سے پہلی جلد میں ’’ابتدا سے عہد محسن ؔ‘‘ تک کے اور دوسری جلد میں ’’حالیؔ سے حال‘‘ تک کے شعرائے نعت مشمول ہیں۔ ان دونوں جلدوں میں صفحات کی مجموعی تعداد (344+427)۔ 772 ہے۔ یہ دونوں کتابیں 1992ء کی مطبوعہ ہیں۔

راقم نے نعت پر اپنی ان تین کتابوں کے علاوہ ایک چوتھی کتاب ’’اردو نعت اور غیر مسلم شعرا‘‘ نام سے تخلیق کی ہے۔ جس کا سنہ اشاعت 1987ء ہے۔ ان چاروں کتابوں کے علاوہ، اس کی مولفہ دو کتابوں میں حمد و نعت کا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ جن میں سے پہلی کا نام ’’سوغاتِ صنم خانہ‘‘ ہے، جو 2013ء کی مطبوعہ ہے اور 236 صفحات پر مشتمل ہے، جب کہ دوسری کتاب کا نام ’’صدائے حرم‘‘ ہے، جو 2014ء کی مطبوعہ ہے اور اس کے صفحات کی مجموعی تعداد 309 ہے۔ پہلی میں غیر مسلم شعرائے نعت کی نعتیہ کاوشوں کا انتخاب ہے، جب کہ دوسری میں اردو کے مشاہیر شعرائے حمد و نعت کے شعری اثاثہ کا انتخاب شامل ہے۔ اوّل الذکر کتاب میں 35 صفحات کا اور ثانی الذکر میں 84 صفحات کا مقدمہ ہے۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

یہاں اس بات کا ذکر کرنا مناسب نہ ہوگا کہ راقم کی شریک حیات ڈاکٹر شاہدہ پروین نے اپنا دوسرا ایم۔ اے اردو میں فرسٹ ڈویژن، کانپور یونیورسٹی میں فرسٹ پوزیشن کے ساتھ پاس کرکے اسی یونیورسٹی سے ’’اردو کی نعتیہ شاعری کے تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘‘ موضوع پر استاد محترم ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی کی نگرانی میں پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

راقم کی حیات، شخصیت اور اس کے اکتسابات و کارکردگی پر دو کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ (1)خود نوشت سوانح حیات معنون بہ ’’بات اپنی‘‘ مطبوعہ 2011ء اور (2)’’حقیقت و سراب‘‘ مصنف ڈاکٹر حکیم حبیب الرحمن کانپوری، مطبوعہ 2012ء۔ اول الذکر میں 126 صفحات اور ثانی الذکر میں 167 صفحات ہیں۔

راقم کی زیرنگرانی متعدد خواتین و حضرات نے مختلف موضوعات پر معیاری تحقیقی و تنقیدی کام کرکے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں، جن میں مذہبی و غیر مذہبی دونوں قسم کے ادبی موضوعات شامل ہیں۔ یہ بھی ایک اتفاقی امر ہے کہ راقم کی زیر نگرانی اوّلین پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری غیر مذہبی موضوع پر لی گئی ہے۔ اس ریسرچ اسکالر کا نام ڈاکٹر فردوس فاطمہ ہے۔ یہ پنی محلہ کی رہنے والی شعبۂ تعلیم سے منسلک خاتون ہیں۔ ان کے مقالہ کا موضوعِ تحقیق ’’فکر تونسوی: حیات، شخصیت اور کارنامے‘‘ ہے۔ ان کے علاوہ بھی متعدد اشخاص نے غیر مذہبی موضوعات پر راقم کی زیر نگرانی پی ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں، جو اس وقت کے راقم کے دائرۂ موضوع سے خارج ہیں۔ اسی طرح راقم اپنی نگرانی میں حاصل کردہ ان حضرات کی پی ایچ۔ ڈی کی ڈگریوں کو بھی شامل مقالہ نہیں کررہا، جن کا موضوعِ تحقیقی خالص نعت نہیں ہے۔ مثلاً محسنؔ کاکوروی پر کیا گیا تحقیقی کام یا حفیظ جالندھری کی نعتیہ شاعری پر کیا جارہا تحقیقی و تنقیدی کام۔ راقم اس مقالہ میں صرف حمد اور خالص نعت پر کئے گئے تحقیقی و تنقیدی کام کو شامل کررہا ہے۔

واضح ہو کہ راقم کی زیر نگرانی ایک ریسرچ اسکالر نے حمد پر اور چار خواتین نے خالص نعت پر تحقیقی و تنقیدی کام کرکے کانپور یونیورسٹی سے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ حمد پر پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے محقق کا نام ڈاکٹر محمد اظہار ولد عالیجناب الحاج کبیرالدین ہے، جو محمدپور گونتی ضلع فتح پور کے رہنے والے ہیں۔ ان کو یہ ڈگری 18دسمبر 2008ء کو ’’اردو میں حمد نگاری کی روایت‘‘ موضوع پر تفویض کی گئی تھی۔ ڈاکٹر موصوف کا یہ مقالہ چھ ابواب میں منقسم ہے۔

باب اوّل کا عنوان حمد : مفہوم و ماہیت ہے۔ اس باب میں حمد کی ماہیت وحقیقت، حمد کی لغوی و اصطلاحی معنی، دنیا کے مختلف مذاہب اور دنیا کے قدیم دانشوروں میں اللہ پاک کا تصور اور حمدنگاری، مذہبِ اسلام میں تحمید و تمجید، اسلام کے علاوہ مذاہب میں اللہ پاک کی ثنا و تقدیس پر بحث کرتے ہوئے حمد و نعت، حمد و منقبت اور حمد و ثنا کے مابین کے فروق کو واضح کیا گیا ہے۔ اسی باب میں حمد کے متعدد انواع و اقسام، حمد کے مختلف انداز و اسالیب اور حمد نگاری کی مختلف ہیئات و اصناف سے بھی بحث کی گئی ہے۔باب دوم میں عربی و فارسی زبانوں میں حمد نگاری کی روایت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور عربی و فارسی کی حمدیہ شاعری اور اس کے نمائندہ شعراء کے کلام کا جائزہ قدرے تفصیل کے ساتھ لیا گیا ہے، جن سے اردو شعرائے حمد خاص طور پر متاثر ہوئے ہیں۔

باب سوم کا عنوان ’’اردو میں حمد نگاری کی روایت: آغاز سے 1718ء تک‘‘ ہے۔ ڈاکٹر اظہار نے اس باب میں اردو میں حمد نگاری کی روایت پر گفتگو سے پیشتر اردو زبان کی پیدائش اور اس کی نشو و نما کے دوران ہندوستانی تہذیب و معاشرت کا اجمالی جائزہ لیا ہے۔ مسلم صوفیوں اور ہندو سنتوں نے اللہ پاک کی تحمید و تمجید میں اپنی زندگیاں بسر کردیں۔ صوفیائے کرام اور سنت مہاتماؤں کا زیادہ زور تصفیۂ باطن پر تھا۔ وہ روحِ مذہب کو بہت اہمیت دیتے تھے اور امن و آشتی اورمیل ملاپ کی افادیت سے آگاہ تھے۔ ان میں صوفیائے کرام کی وجہ سے ہندوستان میں حمد نگاری کی روایت قائم ہوئی۔ ڈاکٹر موصوف نے اسی باب میں اردو حمد پر اس وقت کی تہذیب و معاشرت کے اثرات تلاش کئے ہیں اور ان کی نشاندہی کی ہے اس دور کی حمدیہ شاعری کے افہام و تفہیم کے لئے، اس عہد کے پچاس سے زائد شعرا کا انتخاب کرکے اس عہد کی حمد نگاری کی روایت کو واضح کرنے کی قابل تحسین کوشش کی گئی ہے۔


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

باب چہارم کا عنوان ’’اردو میں حمد نگاری کی روایت 1718ء سے 1857ء تک‘‘ ہے۔ اس باب میں اوّلاً 1718ء کی اہمیت سے بحث کی گئی ہے۔ یہ سن اردو ادب میں بہت اہم ہے کیونکہ اسی سن میں ولیؔ کا دیوان دلی آیا اور یہاں کے شعراء نے اس میں وہ نور دیکھا، جسے دیکھنے کے لیے ان کی آنکھیں ترس رہی تھیں اور اسی کے تتبع میں انہوں نے فارسی چھوڑ کر اسی رنگِ سخن کی پیروی شروع کردی اور اس طرح اردو ادب دورِ قدیم سے دورِ جدید میں داخل ہوا۔ ڈاکٹر موصوف نے اردو کی حمدیہ شاعری کے افہام و تفہیم کی خاطر اس طویل و بسیط عہد سے چالیس سے زیادہ ممتاز مشاہیر شعرائے حمد کا انتخاب کیا ہے اور ان کے حمدیہ اثاثے سے نمونے پیش کرکے اس عہد کی حمد نگاری کی روایت کی توضیح کی ہے۔

باب پنجم کا عنوان ہے ’’اردو میں حمد نگاری کی روایت 1857ء سے عصر حاضر تک‘‘ جسے دو ذیلی عنوانات میں تقسیم کرکے 1857ء کی جنگ آزادی کے اثرات، اردو ادب پر بالعموم اور اردو کی حمدیہ شاعری پر بالخصوص تلاش کئے گئے ہیں۔ اسی باب میں پہلی جنگ آزادی کے عواقب میں رونما ہونے والے تغیرات کا تنقیدی جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد اردو کی حمدیہ شاعری ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ جدید شعرائے حمد میں حالیؔ اور اقبال ؔؔپیش پیش ہیں۔ انہوں نے حمد کو قومی و ملی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ ان شاعروں کی حمد نگاری کا نیا دور ماقبل کی حمد نگاری سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ 1857ء سے آج تک کی حمد نگاری کا جائزہ لینے کے لئے پچاس سے زائد گرانقدر شعرائے حمد کا انتخاب کیا گیا ہے اور ان کی حمدیہ شاعری کا ناقدانہ جائزہ اس طرح لیا گیا ہے کہ حمد نگاری کی روایت واضح ہوکر سامنے آجائے۔

باب ششم کا عنوان ’’اردو میں حمد نگاری کی ادبی و شعری قدر و قیمت‘‘ ہے۔ اس باب میں حمد نگاری کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اردو ادب میں اس کی قدر و قیمت کا تعین کیا گیا ہے۔ اس باب میں حمد نگاری کے محرکات و عوامل تلاش کئے گئے ہیں اور اس کے ان وجوہ و علل سے بحث کی گئی، جن کے باعث حمد نگاری کی صنف اہم، مفید اور مقبول بنی۔ حمد نگاری ذریعۂ نجات سمجھی جاتی ہے، اس لئے اسے عالم گیر مقبولیت ملی حمد سے صوفیائے کرام کے غیر معمولی شغف، نیز محافل سماع سے اس کی وابستگی نے اسے قبول عام کی سند عطا کروانے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس باب میں حمد کی مقبولیت کے اسباب بھی تلاش کئے ہیں اور مستقبل کے توقعات و امکانات سے بحث کی ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی میں انسان کی مثالی کامرانیوں نے اللہ پاک کی وحدانیت، اس کی قدرت و جبروت اور اس کی بہترین خلاقیت کو روز روشن کی طرح واضح کردیا ہے۔ اللہ پاک نے آج سے چودہ سو سال پیشتر قرآن کریم کے ذریعہ فرمایا تھا ’’ خلقنا کل شیء بقدر‘‘ ہم نے ہر چیز کو ایک متعین اندازے سے بنایا ہے۔ آج اس آیت کی مکمل وضاحت کمپیوٹر اور کلوننگ نے کر دی ہے۔


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

اللہ پاک نے اپنے آپ کو ’’رب المشارق و رب المغارب‘‘ یعنی مغربوں اور مشرقوں کا رب بتلایا ہے۔ آج نئی نئی دنیائوں کے انکشاف نے فرمان الٰہی کی صداقت پر مہر لگادی ہے۔ مجموعی طور پر حمد پر یہ مقالہ معیاری ہے۔ اس مقالہ کی اہمیت یہ بھی ہے کہ اغلباً یہ مقالہ اردو حمد نگاری کی روایت پر پہلا تحقیقی و تنقیدی مقالہ ہے۔

راقم کی زیر نگرانی اردو نعت پر کانپور یونیورسٹی سے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والی ڈاکٹر آنسہ نگار سلطانہ ساکنہ محلہ خیلدار فتح پور ہیں۔ ان کے تحقیقی مقالہ کا موضوع ’’بیسویں صدی میں اردو کے غیر مسلم نعت گو شعراء‘‘ ہے۔ ڈاکٹر موصوفہ نے اپنے پی ایچ۔ ڈی کے اس مقالہ میں غیر مسلم نعت گو شعراء کے سیاق و سباق میں اردوکی نعتیہ شاعری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ موصوفہ کا یہ تحقیقی مقالہ چھ ابواب میں منقسم ہے۔ باب اول کا عنوان ’’نعت کا تعارف‘‘ ہے۔ ڈاکٹر موصوفہ نے اس باب میں نعت کی ماہیت، نعت کی تعریف، نعت کے مختلف موضوعات اور نعت کے تلمیحاتی ورثہ پر بحث کرتے ہوئے نعت کے آداب متعین کئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سرزمین عرب میں ظہور پذیر ہوئی تھی اور وہیں نعتیہ شاعری پروان چڑھی، اس لئے اس باب میں اوّلاً عربی کی نعتیہ شاعری کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے اور عربی کے ممتاز شعرائے نعت کی انفرادیت سے بحث کی کئی ہے۔ چونکہ اردو کی نعتیہ شاعری، عربی کی نعتیہ شاعری کی بہ نست فارسی کی نعتیہ شاعری سے زیادہ متاثر ہے۔ اس لئے ڈاکٹر نگار نے فارسی کی نعتیہ شاعری اور اس کے ان نمائندہ شعراء کا اجمالی جائزہ بطور خاص لیا ہے، جن سے اردو کی نعتیہ شاعری متاثر ہوئی ہے۔

باب دوم میں غیر اسلامی ادب میں نعتیہ عناصر کی نشاندہی کی گئی۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر موصوفہ نے سب سے پہلے قدیم ترین زبان سنسکرت کی مشہور روزگار تصنیفات رگ وید اور اتھروید میں موجود نعتیہ شہادات کو منظرعام پر لانے کی کوشش کی ہے۔ اسی باب میں تورات اور انجیل سے وہ اقتباسات نقل کئے گئے ہیں۔ جن میں نعت محمد ﷺ عربی و امی مرقوم ہے۔ مہاتما گوتم بدھ کی ان پیشین گوئیوں کا تذکرہ بھی اسی باب میں کیا گیا ہے، جن میں نبی آخرالزماں ﷺ کا ذکر خیر ہے۔ اسی باب میں اردو نعت کی ابتدائی شکل کو منظرعام پر لانے کی غرض سے اردو کی نعتیہ شاعری کی ابتدا و ارتقاء پر بھی طائرانہ نگاہ ڈالی گئی ہے۔ اسی بات میں ڈاکٹر صاحبہ نے بیسویں صدی سے پیشتر کے ان شعرائے نعت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا ہے، جن کی نعتیہ کاوشوں کے اثرات بیسویں صدی کے غیر مسلم شعرائے نعت پر پڑے ہیں۔ اس باب کا عنوان ’’غیر اسلامی ادب میں نعتیہ عناصر‘‘ ہے۔

باب سوم کا عنوان ہے ’’بیسویں صدی کے غیر مسلم نعت گو شعراء: تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘‘ اس باب میں چھیاسی ممتاز شعراء کے نعتیہ اثاثہ سے بحث کی گئی ہے۔ جن شعراء کے سوانح حیات ڈاکٹر موصوفہ کو دستیاب ہوسکے، ان کے سوانح حیات بھی موصوفہ نے قلم بند کردیئے ہیں۔ اور ان کے کلام پر نقد و تبصرہ ان کے نعتیہ سرمائے کو مدّنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ ان شعراء کے ان نعتیہ اشعار کو بطور خاص تحقیق و تنقید کے خراد پر چڑھایا گیا ہے۔ جن میں منبع نعت کے آفاقی و کائناتی انعامات و اکرامات کا تذکرہ ہے۔


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

ڈاکٹر صاحبہ نے اسی باب میں ہندو شعرائے نعت کے نعتیہ کلام کو پیش کرکے یہ دکھلایا ہے کہ ان کے یہاں مقامی و ماحولی رنگ کافی چوکھا اور خاصا گہرا ہے۔ یہیں موصوفہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ کم از کم ہندو شعرائے نعت کے نعتیہ سرمایہ کی روشنی میں اردو پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ ’’اردو کا شاعر رہتا تو ہے جمنا گنگا اور نربدا گھاگھرا والے ملک میں، لیکن بات کرتا ہے دجلہ، فرات اور جیحون و سیحون کی۔ وہ کملی، چمپا، موگرا، جوہی اور بیلے کی بات نہ کرکے نسرین و نسترن اور سمن و نرگس شہلا کی قصیدہ خوانی میں لطب اللسان ہے۔ وہ رہتا ہے ہیر رانجھا، سوہنی مہیوال کے دیش میں لیکن گن گاتا ہے لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد اور وامق و عذرا کے۔

باب چہارم کا عنوان ہے ’’نعت کا فنّی و معنوی تجزیہ (غیر مسلم شعرائے نعت کے آئینے میں)‘‘ اس باب میں نعت کے مختلف اشکال و ہیئات پر بحث کرتے ہوئے نعت میں مقامی رنگ کی وضاحت کی گئی ہے۔ نعت کا تعلق موضوع و مفہوم سے ہے اور وہ ہیئت وساخت کے اعتبار سے جملہ مروجہ شکلوں میں کہی گئی ہے۔ اس باب میں ان نعتیہ عناصر کی توضیح کی گئی ہے، جو سرزمین ہند اور ہندو شعراء کی دین ہیں۔ ہندوستان میں عورت اپنے جذبات عشق کا اظہار گیت کے روپ میں کرتی ہے۔ گیت کی شکل میں نعت کا ظہور خالص ہندوستانی چیز ہے اسی باب نعتوں میں ہندوستان کی اوتار وادی ذہنیت کو دکھلایا گیا ہے۔

اردو نعت میں اس قبیل کے اشعار خاصی تعداد میں ہیں، جن میں الفاظ کو توڑ مروڑ کر، میم سے پردہ اٹھاکر اور عرب کے عین کو ہٹاکر، احمد کو احد اور رسول عربی کو عرب کا نہیں بلکہ رب کی شان میں جلوہ گر کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ نعتوں میں منظرنگاری، جذبات نگاری، مرقع نگاری اور شخصیت نگاری کے بیش بہا موتی بکھرے ہوئے ہیں، ڈاکٹر موصوفہ نے اس باب میں ان موتیوں کو ایک لڑی میں پرونے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اسی باب میں مولود ناموں، معراج ناموں اور وفات ناموں میں شخصیت نگاری اور جذبات نگاری کے نمونے تلاش کئے گئے ہیں۔

باب پنجم کا عنوان ’’اردو نعت گوئی پر ہندو شعرائے نعت کے اثرات‘‘ ہے۔ نعت ِنبی ﷺ خالص اسلامی ادب میں شمار کی جاتی ہے، لیکن یہی ادب جب ہندوستان آیا، تو اس نے اپنی ممتاز خصوصیات کی بنا پر فارسی اور عربی نعتیہ شاعری سے علاحدہ اپنا ایک منفرد رنگ جمایا، جو یقینا ملکی اثرات کا نتیجہ ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح خوانی ہندوستان آکر ان اصنام یا دیوتائوں کی مدح سرائی سے کافی متاثر ہوئی، جن کے گیت بھجنوں میں گائے جاتے ہیں۔ ہندو شعرائے نعت کے مزعومات و معتقدات کا اثر اردو نعت گوئی پر اس حد تک پڑا کہ ایک مسلم نعت گو شاعر اس طرح گرم سخن ہے۔ ؎


آپ اپنا پیام پہنچایا +

آپ خود اپنا کر گیا اقرار

یار آیا تھا نامہ بر بن کر +

خط کے دھوکے میں رہ گئے اغیار

باب ششم کا عنوان ہے ’’غیر مسلم شعرائے نعت کی اہمیت اور اردو ادب میں ان کا مقام‘‘ اس باب میں غیر مسلم شعرائے نعت کی شعری خصوصیات کو مدّنظر رکھ کر اردو نعت میں ان کے مقام کے تعین کی کوشش کی گئی ہے اور ان میں وہ تمام عناصر تلاش کئے گئے ہیں، جن کا عربی و فارسی کی نعتیہ شاعری میں فقدان ہے۔ مسلم شعرائے نعت کے شعری سرمایہ میں، جہاں کہیں اس قبیل کی چیز ملتی ہے، وہ غیر مسلم شعرائے نعت کے عواقب و اثرات ہیں۔

پاکستان کے مرحوم فنکار نوراحمد میرٹھی نے ڈاکٹر نگار سلطانہ کے مقالہ پر اپنی وقیع اور گراں بہا رائے حوالۂ قرطاس کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’آنسہ نگار سلطانہ نے غیر مسلموں کی نعتیہ شاعری کے حوالہ سے کانپور یونیورسٹی (یو۔پی) بھارت سے 1994ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کے مقالہ بعنوان ’’بیسویں صدی میں اردو کے غیر مسلم نعت گو شعراء‘‘ کو اس اعتبار سے بھی اہمیت ہے کہ اس موضوع پر یہ پہلا تحقیقی مقالہ ہے۔‘‘

(بہرزماں بہر زباں ﷺ از نوراحمد میرٹھی، صفحہ:74)

ڈاکٹر نگار سلطانہ نے اس مقالہ کے اختتام پر کتابیات کے تحت ان تمام مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتب و جرائد و رسائل کو جمع کیا ہے، جن کے حوالے اس مقالہ میں دیئے گئے ہیں۔


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

راقم کی زیرنگرانی اردو نعت پر دوسرا تحقیقی مقالہ، جس پر پی ایچ۔ ڈی ی ڈگری تفویض کی گئی ہے، ڈاکٹر شکیلہ خاتون زوجہ جناب سید جنیداحمد صاحب ساکن چھیکن ٹولہ شہر فتح پور کا تحقیقی مقالہ معنون بہ ’’اردو نعت کا صنفی و ہیئتی مطالعہ‘‘ ہے، جو 1996ء میں کانپور یونیورسٹی میں پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری کے لئے پیش کیا گیا تھا اور جس پر تحقیق کنندہ کو 1999ء میں پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔ موصوفہ مہاتما گاندھی بوسٹ گریجویٹ کالج فتح پور میں شعبۂ اردو کی چیئرپرسن ہیں۔موصوفہ کا یہ مقالہ چھ ابواب اور کتابیات پر مشتمل ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: اس مقالہ کے پہلے باب کا عنوان ’’نعت کا تعارف‘‘ ہے۔ اس باب میں اوّلاً لفظ نعت کی لغوی تشریح کی گئی ہے اور کتبِ سیر و مغادی اور احادیثِ رسول ﷺ کی روشنی میں مدح رسول ﷺ کے لئے لفظ نعت کے اوّلین استعمال کا سراغ لگایا گیا ہے۔ اسی باب میں نعت کے موضوع اور فن پر تفصیلی بحث کی گئی ہے اور قرآن و احادیث سے وہ اقتباسات، جو وصفی انداز کے حامل ہیں، نقل کئے گئے ہیں اور موضوعاتِ نعت کا جائزہ اُسے بیس ذیلی سرخیوں میں منقسم کرکے، لیا گیا ہے۔ اسی باب میں قرآن کریم اور احادیث رسول ﷺ کی روشنی میں نعت کی دینی حیثیت متعین کرتے ہوئے اس (نعت) کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

دوسرے باب کا عنوان ’’عربی و فارسی نعت کا اجمالی جائزہ‘‘ ہے اردو کے نعت گو شعراء نے دوسری اصناف کی مانند اس صنف میں بھی عربی و فارسی نعتوں کے نمونے پیش نظر رکھے ہیں، اس لئے اردو نعت کو کماحقہٗ سمجھنے کے لئے بطور پس منظر عربی و فارسی کی نعتیہ شاعری کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ ڈاکٹر موصوف نے اس باب میں عربی و فارسی کی نعتیہ شاعری کا اجمالی جائزہ پیش کیا ہے۔

عربی نعت گوئی والے حصہ کو دو ذیلی عنوانات میں منقسم کیا گیا ہے۔ پہلے ذیلی عنوان میں عہد نبوی اور مابعد عہد نبوی کی شعری خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور دوسرے ذیلی عنوان میں نومنتخب و نمائندہ شعرائے نعت کی خصوصیات شعری سے بحث کی گئی ہے اور ان کے کلام کے نمونے پیش کئے گئے ہیں۔

فارسی کی نعت گوئی والے حصہ کا جائزہ بھی، اسے دو ذیلی عنوانات میں منقسم کرکے لیا گیا ہے۔ اسی ضمن میں فارسی زبان کے چودہ صاحب اسلوب نعت نگاروں کے کلام کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے اور ان کے نعتیہ عطیات سے بحث کی کئی ہے۔ اسی عنوان کے تحت دلائل و براہین کی روشنی میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کس شاعر کو کس موضوع میں اوّلیت کا فخر حاصل ہے۔

تیسرے باب کا عنوان ہے ’’اردو نعت کا اجمالی جائزہ‘‘ اس باب کو دو حصوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے کا ذیلی عنوان ہے ’’دکن کی نعتیہ شاعری‘‘ مقالہ کے اس حصہ میں ان عناصر کی نشاندہی کی کئی ہے جنہوں نے دکن مین اردو نعت کی راہ ہموار کی۔ اس باب میں اس سیاسی، تہذیبی اور لسانی پس منظر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اردو زبان و ادب کی بالعموم اور اردو نعت کی بالخصوص دکن میں ترویج ہوئی۔ اسی باب میں دکن کے اٹھارہ نمائندہ نعت گو شعراء و شاعرات کے نعتیہ کلام کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ شمالی ہند میں نعت کا ارتقائی سفر ان ہی اساسی مناہیج پر چلتا رہا، جن میں شعرائے دکن گامزن رہ چکے تھے۔ اسی باب میں شعرائے دکن کے اسالیب زبان اور مخصوص موضوعات و اصناف خصوصاً مثنوی، قصیدہ، اور نظم کی ساخت میں کہی گئی نعتوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

تیسرے باب کے دوسرے حصہ کا عنوان ہے ’’شمالی ہند کی نعتیہ شاعری‘‘ جس میں اوّلاً شمالی ہند کی نعتیہ شاعری کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں بعدہٗ سوداؔ سے عصر حاضر تک کے شعرائے نعت میں سے اٹھارہ نمائندہ شعراء کا انتخاب کرکے ان کے نعتیہ کلام کا اس طرح جائزہ لیا گیا ہے کہ شمالی ہند کی نعتیہ شاعری کے خدوخال واضح ہوجائیں۔ اس مقالہ کے چوتھے اور پانچویں ابواب اساسی حیثیت کے حامل ہیں، اسی لئے ڈاکٹر موصوفہ کے یہ ابواب نسبتاً زیادہ ضخیم ہیں اور انہوں نے ان کی ترتیب و تزئین میں خصوصی توجہ دی ہے۔

چوتھے باب کا عنوان ’’شعری اصناف سخن اور اردو نعت‘‘ ہے۔ اس باب میں ڈاکٹر موصوفہ نے اوّلاً صنف سخن کی اصطلاح کی وضاحت کی ہے تاکہ ہیئت اور صنف کے مابین کا فرق واضح ہوجائے اور دونوں اصطلاحیں ایک دوسرے میں خلط ملط نہ ہوجائیں۔ اصناف کی مروّجہ درجہ بندی کے باعث نہ تو صنف کا تصور واضح ہوپاتا ہے اور نہ ہیئت کا۔ کسی صنف کے ساتھ محض اس کی ہیئت چپک گئی ہے مثلاً مثنوی۔ کسی کے ساتھ موضوع اور صنف دونوں وابستہ ہیں مثلاً قصیدہ اور کسی کی بنیاد محض موضوع پر ہے مثلاً مرثیہ۔ مرثیے مختلف ہیئتوں میں لکھے گئے ہیں۔ مثلاً غزل، دوبیتی اور مسدس وغیرہ ہیئات میں۔ انیسؔ و دبیرؔ کے مرثیے مسدس کی شکل میں ہیں۔ غالبؔ نے عارف کا مرثیہ غزل میں لکھا ہے، حالیؔ نے مرثیۂ غالبؔ ترکیب بند میں نظم کیا ہے۔ ہیئت پرستی کا رجحان بھی معاملہ کو بگاڑنے میں کچھ کم ذمہ دار نہیں ہے۔اقبال کا مرثیہ ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ مثنوی میں ترتیب دیئے جانے والے مقالوں میں مثنوی کی فہرست میں شامل ہیں۔ اس طرح موضوع کے لحاظ سے ایک ہی صنف تین ہیئتی اصناف میں موجود ہے۔ اس باب میں ڈاکٹر موصوفہ نے صنف اور ہیئت کی حدبندی اقسام شعر کے حوالے سے اس طرح کی ہے کہ اس قسم کے ابہامات و اشکالات کا سدّباب ہوجائے۔اسی باب میں ڈاکٹر صاحبہ نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ نعت اردو شاعری کی موضوعاتی تقسیم کے تحت آتی ہے اور اردوشاعری کی جملہ مروجہ اصناف سخن میں کہی گئی ہے۔ ہیئت یا ساخت کے اعتبار سے اس کی کوئی متعین شکل نہیں ہے۔ اس کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات سے ہے، اس لئے ہر وہ شعری کاوش، جس کا انسلاک نبی اقدس ﷺسے ہو، نعت کہلاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے صنف کے حوالے سے اقسامِ شعر کی ایک نئی جامع و مانع حدبندی کرتے ہوئے اردو نعت کو مثنوی، قصیدہ، غزل، سلام، مرثیہ، شہر آشوب، بارہ ماسہ، نظم اور گیت کی اصناف میں دیکھا ہے اور ان شقوں کے ممتاز شناوروں کے نعتیہ کلام کا جائزہ بالتفصیل اس طرح لیا ہے کہ ان اصناف میں اردو نعت کی حیثیت روز روشن کی مانند عیاں ہوجائے۔ اس باب میں اردو نعت کا مطالعہ ادب کی تمام اصناف کو چار شقوں میں محصور کرکے کیا گیا ہے۔

پانچویں باب کا عنوان ’’ہیئات سخن اور اردو نعت‘‘ ہے۔ یہ باب اس مقالہ کا اہم ترین باب ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اسے پانچ ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔

پہلے ذیلی عنوان میں ہیئت کو حصارِ تعریف میں مقید کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے دائرۂ کار کا تعین کیا گیا ہے نیز اسی عنوان کے تحت اردو شاعری کے مزاج کا تعارف کرایا گیا ہے۔

دوسرے ذیلی عنوان میں ہندوستان کی اردو نعت کا ہیئتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس ذیلی عنوان کو درج ذیل چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:-

پہلے حصہ میں ترکیب بند، دوسرے حصہ میں ترجیع بند، تیسرے میں مستزاد، چوتھے میں قطعہ، پانچویں میں مسمّط اور چھٹے میں ہندی دوہے کی روایت کا جائزہ اردو نعت کے سیاق و سباق میں لیا گیا ہے اور ان تمام ہیئتوں میں طبع آزمائی کرنے والے مشاہیر شعرائے نعت کی نعتوں سے حوالے پیش کرکے مسئلہ کی وضاحت کی گئی ہے۔

تیسرے ذیلی عنوان میں پاکستانی اردو نعت کا ہیئتی مطالعہ مجملاً پیش کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں خصوصی طور پر مندرجہ ذیل ہیئات کو محورِ بحث بنایا گیا ہے۔

ترجیع بند، ترکیب بند، نظم معرّیٰ، آزاد نظم اور نثری نظم۔

چوتھے ذیلی عنوان میں ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ دیگر ایشیائی و مغربی شعری ہیئتوں میں لکھی جانے والی نعتوں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ اسی ذیلی عنوان کے تحت سانٹ، ہاٹیکو کے تعارف کے بعد ان ہیئات میں لکھی جانے والی نعتوں کے نمونے قلمبند کئے گئے ہیں۔

پانچویں ذیلی عنوان کے تحت مختلف بولیوں میں کہی جانے والی نعتوں کا جائزہ لیا گیا ہے اس سلسلے میں ٹھمری، دادرہ، شیام کلیان اور ترانہ کے حوالے سے اردو نعت کو سمجھنے کی کاوش کی گئی ہے۔

ڈاکٹر موصوفہ نے مسلم نعتِ گو شعراء و شاعرات کے ساتھ ساتھ غیر مسلم شاعرات و غیرمسلم شعرائے نعت کی نمائندگی بھی پیش کی ہے۔

چھٹے باب کا عنوان ’’مختلف ہیئات سخن میں نعت کی ادبی قدر و قیمت‘‘ ہے۔ اس باب میں سب سے پہلے فنِ شعر کی حقیقت، شعر کی ماہیت اور اس کی بابت مشرقی و مغربی ناقدینِ ادب کی وقیع آراء سپرد قلم کی گئی ہیں اور اس کے بعد مختلف اصنافِ شعر اور شعری ہیئتوں کے حوالے سے نعت کی شعری حیثیت و اہمیت کا جائزہ لیا گیا ہے، جس سے یہ حقیقت خود بخود کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ نعت اردو شاعری کی ایک اہم موضوعی صنف سخن ہے۔

اردو نعت کے شعری محاسن کے جائزے سے یہ بات واضح ہے کہ اردو نعت میں فکر و فن کی وہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں، جو اردو شاعری کی کسی بھی صنف کے لئے طرۂ امتیاز گردانی جاسکتی ہیں۔ فن کی عظمت کے ساتھ ساتھ موضوع کی عظمت بھی ضروری ہے۔ نعت کے موضوع میں جو عظمت، جو عقیدت، جو محبت اور جو والہانہ وارفتگی ہے، اس نے نعتیہ شاعری میں فکر و فن کی غیر معمولی عظمت پیدا کردی ہے۔

نعتیہ شاعری، تزکیۂ نفس اور اخلاقی بلندیوں کی شاعری ہے، جس کا خاص موضوع حبّ رسول ﷺ ہے۔ عشق ومحبت، فرقت و مہجوری، والہانہ شیفتگی اور دل گداختگی وہ اندرونی جذبات ہیں، جن سے نعت کی تخلیق ہوئی ہے۔ مذہب سے وابستگی کی بنا پر نعت کی صنفی حیثیت سے انکار مناسب نہیں ہے بلکہ ناروا ہے۔ ملٹن کی ’’فردوس گمشدہ‘‘ کا موضوع مذہب ہے اور انجیل مقدس کو سمجھے بغیر فردوس گمشدہ کو سمجھنا اور اسے مناسب و ضروری داد دینا ناممکن ہے، لیکن اس کے باوجود ملٹن کی ’’فردوس گمشدہ‘‘ انگریزی ادب کا ایک حسین اور عمدہ شاہکار ہے۔ اس طرح ڈاکٹر شکیلہ خاتون اس آخری باب میں مختلف ہیئاتِ سخن میں نعت کی ادبی قدر و قیمت متعین کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔

راقم کی زیرنگرانی پی ایچ۔ ڈی ڈگری کے لئے خالص نعت پر لکھا گیا تیسرا تحقیقی مقالہ محترمہ شمیم اختر خاتون کا تحریر کردہ ہے۔ اس مقالہ کا عنوان ہے ’’اردو نعت کے موضوعات‘‘ موصوفہ نے اپنا یہ مقالہ پایۂ تکمیل تک پہنچاکر، بہ حیثیت سپروائزر مقالہ پر راقم کی رپورٹ چسپاں کرکے، یکم دسمبر 2002ء کو کانپور یونیورسٹی میں باقاعدہ مجوزہ فیس جمع کرکے داخل کیا تھا۔ موصوفہ کو اغلباً پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری تفویض کی جاچکی ہوگی، کیونکہ مقالہ کو باقاعدہ یونیورسٹی میںداخل کئے ہوئے چودہ سال کی طویل مدت گزر چکی ہے۔ موصوفہ راقم کے رابطہ میں نہیں ہیں اس لئے راقم کو اس بات کا یقینی علم نہیں ہے کہ حقیقی و واقعی صورتحال کیا ہے؟بہرحال موصوفہ کا یہ مقالہ مفید، اہم اور وقیع ہے اور کافی دیدہ ریزی سے لکھا گیا ہے۔ موصوفہ طلاق محل کانپور کی رہنے والی ہیں اور ڈاکٹر حکیم حبیب الرحمن کی شریک حیات ہیں۔


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

موصوفہ کا یہ تحقیقی مقالہ سات ابواب میں منقسم ہے۔ اس مقالہ کے پہلے باب کا عنوان ’’نعت کی تعریف‘‘ ہے۔ اس باب میں اولاً نعت کا لغوی و اصطلاحی مفہوم واضح کیا گیا ہے بعدہٗ حدیث مبارکہ و فرمودہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روشنی میں لفظ نعت کی تحقیق کے بعد اس ( نعت) کی جامع و مانع تعریف کی گئی ہے اور نعت کی شرعی حیثیت کے ذیل میں نعت و مذہب، نعت و معتقدات، نعت و روایت، نعت و تاریخ، نعت و سوانح حیاتی عناصر اور نعت و تلمیحات عنوانات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اسی ضمن میں نعت کی شان نزول کی نشاندہی کے ساتھ لوازمِ نعت کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اس مقالہ کے دوسرے باب میں عربی و فارسی میں مروّجہ موضوعات کے تحت عربی کے مشاہیر شعرائے نعت، حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، جناب ابوطالب، گل سرسبد نعت حضرت حسان بن ثابت، حضرت کعب بن زبیر، حضرت کعب بن مالک اور میمون بن قیس اعشیٰ پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ فارسی کے مشاہیر شعرائے نعت کے ضمن میں ؔسنائی، عطارؔ، خاقانیؔ اور جامیؔ وغیرہم نیز ہندوستان کے فارسی نعت گو شعراء غالبؔ اوراقبالؔ پرخاطرخواہ بحث کی گئی ہے۔

تیسرے باب میں اردو نعت کے ارتقاء پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جس میں اوّلاً دکن کی نعتیہ شاعری، اس کے عناصر ترکیبی اور اس کے نمائندہ شعرائے نعت پر، ثانیاً شمالی ہند کی نعتیہ شاعری اس کی فنّی خصوصیات اور اس کے نمائندہ شعراء پر اور ثالثاً پاکستانی نعتیہ شاعری، اس کی خصوصیات اور اس کے نمائندہ شعرائے نعت پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔

چوتھے باب میں اردو نعت کے متابع و مخارج اور محرکات شعری کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔

پانچویں باب میں اردو نعت کے اساسی موضوعات کی تلاش کی گئی ہے اور ان کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔

چھٹا باب اردو نعت کے ثانوی موضوعات کی تلاش پر منحصر ہے۔ اسی باب میں کچھ اہم فیصلے بھی کئے گئے ہیں۔

ساتویں باب میں موضوعاتِ نعت کی اہمیت و افادیت اور اردو ادب میں ان کا مقام زیر بحث ہے۔

یہ مقالہ، مجموعی طور پر، جہاں تک موضوعاتِ نعت کا تعلق، ایک اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں ممکن حد تک نعت کے تمام موضوعات کو حیطۂ تحریر میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔

راقم کی زیر نگرانی لکھنؤ کی ڈاکٹر قریشہ بانو نے جو اردو کے مشہور شاعر مرحوم الحاج محمد مسعود صدیقی المتخلص بہ راہیؔ پرتاپ گڑھی کی دختر نیک اختر ہیں، اپنا تحقیقی سفر اختتام پذیر کیا ہے۔ ان کی تحقیق کا موضوع ’’ہندوستان اور پاکستان کی اردو نعتیہ شاعری کا تقابلی مطالعہ‘‘ ہے۔ ڈاکٹر موصوفہ نے یہ مقالہ، اسے پایۂ تکمیل تک پہنچاکر 02.06.1999 میں چھترپتی ساہو جی مہاراج یونیورسٹی میں داخل کیا تھا اور 2002ء میں وہ دکتور ادب (Ph.D) کی ڈگری سے سرفراز کی گئی تھیں۔

ڈاکٹر موصوفہ اور ان کے مرحوم والد، دونوں کو، راقم نہیں جانتا تھا۔ دونوں باپ بیٹی استاذی عالی مرتبت ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی کی زیر نگرانی تحقیق کی شناوری کے لئے کوشاں تھے، لیکن مرحوم استاد نے انہیں راقم کے پاس، ان سے یہ کہہ کر بھیج دیا کہ وہی اس موضوع پر تحقیقی سفر طے کراسکتا ہے۔ یہ بات راقم کے لئے خوش نصیبی اور خوش طالعی کی ہے۔ پروفیسر ولی الحق انصاری سابق صدر فارسی لکھنؤ یونیورسٹی نے بھی راقم کے پاس سفارشی پیغام بھیجا اور اپنی تیار کردہ سناپسس بھیج دی، جسے راقم نے اس سے بہتر سناپسس سے بدل کر واپس کردیا، جسے ان دونوں واجب الاحترام معزز اساتذہ نے پسند کیا۔

جیسا کہ ماقبل میں لکھا جاچکا ہے نعت پر تحقیق کا یہ موضوع استاذی ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی اور پروفیسر ولی الحق کا عطا کردہ ہے۔ راقم کو مسرّت ہے کہ اس نے ان دونوں اساتذہ کی خواہش کے احترام میں ڈاکٹر موصوفہ کا یہ تحقیقی سفر بحسن و خوبی اختتام پذیر کرایا۔

ڈاکٹر قریشہ بانو کا یہ مقالہ سات ابواب میں منقسم ہے:

باب اوّل کا عنوان ’’نعت کی فنی و صنفی حیثیت‘‘ ہے۔ موصوفہ اس باب میں نعت کی ماہیت، نعت کی تعریف، نعت کے مختلف موضوعات اور نعت کے ہیئتی ورثہ پر بحث کرتے ہوئے، نعت کے آداب کا تعین کیا ہے۔ اسی باب میں نعت کے مختلف اشکال و ہیئات کی تفصیل کے ساتھ نعت کے مختلف انداز و اشکال کی تشریح کی گئی ہے اور محرّکاتِ نعت و مقامی اثرات تلاش کئے گئے ہیں۔ اسی باب میں نعت کی مقبولیت کے اسباب کی عدد شماری بھی کی گئی ہے۔

باب دوم کا عنوان ’’نعت گوئی کی مختصر تاریخ‘‘ ہے۔ اس باب میں اولاً عربی نعت گوئی، اس کی ابتدا و ارتقاء اور اس کی شان نزول پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسی باب میں عہد و ما بعد عہد نبوی کے عربی کے نمائندہ شعراء کی نعتیہ شاعری کے ذکر کے بعد عرب کے اکیس نمائندہ شعراء اور ہندوستان کے چار اہم شعراء کی نعتیہ کاوشات کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان کے منفرد نعتیہ خصائص کی تشریح کی گئی ہے۔ ڈاکٹر موصوفہ نے اسی باب میں فارسی میں نعتیہ شاعری کی ترویج پرگیارہ ایرانی شعراء اور پانچ عہدساز ہندوستانی شعراء کے کلام کے انتخاب کے ساتھ، ان کی نعتیہ انفرادیت کا اجمالی جائزہ لیا ہے۔ اسی باب میں عربی و فارسی کی نعتیہ شاعری کی خصوصیاتِ شعری پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔

باب سوم کا عنوان ’’اردو میں نعت گوئی کی ابتدا و ارتقاء‘‘ ہے۔ اس باب کو تین ذیلی سرخیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی ذیلی سرخی میں متقدمین شعرائے نعت کے مجموعی کلام کو مدّنظر رکھ کر ان کی خصوصیاتِ شعری پر بحث کی گئی ہے۔ اس ضمن میں سینتالیس عہدساز شعرائے نعت کے نعتیہ کلام کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسری ذیلی سرخی میں متوسطین شعرائے نعت میں سے گیاہ قدآور شعراء کو منتخب کرکے ان کے نعتیہ سرمایہ پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ تیسری ذیلی سرخی کو دو شقوں میں منقسم کرکے پہلی ذیلی سرخی معنون بہ ’’متاخرین شعرائے نعت آزادی سے قبل‘‘ کے تحت چوبیس نمائندہ شعرائے نعت اور دوسری ذیلی سرخی ’’متاخرین شعرائے نعت آزادی کے بعد‘‘ کے ذیل میں چونتیس قدآور شعراء پر ان کے نعتیہ خصائص کی روشنی میں تفصیلی بحث کی گئی ہے۔


گذشتہ ماہ زیادہ پڑھے جانے والے موضوعات

باب چہارم کا عنوان ’’ہندوستان میں تقسیم ہند کے بعد اردو نعت گوئی کی کیفیت‘‘ ہے۔ اس باب میں اوّلاً تقسیم ملک کے عواقب کے بطور اترپردیش اور ملک کے دوسرے شمالی صوبوں میں اردو مخالف لہر نیز اردو ادب پر بالعموم اور اردو نعت پر بالخصوص اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں عصرحاضر کے شعرائے نعت میں سے ایک سو ایک ہندوستانی نعت گو شعراء کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اس باب میں عصرحاضر کے شعرائے نعت کے نعتیہ سرمایہ کے جائزے کے بعد، اس دور کی نعتیہ شاعری کی خصوصیات پر بالتفصیل گفتگو کی گئی ہے۔

باب پنجم کا عنوان ’’تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں اردو نعت گوئی‘‘ ہے، جس میں بطور تمہید تحریک آزدی، قیام پاکستان اور پاکستانی تہذیب و ثقافت پر مفصل بحث کی گئی ہے۔ تمہیدی گفتگو کے بعد مجوزہ عنوان کو تین ذیلی سرخیوں میں منقسم کرکے پاکستان میں اردو نعت گوئی پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ پہلی ذیلی سرخی نگرنگر میں نعت ہے۔ جس کے تحت بلوچستان، سندھ، حیدرآباد، لاڑکانہ اور کراچی میں نعتِ رسول ﷺ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسری ذیلی سرخی میں پاکستان کے دور جدید کے نعت گو شعراء کے کلام پر تحقیقی و تنقیدی نگاہ ڈالی گئی ہے۔ اس ذیلی سرخی کے تحت ایک سو ایک پاکستانی شعرائے نعت کا انتخاب عمل میں لایا گیا ہے۔ تیسری ذیلی سرخی کے ضمن میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں فروغِ نعت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ موصوف نے پہلی بار سرکاری تقریبات میں تلاوتِ کلام پاک کے بعد نعت کو التزاماً شامل کردیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں نعتیں بکثرت پڑھی اور لکھی جانے لگی تھیں اور ریڈیو و ٹیلی ویژن میں نعتیہ کلام کو فروغ حاصل ہوا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نبی امی و عربی ﷺ سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ مرحوم، نعتیہ کلام پسند فرماتے تھے اور شعرائے نعت و معتقدینِ نعت کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ اس باب میں نعت کو فروغ دینے والے اداروں پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے اور مختلف اداروں سے شائع ہونے والے رسالوں پر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے۔

باب ششم کا عنوان ’’ہندوستان اور پاکستان کی نعتیہ شاعری پر ایک نظر‘‘ ہے۔ اس باب میں تقسیم ملک کے بعد پاکستان میں رونما ہونے والے رجحانات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اسی باب میں ان ہیئتی تجربات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے، جو نعت کے حوالے سے ہندوستان اور پاکستان میں کئے گئے ہیں۔ پاکستان کی نعت گوئی میں ہیئتی تجربات کے ضمن میں سانٹ، ہائیکو، نظم معرّیٰ، آزاد نظم اور نثری نظم کو بطور خاص مدّنظر رکھا گیا ہے اور آخر میں ہندوستان اور پاکستان کی نعتیہ شاعری کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔

باب ہفتم کا عنوان ہے ’’ہندوستان اور پاکستان میں نعت گوئی کا مستقبل‘‘ ہے۔ اس باب میں ہر دو ممالک کے عہد رفتہ و عہد حاضر کی نعتیہ شاعری کو مدّنظر رکھ کر مستقبل کے توقعات پر بحث کی گئی ہے۔ درحقیقت عہدِحاضر، عہدِ نعت ہے۔ شہاب الہ آبادی کا یہ مصرعہ مبنی بر صداقت ہے کہ۔ ؎


یہ عہد، عہدِ رسول کریم ہے

یہ بات پُر از واقعیت ہے کہ سائنسی ترقیات نے ان باتوں کو جو ایمان بالغیب کے زمرے میں تھیں، ایمان بالمشاہدہ کی صف میں لاکر کھڑا کردیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی افادیت ہمہ آنی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خاتم الرسل والانبیاء کی تعلیمات کی افادیت آج پہلے کی بہ نسبت زیادہ ہے اور یہ افادیت مستقبل میں حال سے زیادہ محسوس ہوگی۔ اس لئے یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اکیسویں صدی اور اس کے بعد آنے والی صدیوں میںنعت کو ماضی سے زیادہ تابناکی ملے گی۔ (ان شاء اللہ) اس لئے نعت کا مستقبل کافی درخشاں و تاباں ہے۔ ڈاکٹر قریشہ بانو نے شاعراتِ نعت اور غیر مسلم شعرائے نعت کو بھی مناسب نمائندگی دی ہے۔ ڈاکٹر قریشہ بانو کا یہ فیصلہ مناسب ہے کہ پاکستان کی نعتیہ شاعری وسعت میں دریا ہے اور ہندوستان کی نعتیہ شاعری گہرائی میں کنواں ہے۔ڈاکٹر موصوفہ صفحہ 494 میں اس باب کا ماحصل اس طرح بیان کرتی ہیں:-

’’جہاں تک نعت کی تحقیقی و تنقیدی کتابوں کا تعلق ہے، (جو پی ایچ۔ ڈی کے مقالوں کے علاوہ ہیں) یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اس شعبہ میں بھی ہندوستان کو پاکستان پر تفوّق حاصل ہے۔ اس شعبہ میں جتنا سرمایہ ہندوستان سے شائع ہوا ہے، وہ پاکستان سے شائع ہونے والے سرمایہ سے کہیں زیادہ ہے۔ نعت پر معیاری اور مستند مضامین و کتب کے باب میں بھی ہندوستان کو پاکستان پر اوّلیت حاصل ہے۔‘‘

آخر میں راقم اپنے اس فیصلے میں حق بجانب ہے کہ اس کی نگرانی میں حمد و نعت سے متعلق تحریر کئے گئے محوّلہ بالا پانچوں مقالے معیاری ہیں اور اطمینان بخش کہے جا سکتے ہیں۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
اس سال کی کچھ اہم کتابیں

اس سیکشن میں اپنے کتابیں متعارف کروانے کے لیے "نعت کائنات" کو دو کاپیاں بھیجیں

نئے صفحات