خالص سوت کی اٹی از علی صابر رضوی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

مضمون نگار:علی صابر رضوی


خالص سوت کی اٹی۔۔۔ میرے کریم ﷺ پر ایک تاثر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

میرے کریم ، محمد احمد زاہد کا اولین مجمومۂ نعت ہے جو انھوں نے بڑی محبت سے مجھے بھیجا اور میں نے کہیں زیادہ ہی سنبھال کر رکھ دیا۔ ایک دن باتوں باتوں میں زاہد بھائی نے پوچھ لیا کہ" مجموعہ کیسا لگا" تو میرے پاس اس اعتراف کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ کتاب تو ہمارے گھر میں موجود کتابوں میں ہی کہیں گم ہو گئی ہے۔ انھوں نے ایک بار پھر سے کتاب بھیج کر مجھے شرمندہ کردیا۔


اس وقت کتاب میرے سامنے ہے۔کتاب کا ٹائٹل سبز ہے جس میں محراب کے اندر عکسِ گنبدِ خضریٰ ہے۔ عکس کے نیچے سرخ جلی حروف میں کتاب کا عنوان "میرے کریم ﷺ" لکھا ہوا ہے ۔ زرد رنگ کی ایک پٹی پر کالے حرفوں میں شاعر کا نام درج ہے۔۔۔۔ سبزی مائل اس سر ورق کو دیکھ کر میرے مشاہدے کی گواہی ہے کہ سبز رنگ جمالِ گنبدِ خضریٰ کی مناسبت سے رحمت کی علامت ہے اور اسی سے چہار سو خوش حالی ہے۔ سرخ رنگت جذبے کی شدت کا کنایہ ہے اور جذبے کی شدت کے بنا انسان مومن ہو بھی تو نہیں سکتا نا۔ زرد رنگ اس خزاں رسیدہ پتے کی طرح ہے جو فراقِ وجہِ بہاراں میں کسی وقت بھی شاخِ حیات سے جھڑ کر پیوندِ خاکِ ہو جائے گا۔ اس پتے پر کالے حرفوں میں شاعر کا نام اس بات کا استعارہ ہے کہ اپنے تمام تر کالے اعمال کے باوجود وہ اپنے کریم ﷺکے کرم کا امیدوار ہے اور روزِ شفا عت اپنے کریم کے دامنِ کرم میں آنے کا تمنائی ہے۔ یہ ٹائیٹل محمد احمد زاہد کی شاعری کا خلاصہ ہے۔۔۔۔۔


زاہد کی کتاب دیکھتے ہوئے مجھے مثنوی مولانا جلال الدین رومی جلد :۱، دفتر دوم، میں لکھی قومِ موسیٰ کے اس چرواہے کی حکایت یاد آگئی ۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کسی مقام سے گزر رہے تھے۔ ان کی نظر ایک چرواہے پر پڑی۔ وہ اپنے خدا کے ساتھ محوِ راز ونیاز تھا۔۔۔۔۔ یا اللہ اگر تو میرے پاس ہو تو میں تیرے بالوں میں کنگھی کروں، تیری جوئیں نکالوں، تیری خدمت کروں، تجھے کھانے پینے کے لیے کچھ پیش کروں، اگر تو بیمار ہو تو تیری تیمار داری کروں، اگر مجھے تیری رہائش کا علم ہو تو میں صبح شام تمہارے لیے کھانے پینے کا سامان لاؤں۔ میں اپنی تمام بکریاں تیری ذات پہ قربان کروں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس چرواہے سے دریافت کیا کہ تم کس سے باتیں کر رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ میں اپنے اللہ سے مخاطب ہوں جس نے ہمیں پیدا کیا اور زمین اور آسمان تخلیق فرمائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم شرک بک رہے ہو ۔اپنا منہ بند رکھو۔ تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ شنہشاہوں کا شنہشاہ ہے ۔ وہ ایسی خدمت سے بے نیاز ہے۔ چرواہا یہ سن کر بہت زیادہ شرمندہ بلکہ خوف زدہ ہو گیا۔ اس نے اپنے کپڑے پھاڑے اور جنگل کی جانب بھا گ نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی اور شکوہ کیا کہ تم نے ہمارے بندے کو ہم سے جدا کر دیا ہے۔ تجھے دنیا میں اس لیے بھیجا گیا تھا کہ تم ہمارے بندوں کو ہمارے ساتھ ملاؤ، لیکن تم نے ہمارے بندوں کو ہم سے جداکردیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کی ناراضی محسوس کی، تب وہ اس چراوہے کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور بالآخر اسے تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر چرواہے سے کہا کہ تمہیں اجازت ہے تم جس طرح چاہو اللہ سے مخاطب ہو اور جس طرح چاہو اسی طرح اسے یاد کرو۔۔۔۔۔ مجھے محمد احمد کے جذبات میں اخلاص کا وہی رنگ نظر آیا جو اس چرواہے کے یہاں موجود تھا اور اسی کی بنیاد پر میرا دل کہتا ہے کہ اس کے سچے اور سچے احساسات کو نوازنے کے لیے کوئی مقرب ضرور اس کی طرف سفر کرے گا۔


میرے کریم کا انتساب سیدنا کریم ﷺ کے نام ہے۔ دوسرا انتساب پیر کرم شاہ صاحب اور ان کے خاندان کے دیگر اکابرین کے نام ہے جبکہ تیسرا انتساب ان کی شریکِ حیات کے نام ہے۔ کتاب کے اولین پچاس صفحات کتاب پر لکھے گئے تاثرات پر مبنی ہیں۔ جس میں اکابرینِ نعت نے میرے کریم پر ایسی عمدہ باتیں کی ہیں کہ بے ساختہ سبحان اللہ کہنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر ریاض مجید کہتے ہیں کہ میرے کریم ﷺ نعت کی اس رفتارِ کار کا عکاس ہے جو سال بہ سال نعت کے مجموعوں کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ زاہد کی جدتِ طبع اور نادرہ کاری بھی ان نعتوں میں ظاہر ہو رہی ہے۔ مقصود علی شاہ انھیں شاعرِ اخلاص قرار دیتے ہیں ۔ ثاقب خیر آبادی زاہد کی شاعری کو تصنع ، بناوٹ ، دکھاوے اور خود ستائی سے قطعی آزاد قرار دیتےہیں ۔سید فاضل اشرفی کے مطابق زاہد نے اپنی فکرکو باوضو کر کے نعت آشنا کیاہے۔صاحبزادہ احمد ندیم کہتے ہیں مجھے زاہد کی شاعری ایک وارفتہ اور پر شوق مسلمان کی وارداتِ قلبی محسوس ہوتی ہے جس کے لیے نعت کہنا گویا خود کو دریافت کرنا ہے۔ڈاکٹر کاشف عرفان نے اپنے مضمون میں زاہد کے کلام کو بڑی محبت سے دیکھا اور شاعر کو بہت داد سے نوازہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ریاض قادری ، دلاور علی آزر، شہناز شازی، سمیعہ ناز، پروفیسر حافظ محبوب احمد، سید بدر مسعود گیلانی اور نذیر اے قمر کی رائے بھی شامل ہے۔۔۔۔۔عروس فاروقی اور تنویر پھول نے قطعات ِتاریخ کہے ہیں۔ان سب آراء کو پڑھنے کے بعد بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے کہ :


ع: چپ کر مہرِ علی اتھاں جا نہیں بولن دی


اتنے معتبر شعراء اور ناقدین کے ناقدانہ مضامین کو سراہنے کے ساتھ ساتھ مجھے زاہد کی شاعری میں جو عناصر دکھائی دیےان میں پہلی خوبی سادگی ہے۔ یہ سادگی معصومانہ بھی ہے اور پرکار بھی۔وہ شعر کو جذبے کی ترسیل کا وسیلہ سمجھتے ہیں اور جہاں انھیں لگتا ہے کہ دل کی بات ہو گئی ، وہاں ان کا شعر فنی نزاکتوں اور جمالیاتی قدروں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دل کی طرف گامز ن ہو جاتا ہے۔ یہ شعر دیکھیے:


شہرِ رسول پاک میں ملحوظ رکھ ادب

یوں سیرتِ رسول کے سانچے میں ڈھل کے آ


اک خواب میں ہوئی مری طیبہ میں حاضری

کیسا کرم ہوا یہ بتاوں میں کس طرح


عقیدتوں کا چلا قافلہ مدینے کو

کہ دل سے جاتا ہے اک راستہ مدینے کو


ایسے بہت سے اشعار "میرے کریم ﷺ" کا خاصہ ہیں۔جنھیں یہاں شامل کرنے کے بجائے آپ کے ذوقِ قرآت پر چھوڑتا ہوں۔


زاہد کی دوسری خوبی راست فکری ہے۔ وہ شعر کہتے ہوئے عقیدے اور عقیدت میں جھول نہیں آنے دیتے جس سے شعر کی اثر انگزیزی بڑھ جاتی ہے۔تیسری خوبی ان کے مضامین کا عام فہم ہونا ہے۔یعنی وہ مضمون و معنی آفرینی سے زیادہ عشق آفرینی کے قائل ہیں۔ زاہد کی چوتھی خوبی ہماری معاصر شعری روایت سے مکمل جڑت ہے۔ وہ عوام کے لہجے میں عوام سے مخاطب ہو کربات کرتے ہیں۔ یہ وہ خوبی ہے جس کے امین اس سے پہلے محمد علی ظہوری ، عبدالستار نیازی، صائم چشتی جیسے شعرا ہوئے اور آج کے زمانے میں احمد علی حاکم اور ناصر چشتی جیسے شاعر اس روایت کو فروغ دے رہے ہیں۔۔۔اور اساتذہ میں اس روایت سے مجدد احمد رضا خان ہیں۔۔۔۔۔میرے کریم کو پڑھتے ہوئے آپ کو قدم قدم پر محسوس ہوگا کہ اس مجموعے میں عوامی رنگ کے اشعار کی کثرت ہے ۔ تنقیدی انداز میں کہوں تو زاہد کی شاعری عوام سے براہِ راست مکالمہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔زاہد کی پانچویں خوبی یہ ہے کہ انھوں نے لاشعوری طور پر چھوٹی بحر میں نعتیں کہی ہیں جس سے ان کے مصرعے کی ساخت خود بہ خود بہتر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔


مجموعی طور پر کہوں تو زاہد کی نعت ہجر اور امید کی شاعری ہے۔وہ اس بڑھیا کی طرح ہیں جو سوت کی اٹی لے کر یوسف علیہ السلام کو خریدنے آئی تھی کہ کل قیامت کے دن جب حسنِ یوسف ع کے خریداروں کی صف بنے گی تو یہ سوت کی اٹی والی بھی اس صف میں شامل ہوگی ۔ محمد احمد زاہد کی کتاب سوت کی وہی اٹی ہے لیکن زاہد کا سوت زیادہ خالص اور بہتر کتا ہوا ہے کیوں کہ زاہد کا محبوب اٹی والی مائی کے محبوب کا بھی محبوب ہے۔

علی صابر رضوی

دسویں جون دوہزار اکیس