دبستان ِ نعت پر چند سطریں -خان حسنین عاقبؔ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

حسنین عاقب

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مضمون نگار: خان حسنین عاقب( مہاراشٹرا)

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

’’دبستانِ نعت ‘‘ پر چند سطریں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اردو زبان کا شعری ادب اتنا ضخیم ہے کہ اگر اسے ڈیجیٹل طور پر جمع کرنے کی کوشش کی جائے تو شائد ہزاروں ٹی۔بی۔ یعنی ٹیٹرا بائٹ ڈاٹا درکار ہوگا۔ اردو ادب کی ایک اہم قسم ہے تقدیسی ادب جس میں حمد، نعت اور منقبت وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔ تقدیسی ادب میں بھی تخصیص کے ساتھ اللہ کے رسول ﷺ کے سیرت نگاری اور آپ کے تئیں امتیوں کی عقیدت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جو شعری ادب تخلیقی کیا جاتا ہے ، اسے نعتیہ ادب کہاجاتا ہے۔ اردو میں شعری ادب تو بہت شائع ہوتا ہے اور یار لوگ جو اردو زبان و ادب کا ذرا بھی درک رکھتے ہوں، ہر موضوع پر بے تکان لکھتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ نہایت بے کار سی اصناف تک ایجاد کرلی جاتی ہیں اور ان اصناف کو منوانے اور تسلیم کروانے کے لئے رسائل کے صفحات کے صفحات سیاہ کئے جاتے ہیں۔ لیکن نعت جیسی اہم اور بلیغ صنفِ شاعری پر کوئی مستقل رسالہ اب تک نہیں تھا۔ کافی عرصہ قبل پاکستا ن سے جناب سید صبیح الدین رحمانی صاحب نے نعت رنگ نامی مستقل رسالہ جاری کیا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے اختراعی اور موضوع کے اعتبار سے نہایت وقیع ہے۔ لیکن ہمارے وطنِ عزیز سے اس سمت کوئی پیش رفت اب تک نہیں ہوئی تھی۔ خوشا وہ وقت بھی آیا اور کچھ دیوانے ، ذاتی سود و زیاں کے تفکرات سے پَرے، محبت و عقیدتِ محمدﷺ سے لبریز ہوکر ایک رسالے یعنی ’دبستانِ نعت‘ کا اجراء کربیٹھے۔ اللہ ان کی مساعی کو قبولیت عطا فرمائے۔ آمین۔مجھے شیخ ابراہیم ذوقؔ کی یاد آرہی ہے جنہوں نے کہا تھا۔ ؎


ہُوا حمدِ خُدا میں دل جو مصروفِ رَقم میرا

الف الحمدِ رب العالمیں کا ہے قلم میرا

رہے نامِ محمد ﷺ لب پہ یارب اول و آخر

اُلٹ جائے بوقتِ نزع جب سینے میں دَم میرا

محبت اہلِ بیتِ مصطفی ﷺ کی نورِ بر حق ہے

کہ روشن ہوگیا دل مثلِ قندیلِ حرم میرا

دبستانِ نعت نامی اس رسالے کے مدیر ہیں جناب ڈاکٹر سراج احمد قادری صاحب۔ سراج احمد قادری صاحب سے ہمیشہ فون پر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ نہایت سلیقہ مند اور سعادت مند ، با اخلاق اور منکسر مزاج شخص ہیں۔ دراصل دبستانِ نعت اور سراج احمد قادری صاحب کا تعارف مجھ سے فیروز احمد سیفی صاحب ( مقیم نیویارک، امریکہ) نے کروایا تھا۔ ان کے دورۂ ہند کے درمیان انہیں کسی نے میری کتاب ’خامہ سجدہ ریز‘ کا نسخہ دیا تھا جو میری حمد و نعت کا مجموعہ ہے۔ موصوف نے بڑی تفصیل سے اس کتاب کا مطالعہ کیا اور امریکہ جاکر وہاں سے مجھ سے رابطہ کیا اور دبستانِ نعت اور قادری صاحب کے بارے میں تفصیل بتائی۔ فیروز احمد سیفی صاحب دبستانِ نعت کے نگراں کار ہیں۔ اس رسالے کو پروفیسر ڈاکٹر سید حسین احمد صاحب (سجادہ نشین خانقاہِ حضرت دیوان شاہ ارزانی، پٹنہ ، بہار) کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس رسالے کے معاونین میں ایک تو نعت رنگ (کراچی) کے مدیر جناب سید صبیح الدین رحمانی ہیں، ان کے علاوہ ڈاکٹر عبدالقادر غیاث الدین فاروقی صاحب (نیویارک، امریکہ) ہیں اور پھر ہندوستان ہی سے ہمارے دوست جناب قاضی اسد ثنائی صاحب (حیدرآباد، بھارت) ہیں جو ادب کا نہایت اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں اور اردو ادب کے مختلف موضوعات پر کانفرنسیس اور سیمینارس منعقد کرواتے رہتے ہیں۔ غرض کافی فعال شخص ہیں۔

خیر، میرے پاس دبستانِ نعت کا جو شمارہ پہنچا ، وہ جنوری تا جون ۲۰۱۶؁ کا شمارہ ہے۔ معلنہ طور پر یہ رسالہ ششماہی ہے لیکن اس رسالے کی ضخامت کچھ مہینوں سے کچھ زیادہ ہی کی کمی پوری کردیتی ہے۔ یعنی یہ رسالہ ۴۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس درجہ ضخیم شمارے کی ادارت اور پھر اس کی اشاعت کے تمام تر انتظامی و معاشی مراحل کو طے کرپانا آسان نہیں ہے۔


ایں سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

لیکن مدیرِ محترم اور ان کے سرپرستوں اور معاونین کی ان کاوشوں کے لئے مجھے حافظؔ کا یہ شعر زیادہ مناسب لگتا ہے کہ


تو و طوبیٰ ، و ما و قامت ِ یار

فکرِ ہر کس بہ قدرِ ہمتِ اوست

آئیے، اس ضخیم شمارے کے مشمولات پر کچھ بات ہوجائے۔ عمومی طور پر رسائل شعری تخلیقات سے اتنے لبریز ہوتے ہیں کہ الامین الحفیظ۔ رسالہ، رسالہ نہ ہوکر کسی شعری صنف کا انتخاب لگنے لگتا ہے۔ اور پھر نعت گوئی پر کوئی مستقل رسالہ جاری کرنا اولاً تو نہایت مشکل ہے ، جس کو توفیق مل جائے، وہ کامیاب لیکن اس کے لئے مواد کہاں سے جمع کیا جائے؟ اس لئے کہ ہمارے سہل پسند حضرات اس متبرک صنفِ سخن پر خامہ فرسائی کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ نعتیہ شعری ادب کے علاوہ شعبۂ نعت میں نقد و نظر اور تحقیق کا کوئی ذخیرہ موجود نہیں ہے یعنی اگر کسی کو اس سمت سفر کرنا ہے تو اسے اپنے سنگِ میل بھی خود بنانے ہوں گے، راستے بھی خود طے کرنے ہوں گے اور زادِ راہ کا انتظام بھی خود ہی کرنا ہوگا۔ بھائی صبیح رحمانی نے یہ مشکل کام کیا ہے اور ان سے جُڑے لوگ شعبۂ نعت میں نئے زاویوں کی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ برادر سراج احمد قادری نے ملکِ عزیز میں یہی کام انجام دیا ہے۔ اس ضخیم شمارے میں ۲۹۷ صفحات مکمل طور پر تنقیدی اور تحقیقی مضامین کے لئے مختص ہیں۔ درمیان میں کہیں بھی کوئی شعری تخلیق نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مدیرِ محترم اور ان کے سرپرستوں اور معاونین کونعت نگاری کے تئیں نہایت مخلص اورکُل وقتی قلمکاروں کا تعاون حاصل ہے۔ اس شمارے کی تخصیص مولانا عبدلرحمن جامی ؔخصوصی گوشے کی اشاعت ہے جس میں مولانا جامیؔ پر تنویر پھولؔ کا مضمون ’مولانا جامیؔ کی دومشہور نعتیں‘، مشہور محقق اور ماہرِ لسانیات و مترجم جناب ڈاکٹر سید یحییٰ نشیطؔ صاحب کا مضمون ’مولانا جامیؔ کی نعت نگاری‘ ڈاکٹر رضوان انصاری کا مضمون ’حضرت عبدالرحمن جامیؔ، نادرِ روزگار شخصیت‘ اورڈاکٹر نور احمد ربانی کی پیش کش ’مولانا عبدالرحمن جامیؔ کافارسی نعتیہ کلام کا اردو ترجمہ‘ خاصے کی چیز ہے۔ پچاس صفحات پر مشتمل یہ گوشہ اہمیت اور افادیت کے لحاظ سے اپنی نظیر آپ ہے۔ مولانا جامی ؔ عالمی نعتیہ ادب کے سرخیلوں میں شمار ہوتے ہیں۔ محبانِ محمدﷺ کی فہرست میں ان کا نام صفحۂ اول پرنمایاں ہے۔ اگر شخصی مضامین کی بات کریں تو ہمیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانصاحب بریلوی (ڈاکٹر صابر سنبھلی)، مظفر وارثیؔ( ڈاکٹر عزیز احسن) ، ڈاکٹر صغریٰ عالم(فیروز احمد سیفی)، جناب طاہر سلطانی(محسن اعظم محسن ملیح آبادی) ، رئوف امروہوی(ڈاکٹر صابر سنبھلی)،اعجاز کامیٹھوی(ڈاکٹر مشاہد رضوی)، مولانا فروغ اعظمی(مولانا نورالہدیٰ مصباحی)، نثار کریمی(مولانا وصال احمد اعظمی) جیسے نعت گو شعراء کی شخصیت کا سیر حاصل تعارف اور ان کے فنِ نعت گوئی کا کماحقہُ جائزہ ملتا ہے۔ خصوصی طور پر اردو کے ایک اہم اور بزرگ اور بلند قامت شاعر جناب کرشن کمار طورؔ کی نعت گوئی پر بھی ایک علاحدہ مضمون شامل ہے جس سے فنِ نعتِ نبیﷺ پر صرف مسلمانوں کا اجارہ نہ ہونے کی حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔

اردو نعتیہ ادب میں تنقیدی و تحقیق کے نئے دریچے وا کرنا ایک ایسا کارنامہ ہے جسے انجام دینے کی سکت بہت کم لوگوں میں ہے۔ کچھ لوگ جو یہ کام انجام دینے کی اہلیت رکھتے ہیں، یا تو یہ کام ان کی ترجیحی فہرست میں شامل نہیں ہے یا پھر انہیں توفیقِ الٰہی نصیب نہیں ہوئی۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ ان کا قلم اس سمت رواں ہوجائے تاکہ فنِ نعت گوئی میں تنقید و تحقیق پر کام کی رفتار بڑھ جائے۔ اس شمارے میں فنِ نعت گوئی پر تنقیدی و تحقیق مضامین کی کہکشاں دکھائی دیتی ہے۔ کیا نعت صنفِ سُخن ہے؟ اس موضوع پر جناب ڈاکٹر سید حسین احمد نے سیر حاصل بحث کی ہے۔ یہ ابتداء ہی سے ایک تحقیق طلب موضوع رہا ہے کہ کیا نعت کو ایک علاحدہ صنفِ سُخن تسلیم کیا جائے؟ اس بات سے اتفاق یا اختلاف ثانوی حیثیت رکھتا ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ اس موضوع پر گفتگو رفتار پکڑ رہی ہے۔ فنِ نعت اور نعت گوئی (ڈاکٹر سید خسرو حسینی صاحب) نعت اور ہماری شعری روایت (ڈاکٹر عزیز احسنؔ) نعتِ رسولِ مقبول ﷺ اور اس کا ارتقاء(ساجد حسین ساجدامروہوی) ناعت پر فیضانِ منعوت (قاضی محمد رفیق فائزؔ فتح پوری) انسانِ کامل ﷺ کا ذکرِ خیر (سید اقبال حیدر) نعتیہ شاعری کا تاریخی پس منظر( علیم صبا نویدی) ایسے مضامین ہیں جن کے مطالعے کے بعد فنِ نعت گوئی کے تعلق سے ہمارے بہت سے اشکالات کے تشفی بخش جواب ملتے ہیں۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

کچھ مضامین جن کے مطالعے سے فنِ نعت گوئی کی کچھ لسانی اور تحقیقی جہتوں کے باب وا ہوتے ہیں، وہ ہیں حدائقِ بخشش کے صنائع بدائع پر ایک اور نظر (ڈاکٹر صابر سنبھلی) حرفِ آرزو (منیر احمدملک) غیر منقوط حمدیہ و نعتیہ شاعری کا اجمالی جائزہ(طاہر سلطانی)میلادِ اکبر ایک مطالعہ(ڈاکٹر نذیر فتح پوری) علمائے گھوسی کی نعت نگاری۔ بعد ازاں یعنی سب سے آخر میں صفحہ ۳۴۶ سے صفحہ ۴۰۰ تک ، کُل ۵۴ صفحات پر نعتیہ شعری تخلیقات ہیں۔ کتاب عمدہ کاغذ، بہترین روشنائی، خوبصورت سرورق سے مزین ہے۔ مدیرِ محترم کی تمام تر محنت یقینا ہماری تحسین کی متقاضی ہے۔ اللہ ، اس کتاب کو مدیرِ مکرم ، سرپرست موصوف، نگرانِ اعلیٰ اور دیگر معاونین کی نجاتِ اخروی کا ذریعہ بنا دے۔ آمین۔

امید تو قوی ہے کہ یہ سلسلہ ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے میں تبدیل ہوجائے گا کیونکہ یہ کام کسی دنیاوی لالچ یا غرض کے پیشِ نظرنہیں کیا گیا ہے بلکہ محبتِ رسول ﷺ ہی اس کام میں مقدم رہی ہے۔

نئے صفحات