رؤف نیازی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

رؤ ف نیازی۔کراچی

10/ اکتوبر2014

نعت رنگ کا شمارہ ۲۴ ملا۔آپ نے بڑاکام کیاہے۔عصر حاضر میں نعت کا فروغ دیکھ کر دل خوش ہوتاہے آپ کی خواہش ہے کہ میں ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کچھ لکھوں سو چند پہلو جن پر میں غور کرتا رہا ہوں پیش کیے دیتا ہوں۔علم کائنات(cosmology)کی تاریخ ہیت دانوں astronomers)) کے مطابق ۳۵۰۰ سال پرانی ہے ہماری کائنات کے وجود میں آنے کی کھوج ا س کے مظاہر کے شاہدوں پر غور و خوض اورفکر و نظر کے ارتکاز کی ابتداء جن ممالک سے شروع ہوئی ان میں سیلون،چین، یونان، اٹلی، انڈیااور مصر شامل ہیں یہ اعزاز ارسطو (۳۸۴۔۳۲۲ق۔م) کو جاتاہے کہ اس نے اپنی تصنیف (Decaele on the Heavens)میں بیان کیا ہے کہ ہماری مقدس سرزمیں چھوٹے چھوٹے ۵۵ مقدس کرُوں کے درمیان چکر لگا رہی ہے ہماری زمین سے قریب ترین اور سب سے چھوٹا کرُہ چاند ہے ۔حشو و زوائد سے قطع نظر یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ارسطو کا نقطۂ نظر دو ہزار سال تک تسلیم کیا جاتا رہا اسے مورخین کی آراء میں کیتھولک فرقہ نے اپنے مفاد میں استعمال کیا اور علم کائنات کی تفہمیت و فروغ کی راہ میں روڑا بنا رہا ۔(The Handy space Answer Book TM Visible Imfa press-1998,USA.P-12)

حیات و کائنات کی ایسی حقیقت مطلق جس جو فکر ی ،نظری اور علمی ،عملی تائید حاصل ہو اب تک ممکن نہیں ہو ا ہے پیش نظر موجودات ومظاہر کی حقیقت کو فلسفہ حتیٰ الامکان پرکھتا اور برتتاہے اس کا ہدف اور دائرہ عمل اورناموجوددونوں کی کنہُ تک پہنچنا ہے تاہم فلسفہ حتمی اور فیصلہ کن نتائج یایقین دہانیوں سے گریز برتتا ہے۔فشٹے اسے علم و آگہی، کانٹ علم انتقادیات، اورنٹشے اسے تخیل و تصور (Conception) اور ادرک یا احساس (Preception) کی ثانویت میں تقسیم کر کے اسے فلسفہ کی ذیل میں رکھتے ہیں ۔ایک اور جہت اخلاقی و مذہبی اقدار کا توارث اور تسلسل ہے جو تحقیق و تفتیش سے عبارت ہے یہ برٹرینڈ رسل سے منسوب ہے المختصر فلسفہ کا ارتکاز سے عاری مدوجزر اسے کہیں ٹھہرنے نہیں دیتا یہ گھڑی میں تولہ ،گھڑی میں ماشہ میزان معاشرتی زندگی میں اپنی معنویت اور افادیت کھو بیٹھتا ہے اس کے برعکس سائنسی پیش رفت او ر اس کے انکشافات بڑی حد تک معاشرہ کو سدھارنے میں ’ر اۂِ راست بردُ گرچہ دور ہست‘ کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں ہر چند کہ سر جیمس کا اصرار ہے کہ سائنس جس مقام پر آکر سکوت واسقرار کا شکار ہو جاتی ہے فلسفہ وہاں سے اپنی پیشِ رفت کا آغاز کرتا ہے وۂپر نے فلسفہ اور سائنس دونوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سائنس ایک جسم ہے ،بے روح جسم اور فلسفہ روح ہے ،جسم کے بغیر گویا اس نے دونوں کوایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم قرار دے کر زندگی کے پہیہ کو پھر رواں دواں کر دیا۔

فلسفہ ہو یا سائنس یہ اجتماعی کاوشوں سے صورت پذیر ہو تاہے جب کہ فن کار تن تنہا پوری انسانیت کے لیے محبت ،ہمدردی اور خیر کاپیغام لے کر طلوع ہوتا ہے ۔فن کار اپنی تخیلاّتی اور تخلیقی سوچ کو رنگوں یا لفظوں کا جامہ پہناتا ہے تو گویا اپنے فن اور ہنرمندی کے توسط سے اپنی جذباتی ،حسیاتی ، جمالیاتی اور تجزیاتی کیفیات کو قارئین ،ناظرین یا سامعین تک منتقل کرتاہے سامع ،قاری یاناظر اس سے جو کیف و سرور یا فکر ونظر کے جن نئے ابعاد سے متعارف ہوتاہے اس صورت حال کو میور ہیڈ حساس سامع ،قاری یاناظر کی فطری محرومیوں اور نارسائیوں کی طمانیت و تسکین کاباعث گردانتا ہے فن کا حسن و جمال تخیل کی شادابی میں گھل مل کر ایک صاحب ادراک اور ایک نفس مُطمِنہ کے حامل قاری سامع یاناظر کو سکون و آسائش مہیا کرتا ہے اس راحت رساں فن کار کومیور ہیڈ ’’آفاقی انسان‘‘ کہتاہے جومافوق الانسان آفاقیت پر محیط ہونے کے سبب کائنات کا نگراں اور محّرک ہونے کا استحقاق رکھتاہے اس نکتہ پر آکر ہماری نظریں ان تقدیس یافتہ ، قابل احترام بابرکت محسنن انسانیت پر آکر پڑ جاتی ہے جو اپنے اپنے زمان و مکان میں بحثیت انبیاء اکرام تشریف لائے خالق و مخلوق کے درمیان حد ادب کے رابطے اور ضابطے پیش کیے خالق و مخلوق کے درمیان عابدو معبود کی تفریق کو نمایاں کیا، جزا و سزا کا تصور دیا۔ آداب بندگی سکھائے رب العالمین کی آفاقیت اور حاکمیت کا درس دیا اور اس ابدالآباد کی حقانیت کے حضور سجدہ ریزی اور تضرع کی تلقین کی اسی رشد و ہدایت کی آخری کڑی سرور کونینصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفا ت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت زیبا ہو یا سیرت مُنزہ ایثار ہو یا انکسار ،فکر رسا ہو یا ذکر خدا، عفو و درگزرہو یا برداشت و صبر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ہر پہلو خالق کائنات کی رضامندی اور خوشنودی سے مشروط ہے ۔کیٹس (Johan Keats,1795-1821) نے سچ کہا ہے )"Beuty is truth, truth is beauyt" حسن صداقت ہے اور صداقت حسن ہے) حسن و صداقت کے اس پیکر جمیلصلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں تلے آنے والے خزف ریزے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثاروں کے لیے کسی گوہر نایاب سے کم نہیں ۔دین و دنیا کی سرخ روئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور نقوش قدم کی پیروی میں مضمر ہے۔

ہماری وجود یت(Existentialism) اور اس کی مظہر یات (Phenomenology)کا بنیادی قضیہ یہ ہے کہ ان دونوں میں اولیت یا ترجیح کس کو حاصل ہے ؟ فرد کے وجود کو یا اس کے اوصاف کو ؟ جرمن مفکر ہیڈ یگر(Martin Heidegger,1889-1976)اپنی تصنیف"Time and Being" (ہستی و زمان)میں ،فرد کی اس کائنات میں ہوئیت کو(Dasein) سے تعبیر کرتا ہے "Field Theory of Dasein" کے مطابق یہ کہیں ٹک کر نہیں بیٹھتا ۔موجودات سے بھری پوری دنیامیں اپنی ذات کو کھوجتا اور اس کی قدر کا تعین کرتاہے یہ ’وجود ‘فی العلالم بامعنیٰ اور بامقصد ہے اگر انسان اپنے مختصر عرصہ حیات میں بر وقت اپنے اہداف کی تکمیل کر لے تو فبہا بصورت دیگر پچھتاوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔’وجود‘ فی العالم کی عارضیت کو ہیڈگر 'Temporal Temporality'،(زمانی عارضیت ) کا نام دیتا ہے اس کی دانست میں مغربی فلسفہ وجودیت اور عدم وجودیت اپنی تفہمیت، وسعت اور کارکردگی میں ادھورا ،نامکمل اور غیر موثر ہے وہ پانچویں صدی (ق۔م) کے چینی فلسفی لازوئے اور سدھارتھ گوتم بدھ (۵۶۰تا۴۸۰،ق۔م) کی تعلیمات او ر نگارشات کو جو مذہبی عجز و انکسار، پارسائی ، خدا ترسی ،تقوی و پرہیزگاری اور دنیا وی لہو لعب سے پاک شفاف ہیں ان کو افضلیت دیتا ہے ۔جرمن مفکر ہیڈگر کے اس فلسفہ اور اس کی تعلیمات کو ساتر نے فرانس میں متعارف کرایا اور حتی الامکان فروغ دینے کی کوشش کی ۔

دنیا کو کوئی فرد نہ تو عقل کُل ہوتا ہے اور حرف آخر ۔خطا و نسیاں کا یہ پتلا حیات و کائنات کی پُر پیچ وادیوں میں دامن سمیٹے ،گرتا پڑتا ،ٹھوکریں کھاتا Zigzag Graph کی صورت اپنی مجوزہ منزل تک پہنچنے کی تگ و دو میں تن من دھن سب کچھ لٹاکر یقین سے نہیں کہ سکتا کہ وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے گا عمومی بشریت کا یہی وتیرہ اور طورطریق ہے یہ اعزاز نبیوں اور رسولوں کے حصہ میں آیا ہے جنہیں خالق کائنات نے’ بشریت کی تخصیصیت‘ کے ساتھ انسانیت کی فلاح اوربہبود کے لیے زندگی کے عمودی (up-right)گراف کے ساتھ اس طلسم حیات کی گوں ناگونی میں بھیجا گویا ایں سعادت بزور بازو نیست۔اس بشریت کی تخصیصیت سے بڑھ کر ایک آخری مقام تکمیلیت کا ہے اس کی واحد اور اپنی مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی آخری الزماں رسالت مآب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جو ’بشریت کا ملہ ‘ کے مقام پر فائز ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و صفات لاثانی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر منظوم ہو یا منثور خیر الوراسے ماروا کی نا مختنم کائنات تک پھیلا ہواہے جہاں تک منظوم کا تعلق ہے تو ممکن ہے بعض اذہان میں یہ ابہام پیدا ہو کہ خود قرآن ’’سورہ الشعرا ‘‘ جومکی ہے دو سوستائیس (۲۲۷) آیتوں اور گیارہ (۱۱) رکوع پر مشتمل ہے اس میں آیت نمبر ۲۲۴،۲۲۵ اور ۲۲۶ کا بالترتیب اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:

’’شاعروں کی پیروی وہ کرتے ہیں کہ جو بہکے ہوئے ہیں ...........‘‘(آیت ۲۲۴) ص۱۰۴۲

’’ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ شاعر ایک بیاباں میں سر ٹکراتے پھرتے ہیں.......‘‘(آیت ۲۲۵)ص۱۰۴۲

’’اور وہ کہتے ہیں جو کرتے نہیں .............‘‘(آیت ۲۲۶) ص۱۰۴۲

آیت نمبر ۲۲۷ میں استشناء کی جو صورتیں ہیں وہ اس طرح ہیں :

سوائے ان کے جو ایمان لائے (۱) اورنیک عمل کیے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا (۲) جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ بھی ابھی جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں (۳)۔

[قرآن کریم مع اردو ترجمہ و تفسیر ص۱۰۴۳،مطبوعہ شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس]

۱)ان شاعروں کا مستثنی قرار دیا ہے جو صداقت اور حقائق پر مبنی شاعری کرتے ہیں ۔ ص،۱۰۴۳،قرآن کریم مع اردو ترجمہ و تفسیر ص ۱۰۴۳ ، مطبوعہ شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس

۲) جو کافر شاعروں کو شاعری میں جواب دیتے ہیں ۔(مثلاًحضرت حسان بن ثابتؓ )، ص ۱۰۴۳، ایضاً

۳) حدیث مبارکہ ہے کہ ’’ ان (کافروں) کی ہجو بیان کرو ،جبریل علیہ السلام بھی تمہارے ساتھ ہیں، ص۱۰۳۳،ایضاً

وجودی وحدت (Ontological Unity) اور عددی وحدت (Numerical Unity) دو مختلف النواع وحدتیں ہیں کلیات اور جزیات دونوں بیک وقت کسی ایک معروض (Object)میں موجود نہیں ہو سکتیں اگر وجودی وحدت پر اصرار ہے تو عددی وحدت سے انکار لازمی ہے اگر وجودی وحدت پر اصرار ہے تو عددی وحدت سے انکار لازمی ہے اگر عددی و حدت کا اقرار ہے تو وجودی وحدت سے دست برداری لازمی ہوگی گویا کل اور اجزاء میں سے کسی ایک عنصر (Factor) اپنا اثبات کرانے کے لائق ہو گا دوسرے عنصر کی نفی لازمی قرار پائے گی ایمانیات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ پہلے لات و منات کی نفی کی جائے اور پھر واحدہ لا شریک کی ذاتِ والاصفات کا صدقِ دل سے اعتراف کیا جائے اور اس اثبات کے بعد پھر دستِ دعا کسی غیر اللہ کے سامنے دراز نہ ہو یہ اعلیٰ و ارفع مقام و اصل باللہ کا ہے ۔

حاشہ للّلہ کوئی ذات ماسواخاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلمکے ایسی نہیں جو واصل باللہ ہونے کااعزازرکھتی ہو ۔ایسی تقدیس یافتہ رہبر و محسن انسانیت شخصیت کی جس قدر تعریف و توصیف کی جائے وہ کم ہے یہی وجہ ہے کہ عہد رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم سے آج تک ہر وہ شاعر جس نے حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں ،رفعتوں اور بشری بلندیوں کے بارے میں سوچا وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کچھ نہ کچھ نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگیا کچھ شعرا کو بہت زیادہ کامیابی نصیب ہوئی اور انہوں نے شعرِ عقیدت ہی کہتے رہنا اپنا شعار بنا لیا ۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شعرا کی حوصلہ افزائی فرمائی ۔واجب الاحترام ڈاکٹر سید ابو الخیر کشفی نے آسمان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت ،افادیت، رفعت اورمعنویت کو دو مصرعوں میں سمیٹ کر گویا کوزے میں دریا بند کر دیا ہے ۔

آپ کے نام میں ہر لفظ کا مفہوم ملے

میرے سرکار ہیں ہر دور کی زندہ فرہنگ

شمائل ترمذی سے روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حسان بن ثابت کفار کے الزامات کا منظوم جواب دیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں منبر کا اہتمام کرتے تھے تاکہ اس پر کھڑے ہو کر کفار کو للکاریں حضرت جابر بن سمرہؓ بھی گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ اکرام کے ان اشعار سے لطف اندوز ہوتے تھے جو عہد جاہلیت کے بیانیہ کی حیثیت رکھتے تھے ۔ اسی طرح حضرت ژیدؓ سے امُیّہ کے اشعار بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سماعت فرمائے ۔اس سے ثابت ہوگا کہ شاعری اسلام میں شجر ممنوعہ نہیں ہے ۔ مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاجذبہ عربی کے شعرا سے فارسی گویانِ عجم میں منتقل ہوا اور وہاں بڑے بڑے شعرا جن میں جامی ،قآنی ،فرید الدین عطار ،سعدی وغیرہ ہم نے نعتیہ اشعار کہہ کرحضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوخراجِ عقیدت پیش کیا۔ پھراردو زبان کی ابتدا ء ہی سے نعتیہ اشعار اردو شعری روایت کاحصہ بنتے رہے ۔فخر دین نظامیؔ نے مثنوی کدم راؤ پدم راؤ (جس کا زمانہ ،تصنیف ۸۲۵ھ تا ۸۳۹ ھ مطابق : ۱۴۲۱ ء تا ۱۴۳۵ء بتایا جاتاہے ) میں حمد کے بعد نعت ہی کہی ۔پھر تو یہ سلسلہ ایسا چلا کہ غیر مسلم شعرا بھی نعت کہنے لگے ۔

پاکستان میں نعتیہ ادب کے فروغ کی تو ایک تاریخ ہے ۔ یہاں نعتیہ شعری اقدار اس طور پھلی پھولیں کہ نعتیہ صحافت کاایک الگ میدان سج گیا۔ شعراے اردو نے بڑی کامیاب نعتیں کہیں ۔ حفیظ جالندھری ، ماہرالقادری ،بہزاد لکھنوی وغیرہ ہم سے لے کر حفیظ تائب ،عبدالعزیز خالد اور صبیح رحمانی تک بے شمار شعرا نے یہ سعادت حاصل کی ۔ اب نعتیہ شعری سرمائے میں روز افزوں اضافہ ہی ہورہا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اردو کی شائع ہونے والی شعری تخلیقات پر مبنی ۶۰222کتب نعتیہ اشعار پر مشتمل ہوتی ہیں۔

میں نے جون کیٹس کایہ قول نقل کیا تھا کہ ’’حسن صداقت ہے اور صداقت حسن ہے ‘‘ ۔۔۔اس قول کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انسانی فطرت میں جو جمال پرستی رکھی گئی ہے وہ اپنی ارتفاعی Sublimity based))شکل میں ’’صداقت ‘‘ پرستی بن کر ان شخصیات کو محبوب بنادیتی ہے جو سراپا صداقت ہوتی ہیں ۔ یہ بات بلا خوفِ تردید ی کہی جاسکتی ہے کہ کائنات میں صرف اورصرف ایک ذاتِ محمدی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایسی ہے کہ جو بشریت کے محاسن کی تکمیلی شکل میں عالمِ بشری کو میسر آئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ذاتِ ستودہ صفات ہرراست فکر انسان کی محبوب ہے ۔ نعتیہ ادب کے فروغ کی اساس حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی اسی محبوبیت پر قائم ہے اور جوں جوں انسانی شعور ارتقائی منازل طے کرے گا انسان آپصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی کی طرف متوجہ ہوگا۔ لیکن آپ کی شان بیان کرنا آسان نہیں ہے اسی لیے خورشید رضوی نے کہا تھا:

شان ان کی سوچئیے اورسوچ میں کھو جائیے

نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہو جائیے

اس تناظر میں ’’نعت رنگ‘‘کی خدمات لائق تحسین ہیں ۔میں آپ کے اورمجلس مشاورت کے تمام اراکین کے لیے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت انہیں اس کارخیر کا اجر عطا فرمائے۔(آمین)


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت | نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25