رضا بریلوی کی نعت گوئی میں مضمون آفرینی۔ڈاکٹر صابر سنبھلی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


از ڈاکٹر صابر سنبھلی

رضاؔ بریلوی کی نعت گوئی میں مضمون آفرینی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعری محض موزوں مصرعوں کے جوڑ توڑ اور ردیف قافیے کے استعمال کانام نہیں ہے ۔اگر الفاظ کے ایسے اجتماع جس میںردیف و قوافی تو موجود ہوں مگر تخیل کی کار فرمائی نہ ہو ،تک بندی یا برائے نا م شاعری تو کہا جاسکتا ہے ،اعلیٰ درجے کی شاعری نہیں ،تخیل کی بلندی سے کلام میں جو خوبیاں پیدا ہوتی ہیں ، وہ ہیں تشبیہات و استعارات ، تما م صنائع معنوی ، اصلیت ، باریک بینی ،بلند خیالی، جذبات نگاری، جوش ، دقت نظر،زور کلام، فلسفیانہ نکات ،طنز ،محاکات ، مرقع نگاری، منظر نگاری ، مطائبات، معاملہ بندی ، نزاکت خیال ، نکتہ آفرینی و غیر ہم۔ ان خوبیوں کی وجہ سے ہی کسی شاعر کی کوشش صحیح معنی میں شاعری بنتی ہے۔

ایسی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں جن میں باوجود موزو نیت کے شویت نہیں پائی جاتی دو مثالیں پیش خدمت ہیں۔

’’ہماری شاعری ’’مصنفہ سید مسعود حسن رضوی ادیبؔ لکھنوی میں اس کی مثال میں ایک بیت یوں لکھی ہے۔ ؎

ہاتھی کو بڑا کیا بڑا ہے

لٹھّے کو کھڑا کیا کھڑا ہے

دونوں مصرعے موزوں ہیں ، ردیف اور قافیے موجود ہیں، مگر اس کو شعر وہی کہے گا جو شعر کی ماہیت اور کیفیت سے بے خبر ہو ۔ پروفیسر گیان چند جین نے بھی ایسی نام نہاد شاعری کی کچھ مثالیں کسی مضمون میں دی تھیں۔وہ مضمون تو اس وقت پیش نظرنہیں ہے البتہ مثالاًدی گئی ایک بیت یاد داشت میں محفوظ ہے۔ وہ اس طرح ہے ؎

جنت تمہیں دلائے گی اے بی بیونماز

اﷲ سے ملائے گی اے بی بیو نماز

موزونی اور ردیف و قوافی کے ساتھ اس میں اصلیت اور سچائی بھی ہے، کہنے والے نے بڑی اچھی بات کہی ہے ۔ اس لئے ان دو مصرعوں میں خلوص کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ جو کچھ کہا گیا ہے اُس میں سچائی بھی ہے، مگر فن شاعری کا کوئی پارکھ اور ادب کا نقاد اس کو اعلیٰ درجے کا شعر نہیںکہہ سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں تخیل کی کا ر فرمائی نہیں۔ نماز کی تاکید کا احترام رکھتے ہوئے کوئی مجھ جیسا راسخ العقیدہ اس کو معمولی درجے کا شعر ضرور قرار دے سکتا ہے۔

اردو شاعری کی طویل تاریخ میں ہزار ہا شاعر طبع آزمائی کر چکے ،لاکھوں بلکہ کروڑوں شعرکہے جاچکے ہوں گے۔نئے مضامین کا کال ہوگیا ہے۔بہت سے چُھٹ بھّیے شعراء دوسروں کے پیدا کردہ مضامین کو الفاظ بد ل بدل کر نیاروپ دے رہے ہیں ۔اُس کو’’ شراب کہن در جام نو‘‘ تو کہا جاسکتا ہے ،مگر اس سے کہنے والے کی طبیعت کی اُپج کا کوئی پتہ نہیں چلتا ۔صاحب آب حیات نے کسی جگہ اس چیز کو چبائے ہوئے نوالے منھ میںپھرائے جانے سے تعبیر کیا ہے اور یہ تعبیر درست ہے۔

نئے مضامین کی تلاش اور ان کے نئے اظہار کے لئے ہی جدید شاعری منصّہ شہود پر جلوہ گر ہوئی اور غزل نے ایسا چولا بدلا کہ اپنے لغوی (حکایت کردن با محبوب)سے کوسوں دور جاپڑی اور جدید غزل تو غم جاناں کے بجائے غم دوراں کی ترجمان بن گئی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ نعت کا میدان غزل کے مقابلے بہت محدود ہے اس پر شریعت کی قدغن نے اس کو اور بھی محدود کردیا ہے۔ اردو نعت گوئی کی تاریخ بھی لگ بھگ اردو غزل کے قدم بہ قدم چلتی رہی ہے۔[[:

زمرہ: نعت گو شعراء | نعت گو شعراء]] کی بھی کمی نہیں رہی ۔اس لئے اس میں چند مضامین کی تکرار بہت نظر آتی ہے۔ حصول ثواب کے لئے یہ بھی کار آمد ہے مگر ایک فن کا پارکھ چاہتا ہے کہ قدیم کے ساتھ کچھ جدید بھی ہو ۔مضامین نہ سہی اُن کے بیان کرنے کاانداز ہی اپنے اندر نیا پن رکھتا ہو۔لیکن کہنے والوں کے سامنے بھی مشکل یہ ہے کہ نئے مضامین کہاں سے لائیں ۔چودھویںصدی کے مجددِ دین نے جب دین کے پژمردہ چہرے کو رونق اور شادابی دی تو اس نے نعت کو بھی نوبہ نو مضامین اور بدلا ہوا اسلوب دے کر نیا رنگ اور نیا مزاج دے دیا۔اس اجمال کی تفصیل کچھ اس طرح ہے ۔

شاعری میں نعت گوئی کی روایت سرکارِ ابدقرار ﷺ کی حیات ظاہری سے ہی ملتی ہے۔اس سلسلے میں حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ کا نام نامی مشہور ومعروف ہے، اُس زمانے میں نعت کے مضامین کون کون سے تھے یہ تو تحقیق کا موضوع ہے ، مگراتنا کہا جا سکتا ہے کہ جیسے جیسے نعت گوئی کا کارواں آگے بڑھتا رہا اُس میں نو بہ نو مضامین شامل ہوتے رہے۔

عربی سے فارسی میں آتے آتے بہت سے نئے مضامین نعت کا جُز بن گئے اور فارسی میں مضامین نعت نے بہت ترقی کی۔ اگر چہ اردو نعت گوئی کی ابتدا بڑے سپاٹ انداز میں ہوئی، مگر پھر فارسی کے مضامین اُردو میں شامل ہونے لگے اور بعض طباع نعت گویوں نے نئے مضامین بھی پیدا کئے، جو اپنے زمانے میں بہت مقبول رہے ہوں گے مگر اب بار بار کی تکرار سے فرسودہ معلوم ہوتے ہیں۔ اگرچہ بعض شعراء اب بھی اُن کو نظم کرتے ہیں۔

سرکارِ دو جہاں ﷺ کا حسین وجمیل سراپا، اُن کی حق گوئی، اُن کے اخلاق کریمانہ، اُن کی سادگی، سخاوت، داد ودہش اُن کے روضے کے دیدار کی تمنا، روزحشر شفاعت کی آرزو، طلب استعانت ودستگیری، معجزات، تصرفات، معمولاتِ شب وروز اور ان جیسے بہت سے مضامین سے اُردو کی روایتی نعت مالا مال ہے ۔جن شعراء نے نعت پر زیادہ توجہ دی انہوں نے اگرچہ انہیں موضوعات کا سہار الیا مگر بات کہنے کے ڈھنگ نے مضمون کو کہیں سے کہیں پہنچادیا اور قاری یا سامع کو ایسا معلوم ہوا جیسے وہ جو پڑھ یا سن رہا ہے وہ نیا مضمون ہے۔

شاعری کے اسی فن میں مضمون آفرینی کا راز پنہاں ہے۔ ندرت بیان ، نادر ہ کار ی، تازہ کاری، جد ت ادا اور لطافت معنی بھی اس کی مختلف شکلیں ہیں یا تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ بدلے ہوئے نام ہیں۔

چودھویں صدی ہجری میں بر صغیر کے چند نامور نعت گو شعراء اتر پردیش میں ہی ہوئے۔ ان میں امام احمد رضا فاضل بریلوی استاذِ زمن مولانا حسن رضا خاں صاحب حسنؔ بریلوی، مولانا محسنؔ کا کوروی ، مولانا ضیاءؔ القادری بدایونی ، حافظؔ پیلی بھیتی کے نام خاص طور سے ذکر کے قابل ہیں ۔ ان نعت گو شعراء میں امام احمد رضا فاضل بریلوی کا مقام سب سے ارفع و اعلیٰ ہے ۔ان صفحات میں اسی عظیم ہستی کی نعتوں میں مضامین نو کی نشاندہی مقصودہے ۔ان صفحات کے مطالعے سے معلوم ہوگا کہ امام موصوف کو مضمون آفرینی میں کیسا ملکہ حاصل تھا۔

عظمت مصطفیٰ ﷺ ایمانی عقیدہ ہے ۔اس کو تسلیم کیے بغیر کوئی مومن تو کجا مسلمان بھی نہیں ہوسکتا چاہے وہ دن رات سجدے کرتا رہے ۔یہ عقیدہ عاشقان نبی کے لئے جانِ ایمان ہے اس عقیدے کی تبلیغ امام احمد رضا کے لئے مشن کا درجہ رکھتی تھی۔ ان کی نثر اور شاعری میں ہر جگہ اس عقیدے کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے ۔نعت کے درج ذیل اشعارمیں عظمت مصطفیٰ ﷺ کے اظہار کے لئے جس طرح مضمون آفرینی کی گئی ہے وہ دیکھتے ہی بنتی ہے ؂

عصائے کلیم اژدہائے غضب تھا

گروں کا سہارا عصائے محمد ﷺ

نام حق پر کرے محبوب دل و جاں قرباں

حق کرے عرش سے تا فرش نثار عارض

سرِ فلک نہ کبھی تابہ آستاں پہنچا

کہ ابتدائے بلندی تھی انتہائے فلک

تنکا بھی ہمارے تو ہلائے نہیں ہلتا

تم چاہو تو ہوجائے ابھی کوہِ محن پھول

نازشیں کرتے ہیں آپس میں ملک

ہیں غلامانِ شہِ ابرار ہم

مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں

دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں

اگر چہ یہ مضمون بعدمیں بہت نظم ہوا مگر اس کی اصل یہی شعر ہے ؂

وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سر عرش تخت نشیں ہوئے

وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاںوہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں

ترا کھائیں تیرے غلاموں سے اُلجھیں

ہیں منکر عجب کھانے غرّا نے والے

سن لیں اعدا میں بگڑنے کا نہیں

وہ سلامت ہیں بنانے والے

تیرے ہی دامن پہ ہر عاصی کی پڑتی ہے نظر

ایک جانِ بے خطا پر دو جہاں کا بارہے

قرآن کریم میں یہی نام باری تعالیٰ جل سبحانہٗ کے لئے بھی آئے ہیں اور مصطفیٰ جان رحمت ﷺ کے لئے بھی ۔اس کا فائدہ اٹھا کر کیا مضمون پیدا کیا ہے اور اس کو کس انداز میں ادا کیا ہے داد دیتے ہی بنتی ہے ؂

عرش پہ جاکے مرغ عقل تھک کے گراغش آگیا

اور ابھی منزلوں پر ے پہلا ہی آستان ہے

وہ تو نہایت سستا سودا بیچ رہے ہیں جنت کا

ہم مفلس کیا مول چُکائیں اپنا ہاتھ ہی خالی ہے

وہ نامی کہ نام خدا نام تیرا

رؤف و رحیم و علیم و علی ہے

حدیث قدسی کے مضمون لولاک لما خلقت الافلاک <ref> اگرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود نہ ہوتا تو اللہ تعالی مخلوق کوبھی پیدا نہ فرماتا </ref> کی بڑے عجیب انداز میں ترجمانی کی گئی ہے ؂

ہوتے کہاں خلیل و بنا کعبہ و منیٰ

لولاک والے صاحبی سب تیرے گھر کی ہے

سرکار دو عالم ﷺ کی داد و دہش ، عطا و سخا کے بار ے میں مختلف اسا لیب میں بہت کچھ کہا گیا ہے مگر امام احمد رضا نے اس مضمون میں بھی جدت پیدا کردی ۔فرماتے ہیں۔ ؎

دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا

تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرّہ تیرا

اس گلی کا گدا ہوں میں جس میں

مانگتے تاجدار پھرتے ہیں

اب تو نہ روک اے غنی عادت سگ بگڑ گئی

میرے کریم پہلے ہی لقمۂ تر کھلائے کیوں

میرے کریم سے گرقطرہ کسی نے مانگا

دریابہا دیئے ہیں دُربے بہادیئے ہیں

دینے والا ہے سچا ہمارا نبی ﷺ

کون دیتا ہے دینے کو منھ چاہیے

سرکار دو عالم ﷺ کے جسم پاک و لطیف کا سایہ نہ تھا بعض نعت گویوں کے کلام میں کچھ اس طرح کا مضمون سننے کو ملتا ہے کہ’’ اگرچہ آپ کے جسم کا سایہ نہیں تھا مگر آپ کا سایہ تمام امت کے سروں پر ہے ‘‘۔یہاں دوسرے سائے سے مراد سرکار کی سرپرستی ہے۔ گوکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضمون جدید دور کی پیداوار ہے مگر غور کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ اس کو بھی(شاید) سب سے پہلے امام احمد رضا نے ہی باندھا تھا۔حدائق بخشش میں سرکار کے جسم بے سایہ سے متعلق یہ مضمون اس طرح نظم ہواہے ؎

جلتی تھی زمیں کیسی تھی دھوپ کڑی کیسی

لو وہ قدِ بے سایہ اب سایہ کناں آیا

جسم بے سایہ کے بارے میں فرماتے ہیں ؎

مہر کس منھ سے جلوداری جاناں کرتا

سایہ کے نام سے بیزار ہے یکتائی دوست

راہ نبی میں کیا کمی فرش بیاض دیدہ کی

چادر ظل ہے ملگجی زیر قدم بچھائے کیوں

ہر سچے نعت گو بلکہ ہر عاشق رسول کے نزد یک شہر رسول ﷺ کی الفت اور چاہت جزوِ ایمان و باعث راحت جان ہے ۔امام احمد رضا کوئے حبیب کی اُلفت میں شرابور ہیںان کے منظوم جذبات کی ایک جھلک ملاحظہ ہو۔صرف وہی اشعار درج کئے گئے ہیں جن میں مضامین نو باندھے گئے ہیں۔ ؎

چمن طیبہ ہے وہ باغ کہ مرغ سدرہ

برسوں چہکے ہیں جہاں بلبل شیدا ہوکر

نام مدینہ لے دیا چلنے لگی نسیم خلد

سوزش غم کو ہم نے بھی کیسی ہوا بتائی کیوں

حور جناں ستم کیا طیبہ نظر میں پھر گیا

چھیڑ کے پردۂ حجاز دیس کی چیز گائی کیوں

ان کی حرم کے خار کشیدہ ہیں کس لئے

آنکھوں میں آئیں سر پہ رہیں دل میں گھر کریں

جو ترے در سے یار پھرتے ہیں

در بدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں

پھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں

دشت طیبہ کے خار پھرتے ہیں

چمن طیبہ میں سنبل جو سنوارے گیسو

حور بڑھ کر شکنِ ناز پہ وار ے گیسو

کاش آویز ۂ قندیل مدینہ ہو وہ دل

جس کی سوزش نے کیا رشک چراغاں ہم کو

خوف ہے سمع خراشی سگ طیبہ کا

ورنہ کیا یاد نہیں نالۂ و افغاں ہم کو

خار صحرائے مدینہ نہ نکل جائے کہیں

وحشتِ دل نہ پھر اکوہ و بیاباں ہم کو

اے خار طیبہ دیکھ کہ دامن نہ بھیگ جائے

یوں دل میں آکہ دیدۂ تر کو خبر نہ ہو

پارۂ دل بھی نہ نکلا دل سے تحفے میں رضاؔ

ان سگانِ کوٗ سے اتنی جان پیاری واہ واہ

حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا

ارے سرکا موقع ہے اوجانے والے

مدینہ کے خطے خدا تجھ کو رکھے

غریبوں فقیروں کے ٹھہرانے والے

جیتے کیا دیکھ کے ہیں اے حورو!

طیبہ سے خلد میں آنے والے

اسی در پرتڑپتے ہیں مچلتے ہیں بلکتے ہیں

اُٹھا جاتا نہیں کیا خوب اپنی ناتوانی ہے

ہر اِک دیوار ودرپر مہرنے کی ہے جبیں سائی

نگار مسجد اقدس میں کب سونے کا پانی ہے

جہاں کی خاک روبی نے چمن آرا کیا تجھ کو

صبا ہم نے بھی ان گلیوں کی کچھ دن خاک چھانی ہے

یہ پیاری پیاری کیاری ترے خانہ باغ کی

سرد اس کی آب و تاب سے آتش سقرکی ہے

جنت میں آکے نار میں جاتا نہیں کوئی

شکر خدا نوید نجات و ظفر کی ہے

ان دونوں قطعہ بند شعروں میں احادیث کریمہ کی روشنی میں جونیا مضمون پیدا کیا ہے وہ اور کسی نعت گو کو نہیں سوجھا ، نازک خیالی کی انتہا ہے ؂

آغوش شوق کھولے ہے جن کے لئے حطیم

وہ پھر کے دیکھتے نہیں یہ دھن کدھر کی ہے

ہاں ہاں رہِ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ

او پاؤں رکھنے والے یہ جاچشم وسر کی ہے

کعبہ دلھن ہے تربت اطہر نئی دلھن

یہ رشک آفتاب وہ غیرت قمر کی ہے

دونوں بنیں سجیلی انیلی بنی مگر

جو پی کے پاس ہے وہ سہاگن کنورکی ہے

بیت اﷲ اور روضہ انور کے غلافوں کے الگ الگ رنگ ہونے سے کیا مضمون پیدا کیا ہے سبحان اللہ ؎

سر سبز وصل یہ ہے سیہ پوش ہجروہ

چمکی دوپٹوں سے ہے جو حالت جگر کی ہے

مدینہ کی محبت اس ملک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جس ملک میں یہ واقع ہے۔ملاحظہ ہوں چند اشعار۔(صرف وہی اشعار نقل کئے جارہے ہیں جن میں مضمون آفرینی کمال پر ہے) ؎

تاب مرآت سحر گردِ بیابان عرب

غازۂ روئے قمر دود چراغان عرب

تشنۂ نہر جناں ہر عربی و عجمی

لب ہر نہر جناں تشنۂ نیسان عرب

عند لیبی پہ جھگڑتے ہیں کٹے مرتے ہیں

گل و بلبل کو لڑاتا ہے گلستا ن عرب

چرچے ہوتے ہیں یہ کمہلائے ہوئے پھولوں میں

کیوں یہ دن دیکھتے پاتے جو بیابان عرب

ہشت خلد آئیں وہاں کسبِ لطافت کو رضاؔ

چار دن برسے جہاں ابر بہار ان عرب

سید البشر خاتم النبیین حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ اعلیٰ اخلاق ، بے مثال حُسن سیرت کے ساتھ ساتھ حسن صورت میں بھی لاثانی تھے ۔ان جیسا حسین نہ ان سے پہلے کوئی ہوا اور نہ ان کے بعد، حضرت رسالت مآب ﷺ کی اس صفت کو نعت کے تقریباً سبھی شعراء نے اپنے اشعار میں جگہ دی ہے۔ صدیوں کی تکرار کے باعث یہ مضامین فرسودہ ہوگئے تھے اس لئے بعض مادّیت پرست ایسے اشعار کو سن کر ناک بھوں چڑھانے لگے تھے ۔ امام احمد رضا نے حضرت ختمی مرتبت کے حسن صورت کے بیان میں بہت سے اشعار کہے مگر کسی کو مضامین کی فرسودگی کا شکوہ نہ ہوا۔ اس لئے کہ اس باب میں نئے نئے نکات بیان کر کے مضمون آفرینی کا حق ادا کر دیا ۔ایسے کچھ اشعار ذیل میں درج کئے جاتے ہیں ؎

طرفہ عالم ہے وہ قرآن اِدھر دیکھیں اُدھر

مصحف پاک ہو حیران بہار عارض

کیا ٹھیک ہو رخ نبوی پر مثال گل

پامال جلوۂ کف پا ہے جمال گل

دب کے زیر پا نہ گنجایش سمانے کو رہی

بن گیا جلوہ کف پا کا ابھر کر ایڑیاں

وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں

یہی پھول خار سے دو رہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

دیکھو قرآں میں شب قدر ہے تامطلع فجر

یعنی نزدیک ہیں عارض کے وہ پیارے گیسو

عرش جس خوبی رفتار کا پامال ہوا

دو قدم چل کے دکھا سرو خراماں ہم کو

بزم ثنائے زلف میں میری عروس فکر کو

ساری بہار ہشت خلد چھوٹا سا عطر دان ہے

پیش نظر وہ نوبہارسجدے کو دل ہے بے قرار

روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے

شانِ خدا نہ ساتھ دے ان کے خرام کاوہ باز

سدرہ سے تا زمیں جسے نرم سی اک اڑان ہے

وہ گل ہیں لب ہائے نازک ان کے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے

گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلشن گلاب میں ہے

نقاب الٹے وہ مہرانور جلال رخسار گرمیوں پر

فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی تپکتے انجم کے آبلے تھے

وہ ظلِ رحمت وہ رخ کے جلوے کہ تارے چھپتے نہ کھلنے پاتے

سنہری زر بفت اودی اطلس یہ تھان سب دھوپ چھاؤں کے تھے

شب لحیہ و شارب ہے رخ روشن دن

گیسو و شب قدر و برات مومن

مژگاں کی صفیں چارہیں دو ابرو ہیں

والفجر کے پہلو میں لیالٍ عشرٍ

تخیل کی بلند پروازی بھی کسی کلام کو بہترین شعر بنا سکتی ہے اسلئے شاعری کے لئے یہ قوت از بس ضروری ہے ورنہ شاعری تک بندی بن کر رہ جاتی ہے ۔اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مضمون آفرینی قوت متخیلہ کا ہی جز ہے، مگر نعت میں اس کے استعمال میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ غزل کی طرح نعت میں ہر جگہ اور ہر موقع پر اس کا استعمال نہیں ہوسکتا۔ امام احمد رضا کو قصیدۂ معراجیہ میں اس کے اظہار کا موقع مل گیا اس لئے اس قصید ے میں نوبہ نو مضامین کے انبار نظر آتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎

نئی دلھن کی پھبن میں کعبہ نکھرکے سنور ا سنور کے نکھرا

حجر کے صدقے کمر کے اِک تل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے

یہ جھوما میزاب زر کا جھومر کہ آرہا کان پر ڈھلک کر

پھوہار برسی تو موتی جھڑ کر حطیم کی گودمیں بھرے تھے

دولھن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیم گستاخ آنچلوں سے

غلاف مشکیں جو اڑ رہا تھا غزال نافے بسا رہے تھے

یہ جوششِ نور کا اثر تھا کہ آب گوہرکمر کمر تھا

صفائے رہ سے پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹتے تھے

بڑھا یہ لہرا کے بحر وحدت کہ دھل گیا نام ریگ کثرت

فلک کے ٹیلوں کی کیا حقیقت یہ عرش و کرسی دو بلبلے تھے

چلا وہ سروچماںخراماں نہ رک سکا سدرہ سے بھی داماں

پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب این و آںسے گزرچکے تھے

جھلک سی اک قدسیوں پر آئی ہوا بھی دامن کی پھر نہ پائی

سواری دولھا کی دور پہنچی برات میں ہوش ہی گئے تھے

تھکے تھے روح الامیں کے بازو چھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو

رکاب چھوٹی امید ٹوٹی نگاہ حسرت کے ولولے تھے

روش کی گرمی کو جس نے سوچا دماغ سے اک بھبو کا پھوٹا

خرد کے جنگل میں پھو ل چمکا دہر دہر پیڑ جل رہے تھے

جلو میں جو مرغ عقل اڑے تھے عجب برے حالوں گرتے پڑتے

وہ سد رہ ہی پر رہے تھے تھک کر چڑھا تھا دم تیور آگئے تھے

قوی تھے مرغان وہم کے پر اڑے تو اڑنے کو اور دم بھر

اٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خون اندیشہ تھوکتے تھے

وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غنچہ و گل کا فرق اٹھایا

گرہ میں کلیوں کے باغ پھولے گلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے

آنسوؤں کی تاثیر مسلم ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ ہمارے مہربان آقا ہم عاصیوں کے لئے بہت رویا کرتے تھے ۔ اس مضمون کو امام احمد رضا نے جس انداز سے بیان کیا ہے اس سے ان کی طباعی کے اعتراف کے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ صرف دو شعر ملاحظہ ہوں ؎

اﷲ کیا جہنم اب بھی نہ سرد ہوگا

رو رو کے مصطفیٰ نے دریا بہا دیئے ہیں

اوس مہر حشر پر پڑ جائے پیا سو تو سہی

اس گل خنداں کا رونا گریۂ شبنم نہیں

الگ الگ موضوعات پر اشعار کے مجموعے ملاحظہ فرمانے کے بعداب ایک ایک شعر میں شاعر کی کاری گری ملاحظہ فرمائیے اور دیکھیے کہ امام احمد رضا جہاں تک مضمون آفرینی کا سوال ہے نعتیہ شاعری میں بھی کسی غزل گوسے پیچھے نہیں تھے۔ ہمارے آقاسرکار دو عالم ﷺ گناہ گاروں کے پردہ پوش ہیں اس کو یوں نظم کیا ہے ؎

چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یاں اس کے خلاف

تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا

مرنے والوں کو یہاں ملتی ہے عمر جاوید

زندہ چھوڑے گی کسی کو نہ مسیحائی دوست

گوش شہ کہتے ہیں فریاد رسی کو ہم ہیں

وعدۂ چشم ہے بخشائیں گے گویا ہوکر

مدینہ منورہ اور روضۂ اطہر یہاں سے دو رتوہیں ہی راہ میں ایسی بہت سی رکاوٹیں بھی حائل ہیں جن کے ہوتے نگاہوں کا وہاں پہنچنا ممکن نہیں ۔ نیا تخیل اور نیا مضمون ملاحظہ فرمائیں۔ ؎

مد د اے جوشش گریہ بہادے کوہ اور صحرا

نظرآجائے جلوہ بے حجاب اس پاک تربت کا

گیسوئے آقائے دو جہاں کے ذکر کوعین ذکر حق مانتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں ؎

یاد گیسو ذکر حق ہے آہ کر

دل میں پیدا لام ہو ہی جائے گا

زلف کو ’’لام ‘‘ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ گیسوئے سرکار ﷺ کی یاد میں آہ کرنے سے یہ ’’لام‘‘ آہ کے’’ الف‘‘ اور ’’ہا‘‘ کے مابین داخل ہوجائے گاتو لفظ ’’آہ ‘‘ ’’اﷲ ‘‘ سے بدل جائے گا اور اﷲ رب العزت کا ذکر بلاشبہہ ذکر حق ہے۔ نازک خیالی اور مضمون آفرینی کی انتہا ہے۔

’’مرنا‘‘ زندگی ختم ہونے کو بھی کہتے ہیں اور عاشقوں کی زبان میںدلی محبت کو بھی۔ عشق میں مرنے کے مضمون کو کس اچھوتے انوکھے اور نئے انداز میں پیش فرمایاہے۔ پڑھیے اور داد دیجئے۔

ایک اور نیا مضمون ؎

مرنے والوں کو یہاں ملتی ہے عمرِ جاوید

زندہ چھوڑے گی کسی کو نہ مسیحائیِ دوست

اب بغیر کسی تبصرے کے کچھ اور اشعار ملاحظہ فرمائیے ، جن میں مضمون آفرینی کا جوہر پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے ؎

اگرچہ چھالے ستاروں سے پڑ گئے لاکھوں

مگر تمہاری طلب میں تھکے نہ پائے فلک

تمہاری یاد میں گزری تھی جاگتے شب بھر

چلی نسیم ہوئے بند دید ہائے فلک

عبرت فزا ہے شرم گنہ سے مراسکوت

گویا لب خموش لحد کا جواب ہوں

شاہا بجھے سقر مرے اشکوں سے تانہ میں

آب عبث چکیدۂ چشم کباب ہوں

میں نے کہا کہ جلوۂ اصل میں کس طرح گمیں

صبح نے نور مہر میں مٹ کر دکھادیا کہ یوں

دل کو دے نور و داغ عشق پھر میں فدا دو نیم کر

مانا ہے سن کے شق ماہ آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں

دل کوہے فکر کس طرح مردے جلاتے ہیں حضور

اے میں فدا لگا کر ایک ٹھوکرا سے بتا کہ یوں

غفلت شیخ و شاب پر ہنستے ہیں طفل شیرخوار

کرنے کو گدگدی عبث آنے لگی بہائی کیوں

رکھیے جیسے ہیں خانہ زاد ہیں ہم

مول کے عیب دار پھر تے ہیں

تجھ ساسیاہ کار کون ان ساشفیع ہے کہاں

پھروہ تجھی کو بھول جائیں دل یہ ترا گمان ہے

بارجلال اٹھالیا گرچہ کلیجہ شق ہوا

یوں تو یہ ماہ سبز رنگ نظروں میں دھان پان ہے

جلی جلی بوسے اس کی پیدا ہے سوزش عشق چشم والا

کباب آہو میں بھی نہ پایا مزہ جو دل کے کباب میں ہے

اے عشق ترے صدقے جلنے سے چُھٹے سستے

جو آگ بجھادے گی وہ آگ لگائی ہے

منگتا کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دین تھی

دوری قبول و عرض میں بس ہاتھ بھر کی ہے

ان مثالوں سے نعتیہ شاعری میں امام احمد رضا کی مضمون آفرینی کا کافی ثبوت بہم ہوجاتا ہے۔ واضح ہو کہ طوالت مضمون کے خوف سے یہ مثالیں صرف حدائق بخشش کے حصہ اول سے اخذ کی گئی ہیں اور کوشش کی گئی ہے کہ کسی شعر کی تکرار نہ ہو ورنہ بعض اشعار ان میں ایسے بھی ہیں جو ایک سے زیادہ عنوانات کے تحت آسکتے تھے (اگر کہیں کوئی شعر مکرر آگیا ہو تو وہ بہ سبب سہو ہوگا ، جس کے لئے معذرت خواہ ہوں) مگر اشعار کی تکرار کی جاتی تو مضمون ضرور طویل ہوجاتا۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ مضمون آفرینی کی یہ فراوانی اس شخص کے کلام میں ہے جس کا نہ پیشہ شاعری تھا اور نہ جس کو علمی کاموں کے ہجوم کے باعث شعر گوئی کے واسطے اتنا وقت ملتا تھا جتنا کہ چاہیے تھا۔ جب کہ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شاعری بے کاری کا مشغلہ ہے۔

٭٭٭

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

صابر سنبھلی | احمد رضا خان بریلوی | | احمدرضا بریلوی کی شخصیت اور شاعری پر مضامین | حدائق بخشش |