رفیع الدین ذکی قریشی کی نعت گوئی ۔ عزیز احسن

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat kainaat aziz ahsan 10.jpg

مضمون نگار : عزیز احسن

رفیع الدین ذکیؔ قریشی کی نعت گوئی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

میری آنکھ کا آپریشن ہوا ہے اس لیے آج کل لکھنے پڑھنے کا عمل بڑا سست ہے۔ لیکن ہفتہ ۲۸؍صفر ۱۴۳۹ھ؁ مطابق: 18 نومبر 2017 کو ڈاک سے کتابوں کا ایک ارمغاں موصول ہواجس میں حضرت رفیع الدین ذکیؔ قریشی کی تین کتابیں تھیں توشہ، درمانِ دلِ مضطر اور عنایات کی کلیاں ۔میں نے کتابوں پر طائرانہ نظر ڈالی اور رکھ دیا۔ کتابوں کے ہمراہ شاعر موصوف کا ایک خط بھی تھا جس میں مجھ سے ان کتب پر کچھ لکھنے کی فرمائش بھی کی گئی تھی۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس حکم کی تعمیل کیسے کی جائے کہ حضرت حسان ؓنعت بک بینک کے صدر و مہتمم جناب غوث میاں کا بھی فون آگیا ۔ ان کی ہدایت تھی کہ موصولہ کتب پر جلد ہی کچھ لکھ دیں۔ پھر میں نے لاہور میں، شاعرِ موصوف سے فون پر رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی طبیعت بھی ناساز ہے اور وہ عمر کی اَسِّی سے زیادہ بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ چناں چہ ان سے بات کرکے میں نے کتب کا مطالعہ شروع کردیا۔ چنداوراق دیکھے تو محسوس ہوا کہ شاعر کا روحانی اثر مجھے جلد از جلد کچھ لکھنے پر آمادہ کررہا ہے۔ چناں چہ اب جناب ذکی قریشی کی نعتیہ شاعری پر کچھ معروضات پیشِ خدمت ہیں۔


آج کل میں نعتیہ شاعری کو اِس زاویے سے دیکھنے کی کوشش کررہا ہوں کہ شعراء کے تخلیقی عمل میں فکری وحدت کے باعث مضامین کی یکسانیت کہاں کہاں ہے اور کس شاعر نے روایتی مضامین کو اظہار کی نئی جہتوں سے آشنا کیا ہے۔ ساختیاتی فکرکی روشنی میں مجھے رولاں بارتھ کی اس بات سے کلی طور پر اتفاق ہے کہ’’ [ہرمصنف] پہلے سے موجود لسانی اور ادبی خزانوں کو کھنگالتا ہے ، اخذ و قبول کرتاہے،اور چلی آرہی روایت کو نئی شکل دیتا ہے‘‘۔ اخذِ مضامین اور تکرار و توارد کا یہ سلسلہ شعری دنیا میں بہت پرانا ہے۔ لیکن پہلے زمانے کے ناقدین ،مضامین کی یکسانیت پر سرقہ کا الزام لگادیتے تھے۔ جبکہ یہ سرقہ نہیں بلکہ ایک متن (Text) کو نئے زاویے سے تخلیقی سطح پر برتنے کا معاملہ تھا۔رولاں بارتھ نے ادب پر یہ احسان کیا کہ اُس کی تحریک پر متون کی ہم رشتگی (Inter Textuality) کو قبولیت اور تحسینی نقطہء نظر سے دیکھنے کی راہ ہموار ہوئی۔


نعتیہ دنیا میں وحدتِ مضامین و خیالات کی اصل وجہ ’’ممدوحﷺ‘‘ کا ایک اور یکتا ہونا ہے۔اس لیے اس دنیا میں مضامین تو بیشتر روایتی رہتے ہیں لیکن بیان کے نئے نئے اسالیب سے ہر مضمون نیا نیا سا لگتا ہے۔ ذکی قریشی صاحب کی نعتیہ شاعری پر، میں نے بین المتنیت (Inter Textuality) کے زاویے ہی سے غور کیا ہے۔


حدیثِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم ہے ’’کُنْتُ نَبِیَّا وَّ آدَمُ بَیْنَ الْمَآئِ وَالطِّیْنِo’’میںتھا جبکہ آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھے‘‘۔ اس حدیث کی رو سے آپ ﷺ کی ذاتِ والا صفات کُل موجودات سے اسبق (سبقت لے جانے والی) ہے، حضورِ اکرم ﷺ کی ذات ہی خلقت میں اول ہے اس لیے آپ کی نبوت بھی اول ہے۔ قرآنِ کریم کی سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر۴۰ کی رو سے آپ ہی سلسلہ ٔ نبوت کی تکمیل کرنے والے یعنی ’’خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شعراء نے آپﷺ کے حوالے سے ایسے متون بُنے ہیں کہ آپﷺ ہی اول ہیں اور آپﷺ ہی آخر ہیں۔ جیسے اقبال نے کہا:


ع نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر


حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی کا یہ پہلو اس قدر روشن ہے کہ تقریبا ۹۹ فیصد نعت نگاران نے اس حقیقت کو اپنے اشعار کا متن بنانے کی کوشش کی ہے۔نعتیہ شاعر ی میں اس نکتے پر شعراء کی فکری وحدت کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ حضرت رفیع الدین ذکیؔ قریشی نے بھی اس مضمون کو شعری جامہ پہنایا ہے:


آپ کی ہے رسالت ازل تا ابد

اولیں آپ ہیں آخریں آپ ہیں


حضورِ اکرم ﷺ کے حیات النبی ہونے کا نظریہ صرف نظریہ نہیں بلکہ محسوساتی حقیقت ہے جسے ہر آدمی تو نہیں ، تاہم بعض اہلِ نظر دیکھتے رہتے ہیں۔ علامہ اقبال نے تو باقاعدہ اپنا عقیدہ ظاہر کرتے ہوئے ایک خط میں لکھا تھا:


’’میرا عقیدہ ہے کہ نبیء کریمؐ زندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی ان کی صحبت سے اسی طرح مستفیض ہوسکتے ہیں جس طرح صحابہؓ ہوا کرتے تھے۔ لیکن اس زمانے میں تو اس قسم کے عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں کو ناگوار ہوگا۔اس واسطے خاموش رہتا ہوں‘‘۔


حضورِ اکرم ﷺ کی کسی محفل میں آمد کا روحانی احوال اتنی کثرت سے بیان میں آیا ہے کہ اس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں۔ یہ اور بات کہ جس طرح موسیٰ علیہ السلام نبی ہوکر خضر علیہ السلام کے تکوینی معاملات کو سمجھنے سے قاصر رہے تھے اسی طرح قیامت تک اہلِ قال ان احوال کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے جو اہلِ حال پر وارد ہوتے ہیں۔ مجھے حضرت رفیع الدین ذکی قریشی کے درجِ ذیل اشعار ان کے حال کا آئینہ لگتے ہیں:


میری آنکھوں میں بھی نقش ہے آپ کا

خانہء دل میں بھی جاگزیں آپ ہی

محفلِ نعت ہو یا ہو بزمِ درود

اہلِ بینش نے دیکھا وہیں آپ ہیں


غالب کی زمینوں میں بعض شعراء نے نعتیں لکھی ہیں۔ لیکن ہر شاعر نہ تو غالب کے آہنگ کا اثر پیدا کرسکتا ہے اور نہ ہی نعت کے مضامین کی درخشندگی کا حق ادا کرسکتا ہے۔ تاہم لوگوں کی کوششیں جاری ہیں۔ ذکی قریشی صاحب نے غالب کی مشہور غزل


ع سب کہاں ، کچھ لالہء و گل میں نمایاں ہوگئیں

کی زمین میں آٹھ نعتیں کہی ہیں اور خوب کہی ہیں۔ یہ آٹھ نعتیں ایک ہی مجموعے ’’عنایات کی کلیاں‘‘ میں شامل ہیں۔

غالب نے غزل کے اندر نمایاں، پنہاں، نسیاں، عریاں، زنداں، کنعاں، فروزاں، واں، پریشاں، دبستاں، مژگاں، گریباں، درباں، جاں، ایماں، آساں اور ویراں کے قوافی استعمال کیے تھے ۔لیکن ذکی قریشی صاحب نے نعت کے مزاج سے ہم آہنگ چند قوافی کی تکرار کی ہے مثلا ً آساں، نمایاں، پنہاں، پریشاں وغیرہ وغیرہ۔ غالب نے آساں کا قافیہ غزل کی مناسبت سے زندگی کی مشکلات کو سامنے رکھ کر باندھا تھا:


رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں


لیکن ذکی قریشی صاحب نے ’’آساں‘‘ کا قافیہ خالص نعتیہ زاویوں سے برتا ہے۔


زندگی کی راہ میں جتنی بھی آئیں مشکلیں

رب کو ان کا واسطہ دیتے ہی آساں ہوگئیں

(عنایات کی کلیاں…ص۱۹)


میں نے جب بھی کیں دعائیں دیدِ روضہ کے لیے

مشکلیں در پیش تھیں جتنی وہ آساں ہوگئیں

(ایضاً ص۴۵)


میں نے ان پر جب درودِ پاک کثرت سے پڑھا

مشکلیں در پیش تھیں جتنی وہ آساں ہوگئیں

(ایضاً ص۱۱۰)


غالب کا مطلع تھا :


سب کہاں، کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہوگئیں

خاک میں کیا ـصورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں


لیکن ذکی قریشی صاحب نے ’’نمایاں‘‘ کا قافیہ کئی زاویوں سے برتا ہے اور ہر موقع پر نعتیہ آہنگ برقرار رکھا ہے۔


مشکلیں میری نبی پر جب نمایاں ہوگئیں

اُن کے لطفِ خاص سے پل بھر میں آساں ہوگئیں

میری آنکھوں میں نمی کا زائرِ طیبہ نہ پوچھ

اس نمی سے حسرتیں دل کی نمایاں ہوگئیں

پردہ پوشی میری فرمائی مرے سرکار نے

میری بد اعمالیاں جس دم نمایاں ہوگئیں

ذکرِ خلدِ طیبہ سن کر جب بھی میں رویا ذکیؔ

حسرتیں سب میری مژگاں پر نمایاں ہوگئیں


غالب کے ہاں،پریشاں کا قافیہ غزل کے بھرپور رنگ لیے ہوئے ہے:


نیند اس کی ہے ، دماغ اس کا ہے ، راتیں اس کی ہیں

تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہوگئیں


جبکہ ذکی قریشی صاحب نے اسے توفیقِ نعت گوئی کے فیضان کے تناظر میں باندھا ہے۔


رقص کرتی آرہی تھیں میری جانب مشکلیں

مجھ کو محوِ نعت دیکھا تو پریشاں ہوگئیں


غالب کے ایک مصرع پرذکی قریشی صاحب نے دو طرح گرہیں بھی لگائی ہیں اور دونوں گرہیں خالص نعتیہ آہنگ کی حامل ہیں۔


میں نے ہجرِ خلدِ طیبہ میں بھریں آہیں جونہی

’’میری آہیں بخیہء چاکِ گریباں ہوگئیں‘‘

ہجرِ طیبہ میں جو ابھریں میر ے سینے سے ذکیؔ

’’میری آہیں بخیہء چاکِ گریباں ہوگئیں‘‘

ان نعتوں کی خوبی یہ ہے کہ سہلِ ممتنع میں ہیں اور اشعار میں فصاحت کا رنگ بھی جھلک رہا ہے۔چند وہ اشعار بھی ملاحظہ ہوں جو ایسے قوافی پر مشتمل ہیں جو غالب نے نہیں برتے تھے:


آمدِ آقا سے پہلے تھا جو صحرائے عرب

آج اس کی بستیاں رشکِ گلستاں ہوگئیں

زندگی کا دائرہ جب تنگ سا ہونے لگا

رحمتیں آقائے رحمت کی فراواں ہوگئیں


اِن چند نعتوں کی خواندگی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شاعرِ نعت حضرت ذکی قریشی نے کس کس پہلو سے قوافی کا استعمال کیا ہے اورفکری ، تخلیقی اور احساساتی ستاروں سے نعتیہ شعری آسمان کو روشن کرنے کی سعی کی ہے۔


نعتیہ شاعری میں عصری حسیت کا شامل ہونا کسی شاعر کے احساساتی ہالے کے دائرے کے وسیع ہونے کا اشاریہ ہے۔ زمانے کے تیور سے آشنا ہوکر اَصلح روایات سے منسلک رہنے کی آرزوؤں کے اظہار پر منتج ہونے والے خیالات سے نعتیہ شاعری کے آفاق میں زندگی کی وسعتیں پیدا ہوتی ہیں۔ایسی صورت میں نعتیہ لے میں استغاثے کاآہنگ شامل ہوجاتا ہے۔ شعراء کی یہ روش نمایاں طور پر حالی سے چلی تھی جو کہہ رہے تھے:


اے خاصہء خاصانِ رُسُل وقتِ دعا ہے


پھر اس کے بعد تو زمینی حقائق سے آشنا ہو کر دل برداشتہ ، ہر شاعر نے استغاثے کی راہ اپنالی۔ ذکی قریشی صاحب نے بھی یہ راہ اپنا ئی ہے جو کہتے ہیں:


ہر طرف سے یورشِ الحاد ہے آقا حضور!

چشمِ رحمت امتِ عاصی و غافل کی طرف


اسی استغاثے کی لے اُس وقت بدل جاتی ہے جب نعتیہ شاعری کرنے کی توفیقات سے شاعر کا وجدان اُسے امید کے ساحل کی نشانیاں دکھاتا ہے:


بحرِ غم، گرداب ، طوفاں اور شکستہ بادباں

نعت کہتا آرہا ہوں پھر بھی ساحل کی طرف


اور پھر سیرتِ رسول ﷺ کا فیضان بھی تخلیقی وفور میں شامل ہوجاتا ہے تو ایک آئینہء حقیقت روشن ہوجاتا ہے:


نورِ حق سے جن کے روشن ہوگئے ہوں چشم و دل

کس طرح دیکھیں گے وہ ظلماتِ باطل کی طرف

جب بھی رستے سے بھٹک جاؤں تو سیرت آپ کی

رُخ بدل دیتی ہے میرا، میری منزل کی طرف

(توشہ، ص 107 )


شاعر ِ نعت کو نعتیہ اشعار کا اثاثہ اس کی قلبی کیفیات کے تغیرات اور احساسِ فراق سے ملتا ہے تو وہ کہہ اٹھتا ہے:


ہجرِ طیبہ کے سبب آنکھ جو نَم ہوتی ہے

تب کہیں جاکے حسیں نعت رقم ہوتی ہے

نعت ہوجائے تو ہوتا ہے یہ احساس مجھے

نعت ہی باعثِ تخفیفِ اَلَم ہوتی ہے

ذکر بھی اُن کا ہے خوشنودیء رب کا باعث

یاد بھی اُن کی ذکیؔ! وجہِ کرم ہوتی ہے


شاعرِ موصوف کی تیس 30 تصانیف کی فہرست میرے سامنے ہے۔ ابھی مجھے صرف تین کتب کا جستہ جستہ مطالعہ کرنے کی سعادت نصیب ہوسکی ہے۔ اگر تمام تخلیقی سرمائے پر نظر ہو تو بات کرنے کا لطف ہی کچھ اور ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توفیق مرحمت فرمائی تو کبھی تفصیلی مطالعہ بھی پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ فی الحال اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔


عزیز احسن۔ پیر: یکم ربیع الاول ۱۴۳۹ھ؁ ۔مطابق: ۲۰؍نومبر۲۰۱۷ء؁

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نعت کائنات پر نئی شخصیات
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات