سریش بھٹ کی مراٹھی نعت کا تجزیہ ۔ ڈاکٹر سید یحیٰی نشیط

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2


مضمون نگار" ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط ( مہاراشٹرا)

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سریش بھٹ کی مراٹھی نعت کا تجزیہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ وَ رَفعنا لَکَ ذِکرَک‘‘ کی صدا قرآن حکیم نے جب سے لگائی ہے ،اللہ کے پیارے حبیب حضرت محمد ﷺ کا ذکر چہار دانگ عالم میںہر زمانے اور ہرہر زبان میں ہورہا ہے۔ یوروپین ممالک کی ترقی یافتہ زبانوں سے لے کر افریقہ اور آسٹریلیا کی بعض غیر متمدن اقوام کی اجڈ اور غیر ترقی یافتہ بولیوںتک میں اللہ کے رسولﷺ کا ذکر نہایت والہانہ و عقیدت مندانہ انداز میں کیا جارہا ہے۔کہیں اذانوں میں ’’محمد رسول اللہ ‘‘ کی گونج ہے تو اوراد و اذکار میں نامِ رسولﷺ وردِزباں ہے۔ کہیں محافلِ وجد و سماع میں ذکر رسولﷺ پر سر دھنے جا رہے ہیں تو کہیں میلاد کے جلسوں میں مدحت حبیب ﷺ ہو رہی ہے۔ تسبیحات میں درود و صلوٰۃ کا ورد ہو رہا ہے تو نمازوں میں صلوٰۃ و سلام پڑھے جا رہے ہیں۔غرض یہ کہ ذکر حبیبﷺ محلوں میں بھی ہے کاشانوں میں بھی۔خانقاہوں میں ’’اللہ ہو‘‘کے ساتھ ’’محمد رسول ا للہ ‘‘ کا ذکر اگر ہے تو مدارس میں ’’قال اللّٰہ و قال رسول ا للّٰہ ‘‘ کی صدا۔ دشت و صحرائوں میں اسی کی بازگشت ہے تو گلزاروں اور کشت زاروں میں بھی اسی کی پکار۔یادِ رسول اللہ ﷺ پہاڑوں پر بھی ہو رہی ہے تو میدانوں میں بھی۔سمندروں کے سینوں پر انسان ذکر رسول ﷺ میں رطب اللسان ہے تو بسیط فضائوں میں ہوا کے دوش پر بھی۔رسول اللہ کی کی یاد دلوں کا انبساط ا ور روح کی نشاط ہے۔اور ہمارا تو یہ اعتقادکہ فضا سے پرے خلائوںسے آگے فلک الافلاک سے بہت اوپر اللہ کے عرش پر بھی یادِرسولﷺ میں صلوٰۃ و سلام کا آوازہ بلند رہتا ہے۔

بر صغیر میں اردو ،ہندی کے بعد آرین زبانوں میں مراٹھی ترقی یافتہ زبان سمجھی جاتی ہے اور یہ عجب اتفاق ہے کہ شروع ہی سے یہ زبان و ادب بالراست عرب کلچر و زبان سے متأثر ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان کی صوبائی زبانوں میں مراٹھی ہی ایک ایسی زبان ہے جس میں عربی فارسی کے دخیل الفاظ اس کے اپنے ذخیرۂ الفاظ سے زیادہ ہیں۔ وہ اصناف ادب جو خالصتاً مسلم کلچر کے مرہون احسان رہے ہیں مراٹھی زبان و بیان میں بعض کو جوں کا توں قبول کر لیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حمد و نعت اور سلام و مراثی جیسی خالص مذہبی اصناف سخن بھی مراٹھی میں ملتی ہیں۔ہندوستان کے دیگر صوبوں کے بالمقابل مہا راشٹر میں ہندو مسلم قوموں کاباہمی ربط اور آپسی بھائی چارہ سماجی سطح پر کچھ زیادہ ہی رہا ہے اور اس کے تاریخی شواہد آٹھویں صدی عیسویں سے ملتے ہیں۔یہاں کے راشٹرکوتہ خاندان کے بادشاہ (ولبھ رائے گووند سوم ۷۹۳ء۔۸۱۴ء اور اموگھ ورشا ۸۱۴ ء۔ ۸۷۷ء ) مسلمانوں کے شرعی احکام کی بجاآوری کے لیے مسلم قاضی (جنھیں مقامی زبان میں ’’ہنر من ‘‘ کہا جاتا تھا ) اپنے درباروں میں رکھتے تھے اور بادشاہ ان کے فیصلوں پر تکیہ کرتا تھا۔یہاں ان تاریخی حقائق کو پیش کرنے کا محل نہیں،بہر کیف ! مراٹھی ادب میں نعت کا جو سرمایہ ہے اس کے ابتدائی نقوش ایک ناتھ مہاراج (پ۔ ۱۶۳۳ء) کے یہاں ملتے ہیں۔ انھوں نے قومی یکجہتی اور جذباتی ہم آہنگی کے لیے جہاں ’’ہندو ترک سنواد‘‘ لکھا ،وہاں نعت رسولﷺ لکھ کر اپنی عقیدت کو آپﷺ کی ذات سے وابستہ کر لیا۔اس نعت کا خاص وصف یہ ہے کہ کسی ہندو شاعر کی لکھی ہوئی یہ پہلی نعت ہے ،جس میں شاعر نے رام ،کرشن اور محمدﷺ کی تثلیث میں غیر منفصل سلسلہ کو تلاش کرکے ان کا نقطۂ اتصال محمدﷺ کی ذات میں ڈھونڈا ہے۔ ایک ناتھ کے بعد ہندو سنتوں کا طویل سلسلہ ہے جو عصر حاضر کے ٹکڑو جی مہاراج تک پہنچتا ہے۔اس سلسلے کے کئی شعراء ہیں جنھوں نے مراٹھی میں نعتیں لکھی ہیں یا اپنے مراٹھی اشعار میں حضورﷺ سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ لیکن غیر صوفی سنتوں میں سریش بھٹ دور جدید کے ایسے مراٹھی شاعر ہیں جنھوں نے برائے شعر گفتن نہیں بلکہ عقیدتاً نعت رسولﷺ لکھی ہے۔نور احمد میرٹھی کی مرتبہ کتاب ’’بہر زماں بہر زباں ﷺ میں یہ نعت اور اس کا ڈاکٹر عصمت جاوید کا کیا ہوا منظوم ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔ ذیل میں اسی نعت کا تجزیہ پیش کیا جارہا ہے۔

سریش بھٹ کی مراٹھی نعت اردو رسم الخط میں؛

اُجاڑ وَیران واڑونٹی کھڑاڑ نارا جھرا محمد ﷺ

جَگات لیا دِین دُکھِّتا نچا اَکھیر چا آسرا محمد ﷺ

اَتاچ ڈُوڑے پوسونی زھالے اتاچ می لاگلو ہسایا

اتاچ ہا بھیٹلا جیواچا، سکھا ملا ہاسرا محمد ﷺ

کھَریچ تو چندر امرتا چا ، کھَریچ تو سوُریہ جیونا چا

دِ شا دِشانا پرکاشنارا ، دسے تُجھا چہرا محمد ﷺ

تُجھیا گھرا چی طرح چَ نیاَری ، سمان شریمنت وا بھکاری

تُجھیا گھری دے اتا ملا ہی، لہان سا کوپرا محمد ﷺ

جَسے تُجھے ناو گھِیتلے می، تُجھیا دَئے چا سگندھ آلا

اَجون، ہی انترات ما جھیا، پھُلے تجھا موگرا محمد ﷺ

بھَلے بُرے پا ہیلے کتی می ، کِتی کھرے اَ ن کتیک کھوٹے

بھَلیات ماجھا بھلا محمد ﷺ کھریات ماجھا کھرا محمد ﷺ

منظوم ترجمہ از ڈاکٹرسید یحيٰ نشیط

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png



اجاڑویراں ریگزاروں میں ’’بہتا چشمہ‘‘ مرا محمد ﷺ

جہاں کے سارے ہی بے سہاروں کا آخری آسرا محمد ﷺ

ابھی ابھی اشک میں نے پونچھے ،ابھی ابھی ہنسنے میں لگا ہوں

مجھے ملا جو یہ خند ہ بر لب عزیز از جاں مرا محمد ﷺ

تو چاند امرت کا ہے یقینا ، تو آفتابِ حیات بھی ہے

جہاں کو ہر سو کرے ہے روشن رخِ منور ترا محمد ﷺ

ترے مکاں کی ہے ریت نیاری، ہیں سب برابر غنی بھکاری

ترے ہی گھر کا ذ را سا گوشہ مجھے بھی کردے عطا محمد ﷺ

زباں پہ تیر ا جو نام آیا، نفس نفس ہو گیا معطر

ابھی بھی تیرے کرم کا دل میں کھلا ہے اک موگرا محمد ﷺ

بھلے برے کتنے میں نے دیکھے ، ہیں کتنے سچے ،ہیں کتنے جھو ٹے

بھلوں میں لیکن بھلا محمد ﷺ کھروں میں میرا کھرا محمد ﷺ

سریش بھٹ نے نعت کے مطلع میں ’’ اُجاڑ وَیران واڑونٹ‘‘ کی ترکیب استعمال کرکے رسالت محمدﷺ کے سلسلے کو سلسلۂ ابراہیمی سے جوڑا ہے۔دور ابراہیم کے مکہ مکرمہ کے لیے قرآن نے ’’غیر ذی زرع‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے ، جسے دعائے ابراہیم اور پائے اسمٰعیل سے ابلنے والے چشمۂ زم زم نے ’’پھل دار ‘‘ بنا دیا تھا۔ہزاروں برس بعد یہی زمیں جب مولدِ نبی ﷺ بنی تو اخلاقی گراوٹ اور شرع ابراہیمی سے غفلت کا صحرا بنی ہوئی تھی۔لیکن بعثتِ رسول ﷺ اس سنگلاخ وادی میں چشمۂ آب ثابت ہوئی جس نے زمین انسانیت کو سیراب کرکے گلزار بنا دیا۔ شاعر نے آپﷺ کی ذات کے لیے ’’کھڑاڑنارا جھرا‘‘ کا استعارہ استعمال کیا ہے۔،جس کے اردو معنی ’’بہتا جھرنا‘‘ یا ’’آبِ جوئے رواں ‘‘ ہوتے ہیں۔آپﷺ کے لیے یہ استعارہ اگرچہ قرآن و احادیث میں مذکور نہیں لیکن یہ نیا اور انوکھا بھی نہیں ہے۔عربی شاعری میں اسے برتا گیا ہے۔لیکن جتنا واضح گوئٹے ا ور علامہ اقبالؔ کے یہاں یہ استعارہ مستعمل ہے اتنا واضح عربی شاعری میں نہیں۔چودھویں صدی عیسوی کے عربی شاعر جابر الاندلسی کی نعتوں میں ہمیں اس استعارہ کی قریب المعنی تراکیب ملتی ہیں۔انھوں نے آپﷺ کو ایک جگہ ’’البحر فی ریم ‘‘ (سخاوت میں دریا) کہا ہے۔ ؎

کا لبدر فی شیم ’’البحر فی ریم‘‘

والزھر فی نعم والدھر فی تقم

(یعنی [آپﷺ] اخلاق میں چودھویں کا چاند ، سخاو ت میں دریا ،احسان بخشی میں پھول اور حق کی حمایت میں سخت [ہیں])


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png


ابن جحۃ الحموی (م ۹ ۸۳ ھ) نے اپنے بدیعییہ میں آپﷺ کی مدحت سرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ۔ ؎

و جز تم بودی الجزع فاخضر و التقویٰ

علی خدۃ با لبنت صدع مھنم

(یعنی جب آپﷺ وادی ِ الجزع سے گزرے تو وہ سر سبز ہو گئی ، کہ اس وادی کی پیشانی کا کنارا لال بوٹے سے بھرا ہوا اس کے چہرے کی روئیدگی سے لپٹ گیا۔)

مذکورہ اشعار میں آئے ہوئے استعارے کا مفہوم واضح کرتے ہوئے ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی اپنی کتاب ’’عربی میں نعتیہ کلام ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’اس استعارے کا مطلب یہ ہے کہ آپﷺ جس وادی سے گزرے وہ اگرچہ خشک صحرا کی مانند تھی مگر آپ ﷺ کے قدم کی بدولت سر سبز و شاداب ہوگئی۔‘‘ الحموی کے اس نعتیہ شعر میں اگرچہ دریا؍بحر یا آب جو کا کوئی قرینہ نہیں لیکن شعر کے مفہوم سے ذہن میں ’’ بہتے دریا‘‘ کا ہی تصور مستحضر ہوتا ہے۔اسی بدیعییہ میں ایک جگہ آپﷺ کو شاعر نے ’’اے سرچشمۂ پاک‘‘ کہہ کر بھی مخاطب کیا ہے۔عربی کے ایک اور شاعر شیخ عبدالرحیم البرعی نے اپنے’’ قصیدۂ جیمیہ‘‘ میں حضورﷺ کو ’’متموج بحر‘‘ سے تشبیہ دی ہے۔شاعر کہتا ہے ؔ۔ ؎

مکارم اخلاق و حسنِ شمائل

وشمۃ جود ’’بحر ہ متموج ‘‘

عربی کے یہ تمام استعارے و تشبیہات ’’کھڑاڑنارا جھرا ‘‘ کے قریب المعنی ہیں لیکن جرمن شاعر گوئٹے (م ۱۸۳۲ء ) نے عین اسی مفہوم کا استعارہ اپنی مشہور جرمن ز بان کی نظم Mahamets Ge Sang میں استعمال کیا ہے۔وہ حضورﷺ کو Rock Born Stream (جوئے آب) کہتا ہے۔جو ’’کھڑاڑنارا جھرا‘‘ کی ہو بہو ترکیب ہے۔ دو علاحدہ تہذیب اور زبانوں کے استعاروں میں اتنی مطابقت دونوں شعراء کے فکری انسلاک اور حضورﷺ سے رکھی جانے والی عقیدت میں یکسانیت کی مظہر ہے۔

’’کھڑاڑنارا جھرا‘‘، ’’بحر متموج ‘‘، ’’سرچشمۂ پاک‘‘،’’جوئے آب‘‘ اور Rock Born Stream یہ سارے استعارے علامتِ حیات ہیں۔قرآن حکیم میں جہاں بھی حیات انسانی کی تفصیل آئی ہے پانی کا ذکر ہوا ہے۔مثلاً سورہ بقرہ میں کہا گیا (آیت نمبر۶۰) یعنی یاد کرو ،جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو ہم نے کہا فلاں چٹان پر اپنا عصا مارو چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر قبیلے نے جان لیا کہ کون سی جگہ اس کے پانی لینے کی ہے ، اس کے علاوہ قرآن میں بعض جگہ پانی کا ذکر زندگی کی علامت کے طور پر بھی ہوا ہے۔طبی تحقیق کی رو سے بھی ’’پانی‘‘ حیاتی عنصر ہے۔جسمانی خلیوں میں جس کا وجود زندگی کا ضامن ہے۔جغرافیہ ’’اجاڑ ویران واڑونٹ‘‘ (ریگستان ) میں ’’پانی ‘‘ کو زندگی کے معنی میں گردانتا ہے۔پس یہ ساری قرآنی ، علمی ،سائنسی ،طبی اور جغرافیائی مثالیں ’’پانی‘‘ کے ’’مظہر حیات ‘‘ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ قرآن میں پانی کو ’’رحمت‘‘ سے بھی تعبیر کیا گیاا ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ اس کا چھین لیا جانا سخت محرومی ہی نہیں زندگی کے چھین لیے جانے کے مترادف ہے۔

ان تمام شواہد کی روشنی میں سریش بھٹ کاآپ ﷺ کو ’’اجاڑ ویران واڑونٹ‘‘ میں ’’کھڑاڑنارا جھرا‘‘ کہنا بڑا معنی خیز بن جاتا ہے۔کیونکہ یہ استعارہ ایک طرف زندگی کی علامت ہے ،اس معنوں میں اس استعارہ کا صریح مطلب ہوگا کہ آپ ﷺ کی ذات کائنات کی زندگی سے عبارت ہے کہ آپﷺ نہ ہوتے تو یہ کائنات وجود میں نہ لائی جاتی۔ ’’لو لاک لما خلقت الافلاک‘‘ کا قول فیصل اس پر دال ہے۔دوسری طرف ’’کھڑاڑنارا جھرا‘‘ (سیل رواں) یعنی بہتا پانی ’’رحمت ‘‘ بھی ہے۔اس معنی میں شاعر آپ ﷺ کو ’’رحمت ‘‘ متصور کرتا ہے۔قرآن نے ان ہی معنوں میں آپ ﷺ کو رحمت للعٰلمین کہا ہے۔ تیسری طرف ’’کھڑاڑنارا جھرا‘‘ حرکی قوت کی تمثیل بھی ہو سکتا ہے۔ اس معنی میں آپﷺ کی ذات سراپا عمل اور عوام الناس کے لیے نمونۂ عمل ہے۔اس طرح سریش بھٹ کی نعت کے مصرعِ اولیٰ کی ایک ترکیب لفظی میں انسلاکات معنی کا مربوط اور وسیع سلسلہ ملتا ہے۔


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png


اسی شعر کے مصرعِ ثانی میں شاعر نے آپ ﷺ کی ذات کو دنیا کے مظلوم و ناداروں کا ’’آسرا‘‘ کہا ہے۔، جس سے دونوں مصرعوں میں بڑا لطیف ربط قائم ہو گیا ہے۔اردو میں مولانا الطاف حسین حالیؔ نے ایک نعت میں آپ ﷺ کے اس وصف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ؎

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غر یبوں کی بر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ

یتیموں کا والی غلاموں کا مولا

ان چھے مصرعوں میں جن اوصاف ِ محمدی ﷺ کا ذکر ہوا ہے ،سریش بھٹ کی نعت کے ایک مصرع میں وہ تمام مفہوم سمویا ہوا ہے۔عربی شاعری میں آپﷺ کے چچا ابو طالب کے چند مدحیہ اشعار ملتے ہیں۔ سیرۃ النبی ابن ہشام میں آپﷺ کی توصیف بیانی میں ابو طالب کا یہ شعر نقل ہوا ہے۔ ؎

و ابیض یستقیٰ الغمام بوجہِ

ثمال الیتامیٰ عصمۃ للادامل

(یعنی وہ روشن تابناک چہرے والے جن کے صدقے میں بادلوں سے پانی مانگا جائے ،وہ یتیموں کے والی اور بیوائوں کے سر پناہ ہیں۔)

حالیؔ اور ابو طالب نے آپ ﷺ کو یتیموں اور ناداروں ؍ بیوائوں کو سہارا دینے والا کہا ہے۔ جبکہ سریش بھٹ نے آپﷺ کی’ صفت‘ کو ’اسم ‘ میں بدل دیا ہے۔یعنی آپﷺ سہارا دینے والے ہی نہیں ،خود’ آسرا‘ ہیں۔انگریزی گرامر جاننے والے ایسے جملوں کی ’’شدت‘‘ کو خوب سمجھتے ہیں۔اس نعت کے دوسرے شعر کا تعلق مطلع کے مصرعِ ثانی سے جوڑا جا سکتا ہے۔اس ترکیب سے دوسرے شعر کے معنی از خود کھلنے لگتے ہیں۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png


نعتِ ہذا کے تیسرے شعر میں خالصتاً ہندوی اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں۔یعنی ’’چندر امرتا چا‘‘ (مہ آبِ حیات) اور ’’سوریہ جیونا چا‘‘ یعنی ’’آفتابِ حیات ‘‘۔ہندو اسطور میں سورج منبع حیات سمجھا گیا ہے۔اس معنی میں سریش بھٹ آپ ﷺ کو ’’سوریہ جیونا چا‘‘ کہہ کر منبع حیات تسلیم کر رہے ہیں۔ا سلا می فکر بھی ایک حدیث کی رو سے آپﷺ کو منبع حیات تسلیم کرتی ہے۔ چنانچہ صاحب مشکوٰۃ نے ایک حدیث نقل کی ہے ’’کنت نبیا و ا لآدم بین الماء و الطین ‘‘ یعنی میں نبی تھا جب آدم پانی اور گارے کے درمیاں تھے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تخلیق آدم سے قبل آپ ﷺ موجود تھے۔گویا آپ ہی منبعِ انسانیت و مبداء حیات ہیں۔اس پر دال ’’لو لاک لما خلقت الافلاک ‘‘ بھی ہے کہ اگر آپﷺ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو یہ کائنات وجود میں نہ لائی جاتی۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپﷺ کی ذات وجہ تخلیق کائنات ہے مولانا جامیؔ نے اسی خیال کی ترجمانی اپنی ایک نعت میں اس طرح کی ہے۔ ؎

جنبشِ اول ز محیطِ قدم سلسلہ جنباں وجود از عدم

مطلعِ دیباچۂ ایں ابجد ست پیش تر یں حرف کہ در احمد ست

نقطۂ وحدۃ چو قد افراختہ از پئے احمد الفے ساختہ

صدر نشیں اوست دریں بارگاہ ’’کنت نبیا ‘‘ بود او را گواہ

درج بالا نعت میں جامیؔ کے استعمال کیے ہوئے القاب (جنبشِ اول ، مطلع دیباچہ ٔ ابجد ، الف احمد اور صدرنشینِ بارگاہ ) آپﷺ کے وجود اول ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف چاند اور سورج ’نور ‘ کی علامات ہیں۔ قرآن حکیم میں آپﷺ کی ایک صفت نور بھی بتائی گئی ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے(المائدہ،آیت نمبر ۱۹) یعنی ’’بے شک اللہ کی طرف سے تمھارے پاس ایک نور آیا۔‘‘ دوسری جگہ آپﷺ کو ’’ سراج منیرا‘‘ کہا گیا ہے۔عقائد اسلامیہ کی کتب میں بعض قول ایسے نقل ہوئے ہیںجن میں آپ ﷺ کو نور سے تعبیر کیا گیا ہے۔ صاحب ’’ روح البیان‘‘ نقل فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ نے حضر ت جبریل سے دریافت فرمایا : اے جبریل ! تمہاری عمر کتنی ہے ؟ تو جبریل نے عرض کیا ، حضور مجھے کچھ خبر نہیں ، ہاں! اتنا جانتا ہوں کہ ’’ان فی الحجاب الرابع نجما ؑ یطلع فی کل سبعین الف سنۃ مرہ رانیہ اثنین و سبعین الف مرۃ‘‘ یعنی چوتھے حجاب میں ایک تارہ ستر ہزار برس کے بعد ایک مرتبہ چمکتا ہے ، میں نے اسے بہتر ہزار مرتبہ چمکتے دیکھا ہے۔ حضور ﷺ نے یہ سن کر فرمایا ’’و عزہ ربی انا ذالک الکوکب‘‘ یعنی میرے رب کی عزت کی قسم میں ہی وہ تارہ ہوں۔ حضور ﷺ کے نور ہونے پر دلالت کرنے والی ایک روایت ’’دلائل ابن ابی نعیم ‘‘ اور ’’طبقات ابن سعد ‘‘ کے حوالے سے مولانا ادریس کا ندھلوی نے اپنی کتاب ’’سیرۃ مصطفی‘‘ میں نقل کی ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب عبد المطلب اپنے فرزند عبداللہ کو نکاح کے لیے لے کر چلے تو راستے میں ایک یہودی عورت پر گزر ہوا ، جس کا نام فاطمہ بنت مرّ تھا۔ حضرت عبد اللہ کے چہرے پر نور نبوت دیکھ کر اس نے حضرت عبد اللہ کو اپنی طرف ملتفت کرنا چاہا لیکن ارتکاب حرام کی طرف آپ مائل نہ ہوئے واپسی پر پھر اس عورت پر گزر ہوا تو اس عورت نے کہا واللہ! میں کوئی بدکار عورت نہیں۔ تمہارے چہرے پر نور نبوت دیکھ کر میں یہ چاہ رہی تھی کہ یہ نور میری طرف منتقل ہو جائے لیکن اللہ نے جہاں چاہا اس نور کو ودیعت رکھا۔

یہ تو نصوص و احادیث کے حوالے ہیں ، لیکن بعض عربی شعراء نے آپﷺ کے چہرۂ انور کی مدحت سرائی کچھ اس انداز سے کی ہے کہ گویا آپﷺ سراپا نور ہیں۔چنانچہ کعب بن مالک نے غزوۂ احد کے موقع پر ایک قصیدہ آپﷺ کی شان مبارکہ میں کہا تھا ،اس کا ایک شعریہ ہے۔ ؎

فینا الرسول شھاب ثم یتبعہ

نور مضی لہ فضل علی الشھب

(ہمارے درمیان اللہ کے رسولﷺ ایک درخشندہ ستارے کی مانند ہیں ، جن سے روشنی کی ایک لو نکلتی ہے۔جو سب کو روشن کر دیتی ہے اور دوسرے تمام ستاروں کو روشنی بخشتی ہے۔) (عربی میں نعتیہ کلام :ڈاکٹر عباس اللہ عباس ندوی )

ایک دوسرے عربی شاعر نے کہا ہے۔ ؎

علیک صلوٰۃ یا خیر من تلا

و ھاد بنور اللہ فی الشرق و الغرب

(آپﷺ پر ہزاروں صلوٰۃ و سلام اے ہادیِ اعظم۔اے! مشرق و مغرب میں اجالا پھیلانے والے) عربی کے علاوہ فارسی ،اردو میں بھی آپﷺ کی صفت نور کو شعراء نے مختلف رنگ ا ور عجب عجب ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ان شعراء نے نعتیہ شاعری میں ’’نور نامے‘‘ کی ایک علاحدہ صنف قائم کی ہے۔اور اس پر طبع آزمائی کرکے ضخیم نور نامے ترتیب دیئے ہیں۔ان کے علاوہ نور کو موضوع بنا کر مختلف طریقوں سے اشعار بھی لکھے ہیں جن میں سے بعض تو ضرب المثل بن گئے ہیں۔فارسی کا ایک مشہور نعتیہ مصرع ہے ’’جہاں روشن است از جمال محمد ﷺ‘‘ غرض کہ آنحضور ﷺ کی مدح سرائی میں یہی ایک ایسا موضوع ہے جس کے مختلف گوشوں میں الگ الگ رنگ بھر کر قوس قزح سنواری جا سکتی ہے۔سریش بھٹ نے بھی عقیدت کی نظر سے آپ ﷺ کے نورانی حسن کو دیکھا ہے اور فرطِ محبت میں اشعار کے ذریعہ اس کا برملا اظہار کیا ہے۔چراغ دیر اور شمع حرم کی تابانی میں انھوں نے ایک ہی نور کو جلوہ فگن دیکھا ہے۔مذکورہ شعر میں ان کی ہندوی اصطلاح کا استعمال اس قیاس کی مثبت دلیل ہے۔ ان کے علاوہ یہ حقیقت ہے کہ شاعر کا خلاق تخیل جو بھی خیال آرائی کرے گا وہ نبیﷺ کی وصف بیانی میں حقیقت بن جا ئے گا۔ سریش بھٹ کی مدحت رسول ﷺ میں خیال آرائی بھی سچائی کے پیکر میں ڈھل گئی ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم مشاہدے سے جو بات کہتے تھے ، ہمارے مداحین شعراء اپنے تخیل سے ان حقائق کو اپنے اشعار میں پیش کر دیتے ہیں۔وہ اس طرح کہ مشاہدہ اور تخیل دونوں یکساں دکھائی دیتے ہیں۔سریش بھٹ کے خلاق تخیل کا یہ کمال ہے کہ نعت رسولﷺ میں ان کے اکثر اشعار دور نبوی کے شعراء کے کلام سے لگا کھاتے ہیں۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png


چوتھے شعر میں سریش بھٹ نے آپﷺ کے حسن ِ سلوک ، سب کے ساتھ یکساں برتائو اور تفوق و تشرف سے عاری مساواتی رویہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ساتھ ہی اپنے عجز و انکسارکا بھی اظہار کر دیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ’’ اے رسول اللہ ، آپ ﷺ کے گھر (مجلس) کے طریقے بڑے عجیب ہیں۔ یہاں امیر و غریب کے درمیان کوئی فرق مراتب نہیں،برتر و کمتر اور افضل و ارذل میں حد فاصل کا یہاں تصور ہی نہیں۔آپﷺ کی شان میں سریش بھٹ کی یہ مدحت طرازی صرف الفاظ کا گورکھ دھندا نہیں بلکہ اشارے کنایوں میں سیرت رسولﷺ کے تاریخی گوشے سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔ان کی نعت کا لفظ لفظ حقیقت حال بنا ہوا ہے۔اسی شعر میں کہا گیا ہے کہ، ’’تجھیا گھراچی طرح چ نیاری ، سمان شری منت وا بھکاری ‘‘ یعنی تمہارے گھر کی عجیب ریت ہے کہ امیر و غریب یکساں مانے جاتے ہیں۔سریش بھٹ کا یہ شعر اگرچہ سر سری طور پر کہا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن اس کے پس پشت سیرت ِ مبارکہ کا وہ عظیم واقعہ بھی ہے جب آپ ﷺ نے کہا تھا، ’’اکراہ ان التمیز علیکم ان اللہ سبحانہ و تعالیٰ بکرہ من عبدہ ان یراہ متحیزہ بین اصحا بہ۔‘‘ (میںامتیاز کو پسند نہیں کرتا ،اللہ کو یہ پسند نہیں کہ اس کا بندہ اپنے ساتھیوں کے درمیان امتیاز کے ساتھ رہے۔ ) دوسری جگہ آپ ﷺ نے فرمایا ، ’’لیس لا بن البیضاء علی ابن السواد فضل ‘‘ (کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں) اس پس منظر میں دیکھئے کہ شعر کے معنی کتنے بلند ہو جاتے ہیں۔مساوات کا یہ پیغمبرانہ عمل دیکھ کر ہی سریش بھٹ نہایت عاجزی و انکساری سے عرض معروض کرتے ہیں کہ آپﷺ کے گھر کے کسی گوشے ہی میں سر چھپانے کے لیے تھوڑی سی جگہ مرحمت فرما دیجئے۔ دربار نبویﷺ کا جاروب کش، غلام ،خدمت گار وغیرہ کئی اصطلاحات نعتیہ شاعری میں مل جاتی ہیں، لیکن عقیدت کی فراوانی ،انکساری کے ساتھ دربار نبوی ﷺ کے گوشے میں تھوڑ ی سی جگہ مانگنے میں ہے، وہ ان اصطلاحات میں نہیں۔خود خلیفۃ المسلمین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دربار نبوی کے ایک گوشے میں ابدی استراحت کے لیے تھوڑی سی جگہ کی تمنا تھی۔ سریش بھٹ کا اس گوشۂ عافیت میں تھوڑی سی جگہ مانگنا ان کے فکری اور جذباتی سلسلے کی کڑیوں کو دور فاروقی سے ملاتا ہے۔نعتیہ اشعار میں ایسی تمنا کرنے والے فارسی شعراء میں مولانا جامیؔ اور مراٹھی میں سریش بھٹ ہی ملے ہیں۔جامیؔ ’’تحفۃ الاحرار ‘‘ کی ایک نعت میں ملتجی ہیں ۔ ؎

از ہمہ آفات تسنیم سلیم

برد دربار تو جامیؔ مقیم

سریش بھٹ کی نعت کا پانچواں شعر حسن شعری کا اچھا مرقعہ ہے۔اس شعر ی تخیل کی تطبیق شیخ عبد الرحیم البرعی کے قصیدۂ جیمیہ کے درج ذیل شعر سے ہوتی ہے۔ ؎

و ان ذکر و الیلیٰ و لبنیٰ فاننی

بذ کر الحبیب الطیب الذ کر الھج

( یعنی جب یہ لوگ کسی لیلیٰ یا لبنیٰ کا ذکر کرتے ہیں تو میں اس حبیب پاک ﷺ کی یاد میں نغمہ خواں ہوتا ہوں ، جن کا ذکر سراسر معطر ہے)

ذکر حبیب میں مشام جاں کا معطر ہونا عشقِ حبیب میں اخلاص اور محبت میں فراوانی پر دلالت کرتا ہے۔سریش بھٹ کا روم روم بھی یاد حبیب اور ذکر رسولﷺ سے معطر ہو گیا ہے۔ اس نعت کے آخری شعر میں اگرچہ کوئی خاص مضمون نہیں ہے ، نہ خیال آرائی نہ خیال آفرینی ، حسن شعری کی کرشمہ سازی ، مرصع و آبداری ہے نہ معنی آفرینی۔ بس سیدھے سپاٹ انداز میں شاعر نے دل کی بات نوک قلم سے شعر میں اتاردی ہے۔ہاں! البتہ اس شعر میں تاریخی حقائق کا ایک جہاں آباد ہے۔بعثت سے پہلے ہی نہیں بعد میں بھی کٹر سے کٹر دشمن آپﷺ کے صادق و سچے ہونے کی گواہی دیتے تھے اور باوجود نفرت و عداوت کے آپ کے قول کی صداقت کو تسلیم کرتے تھے۔وجاہت اور سرداری کی وجہ سے بظاہر آپ ﷺ کی تکذیب بھی ہوا کرتی تھی لیکن بباطن وہ آپ کی سچائی کو ماننے کے لیے مجبور ہوجاتے تھے۔تاریخ و سیر کی کتابوں میں بعض روایات ملتی ہیں کہ آپﷺ کا کھلا دشمن جب آپ ﷺ کا چہرۂ انور دیکھ لیتا ، تو گواہی دیتا کہ ’’یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہو سکتا۔‘‘ ’’سیر الصحابہ ‘‘ میں آپ ﷺ کے رخ انور کو دیکھ کر دین کی سچائی پر ایمان لانے والوں کے واقعات بھی ملتے ہیں،جو یہ کہتے ہوئے حلقہ بگوش اسلام ہوئے کہ ہاں !اس شخص کی باتیں جھوٹی نہیں ہوسکتیں۔ان شواہد کی روشنی میں مذکورہ شعر کو پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ سریش بھٹ نے ’’تاریخ‘‘ کو اس شعر کے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔

غرض کہ یہ نعت نہ صرف الفاظ کی پچی کاری کا نمونہ ہے نہ عقیدت کی فراوانی کا چڑھتا دریا، نہ حسن شاعری کا مرقع ،نہ خیال آفرینی کا طلسماتی جہاں، بلکہ سریش بھٹ نے نہایت جذباتی اور والہانہ انداز میں وہ تمام حقائق اس نعت میں سمیٹ لیے ہیں جن کا سنہرا ہالہ آپ ﷺ کی ذات کے اطراف پھیلا ہوا ہے۔


نئے صفحات