سیرت ابن ہشام کے کچھ سیرتی مباحث اشعار کی روشنی میں- پروفیسر ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

سیرت ابن ہشام کے کچھ سیرتی مباحث- اشعار کی روشنی میں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مضمون نگار: پروفیسر ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی ( علی گڑھ )

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سیرت پاک کی اولین کتابوں میں سیرت ابن ہشام اور سیرت ابن اسحاق کاذکر واضح الفاظ میں موجودہے۔ سیرت ابن اسحاق کا علاحدہ ذکر عہدحاضرمیں ممکن نہیں، البتہ محققین کے نزدیک اس کا پورامواد یاحجم سیرت ابن ہشام میں آگیاہے۔ ابن ہشام نے جگہ جگہ ابن اسحاق کی مرتب سیرت پر اپنی رائے کا بھی اظہار کیاہے۔ سیرت ابن ہشام بہ مکمل ہمارے سامنے موجود ہے، بعدکے سیرت نگاروں نے اسے اساسی ماخذ کا درجہ دیا۔ اس کی افادیت واہمیت کے پیش نظر دنیاکی قائدانہ زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے۔ ابن ہشام نے اپنی اس کتاب کی ترتیب میںمختلف مراجع کوپیش نظر رکھا۔ آیات کریمہ اور احادیث سے استفادہ کیا۔ اسی طرح سیرت پاک کے بہت سے پہلوئوں کی توضیح وتشریح کے لئے اشعار عرب کوبھی اساسی مرجع قراردیا،اور معاندین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اشعار سے استفادہ کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے انوارو حقائق کوسپردقرطاس کیا۔ بالخصوص غزوات و سرایا کی بہت سی باریکیوں کوشعراء کی زبانی بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عالی نسبی، تعمیرکعبہ، آمدرسول، جنگ بدر، دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ناپاک عزائم، شہداء اسلام اورصحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاکیزہ احساسات کو اشعار کی روشنی میں ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔

عربوں کی معاشرتی، ادبی، ثقافتی اور سیاسی کروٹوں کا اشعارکی روشنی میں جائزہ لیا جاسکتاہے۔ اسی لئے اسے ’’دیوان العرب ‘‘کہا گیاہے۔ شاعراپنے قبیلے کا ترجمان ہواکرتاتھا۔ قبیلے کی خصوصیات کو بیان کرنا اس کے فرائض میں شامل تھا۔ اپنے آباء واجداد کے کارناموں کا فخریہ ذکرکرنا، محاذ جنگ پرجاکر اپنے لوگوں کو اکسانا اورتحفظ ناموس میں جان کی بازی لگانے کی بات کرناان کے مزاج کا حصہ تھا۔ عربوں کے ثقافتی خطوط کا دواوین عرب میں مطالعہ کیا جاسکتاہے۔ اس حقیقت کااعتراف بھی ناگزیر ہے کہ ان اشعار میں الحاقات بھی ہیں۔ ابن ہشام میں منقولہ اشعار کے باب میں بھی یہ یقین کے ساتھ کہنامشکل ہوگاکہ اس میں الحاقات نہیں ہیں۔ لیکن اس اعتراف سے فراربھی ممکن نہیں کہ اشعار کے بغیر بہت سی سیرتی تفاصیل کی دستیابی آسان نہیں۔ اس مضمون میں کوشش ہوگی کہ سیرت ابن ہشام کی پہلی جلد سے بہت سے ایسے اشعار نقل کئے جائیں جن سے عظمت سیرت پاک کا احساس جاگے نیز قارئین سیرت رسول سے خودکوپوری طرح ہم آہنگ کرسکیں۔سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داداعبدالمطلب کی شخصیت سے متعلق کچھ اشعار نقل کئے جائیں گے تاکہ یہ اندازہوسکے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آباواجداد کن عظمتوں کے حامل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندانی سلسلہ کن کن اوصاف عالیہ سے مربوط ہے اور رجال خاندان کوکن کن اعزازواکرام سے نوازا جاتاتھا۔

علی رجل کریم غیروغل

لہ الفضل المبین علی العبید

(اس شریف شخص پر (آنسوبہنے لگے) جودوسروں کے نسب میں ملنے کا جھوٹا دعویدارنہ تھا۔ جسے بندگان خداپر نمایاں فضیلت حاصل تھی)

علی الفیاض شیبۃ ذی المعالی

أبیک الخیروارث کل وجود

(شیبہ پر جوبڑافیاض اور بلند مرتبے والاتھا۔ اپنے اچھے باپ پر جوہرقسم کی سخاوت والاتھا)

صدوق فی المواطن غیرنکس

ولاشخت المقام ولاسفیہ

(اس پر جوجنگ کے میدانوں میں خوب لڑنے والا۔ اپنے ہمسروں سے کسی بات میں پیچھے نہ رہنے والا ، نہ کم رتبہ اور نہ دوسروں کے نسب میں مل جانے والاتھا)

طویل الباع ، أردع شیظمی

مطاع فی عشیرتہ حمید

(اس پر جوبہت ہی کشادہ دست، عجیب حسن وسخاوت والا، بھاری بھرکم گھرانے کا قابل تعریف سردارتھا)

أعینی واستخرطا اواسجما

علی رجل غیرنکس کھام

(اے میری آنکھوں! خوب جم کر رولو، اورایسے شخص پر آنسوبہائوجونہ پیچھے رہنے والاتھا اورنہ کمزور)

علی شیبۃ الحمد،واری الزناد

وذی حصدق بعد ثبت المقام

(مہمان نواز، قابل ستائش شیبہ پر اوراپنے مقام پر جمے رہ کر ، سخت حملہ کرنے والے پر)

وسیف لدی الحرب صمصامۃ

ومردی الخاصم عند الخصام

(اس پر جوجنگ کے وقت خم نہ ہونے والی تلواراورجھگڑے کے وقت دشمن کوہلاک کرنے والاتھا)

وسھل الخلیقۃ، طلق الیدین

وفی عد ملی صمیم لھام

(نرم سیرت والے ، کشادہ ہاتھوں والے، وفادار، سخت پختہ ارادے والے، کثیرالخیر شخص پر)

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مذکورہ اشعارکے علاوہ بیشمار اشعارمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داداکی ثناخوانی کی گئی ہے۔ اشعار میں مذکورہ صفات شہادت دیتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ایک معروف وممتاز گھرانے سے تھا آپ صلی اللہ علیہ کے دادا مہمان نواز، سخی ، پیش پیش رہنے والے ، ثابت قدم جنگجو، بااخلاق ، نرم خو، وفادار اور کثیرالخیرانسان تھے۔ ایسے پاکیزہ اور مقدس ماحول میں پرورش پانے والا انسان لازماً اعلیٰ اقدارکا حامل ہوگا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق اسی اعلیٰ وارفع سلسلۂ نسب سے تھا۔ گویا خاندانی وجاہت اور رسالت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیاکا مثالی انسان بنادیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتداء اور انتہاتما م نفائس سے مربوط تھیں۔ ایساعظیم اور خلیق انسان اب تک دنیا میں نہ آیا ہے اورنہ آئندہ آئے گا۔اسی پہلوکو قرآن کریم میں یوں واضح کیا گیاہے۔

ومن اللیل فتھجد بہ نافلۃ لک عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا(بنی اسرائیل !۱۷/۷۹)

اوراے پیغمبر ! رات کا کچھ حصہ( یعنی پچھلا پہر) شب بیداری میں بسرکریہ تیرے لئے ایک مزید عمل ہے قریب ہے کہ اللہ تجھے ایک ایسے مقام میں پہنچادے جو نہایت پسندیدہ مقام ہو۔

مولانا آزاد نے اپنی تفسیر میں’’ مقام محمود‘‘ کی نہایت اچھی تصویر کشی کی ہے مناسب ہوگا کہ یہ طویل اقتباس نقل کردیا جائے جو قارئین کے لئے باعث فرحت ہوگا:

’’آیت ۷۹ میں مقام محمود سے مقصود ایسادرجہ ہے جس کی عام طورپر ستائش کی جائے۔ فرمایا کچھ بعیدنہیں کہ تمہاراپروردگار تمہیں ایسے مقام پر پہنچادے جو عالم گیر اور دائمی ستائش کامقام ہو۔

یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب پیغمبر اسلام کی مکی زندگی کے آخری سال گزررہے تھے اورمظلومیت اوربے سرو سامانی اپنے انتہائی درجوں تک پہنچ چکی تھی، حتیٰ کہ مخالف قتل کی تدبیروں میں سرگرم تھے۔ ایسی حالت میں کون امید کر سکتا تھا کہ انہیں مظلومیتوں سے فتح وکامرانی پیداہوسکتی ہے؟ لیکن وحی الٰہی نے صرف فتح وکامرانی ہی کی بشارت نہیں دی، کیوں کہ فتح وکامرانی کی عظمت کوئی غیرمعمولی عظمت نہ تھی، بلکہ ایک ایسے مقام تک پہنچنے کی خبردی جو نوع انسانی کے لیے عظمت وارتفاع کی سب سے آخری بلندی ہے، یعنی ’’عسٰی ان یبعثک ربک مقاما محمودا‘‘ حسن وکمال جہاں پہنچ کر محمودیت خلائق کی عالم گیر اوردائمی مرکزیت حاصل ہوجائے گی، کوئی ملک ہو، کوئی نسل ہو، لیکن کروڑوں دلوں میں اس کی ستائش ہوگی، ان گنت زبانوں پر اس کی مدحت طرازی ہوگی، محمود یعنی سرتاسر ممدوح ہستی بن جائے گی:

ماشئت قل فیہ فأنت مصدق

فالحب یقضی والمحاسن تشھد

یہ مقام انسانی عظمت کی انتہاہے۔اس سے زیادہ اونچی جگہ اولاآدم کونہیں مل سکتی، اس سے بڑھ کر انسانی رفعت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کی سعی وہمت ہرطرح کی بلندیوں تک اڑجاسکتی ہے، لیکن یہ بات نہیں پاسکتی کہ روحوں کی ستائش اور دلوں کی مداحی کامرکز بن جائے، سکندر(Alexander) کی ساری فتوحات خود اس کے عہدوملک کی ستائش اسے نہ دلاس کیں اورنپولین (Napoleon)کی ساری جہاں ستانیاں اتنابھی نہ کرسکیں کہ کورسیکا (Corsica) کے چند غدارباشندوں میں اسے محمودوممدوح بنادیتیں جہاں وہ پیداہواتھا۔ محمودیت اسی کو حاصل ہو سکتی ہے جس میں حسن وکمال ہو، کیوں کہ روحیں حسن ہی سے عشق کرسکتی ہیں اور زبانیں کمال ہی کی ستائش میں کھل سکتی ہیں، لیکن حسن وکمال کی مملکت وہ مملکت نہیں جسے شہنشاہوں اورماتحتوں کی تلواریں مسخر کرسکیں۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

غورکرو! جس وقت سے نوع انسانی کی تاریخ معلوم ہے نوع انسانی کے دلوں کا احترام اور زبانوں کی ستائشیں کن انسانوں کے حصے میں آئی ہیں؟ شہنشاہوں اور فاتحوں کے حصے میں یاخداکے ان رسولوں کے حصے میں جنھوں نے جسم وملک کو نہیں، روح ودل کو فتح کیاتھا؟ یہی مقام محمود ہے جس کی خبر ہمیں ایک دوسری آیت میں دی گئی ہے اور خبر کے ساتھ امربھی ہے:

’’ان اللّٰہ وملٰئکتہ یصلون علی النبی، یٰایھا الذین اٰمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما۔‘‘(۳۳:۵۶)

بعض احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ اس مقام کا ایک مشہد وہ معاملہ ہوگا جوقیامت کے دن پیش آئے گا جب کہ اللہ کی حمد وثناکا علم آپ کریں گے، اور بلاشبہ محمودیت کا مقام دنیا وآخرت دونوں کے لیے ہے۔ جوہستی یہاں محمود خلائق ہے وہاں بھی محمودوممدوح ہوگی۔ (ترجمان القرآن، مولانا ابوالکلام آزاد، ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی، پہلی بار۱۹۷۰ء ،۴/۳۰۸۔۳۰۶)

اس مؤقر ومکرم انسان کا قصہ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے بھائی ورقہ بن نوفل کے سامنے بیان کیا توانہوں نے کہا یہ صفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کی غمازی کرتی ہیں۔ اگرمیں اس وقت تک باحیات رہاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لائوں گا۔ لیکن افسوس کہ آپ کی زندگی میں یہ خوبصورت ساعت ظہورپذیرنہ ہوسکی۔ ورقہ بن نوفل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں اپنے احساسات کو ان اشعار میں منظوم کیاہے۔

ببطن المکتین علی رجائی

حدیثک ان أری منہ خروجا

(اے خدیجہ ! میں سمجھتاہوں اورامیدرکھتاہوں کہ تمہاری بات کا ظہور مکہ کے دونوں بطنوں کے درمیان ہوگا)

بماخبرتنا من قول قس

من الرھبان اکرہ أن یعوجا

(تم نے راہبوں کی جن باتوں کی خبر دی ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ غلط ہوجائے)

بأن محمداً سیسود فینا

ویخصم من یکون لہ عجیجا

(کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم میں عنقریب سردارہوجائیں گے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے جوشخص کسی سے بحث کرے گا وہی غالب رہے گا)

ویظھر فی البلاد ضیاء نور

یقیم بہ البشریۃ أن تموجا

(اور تمام شہروں میں اس کے نورکی روشنی پھیل جائے گی۔ جوخلق خداکو سیدھا چلائے گی اور منتشرہونے سے بچائے گی )

فیلقی من یحاربہ خساراً

ویلقی من یسالمہ فلوجا

(اس کے بعد جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرے گانقصان اٹھائے گا اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصالحت کرے گا منجمدرہے گا)

فیالیتنی اذاما کان ذاکم

شھدت وکنت اکثرھم ولوجا

(کاش ! میں بھی اس وقت رہوں جب تمہارے سامنے ان واقعات کا ظہورہواور کاش میں اس میں داخل ہونے والوں میں سے زیادہ حصہ دارہوں)

ولوجا فی الذی کرھت قریش

ولو عجت بمکتھا عجیجا

(اس دین میں داخل ہوجائوں جس سے قریش کو کراہت رہے۔ اگرچہ وہ اپنے مکہ میں بہت کچھ چیخ پکار کریں)

مذکورہ اشعار سے اندازہ ہوتاہے کہ ورقہ بن نوفل ایک عالم اور سنجیدہ طبیعت کے انسان تھے۔ فکر آگہی ان کے مزاج کا حصہ تھی جس کاظہور ان اشعار میں پوری طرح موجود ہے۔ وہ عیسائیت کے ایک بڑے عالم تھے جس کی وجہ سے انجیل میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق موجودہ بشارت سے بخوبی واقف تھے۔ آپ کی شدید خواہش تھی کہ آپ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے شرف یاب ہوں اور زبان وقلب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعتراف کریں رسالت محمدی سے آپ کی عقیدت ومحبت کو ان الفاظ میں دیکھا جاسکتاہے۔

وھل امر السفالۃ غیر کفر

بمن یختارمن سمک البروج

(جس نے بلندی کو برجوں کے لئے منتخب کیاہے اس سے انکار وکفر کے سواکیاکوئی اور ذلت بھی ہے؟)

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

حضرت ابوطالب اپنے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر چاہتے تھے اور اس محبت میں پورے عرب سے دشمنی مول لینا ان کے لئے کوئی بڑی چیز نہ تھی، وہ بہرصورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ اور دفاع کے لئے تیارتھے۔ کچھ محققین اور مؤرخین کا خیال ہے کہ وہ اندرونی طورسے اسلام قبول کرچکے تھے لیکن معاشرتی خوف اوراپنے آبائی دین کے سبب زبان سے اعتراف ان کے لئے ایک مسئلہ بن چکاتھا لیکن ہم اس مسئلے میں نہ جاتے ہوئے صرف اتنا اظہار خیال ضرورکریں گے کہ حضرت ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل وجان سے شیدائی تھے۔ وہ جوبھی کریں وہ ان کے ساتھ رہیں گے۔ گویا ان کی دعوت توحید اور دین اسلام کے احیاء سے متعلق کوششوں کا ساتھ دیں گے۔ اللہ دلوں کا حال بہترجانتاہے وہ اسی کے مطابق فیصلہ صادرکرے گا۔ جب عربوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک طوفان برپا ہو گیا تو آپ نے ان اعداء رسول کے سامنے پہلے اپنے خاندانی وقار کاذکر کیا اور اس کے بعد شریعت محمدی کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی قوم کی عداوت وشناعت کوموضوع بحث بنایا۔

ولمارأیت القوم، لا ود فیھم

وقد قطعوا کل العری والرسائل

(جب میں نے قوم کودیکھا کہ ان میںمحبت نہیں رہی اورانہوں نے تمام تعلقات اور رشتوں کوتوڑدیا)

وقد صارحونا بالعداوۃ و الاذ

وقدطاوعوا أحد العدو المزائل

(انہوں نے ہم سے کھلی دشمنی اور ایذارسانی شروع کی۔انہوں نے ہم سے الگ ہونے والے دشمن کی بات مانی )

صبرت لھم نفسی بسمراء سمحۃ

وأبیض عضب من تراث المقاول

(تومیں بذات خود ایک لچکیلے نیزے اور شایان سلف کی وراثت میں ملی ہوئی ایک چمکیلی تلوار لے کر ان کے مقابلے میں ڈٹ گیا)

یہ ایک طویل قصیدہ ہے۔ اس میں حضرت ابوطالب نے اپنی حیثیت جتلائی اور اپنے مخالفین کوہدف تنقید بناتے ہوئے مختلف انداز میں اپنے احساسات وجذبات کی عکاسی کی ہے اور اختتام قصیدہ پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف اعلیٰ جہات وصفات کو موضوع بحث بنایاہے۔ ان اشعار میں حضرت ابوطالب کی محبت کو ملاحظہ کیا جاسکتاہے کہ انھیں اپنے بھتیجے سے کس قدر قلبی اورجذباتی لگائوتھا۔ ان کی ہرتحریک اورہراقدام کا سہارابنے سرداران عرب کی مخالفتیں ان کے جوش محبت کو جدانہ کرسکیںاس تعلق سے کچھ اشعار ہدیۂ ناظرین ہیں۔

لعمری لقد کلفت وجداًبأحمد

واخوتہ داب المحب المواصل

(اپنی عمر کی قسم! جس طرح دائمی محبت کرنے والوں کی محبت ہوتی ہے۔ میں احمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اوران بھائیوں کے عشق میں مبتلاکیاگیاہوں)

فلازال فی الدنیا جمالا لأھلھا

وزیناً لمن والاہ رب المشاکل

(ایک دوسرے سے متشابہ شکلیں بنانے والے پروردگار احمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے بھائیوں سے تعلقات رکھنے والوں کے جمال دنیوی ہمیشہ رکھے اورجن لوگوں کی اس نے سرپرستی کی ہے ان کی زینت کودوام عطافرمائے)

فمن مثلہ فی الناس أی مؤمل

اذا قاسہ الحکام عند التفاصل

(احمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا سالوگوں میں ہے کون؟حکام نے جب فضائل کا مقابلہ کرنے کے لئے اس (کے رتبے) کا اندازہ کیا تو اس کے لئے ان لوگوں میں جن سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔ عجیب قسم کی برتری ہوئی)

حلیم، رشید عادل، غیر طائش

یوالی الٰھا لیس عنہ بغافل

(وہ بردبار، سیدھی راہ چلنے والا، عادل، جذباتی نہیں ہے۔ اس کا تعلق ایک ایسے معبودسے ہے جو اس سے غافل نہیں )

لقد علموا أن ابننا لا مکذب

لدیناولایعنی بقول الأباطل

(تمام لوگوں کو پتہ ہے کہ ہمارا بیٹاہم لوگوں کے نزدیک کذب وافتراء سے پاک ہے اور لایعنی باتوں پرتوجہ نہیں دی جائے گی)

حدبت بنفسی دونہ وحمیتہ

ودافعت عنہ با لذرا و الکلاکل

(اس کی مدافعت میں میں نے اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔اپنی نسبت کی بلندی اورسینے کے بڑے حصے سے اس کی حفاظت کی)

فأیدہ رب العباد بنصرہ

وأظھر دینا حقہ غیر باطل

(پس رب العباد نے اسے اپنا ذاتی تعاون دیا۔ اور اپنی حقانیت سے دین برحق کو سربلندی عطاکی)

حضرت ابوطالب کے اس طویل قصیدہ سے چند اشعار یہاں پیش کئے گئے۔ اس میں تین بنیادی نکات پر توجہ صرف کی گئی ہے۔ ایک تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جس شاخ سے تعلق ہے وہ اپنے کردار کے سبب ممتاز ومنفرد ہے۔ دوسرے مخالفین کے انداز فکر پر اظہار افسوس جتایاگیاہے اورمسک الختام کے طورپر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف عالیہ اور مقات مقدسہ کا عقیدتاً ذکر کیاگیاہے۔ ان اشعار کے تناظر میں حضرت ابوطالب کی عظمت کا مشاہدہ کیا جاسکتاہے کہ تمام ترموانع ومشاکل کے باوجود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی دست کش نہیں ہوئے۔

سیرت ابن ہشام میںہجرت مدینہ کے حوالے سے خاصی معلومات موجود ہیں۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم غار ثورمیں تین روز مقیم رہے اور وہیں سے ہجرت کا منصوبہ بنایا، لیکن یہ سب چیزیں رازمیں رہیں یہاں تک کہ ایک جن کے ذریعہ اس حقیقت کا اظہارکیاگیا۔ یہ اظہار منظوم شکل میں تھا:

خیراللہ رب الناس خیرجزاء

رفیقین حلا خیمتی ام معبد

(رب الناس ان دونوں دوستوں کو اپنی جانب سے بہترین جزاء دے جوام معبد کے خیمے میں اترے)

ھما نزلا بالبر تم تروّحا

فأفلح من أمسی رفیق محمد

(وہ دونوں اچھائیوں کے ساتھ نازل ہوئے۔ پھر شام ہوتے ہوتے روانہ ہوگئے۔ یہ یقینی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی فلاح یاب ہوگا)

لیعصی بنی کعب مکان

ومقعدھا للمؤمنین بمرصد

(بنی کعب کو اپنے زنان خانے اور دلوان خانے سے خوش ہوناچاہئے کہ وہ ایمان داروں کی انتظار گاہ ہیں)

مذکورہ اشعار میں رسالت محمدی کے تقدس وتبرک کو پیش کیا گیاہے۔ اس ذات اقدس سے جوکوئی وابستہ ہوجائے کامیابی اس کی تقدیرکا حصہ بن جاتی ہے۔ عہد حاضرمیں رفاقت کی شکل یہ ہے کہ سیرت نبوی کو اپنا معیار ومحور بنایاجائے اور ہر میدان میں میزان نبوی مقصود ومطلوب ہو۔ یہی رفاقت نبوی اخروی الجھنوں سے نجات کا باعث ہوگی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رفاقت نبوی کو اللہ نے اس قدر پسندکیا کہ اسے اپنی کتاب میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیاگویایہ رفاقت ابوبکر تمام دنیاوی رفاقتوں پر بھاری ہے۔ جس کا ذکر سورہ توبہ میں یوں کیا گیا ہے: الاتنصروہ فقد نصرہ اللہ اذ اخرجہ الذین کفرو ثانی اثنین اذھما فی الغار اذیقول لصاحبہ لاتحزن انّ اللہ معنا۔ (التوبہ ۹/۴۰)

اگر تم ان (بنی صلی اللہ علیہ وسلم )کی مددنہ کرو تواللہ ہی نے ان کی مددکی اس وقت جب کہ انھیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیاتھا۔دومیں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غارمیں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس کی توضیح کچھ اس طرح ہے:-

’’جہاد سے پیچھے رہنے یااس سے جان چھڑانے والوں سے کہاجارہاہے کہ اگرتم مددنہیں کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کا محتاج نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی مدداس وقت بھی کی جب اس نے غارمیں پناہ لی تھی اوراپنے ساتھی یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہاتھا’’غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘اس کی تفصیل حدیث میں آئی ہے۔ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں’’جب ہم غارمیں تھے تومیں نے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اگر ان مشرکین نے (جو ہمارے تعاقب میں ہیں)اپنے قدموں پر نظرڈالی تویقینا ہمیں دیکھ لیں گے‘‘ حضرت بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یاابوبکر! ’’ماظنک باثنین اللہ ثالثھما (صحیح بخاری تفسیر سورۃ التوبۃ)اے ابوبکر! تمہاراان دوکے بارے میں کیاخیال ہے، جن کاتیسرااللہ ہے’’یعنی اللہ کی مدد اوراس کی نصرت جن کے شامل حال ہے۔‘‘

(قرآن کریم مع اردوترجمہ وتفسیر ، شاہ فہدقرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس، ۱۴۱۷ھ؁ ، ص:۵۱۲)

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

یہ رفاقت تمام مادی آلائشوں سے پاک وصاف ہے۔ ہم اپنی رفاقت کا جائزہ لیں کہ کیا سرور کائنات کے تئیں اس میں صداقت اور اخلاص ہے۔ رفاقت محمدی کے توسط سے ہم مناصب اور شہرت وعظمت کے خواستگار تونہیں؟ آج اسی رفاقت کے حوالے سے سیرت اور دولت کمائی جارہی ہے۔ گویانعت گوئی اور نعت خوانی حصول مادیت کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ پاکستانی خواتین اس نعت خوانی کے توسط سے اپنے حسن وجمال کا مظاہرہ کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم اس حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باوجود بھی ذلت وحقارت کی زدپر ہیں۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تووہاں ایک خوشی کا ماحول تھا۔ اس بابرکت تشریف آوری سے وہاں کی فضاخوشیوں اور برکتوں میں بس گئی۔ ہرشخص اپنی قسمت پرنازاں تھا کہ دنیاکی قیمتی متاع ہمارے حصے میں آگئی۔ ہماری ہی سرزمین سے اسلام کا بول بالا ہوگا اورہم خدام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہلائیں گے۔ ابوقیس صرمہ نے ان جذبات کی ترجمانی اس انداز سے کی ہے۔

ثوی فی قریش بضع عشرۃ حجۃً

یذکر لویلقی صدیقاً مواتیا

(آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم دس سال سے زائد قریش میں قیام پذیررہے کہ کاش کوئی موافق دوست مل جائے)

ویعرض فی أھل المواسم نفسہ

فلم یرمن یؤدی ولم یر داعیا

(اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے مواقع پر خود کو (عوام الناس کے سامنے)پیش کرتے رہے ، لیکن کسی نے نہ تو دست گیری کی اورنہ ہی کسی لبیک کہنے والے شخص کا مشاہدہ کیا)

فلما أتاناأظھر اللہ دینہ

فاصبح مسروراًبطیبۃ راضیا

(جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف فرماہوئے تواللہ نے اپنے دین کو غلبہ عطاکیا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہرطیبہ سے مکمل طورسے راضی برضاہوگئے)

وألقی صدیقاًواطمانت بہ النوی

وکان لنا عونا من اللہ بادیا

اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسادوست پالیا جس میں آپ کی غریب الوطنی کو اطمینان حاصل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایسے معاون تھے کہ جس کی مددبالکل ظاہروباہرتھی۔

یقص لناماقال نوح لقومہ

وماقال موسیٰ اذاجاب المنادیا

نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے جوکچھ کہا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے بیان فرماتے ہیں اورموسیٰ نے ( غیب سے) پکارنے والے کو جو جواب دیا، اس کی تفصیل فرماتے ہیں۔)

واصبح لایخشیٰ من الناس واحداً

قریباً ولایخشیٰ من الناس نائیا

(اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں صبح کی کہ لوگوں میں سے کسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ڈرتے، چاہے وہ نزدیکی ہویادور والا)

بذلنا لہ الاموال من حل مالنا

وانفسنا عند الوغاوالتأسیا

(ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی جانیں اوراپنے مال کا بڑاحصہ جنگوں اور ہمدردیوں میں صرف کیا۔)

ونعلم انَّ اللہ لاشیٔ غیرہ

ونعلم انَّ اللہ افضل ھادیَا

(اورہم جاننے لگے ہیں کہ اللہ کے سواکوئی چیز ہے ہی نہیں اور جان رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی بہترین رہنماہے۔)

نُعادِی الذی عادی من الناس کلھم

جمیعا وان کان الحبیب المصافیا

(سب لوگوں میں سے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمنی کااظہار فرماتے ہیں ہم بھی اس کے دشمن ہوجاتے ہیں، اگرچہ وہ مخلص دوست ہو۔)

اقُولُ اذاادعوک فی کل بیعۃ

تبارکت قد اکثرت لِاَسمکَ داعیا

( جب میں ہر عبادت گاہ میں جاکرتجھ سے دعاگوہوتاہوں توکہتاہوں کہ تم نے برکتیں نازل کیں،یقینا میں نے دعاکرتے ہوئے تیرا نام بہت لیاہے۔)

اقول اذاجاوزت ارضا مخوفۃً

حنانیک لاتظھرعلی الأعادیا

(جب میں کسی خطرناک سرزمین سے گزرتاہوں توکہتاہوں کہ تواپنی مہربانیوں سے مجھ پر دشمنوں کو غلبہ نہ دے۔)

سیرت ابن ہشام جلد اول سے مذکورہ بالااشعار نقل کئے گئے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے مزیداشعار مل سکتے ہیںجن میں اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل مقدسہ کی توضیح کی گئی ہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رتبۂ بلندکا انکشاف کیاگیا۔ ان اشعار کی روشنی میں ایک معتبر زاویۂ نظریہ سامنے آیاکہ نہ صرف عرب بلکہ رہتی دنیاتک تما م خطوں میں بسنے والے اللہ کے بندوں کے لئے کوئی قائد ورہبر ہوسکتاہے تویہ صرف بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے جس کی ڈاکٹر حمیداللہ نے اپنی تحریروں میں نہایت وقیع استدلال فرمایاہے۔سرداران عرب نے ہرطرح سے اس آواز کو دبانا چاہالیکن چونکہ اس آواز کوتائید ایزدی حاصل تھی اس لئے اس سیادت وقیادت کو دبانا یاچراغ مصطفوی کو بجھانا انسانی بساط سے باہر تھا۔قرآن کریم نے جس کی بلیغ تصویرکشی یوں کی ہے :’’ورفعنا لک ذکرک ‘‘ اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا آوازہ بلند کیا۔ اس کی تفسیر صاحب تدبر قرآن نے یوں کی ہے :

یعنی کیایہ بات نہیں ہے کہ ہم نے تمہارا آوازہ بلند کیا!’’لک‘‘ جس طرح پہلی آیت میں اختصاص ، تائید اور نصرت کے اظہار کے لئے ہے اسی طرح یہاں بھی ہے۔ یعنی تمہاری تقویت وحوصلۂ فزائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمہارا ذکر دور دور تک پھیلادیاہے۔

اس آیت سے سورہ کا زمانۂ نزول معین ہوتاہے کہ یہ اس دورمیں اتری ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کاچرچاعرب کے اطراف واکناف میں پھیلنے لگاہے۔ یہ امریہاں واضح رہے کہ مکہ کے سادات جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے دعوت دی، وہ توایک عرصہ تک دعوت اورداعی کی مخالفت پر جمے رہے لیکن حج کے موسم میں باہرکے جولوگ آتے ان کے ذریعہ سے یہ دعوت مکہ کے اطراف خصوصیت کے ساتھ مدینہ کے انصارمیں پھیل گئی۔ پھر بالتدریج نہ صرف عرب کے دوروقریب کے قبائل بلکہ اطراف کے دوسرے ملکوں میں بھی اس کا ذکر پہنچ گیااوریہ اندازہ کرنا مشکل نہیں رہا کہ یہ آوازدبنے والی نہیں ہے بلکہ جلد وہ وقت آنے والاہے کہ بچہ بچہ کی زبان پر اس کا چرچا ہوگا اورگوشہ گوشہ اللہ اکبر کی صدا سے گونج اٹھے گا۔

(تدبر قرآن۔ مولانا امین احسن اصلاحی، تاج کمپنی ، دہلی ۱۹۸۹ء؁ ۹/۴۲۷)

ان اشعار سے یہی ترشح ہوتاہے کہ اگر فکرمیں صداقت، دیانت، اخلاص اور جذبۂ انفاق شامل ہوتو کامیابیاں تحریک اور تقدیرکانوشتہ بن جاتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے جاں نثاروں کے احوال وآثار کا تجزیہ کیاجائے تویہ مذکورہ تمام اوصاف بدرجۂ اتم ان کے اندرموجودتھے۔ یہی وجہ ہے کہ مخالفتیں اور عداوتیں ان کے سامنے بے معنی ہوکر رہ گئیں۔ یہ جیش رسول صلی اللہ علیہ وسلم گوتعدادمیں کم اور آلات حرب کے لحاظ سے خالی خولی، لیکن حمایت حق اور اخلاص کی ایسی دولت اورایسی قوت ان کے پاس تھی جوتمام قوتوں اور لشکروں پر بھاری ہوتی۔ چنانچہ پوراعرب اسی اخلاص وانفاق کے سبب زیر اسلام آگیااورخانہ کعبہ جو بتوں کا ٹھکاناتھا اور اس کی دیواریںمختلف تصاویر سے اٹی ہوئی تھیںنعرہ ٔ توحیدسے گونجنے لگیں۔وحدانیت کے نام پر وجود میں آنے والا یہ خانہ کعبہ جو شرک وکفر میں ڈوباہواتھا۔ اسے خالص توحید کے لئے مختص کردیاگیا۔ یہ توحیدی اختصاص انشاء اللہ تاقیامت برقرار رہے گا اس عظیم فتح وکامرانی کے لئے سورہ الکوثر کو نازل کیاگیا اس حکم کے ساتھ کہ اب سجدے صرف رب العالمین کے کئے جائیں گے، اور قربانی محض اسی کے نام کی جائے گی، اورتمہارے دشمنوںکی پوری طرح بیخ کنی کردی گئی ہے۔ ان تمام مباحث کی توضیح مولانا فراہی نے اپنی تفسیر الکوثر میں کردی ہے جس کا سیرت پاک سے گہرا تعلق ہے۔ تعمیرکعبہ کے حوالے سے اس سیرت میں کافی مواد موجود ہے۔یہاںیہ وضاحت بھی نامناسب نہ ہوگی کہ اردو زبان میں تعمیرکعبہ کے تعلق سے جو تحریریں موجود ہیں ان میں سب سے نمایاںتحریراورتحقیق سرسید کے خطبات احمدیہ میںہے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سیرت ابن ہشام کی ایک بین خصوصیت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب ونسب کے باب میں کافی اشعار موجود ہیںآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب ونسب کے تعلق سے یہودونصاریٰ نے جو تحریفات وتکذیبات کی ہیں اس کا عملی جواب مولانا فراہی کے مکاتیب شبلی، سیرت النبی اور فیمن ھوالذبیح میں ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کی خاندانی وجاہت کے تعلق سے متعدد قصائداس میں موجودہیں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتساب عالی اور علونسبی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ ان قصائد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا کی معاشرتی خدمات،حجاج کعبہ کی نگہداشت، شجاعت اور سخاوت اور ضیافت کا باربار ذکر کیاگیاہے۔ مختصریہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے خاندان کے چشم وچراغ تھے جس کی مثال دنیاپیش کرنے سے درماندہ ہے۔ اسی طرح حضرت ابوطالب نے اپنے اشعارمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس وترفع کاذکر چھیڑاہے، نیز مختلف اوصاف پر روشنی بھی ڈالی ہے۔ دشمنان رسالت پر لعن طعن کی ہے اور ان کی دناء ت وسطحیت پر اظہارافسوس کیاہے۔ حضرت ابوطالب کی زندگی کایہ پہلوقابل اعتناء ہے کہ انھوں نے اس طوفان عداوت میں حمایت رسالت کا ببانگ دہل اعلان کیا۔ یہ صراحت بھی ضروری ہے کہ دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شدت وحدت کا شعراء الرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابات بھی دیئے۔ جس سے یہ پتا چلتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کن شدائد ومصائب سے دوچار تھے یعنی سیرت ابن ہشام سے معاندین رسالت کے پلیداحساسات کا ادراک بھی ناممکن نہیں ہے۔ اسی طرح جنگ بدرکے موضوع پر ایسے بیشمار قصائد ہیں جن میں معتقدین خاتم الرسل نے اسلام اور رسالت کے تئیں اپنے اخلاص کو منظوم کیاہے۔ اسی طرح کفار ومشرکین نے اپنی حزیمت کا رونابھی رویاہے اورعربوں کو انتقام کے لئے اکسایاہے ان دونوں احساسات کا مطالعہ کیاجائے تو جنگ بدرکی ایک سچی تصویرسامنے آسکتی ہے۔ ان قصائدمیں جہاں بیشمارسیرتی جہات ہیں وہیں تفسیرآیات کریمہ کی بہت سی گرہیں بھی واہوتی ہیں۔ مثلاً اصحاب الاخدود، اصحاب فیل،اصحاب کہف، ذوالقرنین، اسراء ومعراج، برہان قرآن، تحویل قبلہ، سورہ انفال کا نزول اور تحریف قرآنی جیسے موضوعات پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔یہاں یہ صراحت بھی نامناسب نہ ہوگی کہ مقالات سرسید میں اسراء ومعراج پرتفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ جس کا خوبصورت جائزہ پروفیسرمحمد صلاح الدین عمری نے اپنے مقالہ ’’واقعۂ اسراء ومعراج‘‘ میں کیاہے(دیکھئے : خطبات احمدیہ کا مطالعہ (تریب از ڈاکٹر عبیداللہ فہد اور پروفیسر سیدلطیف حسن شاہ کاظمی) سیرت کمیٹی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، ؍۰۲۱۶ء۱۴۳۷ھ، ص :۸۳۔۷۴)

سیرت ابن ہشام سے ایک صحت مندنقطۂ نظر یہ منظرعام پرآتاہے کہ سیرت رسول کااصل معتبر ومستند مصدر قرآن کریم ہے۔ اس اساسی مصدرکے ذریعہ دیگر مصادرسیرت کو جانچا اور پرکھا جاسکتا ہے عصرحاضر میں پاکستانی محقق مرحوم خالد مسعودنے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’حیات رسول امی‘‘کے ذریعہ یہ فریضہ انجام دیاہے۔ انھوں نے قرآنی میزان کے توسط سے بہت سی روایات پر سوالیہ نشان کھڑاکیاہے۔ابن ہشام کو شعری منحولات کا پورااندازہ ہے۔ اکثر قصائدکونقل کرتے ہوئے ان کی تحقیقی نوعیت کا تعین بھی پیش کیا ہے اوران کے معیار ومصداق پراپناتنقیدی رویے کا اظہار کیا جس سے یہ متبادرہے کہ سیرت سے متعلقہ اشعار کاایک بڑاحصہ الحاقی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عربی اشعار کا سیرت مقدسہ کی تقدیم میں گراں قدر رول رہاہے۔ سیرت کے باب میں قرآن کریم ایک حتمی ماخذہے جوتمام شکوک وشبہات سے معری ہے۔ لیکن افسوس کہ سیرت مقدسہ کی تعمیروتاسیس میں بیشمار ماخذکوبغیر چھان پھٹک کے استعمال کیا گیاہے۔ سرسید اور شبلی پہلے شخص ہیں جنھوں نے سیرت نگاری کوعلمی وفکری رخ دیا۔ آج تفاسیر اور سیرت میں ضعیف روایات کا ایک ڈھیر ہے جن میں صحیح وثقہ روایات کاانتخاب واختیار ایک دشوارعمل ہے۔ اسی طرح نعتیہ اشعار میں ضعیف روایات کا بکثرت استعمال رہاہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت’’کان خلقہ خلق القرآن‘‘کا ماحصل یہی ہے کہ سیرت مقدسہ کی ترتیب میں ان مآخذومصادرسے مددلی جائے جومعیار ومیزان کے اعتبارسے اعلیٰ وارفع ہوں۔ اس میں کہیں سے ابہام و ایہام کا شائبہ نہ ہو۔ بلکہ راقم الحروف یہ بھی کہنا چاہے گاکہ سیرت ابن ہشام کا مطالعہ بھی کھلی آنکھ اورکھلے دل سے کیا جائے تاکہ سیرت پاک کی تنقیحات میں کسی علمی فساد کا دخول نہ ہو۔سیرت پاک کا یہ آب زلال تمام غل وغث سے دورسے دورترہوبلکہ قرآن کریم کی زبان میں ’’ماء فرات‘‘ ہواور مستشرقین کی تمام کاوشیں بلکہ ہرزہ سرائیاں اس بات میں بے معنی ثابت ہوں۔ولیم میور اورسلمان رشدی کا جواب مظاہرہ اور چیخ وپکار نہیں بلکہ علمی استدلال ہویعنی کتاب کا جواب کتاب ہو۔

نئے صفحات