شعر اور شہد۔ دلاور علی آزر کی شاعری کا محاکمہ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

مضمون نگار: علی صابر رضوی

شعر اور شہد۔ دلاور علی آزر کی شاعری کا محاکمہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

البرٹ آئن سٹائن سے منسوب ایک قول "Forbes میں منقول ہے کہ:

If the bee disappeared off the face of the Earth, man would only have four years left to live. No more bees, no more pollination, no more plants, no more animals, no more man.

(یعنی اگر زمین سے شہد کی مکھی معدوم ہو جائے تو انسان کے پاس جینے کو صرف چار سال بچیں گے ۔مکھیوں کی تعداد میں کمی سے پولی نیشن میں کمی، پولی نیشن میں کمی سے پودوں کی تعداد میں کمی اور پودوں کی تعداد میں کمی سے جانوروں کی تعداد میں کمی اور جانوروں کی تعداد میں کمی سے انسانی حیات کی معدومی)۔


یعنی وہ زندگی جو پہلے ہی چند روزکی ہے ، شہد کی مکھی کی مرہونِ احسان ہے۔ اسی بات کو اگر شاعر پر منطبق کیا جائے تو معاشرے میں شاعرکے مقام کا تعین ہوتا ہے ۔ یہی وہ شخص ہے جو معاشرے کی اخلاقی قدروں کا آئینہ ، تہذیب و تمدن کی جمالیاتی اپج کا مصور اور ثقافتی لطافت کامبلغ ہے۔ شاعر کا فنِ شعر اور مگس کی شہدسازی ایک سی تاثیر رکھتے ہیں کیوں کہ دونوں ایک سے تخلیقی عمل سے گزرتے ہیں اور تسکین و شفا کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔کیا ایسا کہنا صرف دعویٰ ہے یا اس کی کوئی دلیل بھی ہے؟


اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں شہد کی تیاری کے مراحل کو جاننا پڑے گا جس کی تفصیل قرآنِ مجید کی سورۃ النحل کی آیات نمبر 68 اور 69 میں یوں وارِد ہوئی ہے :


وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَo ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلاً يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَo


’’اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں (خیال) ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوں میں اور بعض چھپروں میں (بھی) جنہیں لوگ (چھت کی طرح) اونچا بناتے ہیںo پس تو ہر قسم کے پھلوں سے رس چوسا کر، پھر اپنے رب کے (سمجھائے ہوئے) راستوں پر (جو اُن پھلوں اور پھولوں تک جاتے ہیں جن سے تو نے رس چوسنا ہے، دوسری مکھیوں کے لیے بھی) آسانی فراہم کرتے ہوئے چلا کر، ان کے شکموں سے ایک پینے کی چیز نکلتی ہے (وہ شہد ہے) جس کے رنگ جداگانہ ہوتے ہیں، اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے، بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانی ہےo‘‘


اگر ان آیاتِ قرآنی کے اسلوب پر غور کیا جائےتو چند لطیف نکات سامنے آتے ہیں:


· رب کی طرف سے شہد کی مکھی کے دل پر خیال کااترنا

· اس مکھی کا امرِ خداوندی سے پہاڑوں ، درختوں یا اونچی چھتوں پر گھر بنانا

· ہر قسم کے پھلوں کا رس چوسنا یا رس کشید کرنے کے لیے سفر کرنا

· کشید کے سفر میں اپنے رب کے بنائے راستوں پر آنا جانا

· دوسروں کے لیے راستہ بنانا یعنی ایک مقام تلاش کرنا اور دیگر مکھیوں کو راستہ دکھانا

· جسم میں جداگانہ رنگ کے سیال کی تخلیق

· اس سیال میں انسانوں کے لیے شفا ہونا

· غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں


اگر پہلی بات پر غور کریں تو واضح ہوتا ہے کہ شہد کی مکھی پر الہام اس کے رب کی طرف سے ہوتا ہے تو وہ ایک ایسی چیز کی تخلیق کے عمل میں مصروف ہو جاتی ہے جو لوگوں کے لیے شفا کا باعث ہے۔اس الہام کو شرعی معانی سے علاحدہ کرکے محدود معانی میں سمجھنا ہوگا۔کسی بھی شخص پر الہام ہوسکتا ہے لیکن اس الہام کی کیفیت وکیمیت ، مقدار و ماہیت کے اعتبار سے متنوع ہوتی ہے۔الہام خواب کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور ویسے ہی ذہن میں کوئی خیال آ سکتا ہے۔شاعر ایسی ہی کیفیت سے گزرتا ہے۔(کسی بھی طرح کی ظلی، بروزی نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہے لیکن فیض ِ نبوت جاری ہے۔) اس لیے الہام کی تمثیل سے ہم کہ سکتے ہیں کہ شاعر بھی تو تلمیذ الرحمٰن ہوتا ہے۔ اللہ اسے فطرتِ سلیم سے نوازتا ہے۔ اور سلیم الفطرت شخص پر خواب کی کیفیت زیادہ سے زیادہ ہوتی ہے اور اس کی اعلا طبیعت ہی اچھائی کی طرف اس کی رہنمائی کرتی رہتی ہے۔شعر کی زبان میں یہ موزوں طبعی اور حسِ جمال ہے جو شاعر کو عام انسانوں سے زیادہ عطا کی جاتی ہے۔


انسانی دماغ میں خیال دو واسطوں سے آتا ہے۔ الذی یوسوس فی صدورالناس، من الجنت والناس۔ برے خیال یا وسوسے جنوں اور انسانوں کی طرف سے آتے ہیں جبکہ اچھے خیال اللہ کی طرف سے رحمت ہوتے ہیں۔جس کا مطلب ہے کہ جس کو اللہ کی رحمت کا خیال عطا ہوتا ہے اس مکھی کا لعاب دنیا کا سب سے عمدہ مشروب بنتا ہے اورجس شاعر پر اللہ کی طرف سے کرم ہوتا ہے اس کے الفاظ شفا کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ شرف الدین بوصیری کا قصیدہ بردہ شریف ان میں سے ایک مثال ہے۔


دوسری بات کو دیکھیں تو پہاڑوں، درختوں اور چھپروں کی چھتوں پر چھتے بنانے کا حکمِ ربی مکھی سے جو کام کرواتا ہے وہی کام شاعر کرتا ہے کہ وہ دنیا کو دوسروں سے بلند تر ہو کر دیکھتا ہے اور خود کو عمومیت اور سطحیت سے باہر نکال لیتا ہے۔ وہی تو ہے جو زمین پر بیٹھ کر عرش کی باتیں کرنے کی ہمت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول سے نازو نیاز کر لیتا ہے۔شعر کی زبان میں اس کو رفعتِ خیال کہتے ہیں اور جس شاعر کا کینوس جتنا وسیع ہوگا اتنا ہی اس کا کلام بھی ارفع ہوگا۔ غالب کو دیگر شعرا پر یہی برتری حاصل ہے کہ وہ ہر شے کو بہت اونچے مقام سے دیکھتا اور مشاہدہ کرتا ہے۔


تیسری خاصیت پر غور کریں تو اللہ پاک کا فرمان ہے کہ وہ قسم قسم کے پھلوں کا رس چوستی ہے۔ اس عمل میں پھول کو نقصان بالکل نہیں دیتی بلکہ اس سے پھولوں کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ شاعر بھی اسی طرح رنگا رنگ مناظرسے لطیف خیالات کشید کرتا ہے اور انھیں شعر میں ڈھالتا ہے۔شعر میں محاکات نگاری ،تشبیہ و تمثیل اور کنایہ و استعاہ سازی کی قوسِ قزح اسی مشاہدے سے آتی ہے۔


چوتھی خوبی یہ ہے کہ رب کے بنائے ہوئے راستوں پر آتی اور جاتی ہے اسی طرح شاعر بھی تخلیقِ کائنات کے اسرار کھوجتا ہوا عرشِ تخیل تک آتا جاتا ہےاور دھیان ، گیان اور وجدان کے روستوں سے ہوتا ہوا رحمان کی معرفت تک پہنچ جاتا ہے ۔ عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کے مضامین اسی نقطے کی نشاندہی کرتے ہیں۔اوزان وبحور جو پہلوں نے متعین کر دیے ہیں ، صنائع بدائع جو طے ہوچکے ہیں، یہ راستے ہی تو ہیں جن پر شاعر چلتا ہے اور شعر بنتا ہے۔اس کے علاوہ زبان وبیان کے اصول وضوابط بھی پہلے سے بنائے گئے راستے ہیں۔


پھر کہا کہ شہد کی مکھی دوسروں کے لیے راستہ بناتی ہے۔شاعر ی لفظوں کی جگالی نہیں بلکہ لفظ کی نشونما اور پرورش کا کام بھی ہے۔ وہ لفظ کو متنوع سیاق سباق میں برت کر تکثیرِ معانی کا اہتمام کرتا ہے ۔ اس تجدید سے لفظوں کو نئی معنویت ملتی ہے، نئے استعارے، محاورے، کنائے بنتے ہیں، زبان کا علامتی نظام وجود پاتا ہے اور یہی عمل زبان کی ترویج وترقی کا باعث ہے ۔شاعر خیال کو نئے تلازماتی ربط میں باندھ کر مضمون میں اضافہ کرتا ہے۔یہی معنی اور مضمون آفرینی ہے اور یہی بات شاعری میں جدت اور جدت کے جواز کی دلیل بھی ہے۔ کلاسیکی اور جدید شاعری کے امتیازات میں سے ایک امتیازلفظ کے معنوی امکانات کی نشوونما کر کے نئی حیثیت ومعنویت کی طرف لانے کا بھی ہے۔میر اور غالب پر بات کرتے ہوئے ہمیں یہ انفراد خاص طور پر نظر آتا ہے کہ غالب نے جہاں میر کے مضامین کو باندھا ہے تو معانی میں اضافے کی بھر پور سعی سے ۔


شہد کی مکھی کے بارے میں مزید کہا کہ ان کے جسم سے جداگانہ رنگ کے سیال کی تخلیق ہوتی ہے۔ شہد کی مکھی جس طرح کے پھولوں کا رس کشید کرے گی، شہد میں وہی اثرات نمایاں ہوں گے۔ یعنی شہد پر علاقائی کیفیت اثر انداز ہو کر ذائقے اور رنگت میں امتیاز کا سبب بنتی ہے تو شاعری بھی لفظوں سے مصوری ، موسیقی اور جمالیاتی پیکر بنانے کا عمل ہے۔ انھی جمالیاتی پیکروں کے انفراد سے ڈکشن بنتا ہے اور ایک خاص سطح پر اس رنگ میں رنگے جانے والے شاعر مل کر دبستان بناتے ہیں جو شہد کی طرح اپنے رنگ، ذائقے اور سیال پن کی وجہ سے منفرد ہوتا ہے۔لکھنوی دبستان میں انیس کا رنگوں سے شغف ، نادر تشبیہات اور زبان و بیان کی سلاست اس کی مثال ہیں۔ دہلوی دبستان میں میر کا محاورہ باندھنا ایک انوکھا کارنامہ ہے۔غالب کی رفعتِ پرواز اور جدت اسے دوسروں سے منفرد کرتی ہے۔ ان دونوں دبستانوں سے الگ، اقبال کے اسلوب کی تمکنت بھی تو اسی اسلوب اور ذائقے کا نام ہی ہے۔


اس سیال مادے یعنی شہد میں انسانوں کے لیے شفا ہے۔اسی تناطر میں حضرت شرف الدین بوصیری کی شاعری سے لے کر اقبال تک کے کلام میں انفرادی سے اجتماعی شفا کا جوہر پایا جاتا ہے۔حافظ جیسے شعراء کے کلام سے فال نکالی جاتی ہے۔میر و غالب سے زندگی کےہنر سیکھے جاتے ہیں اور مجموعی طور پر انسان کے جذبات کی تطہیر کا کام شعر میں ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔جس طرح شہد کی تشکیل میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ویسے ہی شاعری کو بھی ذوقِ سلیم سے علاقہ ہے۔جس طرح ہر شخص کو ذوقِ سلیم ایک سا عطا نہیں ہوتا ایسے ہی شاعری کرنا اور اسے سمجھنا اہلِ عقل ہی کا کام ہے۔


شہد کی تخلیق کا موازنہ شعر کی تشکیل سے کیا جائے تو مندرجہ ذیل مراحل سامنے آتے ہیں۔


ا۔ شاعر کے دل پر بھی رب کی طرف سے خیالات وارد ہوتے ہیں۔ غالب نےشاید اسی بات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا :


ع: آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں


شہد کی مکھی اور تلمیذ الرحمٰن یعنی شاعر میں بہت سی قدریں مشترک ہیں۔ جس طرح چھتے کی بناوٹ سے شہد کی تیاری تک مکھی کو مشقت سے گزرنا پڑتا ہے اسی طرح شاعربھی نئے مضامین کی تلاش میں ہزاروں کنویں جھانکتا ہے۔ جس طرح مکھی کے چھتے کے تمام خانے اپنی ترتیب و توازن میں ایک سے ہوتے ہیں اسی طرح شعر میں اوزان وبحورکام کرتے ہیں۔ جس طرح مکھی پھول پھول پر منڈلاتی ہے اور اس سے رس لے کر شہد بناتی ہے اسی طرح شاعربھی قدرت کے نظاروں کو دیکھتا ہے اور ان سے حظ کشید کرکے شعر تخلیق کرتا ہے۔۔۔ قرآنِ مجید نے مکھی پر الہام کیا ۔۔۔اور جس پر الہام ہو اس کا لعاب بھی شفا بن جاتا ہے ۔۔۔۔ انسان پر جب رحمتِ الٰہی کا ورود ہوتا ہے تو اس کی زبان سے نعت جاری ہوجاتی ہے اور دلاور علی آزر ایسے ہی خوش نصیب لوگوں میں سے ایک ہے ۔اور دلاور خود اس کا اظہار بھی کرتا ہے:


جو کچھ ملا حضور کے صدقے سے ہے ملا

اور جو نہیں ہے اس کی ضرورت نہیں مجھے


دلاور کے دونعتیہ مجموعے خاص و عام سے داد پا رہے ہیں۔ پہلا مجموعہ "نقش" اور دوسرا مجموعہ " سیدی" ہے۔ عام روش یہ ہے کہ کسی بھی شاعر کے کلام میں سے اچھے شعروں کا انتخاب کریں اور اس کی تعریف کرتے ہوئے اسے میرو غالب اور انیس و اقبال ثابت کر دیں۔اگرچہ دلاور علی آزر نعت میں اقبال ورضااور امیرو محسن بالکل نہیں تاہم اس مضمون میں ہم نے دیکھنا ہے کہ نقش اور سیدی میں ایسا کون کا شہد ہے جس کی وجہ سے اس کے نعتیہ کلام کی مٹھاس اور شفا کے چرچے ہر طرف ہونے لگے؟دونوں کتابوں کی پہلی قرآت ہی سے جو خوبیاں مترشح ہوتی ہیں ان میں سے چندایک کوسمجھتے ہیں۔


دلاورکی پہلی خوبی یہ ہے کہ اس نے میرو غالب جیسے اساتذہ کو پڑھا ،کلاسیکی روایت سمجھااور ان کی شعری جمالیات کو جذب کیا۔ اس سے اس کا لہجہ کلاسیکی اور عصری ایمایت کے امتزاج کے ساتھ ظہور پذیر ہوا ہے۔دونوں کتابوں کو دیکھیں تو دلاور کے یہاں ایک طرف روایت سے جڑت کا اظہار ہوتا ہے تو دوسری طرف جدید بیانیہ رنگ بھی جھلکتا ہے۔ چند اشعار دیکھیے:


چیختا ہوں کہ مدینے کوئی لے جائے مجھے

لیکن آواز گناہوں میں دبی جاتی ہے


شاید کسی کلی کی تلاوت کا وقت ہو

مہکا ہوا نہالِ عقیدت پہ بور ہے


میں نے آنکھوں میں تری دید کی خواہش رکھ دی

یہ اجالا ہی گھنیرا نظر آتا ہے مجھے


شرف میں سب سے افضل بات ہونا


سخن کی منزلت ہے نعت ہونا


انھی کے اسم کی برکت سے دیکھتے ہوں گے

پسِ نگاہ تہِ آب دیکھتے ہوئے لوگ


یہ اسمِ نُورِ سحر روشنی کی اصل سے ہے

شبِ سیاہ کی زد میں درود پڑھتے ہیں


ان اشعار میں پہلے شعر میں داخلی کیفیت، دوسرے تیسرے شعر میں خارجی شعری پیکر،چوتھے پانچویں اشعار میں خیال آفرینی اور چھٹے اشعار میں اسمِ نورِ سحر سے جو تصویر بنتی ہے وہ کلاسیکی روایت کا تسلسل ہے لیکن یہاں لفظ کی درو بست کا نظام آج کے زمانے کا ہے جس سے ہمیں دلاور کے اسلوب کا انفراد نظر آتا ہے۔


دلاور جدت اور تجرد کا قائل تو ہے لیکن اس کے ہاں جدت کے نام پر توڑ پھوڑ اور تجرید کے نام ابہام نہیں ہے۔ ظفر اقبال جیسے جدیدترین شاعر کی غزلیات کو جس دقتِ نظر سے دیکھ کر انتخاب کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جدت اور اس کے سارے تقاضوں سے نہ صرف واقف ہے بلکہ جدید طرزِ احساس کو بروئے کار لانے کا بھی ماہر ہے۔


کتنی روشن ہے چراغوں کی سنواری ہوئی رات

نعت کہنے کی تمنا میں گزاری ہوئی رات


وہ آنکھ خرچ ہو گئی آیت کی فصل پر

وہ ہونٹ صرف ہو گئے قرآن کے لیے


حبس جب بڑھنے لگا ہم نے پکارا تجھ کو

سانس لینے میں ترے اسم نے آسانی کی


ماسِوائے صاحبِ کُن کس کی آزر یہ بساط

کون رکھے آب روئے مدحِ ممدوحِ خُدا


تمام عکس ہیں اُس نُور کے لیے آزر

تمام آئینے بے تاب ساتھ ہیں میرے


ہوتے ہوتے ہُوا وہ اِسم رواں سینے میں

کُھلتے کُھلتے دلِ منصور کا دروازہ کُھلا


آسماں اور زمیں ایک ہُوئے وَصل کی رات

اُن کے نزدیک بہت دُور کا دروازہ کُھلا


میں نبھاؤں گا محمد کے کرم سے اس کو

وعدہٕ عشق کی صورت ہے مجھے وعدہٕ نعت


ورنہ اس کی دہر میں وقعت نہ تھی قیمت نہ تھی

آپ نے رتبہ بڑھایا حضرتِ انسان کا


بات کیجے عرب کے صحرا کی

نعت سنیے کھجور سے پہلے


آج کی شاعری جس طرح سطحی مضامین اور لفظی بازی گری میں پڑ کر شعر یت سے خالی ہوتی جارہی ہے، اس کے مقابلے میں دلاور کو لفظ کی حرمت کا ادراک ہے۔ وہ شعر میں بڑےبڑے لفظوں سے رعب پیدا نہیں کرتا بلکہ تناسبِ لفظی سے مضمون آفرینی کے جوہر دکھاتا ہے۔اس کا کلام لفظوں کا پنسار خانہ نہیں بلکہ جمالیاتی حکمت سے بنا ہوا ایک روح افزامرکب ہےجو تسکینِ قلب وجاں کا باعث ہے ۔یہ اشعار میرے دعویٰ کی تصدیق کریں گے۔


مصدر کی ابتداء ہے سخن ہائے مصطفےٰ

صوت و صدا کی پیر ہے میرے نبی کی بات


چمک رہی ہے سفینے کے آئینے میں وہ موج

دمک رہا ہے کہیں راہ میں کنارۂ نور


صد شکر شرح ِ لفظ و معانی کے باب میں

کرتا ہوں دل سے برتری تسلیم نعت کی


لکھو تو نعت کے زمرے میں یہ بھی آتا ہے

پڑھو تو حمد کی مد میں درود پڑھتے رہو


کِھلتی ہے مری خاک میں اِمکان کی خُوشبُو

مِلتی ہے مُجھے اپنی خبر اُن کی طرف سے


یہ اَطلس و کمخواب میں گُم ہوتے ہُوئے لوگ

سُن لیں گے کہ مِٹّی میں ترانہ ہے تُمھارا


چلتا ہُوں سنبھل کر مَیں سرِ عرصۂ دُنیا

سیکھا ہے بہت کُچھ تری رَفتار سے مَیں نے


اُن کی ہر ایک بات پہ قُربان شاعری

مُجھ کو عزیز اِس سے زیادہ حدیث ہے


ایک بے سایہ کے سائے میں رہیں گے وہ درخت

جِن درختوں پہ ثَمر کھول دیے جائیں گے


ان اشعار میں جہاں ندرتِ فکر ہے وہیں تیقن ، عقیدہ، عقیدت اور انفراد اس فنی خوب صورتی سے ہم راشتہ ہوئے ہیں کہ دلاور علی آزر کا اپنا اسلوب صورت پذیر ہوتا ہے۔


مجھے فصاحت و بلاغت کی نصابی تعریف سے اُدھر اس بات پر کامل یقین ہے کہ لفظ اپنے سیاق و سباق اور محلِ استعمال سے جو منفرد معانی پیدا کرتا ہے اسی کا نام فصاحت ہے ۔اور اگر یہ معانی شاعر کے ذہن سے قاری کے دماغ میں منتقل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو تو اس خوبی کو بلاغت کہتے ہیں۔ دلاور بھی شاید ایسے ہی خیالات کو ذہن میں بسا کر مشقِ سخن کرتا ہے اس لیے اس نے مصرع کی ساخت کو مضبوط بنانے پر زور دیا جو اچھی شاعری کی بنیادی ضرورت ہے۔بلکہ میں تو دوستوں سے اکثر یہ بھی کہتا ہوں کہ جب تک کوئی شاعر مصرع کو ضرب المثل بنانے کی صلاحیت حاصل نہیں کر لیتا وہ شعرنہیں کہ سکتا۔دلاور کو یہ نعمت ارزان ہوئی ہے اور کیوں نہ ہو کہ وہ مصرع کے ساتھ وقت صرف نہیں کرتا، خود کو صرف کرتا ہے اور مصرع کو شعر تک پہنچنے کی منزل تک بسرکرتا ہے ۔یہ شعر دیکھیے:


ہر عکسِ دگر ضم ہوا ادراک میں آ کر

آئینہ سرِ طاقِ حرم آپ نے رکھا


سرکار کی آمد پہ کھلا منظرِ ہستی

آئینہ ہوئے یوں درو دیوارِ دو عالم


کس محبت سے کیا عشق نے سرشار مجھے

دل دھڑکتا ہے تو یاد آتے ہیں سرکار مجھے


ماسواءۓ نعت کیا دیوان کی تکمیل ہو

آئینہ ہوگا سخن تکمیلِ نعتِ پاک سے


پر ہوئی جب سے مری آنکھ کسی جلوے سے

غور کرنے پہ اندھیرا نظر آتا ہے مجھے


اوپر دیے گئے اشعار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دلاور کو علم ہے کہ بڑی شاعری استعارہ، کنایہ اور رعایتوں سے ممکن ہے ۔لیکن یہ کام کہنے کوآسان اور کرنے کو اس لیے بہت مشکل ہے کہ اس کے لیے مشاہدہ اور مطالعہ کی ہی نہیں مجاہدہ کی ضرورت ہے اور یہی وہ منزل ہے جہاں بہت سے شعر کہنے کے شوقین تھک کر بیٹھ جاتے ہیں۔دلاور نے خود کو اس مرض سے بچایا اور اس خوبی سے استعارات و علامات لایا ہے کہ اس کا کلام معانی کا ایک گنجینہ معلوم ہوتا ہے۔ اس سلسلے کے چند مزید شعر درج کرتا ہوں۔


آکر یہاں ملتے ہیں چراغ اور ستارہ

لگتا ہے اسی غار میں دربارِ دو عالم


کہاں قفل ِ عکس کھلا ابھی کہاں وا ہوا درِ آئنہ

وہی حیرتیں وہی ردو کد مد اے رسولِ خدا مدد


درود پڑھتے ہوئے دل کے ساتھ میں بھی تو ہوں

حضور دیکھیے اس سل کے ساتھ میں بھی تو ہوں


نہالِ عشقِ محمد ہے بارور آزر

کہ شاخ شاخ یہاں بور کا علاقہ ہے


اسی چراغ نے روشن کیا ستارۂ نور

خمیرِ ذاتِ محمد ہے استعارۂ نور


چمک رہی ہے سفینے کے آئینے میں وہ موج

دمک رہا ہے کہیں راہ میں کنارۂ نور


فقیر رات کی چادر سے چن رہے ہوں گے

یہ ریزہ ریزہ تبرک یہ پارہ پارۂ نور


جب سے منظر میں در آیا منظرِ عز العرب

کُھل گیا سارے زمانوں پر درِ عز العرب


لکھ رہا ہُوں جس سے آزر مدحِ ممدوحِ خُدا

مل گیا ہے مُجھ کو بھی اک شہ پرِ عز العرب


سنہری جالی کی روشنی سے محیط گنبد کی سبزگی تک

عجیب دربار ہے جسے سب زمانے حسرت سے دیکھتے ہیں


اچھا شعر جہاں دیگر فنی مہارتوں سے وجود پاتا ہے وہاں شعر کی پہلی کڑی اچھی زمین ہاتھ آنا یا شعوری سعی سے تخلیق کرنا ہے۔ زمیں کی زرخیزی کو قافیہ اور ردیف کے امکانات سے ماپا جا سکتا ہےکیوں کہ قافیہ اورردیف سے لاشعوری طور پر مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں: ‌

أ۔ قافیہ و ردیف کسی بھی کلام کو وحدتِ فکر اور نظمیہ آہنگ سے نوازتے ہیں۔ ‌ ب۔ قافیہ وردیف میں فعل آنے سے ایک تحرک پیدا ہوتا ہے جس سے تہہ داری ممکن ہوتی ہے۔ ‌ ج۔ قافیہ و ردیف اسماءکوتلمیحاتی یا تجسیمی اندازمیں لانے سے استعاراتی امکان پیدا ہوتے ہیں ۔ ‌ د۔ قافیہ اور ردیف ہی شعر کو مضمون کے امکانی جہانوں کی سیر کراتے ہیں۔ ‌ ه۔ قافیہ وردیف میں تحرک ہو تو صوتی اور صوری اعتبار سے غنائی تاثر پیدا کرنا قدرے آسان ہوتا ہے۔


دلاور کے یہاں ردیف کا بہاؤ بہت دل کش ہے ۔ اس کے ساتھ جب متحرک قافیہ آتا ہے تو دلاور کا شعر اقبال اور غالب کی متحرک جمالیات کی طرف سفر کرتاہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے نعتیہ کلام کی فہرست سے ایسے مطلعے مل جاتے ہیں جن سے اس متحرک جمالیاتی آہنگ کی وضاحت ہوتی ہے۔


جو لفظ نعت میں اظہار ہونے لگتے ہیں

سخن میں وہ ابد آثار ہونے لگتے ہیں


ہر اک مرض کی دوا مصطفےٰ کے ہاتھ میں ہے

شفا کا اصل پتا مصطفےٰ کے ہاتھ میں ہے


یہ عین حق ہے سند میں درود پڑھتے رہو

ہمیشہ کفر کی رد میں درود پڑھتے رہو


اس لیے قافلۂ شوق نجف جاتا ہے

راستہ یہ بھی مدینے کی طرف جاتا ہے


خطیبِ اعظمِ حق کا خطاب ہے اِمروز

اکٹھے ہوں گے عرب کے جوان مسجد میں


آفاق کو چُھوتی ہُوئی دَھن اُن کے لیے ہے

وہ صدق ہیں آوازۂ کُن اُن کے لیے ہے


لکھتا ہُوں غزل اُن کی اطاعت کے لیے مَیں

یہ نعت ، یہ لہجہ ، یہ سَخُن اُن کے لیے ہے


بھرے ہیں رنگ نئی واردات کی میں نے

بدل کے رکھ دی ہے تصویر نعت کی میں نے


ہر لفظ سند ہے مرے سچل مرے سائیں

یہ نعت کی حد ہے مرے سچل مرے سائیں


جاں ”ح“ کی حمایت کے لیے دی گئی مجھ کو

دل ”م“ کی مد ہے مرے سچل مرے سائیں


اس تیرگی میں راہ کی پہچان کے لیے

اس تیرگی میں راہ کی پہچان کے لیے


مجھ سے یوں آپ کی تعریف لکھی جاتی ہے

نعت کہنے کی اجازت مجھے دی جاتی ہے


علم تقسیم جو کرتا ہے عدد مانگ ان سے

اور عدد مانگ کے پھر اس کی سند مانگ ان سے


حدیث اِک عِلم ہے جِس عِلم کی اپنی ریاضی ہے

یہاں ہر حاشیے پر حاشیہ بَردار کُھلتے ہیں


آپ ہی اِبتدا آپ ہی اِنتہا ہَست اور بُود کے اِن خد و خال کی

آپ حُسنِ اَزل آپ حُسنِ اَبد آپ سا کون ہے باخُدا سیّدی


مری آرزو ترا عشق ہے کسی شکل میں اسے ڈھال دے

کہ نکل سکیں مرے خال و خدا مدد اے رسولِ خدا مدد


شعر کو شعر بنانے کا ہر کسی کا اپنا انداز ہے لیکن ہر شاعر کو یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ شاعری معروضی کی بجائے معنوی، مجازی اور انشائی طرزِ بیان کا نام ہے۔یعنی شعر اور شاعری دو جمع دو چار کا نام نہیں بلکہ زندگی کے رنگوں ، ذائقوں اور جذبوں کو رمزیت و اشاریت سے بیان کرنے کافن ہے۔یہ فن محض حواسِ خمسہ سے نہیں بلکہ حسِ جمال سے پرکھا اور سمجھا جاسکتا ہے ۔ دلاور شعر کو بیانیہ ہونے سے بچاتا ہے اور انشائی انداز میں مصرع تخلیق کرتا ہے۔دلاور کو علم ہے کہ شاعری میں داخلیت کو اگر عصری تجربہ بنا کر پیش کیا جائے تو آفاقیت پیدا ہوتی ہے اس لیے اس نے اپنے جذبات کو بھی مجموعی معاشرتی تجربہ بنا کر پیش کیا ہے۔


سخن وری میں ہدایت کا حق ادا کیا جائے

لکھو وہ نعت کہ مدحت کا حق ادا کیا جائے


وہ رحمتوں کے خزینے سے ہو کے آتا ہے

جو خواب میں بھی مدینے سے ہو کے آتا ہے


میں اکیلا تھا زمیں پر کہکشاں تک لے گیا

آسمانی شخص آیا آسماں تل لے گیا


عقیدے سے کسی قوم کا اجتماعی شعور اور تاریخی تسلسِ عمل سے لاشعور تشکیل پاتا ہے اور ادب بھی اسی اجتماعی شعور و لاشعور کے اظہار کا ایک قرینہ ہے۔ یہاں پہلا شعر اس اجتماعی لاشعور کا آئینہ ہے جس میں ماضی و حال کے سب سخنوروں کو عجزبیانی کا احساس شدت سے ہوتا ہے۔دلاور بھی یہی کہتا ہے کہ اگر سخن کی نعمت عطا ہوئی ہے تو اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا جائے اور نعت کا میدان اس فن کے لیے سب سے بہتر ہے۔ دوسرا شعر اس کیف کا بہاو ہے جو ایک تڑپتے ہوئے دل میں موجزن ہوتا ہے ۔ حضرت اویس کی تڑپ سے مولانا جامی کی کیفیت تک، سک متراں دی ودھیری سے اتھا میں مٹھڑی نت نانگ سبب تک، عجم کی رسالت مآب ﷺ سے محبت ہجر و فراق کے سارے لوازمات کے ساتھ شعر میں آتی ہے ۔دلاور بھی اسی کیفیت کو اپنے انداز میں پیش کرتا ہے۔ اور آخری شعر کا خیال دلاور سے آدم علیہ السلام تک ساری نسلِ آدم کا نمائندہ ہے۔کچھ مزید شعر دیکھیے:


سخن کرنا عجب انداز میں تُم

غزل میں بھی غریقِ نعت رہنا


مدحت میں صرف ان کی عطا کام آئے گی

جلتا نہیں چراغ ہنر ان کے سامنے


نعت کہتے ہوئے کب تھا مجھے اندازہ نعت

ہر سخن ساز پہ کھلتا نہیں دروازہ نعت


سچ ہے مگر یہ کتنی نرالی حدیث ہے

اولاد دے گی باپ کوگالی حدیث ہے


خدا تک اب مجھے سرکار لے کے جائیں گے

خداکا شکر کہ سرکار تک پہنچ گیا میں


دلاور نے نعت میں جس تغزل کا اہتمام کیا وہ اس سے پہلے کی شعری روایت میں کم دکھائی دیتا ہے اس سے نہ صرف دلاور کے جدید شعری آہنگ کی گواہی ملتی ہے بلکہ اس کی جدت میں تجرد کے عناصر بھی جھلکتے ہیں۔ دلاور علی آزر کی شاعری کو پڑھتےہوئے احساس ہو تا ہے کہ دلاور پورے ایقان سے اور شعر کے سارے لوازمات کو بروئے کار لاکر شعر کہنے کی سعی کرتا ہے۔اس کے ہاں اچھے اشعار کی ایک بڑی تعداد ہے مثال کے طور پر چند اشعار:


مرے لیے تو مبارک ہے چشمِ نم کی مثال

کہ اس ندی میں دعا کے چراغ بہتے ہیں


میں ایسی آتشِ سر سبز کی تلاش میں ہوں

جو میرے دل میں فروزاں کرے شرارۂ نور


میں عشق کو ترتیل تک تو لے جاؤں

کہ لفظ لفظ سے تفسیرِ نور کھیچ سکے


نہالِ عشقِ محمد ہے بارور آزر

کہ شاخ شاخ یہاں بور کا علاقہ ہے


کس نے دن کے طاقچے کو رنگ بخشا سرمئی

کون صحرا کو سنہری سائباں تک لے گیا


بس خط میں نعت نذر کروں گا جو ہو قبول

خط لکھ رہا ہُوں صاحبِ اُم الکتاب کو


حرفِ علت کوگرانے کی ضرورت نہ رہی

اس نے ترتیب دیے آکے جب اوزانِ عرب


میں نِبھاؤں گا محمّد کے کرم سے اِس کو

وعدہِ عِشق کی صُورت ہے مُجھے وعدہِ نَعت


ملا تھا تُجھ سے جو آسماں کے دبیز پردے کی چھاؤنی میں

دِکھا دیا سب کو اُس کا چہرہ،بتا دیا سب کو راز اُس کا


کُھلا ہے کیسا عجیب منظر ، اُٹھایا جانے لگا ہے لنگر

جزیرۂ دل سے بحرِ جاں میں اُتر رہا ہے جہاز اس کا


دلاور نے بڑی خوبی سے شعر کو شہد بنانے کی سعی کی ہے ۔ اس کے نعتیہ کلام میں مدرسالت مآب سے محبت کی وارفتگی جگہ جگہ نطر آتی ہے۔ وہ مدینے کا ذکر کرتے ہوئے اس زمین سے انسلاک کے نئے قرینے لاتا ہے۔


قدم پڑے ہیں مدینے کی خاک پر کس کے

کہ چپہ چپہ زمیں طور کا علاقہ ہے


گلے لگاو کہ خوشبو ہو منتقل آزر

کہ آنے والا مدینے سے ہو کے آتا ہے


مدت سے ہوں میں منتظرِ خاکِ مدینہ

پلکوں سے سمیٹوں گا زرِ خاکِ مدینہ


خواہش ہے کہ اس خاک میں تدفین ہو میری

کھلتا ہے اگر مجھ پہ درِ خاکِ مدینہ


اسم پڑھتے ہوئے ہونٹوں نے مرا بوسہ لیا

پل میں اوقات بڑھا دی مری پیشانی کی


اک روز پہنچ جائیں گے تجھ در پہ یقیناً

آنکھوں میں تری راہ گزر رکھے رہیں گے


دلاور چونکہ غزل کا بھر پور شاعر ہے اس لیےنعت کہتے ہوئے بعض اوقات اس کا مصرع تجریدی تجربات کی رو میں بہتا ہوا نعتیہ کیفیت سے دور نکل جاتا ہےلیکن اس بات کا احساس قاری کو بہت غور کرنے پر ہوتا ہے۔ دلاور کی نعت کو بار بار پڑھتے ہوئے جہاں قاری حظ اٹھاتا ہے وہاں اس کی نعت کہیں کہیں ذہن سے ذہن تک سفر کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہےکیوں کہ


ع: ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں


دلاور کے نعتیہ کلام پر مزید بہت سی باتیں کی جاسکتی ہیں لیکن شہد سے شروع ہونے والی بات کو یہی کہتے ہوئے مکمل کروں گا کہ فراعینِ مصر کے ساتھ دفن ہونے والی بوتلوں کا شہد آج بھی خالص اور شفا بخش ہے اگرچہ درجہ حرارت کی تبدیلی اور ہزاروں سال پڑا رہنے کی وجہ سے رنگت میں تبدیلی آجاتی ہے۔وجہ یہ ہے کہ اسے الہام کی جس کیفیت سے گزرتے ہوئے مگس نے بنایا تھا، وہ خراب کیسے ہوسکتا ہے۔ شاعری اگر دلی جذبات ، فنی مہارت اور خود سپردگی سے کی گئی ہو تو وہ بھی زندہ رہتی ہے چاہے وہ امراالقیس کی ہی کیوں نہ ہو۔حضور ﷺ کی نسبت سے پورے جذبے کی پوری شدت سے کوئی بخشش کی جائے تو قبر میں بھی شیروشہد ملتا ہے چاہے وہ ابولہب ہی کیوں نہ ہو۔اور اگر تڑپنے والا سیدِ کونین ﷺ کا غلام ہو تو اسے صلو علیہ وآلہ جیسا لافانی مصرع اور بردہ جیسی نعمت آج بھی عطا ہوجاتی ہے۔ یہ نہیں ، بقولِ خواجہ شوق:


ع: وہ واقعات بھی ہیں جن کا تذکرہ کم ہے


بوصیر ی وجامی اور رضا ومحسن کا شعری ترکہ ہر اس شاعر کی وراثت ہے جو اکیسویں صدی میں اس معجزۂ فن کی خون ِ جگر سے نمود کرنا چاہتا ہو۔دلاور کے پاس یہ ترکہ تشریحاتی جمالیات کے ساتھ بھی پہنچا ہے۔اب وہ اس ترکے میں اپنا حصہ شامل کرکے اگلی نسل تک پہنچانے میں مصروف ہے۔ اس کی شاعری پڑھ کر ایک بار پھر یقین آجاتا ہے کہ شاعری بھی ہزاروں سال زندہ رہنے والی تخلیق بن سکتی ہے بشرطیکہ اسے شہد کی مکھی کی طرح کشید کیا گیا ہو۔ دلاور شہد کی مکھی کی طرح شعر بناتا ہے اس لیے ہم اس کے شعر سے لذت اور انبساط ہی نہیں روحانی واردات کا لطف/شفا بھی پاتے ہیں۔


علی صابر رضوی 21 دسمبر 2020ء