عطر خیال کی جاں بخش مہک ۔ ڈاکٹر عزیز احسن

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

مضمون نگار : ڈاکٹر عزیزؔ احسن

’’عطرِ خیال‘‘ کی جاں بخش مہک![ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

احساسات کا تموج ، جذبات کا بہاؤ، محبت کا والہانہ پن، عقیدت کے نذرانے پیش کرنے کا قوی تقاضا۔جب یہ سب کچھ یک جا ہوجائے تو شاعرانہ جبلت (Instict) کے تحت شعرِ عقیدت کہنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔شعر کہنے کے لیے جبرِ اندروں کے ساتھ ساتھ زبان و بیان پر قدرت اور شاعرانہ رویہ( Poetic Approach ) جس شاعر کو بھی مُیسر آجائے وہ دنیائے سخن گوئی میں نمایاں، کامیاب اورممتاز ہوجاتا ہے۔

شبنم رومانی نے بھرپور شاعرانہ شخصیت پائی تھی۔ انھوں نے رومانی ہونے کے تمام شواہد کو شعری پیکر عطا کیے۔ ان کا شاعرانہ تشخص ظاہر کرنے کے لیے ، غزل کا صرف ایک شعر ہی پیش کردینا کافی ہے:

بیعتِ حُسن کی ہے میں نے بھی

صاحبِ سلسلہ تو میں بھی ہوں

اس شعر میں حقیقت و مجاز کے دونوں عکس موجود ہیں۔ شاعر نے اپنی حُسن پرستی کا ذکر بھی ،روحانی سلسلوں کی روایت کے تناظر میں کیا ہے۔ اس طرح اس کا صاحبِ سلسلہ ہونا ایک افسانوی احساس سے بڑھ کر حقیقی منظر نامہ بن گیا ہے۔

اس ایک شعر کی قراء ت ہی سے شبنم رومانی کا شعری مزاج اور ان کے شعری متن میں اسلامی روایت کے عناصر کی آمیزش کا ادراک ہوجاتا ہے۔اس شعر کے ذریعے ہم شاعر کی اس صلاحیت کو بھی واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں جو حقیقت کو مجازکا رنگ دینے اور مجاز کو حقیقت شناس شعری فضا عطا کرنے کے لیے ، مبداء فیاض کی جانب سے ،اسے ودیعت کی گئی تھی ۔

شعرو سخن کی وادی میں قدم رکھنے والاہر شاعر، پہلے پہل، مجازی محبوب کی تعریف یا اس کے ناروا سلوک کا شکوہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یعنی وہ غزل یا رومانی نظم لکھ کر اپنے احساسات کو ملفوظی جامہ پہناتا ہے۔ احساسات کی یہ تنظیم جب شاعرکی عادتِ ثانیہ بن جاتی ہے ، تو وہ نکاتِ سخن ،حُسنِ زبان، جمالِ اظہار اور لفظوں کی پرکھ کے لوازمات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے مشق کرتا ہے اور ایک مدت اسی انہماک میں گزارنے کے بعد کہیں جاکر اس قابل ہوتا ہے کہ اسے شاعری کی دنیا میں کوئی پہچان مُیسر ہو۔شاعری سے وفاداری ،فن سے استواری چاہتی ہے۔ جو شاعر فکر و فن کی دنیا سے استواری نباہتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔ شبنم رومانی بھی ایسے ہی خوش نصیب شعراء میں شامل تھے ۔ انھوں نے ،بڑی سنجیدگی، بڑے شعور اور زبان و بیان کی آگاہی کے ساتھ، زندگی بھر فنِ شعر کی آبیاری کی۔۔۔اور جب انھیں فنِّ شعر گوئی پر عبور حاصل ہوگیا تو خوش قسمتی انھیں حمد و نعت و مناقب کی تقدس آمیز فضا میں لے آئی ۔چناں چہ اس فضا کو معطر کرنے کے لیے انھوں نے ’’عطرِ خیال‘‘ کشید کیا۔

’’عطرِ خیال‘‘کا ’’انتساب‘‘ ہی اتنا پُر کشش ہے کہ میں اس کا حوالہ دیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔

مرے حضور ﷺدلوں میں اتر کے بولتے تھے

سو اس فقیر کی ادنیٰ مثال حاضر ہے

اس ایک شعر کی متنی ندرت،اس میں پیش کیے جانے والے خیال کا اچھوتا پن، بیان کی تازگی اور اظہار کی طرفگی اس بات کی دلیل ہے کہ شاعر کے دل کی گہرائیوں میں عظمتِ محمد مصطفےٰ ﷺ نے ایسا گھر کرلیا ہے کہ اس کا متن (Text) القائی کیفیت کا حامل ہوگیا ہے۔ حضورِ اکرم ﷺکے جمالِ ظاہری اور کمالِ باطنی (سیرت ) جس کے دل میں بھی گھر کر جائے وہ آپﷺ کی توصیف کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ شبنم رومانی بھی ان خوش نصیبوں میں ہیں جن کا قلم ان کے دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والے احساساتی ہالے کو لفظوں میں ڈھالتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ا نھوں نے بے ساختہ کہدیا

مرے حضور کو خوشبو پسند تھی شبنمؔ

سو ظرفِ حرف میں ’’عطرِ خیال‘‘ حاضر ہے

یوں توشبنم رومانی کا تقریباً سارا کلام ہی منتخب ہے۔ لیکن میں یہاں خصوصی طور پر اللھم لبیک(تاثراتِ حج و عمرہ) کا ذکر کروں گا کہ حج و عمرہ کی سعادت پانے والا ہر زائر احساسات کے تموج کا شکار تو ہوتا ہے لیکن اظہار پر ایسی قدرت اچھے اچھے شعراء کو بھی حاصل نہیں ہوپاتی ہے جس کا مظہر ان کی مذکورہ نظم ہے۔اس نظم میں احرام بنادھنے کی کیفیت کے اظہار سے لے کر طواف، سعی، وقوفِ عرفات، شبِ مزدلفہ، قیامِ منیٰ اور رمی جمار کا ذکر اس خوبصورتی سے کیا گیاہے کہ شاعر کی قدرتِ کلام اور اسلوب کی کشش پر رشک آتا ہے۔ اس نظم کا آغاز ہی قاری کی توجہ جذب کرنے کے لیے کافی ہے:

جیتے جی اہلِ محبت نے کفن پہنا ہے

خلعتِ فاخرہ اُتری ہے، کہ مَیل اُترا ہے

’’میرے اللہ! میں حاضر ہوں‘‘ یہی کہنا ہے

یہی کہنا ہے کہ حاضر یہ ترا بندہ ہے

نظم آگے بڑھتی ہے تو اس مقدس فضا کے تمام رنگ اپنے ملفوظی پیکر میں سمیٹتی جاتی ہے ۔ان فضاؤں میں رہتے ہوئے اپنے خالق کی موجودگی کا احساس بدرجہء احسان ، انسان پر طاری ہوتا ہے اور وہ مناسکِ حج و عمرہ میں اس حقیقت کے نزدیک پہنچ جاتا ہے کہ ’’عبادت ایسے کرو جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو‘‘ ۔۔۔لیکن اس کیفیت کا اظہار ناممکن ہے ، اس لیے شاعر کہتا ہے:

کوئی پوچھے تو میں سمجھانہیں سکتا، لیکن

میں نے ہر سمت ان آنکھوں سے تجھے دیکھا ہے

بات یہیں نہیں رک جاتی، شاعر اپنے بیان کو دلیل آشنا کرنے کے لیے ایک اور شعر میں اس بات کی وضاحت کرتا ہے:

میں نے ہر سمت ان آنکھوں سے تجھے دیکھا ہے

کہ مرے پیشِ نظر آئینہء طیبہ ہے !

حضور اکرم ﷺ نے امت کو تعلیم فرمایا تھا:

’’اَنْ تَعْبُدَاللّٰہُ کَاَنَّکَ تَرَاہُ‘‘ (اللہ کی عبادت و بندگی تم اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو) ۔شاعر نے حضور اکرم ﷺ کی تعلیم کے اس نکتے کے استحضار کے لیے ہی ’’آئینہء طیبہ‘‘ کی ترکیب وضع کی ہے۔کیوں کہ اگر مسلمان کے پیشِ نظر تعلیمِ رسول ﷺ نہ ہو تو یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ عبادت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے۔

حضورِ اکرم ﷺ کو اللہ رب العزت نے پیکرِ انسانی میں اس دنیا میں مبعوث فرمایا ۔اس لیے آپ ﷺ کو انسان ہی کہا جائے گا لیکن ایسا انسان جس کی مثال کسی اور انسان کی صورت میں نہ موجود تھی، نہ ہے اور نہ ہوگی۔ شبنم رومانی نے اپنی نظم ’’انسان ہیں وہ بھی مگر‘‘ میں اس خوبصورتی سے نبیء کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی بشری جہت کا ادراک رقم کیا ہے کہ اس میں آپﷺ کی عظمتوں ، آپﷺ کی انفرادیت اور انسانی دنیا میں آپﷺ کی شان کی یکتائی کا بیان کسی مبالغے یا بناوٹ کے بغیر آگیا ہے:

انسان ہیں وہ بھی ‘مگر

انسانیت کے واسطے

اک دائمی منشور ہیں

وہ آسماں کا نور ہیں

جو خاک سے پیدا ہوا

وہ آفتابِ روح

جوادراک سے پیدا ہوا

علمِ حقیقی

جن کے اسمِ پاک سے پیدا ہوا

نعتیہ شاعری کی نزاکتوں سے آگاہ شعراء نے ہمیشہ اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اس شعری فضا کے تقاضے پورے کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ کیوں کہ یہ ماورائی حقائق کا اظہاریہ ہے۔ شبنم رومانی کو بھی ہر ذمہ دار اور حساس شاعر کی طرح اس فن کی نزاکتوں کا احساس ہے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں:

ایک مصرع جو تری ﷺشان کے شایاں ہوجائے

کلمہ حرف پڑھے، لفظ مسلماں ہوجائے

روشنائی نہیں روشنی چاہیے

کوششِ مدحتِ مصطفی ﷺکے لیے

ہر لغت عاجز ہے، کیسے حقِّ مدحت ہو ادا

ایک اک حرفِ سخن ، بہتر سے بہتر چاہیے

یہی وجہ ہے کہ نعت لکھتے ہوئے ،شبنم رومانی نے اپنی صلاحیتِ شعر گوئی کا عطر کشید کرنے کی پوری کوشش کی اور حرفِ مدحت کو جگمگا نے کا قرینہ پیدا کیا۔

شبنم رومانی کی بعض نعتیہ غزلوں میں غزلِ مسلسل کا گمان ہوتا ہے، کیوں کہ ان کے ہر شعر میں ایک ہی خیال زینہ بہ زینہ ترفع حاصل کرتا ہے اور اس طرح ان کا شاعرانہ اظہار بھی ایک قسم کے منطقیانہ ربط و تسلسل کی مثال بن جاتا ہے۔ذرا یہ نعت ملاحظہ ہو:

بس اک لباس ہمارا ، لباسِ عشقِ رسول ر ﷺ

رُتوں کے ساتھ بدلتے نہیں قبائیں ہم

بس ایک راہ ہماری ، صراطِ مصطفویﷺ

کبھی بھٹک کے نہ جائیں گے دائیں بائیں ہم

بس ایک رنگ ہمارا، بہارِ طیبہ رنگ

اِسی کو رنگِ بہارِ سخن بنائیں ہم

بس اک دعا ہے ہماری، فروغِ جاں کی دعا

انھیں کو یاد رکھیں، خود کو بھول جائیں ہم

ان اشعار میں لفظ ’’بس‘‘ کی تکرار اور اس کے منفرد انداز کے استعمال نے صوتیاتی فضا میں لطافت پیدا کردی ہے اور شعری پیغام کو تبلیغ کی بے اثری سے بچا لیا ہے۔ اشعار میں ایک اہم پیغام ،شاعرانہ بانیے (Poetic narrative) بن کر فن کا حصہ بھی بن گیا ہے اور قاری کے لیے حُسن آفریں بھی۔ شاعر صرف اور صرف ذاتِ محمد ی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو محور و مرکزِ حیات جانتا ہے اور اپنے معاشرے میں ہر پہلو سے آپﷺ کے پیغام کی ترویج و اشاعت، آپﷺ کے اسوہء مبارکہ کی کامل پیروی ، آپ ﷺ کے رنگ میں مکمل طور سے رنگ جانے ہی کو مقصدِ حیات جانتا اور اسلامی معاشرے کو اسی رنگ میں رنگا ہوا دیکھنے کا متمنی ہے۔ ردیف کا جزوِ آخر ’’ہم‘‘اس فکری نکتے کو اجتماعیت کا آئینہ اور دعوت الی الحق کا مظہر بنارہا ہے۔

اقبال نے کہا تھا:

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو

آں کہ از خاکش بروید آرزو

یا زنورِ مصطفےٰﷺ اورا بہاست

یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفےٰ است

تم جہاں جہاں رنگ اور خوشبو کی دنیا دیکھتے ہو۔ایسی دنیا جس کی خاک سے کمال حاصل کرنے کی آرزوئیں جنم لیتی ہیں۔یا تو نورِ نبوی ﷺ سے اتصال کے سبب اس کی قیمت متعین ہوچکی ہے اوراس کی چمک دمک بڑھ چکی ہے اور وہ جہان از خود منور ہوگیا ہے۔ یا اگر دنیا کا کوئی گوشہ آپ ﷺ کے نور سے ابھی محروم ہے تو وہ بھی آپ ﷺ کے نور کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ کیوں کہ پوری کائنات میں صرف آپﷺ کا نور جلوہ آراء ہے۔

درجِ بالا اشعارمیں شبنم رومانی نے حقیقتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے ادراک کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ان اشعار میں حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ والا صفات کی مرکزیت ، آپﷺ کی ذات کے عرفان اور اتباع کی انسان کے لیے ناگزیریت اور آپﷺ سے وفا کرنے کا پختہ عزم بھرپور شاعرانہ اسلوب کے ساتھ نظم کیا گیا ہے۔ آخری شعر میں تو شاعرنے اپنے لیے فروغِ جاں کی دعا کو بھی حضورِ اکرم ﷺ کی ذات میں مکمل فنائیت کی کیفیت سے مشروط کردیا ہے:

بس اک دعا ہے ہماری، فروغِ جاں کی دعا

انھیں کو یاد رکھیں، خود کو بھول جائیں ہم

ہر شاعر اپنے خاص لہجے اور مخصوص الفاظ میں بات کرتا ہے۔ شبنم رومانی نے لفظ ’’فروغ‘‘ استعمال کرکے شعر کو وسیع المفہوم بنادیا ہے۔فروغ (فت نیز ضم ف، و مع) امذ۔۱۔زیب و زینت، چمک، رونق، تابناکی۔ ۲۔سربلندی، عروج، ترقی، ۔۳۔اثر، زیادتی، شدت۔۴۔ترجیح،سبقت (اردو لغت)

اب ذرا غور فرمائیے کہ ’’فروغِ جاں‘‘ کی دعا میں شاعر نے کیا کچھ نہیں مانگ لیا۔۔۔زیب و زینت، چمک، رونق، تابناکی،سربلندی، عروج، ترقی،اثر، زیادتی، شدت،ترجیح،سبقت ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ ’’جاں‘‘ کو اگر ہم ’’روح‘‘ کہیں اور ’’روح‘‘ کو زندگی سے تعبیر کریں تو حیاتِ دنیوی میں شاعر کی طلب کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ معاشرتی ( امتِ مسلمہ)کی زندگی کے لیے ،زیب و زینت، چمک، رونق، تابناکی،سربلندی، عروج، ترقی،اثر، زیادتی،شدت،ترجیح کے ساتھ ساتھ ہر طبقہء انسانیت پر مسلم امت کی’’ سبقت‘‘ کا متمنی ہے۔۔۔اور یہ تمام خصوصیات اس معاشرے (امت) کو صرف ایسی صورت میں مل سکتی ہیں کہ وہ ہر طرف سے منہ پھیر کر اور اپنی ذات کی نفی کرکے، صرف آقا صلوٰۃ اللہ علیہ کی ذات کا دھیان پختہ کرلے۔ صرف انہی کو یاد رکھے ۔ اس شعر کی بین متنیت (Intertextuality ) حافظ شیرازی کے ایک متن سے بھی قائم ہوتی ہے۔

مصلحت دیدِ من آنست کہ یاراں ہمہ کار

بگزارند و خمِ طُرَّۂ یارے گیرند

(میرے نزدیک تو اب مصلحت اسی میں ہے ، کہ سارے دوست[معاشرہ]سب کام چھوڑ چھاڑ کے [صرف] محبوب کی زلف کے خم کی طرف مشغول ہوجائیں۔کیوں کہ محبوب کی زلف [نظام] سے وابستگی ہی غموں سے نجات کا ذریعہ ہے)۔

حافظ کا ہر شعر مجاز کے پردے میں حقیقت پژوہی کا اشاریہ ہوتا ہے، اس لیے ہم اس شعر کا یہ مطلب بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ اب غم و ہم سے نجات کی صرف ایک صورت ہے کہ ہم ہر طرف سے منہ پھیر کے صرف حضورِ اکرم ﷺ کی ذات سے اپنی محبت بڑھائیں اور آپﷺ کی تعلیمات اپنائیں، آپ ﷺ کا لایا ہوا نظامِ زندگی اپنائیں ۔صرف و محض اسی ایک ترکیب سے زندگی کو تابناک بنایا جاسکتا ہے۔

علامہ اقبال اور حافظ کے متون (Texts) کی تجدیدی شکل جب ہم اردو غزل کے مخصوص لہجے میں شبنم رومانی کی شعری کائنات میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فکری زاویوں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے جو حافظ سے اقبال اور شبنم رومانی تک پہنچا ہے۔جذبے کی سچائی ، خیال کی رعنائی ، فکری صداقت اور اظہارِ حقیقت کا داعیہ ہر اس شاعر کو حضورِ اکرم ﷺ کی ذات سے منسلک رہنے کا پیغام عام کرنے پر ابھارتا ہے جس کے دل میں جوہرِ عشقِ رسول ﷺ پایا جاتا ہے۔ اس طرح شبنم رومانی ،صالح فکری روایت کے امین اور پِرِچارَک بھی نظر آتے ہیں۔

شبنم رومانی نے حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی کا تصور زندگی کا لازمہ قراردیا ہے:

نام اُن کا جو حرزِ جاں نہیں ہے

سمجھو کہ کہیں اماں نہیں ہے

اس شعر میں شاعر کے اپنے لیے خود ترغیبی اور معاشرے کے لیے تبلیغی عنصر شامل ہے۔ لیکن یہ تبلیغی عنصرشعری لطافت میں ملفوف ہے۔

حقیقتِ محمدیہ ﷺ کا سِرِّی نکتہ یہ ہے کہ حضور ختمی مرتبت علیہ السلام ہی کی ذات خلقِ اول ، برزخِ کبریٰ اور ظہور و بطون میں رابطہ ہے۔ آپﷺ کا نور‘ اللہ تعالیٰ نے اسما ء و صفات کے ظہور سے قبل اور زمان و مکان کی پیدائش سے پہلے چمکایا۔ تو ثابت ہوا کہ کائنات کے تمام مظاہراور زندگی کی تمام صورتیں آپﷺ کے نور کے طفیل وجود میں آئی ہیں ، اور اللہ تعالیٰ نے کائنات کے آئینے میں اپنی ذات کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس حقیقت کا شاعرانہ بیان شبنم رومانی کے اس شعر میں ملاحظہ ہو:

زیست جب تک اُن ﷺکے خد و خال میں آئی نہ تھی

قدرتِ بے مثل آپ اپنی تماشائی نہ تھی

حقیقتِ محمدیہ ﷺ کے اس خیال کو غالب نے بھی شعری قالب میں ڈھالا تھا:

منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی

قسمت کھلی ترے قد و رُخ سے ظہور کی

لیکن غالب نے صرف ظہورِ حیات و کائنات کی بات کی تھی۔ شبنم نے ’’قدرتِ بے مثل آپ اپنی تماشائی نہ تھی‘‘ کہہ کر صوفیانہ فکری ضَو سے بھی شعر کو چمکادیا ہے۔

مجھے ’’عطرِ خیال‘‘ میں بہت سارے اشعار پسند آئے اور تقریباً ہر شعر میں عصری حسیت ، جذبے کی شدت اور بیان کی ندرت محسوس ہوئی۔ لیکن چوں کہ میری تحریر اس مجموعہء کلام کا حصہ بنے گی ،اس لیے صرف چند اشعار پیش کرکے رخصت چاہوں گا:

آفاق میں ہے اسمِ محمد ﷺکی بڑی گونج

یہ کیا ہے، اگر ذکر کی محفل نہیں کوئی

علاج ہر شرک و شر کا قرآں

ہر ایک باطل کا رد محمدﷺ

شبنم رومانی نے بھارت کے شہر شاہجہاں پور سے پاکستان ہجرت کی تھی۔ منیر نیازی سے لے کر محسن بھوپالی، سرشار صدیقی ،اقبال عظیم اور شبنم رومانی تک بہت سے شعراء کو مملکتِ خدادا دمیں مہاجرت کے بعد ، پناہ گزینی کے طعنے سننے پڑے تو ہجرت کا وہ تجربہ جو مقدس روایت کے تسلسل میں کیا گیا تھا، بہت تلخ اور جذبے کی رائگانی کا سبب محسوس ہونے لگا۔ شبنم رومانی نے ،مدحتِ مصطفےٰﷺ کو عصری حسیت کا آئینہ بنانے کے لیے اس طرح کے اشعار بھی ہیں:

جو ’’ابن الارض‘‘ بنتے ہیں‘ مدینے کی طرف دیکھیں

کہ یہ ’’تقدیسِ ہجرت‘‘ کی طرف واضح اشارہ ہے

غزل طور لکھی ہوئی نعتیں جس لطافتِ اظہار کی مقتضی تھیں ان کا فنی ادراک شبنم رومانی کے حرف حرف سے مترشح ہے۔ لیکن نظموں میں تخلیقی

وفور نے ایک اور ہی فضا قائم کی ہے۔ یہاں مثالیں دینے کی گنجائش نہیں ہے۔ کتاب کا قاری ، شاعر کا سلیقہء اظہار، خیال کی لطافت، فکری اِصابت اور تخلیقی وفور ،خود محسوس کرسکتا ہے۔

بلا شبہ ’’عطرِ خیال‘‘ قابلِ قدر اور لائقِ تقلید متن کا حامل مجموع�ۂ کلام ہے جو نعتیہ ادب کے مطبوعہ سرمائے میں ایک گراں بہا اضافہ ہے۔ میں اس مجموعہء شعرِعقیدت کی اشاعت پر شبنم رومانی کے صاحبزادے جناب فیصل عظیم اور ناشر سید صبیحالدین صبیح رحمانی کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ حمد و نعت و مناقب کے اس نذرانے کو مرحوم شبنم رومانی، ان کے فرزندِ ارجمند اورناشر کے لیے زادِ آخرت بنادے (آمین)!


ہفتہ:۱۴؍رمضان المبارک ۱۴۳۸ھ ؁ مطابق: ۱۰؍جون ۲۰۱۷ء ؁