علامت

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


معلومات کا اضافہ کیجے 

’’علامت مخفی تصورات کے وسیع ترین نظام کی مجمل ترین شکل ہے ۔یہ بھی دراصل تشبیہ کے خاندان سے ہے اور کسی نہ کسی جہت سے مشابہت کارابطہ اس میں کارفرما ہوتا ہے ۔‘‘ <ref> اردو افسانے میں علامت نگاری ،ڈاکٹر اعجاز راہی ،ریز پبلی کیشنز، مری روڈ راولپنڈی ،دسمبر ۲۰۰۲ء ۷ </ref>

آفاقی شاعری میں لفظ منشور یا Prism(ایک کلون شیشے کاٹکڑا جس میں سے گزرکر روشنی سات رنگوں میں تقسیم ہوتی ہے )سے نظرآنے والے رنگوں کی طرح نظرآتا ہے منشور میں روشنی کی شعاع ایک طرف سے داخل ہوتی ہے اور ودسری طرف سے سات رنگوں میں تقسیم ہوکر باہردیکھنے والی آنکھ کونظر آتی ہے ۔بڑی علامتی شاعری میں لفظ معنی کی کئی تہیں بناتا ہے اورشعر لفظوں کی اسی ہمہ جہتی کے باعث آفاقیت اور کلاسیکی درجہ حاصل کرلیتا ہے ۔یادرہے کہ علامت تشبیہ اوراستعارہ سے مختلف ہے ۔<ref> اردو نعت میں مابعد جدیدیت کے اثرات ، کاشف عرفان نعت ریسرچ سنٹر کراچی، شمارہ نمبر 25 </ref>

ڈاکٹر سید عبداللہ کے الفاظ میں علامت کی تعریف دیکھتے ہیں ۔

"علامت" ایک واضح وجود ہے جو لفظوں میں اپنی معنویت پوشیدہ رکھتا ہے ۔علامت لفظوں میں پوشیدہ ہونے کے باوجود اِس کی شناخت صرف لغت سے ممکن نہیں بلکہ لفظ یااصطلاح کو معنوی پس منظر ، ماحول (جہاں یہ لفظ استعمال ہوا) اورتاریخی تناظر میں شناخت کیاجاتا ہے ۔غزل میں علامت کے استعمال کی کچھ مثالیں دیکھیں ۔

خموش ہوں تو مجھے اتنا کم جواز نہ جان

مرے بیان سے باہر بھی ہیں سبب میرے

(جمالِ احسانی)

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اِس کارگہ شیشہ گری کا

(میرؔ )

آواز دے رہے ہیں درِ دل پہ وسوسے

ہرگام ایک کوہِ ندا ہے ہمارے ساتھ

(سجاد باقر رضوی)

ملی ہے اِس لیے خلعت کہ میں نے زیرِ عبا

چلاتھا گھر سے توشمشیر بھی پہن لی تھی

(محمد اظہار الحق)

اردو نعت سے علامتی اشعار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سیرت ہے تری جوہرِ آئینۂ تہذیب

روشن ترے جلوؤں سے جہانِ دل ودید ہ

(حفیظ تائب)

فروغِ جاں بھی وہاں ہے ،فراغِ خاطر بھی

جہاں جہاں بھی تری روشنی کاہالہ ہے

(انورمسعود)

لیل ونہار آپ کے در کے طواف میں

لوح وقلم ہے آپ کی مدحت کاآئینہ

(محمداقبال نجمی)

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تشبیہ | استعارہ | کنایہ | تلمیح

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]