محسن کاکوروی کا قصیدہ لامیہ ،- ڈاکٹر حبیب الرحمن نعیمی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Mohsin Kakorvi was a poet who achieved the height of poetics with his diction and by applying techniques of aesthetical values of literature of power in the genre of Devotional Poetry. He is the only poet whose literary work gripped the minds of religious as well as non religious circles to recognize his supremacy over the other poets of the same genre. Dr. Habib-ur-Rahman Rahimi has highlighted some critical viewpoints of literary critics to emphasise upon the importance of famous Qaseeda of Mohsin Kakorvi. Mohsin was the only poet who created atmosphere based on Indian mythology in his Qaseeda and succeeded in expressing a true Muslim's sentiments towards Naatia poetry.

ڈاکٹر حبیب الرحمن رحیمی۔سعودی عرب

محسنؔ کاکوروی کے قصیدے لامیہ پرایک نظر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعتیہ ادب کی تاریخ میں محسنؔ کاکوروی ایک زندۂ جاوید نام ہے اور محتاجِ تعارف نہیں ہے ، دراصل محسن ؔ نے پوری زندگی نعت سے شغف رکھا ، نعت کے سوا کچھ نہ کہا اور نعت ہی کو اپنے لیے وسیلۂ نجات و سرخ روئی سمجھا ، انہوں نے متعدد اصنافِ ادب کی ہئتوں میں نعتیہ کلام کہا ہے ، مثلاً مثنوی ، قصیدہ ، رباعی ، قطعہ اور غزل وغیرہ ۔محسن ؔ چونکہ دبستانِ لکھنؤ سے تعلق رکھتے ہیں ،اس لیے ان کے کلام میں اس دبستان کی تمام خصوصیات جلوہ گر ہیں ، لکھنؤ میں قصیدے اور مثنویاں زیادہ لکھی گئ ہیں ، اس لیے ان کے یہاں بھی قصیدے اور مثنوی کی ہئت کا نعتیہ کلام ہی زیادہ ملتا ہے ۔

ان کے پورے نعتیہ کلام میں قصیدہ ’’ مدیح خیر المرسلین‘‘ کو سب سے زیادہ شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی ، اسے قصیدۂ لامیہ بھی کہا جاتا ہے ، ایک عرصۂ دراز تک یہ قصیدہ زبا ن زد خلائق رہا، اس کی مقبولیتِ عام کا تذکرہ محمد حسن عسکری نے اس طرح کیا ہے:

’’محسنؔ نے کچھ زیادہ تو نہیں لکھا مگر دو ڈھائی سو صفحے کا مجموعہ تو بن ہی گیا، پھراس مجموعہ میں تین چار چیزیں ایسی موجود ہیں جو نہ صرف نعتیہ شاعری میں بلکہ پوری اردو شاعری میں ایک امتیازی درجہ کی مستحق ہیں، مثلاً دو مثنویاں ’’چراغِ کعبہ‘‘ اور ’’صبح تجلی‘‘ایک سراپائے رسولِ اکرم اور وہ لمبی غزل جس کا مطلع ہے :

مٹانا لوحِ دل سے نقش ناموسِ اب وجد کا

دبستانِ محبت میں سبق تھا مجھ کو ابجد کا

مگر لے دے کے جس چیز کو قبولِ عام حاصل ہوا، وہ ہے ان کا قصیدہ لامیہ، یعنی ’’ سمتِ کاشی سے چلاجانب متھرا بادل‘‘، محسنؔ کی ساری شہرت اسی ایک قصیدے پر موقوف ہے‘‘۔(۱)

یہ قصیدہ محسنؔ نے ۱۲۹۳ھ میں لکھا ، اس میں ایک سو تینتالیس (۱۴۳)اشعار ہیں، قصیدے کے درمیان میں دو غزلیں بھی شامل ہیں، اس قصیدے کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا موضوع ہے، اس کا موضوعاتی مطالعہ علمائے ادب میں مسلسل موضوعِ بحث رہا ہے، دراصل قصیدہ تونعتیہ ہے لیکن اس کی فضا ہندوانہ ہے، اس سے قبل نعت میں اس طرح کا موضوع نہیں برتا گیا تھا، تشبیہ و استعارہ اور پس منظر کے طور پر اسلامی مقامات یا اسلامی تہذیب و تمدن سے تعلق رکھنے والی چیزوں کا ذکر کیا جاتا تھا، مثلاً اگر کسی دریا کا ذکر کرنا ہو تو دجلہ و فرات کا ذکر کیا جاتا تھا، لیکن محسنؔ نے ان سب سے ہٹ کر ایک نئی روایت کا آغاز کرتے ہوئے گنگا جمنا اور کاشی و متھرا کا ذکر کیا ہے، یہی اس قصیدہ کا امتیازی وصف ہے کہ اس کی تشبیب ہندوانہ رسم و رواج سے تعلق رکھتی ہے، ہندوانی فضا کے باوجود اس کا مطلع زبان زد خاص و عام ہوگیا، قصیدے کی تشبیب کے چند اشعار درج ذیل ہیں:

سمتِ کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل

برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل

گھر میں اشنان کریں سرو قدانِ گو کل

جا کے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طول امل

خبر اُڑتی ہوئی آئی ہے مہابن میں ابھی

کہ چلے آتے ہیں تیرتھ کو ہوا پر بادل

کالے کوسوں نظرآتی ہیں گھٹائیں کالی

ہند کیا ساری خدائی میں بتوں کا ہے عمل

دیکھیے ہوگا سری کرشن کا کیوں کر درشن

سینۂ تنگ میں دل گوپیوں کا ہے بیکل

راکھیاں لے کے سلونوں کی برہمن نکلیں

تار بارش کا تو ٹوٹے کوئی ساعت کوئی پل

اب کی میلا تھا ہنڈولے کا بھی گردابِ بلا

نہ بچا کوئی محافہ نہ کوئی رتھ نہ بہل

ڈوبنے جاتے ہیں جو گنگا میں بنارس والے

نوجوانوں کا سنیچر ہے یہ بڑھوا منگل

تشبیب کافی طویل ہے، درمیان میں غزل کے اشعار ہیں، چند اشعار دیکھیے:

سمتِ کاشی سے چلا جانبِ صحرا بادل

برج میں اوج شری کشن ہے کالا بادل

بجلی دو چار قدم چل کے پلٹ جائے نہ کیوں

وہ اندھیرا ہے کہ پھرتا ہے بھٹکتا بادل

جوش پر رحمتِ باری ہے چڑھاؤ خُمِ مے

چشمک برق سے کرتا ہے اشارا بادل

دیکھتا گر کہیں محسنؔ کی فغان و زاری

نہ گرجتا کبھی ایسا نہ برستا بادل

مدح کے چند اشعار دیکھیے:

سجدۂ شکر میں ہے ناصیۂ عرشِ بریں

خاک سے پائے مقدس کی لگاکر صندل

افضیلت پہ تری مشتمل آثار و کتب

اولیّت پہ تری متفق ادیان و ملل

لطف سے تیرے ہوئی شوکتِ ایماں محکم

قہر سے سلطنتِ کفر ہوئی مستاصل

جس طرف ہاتھ بڑھیں کفر کے ہٹ جائیں قدم

جس جگہ پاؤں رکھے سجدہ کریں لات و ہبل

دوسری غزل کے مطلع اور مقطع کو بھی دیکھیے:

کیا جھکا کعبے کی جانب کو ہے قبلا بادل

سجدے کرتا ہے سوے یثرب و بطحیٰ بادل

محسنؔ اب کیجیے گلزارِ مناجات کی سیر

کہ اجابت کا چلا آتا ہے گھِرتا بادل

اب اخیر میں چند دعائیہ اشعار بھی ملاحظہ ہوں:

سب سے اعلیٰ تری سرکار ہے سب سے افضل

میرے ایمانِ مفصل کا یہی ہے مجمل

ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی

نہ مرا شعر نہ قطعہ نہ قصیدہ نہ غزل

صفِ محشر میں ترے ساتھ ہو تیرا مداح

ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ یہ غزل

کہیں جبریل اشارہ سے کہ ہاں بسم اللہ

سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل(۲)

اس قصیدے پر بے شمار اعتراضات کیے گئے ہیں جیسا کہ فرمان فتحپوری نے لکھا ہے:

’’محسنؔ نے اپنی بہاریہ تشبیب میں ایسے مقامی رنگوں سے کام لیا ہے جو اس سے پہلے اردو کے نعتیہ قصائد میں نظر نہیں آتے، محسنؔ نے اس قصیدے میں برسات کے موسم ، اس کے اثرات، ہندوانہ ماحول، مقامی رسم و رواج، تقریبات اور تہوار، ہندی الفاظ و تلمیحات اور ہندؤں کی بعض تہذیبی و مذہبی روایات کو اس خوش اسلوبی اور فن کاری سے برتا ہے کہ ان کے قصیدے کا کچھ اور ہی عالم ہوگیا ہے.....۔ عام طور پر قصیدے کی تشبیب میں جس مقامی رنگ سے کام لیا تھا اسے بعض مشروع حلقوں میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا اور طرح طرح کے اعتراضات اٹھائے گئے‘‘۔(۳)

ایک اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ اس کی تشبیب میں(جو اس قصیدے کی روح ہے) غیر مشروع موضوعات کو جگہ دی گئی ہے، لیکن یہ اعتراض زیادہ قوی نہیں ہے، کیوں کہ تشبیب کی روایت اردو میں عربی شاعری سے آئی ہے اور عربی روایات کے مطابق تشبیب میں موضوع کی کوئی قید نہیں ہے، ہر طرح کے مضامین کو نظم کیا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عربی کے بہترین نعتیہ قصائد میں مختلف موضوعات پر مشتمل تشبیب ملتی ہے، قصیدۂ بردہ (بانت سعاد) کو آپؐ نے پسند ہی نہیں فرمایا بلکہ اس میں اصلاح بھی کی، جب کہ اس کی تشبیب میں محبوبہ سعاد کا ذکر کیا گیا ہے، اللہ کے رسول کے مقابلہ میں سعاد کی کیا حقیقت ہوسکتی ہے، ایسا ہی اس قصیدے کی تشبیب میں کیا گیا ہے کہ کفر و اسلام دو متضاد چیزوں کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ دراصل یہاں کفر کی نفی کرکے اسلام و ایمان کی ترغیب دی گئی ہے۔امیرؔ مینائی نے اس اعتراض کا جواب بہت مناسب طریقہ سے دیا ہے۔

’’بادی النظر میں شبہ ہوتا ہے کہ قصیدۂ نعت میں متھرا، گوکل و کنہیا کا ذکر بے محل ہے، لہٰذا دفعِ دخل کیا جاتا ہے کہ نعت میں تشبیب کے معنی ہیں ذکر ایام شباب کرنا اور اصطلاحِ شعر میں مضامینِ عشقیہ کا بیان کرنا۔ اساتذہ نے تخصیصِ مضامینِ عاشقانہ کی قید بھی نہیں رکھی، کوئی شکایتِ زمانہ کرتا ہے، کوئی متفرق مضامین کی غزل لکھتا ہے، کوئی غزل میں کسی طرح کا خاص تلازم ملحوظ رکھتا ہے۔

الغرض متّبعانِ کلام اساتذہ حقیقت شناسانِ تشبیب وقصیدہ پر پوشیدہ نہیں کہ مضامین تشبیب کے محصور نہیں ہیں اور نہ کچھ مناسبت کی قید ہے کہ حمد و نعت و منقبت میں قصیدہ ہو تو تشبیب میں بھی اس کی رعایت رہے، مرزا اسد اللہ غالبؔ دہلوی نے منقبت میں قصیدہ لکھا جس کا مطلع ہے:

صبح کہ در ہوائے پرستارئ دثن

جنبد کلیدِ بتکدہ ، در دستِ برہمن

اور اس قصیدے کی تشبیب میں بھی ایسے ہی مضامین لکھے ہیں ، عمدہ تر سند اس کے جواز کی یہ ہے کہ حضرت سرورِ کائنات خواجۂ ہردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں قصیدۂ بانت سعاد جس کی تشبیب مشروع نہیں ہے پڑھا گیا اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانِ مبارک سے اس کی تحسین فرمائی‘‘۔(۴)

خود محسنؔ نے بھی زبانِ شاعری ہی میں اس اعتراض کا جواب بڑے مدلل اور عالمانہ انداز میں دیا ہے:

گو قصیدے سے جدا ابر بہار تشبیب

فکر کے تازہ و تر کرنے کو ہے مستعمل

مختلف ہوتے ہیں مضمون کہیں عشق کہیں حسن

کہیں نغمہ ہے کہیں مے کہیں پھول اور کہیں پھل

تاہم ایک اک لطف ہے خاص اس میں جو سمجھے دانا

کہ سخن اور سخن گو کو ہے نازش کا محل

پڑھ کے تشبیب مسلماں مع تمہید و گریز

رجعت کفر بایماں کا کرے مسئلہ حل

کفر کا خاتمہ بالخیر ہوا ایماں پر

شب کا خورشید کے اشراق سے قصہَّ فیصل

چشم انصاف سے دیکھو تو قصیدے کی شبیہ

نیم رخ تھی اسی رنگت سے ہوئی مستقبل

ظلمت اور اس کے مکارہ میں ہوا طول سخن

مگر ایمان کی کہیے تو اسی کا تھا محل

کفر و ظلمت کو کہا کس نے کہ ہے دینِ خدا

مے و نغمہ کو لکھا کس نے کہ ہے حسن عمل (۵)

ایک اعتراض محمد حسن عسکری نے جلال الدین سحرؔ لکھنوی کے درج ذیل نمونۂ کلام کے حوالہ سے کیا ہے:

اے ہوا جا کے بنارس سے اُڑا لا بادل

چاہیے ہندوی سوسن کے لیے گنگا جل

قمریاں کہتی ہیں مستی میں جو چلتی ہے ہوا

ٹوٹ جائے نہ کہیں سرو چمن کی بوتل

روشیں صاف ہیں ایسی کہ پھسلتی ہے ہوا

پھول ہنس ہنس کے یہ کہتے ہیں سنبھل دیکھ سنبھل

آج تو خوب سی جی کھول کے پیلو یارو

فکر فردا نہ کرو دیکھ لیا جائے گا کل

آن کر پیڑوں کے ٹھالوں میں نہاتے ہیں لال

سوکھتے سوکھتے ہوجاتے ہیں بالکل ہریل

کس قدر کیاریوں میں جمع ہیں گلہائے فرنگ

یہ بڑے دن کے لیے ہوتی ہے شاید کونسل

اس قصیدے کے بارے میں جلال الدین جعفری نے اپنی تصنیف ’’تاریخ قصائد اردو‘‘ میں رائے ظاہر کی ہے کہ ’’سحرؔ لکھنوی کی زبان متانتِ قصائد کے لیے موزو ں نہیں‘‘ اس رائے کے حوالے سے محمد حسن عسکری نے یہ اعتراض کیا ہے:

’’زمین بھی محسنؔ کے قصیدۂ لامیہ کی ہے اور زبان بھی لیکن محسنؔ کا قصور معاف ہوگیا، بلکہ حبیبِ ہنر ٹھہرا، حالانکہ وہ نعت لکھ رہے تھے جس میں ادب و لحاظ اور بھی ضروری تھا، تو اس قصیدہ میں وہ کیا چیز تھی جو لوگوں کے لاشعور میں اترتی چلی گئی اور جس نے لوگوں سے بیساختہ سبحان اللہ کہلوایا؟‘‘(۶)

پروفیسر شفقت رضوی کو بھی قصیدۂ لامیہ پر چند اشکالات اور اعتراضات ہیں ، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، موصوف رقم طراز ہیں:

’’بلا شبہ تشبیب میں ہر قسم کے دل خوش مضامین کو جگہ دی جاسکتی ہے ، اگر محسنؔ نے ہندوستانی روایات اور کیفیات کو جگہ دی تو بُرا نہیں کیا لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ شعر کس کے لیے کہا جاتا ہے، شاعر کی شعر گوئی اس کی اپنی ذات کے لیے ہے تو وہ جو چاہے کہہ لے، اگر شاعری ذریعۂ ابلاغ ہے ، اگر شاعر قاری اور سامع سے کچھ کہنا چاہتا ہے تو اس کے حدودِ ادراک میں وہ رہ کر کہے ، عمومی ذہنی سطح سے بلند ہوکر کہنے سے ابلاغ کا حق ادا نہیں ہوتا، دوسری بات یہ ہے کہ شعر کسی خاص زمانہ کے لیے ہو تو اس کی قدر وقتی اور عارضی ہوتی ہے، اچھی اور بڑی شاعری وہ ہے جس کی قدر ہر زمانہ اور ہر جگہ ہو، جو اسی وقت ممکن ہے جب وہ ہر زمانہ میں شوق اور ذوق سے پڑھی جائے اور وسیع پیمانے پر سمجھی جائے۔ محسنؔ کاکوروی کے قصیدے کی تشبیب کا وہ حصہ جو ہندو روایات کی تلمیحات اور اشاروں پر مبنی ہے، نعت سے شغف رکھنے والوں کے ایک محدود طبقہ کے لیے نیا نہیں ہوگا، برصغیر جنوبی ایشیا کے خاص علاقوں میں اس کے سمجھنے والے ملیں گے، مسلم معاشرہ کے بیشتر افراد اس سے ناواقف ہیں، بالخصوص برصغیر کی تقسیم کے بعد وہ قطعاتِ زمین جو ہندو تہذیب ، معاشرت اور مذہب سے دور ہوگئے ہیں ، ان کے لیے صنمیات والا حصہ بالکل اجنبی ہوگا، گویا قصیدوں کی تشبیب کی دائمی قدر باقی نہیں رہی اور پھر جس رومانی انداز سے اس تشبیب کی تشکیل و تعمیر ہوئی ہے ، اس کے سحر سے نکلنا آسان نہیں، جب تشبیب قاری و سامع کے ذہن کو مضبوطی سے اپنی گرفت میں لے لے، اس سے گزر کر متضاد نوعیت کی مدح کی طرف رجوع کرنا آسان نہیں،ذہن کو تشبیب کے سحر سے آزاد کرنے کے لیے جو پُراثر گریز ہونا چاہیے تھا ، وہ موجود نہیں ہے‘‘۔(۷)

پروفیسر رضوی کا یہ غیر جانبدارانہ اور مخلصانہ تجزیہ و تبصرہ ہے، یہ اعتراضات ایسے ہیں جو ہر غیر جانبدار نقاد کے ذہن میں اُبھر سکتے ہیں، موصوف کا پہلا اعتراض یہ ہے کہ عمومی ذہنی سطح سے بلند ہوکر کہنے سے ابلاغ کا حق ادا نہیں ہوتا‘‘ جہاں تک نعت گوئی کے محرک یا مقصد کی بات ہے تو منبعِ نعت سے گہری عقیدت اور شدتِ محبت ہی شاعر کو نعت کہنے پر مجبور کرتی ہے، گویا شاعر نعت کے ذریعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کا دوسرا عظیم مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ سامع اور قاری کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یک گونہ محبت ہوجائے، یوں ابلاغ و ترسیل نعت میں مقصود و مطلوب ہوتا ہے، لیکن قصیدۂ لامیہ کو عمومی ذہن سے بلند و بالا قرار دیا گیا ہے، قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر یہ عمومی سطح سے زیادہ ہی بلند ہوتا تو پھر اس طرح مقبولِ خاص و عام کیوں کر ہوتا؟ایک زمانہ میں تو ہر کسی کی زبان پر اس قصیدے کے اشعار ہوا کرتے تھے، ، محسنؔ کو صفِ اول کے شعرا میں شمار کرانے میں اس قصیدے کا اہم رول رہا ہے، تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ قصیدہ صرف خواص کے لیے ہے، یا پھر خود اپنے لیے کہا گیا ہے۔ کیا اشعار میں تلمیحات یا مشکل الفاظ اور صنائع و بدائع کا استعمال بالکل ناجائز ہے؟ کیاعلامہ اقبالؔ اور مرزا غالبؔ کے تمام اشعار عوام الناس کو برجستہ سمجھ میں آجاتے ہیں؟اگر محسنؔ اپنے وقت کی مروجہ زبان و بیان استعمال نہیں کرتے تو شاید اس قصیدے کو اتنی مقبولیت حاصل نہیں ہوتی۔ جیسا کہ ان کی دوسری مثنویوں کے ساتھ ہوا ہے کہ ان کی وہی مثنویاں زیادہ مقبول ہوئی ہیں جن میں صنائع و بدائع کا استعمال ہوا، دراصل کھانے والے کی انہی اشیاء سے ضیافت کی جاتی ہے جو اسے مرغوب ہوں، یہی وجہ ہے کہ جب زمانے کی رفتار کے ساتھ زبان و بیان کا معیار بدلا تو اس قصیدے کی مقبولیت بھی ماند پڑنے لگی، لیکن اس وجہ سے نعت گوئی کی تاریخ میں اس قصیدے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

جہاں تک اس کی تشبیب میں ہندوانہ ماحول و فضا یا ہندو صنمیات کی تلمیحات کے استعمال کی بات ہے توہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ قصیدہ اس وقت کہا گیا ہے جب بر صغیر متحد تھا، اس کی تقسیم نہیں ہوئی تھی، ظاہر ہے اس وقت اس متحد ملک میں ہندو اور مسلمان سب ایک ساتھ رہتے تھے اور اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں مذاہب ایک دوسرے پر اثر انداز ہوئے ہیں، اس وجہ سے مسلمان ہندؤوں کی مذہبی شخصیات اور مقامات سے بخوبی واقف تھے اور ہندو بھی مسلم معاشرہ میں گھل مل گئے تھے، یہی وجہ ہے کہ متعدد غیر مسلم شعرا نے بھی نعت گوئی کا شرف حاصل کیا، اس ماحول و معاشرہ میں محسنؔ نے یہ قصیدہ کہا اور اس میں پہلی بار ہندو صنمیات کی تلمیحات کا استعمال کیا، اس وقت ان تلمیحات سے سب لوگ واقف تھے، اس لیے اس قصیدہ کو فوراً قبولِ عام حاصل ہوگیا، بلکہ یہ نرالا ، اچھوتا اور انوکھا انداز سب کو پسند آیا (نیز کمال یہ تھا کہ اس کے اخیر میں ہندو مذہب سے مسلم مذہب کی طرف مائل ہونے کی ترغیب دی گئی ہے ، اس لیے مسلم معاشرہ میں تو اس کی کوئی مخالفت ہونی ہی نہیں چاہیے ، کیوں کہ یہ نعت کے موضوع پر پورا اترتا ہے) لیکن بعد میں ملک تقسیم ہوگیا اور دھیرے دھیرے اس میں مستعمل تلمیحات بعض لوگوں کے لیے مشکل ہوگئیں لیکن اس میں شاعر کی کوئی خطا نہیں ہے۔ دراصل یہ نعت میں ہندوانہ تہذیب پیش کرنے کی پہلی کوشش تھی اور پہلی کوشش پر کچھ زیادہ ہی اعتراضات کیے جاتے ہیں، لیکن پروفیسر رضوی کا یہ اعتراض بالکل بجا اور درست معلوم ہوتا ہے کہ ’’جس رومانی انداز سے اس کی تشبیب کی تشکیل و تعمیر ہوئی ہے اس کے سحر سے نکلنا آسان نہیں ہے‘‘۔ محسنؔ نے جس شوق اور لگن سے اس کی تشبیب لکھی ہے، اسی معیار و مرتبہ کی گریز یہاں مفقود ہے، نیز مدح کے اشعار میں بھی اتنا زیادہ زور نہیں دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس پر زیادہ اعتراضات کیے گئے ، یہ اس قصیدے کی کمی ہے ، جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

پروفیسر رضوی نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ محسنؔ کاکوروی کا لامیہ قصیدہ عام قاری یا سامع کے لیے نہیں بلکہ یا تو خود ان کے لیے یا خواص کے لیے لکھا گیا ہے، پروفیسر صاحب نے یہی حکم مولانا احمد رضاؔ خان فاضل بریلوی کے دو ایک قصیدوں پر اور عبد العزیز خالدؔ کے تمام تر کلام پر لگایا ہے، ان تینوں کے کلام کے لیے ’’ماہرانہ‘‘ اور ’’استادانہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے، نیز لکھا ہے کہ:

’’یہ تینوں شاعر محسنؔ ، فاضل بریلوی اور خالدؔ یاتو اپنے لیے شعر کہتے ہیں یا خاص حلقے کے لیے‘‘۔(۸)

محسنؔ کے قصیدے کا موازنہ ان دونوں شاعروں سے کرنا مناسب نہیں ہے، اس لیے کہ فاضل بریلوی کی دو ایک نعتیں واقعی مشکل ہیں ، انہوں نے جس ذہنی سطح پر فائز رہ کر شعر کہے ہیں وہاں تک رسائی عام پڑھے لکھے افراد کے بس کی بات نہیں ہے، اس لیے ان کی چند نعتیں جس زمانہ میں لکھی گئیں تب بھی اور آج بھی مشکل ہی سمجھی جاتی ہیں، یہی حال عبد العزیز خالدؔ کے کلام کا ہے، لیکن محسنؔ کا کلام اپنے زمانہ کے مطابق تھا اور تھوڑی بہت ہندو مذہب کی معلومات رکھنے والے کے لیے یہ قصیدہ بہت زیادہ مشکل نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام الناس نے اسے اپنی ذہنی سطح سے قریب تر سمجھا ، یہ الگ بات ہے کہ تقسیم ملک کے بعد جو لوگ ہندو تہذیب و معاشرت سے دور ہوگئے ان کے لیے صنمیات والا حصہ یقیناًمشکل اور اجنبی ہوگیا ہے۔

ان اعتراضات کے باوجود ڈاکٹر اعجاز حسین اس قصیدے کی تعریف میں رطب اللسان ہیں، وہ رقم طراز ہیں:

’’محسنؔ نے بڑا کام یہ کیا ہے کہ مذہبی و نیم مذہبی امور کو قصیدہ میں جگہ دے کر نہ صرف وسیع النظری کا ثبوت دیا بلکہ ادب کو ایک نئے میدان کی طرف بڑھانے کی کوشش کی، سوداؔ اورمیرؔ کی طرح محسنؔ کا بھی قصیدہ پر احسان رہے گا کہ ادب کو زندگی سے قریب تر کرنے کی فکر کی، ایک نئے عنوان کااضافہ کیا ، قصیدہ کو بھی دلچسپ بنایا اور ادب کے بڑے فرض کو ادا کرنے کی کوشش کی.....، اس جرأتِ رندانہ کی قدر ہماری نگاہوں میں اور بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ نعتیہ قصیدہ میں وہ کاشی، متھرا، برج، کنہیا، برہمن اور گوپیوں کو جگہ دے کر تشبیب کو دلکش بنا دیتے ہیں ، ہندؤوں کی رسوم نظم کرکے اپنی جدت پسندی اور واقفیت کا مسلسل ثبوت دیتے ہیں‘‘۔(۹)

ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے بھی تشبیب کی اس جدت پسندی کو سراہا ہے اور پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا ہے ، انہوں نے لکھا ہے:

’’ایسی نرالی تشبیب آپ کو اردو کے کسی دوسرے شاعر کے یہاں نہیں ملے گی، ذوقؔ و سوداؔ قصیدے کے بادشاہ ہیں لیکن ان کی کسی تشبیب میں ایسی جدت اور زور نہیں، یہ مضامین تشبیہات، استعارات اور خیالات جو خالص ہندوستانی فضا کی پیداوار ہیں ، محسنؔ ہی کا حصہ ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محسنؔ کی پاکیزہ طبیعت عوام کی پامال شاہراہ سے بچ کر اپنا راستہ الگ بنانا چاہتی تھی، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سرزمینِ نعت میں اپنی جدت پسندی سے رنگ رنگ کے پھولوں کا ایک گلزار دکھلا دیا ہے‘‘۔(۱۰)

اردو میں قصیدہ نگاری کے مصنف ڈاکٹر ابو محمد سحرؔ نے بھی اس کی تشبیب میں برسات کے موسم اور ہندوستانی رنگ کے بیان کو اس کی مقبولیت کا راز بتایا ہے، وہ لکھتے ہیں:

’’ان کے قصیدے ’’ مدیح خیر المرسلین‘‘ کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی اور اس میں شک نہیں کہ ان کا یہ قصیدہ اردو قصائد میں ایک منفرد اور امتیازی مقام کا مالک ہے، اس کی تشبیب جس پر اس قصیدے کی مقبولیت کی بنیاد ہے ، یوں تو بہاریہ تشبیب ہے لیکن محسنؔ نے اس کو برسات کے موسم سے ہم آہنگ کرکے مقامی رنگ ، ہندوستانی تلمیحات، ہندوستانی رسوم و رواج اور ہندی الفاظ کی آمیزش اتنی فنکاری سے کی ہے کہ کچھ اور ہی عالم پیدا ہوگیا ہے‘‘(۱۱)

محسنؔ نے دبستانِ لکھنؤ کی تمام اہم خصوصیات کو اپنایا ہے لیکن اس طور پر کہ یہ تمام کلام کی خوبی بن کر ابھری ہیں نہ کہ کلام کے فہم یا روانی میں رخنہ انداز ہوئی ہیں اور نہ اس سے کلام کی اثر انگیزی میں کمی آئی ہے اور نہ ان کا اکثر کلام ایک معمہ اور چیستاں معلوم ہوتا ہے جیسا کہ مولانا عبد السلام ندوی نے لکھا ہے:

’’متاخرین کے دور میں محسنؔ کاکوروی نے نعت گوئی کو جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں:

ازل میں جب ہوئیں تقسیم نعمتیں محسنؔ

کلام نعتیہ رکھا مری زباں کے لیے

اپنا خاص فن بنا لیا، اور اس حیثیت سے غیر معمولی شہرت حاصل کی لیکن افسوس ہے کہ انہوں نے اس مقدس موضوع کے متعلق لکھنؤ کی برخود غلط شاعری کا استعمال اور بھی غلط طریقے سے کیا‘‘۔(۱۲)

انہوں نے مزید لکھا ہے:

’’.....اور ان تمام خصوصیات کے اجتماع نے ان کے کلام کو اس قدر بے اثر کردیا ہے کہ یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ جو کچھ لکھتے ہیں کسی مذہبی جذبے سے متاثر ہوکر لکھتے ہیں ۔غرض انہوں نے جو نعتیہ قصائد اور نعتیہ مثنویاں لکھی ہیں ان کا بیشتر حصہ ایک معمہ اورچیستاں ہے نعت نہیں ہے‘‘۔(۱۳)

مولانا عبد السلام ندوی کی رائے نعتِ محسنؔ کے بارے میں کچھ زیاہ شدت اختیار کیے ہوئے ہے، ان کی رائے قصیدے کے صرف ایک رخ پر مبنی ہے۔ دراصل مولانا لکھنوی شاعری سے نالا ں ہیں ، چونکہ محسن ؔ بھی لکھنوی طرز کے حامل ہیں اس لیے مولانا کو ان کی شاعری میں وہ ساری برائیاں نظر آئیں جو اس دبستان کے شعرا میں عام طورسے ہوا کرتی ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ محسنؔ نے نعت گوئی کا حق ادا کردیا، محسنؔ کے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سچے عشق و محبت اور خلوص کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ انہوں نے تاعمر نعت گوئی کو ہی اپنا شعار بنایا، ابتدا بھی نعت سے کی اور انتہا بھی نعت پر کی ۔ ڈاکٹر سید شمیم گوہر کے نزدیک محسنؔ کی نعتیہ شاعری کی حقیقت یہ ہے:

’’دبستانِ لکھنؤ کے وہ جملہ شعری محاسن جو نعت میں شامل ہوسکتے تھے ، انہوں نے پوری دیانت داری و امانت کے ساتھ شامل کیا اور تمام بازاری پن جنہیں نعت سے دور رکھنا ضروری تھا ، ان کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا، نعتیہ شاعری اگرچہ بنیادی طور پر عشق نبی ، حبِّ صادق ، تبلیغ حق اور اظہارِ ندامت و التجائے شفاعت کا نام ہے لیکن اس بنیادی تعلق کے باوجود محسنؔ نے اپنی قادر الکلامی اور فکر و فن کی بلندیوں کی روشنی میں یہ ثابت کردکھایا ہے کہ نعت اگرچہ ایک موضوعاتی شاعری ہے مگر اس کو فن اور حتمی جستجو کی دولتوں سے نواز دیا جائے تو بڑی سے بڑی غیر موضوعاتی شاعری بھی سرجھکانے پر مجبور ہوسکتی ہے‘‘۔(۱۴)

محسنؔ کی اس کامیابی کی وجہ محمد حسن عسکری نے کچھ اس طرح بیان کی ہے:

’’محسنؔ کاکوروی نے نعت گوئی کو فنِ شریف بنا دیا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کا عشقِ رسول اوروں سے زیادہ صادق تھا، یا انہوں نے حقیقتِ محمدی کو اوروں سے زیادہ سمجھا تھا ، نعت گوئی میں ان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ نہ تو انہوں نے اپنی صلاحیتوں کی حد سے آگے جانے کی کوشش کی اور نہ اپنی صلاحیتوں کے استعمال سے شرمائے‘‘۔(۱۵)

غرض بحیثیت مجموعی محسن ؔ کے کلام میں مشکل پسندی، تلمیحات اوردبستانِ لکھنؤ کی دیگر خصوصیات صنائع و بدائع اور اپنے احساسات کا اظہار پُرتکلف اور پُر تصنع انداز میں ہونے کے باوجود محسنؔ ایک کامیاب نعت گو شاعر ہیں، محسنؔ نے نعت کو بامِ عروج پر پہنچا یا، ان سے متاثر ہوکر کتنے ہی شعرا نعت گوئی کی طرف پورے طور پر متوجہ ہوئے، محسنؔ نے دبستانِ لکھنؤ کو بھی نئی راہ دکھائی ، اس کی ایک وجہ ان کی فنی مہارت اور ان کی شاعری کا وقتی تقاضوں پر پورا اُترنا ہے، تو دوسری بڑی وجہ ان کا جذبِ صادق ، عشقِ حقیقی اور حضور سے عقیدت و محبت میں اخلاص و استقامت ہے۔غرض نعتیہ قصائد میں محسنؔ کا نام بلند و بالا مقام پر فائز ہے، نعت گوئی کی تاریخ محسنؔ کا نام لیے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوسکتی۔


مراجع[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۱)ستارہ یا بادباں از محمد حسن عسکری ، ص ۲۹۸، مطبع سعدی ، قرآن محل ، مولوی مسافر خانہ بندر روڈ ، کراچی ، ۱۹۶۳ء ناشر مطبع سات رنگ ، کراچی

(۲)کلیاتِ محسن ؔ مرتبہ محمد نورالحسن ص ۹۵تا ۹۷،۱۰۴ تا ۱۰۸، ۱۱۵ تا ۱۱۶، ۱۱۸ تا ۱۲۳،اتر پردیش اردو اکادمی ، لکھنؤ،۱۹۸۲

(۳)اردو کی نعتیہ شاعری از ڈاکٹر فرمان فتح پوری ، ص ۶۰ ، آئینۂ ادب لاہور، ۱۹۷۴

(۴ )کلیات نعت محسن ؔ ص ۹۳

(۵)ایضاً ص ۹۴

(۶)ستارہ یا بادبان ، ص ۳۰۰

(۷)نعت رنگ ، ص ۶۰،۶۱، مضمون’’ اردو نعت پر تاریخی تحقیقی اور تنقیدی کتب ۔ تعارف و تجزیہ ‘‘

(۸)نعت رنگ مدیر صبیح رحمانی ، کراچی ، ص ۶۱

(۹)مذہب و شاعری از ڈاکٹر اعجاز حسین ، ص ۱۹۶تا ۱۹۸

(۱۰)لکھنؤ کا دبستانِ شاعری از ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی ، اردو مرکز ، لاہور ، ۱۹۶۷

(۱۱)اردو میں قصیدہ نگاری از ڈاکٹر ابو محمد سحر ؔ ، ناشر تخلیق کار پبلی شرز ، لکشمی نگر ، دہلی

(۱۲)شعر الہند حصہ دوم از مولانا عبد السلام ندوی ، ص ۲۱۱، مطبع معارف اعظم گڑھ ، طبع پنجم ، ۱۹۸۱

(۱۳)شعر الہند حصہ دوم ،ص ۲۱۳

(۱۴)نعت کے چند شعرائے متقدمین از ڈاکٹر سید شمیم گوہر ؔ ، ص ۶۷، سید ابو طاہر ، خانقاہ حلیمہ ابو العلائی ، نیا حجرہ ، ۱۲۷، چک الہ آباد

(۱۵)ستارہ یا بادباں از محمد حسن عسکری ، ص ۳۱۱


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت