محمدجلیل عالی کی نعت ۔ حمد شاہد

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


تحریر: حمید شاہد

کتاب : نور نہایا رستہ

شاعر : جلیل عالی

محمد جلیل عالی کی نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بجا کہ نعت کا لفظ قرآن پاک میں نہیں ہے اور نہ ہی احادیث کی امہاتِ کتب میں یہ اپنے تخصیصی معنیٰ میں آیا ہے تاہم نعت کی اساس قرآن و حدیث ہی ہے۔ عربی سے فارسی میں پہنچ کر یہ لفظ مطلق ثنائے رسول ِکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مخصوص ہوا اور یہیں سے اُردو میں مروج ہوا۔ کہنے کو نعت کا موضوع طے ہو چکا مگر واقعہ یہ ہے کہ اس میں موضوع کی وسعت اور عظمت ایسی ہے کہ وہ اپنی تاثیر کے ساتھ توفیقِ الٰہی اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق سے ہی کسی کو عطا ہوتی ہے۔ یہ توفیق محمد جلیل عالی کو عطا ہوئی ہے۔


مجھے یاد ہے کہ کئی سال پہلے جب محمد جلیل عالی کا پہلا شعری مجموعہ’’خواب دریچہ‘‘ منظرِعام پر آیا تو اس کے ابتدائی صفحات میں جو نعت موجود تھی، وہ بھی اپنے مزاج کے اعتبار سے الگ دھج رکھتی تھی :


ایک لمحہ کہ ملیں سارے زمانے جس میں

ایک نکتہ سبھی حکمت کے خزانے جس میں


دائرہ جس میں سما جائیں جہانوں کی حدود

آئنہ جس میں نظر آئے عدم کا بھی وجود


فرش پر عرش کی عظمت کی دلیلِ محکم

خلق پر رحمتِ خالق کی سبیلِ محکم


دسترس اسؐ کی نگاہوں کی کراں تا بہ کراں

وہؐ تجسّس کے لئے آخری منزل کا نشاں


ایک توسیع جو قسمت کی لکیروں میں رہے

ایک تنبیہ جو بیدار ضمیروں میں رہے

صاحب ! میں نے تو اس پہلی نعت سے اندازہ لگا لیا تھا کہ محمد جلیل عالی پیشہ ور نعت نگاروں ، اتفاقاً یا شوقیہ اس طرف آنکلنے والوں اور موقع کی مناسبت سے دیگر موضوعات کی طرح نعت کہہ لینے والوں جیسے نہیں ہیں ۔ان کا تخلیقی عمل اپنی مختلف سطوح میں ایک ایسے تصورِ جمال کی عطا ہے جسے پیکرِ جمیل نبیِ آخر الزماں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ ِحسنہ سے الگ کرکے دیکھا جاسکتا ہے نہ اس نظام سے الگ کرکے جس کے وہ ؐداعی تھے ۔ ہمارے اس محبوب شاعر کے ہاں لطیف جمال کے شوق دھارے سے جس مثالی انسان کا خاکہ بنتا ہے یا پھر اس انسان کے لیے جا بہ جاایک دردمندی سے سلامتی کی جو راہیں تجویز ہوتی ہیں وہ ان کے کلام میں ایک مربوط فکری جہت اور اس میں موجزن بصیرت کے خدو خال کی تعیین بھی کر دیتی ہیں ۔احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا:


’’جلیل عالی نے اپنے’’دل کی لوح پر سچائی کا اسم روشن ‘‘کر رکھا ہے۔ یہ اس کے اپنے الفاظ ہیں مگر خود ستائی سے مبرا،اس لیے سچے اور دیانت دارانہ ہیں۔‘‘


یہیں عالی صاحب کی نعت کا ایک شعر یاد آتا ہے:


ہم کو دیتا ہے وہی اسم پناہیں عالیؔ

ورنہ اس بحرِ گماں میں جو بھنور بنتے ہیں


قاسمی صاحب کا کہا اور عالی صاحب کی نعت کا شعر مجھے یوں ایک ساتھ یاد آئے ہیں کہ انہی میں بہ جا طور پرعالی صاحب کے تخلیقی عمل کے محرکات اورسروکار دونوں نشان زد ہو رہے ہیں ۔ جی ، مَیں صاف لفظوں میں کہہ دیتا ہوں کہ عالی کے دِل کی لوح پر سچائی کا جو اسم روشن ہے اس کی مجسم صورت پیکرِ جمیل و جمالﷺ ہیں اور یہ کہ عالی صاحب کی رگوں میں دوڑتے عشق کالہو جہاں تخلیقی محرک بنتا ہے وہیں ان کے کل کلام کا قبلہ اور اسلوب بھی متعین کر رہا ہے۔’’خواب دریچہ‘‘ ہی سے غزل کا ایک شعر:


اب اور تو کچھ ایسے آثار نہیں ملتے

اِک شوق ترا اپنے ہونے کی نشانی ہے

زیر نظر مجموعے کی ایک نعت سے متقبس کرتا ہوں:


دنیا کیا تسخیرے مجھ کو

شوق تراؐ تعمیرے مجھ کو

تیرےؐ دھیان کے اپنے موسم

کیسے وقت اسیرے مجھ کو


محمدجلیل عالی ، نہ صرف خود ایک نور نہائے راستے پر چلتے رہنا چاہتے ہیںبلکہ اسی مسافت کی اُجلی دھول کے اس پار انسانیت کی بقا کی منزل کو بھی دیکھ رہے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ وہ ماضی کی ہر روشن روایت پر ملبا ہو کر گرتے حال اور کسی مربوط فکری نظام سے عاری کل کے خواب کے اسیر نہیں ہوتے ، وہ جس راہ پر ہیں اُس راہ پر پڑنے والا ہر قدم انہیں منزل کی تعمیر کا سا لگتا ہے۔


یہ جو کہا جاتا ہے کہ نعت گوئی آسان بھی ہے اور مشکل ترین بھی تو یہ یوں درست ہے کہ ہم ایسے نعت نگاروں کو تواتر سے پڑھتے سنتے رہتے ہیں جو نعت کہتے کہتے جانے اَن جانے میں مبالغے کے ایسے قرینے برتنے لگتے ہیں جو حمد سے مختص ہیں یا پھر دوسری حد کی طرف یوں جست لگاتے ہیں کہ اس باب کے لیے مخصوص ادب کے قرینے کی حد پھاند جاتے ہیں۔ ہو شیار اور محتاط ہوئے بغیر مبالغے کو سہولت سے برتنا یاحدِ ادب کے اندر رہنے کی مشکلات کو سمجھے بغیرشعر کہے چلے جانے والے شاعر چاہے جتنے بھی باکمال ہوں، اس علاقے میں لائق اعتنا نہیں رہتے ۔ وہ جو کہتے ہیں باخدا دیوانہ باش و با محمد ؐ ہوشیار، تو یوں ہے کہ محمد جلیل عالی اس باب میں اسی مسلک کے امیںہیں اور اس راہ کی مشکلات اور نزاکتوں سے بہ خوبی آگاہ ہیں :


لفظ جو نعت کے شایاں ہوں لغاتوںمیں کہاں

زہے قسمت کہ سخن عرض رساں ہو جائے

محمد جلیل عالی یوں عالی بخت ہیں کہ ان کے اخلاص نے ان پریہ کٹھن راہیں سہل کر دی ہیں ۔ تخلیقی عمل کے سارے سفر میں قسمت اُن پر کچھ اس طور مہربان رہی ہے کہ اس صنف کے سارے لوازمات اور مقتضیات پورے ہوتے رہے ہیں ۔


اک سایۂ رحمت ہے شب و روز سروں پر

یوں ہی تو کٹھن مرحلے آساں نہیں ہوتے

… بے ربطیِ افکار میں تالیف کی صورت

بس اک تیری سیرت کا حوالہ مرے آقا …

دل غزل وادی کا شہزادہ ہے کن حرفوں کہیں

کیا سکوں دیتی ہے اک اک ساعتِ مدحت ہمیں


درست کہ نعت کا لفظ خلقناًعمدہ صفات کے مالک کے لیے استعمال ہوتا ہے۔یہ بھی درست کہ نعت کی صنف کا مرکزی موضوع مدحِ رسولؐ ہے تاہم اب موضوعات کا دائرہ پھیل کر ہر نوع کے مسائل اور مشکلات کو اپنے کلاوے میں لے آیا ہے۔ جدید انسان کے اپنے مسائل اور اپنی مشکلات ہیں اور نئے وقت کے اپنے تقاضے اور اپنے مطالبے ہیں۔ محمد جلیل عالی کی نعت میں آج کی مشکلات سے جھونجھتا اور اپنے وقت کے جبر کی زنجیروں میں جھولتا تڑپتا یہ انسان بھی اپنی پوری شباہت دِکھا رہا ہے۔


رنگوں کے تعاقب میں نکل جاتے حدوں سے

عکس اُس ؐکے نگاہوں میں جو رخشاں نہیں ہوتے


وہؐ دشتِ احساس میں

بھٹکتے تلاش لمحوںکو

منزلوں کا سراغ دیتے

نقوشِ پا کے چمکتے پرچم

(  ؐ )

خیال خاروں

خبر خساروں کے جنگلوں میں

وہؐ خیر خوشیوں کے

جاگتے راستے بناتی ہوئی بصیرت

( ؐ )


یہیں اس مجموعے کی اُس حمدیہ نظم کی طرف دھیان چلا گیا ہے جس کا عنوان’’کوئی چراغِ سعادت‘‘ ہے:


نظر کی راہ میں

سو التباس رقص کناں

ہزار ابرِ تحیر طراز

برق فشاں

قدم قدم

سرِ احساس ڈولتی سوچیں

شعور بے سرو ساماں

گمان تیرہ جبیں

کوئی حدیث ِبصیرت

بہ گوشِ زخم ِ جگر!

کوئی چراغِ سعادت

بہ طاقِ قلب حزیں !


میں مکرر اور بہ اصراریہ کہنا چاہتا ہوں کہ محمد جلیل عالی اپنے پورے تہذیبی شعور کے ساتھ عصری حسیت کے ساتھ جڑے ہوئے شاعر ہیں۔ وہ اس عصر میں زندہ ہیں اور پورے تخلیقی وجود کے ساتھ زندہ ہیں۔ وہ رواںوقت کی ایک ایک لرزش کو اپنے وجود پر محسوس کرتے ہیں اور مستقبل کی چاپ سن کر درست درست آنک سکتے ہیں کہ اگلا قدم کہاں دھرنامناسب ہوگا۔اپنی ان توفیقات کے ساتھ وہ ایسے زمانے میں نعت کہہ رہے ہیں کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر شب روز ایک ایسا تماشا ہماری نگاہوں کے سامنے ہورہا ہے جو انسانیت کے شایان شان نہیں ہے ۔محمد جلیل عالی یہ سب دیکھ کر اور پریشان ہو کر الگ تھلگ بیٹھ نہیں جاتے ، اپنا قلم تھامتے ہیں اور ’’قلبیہ‘‘ کے عنوان سے ایک طویل نظم لکھ دیتے ہیں ۔ اس ’’قلبیہ‘‘ کا پہلا حصہ حمدیہ ہے اور آخری حصہ نعتیہ۔ نعتیہ نظم پارچے کو لکھتے ہوئے وہ عشق رسول میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اس فکری اور تہذیبی نظام سے جڑے ہوئے بھی ہیں جس سے جڑ کروہ زرِعرفان پاتے رہے ہیں ۔ اس نظم میں آپؐ کی رحمتوں کا بیان کرتے کرتے وہ خوش امکان تحریکوں کی بات کرنے لگتے ہیں۔ اس نظم پر بات کرتے ہوئے میںنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ میں کسی خوش گمانی میں نہیں ہوں،سوچتا ہوں اور اپنے آپ سے کئی سوال کرتا ہوں، خود سے اُلجھتا ہوں اور ’’خوش امکان تحریکوں‘‘ کے آگے بڑا سا سوالیہ نشان لگا دیتا ہوں۔ میری طرح اور بھی اُلجھتے ہوں گے مگر شاعر کے پاس یقین کی دولت ہے اور میں حیران ہوتا ہوں اور رشک کرتا ہوں کہ اس بے مہر زمانے میں بھی اس نایاب دولت سے اس کا دامن بھرا ہوا ہے۔ اس خوب صورت نعتیہ اظہاریے میں جذب و شوق کا دریا کچھ اس صورت کناروں سے چھلکتا ہے کہ شاعر کا دل اس کے سینے کے بکسے میں نہیں، اس کی آنکھوں میں دھڑکنے لگتا ہے ۔ اس مجموعے کی بیشتر نعتیں ایسی ہیں کہ شاعر کا دل سینے کے بکسے سے باہر نکل کر دھڑکا اور آنکھوں سے باہر چھلکاہے۔


دلشاد ہیں ہر درد کی شدت سے زیادہ

کیا چاہئے اور اسؐ کی محبت سے زیادہ

یہ سچ ہے کہ ہم اسؐ کی پرستش نہیں کرتے

رہتا ہے مگر دل میں عبادت سے زیادہ …


دھول رہوں اسٌ کے قدموں کی

اور ہے باقی جتنا رستہ


صاحب !محمد جلیل عالی جس راستے کی دھول ہیں اوررہنا چاہتے ہیں وہ نور نہایا راستہ ہے۔ اور مجھے آخر میں دہرا لینے دیجئے کہ اُنہوں نے اپنے دل کی لوح پر انتہائی دیانت داری اور سچائی سے ایک روشن اسم سجا رکھا ہے، یہی وہ مبارک اسم ہے جس نے ان کے تخلیقی مزاج کو الگ چھب اور شناخت عطا کی ہے ۔ نعت کہتے ہوئے وہ یوں مختلف ہو جاتے ہیں کہ یہی بنیادی اور مرکزی حوالہ معنیاتی سطح پرکچھ زیادہ روشن اور شفاف ہوکر اپنی جمالیات بھی متشکل کرلیتا ہے ، یوں کہ پڑھتے ہوئے قاری کا دل، شاعر ہی کے لفظوں میں سینے کے بکسے میں نہیں رہتا، آنکھوں میں دھڑکنے لگتا ہے۔


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
کتابوں پر تبصرے
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات