مدحت مصطفی کے متنی تقاضے ۔ ڈاکٹر عزیز احسن ۔ فروغ نعت شمارہ 15

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مضمون نگار : ڈاکٹر عزیز احسن

مدحتِ مصطفٰے ﷺ کے متنی تقاضے ![ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

میں کسی نعت کو اسلوبیاتی اور متنی دونوں سطحوں پر پرکھنے کے بعد نعتیہ ادب کا حصہ تسلیم کرنے کا قائل ہوں۔اسلوبیاتی سے میری مراد حسنِ اظہار اور متنی (Textual) سے مراد شاعری کا مافیہ یا Content ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعتیہ شاعری کی بوطیقا (Poetics) اسی حوالے سے زیرِ بحث لانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ نعت میں شعری جمالیات کے تو وہی پیمانے ہوتے ہیں جو عام شاعری کو قابلِ قبول بناتے ہیں لیکن متنی تقاضے (Textual Requisites) قرآن و حدیث کی روشنی میں طے ہوتے ہیں۔قرآنِ کریم کا اسلوب اور احادیث کی جامعیت سے حسنِ اظہار بھی سیکھا جاسکتا ہے۔ آج مجھے قرآن و حدیث کی روشنی میں نعتیہ شعریات کے باب میں کچھ عرض کرنا ہے۔ لیکن پہلے یہ جان لیں کہ شاعر کے بارے میں حکما کی کیا رائے ہے:

مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں:

’’یونانی زبان میں شاعر کو POET یعنی صانع اور خالق کہتے تھے۔اور اہل روما شاعر اور نبی یعنی غیب کی خبر دینے والے کے لیے ایک ہی لفظ VATES استعمال کرتے تھے۔عربی، فارسی اور اردو میں شاعر کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کے اصل معنی ،باخبر اور ادراک کرنے والے کے ہیں‘‘۔(۱)


ہماری شعری روایت میںشعراء کو تلامیذالرحمٰن کہتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ شاعری کی صلاحیت ،بڑی انوکھی اور خاص خاص لوگوں کے حصے میں آنے والی صلاحیت ہے۔باخبر اور ادراک کرنے والے اشخاص یقینا کچھ خاص لوگ ہی ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں انھیں شعر گوئی کی صلاحیت پانے یا عطا کیے جانے کے مقاصدسے آگاہ ہونے کے ساتھ اس صلاحیت کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کے رموز سیکھنے چاہئیں ۔


اللہ رب العزت کی طرف سے انسان کو کوئی صلاحیت بے وجہ عطا نہیں ہوئی۔ شعر گوئی کی صلاحیت بھی بلا جواز نہیں ملی ہے۔ اس لیے شاعری بھی اپنے وجود کے لیے جواز چاہتی ہے۔اس جواز کی تفصیل جاننے کے لیے ہمیں خالق ِ انسان سے انسان کا مقصدِ تخلیق دریافت کرنا ہوگا ۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے فرمایا:


’’[ترجمہ]اور نہیں پیدا کیا ہے میں نے جن و انس کو مگر محض اس غرض سے کہ میری عبادت کریں۔ (۲)


تفسیرِ مظہری میں قاصی ثنا ء اللہ پانی پتی نے لکھا ہے :

’’حضرت علیؓ نے آیت کا تفسیری ترجمہ اس طرح کیا ہے ’’میں نے جن و انس کو نہیں پیدا کیا، مگر صرف اس لیے کہ ان کو اپنی عبادت کا حکم دوں۔یعنی اپنے احکامات کا مکلف بناؤں۔اسی مفہوم کو دوسری آیت میں بیان کیا ہے اور فرمایا ہے‘ یعنی ان کو صرف ایک معبود کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘‘۔(۳)

تفسیرِ مظہری میں اس آیت کی تشریح کے سلسلے میں ایک حدیث بھی لکھی ہے:

’’حدیث مبارک ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’کُلٌّ مُّیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہٗ ‘‘

ہر ایک کے لیے وہ کام آسان کردیا جاتا ہے (یعنی اس کام کی توفیق دی جاتی ہے) جس کے لیے اس کو پیدا کیاگیا ہے‘‘۔(۴)

ابوالا علیٰ مودودی نے بھی تفہیم میں، اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:


’’عبادت کا لفظ اس آیت میں محض نماز روزے اور اسی نوعیت کی دوسری عبادات کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے…اس کا پورا مفہوم یہ ہے جن اور انسان اللہ کے سوا کسی اور کی پرستش ، اطاعت، فرمانبرداری اور نیاز مندی کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں‘‘۔(۵)


قرآن کی درجِ بالا آیت اور تفسیری حاشیوں کے مطالعے سے درجِ ذیل نکات اخذ کیے جاسکتے ہیں کہ:


عبادت، صرف روزہ نماز، حج،زکوٰۃ ہی کا نام نہیں بلکہ انسان(اور جن )کی پوری زندگی عبادت ہے۔ اس لیے انسان (اور جن) سے شعوری طور پر اپنی صلاحیتوں کا ایسا استعمال مطلوب ہے جو خالق کی مرضی کے خلاف نہ ہو۔با ایں ہمہ انسان سے اللہ کی اطاعت اختیار کرنے کا مطالبہ بھی جبر پر مبنی نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمادیا ہے:


’’ [ترجمہ] بے شک ہم نے پیدا کیا ہے انسان کو ایک مخلوط نطفہ سے تاکہ امتحان لیں اس کا اس لیے بنایا ہے ہم نے اسے سننے والا ، دیکھنے والا[۲]ہم نے دکھا دیا ہے اسے راستہ اب چاہے (بن جائے)شکر کرنے والا یا کفر کرنے والا(۶)۔


یہی بات بڑے واضح انداز میں سورۂ الکھف میں بھی فرمادی گئی ہے:


’’[ترجمہ]اور کہہ دیجیے کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے سو جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے انکار کردے‘‘( ۷)۔ منشائے تخلیقِ انسانی،مقصدِ زندگی اور ایمان یا کفر کے اختیار کرنے کی آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی اللہ رب العزت نے فرمادیا کہ موت اور زندگی اس بات کی آزمائش ہے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرتا ہے:


’’[ترجمہ]وہ ذات جس نے پیدا کیا موت اور زندگی کوتاکہ آزمائش کرے تمہاری کہ کون تم میں سے زیادہ اچھا ہے عمل میں۔(۸)


اب آئیے شاعر اور شاعری کی طرف۔شاعر انسان ہے اس لیے اسے زندگی میں خسران سے بچنے کا نسخہ پہلے جاننا چاہیے جو سورۂ العصر میں واضح کردیا گیا ہے:


’’[ترجمہ]قسم ہے زمانے کی[۱] یقینا، انسان خسارے میں ہے[۲] سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور کرتے رہے نیک عمل اور نصیحت کرتے رہے ایک دوسرے کو صبر کی۔(۹)


سورہ العصر میں پوری نوع انسانی کو خسارے میں دکھایا گیا ہے ۔ صرف چار کام کرنے والے مستثنیٰ ہیں…جو [۱]ایمان قبول کریں[۲]ایمان اعمالِ صالحہ اختیار کریں[۳]حق یعنی دین کی طرف لوگوں کو بلائیں اور [۴]ایمان اور اعمالِ صالحہ کی زندگی بسر کرنے میں جو مشکلات پیش آئیں ان پر خود بھی صبر کریں اور دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرتے رہیں۔

دراصل حق کی ترویج و اشاعت ہی مسلمان کا بنیادی فریضہ ہے۔شاعر کو چوں کہ خصوصی صلاحیتوں سے نوازا جاتا ہے اس لیے اس پر حق کے پرچار کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔عہدِ رسالت مآب ﷺ میں عرب دنیا میں پروپیگنڈے کا سب سے مؤثر ذریعہ شعر تھا۔اسی لیے حضورِ انور جناب رسالت مآب ﷺ نے شعراء کو دین کی اچھائیاں ظاہر کرنے اور مخالفین کے ذاتِ نبوی پر رکیک حملوں کے جواب کے لیے ابھارا اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا انتخاب عمل میں آیا…لیکن شاعری کے لیے بھی کچھ ضابطوں کی تعیین کی ضرورت تھی۔سو بالکل اسی طرح شعراء کو بھی خسارے سے بچنے کے اصول بتائے گئے جس طرح بنی نوعِ انسان کو بتائے تھے۔ سورۃ الشعراء میں،تقریباً اسی لہجے اور انہی الفاظ میں شعراء سے خطاب فرمایا گیا :


’’[ترجمہ]اوررہے شعراء تو چلا کرتے ہیں ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگO کیا نہیں دیکھتے ہو تم کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیںO اور بلا شبہ وہ کہتے ہیں ایسی باتیں جو کرتے نہیںO مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور کیے انہوں نے نیک عمل اور ذکر کیا اللہ کا کثرت سے اور بدلہ لیا انہوں نے اس کے بعد کہ زیادتی کی گئی ان پر اور عنقریب معلوم ہوجائے گا ان لوگوں کو جنہوں نے زیادتی کی کہ کس انجام سے وہ دوچار ہوتے ہیں‘‘۔(۱۰)


سورۂ العصرمیں تمام بنی نوعِ انسان کوجس لہجے میں مخاطب کیا گیاتھا ،بعینہٖ اسی لہجے میں شعراء کی پوری برادری سے خطاب فرمایا گیا۔ شعراء کے پیچھے چلنے والے لوگ سب گمراہ ہیں اور شعراء بدرجہء اولیٰ گمراہ ہیں۔پھر ایسے شعراء کومستثنیٰ کیا گیا جو ایمان لا کر اعمالِ صالحہ کے عملی مظاہرے کریں۔ تاہم یہاں موقع کی مناسبت سے جو تیسری شرط رکھی گئی وہ اللہ کے ذکر کی کثرت ہے۔ کیوں کہ شعراء اپنے کلام میں جس قدر بھی اللہ کا ذکر کریں گے، وہ دین کی تبلیغ و اشاعت کا ذریعہ بنے گا۔(حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے تفسیری حاشیے میں ’’وَذَکَرُ ا اللّٰہَ کَثِیْرًا‘‘ کی تشریح میں ’’فی الشعر‘‘ کے الفاظ ہی لکھے ہیں)۔(۱۱)۔ چوتھی شرط یہ لگائی کہ دنیائے کفر کی جانب سے جو ہرزہ سرائی اسلام اور پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے حوالے سے کی جائے ، اس کا بدلہ لیتے ہیں۔ابولاعلیٰ مودودی نے ظلم کے لیے بدلہ لینے کے ذکر سے مملو آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:


’’اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا‘‘ ۔ (۱۲)


اس سے ظاہر ہوا کہ بدلہ لیتے وقت بھی اعتدال کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، یہاں بھی مبالغہ آمیز جواب کی راہ مسدود کردی گئی ہے۔

سورۃ العصر اور سورۃ الشعراء کی چند آیات کی مماثلت اس بات کا اشاریہ ہے کہ بنی نوعِ انسان کے لیے خسارے سے بچنے والا نسخہ ،شعراء کے لیے خصوصی طور پر تجویز کیا گیا۔ تاہم یہ بھی بتادیا گیا کہ:


’’[ترجمہ]اور نہیں سکھائی ہم نے اس نبی ﷺ کو شاعری اور نہیں تھی اس کے شایانِ شان یہ چیز‘ ‘…(۱۳)


نبی علیہ السلام کے لیے علمِ شعر کی نفی کا صاف مطلب یہ ہے کہ نبی ﷺ کی ہر بات یقینی ہے جبکہ شعر میں تخیل کی کارفرمائی ہوتی ہے۔تخیل چاہے کتنا ہی راہِ راست پرکیوں نہ چلے ’’وحی‘‘ کے ذریعے عطا کیے جانے والے علم کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔جو قطعیت اور یقین کی کیفیت، وحی کے ذریعے عطا کیے جانے والے علم میں ہوتی ہے وہ انسانی کوشش سے لکھی جانے والی کسی تحریر میں پیدا نہیں ہوسکتی۔اس کے باوجود وحیِ ربانی کے تحت حاصل ہونے والی ہدایت اور اتباعِ نبوی میں عمل کی راست سمتی ، جس کو بھی حاصل ہوجائے، وہ عام انسان بھی اللہ کا پسندیدہ بن جاتا ہے اور اگر وہ شاعر ہو تو اس کے مراتب اور بلند ہوجاتے ہیں۔ اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ شعراء کے لیے اللہ کے نبی جناب رسالت مآب ﷺ سے تخاطب کا اسلوب اختیار کرنے کے حوالے سے قرآنِ کریم میں کیا احکامات ملتے ہیں؟۔۔۔اس ضمن میں ہمیں امت کے عام لوگوں کے لیے جو اصول قرآنِ کریم میں ملتے ہیں انہی کا اطلاق شعراء پر بھی کرنا ہوگا ۔کیوں کہ شاعر پہلے رسول ﷺ کا امتی ہے اوربعد میں اپنے فنِ شعر کا مظاہرہ کرنے والانظم گوہے۔محمد اکرم اعوان نے ’’اسرارالتنزیل‘‘ میں بڑے پتے کی بات کی ہے ، وہ لکھتے ہیں:


’’شاعر محض خیالی وادیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں جبکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ نہ کرتے ہیں اور نہ کرنا ممکن ہوتا ہے۔سوائے ان شاعروں کے جو ایمان سے مالامال ہوئے اور نیک ا عمال اپنائیں یعنی شعروں میں بھی نیکی ،اللہ کی تعریف اور رسول اللہ ﷺ کی نعت اور اطاعت کی بات کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتے ہیں، قلبی،عملی اور زبانی ہر طرح سے کہ ان کا شعر بھی اللہ کی یاد دلاتا ہے اور کفارکے مقابلہ میں ظلم کا جواب دینے کے لیے جنہوں نے شعر کہے یہ ان کا حق تھا کہ ان پر ظلم کیا گیا تھا۔لہٰذا ٓپؐ کے متبع تو دنیا کے مثالی انسان ہیں‘‘۔(۱۴)


مزید برآں حضورِ اکرم ﷺ سے مخاطب ہونے کے آداب بھی اللہ تعالیٰ نے سکھادیے ہیں۔ ارشاد ہوا:


’’[ترجمہ]اے لوگو جو ایمان لائے ہو، راعنا نہ کہا کرو، بلکہ اُنْظُرْنَا کہو، اور توجہ سے بات کو سنو!(۱۵)


ابوالاعلیٰ مودودی نے تفہیم میں لکھا ہے:


’’جب آنحضرت ﷺ کی گفتگو کے دوران میں یہودیوں کو کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش آتی کہ ٹھریے،ذرا ہمیں یہ بات سمجھ لینے دیجیے، تو وہ راعنا کہتے تھے۔اس لفظ کا ظاہری مفہوم تو یہ تھا کہ ذرا ہماری رعایت کیجیے یا ہماری بات سن لیجیے۔مگر اس میں کئی احتمالات اور بھی تھے۔مثلاً عبرانی میں اس سے ملتا جلتا ایک لفظ تھا، جس کے معنی تھے ’’سُن، تو بہرا ہوجائے‘‘۔اور خود عربی میں اس کے معنی صاحبِ رعونت اور جاہل و احمق کے بھی تھے۔اور گفتگو میں یہ ایسے موقع پر بھی بولا جاتا تھا جب یہ کہنا ہو کہ تم ہماری سنو، تو ہم تمہاری سنیں۔اور ذرا زبان لچکا دے کر راعینا بھی بنا لیاجاتا تھا، جس کے معنی ’’اے ہمارے چرواہے‘‘ کے تھے۔اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ تم اس لفظ کے استعمال سے پرہیز کرو اور اس کے بجائے انظرنا کہا کرو۔یعنی ہماری طرف توجہ فرمائیے یا ذرا ہمیں سمجھ لینے دیجیے۔پھر فرمایا کہ ’’توجہ سے بات کو سنو‘‘، یعنی یہودیوں کو تو باربار یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ وہ نبی کی بات پر توجہ نہیں کرتے اور ان کی تقریر کے دوران میں وہ اپنے ہی خیالات میں الجھے رہتے ہیں، مگر تمہیں غور سے نبی کی باتیں سننی چاہئیںتاکہ یہ کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے‘‘۔(۱۶)

یہاں اس بات کو ملحوظِ خاطررکھا جائے کہ مسلمان اور وہ بھی اصحاب رسول رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین، کبھی اور کسی صورت میں بھی اپنے آقا و مولا حضرت محمد مصطفے ﷺ کے لیے کوئی ایسا لفظ نہیں بول سکتے تھے جس میں آپ ﷺ کی ذات کے لیے ذم کا پہلو نکلتا ہو۔راعنا، کے لفظ میں یقینا اچھے معنی بھی تھے یعنی ’’ہماری رعایت فرمائیے یا ہماری بات بھی سماعت فرمالیجیے‘‘ ۔اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ اللہ رب العزت مسلمانوں کے دلوں کا حال بھی جانتا تھا کہ وہ لوگ اپنے نبی ﷺ کی توہین کا خیال تک دل میں نہیں لاسکتے تھے۔ایسی صورت میں صرف یہ حکم دینا شاید کافی ہوتا کہ یہودی اس لفظ ’’راعنا‘‘ میں ذم کے پہلو تلاش کرتے ہیں، اے ایمان والو! تم اس لفظ کے استعمال میں محتاط رہنا!…لیکن ایسا کرنے کے بجائے اس لفظ ہی کو اسلامی لغت سے خارج کردینے کا حکم آیا۔اس کے بجائے ’’انظرنا‘‘ کا لفظ رائج کیا گیا جو ہر طرح اچھے معانی کا حامل تھا۔

سورۂ البقرۃ کی درجِ بالاآیت میں آنے والی ممانعت سے ظاہر ہو ا کہ اللہ رب العزت کو اپنے رسول جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ سے کتنی محبت ہے!…اس موقع پر مجھے سورۃ الحجر کی ایک آیت یاد آرہی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے لوط علیہ السلام کی قوم کی بد مستی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے پیارے نبی حضور ختمی مرتبت ﷺ کو ’’قسم‘‘ کھا کر یہ واقعہ سنایا۔اور قسم بھی ’’حضورِ اکرم ﷺ‘‘ کی جان کی کھائی۔فرمایا:

’’[ترجمہ]قسم ہے تمہاری جان کی (اے نبیؐ) بے شک وہ اس وقت اپنی مستی میں اندھے ہورہے تھے‘‘۔(۱۷)


اسی حوالے سے غالبؔ نے شعر کہا تھا:


ہر کس قسم بد آنچہ عزیز است می خورد

سوگندِ کردگار بجانِ محمدؐ است


(ہر کوئی اس چیز کی قسم کھاتا ہے جو اسے عزیز ہوتی ہے،چناں چہ اللہ تعالیٰ ،محمد ﷺ کی جان کی قسم کھاتا ہے)(۱۸)


سورۃالحجرات کی ابتدائی آیات میں اللہ رب العزت نے ایمان لانے والوں سے خطاب فرمایا ہے اور انہیں اپنے نبی علیہ السلام کی جناب میں مُخَا طَبَتْ کے آداب بھی سکھائے ہیں:


’’[ترجمہ]اے لوگو! جو ایمان لائے ہونہ بلند کرو اپنی آوازیں اوپر نبی کی آواز کے اور نہ اونچی کرو اپنی آواز اس کے سامنے بات کرتے وقت جیسے اونچی آوازمیں بولتے ہو تم ایک دوسرے سے،کہیں ایسا نہ ہو کہ غارت ہوجائیں تمہارے اعمال اور تمہیں خبر بھی نہ ہوO بلا شبہ وہ لوگ جو پست رکھتے ہیں اپنی آواز رسول اللہ کے حضور، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو جانچ لیا ہے اللہ نے تقویٰ کے لیے ان کے لیے ہے مغفرت اور اجرِ عظیم ہے… درحقیقت وہ لوگ جو پکارتے ہیں تمہیں حجروں کے باہر سے ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔ (۱۹)


پیر محمد کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں:


’’اس آیت طیبہ میں بھی بارگاہِ رسالت کے آداب کی تعلیم دی جارہی ہے…بتایا جارہا ہے کہ اگر تمہیں وہاں شرفِ باریابی نصیب ہو اور ہم کلامی کی سعادت سے بہرہ ور ہو تو یہ خیال رہے کہ تمہاری آواز میرے محبوب کی آواز سے بلند نہ ہونے پائے۔جب حاضر ہو تو ادب و احترام کی تصویر بن کرحاضری دو۔اگر اس سلسلہ میں تم نے ذراسی غفلت برتی اور بے پروائی سے کام لیا تو سارے اعمالِ حسنہ ہجرت، جہاد، عبادات وغیرہ تمام کے تمام اکارت ہوجائیں گے۔پہلی آیت میں بھی یا یھا الذین اٰمنوا سے خطاب ہو چکا تھا۔یہاں خطاب کی چنداں ضرورت نہ تھی ، لیکن معاملہ کی نزاکت اور اہمیت کے پیشِ نظر دوبارہ اہلِ ایمان کو یا یھاالذین اٰمنوا سے خطاب کیا۔انہیں جھنجھوڑا اور بتایا کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔بلکہ اس پر زندگی بھر کی طاعتوں،نیکیوں اور حسنات کے مقبول و نامقبول ہونے کا انحصار ہے‘‘۔(۲۰)


حضورِ اکرم ﷺکی بارگاہ میں پہنچ کر اب بھی اپنی آواز پست رکھنے کا حکم برقرار ہے۔عام زندگی میں حکمِ قرآن اور حکم نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذراسی بھی سرتابی ، ایسی ہی ناپسندیدہ ہے جیسے حضورِ اکرم ﷺ کی دنیا میں موجودگی کے وقت تھی۔چناں چہ یہ لازمی ہے کہ قرآن و حدیث کا واضح حکم پاکر کوئی مسلمان اپنی رائے نہ دے۔


شعراء کا ہرشعر مُخَاطَبَبَت کا نمونہ ہوتا ہے۔وہ تو اپنے تصور میں کائنات کی صامت اشیاء سے بھی مخاطبت کے عادی ہوتے ہیں۔اپنے مجازی محبوب کو بھی اس کی غیر موجودگی میں موجود تصور کرکے ہی شاعری کرتے ہیں۔اس لیے حضور نبیِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی بارگاہ میں نعت لکھتے ہوئے ان کا یہ تصور کہ وہ خود بارگاہِ نبوی میں حاضر ہیں، بڑا قوی ہونا چاہیے۔ایسی صورت میں ان کا مخاطبہ ، اپنے آقا ﷺ سے کس نوعیت کا ہونا چاہیے اس کا انہیں ہر لفظ لکھتے ہوئے خیال رکھنا پڑے گا۔’’نعت‘‘ نگاری کے لیے صلوٰۃ علی الّنَّبِیّ ﷺ کا حکم بھی پیش نظر رہنا ضروری ہے:


’’[ترجمہ]بلا شبہ اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی پر،اے لو گو جو ایمان لائے ہو درود بھیجو ان پر اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔(۲۱) قرآن کریم کی درجِ بالا آیت سے قبل بھی ایک آیت میں ’’یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔سورۂ احزاب ہی کی آیت نمبر ۴۳ میں ارشاد ہوا:


’’[ترجمہ]وہی ہے جو رحمت فرماتا ہے تم پر اوراس کے فرشتے بھی (تمہارے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں)تاکہ نکال لائے تم کوتاریکیوں سے روشنی میں اور ہے وہ مومنوں پر بہت مہربان‘‘۔(۲۲)


حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے {ھوالذی یصلی علیکم}کے معانی لکھے ہیں ’’یغفرلکم‘‘ ، اور {وملائکتہ}کے معانی لکھے ہیں ’’یستغفرون لکم‘‘۔(۲۳)


قرآنِ کریم فرقانِ حمید کی زیرِ مطالعہ آیت کے تحت اگر ہم حضور علیہ السلام کی رفعتِ شان کے لیے آپ ﷺ کے ذکر کو بلند کرنے کا اعلانِ ربانی سامنے رکھیں تو بات اور واضح ، صاف ہوجاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:


’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک‘‘اور بلند کردیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر (۲۴)


اس سورہ کے تفسیری حاشیے میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں:


’’پھرآیت آئی کہ کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند نہیں کیا اور اس کو شائع نہیں کیا، ہم نے اپنے نام کے ساتھ آپ کے ناموں کو ملا کر اذان و اقامت و دعا و کلمۂ شہادت میں ذکر نہیں کیا کہ جب ہماراذکر ہو تو آپ کا ذکر بھی ساتھ ہی ہو؟، حضور ﷺ نے اقرار کیا اور کہا : نعم[ہاں] ‘‘۔(۲۵) اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کی شہادت ہرزمانے میں ملتی رہی ہے۔اذان، اقامت، دعا و کلمہء شہادت کے علاوہ انسانی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ایسا نظام قائم فرمایا کہ امت کا ہر فرد زیادہ سے زیادہ حضورِ اکرم ﷺ کے ذکر میں مشغول رہنا چاہتا ہے۔شعراء کو تو خصوصی طور پر یہ وصف عطا ہوا ہے کہ آپ ﷺ کا ذکر محبت بھرے تخلیقی لہجے میں کرتے رہیں۔مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی حضور نبیِ کریم علیہ الصلوٰۃُ والتسلیم کی عظمت کے گن گاتے رہتے ہیں۔اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔


علاوہ ازیں ،قرآنِ پاک میں فرمایاگیا:


’’[ترجمہ] اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو…یعنی اللہ کو جو بات نا پسند ہے، اس سے پرہیز کرو،ایذاء ِ رسول کا ؐ ذکر ہی کیا ہے۔حضرت ابن عباسؓ نے سدیدًا کا ترجمہ کیا ہے ’’صحیح بات‘‘۔قتادہ نے کہا: انصاف کی بات۔بعض نے کہا:سیدھی بات۔کچھ لوگوں نے کہا:حق تک پہنچنے کا قصد رکھنے والی بات۔تمام اقوال کا نتیجہ ایک ہی ہے یعنی سچی بات جو قطعاً جھوٹ نہ ہو اور نہ اٹکل پر مبنی ہو۔کیوں کہ جھوٹ فنا ہوجاتا ہے اور سچ باقی رہتا ہے‘‘۔(۲۶) حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں خبر دی:


’’[ترجمہ]اور ہم نے ان [داؤد ؑ]کے لیے لوہے کو نرم کردیا تھا۔[لوہا آپ کے ہاتھ میں موم یا گندھے ہوئے آٹے کی طرح ہوجاتا تھا۔جس طرح چاہتے ہاتھ سے پکڑ کر اس کو موڑ دیتے تھے]…[ہم نے ان کو حکم دیا] کہ ایسی کشادہ پوری لمبی زرہیں بناؤ جو زمین میں گھسٹتی چلیںاور [کڑیوں کے جوڑنے میں]اندازہ رکھو۔[سرد۔کھال کو سینا، مجازاً مراد ہے زرہ بننا، یعنی زرہ کی بناوٹ میں ایک خاص انداز رکھو،کڑیاں اور کیلیں خاص تناسب کے ساتھ بناؤ ۔نہ اتنی پتلی کہ پھٹ جائیں ،نہ اتنی موٹی کہ کڑیاں ٹوٹ جائیں]‘‘۔(۲۷)


یہاں اس بات کا احساس دلانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو زرہ بنانا سکھایا تھا تو اس کام میں نفاست پیدا کرنے کی تعلیم بھی دی تھی۔پیر محمد کرم شاہ الازہری نے یہ نکتہ بیان کیا ہے:


’’جو کام کرو بڑے سلیقہ اور ہنر مندی سے کرو، جو چیز بناؤ اس میں پختگی اور نفاست دونوں کاپوراپورا خیال رکھو۔بے دلی اور بے احتیاطی سے کوئی کام کرنا مسلمان کو زیبا نہیں‘‘۔(۲۸)


یہ بھی خیال رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تخلیق میں کجی کو راہ نہیں دی ہے اس لیے وہ کسی سطح پر بھی کجی کو پسند نہیں فرماتا ہے۔


’’[ترجمہ]وہ ذات جس نے بنائے سات آسمان تہہ بہ تہہ نہ دیکھو گے تم رحمٰن کی تخلیق میں کوئی بے ربطی۔ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو بھلا نظر آتا ہے تم کو کوئی خلل؟O پھر دوڑاؤ نظر باربار پلٹ آئے گی تمہاری طرف نگاہ تھک کر اور وہ نامراد ہوگی (خلل کی تلاش میں)(۲۹)


کلا م اللہ کی ان آیات سے شعراء اپنے کلام کوصداقت اور حسنِ اظہار سے آراستہ کرنے کا درس لے سکتے ہیں۔کیوں کہ جب اللہ تعالیٰ زرہ جیسی مادی شے کے بنانے میں سلیقے اور معیار کو برقرار رکھنے کا حکم دے رہا ہے تو غیر مادی اور آفاقی قدروں کے ہنر ’’شاعری‘‘ میں نہ تو فکری کجی پسند فرمائے گا اور نہ ہی بیان میں جھول کو سندِ قبول سے نوازے گا ۔


اللہ تعالیٰ نے پرندوں کو بھی جبلتاً گھونسلے بنا ناسکھایا ہے اور بعض پرندے بڑی نفاست سے اپنے گھونسلے بناتے ہیں۔شاعر کو جو صلاحیتِ شعر گوئی ودیعت کی گئی ہے اور جو شعور عطا کیا گیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ بھی اپنی تخلیق کو سنوارے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی تخلیق کی داد لینے کے لیے اس میں کجی کی نفی نہیں فرمائی ہے بلکہ انسان کو اپنی بے داغ تخلیقات کی طرف اس لیے متوجہ کیا ہے کہ وہ غوروفکرسے کام لے۔اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے، اس لیے انسانی کوشش سے وجود میں آنے والی اشیاء اور لطیف تخلیقات میں بھی حسن و جمال کو پسند فرماتا ہے۔


قرآنِ کریم کی آیات سے شعر و شاعری میں حزم و احتیاط کے جو اصول اخذ کیے جاسکتے ہیں جنابِ رسالت مآب ﷺ نے عملی طور پر ان کی نگہداری کا مظاہرہ فرماکر دنیائے اسلام میں شعرو شاعری کے آفاقی تقاضوں کو نقش کا لحجر کردیاہے۔


حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی پسند اور ناپسندیدگی ظاہر فرما کر شعر کا معیار قائم فرمادیا۔یہ بات بھی مشہور ہے کہ جب سورۂ شعراء کی محولہ بالا آیات نازل ہوئیں تو ان میں استثنائی آیات نہیں تھیں، اس پر عبداللہ بن رواحہؓ ، کعبؓ بن مالک اور حسانؓ بن ثابت حضور اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض پرداز ہوئے:


’’یا رسول اللہ! اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہم شاعر ہیں،اب ہم تو غارت ہوگئے۔اس پر اللہ نے آیت ’’اِلَّا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا …نازل فرمائی۔رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کو طلب فرمایا اور یہ آیات پڑھ کر سنائیں‘‘۔(۳۰)


امام ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب العمری رحمۃ اللہ علیہ نے مشکوٰۃ شریف میں کچھ احادیث ’’بَابُ الْبَیَانِ وَالشِّعْرِ‘‘(بیان اور شعر کا بیان) کے تحت جمع کی ہیں۔ کچھ احادیث کا ترجمہ یہاں پیش کیا جاتا ہے:


۱۔’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بعض بیان سحر ہوتا ہے‘‘۔۲۔ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں۔۳۔ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کلام میں مبالغہ کرنے والے ہلاک ہوگئے یہ کلمات تین مرتبہ فرمائے۔روایت کیا اس کو مسلم نے۔۴۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن شخص کفار کے ساتھ اپنی تلوار اور زبان کے ساتھ جہاد کرتا ہے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم کفار کو شعر اس طرح مارتے ہو جس طرح تیر مارا جاتا ہے۔(روایت کیا اس کو شرح السنۃ میں)(۳۱) درجِ بالااحادیث میں پہلی حدیث، بعض اشعار میں حکمت کے عنصر کی موجودگی ظاہر کرتی ہے۔اس حدیثِ مبارک کو اگر ہم قرآنِ کریم کی ایک آیت سے ملا کر پڑھیں تو بات اور روشن ہوجاتی ہے:


’’[ترجمہ]اور جسے مل گئی حکمت سو درحقیقت مل گئی اسے خیرِ کثیر‘‘۔ (۳۲)


حضورِ اکرم ہی نے ایک اور مقام پر فرمایا:


’’[ترجمہ]کلمہء حکمت تو مومن کی متاعِ گم شدہ ہے جہاں سے بھی اسے ملے وہ اس کا بہتر حقدار ہے‘‘۔(۳۳)…اس سے ظاہر ہوا کہ حکمت کی باتیں غیر مسلموں کے ہاںبھی مل سکتی ہیں۔حکمت کی باتوں کی شعروں میں موجودگی کو جناب ِرسالت مآب محمد مصطفے ﷺ نے بھی سراہا ہے۔اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔بلوغ الارب میں لکھا ہے کہ عنترۃ بن شداد العبسی کے اشعار ، حضورِ اکرم نے سماعت فرماکر اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔عنترۃ بن شداد العبسی کے اشعار درجِ ذیل ہیں:


ترجمہ:’’اس نے جلدی سے مجھے موت سے ڈرایا جیسا کہ میں موت کے نشانے سے ہٹ کر ایک طرف ہوگیا ہوں۔میں نے اسے جواب دیا کہ موت تو ایک گھاٹ ہے (جہاں سب کو وارد ہونا ہے) مجھے بھی ضرور اس گھاٹ کا پیالہ پلایا جائے گا۔تمھارا باپ مرے۔حیا کرو اور یہ جان لو کہ اگر میں قتل نہ بھی ہوا تو جب بھی عنقریب مرجاؤںگا‘‘ ۔


اور جب اس کا یہ شعر پڑھا گیا :


ترجمہ:’’میں دن بھر بھوکوں گزار لیتاہوں اور رات بھی،کھاتا اس وقت ہوں جب عزت کی روٹی ملے‘‘۔


تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایسا کوئی بدوی نہیں ہے جس کے اوصاف میرے سامنے بیان کیے گئے ہوں اور مجھے اس کے دیکھنے کی خواہش ہوئی ہو،سوا عنترۃ کے‘‘(۳۴)


عنترۃ کے آخری شعر میں حلال رزق اور عزت کی روٹی کمانے کی طرف جو اشارہ ہے وہ عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے اس لیے حضورِ اکرم ﷺ نے اس کے اشعار پسند بھی فرمائے اور اس کی فکر کی تعریف فرماتے ہوئے اس سے ملاقات کی خواہش بھی ظاہر کی۔


اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے لَبِیْد کے شعر کی تعریف فرمائی اور اُمَیَّۃُ بْنِ اَبِیْ الصَلَتْ کی فکر کو اسلام سے قریب ترقرار دیا:


’’حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنخضرت ﷺ نے فرمایا سب سے زیادہ سچا کلام جو شاعروں نے کہا لبید کا یہ مصرع ہے…ـ’حق تعالیٰ کے سوا جو کچھ ہے معدوم ہے(یعنی فنا ہونے والا ہے)اور امیہ بن ابی ا لصلت شاعر تو قریب تھا کہ مسلمان ہوجائے!(۳۵)


محمود شکر آلوسی نے بلوغ الارب جلد چہارم میں امیہ بن ابی ا لصلت کے حوالے سے بتایا ہے :


’’اس نے توحید اور حکمت میں بہت سے اشعار کہے ہیں اور اسی کے متعلق نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس کے اشعار مومن کے سے اشعار ہیں مگر دل کافر کا سا‘‘۔(۳۶)


اسی امیہ بن ابی الصلت کے اشعار سننے کی حضورِ اکرم ﷺ نے فرمائش بھی کی :


’’[ترجمہ]عمروبن شرید اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہاایک دن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری پر آپؐ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔آپؐنے فرمایا امیہ بن صلت کے اشعار تجھ کو یاد ہیں میں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا پڑھو میںنے آپؐ کو ایک بیت سنایا۔فرمایا اور پڑھو پھر میں نے ایک بیت پڑھا فرمایا اور پڑھو میں نے (تقریبا)سو اشعار آپؐ کو سنائے(۳۷)


حضورِ اکرم ﷺ جب خیبر کی طرف تشریف لے جارہے تھے تو ایک صاحب عامر بن الاکوَع نے حدی کے اشعار پڑھنے شروع کیے۔حضور ﷺ نے دریافت فرمایا یہ کون ہے؟ بتایا گیا عامر بن الاکوع تو آپ ؐ نے فرمایا:’’یَرْحَمُہُ اللّٰہ‘‘[یہ ان کی شہادت کی طرف اشارہ تھا، چناںچہ وہ خیبر میں شہید ہوگئے]۔جو اشعار حضرت عامر بن الاکوَع نے پڑھے تھے وہ بخاریؒ نے نقل ہوئے ہیں۔


اسی طرح بعض مواقع پر حضورِ اکرم ﷺ کے اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، میں سے کسی نے کچھ اشعار پڑھے اور حضورر ﷺ نے سماعت فرمائے اور کبھی کبھی خود بھی کوئی شعر پڑھ دیا۔بخاری شریف کی روایت ہے:


انس بن مالک ؓ[ سے روایت ہے]کہ آنحضرت نے[خندق کھودتے وقت] شعر پڑھا[ترجمہ]:


ہے زندگی تو آخرت کی زندگی جو ہے سدا

نیک کر انصار اور پردیسیوں کو اے خدا (۳۸)


انس ابن مالک ؓ [سے روایت ہے کہ]انصار خندق کے دن یہ شعر پڑھتے تھے[ترجمہ]:


اپنے پیغمبر محمدؐ سے یہ بیعت ہم نے کی

جب تلک ہے زندگی لڑتے رہیں گے ہم سدا


آنحضرت ﷺ نے ان کو یوں جواب دیا[ترجمہ]:


زندگی جو کچھ کہ ہے وہ آخرت کی زندگی

قدر کر انصار اور پردیسیوں کی اے خدا (۳۹)


علاوہ ازیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ مسجد کی تعمیر کے موقع پر بھی اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، شعر پڑھتے تھے اور حضورِ اکرم ﷺ ان کے ساتھ شعر پڑھتے جاتے تھے۔وہ شعر درجِ ذیل ہے[ترجمہ]:


فائدہ جو کچھ کہ ہے وہ آخرت کا فائدہ

کر مدد انصار اور پردیسیوں کی اے خدا(۴۰)


حضرت کعب بن زُہیر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے واقعے سے بھی معلوم ہواکہ حضورِ اکرم ﷺ نے اشعار سماعت فرمائے اور پسندیدگی کے اظہار کے طور پر اپنی چادر عطا فرمائی۔ڈاکٹرعبداللہ عباس ندوی نے ان کے ایمان لانے کا واقعہ تفصیل سے لکھا ہے۔وہ پہلے پہل اپنے بھائی کے ایمان لانے پر مشتعل ہوکر حضورِ اکرم ﷺ کی شان اقدس میں کچھ ہجویہ اشعار کہہ بیٹھے اور جب ان اشعار کی بنیاد پر رسولِ کریم ﷺ کی طرف سے ان کا خون مباح قرار پایا تو ڈرکے انہوں نے توبہ کا ارادہ کیا اور ایک مدحیہ قصیدہ’’بانت سعاد‘‘ لے کر سرکار رسالت مآب ﷺکے دربار میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کی اجازت سے شعر پڑھنا شروع کیا اور جب درجِ ذیل شعر پڑھا تو حضوررﷺ نے اپنی چادر شاعر کو عطا فرمادی:


ان الرسول لنور یستضا ء بہٖ

و صارم من سیوف الھند مسلول


’’رسول اللہ (ﷺ)ایک نور ہیں جن سے اجالا حاصل کیا جاتا ہے، اور وہ نور ایک مضبوط فولاد کی بے نیام تلوار کے مانند ہے‘‘(۴۱)


عبداللہ عباس ندوی نے فوٹ نوٹ میں لکھا ہے:


’’دوسری روایت کے مطابق ’’و صارم من سیوف اللہ مسلول‘‘ (اللہ کی تلواروں سے ایک برہنہ تلوار ہے)۔(۴۲)


لیکن مشہور یہ ہے کہ شاعر نے ’’سیوف الھند‘‘ کہا تھا ‘‘ اور حضور اکرم ﷺ کی اصلاح کے بعد ’’سیوف اللہ‘‘ پڑھا تھا۔اس واقعے کو علامہ اقبال نے مثنوی رموزِ بیخودی میں نظم کیا ہے[ترجمہ]:


’’ایک پاک فطرت حضرت کعب ؓ نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں ’’بانت سعاد‘‘ کے عنوان سے قصیدہ پیش کیا ۔اس قصیدے میں گویا الفاظ کے موتی رولے تھے۔ایک جگہ آپ ﷺ کو ہندی تلواروں میں سے برہنہ تلوار کی تشبیہ دی تو آپ ﷺ نے ،جن کا رتبہ آسمانوں سے بھی بلند ہے، کسی ملک سے اپنی نسبت کو پسند نہیں فرمایا۔انہیں اصلاح دیتے ہوئے فرمایا ’’سیف من سیوف اللہ‘‘ کہو۔تم حق پرست ہو، سوائے حق پر چلنے کے دوسری راہ اختیار مت کرو‘‘۔(۴۳)


لیکن علامہ اقبال کی بیان کردہ روایت کا ذکر ہمیں ’’مدارج النبوت ‘‘ مصنفہ علامہ شیخ محمد عبدالحق محدث دہلوی، میں بھی نہیں ملا۔انہوں نے کعب بن زہیرؓ کے شعر کا پہلا مصرع بھی مختلف لکھا ہے، وہ لکھتے ہیں:


’’اس نے کہا’’اِنَّ الرَّسُوْلَ لَسَیْفٌ یُسْتَضَائُ بِہٖ‘‘ بے شک یہ رسول ایسی شمشیر ہے جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔’’مُہَنَّدٌ مِّنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ مَسْلُوْلٌ‘‘۔اللہ کی تلواروں میں سے تیز دھار والی وہ تلوار کاٹنے والی‘‘۔(۴۴)


فی الحال ہم اس بحث میں نہیں پڑ سکتے کہ کونسی روایت زیادہ صحیح ہے؟تاہم علامہ اقبال کی بیان کردہ روایت اس لیے مضبوط لگتی ہے کہ ایک ہی مصرع دو طرح سامنے آیا ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ شاعر نے خود ہی دونوں طرح پڑھا ہو۔ارشاد شاکر اعوان کی کتاب ’’عہدِرسالت میں نعت‘‘ (مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۹۳ء،ص۱۵۱) اورڈاکٹر محمد اسحاق قریشی کے مضمون ’’نعت اور نقدِ نعت‘‘( نعت رنگ ۱۵ میں صفحہ ۱۸۳) میں حضورﷺ کی اصلاح کا ذکر ملتا ہے، لیکن حوالہ نہیں ملتا……سند کا درجہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ، یہ روایت ہے بہت مشہور۔فکری بلندی عطا کرنے کے حوالے سے یہ اصلاح ،حضورِ اکرم ﷺکے اعلیٰ شعری ذوق اور بے پناہ تنقیدی شعور کی غماز ہے۔نعتیہ شاعری کی تنقید میں سرکارِ دو عالم ﷺ کی یہ اصلاح ابدالآباد تک نقادوں کی رہنمائی کے لیے منارۂ نورر ہے گی۔ اس کے علاوہ حضورِ اکرم ﷺ نے خود بھی بعض اشعار پڑھے تھے۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ:


ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ حالات اور قصے بیان کرتے کرتے آنحضرت ﷺ کا ذکر کرنے لگے۔آپﷺ فرماتے تھے، تمہارا بھائی (شاعر)جو بیہودہ نہیں بکتا وہ یوں کہتا ہے۔آپﷺ نے عبداللہ بن رواحہ کو مراد لیا[ترجمہ]:


ایک پیغمبر خدا کا پڑھتا ہے اس کی کتاب

اور سناتا ہے ہمیں جب صبح کی پو پھٹتی ہے

ہم تو اندھے تھے اسی نے راستہ بتلادیا

بات ہے اس کی یقینی دل میں جاکر کھبتی ہے

رات کو رکھتا ہے پہلو اپنے بستر سے الگ

کافروں کی خواب گہہ کو نیند بھاری کرتی ہے


ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی نے ہجو کے جواز کے لیے بہت پتے کی بات کی ہے:


’’ہجوِ کفار تقابلی سیاست میں ایک ضرورت کے طور پر اپنی اہمیت منوالیتی ہے کیوں کہ مدِّ مقابل کا ہر حربہ ناکام کرنا جنگ میں اپنے دفاع کی خاطر ضروری ہوجاتا ہے۔اسی لیے تو آنحضرت ﷺ نے اس کی ترغیب دی اور شعر کو بطور دفاع استعمال کرنے پر تحسین فرمائی‘‘۔(۴۵)


اس سلسلے میں حضرت حسانؓ کے انتخاب اور ان کے اعزاز کے معاملات پر کچھ احادیث درجِ ذیل کی جاتی ہیں:


’’[ترجمہ]براء ؓ سے روایت ہے کہ قریظہ کے دن رسول اللہ ﷺ نے حسان ؓ بن ثابت سے فرمایا مشرکوں کی ہجو کہو،جبریلؑ تمہارے ساتھ ہیں۔رسول اللہ ﷺ حسانؓ کے لیے فرمایا کرتے تھے میری طرف سے جواب دو۔اے اللہ ،روح القدس کے ساتھ اس کی مدد فرما‘‘۔(۴۶)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:


”[ترجمہ] کہا رسول اللہ ﷺ حضرت حسان ؓ کے لیے مسجد میں منبر رکھواتے تھے وہ اس پر کھڑے ہوتے اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے فخر کرتے یا رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مدافعت کرتے ، رسول اللہ ﷺ فرماتے جب تک حسانؓ میری طرف سے فخر یا مدافعت کرتا ہے اللہ تعالیٰ ، جبریل ؑ کے ذریعے اس کی مدد کرتا ہے‘‘۔(۴۷)


شاعر ی کے اچھے اور برے ہونے کا معیار وہی ہے جو ایمان اور اعمالِ صالحہ سے مشروط زندگی کے لیے ہے ، کہ اس میں ہر وہ کام جواللہ کی مرضی کے تابع، سنتِ رسول ﷺ کی پیروی میں اور انسانیت کی فلاح کے لیے ہے ، وہ خیر ہے باقی سب شر۔چناں چہ حضورِ اکرم ﷺ نے بڑے بلیغ انداز میں فرمادیا:

’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے:

[ترجمہ] کہا نبی ﷺ کے سامنے شعر کا تذکرہ ہوا آپ ﷺ نے فرمایا ’’شعر کلام ہے، اس کا اچھا ، اچھا ہے، اگر کلام برا ہے وہ برا ہے۔روایت کیا اس کو دارقطنی نے اور شافعی نے عروہ سے مرسل بیان کیا‘‘۔(۴۸)


درجِ بالا حدیث سے شعر کے متن(Text) کی اچھائی برائی ظاہر ہوتی ہے، محض اسلوب سے نہیں۔اسلوب سے تو شعر خوشنما یا بدنما لگ سکتا ہے لیکن مغز تو اس کے معانی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جنابِ رسالت مآب ﷺ نے اِمْرائُ القیس ( جس نے اسلام سے چالیس سال قبل کا زمانہ پایا تھا)کے بارے میں حسبِ ذیل رائے ظاہر فرمائی:


’’ [ترجمہ]وہ شاعروں کا سرتاج تو ہے ہی لیکن جہنم کے مرحلے میں ان سب کا سپہ سالار بھی ہے‘‘۔(۴۹)


حضورِ اکرم ﷺ کے درجِ بالا تنقیدی تبصرے کے حوالے سے علامہ اقبال لکھتے ہیں:


’’رسول اللہ ﷺ نے اپنی حکیمانہ تنقید میں فنونِ لطیفہ کے اس اہم اصول کی توضیح فرمائی ہے کہ صنائع و بدائع کے محاسن اور انسانی زندگی کے محاسن، یہ کچھ ضروری نہیں کہ دونوں ایک ہی ہوں۔ممکن ہے شاعر بہت اچھا شعر کہے لیکن وہی شعر پڑھنے والے کو اعلیٰ علیین کی سیر کرانے کی بجائے اسفل السافلین کا تماشا دکھادے‘‘(۵۰)


اسی طرح حضورِ اکرم ﷺ نے جو عنترہ کا شعر[ترجمہ]میں نے بہت سی راتیں محنت مشقت میں بسر کی ہیں تاکہ میں ا کلِ حلال کے قابل ہو سکوں) سن کر اس سے ملاقات کی خواہش ظاہر فرمائی تھی۔ علامہ اقبال نے لکھا:


’’حضورخواجہء دو جہاں ؐ(بابی و انت و امی) نے جواس قدر شعر کی تعریف فرمائی ہے اس سے صنعت کے ایک دوسرے بڑے اصول کی شرح ہوتی ہے کہ صنعت حیاتِ انسانی کے تابع ہے، اس پر فوقیت نہیں رکھتی‘‘۔(۵۱)

خلاصہء کلام:


قرآن و احادیث کے اس اجمالی مطالعے سے جو نتائج اخذکیے جاسکتے ہیں وہ درجِ ذیل ہیں:

۱۔اللہ رب العزت نے جو صلاحیت جس انسان کو بھی دی ہے اس صلاحیت کا استعمال اللہ کی مرضی اور منشائے تخلیق کے مطابق ہو تو جائز ورنہ نا جائز۔

۲۔اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات کے ذریعے اچھی اور انسانی فلاح کی باتوں کو پسند فرمایا ہے اور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے عملاً ایسے نظائر قائم فرمائے ہیں کہ امت کے ہر فرد کے ذہن میں کھرے کھوٹے کا معیار پیوست ہوجائے۔

۳۔شاعری بھی اللہ کی عطا کردہ صلاحیت کے تحت وجود میں آتی ہے، اس لیے اس کی اچھائی برائی بھی دینی معیارات کے تحت ہی طے کی جاسکتی ہے۔

۴۔بری شاعری (بلحاظِ مضمون ) کرنے یا اسے پڑھنے کے حوالے سے بھی حضور علیہ السلام نے دو ٹوک رائے دے دی۔کلام میں مبالغہ کرنے والوں کی ہلاکت کا پیغام بھی حدیث شریف میں دیا گیا ہے ۔بری شاعری کے سلسلے میں ذرا سخت الفاظ میں مذمت بھی ملتی ہے۔مثلاً

’’[ترجمہ]ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے ایک مرتبہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عرج مقام میں چل رہے تھے ایک شاعر شعرپڑھتا ہوا سامنے آیا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس شیطان کوپکڑو ۔آدمی کا پیٹ پیپ سے بھرجائے اس سے بہتر ہے کہ وہ اشعار کے ساتھ بھرے۔(روایت کیا اس کو مسلم نے…مشکوٰۃ شریف، جلد دوم، ص ۴۱۶)

اس حدیث کا مطالعہ، امراء القیس کی شاعری پر حضورِ اکرم ﷺ کے تبصرے کے ساتھ کریں تو بات اور واضح ہوجاتی ہے۔

۵۔شاعری میں حسنِ بیان اور ظاہری جمال کو بھی حضورِ اکرم ﷺ نے سراہا ہے، تبھی تو امراء القیس کو ’’اشعرالشعراء‘‘ فرمایا۔

۶۔حضورِ اکرم ﷺ کے فرمودات کی جامعیت اور قرآنِ کریم کا جمالیاتی اسلوب بھی حسنِ اظہار کی سمت نمائی کے لیے کافی ہیں ۔ اس سے متبادر ہوا کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جہاں شعری متن (Text) کی راست سمتی کے درس ملتے ہیں وہیں حسنِ بیان کا سبق بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

۷۔شاعری کا زبان کے عام معیارات کے تابع ہونا ،بیان کے جمالیاتی تقاضوں کو پورا کرنا اور فن کے مروجہ معیارات کا لحاظ رکھ کر بات کرنا ، باعثِ تحسین ہے۔

۸۔اچھے شعر کی شرط صرف متن (Text) کا انسانی زندگی کے لیے کارآمد ہونا اور شعر میںسچائی کا پایا جانا ہے۔

مدحتِ خیرالبشر ﷺ رقم کرتے ہوئے، آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کی روشنی سے ماخوذ بوطیقایا شعریات (Poetics) کا خیال رکھنا ہر شاعر کا فرض ہے۔ اس طرح کلام کے متنی تقاضے (Textual requisites) اور شعری جمالیات کے نکات پیشِ نظر ر کھے جائیں تو ممکن ہے شعراء کی پیش کش کا اہلِ ادب بھی خیر مقدم کریں اور ان کی مدح سرائی کی کاوشوں پر انھیں جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کی بارگاہِ بے کس پناہ سے سندِ قبولیت بھی مل جائے!!!


بشکریہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

فروغ نعت ۔ شمارہ 15

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔ نگار پاکستان، سالنامہ ۱۹۶۷ء،ص۲۷ ۲۔ آیت ۵۶:سورۂ الذاریات۵۱ ۳۔ سورۂ توبہ، آیت ۳۱ ۴۔ تفسیرِ مظہری۔جلد گیارہ۔ص ۷۲ ۵۔ تفہیم القرآن ، جلد پنجم:ص۱۵۶ ۶۔ سورۃُ الدھر۷۶…آیت۲ ۷۔ الکھف ۱۸…آیت۲۹ ۸۔ الملک۶۷…آیت ۲ ۹۔ العصر۱۰۳ ۱۰۔ الشعراء ۲۶…آیات ۲۲۴۔۲۲۷ ۱۱۔ تفسیرِ ابنِ عباس…ص۳۷۶ ۱۲۔ تفہیم القراٰن جلد سوم،ص۵۴۹ ۱۳۔ یٰس ٓ۳۶ …آیت ۶۹ ۱۴۔ اسرارالتنزیل جلد ۷، ص ۳۴ ۱۵۔ البقرہ۲…آیت ۱۰۴ ۱۶۔ تفہیم القراٰن ،جلد اول، ص۱۰۱ ۱۷۔ الحجر۱۵…آیت۷۲ ۱۸۔ کلیاتِ غالب،فارسی، ص ۱۱۳ ۱۹۔ الحُجُرات…آیات ۲ تا ۴ ۲۰۔ ضیاء القرآن، جلد چہارم:ص ۵۷۸ ۲۱۔ الاحزاب…آیت۵۶ ۲۲۔ الاحزاب…آیت۴۳ ۲۳۔ تفسیرِ ابنِ عباسؓ، ص۴۲۳ ۲۴۔ الم نشرح…آیت۴ ۲۵۔ تفسیرِ ابنِ عباسؓ،مترجم، جلد دوم،ص۷۸۵ ۲۶۔ الاحزاب…آیت ۷۰ ۲۷۔ سبا…آیت۱۰ ۲۸۔ ضیاء القرآن، جلد چہارم:ص ۱۱۴ ۲۹۔ الملک …آیت۳ ۳۰۔ تفسیرِ مظہری،جلد ہشتم ،ص۳۸۵ ۳۱۔ مشکوٰۃ شریف جلد دوم ،ص۴۱۲ تا ۴۱۴ ۳۲۔ البقرہ ۔آیت۲۶۹ ۳۳۔ بر صغیر پاک و ہندمیں عربی نعتیہ شاعری،ص۲۲۰ ۳۴۔ بلوغ الارب ، جلد چہارم، ص۵۲ ۳۵۔ صحیح بخاری [کتاب الادب]جلد سوم، ص۴۸۶ ۳۶۔ بلوغ الارب جلد چہارم ۴،ص۶۲ ۳۷۔ مشکوٰۃ شریف، جلد ۲، ص۴۱۲ ۳۸۔ صحیح بخاری،جلد دوم، ص۴۸۰ ۳۹۔ ایضاً ص۴۸۱ ۴۰۔ ایضاً ص۵۴۵ ۴۱۔ عربی میں نعتیہ کلام، ص۵۹ ۴۲۔ ایضاً ۴۳۔ اسرارورموز[فارسی،اردوترجمہ]ص۱۸۱ ۴۴۔ مدارج النبوت ، جلد دوم، ص۳۶۲ ۴۵۔ بر صغیر پاک و ہند میں عربی نعتیہ شاعری، ص ۲۲۴ ۴۶۔ مشکوٰۃ شریف جلد دوم، ص۴۱۳ ۴۷۔ ایضاً ص۴۱۶ ۴۸۔ ایضاً ۴۹۔ سلسلہ درسیاتِ اقبال، سوم، ص ۱۲؍۱۶۴ ۵۰۔ ایضاً، ص۱۳؍۱۶۴ ۵۱۔ ایضاً، ص ۱۴؍۱۶۶

کتابیات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

٭القرآن الکریم ۱۔ابنِ عباس رضی اللہ عنہ، تفیسرِ ابنِ عباس، جلد دوم، مترجم : مولانا شاہ محمد عبدالمقتدر قادری بدایونی، فرید بک سٹال، اردو بازار، لاہور، ۲۰۰۵ء ۲۔ابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، ج:سوم ،پنجم،ادارۂ ترجمان القرآن، لاہور ۳۔امیرمحمد اکرم اعوان، اسرار التنزیل، ادارۂ نقشبندیہ اویسیہ، دارالعرفان، مَنارہ، ضلع:چکوال ۴۔ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاریؒ، جلد:۲،۳بخاری شریف، مکتبہء رحمانیہ، اردو بازار، لاہور ۵۔اسحاق قریشی، ڈاکٹر پروفیسرمحمد اسحاق قریشی، بر صغیر پاک و ہند میں عربی نعتیہ شاعری، مرکز معارف اولیاء ، محکمہء اوقاف، حکومتِ پنجاب، شوال:۱۴۲۳ھ، ۲۰۰۲ء ۶۔اسحاق قریشی محمد،ڈاکٹر، ’’نعت اور نقدِ نعت‘‘مشمولہ نعت رنگ ۱۵ ، نعت ریسرچ سینٹر،کراچی، مئی ۲۰۰۳ء ۷۔آلوسی،محمود شکر آلوسی، بلوغ الارب، ج:چہارم،ترجمہ:پیر محمد حسن، مرکزی اردو بورڈ، لاہور،باراول:مارچ، ۱۹۶۸ء ۹۔ ثناء اللہ، قاضی ثنا ء اللہ عثمانی ؒپانی پتی،تفسیرِ مظہری،جلد:۸،،۹،۱۱ خزینہء علم و ادب، اردو بازار، لاہور، ۱۰۔ارشاد شاکر اعوان ،عہدِرسالت میں نعت ،مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۹۳ء ۱۱۔رشید،عبدالرشید فاضل، پروفیسر، سلسلہء درسیات اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، ۱۱۶، میکلوڈ روڈ، لاہور، طبع ثانی ۱۹۹۰ء ۱۲۔ شبیر احمد، مولانا سید، ترجمہء قرآن، قرآن آسان تحریک، لاہور ۱۳۔عبداللہ عباس ندوی، عربی میں نعتیہ کلام،میزان ادب، مکتبہ ایوب پیکجز، کراچی،۱۹۷۸ء ۱۴۔عبدالحق، شیخ محمد عبدالحق محدث دہلوی، مدارج النبوت، جلد:دوم، ضیا ء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، اگست ۲۰۰۵ء ۱۵۔غالب، اسداللہ خان، کلیاتِ غالب،فارسی،جلد سِوَم ،مجلسِ ترقی ادب، لاہور، طباعتِ دوم 2012 ء ۱۶۔غلام جیلانی مخدوم، ڈاکٹر، شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور۔، س۔ن ۱۷۔فرمان فتحپوری، ڈاکٹر، اصنافِ شاعری نمبر،نگار پاکستان، سالنامہ ۱۹۶۷ء ۱۸۔کرم شاؒہ، پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء القرآن، جلد:۳،۴۔۵ضیا ء القرآن پبلی کیشنز، لاہور ۱۹۔ ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب العمریؒ، امام، مشکوٰۃ شریف،جلد:۲، مکتبہء رحمانیہ، اردو بازار، لاہور


فروغ نعت ۔ شمارہ 15