مصطفی رضا نوری کا تعارف ۔ مشاہد رضوی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


شخصیت : مصطفی رضا نوری

تعارف کنندہ : ڈاکٹر مشاہد رضوی

حالاتِ زندگی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تم نے ہرذرے میں برپا کر دیے طوفان شوق

اک تبسم اس قدر جلووں کی طغیانی کے ساتھ

مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی کیا تھے ، اور کیا ہیں ، یہ نہ ہم جان سکتے ہیں اور نہ ہماری فہم وادراک اسے حیطہ تحریر میں لاسکتی ہے ، پھر بھی آج تک ان پر لکھنے والوں نے لکھا ہر ہر زاویے سے لکھا ، زندگی کے تمام گوشوں پرقلم اٹھایا ، اب بھی لکھتے ہیں اور قیامت تک لکھتے رہیں گے ، میں نے بھی اپنی سعادت سمجھ کر مرشد کی ذات ماہتاب صفت کی بلا خیز کر نوں کو حصارتحریر میں قید کرنا چاہا ہے ، مفتی اعظم بلا شبہہ اس عہد کی ایک ایسی نادرالوجود ہستی کا نام ہے ، جس کی ہر جان اسیر محبت ، ہر روح سرشار عقیدت ، ہر زبان مدح و ثنا میں زمزمہ سنج ، انہیں کی بزم گاہ ناز میں خوشبوے الفت و عقیدت اور التہاب جذبہ کے رنگ و بو سے معمور لفظوں کے گلاب اور آرزووں کے خوشنمادیپ لیے حاضرہوں ، میرے قلم کی مژگاں پر چمکتے کچھ موتی تھے، جنہیں تحریر کی لڑی میں پرودیا ہے ۔ورنہ میری کہاں بساط کہ میں ایک کامل ترین ہستی کی رونمائی کروں اور اس کی ذات نور صفت کو قید تحریر میں لائوں ،… سینۂ قرطاس پر ابھرے یہ کو ہسار عقیدت ، جن کی آغوش سے نکلتے آبشار عرفاں کی اگر کچھ چھینٹیں اس سنگ بے مایہ پر بھی پڑگئیں تو پھر اس کی قسمت چمک اٹھے ، انہی امید اور آرزووں سے بوجھل ہو کر سطروں کے چند نقوش ابھرآئے ہیں ۔ ع

مرے دل میں وہ یوں سمائے جاتے ہیں

ولادت باسعادت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تحقیق ومطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی دنیاے اسلام کے عظیم رہِ نما ، قطبِ زمانہ، مرجع العلماء و الخلائق ، رہبرِ شریعت و طریقت ، غزالی دوراں ، رازیِ زماں، با فیض مدرس ، پُر خلوص داعی، عظیم فقہیہ، مفسر ،محدث ،خطیب، مفکر، دانش ور،تحریک آفریں قائد، مایۂ ناز مصنف و محقق اور بلند پایہ نعت گو شاعر اور گوناگوں خصوصیات کے مالک تھے۔ آپ عالمِ اسلام کی مشہور شخصیت امام احمد رضا بریلوی کے فرزندِ اصغر تھے ۔آپ کا خاندان علم و فضل ، زہد و اتقا اور عشقِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں نمایاں مقام رکھتا ہے ۔آپ کی ولادت 22؍ ذی الحجہ1310ھ بمط 7 جولائی1893ء بروز جمعہ بہ وقتِ صبح صادق آپ کے چچا استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی کے دولت کدہ پر،واقع رضانگر ،محلہ سوداگران ،بریلی ، یوپی، (انڈیا) میں ہوئی۔<ref>ماہ نامہ اعلیٰ حضرت :مفتیِ اعظم نمبر ،ستمبر ،نومبر 1990ء ،ص14/15</ref>

اسم گرامی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کاپیدایشی اور اصل نام ’ ’محمد‘‘ ہے ۔ آپ کاعقیقہ اسی نام پرہوا۔ غیبی نام ’’آلِ رحمن ‘‘ہے ۔پیر ومرشد نے آپ کا پورانام ’’ابوالبرکات محی الدین جیلانی ‘‘ تجویز فرمایااور والد گرامی نے عرفی نام ’’مصطفیٰ رضا‘ ‘ رکھا۔فنِ شاعری میں آ پ اپنے پیر ومرشد شیخ المشائخ سید شاہ ابوالحسین نوریؔ میاں مارہروی نوراللہ مرقدہٗ(م1324ء) کی نسبت سے اپنا تخلص ’’نوریؔ ‘‘ فرماتے تھے۔ عرفی نام اس قدر مشہور ہوا کہ ہر خاص وعام آ پ کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔<ref> شاہد علی رضوی،سید،مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا ،رضا اکیڈمی ،ممبئی ،ج1 ص 20</ref>

مشہور ترین لقب[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یوں توآپ کو علم و فضل کی بنیاد پر بہت سارے القاب سے نوازا گیا،مگر جس لقب کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی وہ ہے ’’مفتیِ اعظم‘‘ ۔

تعلیم و تربیت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جب آپ پر شعور و آگہی کے درواہونے لگے اور آپ نے منزل ہوش وخرد میںقدم رکھ لیا تو آپ کو زیور علم اور تہذیب و اخلاق سے آراستہ و پیرا ستہ کرنے کے لیے اعلیٰ حضرت کے قائم کردہ مدرسہ ’’ منظر اسلام‘‘ میں داخل کردیا گیا ، آپ نے مدرسہ کے مختلف اساتذہ سے کسب علم کیا مگر آپ کی تربیت میں سب سے زیادہ دخل آپ کے برادر اکبر حضرت حجۃ الاسلام علامہ شاہ حامد رضا بریلوی قدس سرہ کارہا ، انہوں نے اس ہیرے کو خوب خوب تراشاہر ہر زاویے سے رولا اور نکھارا اور جب قوم کے سامنے پیش کیا تو بڑے بڑوں کی آنکھیں خیرہ ہو کر رہ گئیں ، پھر آپ نے خصوصی طور پر اپنے والد ماجد اعلیٰ حضرت قدست اسرار ہم کی بارگاہ فیض رساسے جھولیاں بھربھر کے اکتساب نور کیا، ابتداہی سے آپ کی ذکاوت و نکتہ سنجی ، جودت طبع ، فکرو خیال کی بلندی ، حصول علم میں کد و کاوش نمایاں رہی ، آپ کے اساتذہ میں حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا ( برادراکبر) مولانا رحم الہٰی مظفر نگری ، مولانا سید بشیر احمد علی گڑھی رحمہم اللہ کا شمار ہوتا ہے ۔

افتانویسی میں مہارت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یوں تو خانوادۂ اعلیٰ حضرت ہر طرح کے علوم و فنون کا گہوارہ رہا، فضل و شرف اور خاندانی نجابت میں آج بھی امتیاز حاصل ہے ، خود اعلیٰ حضرت ۵۰؍ سے زائد علوم و فنون میں اپنی نظیر آپ تھے ، جس پر آپ کی تصانیف کے پیش بہاذخیرے شاہد عدل ہیں ، لیکن ان تمام خوبیوں پر مستزاد سب سے عظیم صفت جو نمایاںرہی وہ ہے تفقہ فی الدین ، اور اس میدان میں آپ نے جو خصوص و امتیاز حاصل کیا وہ کسی اور کو نہ حاصل ہوا، آپ کے مجموعہ ہائے فتاویٰ کی ۱۲؍ ضخیم جلد یںبنام ’’ فتاویٰ رضویہ‘‘ اس کی واضح دلیل ہیں ، جس کی عظمت شان ، بیان وگمان سے ماور ااور جسے بلا شبہہ فقہ حنفی کا انسائیکلو پیڈیا قرار دیا جاسکتا ہے ۔ جو فتاویٰ عالمگیری کے بعد فقہ حنفی کے ذخائر میں دوسرا سب سے بڑا کارنامہ ہے ، فتاویٰ رضویہ اعلیٰ حضرت کی فقہی مہارت کا منہ بولتا ثبوت اور بحر شریعت کی شناوری کا جیتا جاگتا شاہکار ہے ، جس کا اعتراف اپنوںکے علاوہ بیگانوں نے بھی کیا، اور یہ توحدیث شریف میںہے ، مَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَیْراً یُّفَقِّھْہُ فِی الدِّینْ o ’’اللہ جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے تفقہ فی الدین سے نواز تا ہے ‘‘پھر وہ خانوادہ جس کے فضل و شرف کا طوطی چہار دانگ عالم میں بول رہا ہو ، وہ اس خیر عظیم سے بھلا کیسے محروم رہتا ، فتویٰ نویسی تو اس خاندان کا طرہ امتیاز تھا اور الحمدللہ آج بھی ہے ، یہی وہ نمایاں و صف تھا جس نے لوگوں کو مفتی اعظم کہنے پر مجبور کردیا، بلا شبہہ آپ اس فن کے امام کہے جاسکتے ہیں ۔آپ کے زمانے میںآپ جیسا تفقہ کسی اور کو حاصل نہیں ہوا، آپ کی ذات مرجع علماء و خواص رہی ، آپ کی اصابت راے اور فکر ی گیرائی کی مثال ملنی مشکل ہے، مختلف مسائل پر آپ کے فتاویٰ ہزاروں کی تعداد میںہیں ، جس کے کچھ نمونے ’’فتاویٰ مصطفویہ ‘‘ اول و دوم کی شکل میں منظر عام پر آچکے ہیں ، جو یقینا علوم و معارف کے دُررشاہوار ہیں ۔ آپ کی فتویٰ نویسی کی ابتدا کے بارے میں حضرت مولانا محمود احمد قادری مظفر پوری رقم طراز ہیں ،

مولاناظفر الدین ( بہاری ) ومولانا سید عبدالرشید ( عظیم آبادی ) دار الافتا (بریلی) میں کام کررہے تھے ایک دن آپ دارالافتا میں پہنچے ، مولانا ظفرالدین فتویٰ لکھ رہے تھے ، مراجع کے لیے اٹھ کر فتاویٰ رضویہ الماری سے نکالنے لگے ، حضرت (مفتی اعظم ہند) نے فرمایا، نو عمری کازمانہ تھا، میں نے کہا ، فتاویٰ رضویہ دیکھ کر جواب لکھتے ہو، مولانا نے فرمایا ، اچھا تم بغیر دیکھے لکھ دو تو جانوں ، میں نے فوراً لکھ دیا ، وہ رضاعت کا مسئلہ تھا ،… یہ پہلا جواب تھا آپ کا یہ واقعہ ۱۳۲۸ھ کا ہے ، اصلاح کے لیے اعلیٰ حضرت کی خدمت میںپیش کیا گیا ، صحت جواب پر امام اہلسنت بہت خوش ہوئے اور ’’ صحیح الجواب بعون اللّٰہ العزیز الوھاب ‘‘ لکھ کر دستخط ثبت فرمایا ، اورابوالبرکات محی الدین جیلانی آل الرحمن محمد عرف مصطفیٰ رضا کی مہر مولانا یقین الدین سے بنوا کر عطا فرمائی ۔<ref> تذکرہ علماے اہلسنت مطبوعہ کانپور بحوالہ استقامت مفتی اعظم نمبر ص ۳۰۷- ۳۰۸</ref> کہتے ہیں کہ ؎

ایں سعادت بزور باز و نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

تو بلا شک یہ فیضان نظر ہی تھا کہ ۱۸؍ سال کی عمر میں بغیرکتاب کی مدد اور مشاہدے کے فقط حافظے کی بنا پر قلم برداشتہ مسئلہ رضا عت پر جواب لکھ دیایہ فیضان حسن تربیت ہی تھا ورنہ مکتب کی کرامت میں یہ تاب کہاں ؟ اور یہ بھی عجیب حسن اتفاق کہ امام احمد رضا قدس سرہ کے قلم گل رقم سے جب پہلا فتویٰ صادر ہوتا ہے تو وہ بھی رضاعت ہی کا تھا اور جب ان کے آئینہ جمال و کمال سیدی مفتیِ اعظم نے قلم اٹھایا تو پہلا مسئلہ جو سپرد قلم ہوا وہ بھی مسئلہ رضاعت ہی تھا ۱۸؍ سال کی عمر سے جو فتویٰ نویسی کی ابتدا ہوتی ہے تو پھر تا عمر اس کا سلسلہ باقی رہا ،اور آپ کا یہی وہ نمایاں فن تھا ، جس میں اس وقت برصغیر میں آپ کی نظیر پیش کرنی مشکل تھی ،

آپ کے معاصرین آپ کی علمی برتری کے قائل رہے ، اختلاف کی صورت میں آپ کی جانب رجوع کیا جاتا ، جس فتویٰ پر آپ کی مہر تصدیق ثبت ہوتی ، پھر اس میں کسی کو چوں چرا کی گنجائش نہیں رہتی ، آپ کی رائے سند اور قول فیصل کا درجہ رکھتی تھی ، لائوڈاسپیکر پر جب نماز کے مسئلہ میں معاصر علما کے مابین اختلاف ہوا توآپ نے بلا خوف لومۃ لائم ، مائیک پر نماز کے عدم جواز کا فتویٰ صادر فرمایا ، تمام علماے کرام نے اس پر تصدیق فرمائی ایک دوعالم نے مخالفت کی جو شاذ کا درجہ رکھتے ہیں اور کا لعدم کا ۔ حضرت محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ نے بایں الفاظ تصدیق فرمائی ، ہذا قول العالم المطاع و ماعلینا الا الاتباع ( یہ قول ایسے عالم کا ہے ، جس کی اتباع کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں) کلام کی عظمت اس کے کہنے والے سے پہچانی جاتی ہے ، بادشاہ کی باتیں بھی بادشاہ ہواکرتی ہیں ، یہ کسی ایسے ویسے کا کلام ہوتا تو پھر اس پرکلام کرنے کی کوئی گنجائش رہتی ، مگر اس جملے کا قائل اپنے وقت کا عظیم محدث، جلیل القدر عالم وخطیب اور بیشمار خوبیوں کا حامل شخص ہے ،…

بایں ہمہ علم و فضل آپ کی ذات گونا گوںصفات کی حامل تھی جہاں آپ علم کے کوہِ گراں تھے وہیں آپ میدان عمل کے شاہسوار ، زہدو پار سائی کے تاجور اور تقویٰ شعاری وعفت مآبی کے عظیم پیکر تھے ، اللہ عزوجل نے اتباع شریعت کا جو جذبہ کامل آپ کو عطا فرمایا تھا وہ آپ کے بعد دیکھنے کو نہیں ملا ، حضرت تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خاں ازہری دامت برکاتہم القدسیہ فرماتے ہیں ۔ ؎

متقی بن کر دکھاے اس زمانے میں کوئی

ایک میرے مفتی اعظم کا تقویٰ چھوڑ کر

یہ ایک شعری مبالغہ نہیں کہ جسے صرف رواروی میں پڑھ لیاجائے بلکہ آپ کی حیات ذی شان کا مشاہدہ کرنے والوں اور آپ کی بارگاہ کے حاضر باشوں کا صحیح تجزیہ ہے ، جن میں ایسی ایسی شخصیتیں ہیں جن کا ایک وزن ہے ، جنکی باتیں رد نہیں کی جاسکتیں ۔

رخصت کے ہوتے ہوئے عزیمت پر عمل فی زمانہ نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے مگر حضور مفتیِ اعظم کی ذات اس امر میں بھی تابندہ و درخشندہ ہے ، آپ کی شان عزیمت بیان کرتے ہوئے حضرت مولانا یٰسین اختر صاحب قلم طراز ہیں ، ’’ حج وزیارت حرمین شریفین کی سعادت دوبار آپ کو تقسیم ہند سے قبل حاصل ہوئی تیسری بار ۱۹۷۱ء / ۹۱ ۱۳ھ میں اس شان سے عازم حرمین شریفین ہوئے کہ باوجودیکہ بہت سے علماے کرام کے نزدیک حج کے لیے فوٹو جائز ہے مگر آپ کی عزیمت کی بنیاد پر بین الاقوامی رائج الوقت عمل کے خلاف بلا فوٹو پاسپورٹ حاصل ہوا ، او رسفر حج کے درمیان جہاز میں کوئی ٹیکہ وغیرہ بھی نہ لگوا کر احتیاط و تقویٰ کی اس دور میں ایک روشن مثال قائم کی ‘‘… <ref> تین برگز یدہ شخصیتیں ص۱۱، مطبوعہ رضوی کتاب گھر ، دہلی </ref>

یہ تھی سرکار مفتیِ اعظم کے عزیمت پر عمل کی ادنیٰ مثال ،سرکار مفتی اعظم نے ارشاد فرمایا مجھ پر جو حج فرض تھا میں نے اسے ادا کرلیا، اب میں ایک نفل حج کے لیے فوٹو نہ کھنچوائوں گا، افسوس کہ جس رسول محترم کی شریعت میں تصویرکشی حرام ہوا سی عظیم ہستی کے حضور ایک ناجائز کام کا ارتکاب کرکے جائوں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا ، چنانچہ جب ایک سچے عاشق نے اپنے محبوب کے حکم پر عمل کی ایک حسین مثال پیش کی تو اس بارگاہ سے بھی ایک ایسی نادر مثال سامنے آئی کہ خلاف توقع بظاہر ناممکن ، بغیر فوٹو کھنچوائے اپنی بارگاہ میں اذن حضوری عطا فرمادیا، سچ ہے تا جدار کائنات کے درپر جبہ سائی کرنے والوں کو یہی مقام و انعام ملا کرتے ہیں کہ سان و گمان کا جہاںگزر نہیں ، اور یہی وہ عاشقان پاک باز ہیں کہ سارا زمانہ جن کی گدائی کرتا پھرتا اور ہر سر،جن کا سودائی نظر آتا ہے ۔

نقش سراپا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جب آپ کے حسن وجمال اور نقش سراپا پر نظر کرتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نقش ونگار پر جو خامہ فرسائی آپ کے شاگرد و خلیفہ جناب مفتی سید شاہد علی رام پوری نے کی ہے اُنھیں کے حوالے سے معمولی حذف واضافہ کے ساتھ دیگر مصنفین نے نقل کیا ہے۔ لہٰذا اسی روایت کواعتبار کا درجہ حاصل ہے ۔ذیل میں آپ کا سراپامفتی موصوف کی زبانی خاطر نشین ہو :

’’رنگت سرخی مائل سفید، قد میانہ، بدن نحیف، سر بڑا گول اس پر عمامہ کی بہار، چہرہ گول روشن وتاب ناک نور برساتاہواجسے دیکھ کر خداکی یاد آجائے، پیشانی کشادہ، بلند تقدس کا آثار لیے ہوئے، بھویں گنجان ہالہ لیے ہوئے، پلکیں گھنی بالکل سفید ہالہ نما، آنکھیں بڑی بڑی کالی چمک دار گہرائی و گیرائی لیے ہوئے، رخسار بھرے بھرے گداز روشن جلال و جمال کا آئینہ ، ناک متوسط قدرے اٹھی ہوئی ، مونچھ نہ بہت پست نہ اٹھی ہوئی، لب پتلے گلاب کی پتی کی طرح تبسم کے آثار لیے ہوئے ، دنداں چھوٹے چھوٹے ہم وار موتیوں کی لڑی کی طرح جب تبسم ریز ہوتے ، کان متناسب قدرے درازی لیے ہوئے، گردن معتدل، سینہ فراخ کچھ روئیں لیے ہوئے، کمر خمیدہ مائل، ہاتھ لمبے لمبے جو سخاوت وفیاضی میں بے مثل، کلائیاں چوڑی روئیں دار، ہتھیلیاں بھری ہوئیں گداز، انگلیاں لمبی لمبی موزوںکشادہ، پاؤں متوسط، ایڑیاں گول موزوں۔‘‘<ref>ماہ نامہ اعلیٰ حضرت :مفتی اعظم نمبر ، بریلی ،ستمبر تا نومبر 1990ء ص49 </ref>

خصوصیات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضانوریؔ بریلوی کی حیات و خدمات کا تحقیقی جائزہ لینے کے بعد اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ آپ گوناگوںخصوصیات اور متنوع صفات کے حامل تھے ،آپ کی ہمہ جہت خوبیوںمیں تین خوبیاںانتہائی نمایاںاور ممتاز ہیں  :

(1)عشق رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم۔یہ آپ کے خانوادے کاطرۂ امتیازہے ۔

(2)تقویٰ ۔ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضانوریؔ بریلوی کے عہد میںاور بعد بھی دوردور تک تقویٰ میںکوئی آپ کامثیل و نظیر نہیں۔

(3)تفقہ فی الدین(دیٖن کی سمجھ)۔یہ وہ امتیازی وصف ہے جس میں آپ اپنے معاصرین مفتیانِ کرام کے مقابلہ میں سب سے زیادہ نمایاں تھے۔اسی سبب سے آپ کو ’’مفتیِ اعظم ‘‘ کے لقب سے سرفراز کیا گیا۔

علاوہ ازیں آپ نے ہمیشہ آل رسول کااحترام کیا،غیر محرم عورتوں کوکبھی بھی بے پردہ نہیں دیکھانہ ہی کبھی غیر محرم عورتوںکوبے پردہ مرید کیا،بے شرع کو سخت فضیحت اور شریعت مطہرہ پر قائم رہنے کی نصیحت کی،آپ نے تاحیات نمازکی ادایگی میں پاسداری اختیار کی،حتیٰ کہ نماز تہجد اور دیگر نوافل پر بھی مداومت کی،طہارت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ وضو سے رہتے ہوئے بھی ہر نماز کے لیے تازہ وضو فرماتے ،ڈاکٹروںکی ممانعت پر بھی آپ نے حالتِ بیماری میں وضو کیا، انگریزی اشیا،دوات ،دوائیں او ردیگر کو کبھی بھی استعمال نہ کیا،آپ کی طبیعت میں مہمان نوازی کا جذبہ نہایت بلند تھا،گویا مہمان کو آپ خدا کی رحمت سمجھتے تھے اور ہر کس و ناکس سے شفقت و محبت کا سلوک کرنا آپ کی منکسر المزاجی کو ظاہر کرتا ہے ۔ غرض یہ کہ آپ سراپا خلوص ومحبت تھے ۔

وصال پر ملال[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شب پنجشنبہ ۱۴؍ محرم الحرام ۱۴۰۲ھ / ۱۲ ؍ نومبر ۱۹۸۱ء ا؍ بج کر چالیس منٹ پر یہ مہردر خشاں افق مرگ کی پہنائیوں میںگم ہوگیا ، موت کی خبر کیا تھی ؟ ایک صاعقہ تھی جس نے سنادم بخودرہ گیا ، آنکھیں اشکبار ہواٹھیں ، دلوں میں حزن و یاس کا موسم طاری ہوگیا، میڈیا کے ذرائع لمحوں میں یہ خبر عالم آشکار کرگئے ، پھر کیا تھا ، لاکھوں سوگوار وں کے قافلے سر زمین عشق بریلی کی جانب نکل پڑے ، جس سے جس طرح بن پڑا ، اس نے رخت سفر باندھ لیا۔ دوسرے روز ، بروز جمعہ بعد نمازجمعہ ۳؍بج کر ۲۰؍ منٹ پر اسلامیہ کالج کے وسیع گرائونڈ میں نماز جنازہ ہوئی ، جنازہ میں اتنا کثیرا زدحام تھا کہ چشمان فلک نے کسی کے جنازہ میں کبھی اتنا انبوہ کثیر شاید ہی دیکھا ہو آپ کو آپ کے والد ماجد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا ۔ جہاں انوار و تجلیات کے قافلے بشارتوں کے ہمراہ اتررہے تھے ،… ؎

نصیب تیرا چمک اٹھا دیکھ تو نوری

عرب کے چاند لحد کے سرہانے آئے ہ