میلاد نامہ اکبرؔ وارثی میرٹھی ( کچھ مزید ) -ڈاکٹر صابر ؔسنبھلی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

مضمون نگار: ڈاکٹر صابرؔ سنبھلی (یوپی)

مطبوعہ : دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

میلاد نامۂ اکبرؔ وارثی میرٹھی(کچھ مزید)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

ششماہی مجلہ ’’دبستانِ نعت‘‘ خلیل آباد کا پہلا شمارہ 1437ھ مطابق 2016ء میں شائع ہوا۔ اس شمارے میں ایک مضمون ’’میلا اکبر۔ ایک مطالعہ‘‘ مصنفہ ڈاکٹر نذیرؔ فتح پوری بھی شامل ہے۔ مضمون ہر لحاظ سے اچھا ہے۔ راقم صابر نے اپنے مضمون پڑھنے کے بعد اسی کا ہی مطالعہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے صفحہ 181 پر تحریر فرمایا ہے۔ ’’میلاد اکبر کیا ہے۔ یہ پہلی بار کب شائع ہوئی… اس قسم کی معلومات ہمیں میلاد اکبر کے مطالعے سے نہیں ملتیں۔‘‘ ان جملوں کو پڑھ کر بہت حیرت ہوئی۔ حیرت کی وجہ یہ تھی کہ راقم السطور کے پاس بھی اس کتاب کا ایک بوسیدہ نسخہ موجود ہے، جس پر سنہ طباعت کا اندراج نہیں ہے۔ ورق گردانی کی تو صفحہ 88-87 پر قطعہ تاریخ بطور تقریظ کے عنوان سے (غزل کی ہیئت میں) 14اشعار کی ایک نظم موجود پائی۔ یہاں پر نقل کرتا ہوں۔ اے جزاک اللہ اکبر! واہ واہ

کیا لکھی رودادِ میلادِ حضور

ہیں رسالے اور بھی، لیکن یہ ہے

ایک ہی رودادِ میلادِ حضور

سچے سچے واقعے کی شرح ہے

واقعی رودادِ میلادِ حضور

آپ کے حصے میں ہی روز ازل

آ گئی رودادِ میلادِ حضور

آپ کی تالیف کو صد آفریں

جمع کی رودادِ میلادِ حضور

آپ کے حق میں سند ہے مستند

عفو کی رودادِ میلادِ حضور

دونوں آنکھوں نے لیے دو صاد جب

دیکھ لی رودادِ میلادِ حضور

کھول کر بستہ جو کھولی یہ کتاب

گُھل گئی رودادِ میلادِ حضور

راہ پر آئے جو پڑھ لے ایک بار

مدعی، رودادِ میلادِ حضور

ایسی دلچسپ آج تک دیکھی نہ تھی

کوئی بھی رودادِ میلادِ حضور

غنچۂ دِل کِھل گیا جب یہ سنا

چھپ گئی رودادِ میلادِ حضور

بزم میں ایمان تازہ ہوگیا

جب سنی رودادِ میلادِ حضور

دوہری خوبی یہ کہ تم نے خود لکھی

خود پڑھی رودادِ میلادِ حضور

چھاپ دو حافظؔ کی بھی تاریخِ طبع

’’اب چھپی رودادِ میلادِ حضور‘‘

اس سے سال 1337برآمد ہوتا ہے۔

قطعاتِ تاریخ عموماً طویل نہیں ہوتے۔ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس کی ردیف کچھ زیادہ ہی طویل ہوگئی ہے۔ راقم الحروف نے اس سے پہلے ایسی ردیف (شاید) نہیں دیکھی ہے۔ اس کو یوں سمجھئے کہ اس کا مصرع تاریخ ہے۔ ؎

’’اب چھپی رودادِ میلادِ حضور‘‘

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

اس کا وزن ہے فاعلاتن فاعلاتن فاعلات۔ ردیف ہے۔ ’’رودادِ میلادِ حضور‘‘ نیز قافیے کا وزن ہے ’’فاعلن‘‘مزے کی بات یہ ہے کہ مصرع میں ردیف اور قافیے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسے مصرع بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں۔یہ تاریخ حافظ خلیل الدین صاحب رئیس و آنریری مجسٹریٹ بہادر، پیلی بھیت کی مستخرج ہے۔ معلوم نہیں نذیرؔ فتح پوری صاحب کو تاریخ طباعت نہ ہونے کا سہو کیوں اور کیسے نذیرؔ صاحب کے بیان سے مجھے غلط فہمی ہوگئی تھی کہ اُن کے پیش نظر جو ایڈیشن تھا وہ بعد کے زمانے کا ہوگا۔ اس لیے کہ تاریخ طباعت عام طور سے پہلے ایڈیشن میں چھاپی جاتی ہے۔ اس سے مجھ کو یہ خوش فہمی بھی ہوگئی کہ میرے پاس موجود بوسیدہ نسخہ طبع اوّل ہے۔ بازار سے مجھے میلادِ اکبر کا جدید ایڈیشن قدرے تاخیر سے دستیاب ہوا۔ یہ جسیم ڈپو مٹیا محل، جامع مسجد دہلی نمبر 6 کا شائع کردہ ہے۔ اس میں 102صفحات ہیں۔ اور یہ کمپیوٹر کمپوزنگ کے ساتھ آفسیٹ پر طبع ہوا ہے۔ جدید طباعت کا سال مذکور نہیں ہے، بلکہ کسی طباعت کا بھی حوالہ نہیں۔ آخر میں چار دیگر شعراء کا کلام مزید ہے۔ نثر میں کچھ ذکر پاک حضرت غوث اعظم علیہ الرحمہ کا زائد ہے۔ یہ عرض کرچکا ہوں کہ میلاد اکبر پہلی بار 1337ھ میں طباعت سے آراستہ ہوا تھا، جو آج تک بھی جاری ہے۔ اس کو ایک اتفاق ہی کہا جائے گا کہ ’’دبستانِ نعت‘‘ کے جس شمارے میں یہ مضمون شائع ہوا وہ 1437ھ میں منظرعام پر آیا۔ اگر پہلے سے ہی اس بات پر غور کرلیا گیا ہوتا تو میلادِاکبرؔ وارثی پر کچھ اور مضامین لکھوا کر اس کو میلادِاکبرؔ وارثی کا صدی نمبر قرار دیا جاسکتا تھا اور اگر ایسا ہوجاتا تو وہ موقع محل کے عین مطابق ہوتا۔ اب سال 1437ھ تو گزر گیا۔ اس بھول چوک کی بھرپائی اس طرح ہوسکتی ہے کہ 1337ھ مطابق تھا 1918-19ء کے، لہٰذا اب میلادِاکبرؔ کا صدی نمبر 2018-19ء میں شائع کیا جاسکتا ہے، جو سال عیسوی کے حساب سے درست ہوگا۔ ڈاکٹر نذیرؔ فتح پوری نے میلادِاکبر کی کئی خوبیوں کا ذکر مذکورہ مضمون میں کیا ہے۔ دوچار باتیں میں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ قطعہ تاریخ طباعت کتاب کے آخر میں ہوتا ہے، لیکن اتفاق کی بات کہ اس خوبی کا ذکر آغاز میں ہی آگیا، کچھ مزید خوبیوں یا کیفیات کا ذکر بعد میں کررہا ہوں۔ کتاب میں تقریباً صد صفحات ہیں اور ساری کتاب ذکر میلاد اور فضائل سے ہی متعلق ہے۔ مصنف زوائد سے دامن کش رہے ہیں بلکہ اختصار کا بھی خیال رکھا ہے۔ اگر کسی موقع پر ذکرِمیلاد کے لیے وقت کم ہو یا بہت کم ہو تو اس کو بہت تھوڑے وقت میں بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ چنانچہ قدیم ایڈیشن کے صفحہ نمبر 132 اور صفحہ نمبر 33 پڑھ کر بھی کام چلایا جاسکتا ہے۔ قیام کی حالت میں پڑھا جانے والا سلام بھی انہی دو صفحوں میں شامل ہے۔ میلادِاکبرؔ وارثی میں اکثر شعری کلام بھی مصنف یعنی اکبرؔ وارثی میرٹھی کا ہی ہے، لیکن مستثنیات بھی ہیں۔ قطعہ تاریخ طباعت کے بارے میں عرض کیا جاچکا ہے کہ حافظ خلیل الدین صاحب کا عطیہ ہے۔ (قطعہ تاریخ مصنف کا ہونا ضروری نہیں بلکہ اکثر و بیشتر حالت میں یہ کسی دیگر شخص کا ہی ہوتا ہے)۔ علاوہ ازیں کچھ تضمینات بھی ہیں جو اکبرؔ وارثی صاحب نے نظم کی ہیں جن غزلوں پر مصرعے لگائے ہیں وہ ان کے نہیں ہیں۔ اگرچہ وہ تعداد میں زیادہ نہیں ہے۔


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

صفحہ نمبر22 پر خمسے کے چار بند ہیں مطلع یہ ہے۔ ؎

در مصطفی سنگ موسیٰ نہیں ہے

یہاں عرض ہے، طورِ سینا نہیں ہے

یہ نعتیہ غزل حضرت بیانؔ میرٹھی کی ہے، جو شاید اکبرؔ وارثی میرٹھی کے استاد بھی تھے۔ اکبرؔ وارثی صاحب نے اس غزل پر مصرع لگا کر خمسے کی شکل مرحمت فرمائی ہے۔

صفحہ نمبر 60-59 پر مثنوی مولانا روم سے تین عدد معجزات سید خیرالانام کی تلخیص کی ہے۔ ان اشعار کا اردو میں ترجمہ بھی نہیں کیا ہے جو آج کل کے لحاظ سے ضروری ہوتا۔ اس لیے کہ اب فارسی جاننے والے بہت کم ہیں۔

صفحہ نمبر 81-80-79 پر ایک خمسہ ہے، جس کی غزل بیانؔ میرٹھی کی تخلیق ہے۔ اُس پر مصرع لگاکر تضمین اکبرؔ وارثی کی ہے۔ صفحہ 85 پر حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ کی بیت۔ ؎

بلغ العلیٰ بکمالہ

کشف الدّجی بجمالہ

حسنُت جمیع خصالہ

صلّوا علیہ و آلہ

پر تضمین کے چار چار مصرع لگاکر مسدس کے چھ بند تیار کر ترجیع بند بنادیا ہے۔ آخر میں فارسی شاعر حزیں کی بیت۔ ؎

دوعالم بہ کاکُل گرفتار داری

بہ ہر سو ہزاروں سیہ کار داری

پر مصرع لگاکر 8بند تحریر کئے ہیں۔ ان میں پانچ بند مطلع ہیں یعنی ہر بند کے سبھی (6) مصرعوں میں ماری، کٹاری، ساری، بھکاری، پُجاری وغیرہم قوافی رکھے ہیں۔ اس سے تضمین پسندیدہ ہوگئی ہے۔اکبرؔ وارثی میرٹھی سلجھے ہوئے نثرنگار اور خوشگو شاعر تھے۔ نثر میں جہاں کہیں کچھ خامیاں نظر آتی ہیں غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ سہو کتابت کی کرشمہ سازیاں ہیں۔ نثر عام طور پر رواں اور اس عہد کے چلن کے مطابق ہے، جب وہ لکھی گئی تھی۔ ایک صدی بعد زبان کا معیار بدل جانیاور تبدلِ زمانہ کے باعث ذوق اور معیار تبدیل ہوجانے کی وجہ سے نامانوس سی لگتی ہے مگر فہمائش اور تاثیر میں کچھ کمی نہیں ہے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

اکبرؔ وارثی کو جیسی قدرت نثر پر حاصل تھی ویسی ہی شاعری پر بھی تھی۔ میلادِ اکبرؔ میں شامل شعری کلام میں خلوص، اثر اورجوش کی کار فرمائی آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ بطور نمونہ تین عدد فن پارے نقل کررہا ہوں۔ ؎

تعظیم سے لیتا ہے خدا نام محمد ﷺ

کیا نام ہے اے صلی علیٰ نام محمد ﷺ

قرآن میں، جنت میں، سر عرش، سرِ لوح

کس شان سے خالق نے لکھا نام محمد ﷺ

مزّمّل و مدّثر کہہ کہہ کے پکارا

کس پیار سے لیتا ہے خدا نام محمد ﷺ

ڈرتا تھا گناہوں سے میں رحمت نے ندا دی

غافل! تو کہیں بھول گیا نام محمد ﷺ

ان ناموں کے انعام میں مل جاتی ہے نعمت

لو صبح و مسا نامِ خدا نام محمد ﷺ

اللہ کرے اُس پہ حرام آتش دوزخ

جس شخص کے ہو دل پہ لکھا نام محمد ﷺ

کیا ڈر ہے اگر قبر میں ہوں افعی و کژدُم

ہے امت عاصی کا عصا نامِ محمد ﷺ

آنکھوں میں بسے، دل میں رہے ہونٹوں پہ آئے

طیبہ کی فضا، یادِ خدا، نام محمد ﷺ

اکبرؔ تو بچا چاہے اگر نارِ سقر سے

سینے کے نگینے پہ کُھدا نام محمد ﷺ

آمدِ مصطفی ﷺ سے پھولا پھلا چمن چمن

آئی بہار ہر طرف کھلنے لگا چمن چمن

شادی ہے ہر مقام میں، نخل ہیں سب قیام میں

ڈالیاں ہیں سب سلام میں، جھکنے لگا چمن چمن

کلیاں تمام کھل گئیں، شاخیں خوشی سے ہِل گئیں

بلبلیں گل سے مِل گئیں ہنسنے لگا چمن چمن

چومتا ہے شجر شجر، تازہ ہوا ہے پھول پھول

سبز ہوئی روش روش، گل سے بھرا چمن چمن

ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں، کلیاں بھی مسکراتی ہیں

بلبلیں چہچہاتی ہیں، صلّ علی چمن چمن

بادِ خزاں کو چھانٹتی، خوشبو سے سب کو آنٹتی

پھر تی ہے عطر بانٹتی بادِ صبا چمن چمن

نعت میں قیل و قال ہو، مدحتِ ذوالجلال ہو

اکبرؔ خوش مقال ہو، نغمہ سرا چمن چمن

جب کہ پیدا ہوا شاہِ زمن ہوگیا

اک جہاں غیرتِ صد چمن ہوگیا

وقتِ میلاد ہر غنچہ گلزار میں

خندہ زن خندہ زن خندہ زن ہوگیا

تخت اوندھے ہوئے اور ابلیس بھی

بے وطن، بے وطن، بے وطن ہوگیا

آپ کے فیض سے بحرِ فضلِ خدا

موجزن، موجزن، موجزن ہوگیا

چاک عشاق کا آپ کے ہجر میں

پیرہن پیرہن پیرہن ہوگیا

بت شکستہ ہوئے اور خطاب آپ کا

بت شکن، بت شکن، بت شکن ہوگیا

تم پہ قرباں ہمارا شہِ انبیا!

جان و تن، جان و تن جان و تن ہوگیا

آپ کے ہجر میں اکبرؔ نیم جاں

خستہ تن، خستہ تن خستہ تن ہوگیا

بلاشبہ یہ اس کتاب کی خوبیاں ہی ہیں، جن کے باعث یہ ایک صدی سے اپنے ہم مضمون دوسری کتابوں سے زیادہ مشہور، معروف اور رائج ہے۔


نئے صفحات