نظیر رضوی ا لہٰ آبادی کی نعتیہ شاعری ۔ منظر عارفی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مقالہ نگار : منظر عارفی۔کراچی

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

نظیرؔ رضوی ا لہٰ آبادی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT:

A collection of Naatia poetry has been traced and introduced here. Nazeer Illah Abadi/Dehlavi 's devotional poetry was published titled SADA-E-HARAM by his companions without mentioning date of publication. The book was barrowed from Hazrat Hassaan Hamd-o-Naat Book Bank Karachi, maintained enthusiastically by Ghos Mian and some couplets reproduced here for the sake of introduction of craftsmanship of a good Poet. Nazeer Ilah Abadi/Dehlavi 's poetic work is worth heeding for bring in lime light.


آپ کااسمِ گرامی ڈاکٹر سید محمد نذیر حسن رضوی جبکہ تخلص’’نظیرؔ ‘‘اورقلمی نام ’’نظیر ؔ رضوی الٰہ آبادی‘‘ ہے۔بعد میں آپ اپنے آپ کو دہلوی بھی لکھنے لگے تھے۔آپ کے والدِ گرامی کانام مولوی سید آلِ حسن ہے۔آپ علامہ شفق عماد پوری کے نبیرہ(پوتے)اورسید محمود حسن رضوی نقشبندی (صاحبِ شمعِ حرم) کے بڑے بھائی ہیں۔۱۹۱مارٹن روڈ کراچی میں رہائش پذیر تھے۔قاری حافظ محمد فاروق لکھتے ہیں کہ:

’’صنفِ غزل میں آپ کو جو ملکہ حاصل تھااس سے بے نیاز ہو کرآپ نے ایک عرصے سے حمد و نعت ومنقبت اورمذہبی شاعری کو اپنایا ہواہے ۔۔۔ نظیرصاحب قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک منسٹری آف فارن افیئرمیں سٹی کورٹ،ڈسٹرکٹ کورٹ کراچی،اسمبلی سنٹرل سکٹریٹ ،انکم ٹیکس ، پاسپورٹ وغیرہ حکومت پاکستان کراچی میں بحیثیت کیرٹیکر خدمات انجام دیتے رہے۔‘‘۱؂

’’صدائے حرم‘‘نظیررضوی الٰہ آبادی دہلوی کا نعتیہ مجموعہ ہے۔جس سے آپ کے تعارف کے حوالے سے اورکوئی معلومات حاصل نہیں ہوتیں۔تاحال جتنے ماخذات میرے سامنے ہیں ان میں بھی کہیںآپ کا ذکر نظر نہیںآتاحالاں کہ آپ کا نعتیہ مجموعہ’’صدائے حرم‘‘مطبوعہ موجود ہے۔ ’’صدائے حرم‘‘چھوٹے سائز میں ۸۰صفحات پر مشتمل ہے جس کاکل علمی وشعری اثاثہ درج ذیل ہے۔اولاًعلامہ شفق عماد پوری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک حمد (۵۲؍اشعارکی)ایک نعتیہ رباعی،ایک نعت (۱۰؍اشعار کی)ایک نعتیہ نظم (۵۱؍اشعار کی)ایک نعت (۵؍ اشعار کی )’’توحید وتحمید ‘‘کے عنوان سے ایک رباعی ،اور’’فلسفۂ الٰہیات‘‘کے عنوان سے دورباعیاں ہیں اغلب امکان یہ ہے کہ یہ رباعیاں بھی علامہ شفق عمادپوری کی ہیں۔وضاحت نہیں ملتی(واللہ اعلم)

’’صدائے حرم‘‘میں نظیرؔ رضوی الٰہ آبادی ثم دہلوی کی شعری نگارشات :

  • منظوم ترجمہ’’اعوذباللہ‘‘مع وجہِ تسمیہ
  • منظوم ترجمہ’’بسم اللہ ‘‘مع شانِ نزول تفسیروخواص نثر میں۔
  • منظوم مضامین ’’سورۂ فاتحہ‘‘۔بہ طرز مثنوی مولانا روم(علیہ الرحمہ)۔
  • ’’تفسیرسورۂ فاتحہ‘‘نثر میں۔فضائل، تعبیرِ خواب،سورۂ فاتحہ کا نقش معظم ،اعداد(برائے شفائے امراض)
  • اَفَلَایَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا(سورہ محمد:۲۴) کامنظوم ترجمہ۔
  • وَلَقَدْ یَسَّرْنَ الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مَنْ مُّدََّکِرٍo(سورہ القمر:۳۲)کامنظوم ترجمہ۔
  • لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مَنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤمِنِیْنَ رَؤفٌ رَّحِیْمٌo(سورہ التوبہ:۱۲۸) کامنظوم ترجمہ صنفِ مسدس میں ایک بند۔
  • سورۂ نبی اسرائیل کی ایک یادو آیات کامنظوم ترجمہ۔
  • سورۂ ’’التّین‘‘کاترجمہ وتفسیر منظوم ۔
  • سورہ ’’القدر‘‘کاترجمہ،شانِ نزول،تفسیر منظوم۔
  • سورہٗ’’التکاثر‘‘کے مضامین، شانِ نزول وتفسیر منظوم۔
  • ایک نظم بہ عنوان ’’ماحصلِ زندگی‘‘(۱۸؍اشعار)
  • ’’اللہ ھو‘‘مسدس کے ۵بند۔۔۔۔ایک نظم’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ‘‘۔
  • بہ عنوان ’’حاصلِ عشق‘‘مسدس کاایک بند۔۔۔۔ایک نعتیہ قطعہ۔
  • ایک نظم’’پیامِ ماہِ رمضان‘‘(۱۸؍اشعار)۔۔۔ایک نظم’’نغمۂ دلکشا‘‘(مسدس کے ۵بند)
  • سات نعتیں بہ عنوان ’’نورِ حق‘‘’’دامانِ نبی‘‘’’ساقیِ کوثر‘‘’’رشکِ مسیح‘‘’’شمعِ کعبہ‘‘ ’’منزلِ عشقِ نبی‘‘’’گلزارِمدینہ‘‘۔
  • ’’ماحصلِ عشق‘‘مولانا روم علیہ الرحمہ کے ایک شعر کا فارسی میں ترجمہ (۵؍اشعار)
  • شبِ معراج پر ایک نظم(پہلے حصّے میں ۱۵؍اشعاردوسرے حصّے میں ۱۴؍اشعار)
  • ایک نظم بہ عنوان’’سیپارۂ غم‘‘۔ایک ’’سلام‘‘(مسدس میں)ایک سلام(۲۵؍اشعار،’’سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی‘‘ ،زمین میں)ایک اورسلام’’یانبی سلام علیک‘‘کی زمین میں ۔
  • ’’مرقعِ غم‘‘(۲۶؍اشعار)۔۔۔التحیات کے بعد کی دُعا کا منظوم ترجمہ۔۔۔’’عہد نامہ‘‘کا منظوم *ترجمہ۔۔۔۔ایک اور سلام (۹؍اشعار)ایک دُعا (۳؍اشعار)

’’صدائے حرم‘‘ پر قطعۂ تاریخِ اشاعت استاد الاستاد،شاعرِ اعظم،لسان الحسّان مولانا شاہ ضیاء القادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے جس کاہجری سال ۱۳۸۰ھ ہے۔میرے حساب سے ۱۳۸۰ھ کا سال عیسوی ۱۹۶۰ء بنتا ہے۔لیکن ’’صدائے حرم‘‘۱۳۸۰ھ یا۱۹۶۰ء میں شائع نہیں ہوئی۔ کیونکہ صفحہ ۷۳ پرنظیر رضوی نے اپنی اہلیہ جمیلہ خاتون کی رحلت پر جو قطعہ لکھا ہے اس پر ۲؍نومبر ۱۹۶۱ء تاریخ منظوم کی ہے یہی ان کی اہلیہ کی وفات کی تاریخ ہے۔یقینا’’صدائے حرم‘‘اس کے بعد ہی شائع ہوئی ہے جس کا کوئی ذکر موجود نہیں۔اسی لیے میں نے قطعہ تاریخ کے سال ۱۳۸۰ھ کو اس کے سالِ اشاعت کے طور پر قبول نہیں کیا۔(منظرعارفی)

’’صدائے حرم‘‘پر ایک اور قطعہ تاریخ (بغیر سال کے)عبدالعلیٰ اظہار نقوی سہسوانی ثم دہلوی نے بھی تحریر کیا ہے۔تقریظ نگار الحاج سید محمد عبدالسلام القادری (صدر انجمن امانت اسلام کراچی وسجادہ امانی وربانی) ہیں۔’’وجہِ تسمیہ صدائے حرم‘‘کے عنوان سے نظیررضوی الٰہ آبادی ثم دہلوی نے تحریرکی ہے۔جس میں اپنے دوسلاموں کے حوالے سے کچھ گفتگو بھی فرمائی ہے۔اہلِ شوق میرے ماخذ میں اس کا مطالعہ فرماسکتے ہیں۔’’حقیقت‘‘کے عنوان سے ایک تحریراحسان الحق (ایم اے۔ایل ایل بی ایڈوکیٹ)کی بھی شاملِ کتاب ہے۔الحاج سید محمد اکبر حسین نقشبندی،مجددی عزیزی غالباً ’’صدائے حرم‘‘کے مرتب ہیں ان کے نام کے ساتھ ’’بحسنِ سعی‘‘لکھاگیاہے۔

اتناکچھ لکھنے اور لکھوانے کے ساتھ ساتھ اگر کوئی لکھنے والا نظیر رضوی الٰہ آبادی کامختصر سا تعارف بھی لکھ دیتا۔یا شاعرِموصوف خود اپنے بارے میں چند سطریں اورتاریخِ ولادت تحریر فرمادیتے تو آج ہمارے سامنے ان کاتعارف بھی متشکّل ہوجاتا۔امید ہے کہ مزید تحقیق کسی اچھی منزل تک ضرور پہنچائے گی۔اس حوالے سے کوئی صاحب باحوالہٖ تعاون فرمائیں تو شکرگزار ہوں گا، منظرعارفی (0322 2559854)

حمدیہ ونعتیہ کلام نظیر رضوی الٰہ آبادی

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

جس کے اذکار سے دل منور ہوا وہ کریم و علیم و رحیم و بصیر

جس کے پرتو سے روشن مقدر ہوا اُس سے بڑھ کر نہیں کوئی بھی دستگیر

جس کی گفتار سے دل مسخر ہوا دل کی آواز کیا ہے یہی ہے نظیرؔ !

شان میں اس کی ہے یہ صدا کو بہ کو اُس کی رحمت ہے لاریب لاتقنطوا

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو ۲؂

جس کامسکن ہے شہ رگ سے بالکل قریں

جس کے قبضے میں ہیں آسمان و زمین

جس نے کی ہے منوّر بشر کی جبیں

اُس کے نغمے ہیں پھیلے ہوئے چار سو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

جس نے ذرّوں میں سورج نمایاں کیا

جس نے انساں کی ہستی پہ احساں کیا

جس نے دنیائے دل کو درخشاں کیا

اُس کی آٹھوں پہر دل کو ہے جستجو

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو

جس سے ہر دم ہے کھیتی جہاں کی ہری

سارے عالم پہ کرتا ہے جو سروری

ذرّے ذرّے میں جس کی ہے جلوہ گری

اُس کی ہر اِک زباں پر ہے یہ گفتگو


نغمۂ دل کشا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پڑھیے خلوصِ دل سے اب ،صلے علی محمدِِ

ہے یہ نجات کاسبب ، صلے علی محمدِِ


پڑھتے ہیں جن و انس سب ، صلے علی محمدِِ

آپ بھی پڑھیے با ادب ، صلے علی محمدِِ


صلے علیٰ حبیبنا،صلے علی محمدِِ

صلے علیٰ مجیبنا،صلے علی محمدِِ


کون گیا ہے عرش پر، کس کو ملا ہے یہ مقام

خاتمِ انبیا ہو تم،سارے رسولوں کے امام


ملتے ہیں دونوں لب بہم ،جس نے لیا تمہارا نام

کیسا ہے پیارا شیریں نام ،لطف و کرم بہ خاص و عام


صلے علیٰ شفیعنا،صلے علی محمدِِ

صلے علیٰ رفیعنا،صلے علی محمدِِ


سرورِ دو جہان ہو ، کیوں نہ ہو تم پہ سب کو ناز

شاہ و گدا سبھی ہوئے در سے تمہارے سرفراز


اے میرے کارسازِ غم ،ٹوٹ نہ جائے دل کا ساز

چشمِ کرم اِدھر بھی ہو،کون ہے تم سا غم نواز


صلے علیٰ سخیینا،صلے علی محمدِِ

صلے علیٰ بنیینا،صلے علی محمدِِ


دونوں جہاں کے تاج دار ،میری طرف بھی اِک نظر

ٹوٹے دلوں کے غم گسار، میری طرف بھی اِک نظر


دل ہے گنہ سے شرمسار، میری طرف بھی اِک نظر

دیدۂ دل ہے اشک بار ،میری طرف بھی اِک نظر

صلے علیٰ کریمنا،صلے علی محمدِِ

صلے علیٰ رحیمنا،صلے علی محمدِِ


ہے یہ نظیرؔ کی دُعا ، صدقہ حبیبِ پاک کا

بخش دے اس کے ہر گنہ ، تو ہے کریم اے خدا


تو ہے علیم اور بصیر ، تیرا ہے اِس کو آسرا

سارے جہاں پہ مہرباں ، کوئی نہیں ترے سوا


صلے علیٰ نذیرنا،صلے علی محمدِِ

صلے علیٰ منیرنا،صلے علی محمدِِ ۳؂


نعت بعنوان’’نورِحق[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نظر سر بہ سجدہ ہے سوئے محمد

کہ ہے حسنِ حق حسنِ روئے محمد


اِک آئینۂ حق ہے روئے محمد

ہے معجز نما گفتگوئے محمد


دل و جاں سے قرباں ہوئے اِک نظر میں

عمر آئے جب رو بروئے محمد


ہمیشہ تو یہ بات مدِ نظر رکھ

نظر سوئے رب ، دل ہو سوئے محمد


تری زندگانی کا حاصل یہی ہے

تصور میں ہر دم ہو روئے محمد


خدا جذبۂ شوق میں وہ تڑپ دے

چلوں سر کے بل میں بہ کوئے محمد


تجسّس کناں چشمِ مخلوق پائی

تھی روزِ جزا جستجوئے محمد


دمِ نزع جب بند آنکھیں ہوں اپنی

خدایا نظر آئے روئے محمد


مقامِ ادب ہے یہ اے شوقِ منزل

نظر آ رہا ہے وہ کوئے محمد


تصور میں ، آنکھوں میں ، دل میں مکیں ہے

وہ حسنِ دو عالم ، وہ روئے محمد


نظیرؔ ! اب نہیں کوئی باقی تمنّا

ہے کافی مجھے یادِ روئے محمد ۴؂

نعت بعنوان’’دامانِ نبی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عالم ہے کہ منتِ کشِ احسانِ نبی ہے

کونین پہ چھایا ہوا دامانِ نبی ہے


اللہُ غنی دیکھیے کیا شانِ نبی ہے

خلّاقِ دوعالم بھی ثناخوانِ نبی ہے


اُمڈا ہوا سر چشمۂ فیضانِ نبی ہے

کیا منبعِ رحمت درِ ایوانِ نبی ہے


دل اپنا کھنچا جاتا ہے جو جانبِ منزل

اعجاز کرم گسترِ دامانِ نبی ہے


ادنیٰ سے اشارے پہ ہوئے چاند کے ٹکڑے

یہ معجزہ ، یہ قوتِ ایمانِ نبی ہے


رضواں تری جنت کی ضرورت نہیں مجھ کو

صد رشکِ جناں گوشۂ دامانِ نبی ہے


آوازِ کفِ پا ہے بلالِ حبشی کی

کیا شان سرِ عرشِ غلامانِ نبی ہے


کافور کیا جس نے زمانے کی سیاہی

وہ روشنیِ شمعِ فروزانِ نبی ہے


دشمن ہوئے اخلاقِ شہِ دیں سے مسلماں

یہ معجزۂ خُلق ہے یہ شانِ نبی ہے


آنکھوں میں نظیرؔ اپنے لیے اشک کے دریا

بیٹھا ہوا پیشِ درِ ایوانِ نبی ہے ۵؂

نعت بعنوان ’’ساقیِ کوثر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آئینہ بنا ذرّہ ذرّہ

اے شمسِ منوّر کیا کہنا


بھٹکا نہ مسافر منزل سے

اے ہادی و رہبر کیا کہنا


سرکارِ دوعالم نورِ خدا

مخلوق کے رہبر کیا کہنا


مغموم دلوں کو شاد کیا

اے شافعِ محشر کیاکہنا


خوشبو سے جہانِ دل کی گلی

ہوتی ہے معطر کیاکہنا


اے گیسوئے مشکیں کیا کہنا

اے زلفِ معنبر کیاکہنا


رحمت کی گھٹا پُر کیف فضا

اے صلے علیٰ اے صلے علیٰ


سب تشنہ لبوں کی پیاس بجھی

اے ساقیِ کوثر کیا کہنا


وحدت کی شعاعیں گھیرے ہوئے

توحید کی کرنیں چاروں طرف


اے نورِحقیقت کیا کہنا

اے نور کے پیکر کیا کہنا


یہ جذبِ کشش اے صلے علیٰ

اب حُسن پسِ پردہ نہ رہا


جلوے ہیں کہ سمٹے آتے ہیں

اے قلبِ منور کیاکہنا


اِک فیض کادریا بہتا ہے

دنیا ہے کہ امڈی آتی ہے


منہ مانگی مرادیں پاتے ہیں

اے خاصۂ داور کیاکہنا


اِک نور نظیرؔ وہ روشن ہے

دنیا سے عرشِ معلیٰ تک


اے دیدۂ روشن کیا کہنا

اے قلبِ منوّر کیاکہنا ۶؂


نعت بعنوان’’رشکِ مسیح[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنی خلش کا چارہ گر حال کوئی بتائے کیوں

عشقِ نبی میں درد کا لطف نہ کوئی پائے کیوں


رشکِ مسیح کا مریض نازِ دوا اُٹھائے کیوں

چارہ گروں کے پھیر میں ، غم کا بھرم گنوائے کیوں


مرکزِ حق پہ ہو اگر ، آنکھ تری جمی ہوئی

جلوۂ حسن کے سوا ، کوئی نظر میں آئے کیوں


دل میں ترے اگر رہے یادِ حبیبِ کبریا

خانۂ چشم میں ترے ، حسنِ بُتاں سمائے کیوں


جس نے تمہاری یاد میں ، اپنی مٹا دی زندگی

گردشِ روز گار سے ، کوئی اُسے ڈرائے کیوں


جو ہے مریضِ مصطفی ، چھیڑ نہ چارہ گر اُسے

خوگرِ غم ازل سے ہے ، نازِ دوا اُٹھائے کیوں


عکسِ جمالِ پاک سے ، شمعیں جو ضوفشاں ہوئیں

اُن کے فروغِ خاص کو ، بادِ فنا بجھائے کیوں


جلوۂ یار دیکھنا ، سہل نہیں ہے اے کریم

تابِ نگاہ جب نہ ہو ، شوقِ نظر بڑھائے کیوں


جو ہے غلامِ مصطفی ، وہ ہے حقیقت آشنا

سامنے غیر کے نظیرؔ ! دستِ طلب بڑھائے کیوں ۷؂

نعت بعوان’’شمعِ کعبہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کعبۂ دل جگر مدینہ ہے

جانِ اہلِ نظر مدینہ ہے


کیوں میں پوچھوں کدھر مدینہ ہے

جب کہ پیشِ نظر مدینہ ہے


جو غلاموں کو بادشاہی دے

اُسی آقا کا گھر مدینہ ہے


حجِ کعبہ تو فرض ہے لیکن

شمعِ کعبہ کا گھر مدینہ ہے


اُس کو نیرنگیوں سے کیا نسبت

جس کی شام و سحر مدینہ ہے


عکس اُس کا ہے سارے عالم پر

شمعِ ہر رہ گزر مدینہ ہے


لے چلا ہے کمالِ شوق جدھر

خوش ہو اے دل ! اُدھر مدینہ ہے


اہلِ ادراک جانتے ہیں اُسے

مرکزِ بحر و بر مدینہ ہے


اہلِ عرفاں کا قول ہے یہ نظیرؔ !

عارفِ ہر نظر مدینہ ہے ۸؂

نعت بعنوان’’منزلِ عشقِ نبی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

وہ بزمِ تصور میں آکر ، آنکھوں میں سمائے جاتے ہیں

آغاز کی منزل ختم ہوئی ، انجام بنائے جاتے ہیں


معراج کی شب کعبے سے نبی ، تاعرش بلائے جاتے ہیں

جلوے جو بشر سے پنہاں تھے،آنکھوں کو دکھائے جاتے ہیں


ذرّاتِ جہانِ قلب و جگر ، آئینہ بنائے جاتے ہیں

خورشیدِ رسالت کے جلوے ، آنکھوں کو دکھائے جاتے ہیں


بخشش سے نبیِ اکرم کی ، عاصی بھی بچائے جاتے ہیں

دوزخ سے نکالے جاتے ہیں،فردوس میں لائے جاتے ہیں


انوار کی بارش ہوتی ہے ، آئے ہیں بہارِ خلد لیے

پژمردہ کلیاں کھلتی ہیں ، اعجاز دکھائے جاتے ہیں


روشن ہے چراِغِ بزمِ حرم، اے صلے علیٰ اے صلے علیٰ

انوارِحقیقت کے جلوے ،ہر دل میں سمائے جاتے ہیں


اعجازِ نظر کا کیا کہنا ، ویرانۂ دل آباد ہوا

بُت خانے کی ظلمت دور ہوئی،دل کعبہ بنائے جاتے ہیں


یہ عشقِ نبی کی منزل ہے ،آساں نہیں طے کرنا اس میں

آنسو بھی بہائے جاتے ہیں ، اور سر بھی کٹائے جاتے ہیں


سرکارِ دوعالم نورِ خدا ، گنجینۂ معنیٰ صلے علیٰ

دنیا کے ذرّے ذرّے کی ،نظروں میں سمائے جاتے ہیں


اعجاز نظیرِ خستہ جگر ، کیا کہنا اُن کی مدحت کا

آنکھوں کو نظارے جنت کے ، ہر وقت دکھائے جاتے ہیں ۹؂

نعت بعنوان’’گلزارِمدینہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ایمان جو پختہ ہوجائے ، جینے کا قرینہ آجائے

طوفانِ حوادث مٹ جائیں ، ساحل پہ سفینہ آجائے


اُس شمسِ منور کی تابش ، گر سینہ بہ سینہ آجائے

ذرّاتِ جہانِ دل چمکیں ، دامن میں خزینہ آجائے


پڑجائے جو اُس کی دل پہ نظر ، معراجِ محبت حاصل ہو

تقدیر منوّر ہوجائے ، تکمیل کا زینہ آجائے


اُس ماہِ مبیں کی اُلفت میں،جو ڈوب کے ابھرے کیاکہنا

تسنیم کی موجیں پیدا ہوں ، ساحل پہ سفینہ آجائے


لببیک سے گونجے دل کی زمیں ، ہو گنبدِخضرا پیشِ نظر

قسمت سے خدایا وہ ساعت ، وہ دن وہ مہینہ آجائے


دامن جو نبی کا مل جائے ، ٹل جائیں بلائیں سر سے نظیرؔ !

دروازۂ جنت کھل جائے ، گلزارِ مدینہ آجائے ۱۰؂

سلام‘‘(مسدس)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سلام اُس پر خداملتا ہے جس کے عشقِ اُلفت سے

سلام اُس پر گنہ بخشے گا رب جس کی شفاعت سے


سلام اُس پر گہر برسائے جس نے ابرِ رحمت سے

سلام اُس پر نہ کوئی بڑھ سکا جس کی سخاوت سے


سلام اُس پر یتیموں بیکسوں پر جس نے غم کھائے

سلام اُس پر کہ جس نے رحمتوں کے پھول برسائے


سلام اُس پر نہ گھبرایا جو آلام و مصیبت سے

سلام اُس پر نہ گھبرایا کسی دنیا کی طاقت سے


سلام اُس پر نکالا جس نے ہم کو قعرِ ظلمت سے

سلام اُس پر جو واقف ہے رموزِشانِ وحدت سے


سلام اُس پر جو ہے اُمی لقب گنجینۂ عرفاں

سلام اُس پر کہ جس کی شان میں نازل ہوا قرآں


سلام اُس پر جو دشمن سے بھی پیش آیا محبت سے

سلام اُس پر جو سب کے کام آیا لطف و رحمت سے


سلام اُس پر مشرف جو ہوا خالق کی قربت سے

سلام اُس پر ہوا واقف جو رازِ خاصِ وحدت سے


سلام اُس پر درود اُس پر تصدق جان و دل اُس پر

سلام اُس پر نہیں جس کا کوئی بھی ثانی و ہمسر


سلام اُس پر رہا جو دور سارے عیش و عشرت سے

سلام اُس پر گزاری زندگی جس نے قناعت سے


سلام اُس پر مشرف جو ہوا انوارِ وحدت سے

سلام اُس پر رہی جس کوغرض ہر دم عبادت سے


سلام اُس پر جو ہمدردِ جہاں ہے شافعِ محشر

سلام اُس پر جوہے لطف و کرم کا مخزن و مصدر


سلام اُس پر کیا نزدیک تر جس نے حقیقت سے

سلام اُس پر بچایا جس نے ہم کو کفر و ظلمت سے


سلام اُس رحمتِ دیں پر کہ جس نے اپنی رحمت سے

نظیرؔ ! اِس خاک داں کو بھر دیا انوارِ وحدت سے


سلام اُس پر جو ہے فریاد رس اور شافعِ محشر

سلام اُس پر جوہے تشنہ لبوں کا ساقیِ کوثر ۱۱؂

سلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سلام اُس پر کہ جس سے ہو گئی روشن شبِ اسریٰ

سلام اُس پر جو پل میں دیکھ کر عرشِ بریں آیا


سلام اُس پر کہ چمکے نور سے شمس و قمر جس کے

سلام اُس پرکہ جس کے عکس سے لعل و گہر چمکے


سلام اُس پر جسے اُمت ہی پیاری ہے دوعالم میں

سلام اُس پر کہ جس کا فیض جاری ہے دو عالم میں


سلام اُس پر کہ جس نے رات دن حق کی عبادت کی

سلام اُس پر کہ جس نے راہِ مولا میں سخاوت کی


سلام اُ س پر کہ جس نے آبرو رکھ لی غریبوں کی

سلام اُس پرکہ جس نے دل دہی کی غم نصیبوں کی


سلام اُس پرکہ جس نے درد مندوں سے محبت کی

سلام اُس پر جس نے بے نواؤں کی اعانت کی


سلام اُس پر کہ جس سے کعبۂ دل ہو گیا روشن

سلام اُس پر کہ جس سے جگمگائی وادیِ ایمن


سلام اُس پر کہ جس آواز سے دشت و جبل لرزے

سلام اُس پر کہ جس سے عرصۂ جنگ و جدل لرزے


سلام اُس پر کہ جس کے حکم سے ٹوٹا درِ خیبر

سلام اُس پرمٹایا جس نے ظلم و جور کا دفتر


سلام اُس پر نظیرؔ ! آیا جو رحمت بن کے دنیامیں

سلام اُس پر کرے گا جو شفاعت سب کی عقبیٰ میں ۱۲؂


سلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سلام اُس پر کہ جو محبوبِ رب العالمیں ہو کر

دکھانے منزلِ حق آیا جو حق الیقیں ہو کر


تصور صاحبِ لولاک کا دل میں مکیں ہوکر

دکھاتا ہے جو منز ل رہبرِ راہِ یقیں ہو کر


سلام اُس پر کہ جس کی انگلیوں سے چشمے بہ نکلے

کیا سیراب سب کو رحمت للعالمیں ہوکر


سلام اُس پر کہ جس نے کر دیاہے شادماں اُس کو

جو اُس کی بزم میں آیا کوئی اندوہ گیں ہو کر


سلام اُس پر تصدق جان و دل اُس مہر عرفاں پر

ہوا کونین میں جو آشکارا نیریں ہوکر


سلام اُس پر نہایت خندہ پیشانی سے پیش آیا

جو اُس کے سامنے آیا کوئی چیں بہ جبیں ہو کر


سلام اُس پر درود اُس پروہ سرتاجِ رُسل جس نے

غریبوں کے دلوں میں گھر کیا دُرِّ ثمیں ہوکر


جو محبوبِ خدا ہے نازشِ خلاقِ عالم ہے

اُسی کا نور چمکا آفتابِ مرسلیں ہوکر


خدا نے یہ شرف بخشا نظیرؔ ! اِک فخرِانساں کو

نہ پہنچے لامکان تک دیکھیے ،روح الامیں ہوکر ۱۳؂

حاصلِ عشق[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

خانۂ دل سے یہ آتی ہے صدا

عشق کا حاصل ہے عشقِ مصطفی


عقل کی حد سے گزر کر اے نظیرؔ !

بحرِ عشقِ مصطفی میں ڈوب جا


جس کو عشقِ مصطفی حاصل ہوا

اُس کا دامن نعمتوں سے بھر گیا ۱۴؂

چارمصرعے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اے کاش وطن اپنا مدینہ ہوتا

اِس دہر میں جینے کا قرینہ ہوتا


ہوتا جو کہیں قرب تو منزل ملتی

سو بار بھی مرجاتا تو جینا ہوتا ۱۵؂

حوالے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔صدائے حرم/نذیر حسن نظیرؔ الٰہ آبادی ثم دہلوی/بہ اہتمام:سید منظور الحسن حیدری رکن بزمِ شفق کراچی/ تاریخِ اشاعت ندارد/علم و عمل بک ڈپو ایمپریس مارکیٹ صدر کراچی/ملنے کاپتا :سید منظور الحسن حیدری ،حرمین پرنٹر فیض محمد فتح علی روڈ نزدحقانی چوک کراچی/صفحہ ۷/بشکریہ حضرتِ حسان حمد ونعت بک بینک کراچی ،بانی:غوث میاں۔

۲۔ص ۳۶

۳۔ص۴۰

۴۔ص۴۱

۵۔ص۴۲

۶۔ص۴۲ٍ ٍ

۷۔ص۴۳

۸۔ص۴۳

۹۔ص۴۴

۱۰۔ص۴۴

۱۱۔ص۶۹

۱۲۔ص۷۰

۱۳۔ص۸۰

۱۴۔ص ۳۸

۱۵۔ص ۳۸