نعتیہ ادب ۔ مسائل و مباحث ۔ نعتیہ شاعری پس منظر اور روایت

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


Naat kainaat - naatia masail.jpg

مصنف  : ڈاکٹر ابرار عبدالسلام

کتاب : نعتیہ ادب ۔ مسائل و مباحث ۔ ڈاکٹر ابرار عبدالسلام

(مدیر نعت رنگ کو لکھے گئے خطوط کے آئِینے میں )

کتاب کا پی ڈی ایف ربط : نعتیہ ادب ۔ مسائل و مباحث

نعتیہ شاعری پس منظر اور روایت:[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات سے کچھ معجزات ان کی حیات میں ظہور میں آئے ہوں یا نہ آئے ہوں، ان کی وفات کے بعد جو درود و سلام، لا تعدولا تحصیٰ، ان کی ذات گرامی پر بھیجے گئے وہ اپنی جگہ ایک معجزے سے کم نہیں۔ یہ میرے نزدیک سب سے بڑا اور سچا معجزہ ہے، جس کا جواب محال ہے۔ نعتوں کا سلسلہ الگ ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی اور برگزیدہ شخصیت کے لیے، اتنے منظومات، سلام، گیت، بھجن یا مدحتیں لکھی گئی ہوںگی۔ حضرت عیسیٰؑ کی شان میں بہت سے odes, hymns, songs لکھے گئے ہیں، جیسے سپنسر کا Ode to the Natiity of Christ (برمیلاد مسیح) (۴۶۹) مگر ان کی تعداد اس کا عشر عشیر بھی نہ ہو گی۔ حیرت بالائے حیرت یہ کہ خود غیرمسلموں نے اس میدان میں دل کھول کر طبع آزمائی کی اور بہت کچھ داد سخن آرائی دی، جس کا اعتراف واجب ہے۔ یہ سلسلہ قرون اولیٰ سے جاری ہے، اس کا آغاز جناب رسالت مآب(ص) کے حین حیات میں ہو گیا تھا، اور برابر فروغ پذیر رہا۔ حتیٰ کہ بیسیوں صدی میں گزشتہ سب زمانوں سے بڑھ گیا۔ ہمارے ہاں تحریک پاکستان سے بھی اس کو تقویت ملی، جس میں ایک نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل اور دین کی عظمت مدنظر تھی، جو جناب رسالت مآب کی ذات مکرم سے عبارت ہے، بقول اقبال:

’’بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست‘‘

اس صدی کے آغاز میں بعض خلاف مذہب تحریکات کے ردعمل کے طور پر بھی دنیا بھر کے مذہبی حلقوں میں ایک ہلچل پیدا ہوئی، جس میں سوویت یونین کے خلاف کچھ شعوری تحریک کا بھی دخل تھا۔ جس کی روحانیت سے عاری نظام فکر اور محض مادی تصور حیات نے دنیا بھر میں بہت سے انسانوں کے ایمان کو متزلزل کر دیا تھا۔ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک طرف روس کے خلاف سرد جنگ زوروں پر تھی اور یہ اس مہم کا آخری مرحلہ تھا جو ستر بہتر برس خصوصاً امریکہ کی طرف سے بہ شدت و بہ ہر حیلہ جاری رہی۔ دوسری طرف جنرل صاحب نے اسلامی نظام رائج کرنے کا سبز باغ دکھایا، جس سے مومنین کے دل میں ایک نئی امنگ پیدا ہوئی اور اس سے اہل تخلیق بھی متاثر ہوئے۔ چناںچہ انیس سو اسی (۱۹۸۰ء) کی دہائی میں سب سے زیادہ نعتیں لکھی گئیں اور جو نعتیہ مجموعے جب سے اب تک شائع ہوئے ان کی تعداد تمام ہند اسلامی تاریخ کے نعتیہ مجموعوں سے بڑھ گئی۔

حب رسول مسلمان کا جزو ایمان ہے، اور اس کا اظہار بصورت نعت ایک فطری اور اندرونی تقاضا ہے۔ چناںچہ کوئی بیرونی تحریک یا تقریب بھی تخلیقی ذہن کو اس طرف بآسانی مائل کر سکتی ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اب وہ جوش و جذبہ جسے بڑی طاقتیں اپنے مفید مطلب سمجھتی تھیں اور اسے ہوا دینے پر مائل تھیں، انھیں کھٹکنے لگا ہے۔ اب وہ اسے تقویت دینے کی جگہ اسے دبانے پر مائل ہیں۔ مگر بقول مولانا ظفر علی خاں:


نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا


مذکورہ تاریخی پس منظر سے قطع نظر، ثنائے رسول بھی صلوٰۃ و سلام کی طرح، ہمارا محبوب مشغلہ، بلکہ فریضہ اور ایک مبارک ادبی روایت ہے۔ یہ ہمیشہ سے جاری تھا اور جاری رہے گا۔ ’’نعت رنگ‘‘ کے کتابی سلسلے نے اس مقدس روایت کو منظم institutionalized صورت میں جاری رکھا ہے، اور بڑے دل پذیر، رنگا رنگ، روح پرور، ایمان افروز مجموعے شائع کیے ہیں۔ میں آپ کے ذوق اور لگن کا معترف و مداح ہوں۔ جزاہم اللّٰہ خیر الجزاء۔(شان الحق حقی ص،۴۷۱۔۴۷۰)


جس عرق ریزی سے آپ نے اس شمارے کو ترتیب دیا ہے اُس کا اظہار اس میں شامل نثر و نظم کے شہ پاروں سے ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی بھی تہذیب ہو اُس میں اعلیٰ ترین مقام اُس کے مذہبی شہ پاروں کو ہوتا ہے۔ یونان کے دیومالائی ادب کو اور دیوی دیوتائوں کے شان میں کہے گئے گیتوں اور زمزموں کو جو مقام یونانی ادب میں حاصل ہے، وہ بعد میں معرضِ وجود میں آنے والے ادب کو نہیں ہے، یہی صورتِ حال بھارت کے کلاسیکل ادب کی ہے۔ سنسکرت میں جو ادبِ عالیہ نظر آتا ہے، اُس میں اظہار، وجدان کی سرحدوں کو چھوتا نظر آتا ہے، اُس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایسا ادب تخلیق کیف و مستی کی فضا میں ہوتا ہے۔ اور یہ خاص و عام سب کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔

’رگ وید‘ میں بھارت میں آئے ہوئے آریوں کی عظیم شاعری اور مناجاتیں اُس دور کی بے مثال شاعری تصور کی جاتی ہے، اس لیے یہ وجدانی ذوق شوق کی مظہر ہیں۔ یہی حال کتاب متیٰ، مرقس کی انجیل اور اُس سے پہلے تورات، زبور اور کتبِ انبیا کی حمدیہ شاعری کا ہے جو تخلیقی اعتبار سے بلند پایہ کلام ہے۔

نعتیہ شاعری کی روایت عربی ادب سے فارسی ادب اور پھر اردو کے دامن کو گل رنگ کرتی ہے۔ عربی کے چار بڑے عربی شعرا جنھوںنے عربی شاعری کو شعری محاسن سے مالامال کیا، وہ کعب بن مالک انصاریؓ، حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ اور حضرت کعب بن زہیرؓ تھے۔ یہ چاروں حضرت محمد(ص) کے صحابی تھے۔ ان میں سے حضرت حسان بن ثابتؓ کو حضور(ص) نے خاص طور سے یہود و مشرکین کے شعرا کی مخالفانہ شاعری کے جواب میں شعر کہنے کی اجازت دی تھی،انھوںنے نعت گوئی کے فن کوبلندیوں تک پہنچایااورپھریہ ایک مستقل صنف شاعری کے طور پر عربی ادب کی شناخت بن گئی۔ آج عربی کا شعری ادب نعتیہ شاعری سے مالامال ہے۔

(سلیم یزدانی ، نعت نامے ص،۴۴۱۔۴۴۰)

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659