نعت رنگ شمارہ ۲۶ کا تجزیاتی مطالعہ ۔ کاشف عرفان

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg

مضمون نگار: کاشف عرفان

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

نعت رنگ شمارہ ۲۶ کا تجزیاتی مطالعہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ ایک جریدہ نہیں ایک عہد بن چکا ہے۔ ۲۵ویں شمارے کی اشاعت کے ساتھ ہی یہ تاریخ ساز جریدہ تفہیم حمد و نعت کے ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ الحمدللہ مجھے اس شمارے کے مندرجات پر تبصرہ کی سعادت نصیب ہو رہی ہے۔ میں ’’نعت رنگ‘‘ کی اشاعت کے تمام ذمہ داران خصوصاً سیّد صبیح رحمانی اور ڈاکٹر عزیز احسن کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔

۶۸۰ صفحات کی ضخامت لیے ہوئے نعت رنگ ۲۶ میں تشنگانِ علم و حکمت کے لیے ہر پہلو سے سیرابی کا موقع موجود ہے۔ آغاز کے صفحات پر دلاور فگار کا ایک خوبصورت نعتیہ قطعہ موجود ہے جو نعت رنگ کے بنیادی استدلال (نعت ادب کی ایک باقاعدہ صنف ہے) پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ انتساب ڈاکٹر عزیز احسن کی تفہیم و تخلیق نعت کے لیے کی گئی سعی جلیلہ کو ہدیہ تہنیت پیش کرتا ہے جو یقیناًاُن کی خدمات کا اعتراف ہے جو نعت، سیرت اور ادب میں انھوں نے پیش کیں۔ نقش پائے احمد مجتبیٰ Vکو رہنما بنانے کی تلقین کرتے ہوئے صادق دہلوی کے دو نعتیہ اشعار نے سیّد صبیح رحمانی اور اُن کی ٹیم کے کام اور موٹو (Moto) کو بیان کیا ہے۔

فہرست پر نظر دوڑائی تو ہند و پاک کے حمدیہ و نعتیہ میدان کے تمام جگمگاتے ستارے نظر آئے۔ جی خوش ہو گیا۔ تخلیق، تنقید اور تحقیق کا توازن اس بار صبیح رحمانی نے جس طرح قائم کیا تو مجھے مرزا رسواؔ کے ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ کے بارے میں ایک معروف نقاد کے الفاظ یاد آئے کہ ’’امراؤ جان ادا‘‘ کا پلاٹ ریاضیاتی توازن اور جیومیٹریکل حسن کا حامل ہے۔ فہرست میں اس شمارے کی تخلیقات میں تخلیق، تحقیق، تنقید اور آراء کا جیسا خوبصورت گلدستہ صبیح نے تیار کیا ایک مدیر کے لیے یہ کام نہایت دقت اور توجہ طلب ہوتا ہے ۔ صبیح شمارہ ۲۶ کے اس پُل سے کامیابی سے گزر گئے حالانہ ادارت اس لحاظ سے مشکل کام ہے کہ اچھے کام کی تعریف نہیں کی جاتی اور اگر کوئی صاحب کی تخلیق کسی وجہ سے اشاعت سے رہ جائے تو پھر مدیر کے لیے کئی کئی ماہ تک مسائل رہتے ہیں۔ البتہ اس بار مدیر نعت رنگ جناب سیّد صبیح رحمانی نے خود لکھا اور عہد جدید میں روحانی اور اخلاقی اقدار کا بحیثیت مجموعی امت مسلمہ میں فقدان کا ذکر کیا جس کے باعث ہم افراد کی حیثیت سے بھی اور اجتماع کے طور پر بھی تنزلی کا شکار ہیں۔ انسانی آزادی کو مغرب میں بغیر کسی نظم و ضبط اور قاعدے قانون کے بغیر جس طرح فروغ دیا جارہا ہے وہ بجائے خود ایک بہت بڑے المیے کے وجود کا پیش خیمہ بن رہا ہے۔ مغرب میں فرد کی ذاتی زندگی کے حوالے سے اخلاقی گراوٹ اور مسلم دنیا میں اجتماعی نظام میں موجود فکری اور عملی خلاء دراصل اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ صبیح نے لادینیت کے فروغ اور میڈیا (پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل) پر اس کے بے دریغ اظہار کو ناقابل برداشت قرار دیا جو یقیناًہر سوچنے سمجھنے والے شخص کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ صبیح کے ان جملوں پر غور کروں تو مجھے اس کی دو سطحیں نظر آتی ہیں۔

اوّل: فکری سطح : اس سطح پر مغرب بہت آہستہ لیکن مستقل رفتار سے لادینیت کے نظریات کو قبول کر رہا ہے جو پوری دنیا میں مادی علم کے پھیلاؤ کا ذریعہ تو بن رہا ہے لیکن اصل حقیقت کی طرف اُس کی نظر نہیں ہے یوں سائنس خصوصاً ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے باوجود مغرب کی نظر سطح آب سے نیچے دیکھنے کی حامل نہیں۔ فلسفے کی گہرائی سے منبع علوم تک پہنچنے کی کوئی خواہش مغربی جامعات اور نظام تعلیم کا مقصد نہیں ہیں۔

دوم: انفرادی عملی سطح : مغربی علوم خصوصاً ٹیکنالوجی کے استعمال سے جہاں آسانیاں پیدا ہوئیں وہاں انفرادی اخلاقی سطح کا زوال بھی ہوا اور اس میدان میں مسلم دنیا بھی اب مغرب کے ہی ہم قدم ہوا چاہتی ہے۔

سوم : اجتماعی عملی سطح : یہ سطح انسان کی انسان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا جتماعی نظام ہے۔ مغرب نے اپنے شہریوں کے لیے آسانیاں دیں لیکن شاید مسلم دنیا نظامِ مصطفی کو اجتماعی سطح پر لاگو نہ کر سکی لہٰذا ہم اس میدان میں پیچھے رہ گئے۔

ابتدائیہ میں مبین مرزا کے لکھے ہوئے نعت رنگ ۲۵ کے اداریے کو بھی موضوع بحث بنایا گیا۔ میں پچھلے شمارے میں مبین مرزا کے اس اداریے پر تفصیلی گفتگو کر چکا ہوں تاہم اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ نعت کے اس سفر میں غیر نعت گو طبقہ ادب کے بڑے نام بھی اب اظہارِ خیال کر رہے ہیں جو یقیناًنعت رنگ کی کوششوں کے باعث ممکن ہو سکا ہے۔ صبیح رحمانی کے یہ جملے ہمارے اجتماعی سفر کے بے سمت ہونے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

’’عصرِ حاضر کے نمائندہ نقادوں کا نعت گوئی کے اسالیب اور شعری جمالیات پر تنقیدی شعور کے ساتھ اظہارِ خیال کی جانب سنجیدگی سے متوجہ ہونا خوش آئند ہے، صرف خوش آئند نہیں بلکہ یہ عمل ہماری اس کوتاہی، غیر ذمے داری اور غفلت کا مداوا بھی معلوم ہوتا ہے جو طویل عرصے تک نعتیہ ادب کے ضمن میں ہمارے ہاں فکر و ادب کی دُنیا میں رائج رہی ہے اور جس کے منفی اثرات ہماری تہذیب اور سماج کے تقریباً سب ہی شعبوں میں افسوس ناک حد تک نمایاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ (نعت رنگ ۲۶، ص ۱۲)

نعت کی تہذیب و روایت وہ زندہ روایت ہے جس نے برصغیر کے تقریباً تمام ہی شعبوں کو متاثر کیا۔ مذہب کی قوت سے تہذیبوں کے ارتقائی نظام پر جس طرح اثرانداز ہوا جا سکتا ہے وہ ہمارے ہاں نہ ہو سکا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن پر پھر کسی اور جگہ تفصیلی اظہار خیال کروں گا۔

اسی اداریے میں وفیات کے عنوان سے نعت سے محبت کرنے والوں کی وفات پر ادارے کی جانب سے دُکھ کا اظہار کیا گیا ہے۔ متوفین میں سیّد منظورالکونین، کوثر بریلوی، حسین سحر، عابدہ کرامت اور امجد صابری شامل ہیں۔ باب تمجید کا آغاز ڈاکٹر ریاض مجید کے معروف نعتیہ شعر سے ہوگا ہے۔

ہم اہل نعت فروعات میں الجھتے نہیں

ہمیں تو اُن کی محبت کو عام کرنا ہے

(ڈاکٹر ریاض مجید)

اس کے بعد فراغ رہووی کی دو خوبصورت حمدیں موجود ہیں۔

وہ چاہے تو سورج کو بے نور کردے، پہاڑوں کوہلنے پر مجبور کردے

ہر اِک فن میں یکتا، ہنر میں نرالا خدا تھا خدا ہے خدا ہی رہے گا

(فراغ رہووی)

مقالات کے شعبے میں پہلا مقالہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا ’’نعت بحیثیت صنف سخن‘‘ ہے۔ موضوعاتی شاعری کا حسن اس کا موضوع ہوتا ہے۔ اپنے فن کے باعث ایسی شاعری بڑی شاعری نہیں کہلاتی۔ نعت کا معاملہ اس سے اور بھی مختلف ہو جاتا ہے کہ نعت کا موضوع سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی V کی زندگی پر مشتمل ہے لہٰذا احترام کے جذبات اور احتیاط کا دامن ہمیشہ ایک دوسرے کے متوازی رہتے ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے عمدہ دلائل سے نعت کی تاریخ کو قرطاس پر اُتارتے ہوئے نعت کو ایک اہم صنف ادب ثابت کیا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اس پورے مضمون میں بڑی موضوعاتی شاعری ہونے کی وجہ موضوع سے گہری دلچسپی اور ادبی وابستگی کو بتاتے ہیں او ر یہی نعت کے ایک صنف سخن ہونے کی دلیل بھی ہے کہ خود نعت کا وجود میں آنا حضرت محمد مصطفی Vسے شاعر کی دلی وابستگی کا ثبوت ہے۔ بہرحال ایک مختصر مگر نہایت جامع اور مدلل مضمون جس سے تشنگانِ علم کی پیاس میں یقیناًکمی واقع ہوئی ہوگی۔ ڈاکٹر عزیز احسن کا مقالہ ’’نعتیہ مجموعوں میں تقاریظ، دیباچوں اور مقدمات میں تنقیدی رویوں کا جائزہ‘‘ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت ہی گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ہمارے ادبی ماحول میں عمومی سطح پر ایک دوسرے کی تخلیقات پر تعریفی اسناد تقسیم کرنے کی روایت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب یا مضمون کی اشاعت پر ایسے ایسے تعریفی جملے سننے میں آتے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے۔ دیباچہ، مقدمہ اور تقریظ کے درمیان ادبی سطح کا فرق بیان کرکے انھوں نے مختلف ناقدین کے اندازِ نقد پر بات کی ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے اندازِ تنقید و تحسین کی بابت کہتے ہیں :

’’ڈاکٹر خورشید رضوی کے اس اندازِ تحسین (Appreciation) میں ان کا تنقیدی شعور بھرپور طور سے جھلک رہا ہے۔ یہاں انھوں نے غزل کے فنی سلیقے کی بات کی ہے جس کی کامل آگاہی نے ان کے ممدوح کو نعتیہ شعری دنیا میں وقار بخشا ہے۔‘‘ (نعت رنگ ۲۶، ص ۳۵)

ڈاکٹر عزیز احسن کی تحریربہت معلوماتی اور اہم ہوتی ہے تاہم لہجہ کسی حد تک خشک اورانداز نیم ادبی ہوتا ہے جو زبان ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں وہ خالص تحقیقی زبان اور لہجہ ہے۔ جب تنقیدی آراء بھی مقالے کا حصہ ہوں تو لہجہ ادبی اور جملے کی ساخت خالص علمی موضوع میں بھی انشایئے کی سطح کی ہو۔ ایسی تحریروں میں ہمارے ہاں ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی اور محمد حسن عسکری کی تحریروں کو مثال بنایا جاسکتا ہے۔ بہرحال ڈاکٹر عزیز احسن کی یہ کاوش ہمارے مذہبی ادب کے ایک خاص رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔ ڈاکٹر سیّد یحییٰ نشیط (بھارت) کا مضمون ’’غالب کی مثنوی ’بیان معراج‘ کا تنقیدی مطالعہ‘‘ ایک نہایت علمی کاوش ہے۔ جس میں غالب کی مثنوی ’’بیانِ معراج‘‘ پر تبصرہ کیا گیا ہے اور غالب کے ہاں افراط و تفریط پر گرفت کی گئی ہے۔ غالب کے شعر :

توئی کانچہ موسیٰ ؑ با و گفتہ است

خداوند یکتا بتو گفتہ است

(ترجمہ)’’آپ V کی وہ ہستی ہے کہ موسیٰ ؑ نے خدا سے جو تقاضہ کیا خدا خود آپV سے وہی تقاضا کر رہا ہے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب کا خیال درست ہے کہ اس میں شانِ خداوندی میں استخفاف کا پہلو نکلتا ہے۔ شاعری کا ایک بہت بڑا مسئلہ مبالغہ آرائی ہے۔ یہ مبالغہ آرائی مذہبی شاعری میں اور بھی پیچیدگی پیدا کرتی ہے کہ ہمارے عمومی غزل گو کے ہاں دین اور شریعت کا علم نہیں ہے۔ غالب فن شاعری کے استاد تھے اور رہیں گے تاہم یہاں ان سے چوک ہوئی ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ایک خوبصورت شاہکار میں بھی کہیں کہیں کچھ کجی اور کمی رہ جاتی ہے بالکل ایسے ہی اس مثنوی میں بھی کہیں کہیں مبالغہ کے باعث ایک کمی سی محسوس ہوتی ہے۔

ڈاکٹر ریاض مجید کے ہاں نعت کی فنی صورتیں اہم ہیں لہٰذا وہ اپنی برسبیل نعت سیریز کے تحت ’’برسبیل نعت ۔ تلفظ و املا‘‘ لے کر نعت رنگ کی محفل میں وارد ہوئے۔ ایک خوبصورت مضمون جس میں درست اوزان کے تحت نعت میں لفظوں کے استعمال پر بحث کی گئی ہے۔ مواجہ (اُردو تلفظ) اور مواجہہ (عربی تلفظ) کی بحث میں انھوں نے اسے دونوں طرح ہی درست قرار دیا ہے جس سے ان کے قارئین کے لیے ایک مشکل پیدا ہو جائے گی۔

بھارت سے ڈاکٹر مولا بخش حمد و نعت میں شعریت اور فن شاعری کے حوالے سے بہت عمدہ تحریر لائے ہیں۔ میں ڈاکٹر صاحب کے خیالات سے مکمل متفق ہوں کہ ہر ایسا شعر جس میں اللہ اور اللہ کے حبیب حضرت محمد V کا نامِ نامی ہو ایک سا معیار نہیں رکھتے کہ پیش کش کا التزام اہم ہوتا ہے۔ حمد ونعت کے لیے ہم فن شاعری کو اپنی عقیدت کے باعث زیادہ غور طلب نہیں سمجھتے جو درست نہیں۔ مجھ ناچیز کا ایک مضمون ’’اُردو نعت اور وقت کی ماورائی جہات‘‘ بھی اس شمارے کا حصہ ہے۔ اُمید رکھتا ہوں کہ آپ حضرات کو پسند آئے گا اور آپ مجھے میری غلطیوں سے بھی آگاہ رکھیں گے۔

ڈاکٹر نسیم الدین فریس (بھارت) سے ایک خالص تحقیقی مطالعہ ’’دکنی مثنویوں میں نعت‘‘ لے کر آئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے مضامین سندی تحقیق کے لیے بہت اہم ثابت ہوتے ہیں۔ اس خالص علمی کاوش پر میں ڈاکٹر نسیم الدین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

گوہر ملسیانی (خانیوال) کا مقالہ ’’اُردو نعت میں انوارِ قرآن‘‘ ایک عمدہ تحریر ہے۔ گوہر ملسیانی ساری عمر اسی محبت سے نعت کہتے رہے اور اللہ پاک نے انعام کے طور پر اُن کے لفظوں میں تاثیر پیدا کردی۔ اللہ پاک اُنھیں ایسا ہی لکھتے رہنے کی توفیق دے اورآسانیاں پیدا فرمائے۔

ڈاکٹر محمد طاہر قریشی نے مولانا محمد علی جوہر کی ملی شاعری میں نعتیہ عناصر کی تلاش کی ہے۔ میری رائے میں نوآبادیاتی شاعری میں نعت اور مناجات کے تجربے کو ساختیات کے تحت دیکھا جانا چاہیے۔ کیا وجہ ہے حالیؔ ، مولانا محمد علی جوہر اور محسن کاکوروی کے ہا ں مناجاتی کیفیات ملتی ہیں لیکن یہ کیفیات خالص غزل گو کے ہاں نہیں ہیں۔ تخلیقی تجربہ بنیادی طور پر ایک ثقافتی ترسیل کا عنوان بھی بنتا ہے۔ ہم تخلیق صرف اپنی ذات کے حوالہ سے نہیں کرتے بلکہ پورا سماج ہماری تخلیق کا حصہ بن کر جھلکتا ہے۔ اب غزل گو کا سماج اُس کا وہ دائرہ ہے جس میں محبوب ایک دنیاوی شکل و صورت اور عادات کا نمائندہ ہے جبکہ نعت گو کے ہاں یہ دائرہ وسیع ہو جاتا ہے۔ یوں نعت میں مناجاتی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔

فاروق ارگلی کے ہاں ’’جین اور کرسچین نعت گو شعرا‘‘ پر گفتگو ہے جو بجائے خود ثقافتی تشکیل و ترسیل کا معاملہ ہے۔ یہاں مجھے ڈاکٹر ناصر عباس نیرّ کے الفاظ یاد آتے ہیں:

’’آخر کیا وجہ ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اُردو نعت لکھتے ہیں، ساختیات کی رو سے کوئی شخص چاہے بھی تو زبان کے نظام سے باہر نہیں نکل سکتا۔ وہ زبان ہی نہیں سیکھتا اس زبان کے ذریعے وہ علامتی نظام بھی جذب کرتا ہے جس میں ثقافتی رسمیات و اقدار سے لے کر تصور کائنات تک کوڈڈ صورت میں موجود ہوتا ہے۔‘‘(دیباچہ: نعت اورجدید تنقیدی رجحانات)

ڈاکٹر رفاقت علی شاہد کا مضمون نعتیہ گلدستہ ’’سفینہ نجات دہلی‘‘ ایک معلوماتی کاوش ہے۔ڈاکٹر محمد افتخار شفیع مجید امجد کی ایک نایاب نعت لیے ہوئے تشریف لائے۔ مجید امجد کے ہا ں نعت ان کے درویش صفت ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔ڈاکٹر صابر سنبھلی اور حافظ عبدالغفار حافظؔ نے حدائق بخشش کے حوالے سے نہایت اہم اظہارِ خیال کیا۔ ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی نے کرناٹک میں نعتیہ شاعری کے حولے سے اہم معلومات فراہم کریں۔

ڈاکٹر سہیل شفیق نے انجمن ترقی اُردو میں حمد و نعت کے ذخیرے کے حوالے سے اظہارِ خیال کیا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق انجم کے حوالے سے ظہیر قدسی نے ایک نہایت عمدہ مضمون تحریر کیا۔ مکالمات کے عنوان سے احمد جاوید کی گفتگو نہایت پُراثر رہی۔ مذاکرہ میں تنقیدی شعور کی نعت نگاری میں اہمیت کا اندازہ ہوا۔

فکر و فن کے شعبے میں تمام حضرات کی تحریریں لاجواب تھیں۔ خاص طور پر وسیم بریلوی اور اختر ہوشیارپوری کے حوالے سے بہت اہم معلومات حاصل ہوئیں۔

مطالعاتِ نعت میں مجھ ناچیز کا تبصرہ ’’نعت رنگ ۲۵ کا تفصیلی مطالعہ‘‘ موجود ہے۔ رائے کا منتظر ہوں۔ ڈاکٹر عزیز احسن نے ’’نعت اور جدید تنقیدی رحجانات‘‘ کا تفصیلی تعارف کروایا۔ ایوانِ مدحت میں نہایت خوبصورت نعتیں پڑھنے کو ملیں، چند اشعار دیکھیں:

بھینی بھینی خوشبو سے گھر مہکا ہے

شب کو خواب میں آنے والے کیسے ہوں گے

(ابوالامتیاز۔ع۔س۔مسلم)

مانگے تھے میں نے آپ سے رحمت کے چند پھول

سارا چمن دعاؤں کی ڈالی پہ رکھ دیا

(منظر وارثی)

ترے جلوے میں حدیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں

ازل ابد سے ادھر بھی خرام کرتا ہے

(عارف عبدالمتین)

میانِ معبود و عبد میثاق نور کے بعد

نظر میں بس ایک رات ہے اور روشنی ہے

(افتخار عارف)

میں تشنگی اور تیرگی کا ڈسا ہوا ہوں

وہ میٹھے پانی کی جھیل ہے اور روشنی ہے

(نسیم سحر)

یہ کوزہ گری نعت کی آسان نہیں تھی

صد شکر کہ اُس دستِ ُ ہنر میں ہوں ابھی تک

(کاشف عرفان)

نعت ناموں کے حوالے سے بعض نکات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ بعض ناقدین نعت خطوط میں بہت سخت اور تکلیف دہ حد تک براہِ راست زبان اور لہجے کا استعمال کرتے ہیں جو نامناسب ہے۔ تنقید ضروری ہے تاہم لہجہ بالواسطہ اور نرم استعمال کیا جائے تو مناسب ہوگا۔ آخر میں نعت رنگ کی تمام ٹیم کو اتنی خوبصورت تخلیق پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔