نعت کی بات ۔ امجد اسلام امجد

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat kainaat amjad islam amjad.jpg


مضمون نگار : امجد اسلام امجد

نعت کی بات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعتیہ شاعری کا آغاز تو رسول کریمؐ کی حیات پاک ہی میں ہو گیا تھا اور تاریخی روائتوں اور شہادتوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے نہ صرف اسے پسند فرمایا بلکہ متعلقہ شعراء کو نوازا بھی اور آج بھی اس کلام کا شمار عربی زبان کے اعلیٰ ترین ادب میں ہوتا ہے لیکن جوں جوں مسلمانوں کی فتوحات اور اسلامی حکومت کا دائرہ پھیلتا گیا ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی بیشتر زبانوں اور کرہ ارض کے تقریباً ہر آباد علاقے میں حضورؐ کی مدح میں نعتیں اور نعتیہ کلام لکھا گیا ہے لیکن اس ضمن میں جن تین زبانوں کو فضیلت حاصل ہے وہ عربی فارسی اور اردو ہی ہیں کہ دیگر کئی زبانوں میں لکھا گیا نعتیہ ادب معیاری اعتبار سے تو ان کا ہم پلہ ہو سکتا ہے مگر مقدار کے حوالے سے نسبتاً کم ہے۔ اب اگر صرف اردو کو ہی دیکھا جائے تو اگرچہ اس کے ابتدائی دور سے ہی تقریباً ہر شاعر کے دیوان کا آغاز حمدیہ اور نعتیہ اشعار سے ہی ہوتا ہے (اور کئی غیر مسلم شاعر بھی اس روایت کی تقلید کرتے دکھائی دیتے ہیں) مگر انیسویں صدی کے آخری حصے میں مولانا حالیؔ کی مسدس سے اس صنف ادب کو جو عروج ملا ہے وہ اپنی جگہ پر ایک مثال ہے کہ تب سے اب تک اس کی مقبولیت‘ مضامین کی وسعت اور طرز اظہار کے تخلیقی پیرایوں میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اور نعت گو شعراءکی فہرست اس قدر طویل ہو گئی ہے کہ اسے کسی ایک کتاب میں سمیٹنا بھی ممکن نہیں رہا چند نمایاں ترین نام کچھ اس طرح سے ہیں۔

حالی۔ امیر مینائیاقبالحفیظ جالندھریظفر علی خان امام رضا خاںبیدم وارثیاحمد ندیم قاسمی۔ عبدالعزیز خالد۔ مظفر وارثیحفیظ تائب حافظ مظہر الدینحافظ لدھیانویماہر القادریاقبال عظیمخالد احمدنورین طلعت عروبہریاض مجیدمنیر سیفی‘ یہ نام فوری طور پر ذہن میں آئے ہیں ان میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے)۔

اس دوران میں نعت پر جو علمی اور تحقیقی کام ہوا ہے‘ جو نعتیہ مجموعے سامنے آئے ہیں اور جن جرائد نے کلی یا جزوی طور پر نعت کو اپنے مشمولات کا حصہ بنایا ہے ان پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ بابرکت سلسلہ نئے سے نئے رنگوں میں ڈھلتا نظر آتا ہے جس کی ایک عمدہ مثال سرور حسین نقشبندی کا جاری کردہ سہ ماہی رسالہ ’’ مدحت‘‘ بھی ہے کہ اس کے صفحات میں آپ کو نعت سے متعلق جدید اور قدیم ایسا ادبی سرمایہ یکجا مل جاتا ہے کہ ’’کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جااست‘‘ والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے فیس بک اور سوشل میڈیا پر بھی اب ایسے گروپ اور افراد سامنے آ رہے ہیں جنھوں نے نعت کے حوالے سے بہت اچھی معلومات اور کلام فراہم کیا ہے جو بلاشبہ ہماری نئی نسل کی ذہنی تربیت اور روحانی اصلاح میں ایک اہم رول ادا کر سکتا ہے۔

آج کل رمضان المبارک کی رعایت سے اس نوع کی پوسٹوں میں معیاری اور مقداری دونوں طرح کا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور بہت سے ایسے عمدہ نعتیہ اشعار بھی نظر سے گزرے ہیں جن تک اس سے پہلے کم از کم میری رسائی نہیں تھی۔ نوجوان شاعرارشد شاہین کی مثال کے طور پر تازہ نعت کے چند اشعار دیکھئے جو آج ہی فیس بک پر پوسٹ ہوئے ہیں

علم‘ حکمت نہ کوئی ہنر چاہیے

نعت کہنے کو ان کی نظر چاہیے

مدحتِ شاہِ کون و مکاں کیجیے

زندگی میں سہولت اگر چاہیے

دل تڑپتا ہے یہ حاضری کے لیے

مالکا‘ مجھ کو اذن سفر چاہیے

وقت آخر لبوں پہ ہو نعت نبیؐ

خاتمہ مجھ کو ایمان پر چاہیے

کبھی کبھار کسی چینل کی رمضان ٹرانسمیشن میں کسی شاعر کا تازہ نعتیہ کلام سننے کو ملتا ہے تو خیال آتا ہے کہ کیوں ان کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا جاتا بے معنی اور گھٹیا قسم کے کھیل تماشوں کے بجائے اگر رمضان کی حرمت کا خیال رکھتے ہوئے نعت گو اور نعت خوان حضرات و خواتین کو زیادہ وقت دیا جائے تو شاید ہم اپنی نئی نسل کو حرص اور لالچ کے بجائے اس روحانی کیف اور ترفع سے متعارف کروا سکیں جو انھیں ایک اچھا انسان اور روحانیت کے مثبت روپ کا ناظر بننے میں مدد دے سکے کہ رسول پاکؐ کی محبت سے زیادہ کسی بھی مسلمان کے لیے کوئی اور چیز اہم اور ضروری نہیں۔

نعت میں مناجات کا رنگ یوں تو ہر دور میں شامل رہا ہے مگر پچھلی ایک صدی میں رونما ہونے والے واقعات اور ان کے دباؤ کی وجہ سے اب اس میں ایک خاص نوع کی شدت اور تسلسل پیدا ہو گئے ہیں سو آخر میں ایک نعت اسی حوالے سے کہ دنیا میں ہدایت اور محشر میں شفاعت کے لیے وہی تو ہمارے سردار‘ وکیل اور گواہ ہیں۔

ختم ہو روح سے یہ فشار زماں یا نبیؐ یا نبیؐ

زندگی ہو گئی ایک بار گراں‘ یا نبیؐ یا نبیؐ


آپ پر ہوں فدا میرے ماں باپ بھی‘ میری اولاد بھی

آپؐ کی سمت ہو میری عمر رواں‘ یا نبیؐ یا نبیؐ


ایک رحمت بھری مسکراہٹ ملے‘ دن کی آہٹ ملے

میرے چاروں طرف رات سی ہے رواں‘ یا نبیؐ یا نبیؐ


اک طرف امتی تیرے حیراں کھڑے‘ راستوں میں پڑے

اک طرف ہے کھلا جلوہ زار جہاں‘ یا نبیؐ یا نبیؐ


فرقہ بندی کی تلوار سے کٹ گئے‘ راہ سے ہٹ گئے

دھند میں کھو گئے منزلوں کے نشاں‘ یا نبیؐ یا نبیؐ


آپؐ کے لطف کو جو نہ آواز دوں اور کیا میں کروں

آپؐ کے در بنا اور جاؤں کہاں‘ یا نبیؐ یا نبیؐ


یہ جو امت روایات میں کھو گئی‘ بے اماں ہو گئی

اس کے رستے میں بھی اب کوئی کہکشاں‘ یا نبیؐ یا نبیؐ


آپؐ کے ابر رحمت کی تو حد نہیں‘ صرف امجدؔ نہیں

ساری آنکھوں کی شاداب ہوں کھیتیاں‘ یا نبیؐ یا نبیؐ

بشکریہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]