پروفیسر محمد اکرم رضا۔چندیادیں۔ پروفیسر محمد اقبال جاوید

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مضمون نگار: پروفیسر محمد اقبال جاوید۔لاہور

پروفیسر محمد اکرم رضا ؒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔چند یادیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: Memoirs of the period, Late Professor Akram Raza was a colleague of writer have been penned down for the sake of remembrance. Professor Akram Raza has left behind his various valuable writings. He continuously contributed towards Poetry, Prose and Critical treasure of Natia Literature. His articles have had been published in various journals of genre of Naat. College Magazines, particularly GUJRANWALA NUMBER OF MAHAK were also brought out with his help by the writer of this article.

مقصودِ تحریر پروفیسر محمد اکرام رضا مرحوم کے ادیبانہ رنگ،خطیبانہ ڈھنگ اورنعتیہ آہنگ کااحاطہ نہیں ہے بلکہ کچھ بکھری یادوں کویکجا کرنے کی ایک امکانی سعی ہے کہ انسان مرحوم ہوجاتے ہیں مگر یادیں مرحوم نہیں ہوتیں وہ پسماندگان کوتڑپاتی بھی رہتی ہیں اوربہلاتی بھی۔


نقش گزرے ہوئے لمحوں کے ہیں دل پرکیا کیا

مُڑ کے دیکھوں تونظر آتے ہیں منظر کیاکیا


نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کافرمان ِراحت الاذعان ہے کہ جانے والے کے محاسن کاتذکرہ کیاکرو اورحق یہ ہے کہ یادکا حسن جانے والے کے لیے خودبخود دعاکے سانچے ہوئے ڈھل جایاکرتاہے۔


یادوں کے اس سلسلے میں ایک زمانی ترتیب توہوگی مگرسال وماہ کی تعیین نہیں کہ مجھ پرنسیان غالب ہورہاہے اوربڑھاپا مسلط ہے۔


ازبر تھے کبھی مہر و کواکب کے بھی شجرے

اب تومیں خود اپنا بھی پتابھول گیا ہوں


عرصہ ہوتاہے کہ جناب ارشد میر مرحوم نے’’چونبڑاں‘‘کے نام سے اپنے مزاحیہ مضامین کویکجا کیا تھااس کی تعارفی تقریب تھی صدارت غالباً چودھری فضل حسین یاانور مسعود کی تھی وہاںکے شکر گڑھ سے آنے والے حسن وشباب کے ایک پیکرنے،مختصر سی تقریر کی الفاظ وتراکیب کے شکوہ نے مجھے بے حد متاثر کیا اوریہ تھے پروفیسر محمد اکرم رضا۔تقریر اورتقریب کے بعد ذاتی ملاقات کاموقع نہ ملا اوربات آئی گئی ہوگی۔


۱۹۷۶ء میں،میں نے’’مخزن نعت‘‘کے نام سے ایک نعتیہ انتخاب مرتب کیا۔قبل ازیں اس ضمن میں شفیق بریلوی،ممتازبریلوی اورفرمان فتح پوری کی کاوشیں شائع ہوچکی تھیں بات ہے تب کی جب معیاری نعت ڈھونڈنا پرتی تھی اور نعت کوبطور صفِ سخن تسلیم ہی نہیں کیا جاتاتھا میں نے ان تینوں کتابوں میں شامل نعتوں سے مختلف نعتوں کوجمع کرنے کی سعی کی اورہرنعت پرقرآنی،علمی اورتاریخی اشارات بھی دئیے۔رائٹرز گلڈنے اس انتخاب نعت کوتصنیف قراردیتے ہوئے خصوصی اعزاز سے نوازا تھا۔ نعتیہ جستجو کے دوران میں نوائے وقت میں محترم محمد اکرم رضا کی ایک نعت نظر سے گزری میں نے اُسے’’مخزن نعت‘‘میں شامل کیا۔ذاتی شناسائی تب بھی نہیں تھی نعت کاحق تھا جواُسے ملا اس نعت کے دوشعر دیکھیے:


معدنِ جُود وسخا،کانِ حیا،شمع ہدا

مرحبا ، شوکتِ کردار ، رسول عربی

تونے ذروں کوبھی افلاک کی رفعت بخشی

روحِ انسانی کے معیار ، رسولِ عربی


پھر پروفیسر موصوف سیالکوٹ سے گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے شعبۂ اردو میں تشریف لے آئے، یوں ذاتی شناسائی کاآغاز ہوا۔جناب سید علی عباس جلال پوری کے بعد میں صدرشعبہ اردو تھا او کالج کے ایک ادبی مجلہ’’مہک‘‘کامدیر میری ادارت میں’’مہک‘‘کے عام شماروں کے علاوہ سیرت نمبر،اقبال نمبردوجلدوں میں اورقائداعظم نمبر شائع ہوئے جنھیں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اندرون ملک اوربیرون ملک پذیرائی نصیب ہوئی۔


پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے اقبال نمبر کواقبال پرایک انسائیکلوپیڈیا قراردیا۔ سیرت نمبر کے بارے میں واصف علی واصف مرحوم نے منظوم خراج تحسین عطاکیا اوراپنی کتاب’’کرن کرن سورج‘‘ عنایت فرمائی۔اخبارات میں تبصرے بھی ہوئے۔۱۹۸۲ء میں گورنمنٹ کالج کاجشن سیمیں منایا گیا میں نے سوچا کہ اس موقع پر’’مہک‘‘کاگوجرانوالہ نمبر شائع کیاجائے اس نمبرکامقصود گوجرانوالہ کی تاریخ و ثقافت اورشخصیات ونوادرات کا احاطہ تھااوریہ بھی کہ اس میں کالج کے بارے میں ایک خصوصی گوشہ بھی ہو۔کام خاصا وسیع اورمحنت طلب تھا میں نے پروفسیر محمداکرم رضا سے اس سلسلے میں اعانت چاہی وہ بخوشی رضامند ہوگئے میں نے اوراکرم رضامرحوم نے مقدور بھر کوشش کی بلکہ ایک جنوں تھا جوہمیں اڑائے پھررہا تھا ایک موقع پر میں نے چاہا کہ گوجرانوالہ کی مرحوم شخصیات کے دستخط حاصل کیے جائیں۔اے۔ڈی،ماڈل ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر اورمعروف شاعر ملک منظور حسین منظور کے دستخط حاصل کرنے کے لیے میںاورپروفیسرموصوف تپتی دوپہر میں سائیکلوں پراے۔ڈی ،ماڈل ہائی اسکول پہنچے اس وقت کے ہیڈ ماسٹر انتہائی بے رخی سے پیش آئے کسی نے رہنمائی کی وہاں سے حافظ آباد روڈپرایک دورافتادہ محلے میں اسکول کے سابق کلرک کے گاؤں پہنچے۔انھیں قیلولے سے بیدار کیا انھوں نے بڑی تلاش کے بعد ملک صاحب کاایک مکتوب دیا جس سے ہم نے اُن کے دستخط حاصل کیے یہ صرف ایک واقعہ ہے ہماری سعیِ بلیغ کا۔میں نے’’مہک گوجرانوالہ نمبر‘‘کے ادارئیے کے آخر میںلکھاتھا:


’’یہ محض خراجِ عقیدت ہے آنسوؤں کاایک حقیر نذرانہ ہے اعماق قلب سے ابھرتی ہوئی دھڑکنوں کاایک ارمغاں ہے اوربعد میں آنے والوں کے لیے ایک نشان راہ ہے۔‘‘


وحشت ہماری بعدِفنا پھیل جائے گی

اب تم پھروگے،چاک گریباں کیے ہوئے


اوراُسی ابتدائیے کی ابتدا کے چند جملے:


’’مہک کایہ شمارہ ایک تذکرہ ہے:

  • ان شخصیات کا جن کے انفاس کی مہک سے یہ سرزمین آج بھی مشکبار ہے۔
  • ان شہیدوں کاجن کے لہو کی تجلیوں نے ہمیں یقین وایمان کاسرمایہ عطاکیا۔
  • ان ارباب شعروادب کاجن کاتخیُّل موتی بکھیرتا اورستارے ابھارتارہا۔
  • ان شہسواروں کاجوموت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتے رہے۔
  • ان پہلوانوں کا جن سے ایک دورلزرتارہا۔
  • ان جنوں والوں کا جن کے دامن کے تار،بہار کانشان بنتے رہے۔
  • ان بابغۂ روزگار افراد کا جنھوں نے ملی زندگی میںحیات معنوی کی بنیاد رکھی۔
  • ان اساتذہ کاجن کے قلم کی نوک پرچاند کی طباشیری کرنیں مچلتی رہیں۔
  • ان دلوںکے پییچ وتاب کا جنھوں نے ایک نسل کو سوزدروں کی دولت بخشی ۔
  • ان عظمتوں کا جن کااعتراف آسمان بھی جھک کر کرتا رہا ۔
  • ان اداروں کا جنھوں نے خونِ جگر سے علم وعرفان کے چراغوں کو روشنی دی ۔
  • اس بیاباں کا جس نے گریبانوں کے چاک سے سورج ابھرتے اور انوار بکھرتے دیکھے ۔
  • ا س دور کا جس نے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے آمریت کے استبداد اور اہل یقین کے صبر واستقامت کا نظارہ کیا ۔


گویا :اس میں وقت کی سنگینیاں بھی ہیں اورماضی کی رنگینیاں بھی،ادب کاجلال بھی ہے اور شاعری کاجمال بھی۔نہفتہ حکایتیں بھی ہیں اورشگفتہ روایتیں بھی،کانٹوں کی نیش زنی بھی ہے اور صحرانوردی کی آبلہ پائی بھی، حدیث دیر وحرم بھی ہے اورمیکدے کاسوزوسازبھی۔سلاسل کی دلکش جھنکار بھی ہے اورقفس کی دلکش فضا بھی۔‘‘


جناب پروفیسر محمد اکرم رضا کے مخلصانہ تعاون کے پیش نظر میں نے رسالے کی ترتیب وتدوین میں انھیں اپنے ساتھ برابر کا مقام دیا یہ کوئی احسان نہ تھا بلکہ ان کاحق تھا۔رسالے کے آخر میں صفحہ۱۱۲۲پراعانت کے عنوان سے یہ وضاحت بھی درج ہے :


’’ضلع گوجرانوالہ کی تاریخ کے جملہ پہلوؤں کوسمیٹنے کی کوشش ایک جانکاہ کا م ہے۔یہ کام کلیتاً تحقیقی انداز کاہے اس میں مختلف شخصیات سے روابط ، بھاگ دوڑ اورملک بھرکے کتب خانوں کی چھان بین شامل ہے ہمیں مسرت ہے کہ ہمارے دنوں کی اس تپش اورشبوں کے اس گداز میں،ہمارے ادارے کے بہت سے طلبہ ہمارے ساتھ رہے۔ہم نے ایک ٹیم ترتیب دی۔ انھیں مختلف نوعیت کے کام سپرد کیے بعض کومخطوطات جمع کرنے کے لیے مخصوص کیا بعض لائبریریوں سے متعلقہ مواد لاتے رہے بعض کتابت شدہ مواد کی درستی میں ادارے کے ساتھ منسلک رہے۔تحقیق وتجسس کے اس کام میں طلبہ نے جس بھرپور انداز سے ادارے کاہاتھ بٹایا اس سے نہ صرف ہمارا حوصلہ بڑھا بلکہ طلبہ میں بھی تاریخی جستجو کاشوق ابھرا اوران کے ادبی ذوق میں نکھار پیداہوااوراس سے زیادہ طلبہ سے توقع بھی نہیں کی جاسکتی اور کالج کے ادبی مجلّہ کامقصود بھی یہی ہے کہ وہ طلبہ کے علمی شوق کوتحقیق کا راستہ سجھائے اورقلم کے اس تاریخی سفر اورتحقیقی سفرمیں ہم نے اس ڈھب پرطلبہ کی تربیت کرنے کی بساط بھر کوشش کی جن طلبہ کاتعاون ہمارے ساتھ رہا اُن کے نام درج ذیل ہیں(۳۴طلبہ کے نام)ان طلبہ کے علاوہ ترسٹھ سابق اور موجودہ طلبہ کی قلمی نگارشات بھی شریک ہیں۔دومعاون مدیر ان کے علاوہ ہیں۔‘‘


چوں کہ یہ ایک مشترکہ کاوش تھی ۔اس لیے چند مضامین کے سواکسی مضمون پرکسی کاانفرادی نام نہیں ہے۔حق یہ ہے کہ میں نے اور پروفیسر محمد اکرم رضا مرحوم نے مہک گوجرانوالہ نمبر مرتب کرکے محض اپنا فرض منصبی اداکیا تھااورہم نے اس رسالے پر’’جملہ حقوق مع حق ترتیب وتدوین اوراشاعت کلی وجزئی محفوظ ہیں۔‘‘لکھ کر یہ حقوق گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے نام محفوظ کردئیے تھے تاکہ بعد میںکوئی اس پرشب خون نہ مارسکے اورگھر کی چیز گھر میں رہے۔حقوق اشاعت کلّی وجزئی محفوظ رہیں گویا اس رسالے کاایک ایک لفظ کالج کی ملکیت ہے۔


نوشتہ بماندسیہ برسفید

نویسندہ رانیست فرداامید


اس رسالے کی تقریب رونمائی کی صدارت روزنامہ جنگ کے بانی جناب میر خلیل الرحمن نے کی تھی کہ اُن کا تعلق بھی اسی دیارناز سے تھا مجھے یاد ہے کہ اس تقریب رونمائی میں جناب پروفیسر وارث میر نے اپنے دبنگ لہجے میں فرمایاتھا کہ:


’’میرے بس میں ہوتورسالے کے مرتبین کوحسن کارگردگی کاصدارتی تمغا عطاکروں۔‘‘


۱۱۲۲ صفحات پرپھیلے ہوئے اس رسالے کاتذکرہ اس لیے طویل ہوگیا کہ کل کے مورخ اورناقد صورت حال سے آگاہ رہیں۔بہر کیف یہ ایک نذارنہ ہے اُس ادارے کے لیے جس نے ہم دونوں کو وقار واعتبار کی لازوال ثروت عطاکی یہ الگ بات کہ


اب وہ دیار بھی ہمیں پہچانتا نہیں

اک عمر جس میں نالہ سرا دربدر رہے


اس کے بعد میں نے’’مہک‘‘کی ادارت کلیتاً پروفیسر محمد اکرم رضا مرحوم کے سپر دکردی اور خود بطور نگران کام کرتارہا۔اس زمانے میں ہم لوگ بے ریش وبروت اورسوٹڈ بوٹڈ ہواکرتے تھے اورڈاڑھی رکھنا ’’جہاد‘‘سے کم نہ تھا۔پروفیسر عطاء الرحمن عتیق اسی ہئیت کذائی کے ساتھ ایک مسجد میں خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ وہ بہترین علمی اوردینی خوبیوں سے متصف ہیںاوراسی نوع سے پروفیسر محمداکرم رضا نعتیہ محافل میں شامل ہواکرتے تھے جناب پروفیسر غلام رسول عدیم نے مدرسہ نصرت العلوم میں داخلہ لیا۔حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدر کی توجہات کانتیجہ یہ ہواکہ انھوں نے ڈاڑھی رکھ لی اُن کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمت اورتوفیق بخشی۔مرحوم میاں محمد اکرم پرنسپل گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کی قلبی صالحیت نے بھی اُن کے چہرے کوسنت رسول سے مزین کردیا۔میں عتیق صاحب اور رضا صاحب دونوں کوترغیب دیا کرتا تھا اوریہ ترغیب گاہے گاہے سخت لہجہ بھی اختیار کرلیا کرتی تھی۔بالآخر دونوں کوتوفیق نصیب ہوئی اوروہ علم ونظر کی فضیلتوں کے اعتبارسے ترغیب دینے والے کوغبارکارواں کی طرح پیچھے چھوڑ گیا۔


میں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے

صحرا کی ریت پروہ ہوا کی لکیر تھی


آج نئی پود کی اکثریت ڈاڑھی بطور فیشن رکھ رہی ہے کاش وہ سنت پاک رسول کااتباع کرتے ہوئے اپنے عمل کونیت کا حسن عطاکرے کہ سوچ کارُخ اورنظر کازوایہ بدل جائے تومنظور خودبخود بدل جایا کرتاہے۔


ریٹائر منٹ کے بعد میں نے محمداکرم رضا کونیشنل سائنس کالج میں اپنے ساتھ رکھا اورہم ایک عرصہ اکھٹے رہے شام وسحر لاہور،نعت لاہور،نعت رنگ کراچی اور مفیض گوجرانوالہ میں بفضلہ فن نعت کے سلسلے میں ہم دونوں کے مضامین شائع ہوتے رہے انھوں نے بہت کچھ لکھا وہ خوش نویس بھی تھے اورزودنویس بھی ۔انھوں نے۲۰۰۲ء میں کم وبیش ۲۰۰اشعار پرمشتمل نبی پاک کے حضو ر میں سلام لکھا اورچاہا کے میں اس کا پیش لفظ لکھوں۔میں نے’’ تحسینِ حسن ‘‘کے عنوان سے ایک مبسوط تعارفی تحریر لکھی جو اس کتاب کے ساتھ طبع ہوئی ایک اقتباس دیکھیے اس میں اُن کی فکری صلاحیتوں اورقلبی صلاحیتوں کااعتراف ہے۔ ’’پروفیسر محمد اکرم رضا کواللہ تعالیٰ نے سوزدل کے ساتھ سازنوابھی عطا کیا ان کی تحریر وتقریر میں مفہوم کی وسعت کے پہلو بہ پہلو الفاظ کی شوکت بھی نمایاں ہوتی ہے ترصیع کی نادرہ کاریاں اوربدیع کی فسوں سازیاں ان کے قلم کا سرمایۂ افتخار ہیں مگران کایہ سلام پڑھ کر مجھے ایک خوشگوار حیرت ہوئی ہے کہ اس میں نہ تراکیب وتشبہیات کی مشکل پسند پیچیدگیاں ہیں اورنہ تلمیحات و استعارات کی مجاز آفرینیاں بلکہ درددل کاوہ بے ساختہ اظہار ہے جو پلکوں پرلرزنے والے آنسوؤں میں ہوتاہے لفظی صناعی للکار کی شان ہے پکار کی نہیں یہ سلام جمال رسالت اورکمال سیرت کا ایک ایسا مترنم اظہار ہے کہ روانی سلاست اورسادگی اس کا حسن ہے میں اظہار کی اسی بے ساختگی کو اس کی اہم خصوصیت سمجھتاہوں یوں لگتاہے کہ سلام کہتے کہتے اکرم رضا خود کو بھول گئے ہیں اورالفاظ وتراکیب کے زرتا وآویزے اپنی حیثیت کھوبیٹھے ہیں کہیں ان کاتصور حسن روئے رسول سے مہکتا ہے کہ وہ حسنِ رخ جمالِ الہٰی کاآئینہ ہے کہیں ان کا خیال سیرت سے تابانی لیتاہے کہ وہ سیرت زندگی کی ہرظلمت کے لیے اجالا ہے کہیں وہ سراپا آرزو ہیں کہ وہ ذات اقدس رحمت باری کے کمال کی انتہا ہے پروفیسر محمد اکرم رضا کی یہی وہ خودفراموشی ہے جس پر شعور وآگہی بجاطورپر نازکرسکتی ہے۔‘‘

تیرا خیال ہے تیرا جمال ہے تو ہے

مجھے یہ فرصتِ کاوش کہاں کہ کیا ہوں میں


جناب پروفیسر محمداکرم رضا مرحوم بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔یہ فی الواقع ایک قلمی سرمایہ ہے جو وہ اپنے پسماندگان کے لیے بطور ورثہ چھوڑ گئے ہیں۔جملہ ناشرین کا اخلاقی اورشرعی فرض بنتاہے کہ وہ بکنے والی کتابوں کی رائیلٹی اُن کے ورثا کوباقاعدہ اداکرتے رہیں کہ ہربکنے والی کتاب میں ناشر کابھی حق ہے اورمصنف کابھی۔رضا مرحوم کی جملہ کتابیں اب اُن کے ورثا کی ملکیت ہیں نہ وہ کسی ناشر کی ملکیت ہیں اورنہ ناشر کے ورثا کی، بات حقوق العباد کی ہے جس کی معافی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بھی نہیں رکھی۔کہیں ایسا نہ ہو کہ کل ناشرین کی نیکیاں مصنف مرحوم کے کھاتے میں اور مرحوم کی بشری لغرشیں ناشرین کی کھاتوں میںمنتقل ہوجائیں۔حقوق العباد کے سلسلے میں ہم سب کوانتہائی محتاط رہنا چاہیے غالب کہاں یادآگیا بہ تصرف ادنیٰ:


ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑاحساب

خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ ناز تھا

حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خاںؒ کے الفاظ میں:


’’جوانسان دنیاوی مصلحتوں کے بجائے آخرت کی مصلحتوں کواہمیت دے، حق کونظر انداز کرنے کے مقابلہ میں حق کومان لینا، جس کی نظر میںزیادہ محبوب ہوجائے،قہقہہ لگانے کے بجائے زیادہ تسکین جس کے دل کو اُس وقت ملے جب وہ اللہ کے حضور میں آنسو بہائے،انتقام سے زیادہ تسکین جس کو معافی دینے میںملے اورکسی کاحق غضب کرنے سے زیادہ راحت حقوق اداکرنے میں محسوس ہوایسے آدمی کے لیے دنیا بھی جنت بن جاتی ہے ۔ ‘‘


محترم سید صبیح رحمانی نے اُن کی کتاب ’’نعتیہ ادب کے تنقیدی نقوش‘‘اورمیری کتاب ’’مرقع چہل حدیث‘‘انہی دنوں کراچی سے شائع کیں۔ یہ کتابیں کارگو کے ذریعے ہمیں بھیجی گئیںایک ہی دن ہمیں وصول ہوئیں افسوس کہ اُنھیں مہلت نہ ملی اورمجھے توفیق نصیب نہ ہوئی کہ ہم ایک دوسرے کو کتاب پیش کرسکتے اوروہ وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا اورجہاں سے ہرایک کو جانا ہے فاصلہ ہی کتنا ہے؟


کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات

کلی نے یہ سن کر تبسم کیا


چمن شاہ قبرستان کی جنازہ گاہ میں،میں نے اُن کی پیشانی کومحبت سے چھوامیرے ہاتھ نے جو ٹھنڈک محسوس کی اس کاکیف اب بھی قائم ہے اورقائم رہے گا کہ وہ میرے والدین اورمیری بیٹی کی قبروں کے قریب میں مدفون ہیں۔ میںدن میں دوبار اُن کی مغفرت کی دعا کیاکرتا ہوں اوراب اکرم رضا بھی اُس دعائے مغفرت میںشامل ہوگئے ہیں۔آخر میں نطق شاعرمستعار لیتے ہوئے چند شعر:


الہٰ العالمیں ، نوحہ کروں یا مرثیہ لکھوں

قلم قاصرہے کیسے داستانِ غم فزا لکھوں

صبامغموم،طائر مضطرب،شاخیں خزاں دیدہ

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ اس حالت میں کیالکھوں

مجھے سونپا گیا اس دور میں احباب کا ماتم

کسے غم خوار ٹھہراؤں کسے درد آشنا لکھوں

خوداپنی زندگی بھی مختصر محسوس ہوتی ہے

کہاں تک جانے والوں کی وفا کاتذکرہ لکھوں