چندر بھان خیال ؔ کی طویل نظم ’’لولاک‘‘ کے حوالے سے - شارق عدیل

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مضمون نگار: شارق عدیل

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

چندر بھان خیالؔ کی طویل نظم "لولاک" کے حوالے سے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

چندربھان خیال اردو دنیا میں اپنی انفرادی سوچوں کے سبب خاصی وقعت رکھتے ہیں۔ چونکہ نظم کے حوالے سے ان کے دو شعری مجموعات منظرعام پر آکر ناقدین کو ہیئت اور موضوعات کے نئے جہانوں سے روبرو ہونے کے مواقع فراہم کرارہے ہیں۔ ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مذکورہ مجموعات کے تعلق سے میں ثقہ ناقدین شعر و ادب کی آراء کا مطالعہ کرچکا ہوں۔حالانکہ یہ دونوں مجموعات میری نظروں سے گزرے نہیں ہیں، لیکن ان کے ناموں میں جو شعری کشش ہے اس سے یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ چندبھان خیال اپنی نظمیہ شاعری کے لب و لہجے کے تعلق سے دوسرے شعراء سے ایک دم مختلف ہیں، تبھی تو اردو زبان و ادب کے صاحب فخر ناقدین ان کے دونوں مجموعوں ’’شعلوں کا شجر‘‘ ’’گمشدہ آدمی کا انتظار‘‘ کے حوالے سے یوں اظہار خیال کرتے ہیں کہ اردو کا ہر قاری چندربھان خیال کے نظمیہ راستوں میں سفر کرنے کا طالب نظر آتا ہے۔

گوپی چند نارنگ، کے خیال میں اردو پر فی زمانہ جو پیغمبری وقت آن پڑا ہے اور اقدار شکنی اور نفسا نفسی کا جو دور دورہ ہے ایسے میں اگر کچھ دیے ایسے بھی جلتے رہیں تو راہ کا اندھیرا اگر کم نہ ہوگا تو کم از کم بڑھے گا بھی نہیں۔ گوپی چند نارنگ کے خیال میں چندربھان خیال ایک ایسے شاعر ہیں جن کی موجودگی میں ’’اردو وادی‘‘ میں اندھیرا بڑھنے کا امکان نہیں ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ چونکہ چندربھان خیال اپنی ہر نظمیہ تخلیق کو اپنی ایجاد کردہ ہیئت کے پیراہن میں ہی دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی آزاد نظمیں بھی مسلسل قوافی کی تکرار سے پیدا ہونے والی دل پذیر موسیقی کے نزدیک رہتی ہیں، جس سے اس دور کی نظمیہ شاعری محروم نظر آتی ہے۔

پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کی نظر میں چندربھان خیال کی نظمیں بہت خوب ہیں۔ کئی نظمیں سحر انگیز ہیں، اور بہت دیر تک مسحور رکھتی ہیں۔ پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کی یہ یک سطری رائے چندربھان خیال کے شعری احساس کی گہرائی و گیرائی کی بہترین مبصر ہے۔ اور ہر اعتبار سے صداقت کی آغوش میں پناہ گزیں نظر آتی ہے۔ پروفیسر خلیق انجم کی نظر میں چندربھان خیال ایک منفرد آہنگ منفرد سوچ اور بے پناہ شدتِ احساس کا شاعر ہے۔ وہ کسی فارمولے یا سیاسی نظریے کی عینک کے بجائے کھلے ذہن سے سوچتا ہے۔ وہ ملک کے بہترین نظم نگاروں میں نمایاں ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ چندربھان خیال، موجودہ عہد کے نمایاں فنکار ہیں۔ ویسے میری نظر میں پروفیسر گوپی چند نارنگ اور پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کی آراء کو سپرد قرطاس کرنے کے بعد کسی اور کی رائے کو لکھنے کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں، لیکن پروفیسر خلیق انجم اور پروفیسر جوگندر پال بھی اپنے اندر زبردست تخلیقی قوتیں رکھتے ہیں۔ اس لیے ان دونوں ارباب فکر و نظر کی آراء کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، پروفیسر جوکندر پال نے کیا سچی اور کھری بات کہی ہے۔ چندربھان خیال نے کوئی نئی بات سننے کے لیے کان کھڑے کررکھے ہیں۔ آپ اس جیالے شاعر کی ٹوہ میں رہیے۔ تھوڑا انتظار کیجئے کیا پتہ وہ کب کس طرح کونسی نئی بات لے کر آپ کے سامنے موجود ہو اور آپ کھڑے کے کھڑے رہ جائیں۔

واقعی پروفیسر جوگندرپال نے چندربھان خیال کی شاعری کے تعلق سے کیا صادق پیشین گوئی کی ہے کہ دل کی دھڑنیں تیز رفتار ہوگئی ہیں، چندربھان خیال کے اول شعری مجموعے کا نام ’’شعلوں کا شجر‘‘ سے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا اپنے عصر کے خونریز مناظر کے ساتھ اس کے اوراق پر بکھری پڑی ہے۔ اور امن کی امید ایک ہلکی سی صبح کی کرن کی مانند کہیں کہیں اپنے ہونے کا احساس دلارہی ہے۔ جو شاعر کو مایوسی کے غار میں اترنے سے باز رکھتی ہے۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

ور دوسرا شعری مجموعہ ’’گمشدہ آدمی کا انتظار‘‘ نظم کی دنیا میں۔ ایک ایسا استعارا ایک ایسا خیال بن کر ظاہر ہوا ہے کہ مذکورہ آدمی جب بھی دنیا کو دستیاب ہوجائے گا تو اس کی معنویت مکمل ہوجائے گی اور دنیا کا شب گزیدہ چہرہ چاند کی مانند روشن نظر آئے گا۔ اور تیسرا مجموعہ ان کی طویل نظم ’’لولاک‘‘ کے نام سے منظرعام پر آیا ہے۔ جو پروفیسر جوگندرپال کی پیشین گوئی کا آئینہ ہے۔

مذکورہ نظم چھ ابواب میں تقسیم کی گئی ہے اور ہر باب کی موضوعی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے چار بحور کا استعمال کیا گیا ہے جو کسی بھی معمولی شاعر کی سوچ کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔ چونکہ نظم کے تخلیقی سفر میں بحر کا بدلائو موضوع کے بیانیہ احساس سے بیحد گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے ’’لولاک‘‘ کے شاعر کی ذہانت کو تخلیقی لمحوں میں محسوس کرنے کی ازحد ضرورت ہے۔ نظم کا پہلا باب بحر رمل سالم محذوف کے ارکان فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلن، میں تخلیق کیا گیا ہے۔ مذکورہ وزن غزل تخلیق کرنے میں کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ نرم جذبات و احساسات کو اپنے اندر جذب کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے۔

نظم کا دوسرا باب بحر ہزج اُشتر سالم کے ارکان، فاعلن، مفاعی لن، فاعلن، مفاعی لن، میں تخلیق کیا گیا ہے۔ اس وزن میں یہ صفت ہے کہ یہ لہجے کو اونچی صدائوں میں ڈھلنے سے روکتا ہے اور اپنے موضوع کے اعتبار سے شاعر کو مناسب لفظیات کی طرف کوچ کرنے کی دعوت دیتا ہے اور نظم کا تیسرا باب بحر متدارک …… کے ارکان فعلُن، فَعِلُن، فعلن، فعلن، فعلن، فعلن، فعلن، فعلن میں پوری کاریگری کے ساتھ تخلیق کیا گیا ہے۔

چونکہ نظم کا یہ حصہ موضوعاتی تذکرات میں بے حد تفصیلی ہے۔ اس لیے شاعر کو یہاں طویل وزن کی ضرورت تھی، اور چوتھا، پانچواں، باب اوپر بیان کئے گئے عروضی ارکان پر مشتمل ہے۔ البتہ چھٹواں باب بحر ہزج مثمن سالم کے ارکان، مفاعی لن، مفاعی لن، مفاعی لن، مفاعی لن، پر تخلیق کیا گیا ہے۔ یہ وژن بھی اپنے اندر سُر اور سنگیت کا زبردست بہائو رکھتا ہے۔ جو کسی بھی تخلیقی منظر کو تعمیر کرنے میں بہترین معاون کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس طرح چندربھان خیال نے اپنی طویل نظم ’’لولاک‘‘ کی کاشت میں چار بحور کو برتا ہے جو مذکورہ نظم کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، مذکورہ نظم فخر انسانیت رسول اکرم ﷺ کی سیرت و اخلاص کو احاطہ کرنے کی غرض سے وجود میں آئی ہے۔ اور اپنے قارئین کو یہ بتانے میں پوری طرح کامیاب رہی ہے کہ زندگی رسول اکرم ﷺ کے جلوہ افروز ہونے کے بعد زبردست انقلاب سے گزری ہے۔ چندربھان خیال کی رسول اکرم ﷺ سے عقیدت و محبت عمر کے اس حصے میں پیدا ہوتی ہے جس کا کوئی بھی نقش ذہن سے آسانی سے محو نہیں ہوتا ہے۔

وہ رسول اکرم ﷺ کے تعلق سے فرماتے ہیں، میں جب چوتھی جماعت کا طالبعلم تھا، تو حضرت محمد ﷺ سے متعلق ایک چھوٹا سا مضمون کسی کتاب یا رسالے میں پڑھا تھا۔ اس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ عرب کی سرزمین پر چودہ سو برس قبل ایک عظیم المرتبت شخص نے جنم لیا تھا جس نے دنیا کو دین اسلام دیا، صرف 23برس کی قلیل مدت میں غیر مہذب اور منتشر عرب معاشرے کو نہ صرف مہذب اور منظم کردیا بلکہ چھوا چھات برادری واد ،امیری غریبی کی لعنت سے نجات دلاکر اعلیٰ اور ادنیٰ کے فرق کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا تھا۔ اس مضمون نے مجھے سراسیمگی کے سمندر میں غوطہ زن کردیا تھا، میں حیران تھا کہ جن برائیوں کے نرغے میں آج ہم لوگ زندگی بسر کررہے ہیں وہ محمد ﷺ نام کے ایک شخص نے صدیوں قبل ہی مٹادی تھی، یہی وہ نقش ہے جو چندربھان خیال کے معصوم ذہن میں اس طرح بیٹھ گیا کہ انہیں حضرت محمد ﷺ کے بارے میں جو کچھ بھی پڑھنے کوملا وہ اسے پوری یکسوئی کے ساتھ پڑھتے رہے۔ اور ’’لولاک‘‘ ایسی لافانی نظم ان کے ذہن میں تخلیق ہوتی رہی، لولاک، رسول اکرم ﷺکے اوصاف حمیدہ اور اس وقت کے جہل فطرت، ماحول کو جس طرح آئینہ کرتی ہے اس میں چندربھان خیال کی شعری شخصیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، چونکہ وہ نظم کی ابتدا رسول اکرم ﷺ کی پیدائش سے قبل کے ماحول میں کرتے ہیں، اور اپنے قارئین کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ وجود میں آنے سے قبل دنیا اس قدر جہالت کے اندھیروں میں غرقاب تھی کہ انسان اچھائی اور برائی کے واضح فرق کو بھی نظرانداز کرچکا تھا۔ نظم کا ابتدائی منظر ملاحظہ فرمائیں۔ ؎


حضرتِ آدم سے پیدا ہوگیا جب آدمی

سمتِ امکانات میں بڑھنے لگا جب آدمی

سینۂ صحرا میں ہر دم جگمگاتا تھا کوئی

تیرہ و تاریک لمحوں سے گزرنے کے لیے

آدمی کے راستوں میں رنگ بھرنے کے لیے

تہہ بہ تہہ تنہائی کی تہہ میں اترنے کے لیے

بحر و بر کی وسعتوں سے دامنِ افلاک تک

گونجتی تھی اک تڑپ تخلیق کی دیوانہ وار

خلوتوں کی خاک میں لپٹے ہوئے دن بیقرار

اور سنّاٹوں کے آگے بے قبا شب شرمسار

اک طرف مبہم عقائد دوسری جانب فریب

بیچ میں بیٹھے ہوئے بے دست و پا شام و سحر

پربتوں کی پیٹھ پر بیٹھے ہوئے سوکھے شجر

ہنہناتی، ہانپتی، ہنستی، ہوا کے دوش پر

ایک قطرہ آگ کا رکھ دیں تو کتنی وادیاں

خاک ہوکر خوف کے طوفاں اٹھا دیتیں کئی

وادیاں جو آگ کے دریا بہا دیتیں کئی

اور ٹھنڈی ریت پر لیٹا ہوا تنہا بشر

چونک کر پھر سر جھکا دیتا کسی کے سامنے

ہر طرف بے روح منظر آدمی کے سامنے

ایک بھی چلتی نہیں تھی تیرگی کے سامنے

روشنی کے نام پر اڑتی ہوئی چنگاریاں

ہائے پھیلا تھا جہاں میں بے بسی کا سامراج


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

نظم کے یہ ابتدائی مصاریع لفظ و معنی کا اک جہاں سمیٹے ہوئے ہیں اور چندربھان خیال کے اندر کے فنکار کی بیدا د ذہانت کا منھ بولتا ثبوت فراہم کراتے ہیں۔ چونکہ شاعر کے پیش کردہ ماحول میں روشنی کی جگہ چنگاریاں رقص کرتی ہیں اور انسان سفاک ظلمتوں کے پنجے میں پوری طرح بے بس نظر آتا ہے۔ لیکن زندگی کے اس گھور منظر میں بھی چندربھان خیال کے ذہن میں مچلتی ہوئی شعری لہریں برق رفتار احساس کے نور سے نظم کے ہر مصرعے کو طویل معنویت سے گوندھنا چاہتی ہیں۔ نظم کی ہیئت بھی اپنے اندر کسی کارنامے سے کم نہیں ہے چونکہ نظم کے ہر بند کے پہلے دو مصرعے مطلعے کی شکل میں تخلیق کیے گئے ہیں اور بعد کے دو مصرعے اس انداز سے تخلیق کیے گئے ہیں کہ دوسرے بند کے ابتدائی دونوں مصرعوں سے مل کر ہم قافیہ بن جاتے ہیں جو پابند نظم کی موسیقی کے لطف کو دوبالا کردیتے ہیں، نظم کی یہ خوبصورت ہیئت ’لولاک‘‘ کے شاعر کی اپنی ایجاد کردہ ہے جس کا ساتھ آخری مصرعے تک نباہنا بڑے جوکھم کا کام ہے۔ چند مصرعے اور دیکھیں۔ ؎


ہاتھ میں پتھر لیے آواز کی بے چہرگی

ڈوبتے سورج کے پیچھے پاگلوں سی دوڑتی

اور کسی بے شکل بت کے سامنے پھن کاڑھ کر

ناچتا تھا خواہشوں کا ناگ دن ہو یا کہ رات

ساعتوں کے دوش پر بیٹھے جنوں کے جنگلات

غار کے اندر مسلسل موت سے لڑتی حیات

صبح صادق کے اجالوں سے معانی کچھ نہ تھے

کوئی بھی واقف نہیں تھا شام کی تحریر سے

ذہن ودل سہمے ہوئے ناکردہ ہر تقصیر سے

ہر عمل جیسے بندھا ہو جہل کی زنجیر سے

جب ستارہ ٹوٹتا کوئی سرِ آغوشِ شب

ہر جہت، ہر منزل و مرکز پہ چھا جاتا سکوت

بھیڑ میں روتا کبھی ویرانوں میں گاتا سکوت

اور کبھی آسیب بن کر سر پہ منڈلاتا سکوت

ہر نئے احساس کو دعویٰ خدائی نور کا

نور کا چہرہ معاً آواز کے اشکوں میں غرق

جستجو کی جنگ میں الجھے ہوئے تھے غرب و شرق

آدمی کرتا نہ تھا خوف خدا میں کوئی فرق

تتلیوں کے پر چمکتے تھے، گلوں پر رنگ بھی

دیکھنے والے مگر بینائی سے محروم تھے

مذکورہ نظم کی ہیئت کا اک کمال یہ بھی ہے کہ اس کے مصاریع کو مثال بناکر پیش کرنے میں بھی ایک جہد مسلسل سے گزرنا پڑرہا ہے۔ چونکہ نظم کا تواتر کسی زبردست سیلاپ کی سی طاقت رکھتا ہے جسے اس کی مرضی کے بغیر ہر مقام پر نہیں روکا جاسکتا، اور اگر ناقد نظم کے ساتھ من مانی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو نظم اپنے تواتر اور معانی میں بکھرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس مقام پر نظم کی بیانیہ ندرت کی داد دینا بھی بے حد ضروری ہے۔ چونکہ اس تخلیقی صفت سے بیشتر نظم نگار آگاہ ہی نہیں ہوتے۔

ذرا غور کیجئے قدرت کے سارے کرشمات آدمی کی آنکھوں کے سامنے تھے مگر وہ دیکھنے اور محسوس کرنے والی بینائی سے محروم تھا، کیونکہ اس کا ہر احساس جہالت کے تابع تھا، اب ذرا انسان کے ذہن سے توہم پرستی کی گرد کو صاف کرتا ہوا ایک بہت ہی بے باک شعری منظر ملاحظہ فرمائیے جو دل و دماغ کے تمام طاقچوں کو روشن کردے گا۔ ؎


آسماں کی وسعتوں کو ذہنِ انساںکا سلام

فکر کی پرواز کو جن سے ملی عمرِ دوام

تیز تیز اٹھنے لگے آگے تجسس کے قدم

طائرِ تحقیق کی امت بڑی ہونے لگی

عزم کے سینے میں پھر کچھ روشنی ہونے لگی

بے خبر دنیا جہالت سے بری ہونے لگی

سبز دھرتی کی مہکتی فصلِ گل کے ساتھ ساتھ

عالمِ بالا نے بھی ’’وا‘‘ کردیئے رحمت کے باب

اور ابراہیم اترے دشت میں لے کر شہاب

ہاتھوں میں اجلے صحیفے، ہونٹوں پر وحدت کے گیت

آدمی کے واسطے انسان کی عظمت کے گیت

پتھروں کی بھیڑ میں گونجی صدا اک پیار کی

کفر سے انکار کی اور جرأت اظہار کی

اونگھتی سب رہ گزاروں نے بھی کی محسوس پھر

ہر نفس اک نرم نکہت نصرت و ایثار کی

ہر جبل پر جلوہ گر جادو جمالِ عشق کا

ہر سمندر کی جبیں پر موجزن طوفان ہوش

جیسے روشن رفعتوں پر جستجو کا آفتاب

اور ابراہیم اترے دشت میں لے کر شہاب

شرک کی اونچی حویلی، کافروں کی عیش گاہ

اور نادانوں پہ اپنا راج کرتے رو سیاہ

عقل کی آندھی کے آگے یوں ہوئے بے بس، کہ بس

سر جھکاکر رہ گئے سارے بتانِ کج کلاہ

گرم تپتی ریت کے سینے سے پھوٹا آبشار

سو بہ سو سب کوہ و صحرا میں اذاں ہونے لگی

ماند سا پڑنے لگا مہمل عقیدوں کا شباب

اور ابراہیم اترے دشت میں لے کر شہاب


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

نظم اپنی شعریت کا لوہا منواتی ہوئی جس طرح ابراہیم تک پہنچی ہے اسی شان سے آگے بڑھتے ہوئے بت پرستی کو توحید کا آئینہ دکھاتی ہے اور باطل عقائد کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتی ہے۔ اور زمین پر خدا کے پہلے گھر کی گواہی دینے کے ساتھ ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا جشن مناتی ہے۔اوراظہار کی صدائوں کو مزید نرم و شیریں بنانے کی غرض سے بحر کی تبدیلی پر زور دیتی ہے۔ تاکہ لہجے اور اسلوب کے بام و در طہارت کی روشنی میں جگمگانے لگیں۔ نظم کے مذکورہ منظر کو علمی اعتبار سے پُراثر بنانے کے لیے چندربھان خیال نے اپنے اندر کے شاعر کی تمام شعری قوتیں یکجا کرکے قرطاس پر اس انداز سے سجائی ہیں کہ شاعری سے ناآشنا لوگ بھی ’’لولاک‘‘ کی گرفت میں سمٹ آتے ہیں، چونکہ نظم کا دوسرا باب جوں جوں واقعاتی مناظر کی تخلیق سے گزرتا ہے نظم قارئین کے دل و دماغ پر مرتب ہونے لگتی ہے اور قارئین نظم کے حرف حرف کے ساتھ سفر کرنے لگتے ہیں۔ ؎

سمت سمت نورانی… … … …

جس طرف نظر جائے روشنی کی طغیانی

دشت میں کہستاں میں شہر میں بیاباں میں

پُرسکون سی ہلچل عالمین امکان میں


اور زمین کے اوپر

آسمان کے نیچے اک شبیہ لاثانی

جس طرف نظر جائے روشنی کی طغیانی

صاحبِ کتاب آیا لے کر پھر شباب آیا

آگیا یقیں سب کو اہل انقلاب آیا

اور سکوت نے گایا

نور کی ولادت کا ایک گیت لافانی

جس طرف نظر جائے روشنی کی طغیانی

شش جہات نے چوما، کائنات نے چوما

چاند جیسے چہرے کو سب صفات نے چوما


اور حرا کی آنکھوں نے

آمنہ کے آنچل میں دیکھا عکس ربّانی

جس طرف نظر جائے روشنی کی طغیانی


مذکورہ نظم کی تخلیقی تکنیک کی جس قدر تعریف کی جائے وہ کم ہی رہے گی چونکہ شاعر نے نظم کی ہیئت کو مزید پُراثر بنانے کے لیے یہاں پہلا مصرعہ نصف بحر میں تخلیق کیا ہے اور اس کے بعد کے تین مصرعے مکمل بحر میں تخلیق کرکے چوتھے مصرعے کو پھر نصف بحر میں تخلیق کیا ہے جس سے نظم کا یہ حصہ موسیقی کی مستی میں جھومتا ہوا محسوس ہوتا ہے تو یہ سوچنا ہی پڑتا ہے کہ شاعر کے احساسات کس تخلیقی بلندی سے گزر رہے ہیں جو وہ اس طرح مصرعے تخلیق کررہاہے کہ جیسے اس کا ہر لفظ ہر خیال ایمان کے نور میں شرابور ہوچکا ہے۔ چاند جیسے چہرے کو سب صفات نے چوما، رسول اکرم ﷺ کے عاشقین کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے نظم کا مذکورہ مصرع ہی کافی ہے۔ لیکن ’’لولاک‘‘ تو ایسے مصاریع کا ایک طویل شعری سلسلہ ہے۔ غریبی سے جوجھتا ہوا حلیمہ کے خستہ مکان کا ایک منظر دیکھیے جس کے سامنے رسول اکرم ﷺ کی برکتوں کے عوض محلوں کے ست رنگ اجالے بھی پھیکے نظر آتے ہیں۔ ؎


ناتواں حلیمہ کے روز وارے نیارے تھے

مطمئن نگاہیں تھیں، پر فضا نظارے تھے

مفلسی کے جملوں سے زخم خوردہ سانسوں سے

اعتماد کے نغمے پہلی بار گائے تھے

لطف اور مسرت میں روز و شب نہائے تھے

بے اماں گھروندے پر رحمتوں کے سائے تھے

پاس کے اندھیرے میں بیکسی کے ڈیرے میں

سو ادا سے روشن تر اک دیا محمد ﷺ کا


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

رسول اکرم ﷺکے معصوم بچپن سے ابھرتی ہوئی کراماتی روشنیوں کو شاعر جس طرح حلیمہؔ کے شوہر کی آنکھوں سے دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کرتا ہے یہ اس کے فنکارانہ احساس کی ایک ایسی صورت ہے جس کی چمک کبھی ماند پڑنے والی نہیں ہے۔ ؎


تھا فضا میں اجلا پن اک نئی بشارت کا

وادیاں دھڑکتی تھیں قربتوں کی حدّت سے

اور ایک دن دیکھا شوہرِ حلیمہ نے

نونہال کا سینہ علم کا سمندر ہے

صبر و شکر کا مسکن، صلح کل کا محور ہے

عدل و عزم کا مظہر نیکیوں کا رہبر ہے

یہ کمال قدرت کا وہ عظیم لمحہ ہے

جس نے کھول دیں آنکھیں بے شمار لمحوں کی

راہ ہوگئی روشن تار تار لمحوں کی

باغ، باغ تھیں سانسیں بے قرار لمحوں کی

ایک ایک لمحے میں ایک اک صدی پنہاں

ممکنہ تمدّن کی ذی وقار مظہر تھی

مذکورہ نظم کے واقعات منظروں میں شاعر نے اپنے لہو کو جی بھر کر انڈیلا ہے تبھی تو ہر مصرع کا چہرہ درخشندہ نظر آتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ ایک بار بچپن میں ڈھول تماشے کی طرف چلے گئے تھے، لیکن قدرت کی کرم پرور ہوائوں نے آپ کو اپنی آغوش میں سمیٹ کر گہری نیندوں کے حوالے کردیا، اس واقعے کو چندربھان خیال کی نظم ’’لولاک‘‘ کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیے۔ ؎


صرف رنگ مستی کا شاد کام چہروں پر

جھوم جھوم کر ناچے شر تمام چہروں پر

کفر کی طرب ناکی پسلیوں کو گرمائے

اک طلسمِ تازہ کا اہتمام چہروں پر

بے لباس لمحوں کے شعلہ بار عالم میں

عرش دیکھتا جائے فرش پر خموشی سے

آدمی کے ہاتھوں سے آدمی کی بربادی

برق بن کے ناچ اُٹّھی بے لگام آزادی

اس طرف یہ عالم تھا اور آپ کے آتے

لعنتوں کی بارش میں تن گئے کئی چھاتے

نیند آگئی گہری سو گئے وہیں حضرت

اورکی قدم بوسی صبح کے اجالوں نے

پھر کبھی نہیں چھیڑا ان برے خیالوں نے

اور معجزہ دیکھا سب قریش والوں نے

سرزمین مکہ پر آفتِ اکال اتری

ابر کی علامت سے آسمان خالی تھا


نظم کے اس حصے میں قریش کی عیاشیوں اور جہالتوں کو آئینہ کرنے کے ساتھ آپ کا بچپن میں اس طرف جانا اور قریش کا اکال ایسی مصیبت سے دوچار ہونا ایسے واقعات ہیں جو انسان کے ذہن پر بہت ہی گہرے نقوش مرتسم کرتے ہیں، اوروہ سوچنے لگتا ہے کہ کائنات کو انسان کی گمراہیوں نے ہی برباد کیا ہے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

دل تو نہیں چاہتا، لیکن طوالت کے خوف سے نظم کو یہیں چھوڑ کر تیسرے باب میں داخل ہورہا ہوں، چونکہ میں نظم کے ہر باب سے گزرنے کا تہیہ کرچکا ہوں، اور چاہتا ہوں کہ قارئین بھی میرے ساتھ رہیں۔ نظم کے مذکورہ باب کو تخلیق کرنے کے لئے شاعر نے جس بحر کو برتا ہے وہ بہت ہی مترنم ہے اور زیادہ الفاظ کے ساتھ مکمل ہوتی ہے۔ جس کی شاعر کو ضرورت بھی ہے۔ چونکہ مذکورہ باب نبوت کی پُرنور ساعتوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ چند مصاریع دیکھیں اور چندربھان خیال کی شعری پرواز کی داد دیں۔ ؎


موسم کے بدلتے تیور اور حالات پہ قابو کس کا ہے

انسان ہے کس کا دستِ نگر ہر ذات پہ قابو کس کا ہے

پوشیدہ سبھی کے سینوں میں وہ کوئی تو ہے وہ کوئی تو ہے

وہ کوئی تو ہے جو ہر لمحہ سانسوں کو تسلسل دیتا ہے

اسرار سمیٹے ہستی کو نزدیک ہی چھپ کر بیٹھا ہے

وہ جس نے بنایا دنیا کو جو قادرِ مطلق و یکتا ہے

اسرار سمیٹے ہستی کے نزدیک ہی چھپ کر بیٹھا

وہ جس نے بنایا دنیا کو جو قادر و مطلق و یکتا ہے

وہ کوئی تو ہے وہ کوئی تو ہے جو روح پہ قابض ہے ہر دم

فرمان سے جس کے پیڑوں کی شاخوں پہ نکلتی ہیں کلیاں

اور دور سمندر سے جاکر ملتی ہیں دوڑ کے سب ندیاں

یہ چاند ستارے اور سورج آغوشِ فلک میں رقص کناں

پھر سوچ کے تپتے صحرا میں رمضان کی وہ شب آہی گئی

شب قدر کہ جس کے دامن میں تھا غار کا ہر گوشہ روشن

سورج کی شعاعوں کی صورت تھا خاک کا ہر ذرہ روشن

عابد کی نگاہوں کے آگے معبود بصد جلوہ روشن

اور نورِ مشکّل ہوتے ہی اعصاب سبھی مبہوت ہوئے

مرعوب حواس و ہوش ہوئے آواز فرشتے کی آئی

لفظوں کی تجلّی سامنے تھی بجلی سی فضا میں لہرائی

دیکھو، یہ پڑھو، اک بھاری صدا کانوں میں محمد کے آئی

کی آپ نے ہمت اور پوچھا، میں کیسے پڑھوں اور کیا میں پڑھوں

یہ پوچھ کے پھر خاموشی سے اظہارِ کرامت پڑھنے لگے


رسول اکر م ﷺ کو نبوت کے اکرام سے نوازے جانے سے قبل جو شاعر نے حمدیہ مصاریع تخلیق کئے ہیں ان میں حمد کے رس کو اس طرح گھولا گیا ہے کہ وجدان کی لے پربتوں سے گزرتے ہوئے جھرنوں سے کہیں زیادہ بھلی معلوم ہوتی ہے۔


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

چندربھان خیال نے ’’لولاک‘‘ کو تخلیق کرتے ہوئے جو شعری جدّتیں اور ندرتیں اپنائی ہیں وہ اس عہد میں ڈھونڈے سے بھی ہاتھ نہیں آئیں گی، رسول اکرم کی سیرت کے اظہار میں مذکورہ نظم ایک ایسا فن پارہ ہے جو ایمان والوں کے دلوں کو رہتی دنیا تک گدگداتا رہے گا۔اور ہجرت کے باب میں تو ایسے واقعات درج ہیں جو محسنِ انسانیت رسول اکرم ﷺ کی انسانوں پر کرم فرمائیوں کو بے کنار کردیتے ہیں، نظم کے مذکورہ باب میں شاعر نے رسول اکرم کے نور پیکر سراپا کو ایسے صادق شعری احساس کے ساتھ بیان کیا ہے کہ جس کی قربت میں انسان کا چہرہ آنسوؤں سے وضو کرنے لگتا ہے۔ ؎


پُرکشش، پُرامن، پُرآداب، دلکش، پُروقار

دوجہاں کی تابناکی عارض و رخسار پر

زندگی کی پُرمسرت آہٹیں جن میں نہاں

اُمّ معبد نے نبی کا یوں کیا حلیہ بیاں

چہرۂ پُرنور جس پر فکر کی شادابیاں

ہر تھکے ہارے ہوئے راہی کو تازہ تر کریں

اور پیشانی پہ محسوسات کی اونچائیاں

فرض اور انسان کی دنیا کا اونچا سر کریں

سرمگیں آنکھوں میں مستقبل کی روشن جھلکیاں

کالی پلکوں پہ تھرکتا اک تمدّن شاندار

ابروئے باریک میں پوشیدہ سب کون و مکاں

اُمّ معبد نے نبی کا یوں کیا حلیہ بیاں

چہرۂ پُرنور جس کو جھانکتی زلفیں سیاہ

ابرو جیسے عرش خوش پیغام سے لپٹے ہوئے

نرم اور شیریں لبوںپر گفتگو کی سادگی

جیسے الفاظِ دعا احرام سے لپٹے ہوئے

شفقت و اخلاق سے آراستہ حسنِ سلوک

پیشوائی کا طلسم ایسا کہ سمتیں تابناک

ہر عمل، ہر قول، سے نبوت کے نشاں

اُمّ معبد نے نبی کا یوں کیا حلیہ بیاں

نظم کے تحریر کردہ تمام مصاریع رسول اکرم کے بہترین نعت خواں کا مرتبہ رکھتے ہیں اور شاعر کے دل میں رسول اکرم ﷺکی جو عظمت و مرتبہ ہے اس کا اندازہ لگانا ممکنات میں سے نہیں ہے۔ اورجب نظم اس منزل سے آگے کے سفر پر رواں ہوتی ہے تو رسولِ اکرم کے انسانیت پر بے شمار احسانات کا گن گان کرتی ہے۔ مثلاً۔ ؎


زندگی پرہیز اور صبر و ادب کا نام ہے

آدمی انسان بن جائے یہی اسلام ہے


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

واقعی رسول اکرم نے آدمی کو انسان بنانے کے لئے جو مصائب برداشت کیے انہیں سن کر ہی انسان کی روح کانپ جاتی ہے۔ اور نہ ہی پوری انسان برادری قیامت تک رسولِ اکرم کے احسانات چکاسکتی ہے۔ صبر محض ایک لفظ نہیں رسول اکرم کی زندگی کا ایک وصف ہے۔ جس میں دنیا کو فردوس نذیر بنانے کی مکمل تعلیم پنہاں ہے۔ آپ نے خواتین و مساکین، یتیم واسیر اور پڑوسی و احباب کے حقوق کی ادائیگی کا جو درس دیا ہے اگر دنیا آج بھی اس پر عمل پیرا ہوجائے تو ہر فساد کا ہر تضاد کا وجود چند دنوں میں ہی دنیا سے رخصت ہوجائے گا۔ اس کے بعد جہاد کی گلی کوچوں میں داخل ہوجاتی ہے۔ اور جبر و ظلم کی داستان مختصر ہونے لگتی ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے امن و انصاف و انسانیت کا پرچم زمین پر اس ادا سے بلند ہوتا ہے کہ چہارجانب کلمۂ حق صدائوں کے رتھ پر محوِ سفر ہوجاتی ہے۔ اور شاعر اس مقام پر اپنے جذبات کے بہائو کو کس طرح شعری لبادے عطا کرتا ہے یہ تو وہ خود ہی بتاسکتا ہے خاکسار تو صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہے کہ شاعری کے لیے یہ بہت ہی مشکل مقام ہے۔ چونکہ نظم کا یہ حصہ علم و فن کے خوشنما نمونوں سے آباد ہے۔ جنگ بدر کے حوالے سے چند مصاریع ملاحظہ فرمائیں۔ ؎


پرہول نظارہ مقتل کا بھگدڑ کے مناظر چاروں طرف

تاحدِّ نظر سر کٹتے ہوئے سہمے ہوئے شاطر چاروں طرف

دھول اور دھوئیں کے سائے میں یہ جنگ کا عبرتناک سماں

منکر کی قطاروں پر غالب انصار و مہاجر چاروں طرف

برق اور شراروں کی بارش ظلمت پہ اجالوں کی یورش

کفر اور بدی کے پرچم سب لاشوں سے لپٹ کر نوحہ کناں

باطل کا بھیانک چہرا بھی مردوں کی طرح مرجھانے لگا

اور بدر کی ساکت وادی پر اک شورِ قیامت چھانے لگا

کہرام تمام گنواروں میں دہشت کے علمبرداروں میں

قدرت کی طرف سے حکمت نے اس جنگ کی وہ صورت بدلی

ہر ایک پہلواں اور جواں میداں میں یہاں غش کھانے لگے

اور بدر کی ساکت وادی پر اک شورِ قیامت چھانے لگا

جنگ بدر کے بعد شاعر جنگ اُحد کے خونریز راستے سے بھی دل چھونے والی شعری ترنگوں کے ساتھ گزرتا ہے اور یہ ثابت کردیتا ہے کہ کوئی بھی منظر اس کی شعری قوتوں کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ اس کے ثبوت میں چند مصاریع اور مطالعہ فرمائیں۔


وہ شور اٹھا سمتوں سمتوں سیلاب عداوت کی صورت

معدوم منافق ہونے لگے مفرور روایت کی صورت

طوفان و تلاظم صدیوں کا اک تیغ کی دھار پہ یوں سمٹا

بڑھ چڑھ کے محاذ آرائی کو ہر ایک سپاہی دوڑ پڑا

جاں اپنی ہتھیلی پہ رکھ کر حق و راست کا راہی دوڑ پڑا

اعجازِ رسالت کے حق میں دینے کو گواہی دوڑ پڑا

خوں خوار سفیرانِ شر پر مضبوط ارادوں کے حملے

ہاں، صوف کی صیف زنی نے بھی معبود کے جھنڈے گاڑ دیئے

وہ تیر چلے وہ تیغ چلی سب آہنی سینے پھاڑ دیئے

میدان اُحد سے دشمن کی قوت کے نشاں سب جھاڑ دیئے

مقہور مسلماں قہر بنے قاہر کی کمر مضروب ہوئی

لیکن بہ رضائے ربِّ زماں کفار کے چہرے شاد ہوئے

یہی وہ مقام ہے جہاں مسلمانوں کو اپنی غلطی کا خمیازہ اٹھانا پڑا تھا۔ چونکہ جنگ میں معمولی سی چوک بھی بڑے نقصان کا پیغام لے کر آتی ہے۔ اور یوں بھی ربّ دوعالم مسلمانوں کو خبردار کررہا تھا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم کی بات پر قائم رہیں اسی میں برکت اور فلاح ہے۔ اور آپ کی صلح جو طبیعت کو آئینہ کرنے کے لیے ’’لولاک‘‘ کے شاعر نے جو شعری کرشمہ کیا ہے اس کے مطالعے کے بعد جی چاہتا ہے کہ چندربھان خیال کا منھ موتیوں سے بھردیا جائے۔ ؎


کفّار کی شرطوں پر ہی سہی اسلام کے ہاتھ بڑھنے لگے

ہوش اور حواس کے ایواں میں تدبیر کی شمعیں جلنے لگیں

محبوس اندھیرے گوشوں تک وحدت کی رسائی ہو ہی گئی

سرکارِ زماں کی حکمت سے پھر صلح و صفائی ہو ہی گئی


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

تحریر کردہ بند کے حرف حرف سے جو اخلاص و کردار کی خوشبوئیں پھوٹتی ہیں ان میں بھی آپ کی نرم فطرت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ چونکہ زمین پر کتنا ہی گھور اندھیرا کیوں نہ جمع ہوجائے لیکن اجالے کی امید کبھی دم نہیں توڑتی ہے۔اور نظم یہیں سے موڑ کاٹتی ہوئی اپنی منزل کی طرف تیزی سے بڑھنے لگتی ہے جسے شاعر رسول اکرم کی نصرت سے تعبیر کرتا ہے۔ نظم کے اس باب میں بھی انسانی زندگی کے لئے نفع بخش اسباق موجود ہیں۔ دیکھیں۔ ؎


امانت میں تمہاری ایک نصب العین ہے عورت

خدا اور آدمی کی سوچ کے مابین ہے عورت

اسے مجبور مت کرنا، اسے محبوب رکھنا تم

تمہاری خواب گاہوں اور گھر کا چین ہے عورت

ہمیشہ پیش آنا خوش دلی اور خوش کلامی سے

حقوق اللہ نے اس کے بھی تم پر کردئیے واجب

تم اس کی غیر پروائی پہ سختی سے نظر رکھنا

مری ہر بات کو تم لوگ دل سے باندھ کر رکھنا

نظم کا اختتامی باب تمام دنیا کے انسانوں کی بھلائی اور خدائے واحد کی توحید و عبادت سے معمور ہے۔ اگر دنیا پورے طور پر آپ کی تعلیمات کی راہوں میں سفر آمادہ ہوجائے تو زمین کے کسی کونے میں بھی شر کو پائوں رکھنے کے لئے جگہ نصیب نہیں ہوگی۔آج عورت کی جو حالت ہے وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ مرد طبقہ اگر اپنی ذمہ داریوں پر غور کرے تو ضرور محسوس کرے گا جہاں عورت سے خوش دلی اور خوش کلامی سے پیش آنے کے لیے کہا گیاہے۔ وہیں اس کی لاپروائیوں پر سختی سے نظر رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ جو گھروں کو اور خاندانوں کو جوڑے رکھنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔

لیکن اب اس قبیل کی تعلیمات کو سماج و معاشرے میں فرسودہ خیالات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس کا بدترین انجام ہمارے سامنے ہے۔ چندربھان خیال کی نظم ’’لولاک‘‘ رسول اکرم ﷺکے حوالے سے ایک ایسی نظم ہے جس کا تفصیلی تجزیہ مختلف فکر و خیال کی روشنیوں میں ہونا چاہئے۔چونکہ ’’لولاک‘‘ کے حوالے سے جو بھی مضامین میری نظر سے گزرے ہیں ان میںسب سے عمدہ مضمون مخمور سعیدی کا ہے جو نظم کی معنوی دشاؤں سے گزرتے ہوئے فکر آمیز گفتگو کرتا ہے۔بقیہ زیادہ تر مضامین نظم کی معنوی رفتار کے مقابل سست نظر آتے ہیں۔ چونکہ نظم پوری طرح نعت کی معنویت کے حصار میں نہیں رہتی ہے یہ حمد کے احساس کو بھی زندگی عطا کرتی ہے۔اور رسول اکرم کی آمد سے قبل کے ماحول کو بھی بیان کرتی ہے۔ اور بعض ارباب فکر و نظر کو نظم کا مطالعہ کرتے ہوئے حفیظؔ جالندھری کا شاہ نامۂ اسلام یاد آنے لگتا ہے۔ جب کہ چندربھان خیال کی نظم ’’لولاک‘‘ کو شاہ نامۂ اسلام سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ یہ دونوں فن پارے اپنے اپنے عہد کے بہترین شاہکار ہیں اس لیے مذکورہ نظم پر ابھی مزید غور و فکر کی ضرورت ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی
نئے صفحات
نعت کائنات پر نئی شخصیات