ڈاکٹر عبدالکریم

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

ڈاکٹر عبدالکریم ۔آزاد کشمیر

’’نعت رنگ‘‘ارسال کرنے پر سراپا سپاس ہوں۔ موسم کی شدت اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بروقت تبصرہ ارسال نہ کرنے پر معذرت ۔

’’نعت رنگ‘‘ کو ابتدائیہ اور اپنی بات کے علاوہ سات اجزاء میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں تمجید،مقالات ،فکروفن ،خصوصی مطالعہ ،مطالعات نعت ،مدحت اور خطوط شامل ہیں ۔نعت رنگ کا ابتدائیہ مہمان مدیر پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب نے تحریر کیا ہے اوراُن تمام کثافتوں کی نشاندہی کردی ہے جو برِ عظیم کے معاشرے میں سینکڑوں سال ہندوؤں کے ساتھ رہتے رہتے اسلام کے شفاف بدن سے چمٹ گئیں یا جنہوں نے اسلام کی سادگی کوآلودہ کردیا ۔

نعت وہ صنفِ سُخن ہے جو اِ ن کثافتوں سے سب سے زیادہ آلودہ ہوئی ۔ تاہم مقام شُکر ہے کہ عقیل صاحب جیسے صاحبِ فکر موجود ہیں جواُن وجوہات کادُرست تجزیہ کرکے صاف اورشفاف تصویر قاری کے سامنے رکھتے ہیں ۔ عقائد عام طور پر عقیدتوں سے ہی آلودہ ہوتے ہیں اور یہی سلوک اسلام کے ساتھ اور برگزیدہ ہستیوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے ۔ کچھ اصناف میں مبالغہ آرائی کوفروغ دیا گیا اور پھر اُن کی بنیاد پرباقاعدہ ہمارے ہاں فقہی موشگا فیاں شروع ہوئیں ۔ وطنِ عزیز میں انقلاب بھی اب ان کے ساتھ نتھی کردیے گئے ہیں ۔فرقہ پرستی عروج پر ہے اور ہر فرقہ عقیدت کی بنیاد پر دوسرے کوگردن زدنی قرار دیتا ہے ۔اور جنت کے ٹکٹ تقسیم کرتا پھررہا ہے ۔

مقالات کا گوشہ اپنے اندر خوبصورت مقالے رکھتا ہے ۔اگر ایک طرف نعت اور نعتیہ عناصر پر بات ہے تو نعت گوئی میں لفظ ’ارم‘ کے استعمال پر سیر حاصل بحث بھی شامل ہے ۔دوسری طرف پاکستان میں نعتیہ صحافت پر ڈاکٹر شہزاد احمد کا ۱۰۲ صفحات کا طویل مقالہ موجود ہے جس کو پڑھنے کے لیے صبر اور تحمل کی ضرورت ہے ۔ غیر منقوط حمد ونعت پرڈاکٹر اشفاق انجم نے خوبصورت لیکن مختصر مقالہ تحریر کیا ہے ۔ اختتام خوبصورت الفاظ میں کیا ہے کہ ’’حمد ونعت میں بے راہ روؤں کوکسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ میری دانست میں غلط اشعار کہنے والوں کی گرفت نہ کرنے والے قارئین بھی اُتنے ہی گنہگار ہوں گے جتنے شعرا‘‘۔ تنویر پھول کاحمد ونعت میں الفاظ کے مناسب استعمال پر زور بجا ہے ۔اُنہوں نے کچھ اشعار لے کر اُن کو مثال کے طور پر پیش بھی کیا ہے جیسے ’’مدفن مرا طیبہ میں بنے اب کے برس بھی ‘ ‘پر آوا گون کے اثرات موجود ہیں ۔ اُستاد محترم ڈاکٹر شاکر اعوان صاحب کامقالہ ’’عہد رسالت میں نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘اُن کی کتاب میں پڑھ چکا ہوں ۔ فکروفن کاسب سے معیاری مقالہ ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کا ’’ سرو سہارن پوری کی نعت گوئی ‘‘ لگا ۔ اُنہوں نے اپنے اس طویل مقالے میں حکیم صاحب کی نعتیہ شاعری پر تفصیل سے بات کی ہے ۔ حکیم صاحب اُن شعرا میں سے ہیں جن کی نعتیں کثافتوں سے پاک ہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک باعمل اور صحیح العقیدہ مسلمان تھے ۔ اُن سے میں کئی بار ملا ۔ فقیر منش اورسادہ لوح تھے ، عزیز احسن نے بعض خوبصورت تبصرے کیے ہیں جیسے اس مصرع پر ’’بیدم یہی تو پانچ ہیں مقصود کائنات ‘‘ اور درست تجزیہ کیا ہے کہ صوفیانہ شطحیات کا دائرہ نبوت میں بھی شرک کی سطح پر پہنچ رہا ہے ۔ مقصودِ کائنات صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور اس وصف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاکوئی شریک نہیں ۔

معصوم بھی ،مظلوم بھی ،دامادِ نبی بھی

کافی ہے سہارے کے لیے آپؓ کا داماں

آپ کا یہ تحریر کرنا درست ہے کہ یہاں معصوم سے مراد ’’معصوم عن الخطا ء ‘‘ نہیں ۔ خصوصی مطالعہ کے تینوں مضامین بہترین ہیں ۔ڈاکٹر محمد آصف نے کمال مہارت سے حزیں صدیقی کی نعت گوئی پر قلم اٹھایا ہے اور اس کا حق اداکیا ۔اُنہوں نے صدیقی صاحب کی نعت کے اجتماعی اور انقلابی پہلوؤں پر بھی بات کی ۔اکثر شعرا کے ہاں نعت ذاتی واردات بن چکی ہے تاہم حزیں صدیقی کے ہاں یہ رنگ موجود ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے انقلابی پیغام پر بھی بات کی جیسے:

آدمی پر کُھلا مقصدِ زندگی

آدمیت بڑی معتبر ہوگئی

نعیم باز ید پوری کا ’’شا تم رسول صلی اللہ علیہ وسلمکی درخواست بریت‘‘خاصے کی چیز ہے اوراس طرح کے مضامین کاایک مسلسل سلسلہ ہونا چاہیے ۔ایسے مضامین واقعی ایمان افروز ہوتے ہیں۔ ارنوڈ گریٹ اور وارن ڈرون کی طرح کے کئی کردار ہیں جن کو سامنے لایا جانا چاہیے ،کاش سلمان رشدی ،تسلیمہ نسرین کی طرح کے کرداروں کوبھی وہ جرات تحقیق ملے جنہوں نے کافروں کو مسلمان کردیا ۔ مطالعات نعت کاسب سے خوبصورت مضمون ڈاکٹر ابو سفیان صاحب کاہے ۔انہوں نے ’’ہمارے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کاخوب تنقیدی جائزہ لیا ہے ۔ اس کتاب کے مؤلف ڈاکٹر دھر مندر ناتھ ہیں ۔

ابو سفیان تحریر کرتے ہیں کہ ’’تیسرے باب میں موصوف اس موضوع کاحق ادا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ قرآنیات اوراحادیث سے اُن کی واقفیت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ انہیں کیا پتہ کہ وحدت الشہود اور وحدت الوجود کااسلام اورذاتِ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ’’رکھ لیا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم تاکہ رُسوائی نہ ہو‘‘ سے قرآن کے تصورِ الہ اور کان خلقہُ خلق القرآن کے خلاف تصویر اُبھرتی ہے ۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین فرق ہے ۔ اس فرق مراتب کو ملحوظ رکھنا ازحد ضروری ہے ۔ کیونکہ ایک خالق ہے دوسرا مخلوق ۔لیکن افسوس کہ بے شمار اہم شعرا نے اس فرقِ مراتب سے آنکھیں میچ لی ہیں ۔

خالی کوئی پلٹا ہی نہیں دَرسے نبی کے

ہندو ہو ، مسلمان ہو ،سکھ ہوکہ کوئی اور

اس طرح کے اشعار کاقرآن وسیرت سے کوئی تعلق نہیں ۔روضہ اقدس کی مٹی کا ماتھے پر لگانا سراسر ہندو تہذیب کے زیر اثر ہے جس کے ڈانڈے قشقہ کھینچے سے جا ملتا ہے :

غبار اُس روضہ اقدس کا ماتھے پہ لگاؤں گا

گزراپنا مدینے میں اگر مثل صبا ہوگا

افسوس کامقام ہے کہ اس طرح کے تصورات مسلم شعرا کے ہاں بھی موجود ہیں اور اُن پر علمی اعتراضات کوہمارا فرقہ پرست معاشرہ برداشت نہیں کرتا ۔ ڈاکٹر ابوسفیان درست طور پر مولف پر نوحہ خواں ہیں ’’کاش کہ یہ ہماری نوحہ خوانی ڈاکٹر دھر مندر ناتھ اور ایرانی سفارت خانہ نئی دہلی کے ثقافتی کونسلز ڈاکٹر علی رضا کو گوش گزار کراتی‘‘ ۔پروفسیر انوار احمدزئی نے ڈاکٹر عزیز احسن کے پی ایچ ڈی کے مقالے کاتحقیقی مطالعہ پیش کیاہے ۔نیز انہوں نے عزیز احسن کے نظریہ تحریر وتحقیق کی تعریف کی ۔’’باریاب‘‘ کاڈاکٹر عزیز احسن اور ’’عبدِ کامل ‘‘ کاڈاکٹر بشیر عابد نے پُر اثر مطالعہ پیش کیاہے ۔ مدحت میں شامل تمام تخلیقات اچھی ہیں تاہم رئیس احمد نعمانی کی تخلیق کے اشعار پراختتام کرتا ہوں :

مؤرخوں نے نمایاں نہیں کیاجن کو

بہت سے حادثے گزرے ہیں کر بلاکے سوا

بحکم شرح ،کہا جاسکے جسے ’معصوم‘

نہیں ہے کوئی ملائک اورانبیاء کے سوا

جوغارِ ثور میں بھی ہم نفس تھا ، آقا کا

بتاؤ کون تھا؟ صدیقِؓ باصفا کے سوا

عمرؓ حبیب خدا کے حبیب تھے ، اس کا

کرے گا نہ کوئی انکار ،اشقیا کے سوا

دو بنت پاک نبیؐ جس کی زوجیت میں رہیں

یہ رُتبہ کس کا ہے ؟ عثمانؓ باحیا کے سوا

خدا کے ایک ولی تھے ،علیؓ بھی ،سچ ہے ، مگر

نہیں ہے کوئی بھی مشکل کُشا خدا کے سوا

اللہ آپ اورآپ کی ٹیم کی صلاحیتوں میں برکت دے۔


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت | نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25