کلامِ رضا پر ایک نظر ۔ ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg

مضمون نگار: ارشاد شاکر اعوان

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Poetic beauty of verses of Ahmad Raza Khan of Braili has tried to be brought into lime light, in the article placed hereunder, by explaining some hidden meaningful aspects of couplets. It is revealed that simple couplets of 'Hadayaq-e-Bakhshish' (book of collection of Naatia poetry of Ahmad Raza Khan R.A.) contains a vast canvas of references of Quran, Traditions, Historical facts etc., and some have been hinted in the article. This introduction of poet's brilliance is to open ways for research in future.

کلامِ رضا پر ایک نظر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

1960ء کی بات ہے، ہم کوئی تین افراد ایک ہی گاؤں سے ہونے کی وجہ سے ٹیچرز ٹریننگ اسکول ہری پور (ہزارہ) کے ہاسٹل نمبر 2 سے نوازے گئے۔ عشاء کی نماز کے لیے سکندر پور جانے والی سڑک پر واقع جامع مسجد میں حاضر ہوئے۔ میں ابھی وتر پڑھ ہی رہا تھا کہ ایک دل نشین و روح پرور صدا گونجی:

مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

شمع بزم رسالت پہ لاکھوں سلام

ہدیۂ نعت لاؤڈ اسپیکر پر اور کورس میں پیش کیا جا رہا تھا۔ ’وتر‘ سے فارغ ہو کر میں بھی اس میں شامل ہو گیا۔ کلام و سلام زبان پر آیا کانوں کے رستے دل میں اتر گیا۔ میں گاؤں سے حفظ قرآن اور تجوید اور درس نظامی کی کتب کی تعلیم موقوف کر کے گیا تھا ]جسے 1962ء کے بعد دوبارہ شروع کرنا نصیب ہوا[ ۔ اس تعلیمی زمانہ میں، اعلیٰ حضرت احمد رضا خان کی نعت گوئی سے ناواقف محض تھا۔ یہ معلوم ہونے کے بعد کہ یہ کلام حدائق بخشش میں ہے جو اعلیٰ حضرت کے کلام کا مجموعہ ہے۔ بازار سے حدائق بخشش حاصل کی یہ تین حصوں پر مشتمل تھی، اسکول کی نوٹ بک جسے ٹائٹل میں چھپی حدائق بخشش کتابت کی غلطیوں سے پر تھی___ تاہم، سچی بات یہ ہے کہ گھر سے جو ذوقِ سخن لے کر چلا تھا اسی کلام سے اسے جلا ملی مگر اغلاط بری طرح کھٹکتی تھیں۔ کچھ عرصہ بعد اچھا ایڈیشن مل گیا مگر کتابت کی غلطیاں تو بدستور موجود تھیں۔ البتہ ایک تو اس سے تیسرا حصہ غائب تھا اور اس پر طرہ یہ کہ شاعری کو اوارد و وظائف کا مجموعہ بنا کر جو تقدس دیا گیا تھا کسی بھی صورت اس کلام کو بطور شاعری پرکھنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا اور اب بھی باب المدینہ کراچی کے نسخے کا یہی حال ہے۔ اس مرشدانہ عمل کو الگ کر کے شاعری کو شاعری رہنے دیا جائے تو احسن ہوگا اس لیے کہ ہر قاری کا ہم مسلک ہونا ضروری نہیں____ اور مذہب بھی اسے جائز نہیں کرتا۔ شاعر چاہے کسی بھی شخصیت کا مالک ہوفی کل وادٍیھیمونo کے الام سے محفوظ نہیں رہ سکتانہ اس قرآنی فیصلے سے ماورا ہو سکتا ہے۔ میں مسلکی کاروبار نہیں چمکا رہا ایک حقیقت واقعہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ایک معتدبہ معتقدین کے امام کے کلام کو اسی حلقے تک محدود کرنے کا عمل بند ہونا چاہیے۔ کلام بھی جو اس طبقہ کا علامتی نشان بن چکا ہے، اغلاط سے پاک ہونا چاہیے کہ اس سے وہ شعریت متاثر ہوتی ہے۔ جو تاثر میں لاجواب ہی نہیں لازوال بھی ہے کہ جب تک مسلک قائم ہے یہ کلام فضاؤں میں گونجتا رہے گا۔

حدائق بخشش کا پہلا شعر (مطلع)

واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحاؐ تیرا


نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

نعتیہ روایت کا سارا رس اور فارسی مدحت سرائی کا سارا مٹھاس، ان سادہ لفظوں میں سمٹ آیا ہے، معنوی حسن کا فرق ملاحظہ ہو۔

نہ رفت لا بزبان مبارکش ہرگز

مگر باشھد اَن لا اِلٰہ الا اللہ

کتنی مفصل حقیقت کو کس اجمال کا لباس شعری پہنا دیا گیا ہے۔ ہر اہل ذوق امام احمد رضا خان کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ذرا اس نعتِ رسولؐ کے اسلوب و ادا اور علمی تبحر کا اندازہ کیجیے

حیّ باقی جس کی کرتا ہے ثنا

مرتے دم تک اس کی مدحت کیجیے

(حیٰ و باقی) کے ساتھ ’مرتے دم‘ لانا۔ شعری لوازم کا بخوبی لحاظ ہے۔ باقی شعروں کو بھی اسی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

سر سے گرتا ہے ابھی بارِ گُنہَ

خَم ذرا فرقِ ارادت کیجیے

’فرق ارادت خم‘‘ کرنے کا قرینہ حقیقت واقعہ ہے سر خم ہوا تو سر کا بار گرنا لازم مگر ارادت کی شرط، عشقِ طبعی و عشقِ ایمانی کے فرق کو کس نفاست سے واضح کرتی ہے____ ہر کسی

کو اس کا ادراک ہونا لازمی نہیں۔

عذر، بدتر از گنہ کا ذکر کیا


بے سبب ہم پر عنایت کیجیے

عنایت خود بھی عطیہ ہے بے سبب کا مبالغہ،عذر گنہ، بدتر از گنہ، کی دلیل جو حسن و زلف

رکھتا ہے، دیکھنے کی جائے ہے، پچاس شعروں کی اس نعتیہ نظم کے دو ایک شعروں سے قطع نظر پوری نعت مدحت پیمبرؐ کا عمدہ نمونہ ہے۔ قافیے اپنے ثقافتی پس منظر کے ساتھ آئے ہیں____ عربی فارسی نعتوں کا احوال تو اور ہی کچھ ہے۔

زعکست ماہ تاباں آفریدند

زبوئے تو گلستان آفریدند


زمہر تو مثالے برگرِ فتند

وزاں مہر سلیماں آفریدند


نہ غیر کبریا جان آفرینے

نہ خود مثل تو جاناں آفریدند


بنا کر دندتا قصر خلافت

ترا شمع شبستاں آفریدند

اس فارسی نعت النبی کا بنیادی حسن تو تشبیہ کی نادرہ کاری ہے۔ یہاں خصوصیات اور خوبیاں مشبہ بہ کی بجائے ’’مشبہ‘‘ کو مل رہی ہیں اور کسی ایک شعر میں نہیں بلکہ آفریدند کی وحدت کاری نے اسے ہر شعر کا لازمہ بنا دیا ہے۔ جو رفعت ذکر رسول انام صلی اﷲ علیہ وسلم کا کمال اہتمام ہے۔ ماہِ تاباں نے عکس رخ انور سے تخلیق پائی۔ خوشبؤے عرق مصطفی سے گلزار مہکے، مہر محمدؐ سے مہر سلیمان نے ظہور کیا، قہر اور مہر کی تجنیس اس پر مستزاد ہے۔ صفت شعری کے بے تکلف استعمال کا حسن الگ تحسین چاہتا ہے مگر حسن معنی تو اپنی مثال آپ ہے۔ نہ غیر کبریا جان آفرینے، تو علم و عرفاں کا خزینہ اور ایمان کا گنجینہ ہے۔ کبریا کے بغیر کوئی جان آفریں نہیں اور خود اس ذات پاک نے تیری طرح کا جانان تخلیق نہیں کیا۔ ’’مسئلہ امکان و امتناع نظیرِ محمدی‘‘ کا کتنا سہل اور مؤثر بیان ہے۔ سبحان اﷲ ، عشق بن یہ ادب نہیں آتا۔ چوتھے شعر میں عقیدۂ ختم نبوت ہی کا ایمانی و اشاری اظہار نہیں ’’اول ما خلق اﷲ نوری‘‘ کی تکرار بھی ہے اور پسر آدم، محمد مصطفیؐ کی مصطفائی کا شمع شبستاں مقدر کیا جانا کلام الٰہی سے ثابت ہے۔

ع ۸۰ وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوْل’‘ مُّصَدِّق’‘ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ (آلِ عمران : ۸۱)

اس آیت کریمہ سے تخلیق ربانی کا شہکار محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا روزِ ازل سے ہی آخری نبی کہ لا نبی بعدہٗ ۔ ہونا ثابت ہے۔ یعنی تخلیق میں اول اور ظہور میں نقطہ پرکارِ حق کی طرح ہر مفہوم آخر____ احمد رضا خان نے دو مصرعوں میں دونوں مفہوم موزوں کر دیئے قصر خلافت کی بنیاد رکھے جانے سے اس کا ذکر متعلق کر دینا___ اجمال کو تفصیل اور تفصیل اجمال بخشش رہے حافظ مظہر الدین کو داد دینا، مناسب ہوگا۔

مقام عشق کا اجمال بھی ہے اک تفصیل

مقام عشق کی تفصیل بھی ہے اک جمال

اعلیٰ حضرت کا زیر بحث شعر اس کا عمدہ نمونہ ہے۔ آیت کریمہ مذکور میں ہر نبی مکرم کا گزرے نبی ؑ کی تعلیم کی توثیق اور آنے والے کی بشارت دینا، گویا فریضۂ نبوت تھا۔ لیکن اس آیت کریمہ میں ’’من کتاب و حکمۃ‘‘ کے الفاظ کی جامعیت پر قربان۔ انبیائے ماسبق کے لیے من کتاب و حکمہ، اور الرسول آخر کے لیے یعلمھم الکتاب والحکیمہ___ کا ارشاد ___ انزلنا اور نزلنا کی ساری باریکیوں کی توضیح کرتا ہے۔

شرع لکم من الدین ما وصی بہٖ نوحاً الخ میں اسی کتاب ہدایت کو الدین بتایا گیا۔ الف لام تعریفی دلیل مزید ____ دراز بود حکایت دراز تر گفتم ، مگر اعلیٰ حضرت احمد رضا خان کا شعر، جامعیت و اختصار کے ساتھ جاذبیت میں بھی شہکار ہے اور تہہ در تہہ معانی کا، فن کارانہ اظہار بھی۔

رجعت الشمس کی حکایت، تعبیرات و مفروضات میں الجھ کر رہ گئی ہے ہمارے نعت گو نے بڑی سادگی و سہولت کے ساتھ اسے شق القمر کے ساتھ جوڑ کر حقیقت حقہ واشگاف کر دی ہے۔

صاحب رجعت شمس و شق القمر

نائب دست قدرت پہ لاکھوں سلام

یہ بات ضمناً آگئی ورنہ مدعا یہ تھا کہ جو حقیقت درج بالا فارسی نعت کے مقطع اور آخری شعر میں بیان ہوئی ہے وہی حقیقت حقہ اس معروف و متداول نعت کے اس شعر میں تمام تر شعری لوازم پورے کرتے ہوئے کہی گئی ہے۔

فتح یاب نبوت پہ بے حد درود

ختم دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام

یہ سادہ سی زبان جو معنوی حسن رکھتی ہے در گفتن و نوشتن نمی آید۔ باب نبوت سے دورِ رسالت تک کے مقدر مفاہیم میں ’’حقیقت محمدی‘‘ کے سارے مضامین ادا ہو رہے ہیں۔ فتح یاب کے لیے بے حد کے تلازمات جیسے لفظی و معنوی حسن کا تو ذکر ہی کیا____ اندرونی آہنگ اور تکرار جیسی صفت کا اہتمام بھی امام کے ہر شعر میں بے تکلف ہوتا ہے مگر ایک سو اٹھہتر ۱۷۸ شعروں کی اس نعتیہ نظم میں ان کا بے تکلف استعمال، نظم کی روانی میں بہہ گیا ہے۔ ان نعتوں میں جوش و جذبہ رک کر غور کرنے دیتا ہی نہیں۔ اِلاّ یہ کہ ’’فصیل پیدائشی‘ جیسی رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں۔ اس نعت کا آغاز نعت کے لغوی مفہوم، سراپا کے بیان سے شروع ہوتا ہے۔ گیسوئے مشک سا کو کرم کی گھٹا بتانے سے لے کر ایک ایک عضوِ بدن، حتیّٰ کہ جزئیات تک بیان ہوئے۔ جبین، لب و رخسار، دوشِ مبارک اور ان کے درمیان مہر نبوت، دل، شکم، ساق و ساعدین، شبنم، باغ حق عرقِ بدن، گلوو دہن، تبسم غم رہا سراپا حرم کف پا، تک کسی جزو و عضو کا بیان نہیں چھوڑا، ناخن ہلال نما اور ہاتھ کی لکیروں کو بھی نہیں بھولے، نرم خوئی اورشان سطوت کی گرمی کا ذکر بھی آیا۔

الغرض ان کے ہر مو پہ لاکھوں درود

ان کی ہر خو و خصلت پہ لاکھوں سلام

خالق کائنات نے جب آپؐ کی تخلیق کو وجہ تخلیق عالمین بتایا تو پھر اس خلاصۂ تخلیق کے حسن خلق و خلق کے بیان کی کسے مجال، بچشم خود دیکھنے والے وصاف بھی اس کی تاب نہ لاسکے، جس حسین خلق و خلق کے چرچے ولادت سے کہیں پہلے ہوئے اور نبی آخرالزماں ؐ کی پہچان کا ذریعہ بنے اس کی محض تخیلاتی بیان اور قیاسی تشبیہات کی اب ضرورت بھی کیا ہے، اب تو آپؐ کی سیرتِ مقدسہ کا ایسا بیان حقیقی نعت ہو گی جس پر غزل کے محبوب کا رنگ ہرگز ہرگز نہ ہو____ اور جو آپؐ کے حسن عمل سے ہم آہنگ ہو کیوں کہ نعت کا حقیقی مقصد ہی محاسن دین کی نشر و اشاعت ہے____ اس جملہ معترضہ کی افادیت ہر شخص جانتا ہے۔ زیر بحث نعت کا پہلا حصہ سراپائے پاک کے بیان سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ نام و نسب کے علاوہ آپؐ کی ذاتِ گرامی سے نسبت، وجہ تحسین و آفرین ٹھہری ہے اس کا آغاز حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی جانبازی سے ہوا۔ عترت باسطوت کو پارہ ہائے صحف اور غنچہ ہائے قدس اور آبِ تطہیر حوالہ بنا۔ حجرہ آرائے عفت بتول، امام المومنین سیدالاسخیاء، راکب دوش نبوت کے علاوہ ایک ایک بانوئے طہارت کا ذکر ہوا ہے۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جن کی شان میں کوئی کتنا مبالغہ کرے گا۔ خلفائے راشدہ کا ذکر آغاز ہونے سے پہلے اُم المومنین، بنت صدیق، جن کی صفائی و عفت کی گواہی عرش سے سورۂ نور بن کر اتری، ان کی کوشک کا بھی بیان آیا تو اعلیٰ حضرت کو عربی الفاظ سے مدد لینی پڑی۔ ذرا حسنِ ادا اور ’’بائے‘‘ کی تکرار سے پیدا ہونے والے سکوت اور فضائے ادب کا اندازہ کیجیے۔

منزل، من قصب لا نصب لا صخب

ایسے کوشک کی زینت پہ لاکھوں سلام

بدر واحد کے شہداء، عشرہ مبشرہ، کاشانۂ اجتہاد کے چاروں ارکان، چار پاروں کو علی الترتیب، افضل الخلق بعدالرسل، اصدق الصادقین، سیدالمتقین ، ثانی اثنین، امام الہدیٰ، صدیق اکبر، وہ خدا دوست عمر فاروق، جن کے اعداء پر سقر شیدا ہے۔ ]کیا بات ہے احمد رضا خاں کی[ در منثور قرآن، ذوالنورین، صاحب قمیص ہدایت حلہ پوش شہادت، جاں نثار شریعت عثمان ابن عفان، رموزِ مواخات میں بھی اخوتِ خاتم المرسلینؐ کا تاج پانے والے، اشجع الاشجعیں، شاہِ خیبر شکن، اولین دافع رفض و خروج، خاتم الخلفاء المھدیین، شیر خدا علی المرتضیٰ_____ وہ مومنین جو فتح مکہ سے پہلے یا بعد اسلام لائے، نہیں نہیں بلکہ جس مسلمان نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایک نظر دیکھنے کا شرف پایا، جملہ ائمہ، اصفیاء، اولیاء کاملین طریقت و حاملین شریعت بے عذاب و عتاب اور حساب کتاب اصحاب اہل سنت، خود ’’رضا وقف ثنا‘‘ اور اس کے اب و جد ذی المجد، اولاد، استاد بلکہ امت محمدیہ کے ایک ایک فرد پر لاکھوں سلام۔ الغرض:

کاملانِ طریقت پہ کامل درود

حاملانِ شریعت پہ لاکھوں سلام

ایک میرا ہی رحمت میں دعویٰ نہیں

شاہ کی ساری امت پہ لاکھوں سلام

ممکن ہے یہ طویل تجزیہ آپ کی طبیعت پر گراں گزرا ہو لیکن اس تفصیل سے حضرت رضا وقف ثناء کی نعت گوئی کا ایک اختصاص ظاہر کرنا مقصود ہے اور وہ یہ احمد رضا خان حضور اکرم رسولِ انام، رحمت کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم سے کسی بھی حوالے سے نسبت کا شرف پانے والے خوش بختوں کی مدح و ثنا کو بھی، مدحت مصطفےٰ ؐ و فدائیاں دین ہدیٰ ہر دور اور ہر زمانے میں موجود رہے ہیں اور ورفعنالک ذکرک کا الٰہی فریضہ نبھاتے رہے ہیں اور تاقیامت نبھاتے رہیں گے ان کے اوصافِ حمیدہ نسل موجود و معود سب کے لیے محرک عمل ہوئے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ اس لیے ان کا بیان نعت رسولؐ سے الگ نہیں ہو سکتا یہ میری ذاتی رائے ہے ہو سکتا ہے آپ متفق نہ ہوں مگر احمد رضا خان کا مجموعۂ کلام اس صفت سے متصف ہے۔ یہ موقع نہیں ورنہ حضرت کی ہر نظم کا اس پہلو سے مطالعہ بے حد لطف رکھتا ہے۔

زیر بحث نعتیہ مجموعہ میں کئی شعروں میں ایک آدھ لفظ محزوف ہونے کی وجہ سے جو بدمزگی پیدا ہوتی ہے۔ اگر اہل ہنر اور ذوقِ نعت کے حاملین مل کر ایسے شعروں کو مکمل کر دیں تو میں سمجھتا ہوں یہ سوئے ادب نہ ہوگا بلکہ اہل ذوق قارئین اور انہیں ورد وظیفہ بنانے والوں پر بھی احسان ہوگا کہ نامکمل اور مہمل کلام کی بے اثری مسلمہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ نعتیہ ادب کی خدمت بھی ہوگی۔ مثلاً

حجر اسود ____ کعبۂ جان و دل

یعنی مہر نبوت پہ لاکھوں سلام

اہل سخن و کاملین فن کو قبول ہو تو نمط لگا دینے سے شعر کی شعریت اور معنویت کو زک نہیں پہنچ رہی اور احمد رضا کے علمی مرتبہ سے بھی پورا پورا لگا، رہے گا۔ شاید میں اپنی حد سے آگے نکل گیا مگر یہ تجویز قبولِ اُفتدز ہے عز و شرف:

پھر منہ نہ پڑے کبھی خزاں کا

دے دے ایسی بہار آقاؐ

اتنی رحمت رضا پہ کر لو

لا یقربہ البوار آقاؐ

سادگی اور بے تکلفی ہی تو عشق کا حسن ہے ’’کر لو‘‘ جیسے کلماتِ خطابیہ کو آئین ادب پر، پرکھنے کی بجائے اسی حسن کا آئینہ دار سمجھنے میں خیر ہے۔ خود احمد رضا یہی عذر پیش کرتے ہیں

ع ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے