گلدستہ معرفت ایک قدیم مجموعہ نعت ، ساجد صدیق نظامی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

ساجد صدیق نظامی۔لاہور


ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Siddiq Nizami has find out an ancient collection of poetry titled Guldasta - e - Marifat' and has laid down some salient features of the same in the cited article. Maulvi Muhmmad Abdus Samad Awaisi Farooqi authored the book by his pen name Kaleem, which got published in 1889 A.D. Devotional poetry of Kaleem is consists of verses written in the shape of Ghazal. Poetic diction is reflective of traditional content of genre of Naat. The writer of the article has introduced the book with the idea of showing historical expansion of literature consisting Naatia content.


گلدستۂ معرفت..............ایک قدیم نعتیہ مجموعہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

2011میں راقم نے نعت رنگ میں قدیم مگر کم معروف نعتیہ دوادین اورمجموعوں پرتعارفی مضامین کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔اس سلسلے کے دومضامین نعت رنگ کے شمارہ ۲۱اور۲۲ میں بالترتیب ’’ذوقِ بشیر،ایک کم یاب اورمنفرد نعتیہ دیوان‘‘اور’’سفینۂ عشقِ مدینہ،توصیف محمدؐ کا ایک نشاں‘‘کے عنوانات سے شائع ہوچکے ہیں ۔اگرچہ یہ نعتیہ مجموعے اردونعت کی تاریخ میں کوئی بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتے مگر یہ ضرور ہے کہ اس قسم کا خام موادمتعلقہ شعبے کے متخصصین اور محققین ،موؤخین کے کام آتاہے ۔بے شک یہ شعرا اوران کی شاعری خاص ادبی مقام نہ رکھتی ہولیکن نعت کے میدان میں جو قدم رکھ دے معتبر ہوہی جاتاہے اس بناپر ان شعرا اوران کے کلام کا کم سے کم تذکرہ ضروری ہے جس طرح اردوادب کی تاریخ میں ذکر توبے شمار شعرا کا کیا جاتاہے مگر فوری طورپر دس بارہ نام ہی یاد آتے ہیں ۔ان شعرا کے معتبر قرار پانے سے بقیہ شعرا جو صف اول،دوم ،سوم سے تعلق رکھتے ہیں ،رد تونہیں کو جاسکتے کیونکہ ادبی روایت قائم ہونے کے دوران کئی گم نام اورکم معروف ادیب اورشاعر روایت میں اپنا حصہ ڈالتے جاتے ہیں۔ان کے ادبی مقام و مرتبہ کا تعین آنے والا عہد خود بہ خود کرتاہے۔

اسی خیال کے پیشِ نظر نعتیہ دوادین /مجموعوں کے تعارف کے سلسلے کو آگے بڑھایا جارہا ہے تاکہ اکثر تخلیقات گو بہت اہم نہ سہی کم سے کم چھپے ہوئے گوشوں سے ایک بار سامنے توآجائیں۔

گلدستۂ معرفت بھی ایک ایساہی مجموعہ ہے جو 1306ھ بمطابق 1889ء میں مطبع رضوی،دہلی میں سید میر حسن کے اہتمام سے شائع ہوا۔اس مجموعے میں مولوی محمدعبدالصمد صاحب اویسی فاروقی متخلص بہ کلیمؔ کی نعتیہ شاعری شائع کی گئی ہے۔مجموعے کے سرورق سے معلوم ہوتاہے کہ عبدالصمد کلیم کا تعلق علی گڑھ سے تھا ان کے بارے میں مزید معلومات مجموعے میں نہیں ملتی ۔سرورق کی عبارت اس طرح ہے : سب سے پہلے سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم جلی حروف میں درج ہے اس کے بعد کی سطر میں لا الہٰ الا اللہ کا کلمہ اوراس کے بعد گول دائرے میں ’’گلدستۂ معرفت 1306 ھ‘‘ درج ہے۔اس دائرے کے بیرونی خط کے گرد یہ عبارت درج ہے:’’من تصنیف شاعر سخن سنج عدیم المثال نازک خیال غواض دریائے معانی کشاف اسرار ربانی مقبول بارگاہ ربِ احد مولوی محمد عبدالصمد صاحب اویسی فاروقی متخلص بہ کلیم ؔ متوطن علی گڑھ۔اس کے دائرے کے نیچے سطرمیں محمدالرسول اللہ جلی حروف میں درج ہے۔آخر میں مطبع کانام اورمہتم کانام درج ہے۔سرورق کی عبارات کے چاروں طرف بیلدار پھولوں کاحاشیہ ہے۔

یہ ممجموعہ 28 صفحات پر مشتمل ہے جس کا بیشتر حصہ نعتیہ غزلیات پرمشتمل ہے شروع کی دس غزلیات میں اکثر متصوفانہ مضامین نظم کیے گئے ہیں۔ان غزلیات کے بعد 21 نعتیہ غزلیات ہیں یہ سلسلہ ص22 تک پھیلا ہواہے۔*ص23 سے 27 تک غزل کی ہیبت میں منقبتیں درج کی گئی ہیں ۔ جن شخصیات کے مناقب بیان کیے گئے ہیں ان کے اسمائے گرامی یوں ہیں:چار یار (مراد حضرت ابوبکرؓوعمرؓ وعثمانؓو علیؓ )حضرت علیؓ ، عبدالقادر جیلانیؒ ،خواجہ عثمان ہارونیؒ ،خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ ،قطب بختیار ؒ ۔یہ غزلیہ منقبتیں تعداد میں آٹھ ہیں ۔عبدالقادر جیلانیؒ اورخواجہ معین چشتیؒ کی دو دو منقبتیں لکھی گئی ہیں۔

مجموعے کے آخرمیں عبدالصمد کلیمؔ کے شاگردوں منشی کریم خاں بیخود ؔ ،سید سراج الدین،امام خاں امام،محمود علی محمود اورمحمد خاں عظیم کے قطعاتِ تاریخ درج ہیں ۔

ایک قطعہ تاریخ دیکھیے:

کیا بلاغت کا ہے کلامِ کلیم

جس سے اہل خرد ہیں سب آگاہ

اس کی تاریخ طبع اے محمود

کر رقم نسخۂ فصاحت واہ

1306ھ

گلدستہۂ معرفت کی نعتیہ غزلیات میں عام طورسے نعت کے مروجہ مضامین ہی نظم ہوئے ہیں۔مثلاً آپ ؐ کے سراپا کا بیان،آپ ؐ کے معجزات کا ذکر ،نعت گوکی دیارِنبی ؐجانے کی خواہش ،ذکرِ معراج،خواب میں زیارتِ رسول ؐ،نعت گوئی کے باعث بخشش کی توقع رکھنا وغیرہ وغیرہ ۔عبدالصمد کلیمؔ نے غزلیات کہتے ہوئے خوش مزاجی کا ثبوت دیاہے۔مروّجہ موضاعات نعت بیان کرنے کے باوجود کلام میں تازگی موجودہے۔کلاسیکی رنگ سخن کا لحاظ رکھتے ہوئے شعر کہے گئے ہیں۔خاص کراپنے تخلص سے کام لیتے ہوئے چند شعر اچھے نکالے ہیں ۔مثلاً :

ملنے کے نہیں وادیِ ایمن میں کلیم اب

خوش آیاہے بس اُن کو صحرائے مدینہ

ارنیِ کہہ کے ہوں دیدار طلب مثل حکیم

روضہ شہہ پہ چلیں موسیٰ عمراں ہم تم

بنے نورِ نبی ؐ سے یہ ارض وسما وہی نور توسب میں ہے جلوہ نما

نظرآئے وہ جلوہ کلیم کوکیا کہ وہ آنکھ نہیں وہ نظرہی نہیں

موسی نے نہ دیکھی رخِ انور کی تجلّی

آنکھیں ہیں کلیم اپنی منور کئی دن سے

حضور ؐ کے دیار میں زندگی گزارنے اوروہیں دفن ہونے کی خواہش یوں کرتے ہیں:

میں اب کے برس ہند سے کرجاؤں گا ہجرت

کہتی رہے گوالفتِ دنیا ابھی کچھ اور

یارب ہو خاکِ گلشنِ طیبہ کلیم زار

ایسانہ ہو کہ ہند میں مٹی خراب ہو

ہوجیے عازم مدینہ کلیم

جلد چلیے کہ قافلہ نکلا

کلیم شاعرانہ تعلّی بھی کام میں لائے ہیں مگر اس طرح کہ نعت کا مضمون ہاتھ سے نہ جانے پائے۔چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

میں نے اوصافِ نبیؐ پڑھ کرسنائے جو کلیم

آپ مژدہ مری بخشش کا سنانے آئے

وصفِ فرقِ سراقدس میں جو مطلع لکھا

بول اٹھی یہ شبِ تار وہ بجلی چمکی

وصفِ احمدؐ میں غزل چاہیے ایسی ہو کلیم

شور سے صل علیٰ کے نہیں محفل خالی

محفل میلاد میں اے دوستو آئے گا لطف

ڈھونڈ کرلاؤ کلیم افصح التقریر کو

مگر توصیفِ احمد ؐ میں عاجزی کا اظہار بھی کرتے ہیں:

اعجاز شہ لکھے گا توکھینچے گا خطِ عجز

دنیا میں اے کلیم تومعجز رقم سہی

بعض جگہ غزل کی ردیف خاصی مشکل رکھی ہے مگر آسانی کے ساتھ نعتیہ مضامین بیان کرتے وہاں سے گزرے ہیں جیسے ردیف وہ بجلی چمکی۔

کلیم صنائع بدائع کے استعمال میں مشاق نظر آتے ہیں خاص حسنِ تعلیل اورمرأہ النظیر سے خوب کام لیاہے۔نعتیہ غزلیات سے پہلے کچھ غزلیات متصوفانہ موضوعات پربھی لکھی گئی ہیں تصوف کے بعض افکار کی نہایت عمدگی سے اشعار کا حصہ بنادیاہے شعر بھی بن گیا ہے اورخیال بھی صاف ظاہر ہوگیاہے ۔ جیسے کہ یہ چندشعر:

تعینات نے گو ایک کوہزار کیا

موحدّوں نے مگر ایک ہی شمار کیا

میں ہی مستِ باد وحدت نہیں منصور وار

ساقیا شورِ اناالحق ہرطرف محفل میں ہے

دم بدم کرپاسبانی دولتِ انفاس کی

مالِ دنیا کیاہے آیا پاس یا جاتا رہا

انتخاب اشعار گلدستۂ معرفت:(حمدیہ)

شاخ میں غنچہ میں ہرگل میں ہے جلوہ تیرا

ہے ہر ایک مرغِ چمن بلبلِ شیدا تیرا

مست ہے تیرے ہی جلوے کی چمن میں نرگس

اور سرو لبِ جو باغ میں جُویا تیرا

بند ہوجائے زباں میری دمِ آخر جب

نام ہرسانس سے جاری ہوخدایا تیرا

(متصوفانہ)

دم بدم کر پاسبانی دولت انفاس کی

مالِ دنیا کیاہے آیا پاس یا جاتا رہا

حیف ہے میں نے نہ دیکھی باغِ طیبہ کی بہار

مثلِ بوئے گل ہمیشہ قافلہ جاتا رہا

یارنے دیدار دکھلایا دمِ آخر کلیم

عمر بھر کے غم اٹھانے کا گلہ جاتا رہا

رونق فزا چمن میں جووہ گل عذارہو

بلبل جو گل کودیکھے توآنکھوں میں خارہو

ہرگل خزاں رسیدہ ہے میری نگاہ میں

وہ گل چمن میں آئے توفصلِ بہارہو

کب تک رہے گا نشۂ غفلت میں اے کلیم

پیری کے دن ہیں اب تو ذراہوشیار ہو

نگاہ میں رہے ساقی نہ میں نہ تو باقی

بس اک نگاہ میں رہ جائے ایک ہوباقی

ہے گل رخوں کو عبث ناز حسنِ صور ت پر

ہے چار روزہ فقط گل میں رنگ و بُو باقی

ملاہے دل کا ہراک مدعا مگر یارب

ہے ایک مدینہ میں جانے کی آرزو باقی

ہردم جو وہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہنا

میرا بھی یہ شیوہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

باقی ہے وہی کچھ نہیں دنیا کی حقیقت

دنیا کو سبب کیاہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

میں کچھ نہیں کہتا یہی کہتے ہو جو ہردم

پھر کون یہ کہتاہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

ساقی کی عنایت ہے مرے حال پہ کیا کچھ

وہ جام پلایا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

لکھی ہے کلیم آپ نے یہ تازہ غزل خوب

کیا خوب یہ لکھاہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

ترا بندہ ہوں تعلق سے کر آزاد مجھے

اپنا غم دے فقط اورخلق میں رکھ شاد مجھے

سروگلزارِحقیقت کو جودیکھے جل جائے

جلوہ دکھلاتا ہے کیاباغ میں شمشاد مجھے

شکل پروانہ جلوں عشق میں پر اُف نہ کروں

مثل بلبل کے توآتی نہیں فریاد مجھے

علم توحید میں حاصل ہے مجھے عین کمال

جز الف اورکوئی حرف نہیں یاد مجھے

مثل گل کیوں نہ کروں چاک گریباں میں کلیم

آگیا اب تومدینہ کا چمن یاد مجھے

کلیم آئینہ شبنم میں جلوہ کس نے دکھلایا

اگر حیرت ہے نرگس کو تواک سکتہ ہے سوسن کو

کون ہے پھر کلیم کا والی

فضل گر توہی اے خدا نہ کرے

میں ہی مستِ باأہ وحدت نہیں منصور وار

ساقیا شورِ انالحق ہرطرف محفل میں ہے

بیٹھے ہم خلوت میں شہرت ہوگئی

ہم چھپے ظاہر کرامت ہوگئی

زندگی کی اب توصورت ہوگئی

سرورِ دیں کی زیارت ہوگئی

منزلیں عرفاں کی سب آسان ہیں

طے اگرراہِ شریعت ہوگئی

آئی جس دم ساقیِ کوثر کی یاد

نزع کی تلخی بھی شربت ہوگئی

زندہ دل کب ہوسِ آبِ بقاکرتے ہیں

ہم تومرجانے کی اے خضر دعاکرتے ہیں

تعینات نے گو ایک کو ہزار کیا

موحّدوں نے مگر ایک ہی شمار کیا

نعتیہ غزلیات

دل بیمار بلاتاہے مسیحا تیرا

چل مدینہ کو وہاں ہوگا مداوا تیرا

شبِ معراج ہے اورکھولے ہیں گیسو شہ نے

عقدہ اب حل ہوا اے عقدِ ثریا تیرا

اے صبا گلشنِ طیبہ ہے ابھی کوسوں دور

کاش لے جائے اڑاکرکوئی جھونکا تیرا

ہاتھ سے ساقیِ کوثر کے پیا جامِ طہور

اے کلیم اب تو کلیجہ ہواٹھنڈا تیرا

محبوب حق الٹتے ہیں گوشہ نقاب کا

اے اہل چرغ پھیر دو منہ آفتاب کا

مدحِ حضور لکھتا ہوں چالاک اے قلم

چل سرکے بل کہ ہے یہی رستہ ثواب کا

رویا تھا آپ کے رخ رنگیں کی یاد میں

تختہ کھلاہے میری لحد میں گلاب کا

کی شہ نے تاجداری چارم فلک عطا

دیکھو عروج عیسیٰ گردوں جناب کا

احمدِ پاک کی آتی ہے بہت یاد مجھے

نیند آنے دے ذرا اے دل ناشاد مجھے

کھینچتاہے دلِ بے تاب مدینے کی طرف

مژد اے بخت کہ حضرت نے کیا یاد مجھے

مجھ کو ہوتی ہے وہیں چشمِ بصیرت حاصل

نامِ احمدؐ پہ نظر آتاہے جب صاد مجھے

قبر میں مجھ کو شہ پاکِ جلانے آئے

کہ مجھے چہرۂ پُر نور دکھانے آئے

رہ طیبہ میں خط سبز نبی یادآیا

حضرتِ خضر مجھے راہ بتانے آئے

میں نے اوصافِ نبی پڑھ کر سنائے جو کلیم

آپ مژدہ مری بخشش کا سنانے آئے

ہل گئے گیسوئے خم دار وہ بجلی چمکی

چمکے حضرت کے وہ رخسار وہ بجلی چمکی

یک بیک ہوگئیں کفار کی آنکھیں بے نور

میان سے نکلی وہ تلوار وہ بجلی چمکی

وصف فرقِ سراقدس میں جو مطلع لکھا

بول اٹھی یہ شبِ تار وہ بجلی چمکی

ہے روئے پیمبر گل رعنائے مدینہ

اوردل ہے مرا بلبل شیدائے مدینہ

ملنے کے نہیں وادیِ ایمن میں کلیم اب

خوش آیا ہے بس ان کو صحرائے مدینہ

ہیں ثنا خوانِ بنی حضرت حساں ہم تم

آؤ اس بزم میں ہوں آج غزل خواں ہم تم

شور ہم دونوں کاہے باغِ جناں میں جامی

چمنِ نعت کے ہیں مرغِ خوش الحاں ہم تم

ارنیِ کہہ کے ہوں دیدار طلب مثل کلیم

روضہ شہ چلیں موسیٰ عمراں ہم تم

جلوۂ ناظر و منظور تھا معراج کی رات

عرش کیا جلوہ گرِ نور تھا معراج کی رات

مہ کو سکتہ ہواخورشید گراغش کھاکر

رخِ پرنور پہ کیا نورتھا معراج کی رات

تھا عجب سازسے آراستہ گلزار بہشت

ہر طرف زمزمۂ حور تھا معراج کی رات

ورد زباں ہے نامِ رسول کریم کا

کھٹکا ہے کس کوحشر میں نارجہیم کا

پالا چچا نے عہد یتیمی میں شاہ کو

جوہر شناس مل گیا دّریتیم کا

ہردم ہے لب پہ اس لبِ معجز نما کا وصف

کب ہے دمِ مسیح سے کم دل کلیم کا

منہ سے جب نام مصطفی نکلا

عرش کے لب سے مرحبا نکلا

چل گئی کس کے نام سے کشتی

نوح کا کون نا خدا نکلا

شہ کے روضے پہ اڑکے جا بیٹھا

طائرِ جاں کا حوصلہ نکلا

ہوجیے عازمِ مدینہ کلیم

جلد چلیے کہ قافلہ نکلا

حاصل تھی عجب عرشِ معلی کو بلندی

تھا اوج پہ قسمت کا ستارا شبِ معراج

نعت گوئی سے نہ رہ اے دلِ غافل خالی

ذکر احمد سے رہی جاتی ہے محفل خالی

کی جو اعدانے عدوات سے نبی کی دعوت

تھا وہیں زہر مضرت سے ہلا ہل خالی

نورسے کاسۂ خورشید کو لب ریز کیا

نہ گیا آپ کے در سے کوئی سائل خالی

وصف احمدؐ میں غزل چاہیے ایسی ہی کلیم

شور سے صل علیٰ کے نہیں محفل خالی

خواب دیکھا ہے میں نے ماہ پر تنویر کو

کوئی کامل چاہیے اس خواب کی تعبیر کو

رتبۂ معراج بخشا صاحب معراج نے

دوشِ اقدس پرچڑھا کر شبروشبیر کو

کی رہِ صد سالہ طے اورآئے جب معراج سے

پایا تب جنبش میں در پُر فیض کی زنجیر کو

لے گئے لکھ کر فرشتے چرغ پرمیرا کلام

ایک وظیفہ کر لیا ہرشعر پُر تاثیر کو

محفلِ میلاد میں اے دوستو آئے گا لطف

ڈھونڈ کر لاؤ کلیم افصح التقریر کو

میں اب کے برس ہند سے کر جاؤں گا ہجرت

کہتی رہے گو الفتِ دنیا ابھی کچھ اور

وَا ہیں پس پردہ جو کلیم آپ کی آنکھیں

دیدار کی باقی ہے تمنا ابھی کچھ اور

روح افزا ہے مدینے کی ہواجاتا ہوں

شوق دیکھو کہ ہوا سے بھی بڑھا جاتا ہوں

چمن ہند میں کھلنے کا نہیں غنچۂ دل

باغِ طیبہ کو میں آئے بادِ صبا جاتاہوں

حضر ت نے مدینے میں جو بلوایا ہے مجھ کو

رکھتا نہیں میں پاؤں زمیں پر کئی دن سے

موسیٰ نے نہ دیکھی رخِ انور کی تجلّی

آنکھیں ہیں کلیم اپنی منور کئی دن سے

دیکھوں ہوتی ہیں مری آنکھیں منور کب تک

اڑ کے آتاہے غبارِ در انور کب تک

چاند سے شکل دکھا دے مجھے اے ماہِ عرب

میں شبِ ہجر میں گنتا رہوں اختر کب تک

بزم اقدس میں رسائی نہیں ہوتی ہے کلیم

یوں میں بیٹھا رہوں زانوپہ رکھے سرکب تک



مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت


نعت رنگ ۔شمارہ نمبر 25