گنبد خضرا ۔ 365 مشہور نعتوں کا انتخاب ۔ ریاض ندیم نیازی
زمرہ: انتخاب
تبصرہ نگار :ناصر زیدی
بشکریہ: روزنامہ پاکستان
"گنبد ِ خضراء کا تعارف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
اس وقت365مشہور نعتوں کا انتخاب ”گنبد ِ خضریٰ“ کے عنوان سے پیش ِ نظر ہے۔ ”مشہور“ کا لاحقہ خود فاضل مرتب ریاض ندیم نیازی نے لگایا ہے اس سلسلے میں ہمارے اپنے تحفظات ہیں، لیکن سرِ دست انھیں ایک طرف رکھتے ہوئے ریاض ندیم نیازی کی کاوش کی حوصلہ افزائی مقصود ہے، وہ یوں کہ وہ ادبی مراکز سے بہت دُور دراز کے علاقے سبی (بلوچستان) میں مقیم ہیں اور وہاں کی گرمی، سردی کی شدتوں میں علم و ادب و نور کا چراغ روشن کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایک لائبریری بھی قائم کر رکھی ہے اور موصولہ دستیاب، کتب و رسائل ہی اُن کے انتخاب کی جَولاں گاہ رہے ہیں۔ اُن کی نظر ِ انتخاب میں آنے و الی یہ365نعتیں اُن کی برسوں کی لگن کا ماحصل ہیں۔ بعض نعتیں واقعی ریڈیو، ٹی وی کے ذریعے اور نعت خوانوں کی محفلوں میں مشہور رہی ہوں گی، مگر صرف شہرت و مقبولیت ہی کو معیار انتخاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نعت کے انتخاب کے لئے تو ایک خاص طرزِ فکر کی ضرورت ہے، جس سے آنحضور ختمی مرتبت کے لئے ادب، آداب اور بیان ِ سیرت کا ایسا اہتمام و التزام ہو کہ وہ آپ کی سیرت کی شان کے شایاں نظر آ سکے۔ میری ایک نعت کا مقطع ہے:
مَیں نعت گوئی میں ناصرِ خیال رکھتا ہوں
نہ لفظ آئے کبھی تو، ترا، تجھے، تیرے
بعض واقعی مشہور نعتوں سے انتخاب ِ اشعار درج کر رہا ہوں کہ رمضان المبارک کے مقدس و مبارک و متبرک ایام میں قارئین روحانی طور پر شادکام ہو سکیں:
حاجیو آﺅ! شہنشاہ کا روضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے کعبے کا کعبہ دیکھو
سلام اے آمنہ کے لال اے محبوب ِ سبحانی
سلام اے فخر ِ موجودات فخر ِ نوعِ انسانی
رسول مجتبیٰ کہیئے، محمد مصطفےٰ کہیئے
خدا کے بعد بس وہ ہیں پھر اس کے بعد کیا کہیئے
بزمِ کونین سجانے کے لئے آپ آئے
شمع ِ توحید جلانے کے لئے آپ آئے
زہے مقدر حضورِ حق سے سلام آیا‘ پیام آیا
جھکاﺅ نظر یں، بِچھاﺅ پلکیں ادب کا اعلیٰ مقام آیا
سر دشت ِ زیست برس گیا جو سحاب ِ رحمت ِ مصطفےٰ
نہ خرد کی بے ثمری رہی، نہ جُنوں کی تشنہ لبی رہی
یہ کون آیا کہ ذرے ذرے سے زندگانی کا نغمہ پھوٹا
یہ کس کے قدموں کی چاپ سُن لی کہ سازِ ہستی گمک رہا ہے
سُرخ رُو حشر میں کیا اب بھی نہ ہو گی اُمّت
خاک اور خون میں تڑپا ہے نواسا تیرا
خدا کا ذکر کرے، ذکرِ مصطفےٰ نہ کرے
ہمارے مُنہ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے!
کتاب کے مرتب ریاض ندیم نیازی کا دعویٰ ہے:
لکھے ہیں نعت کے اشعار مَیں نے کس عقیدت سے
ہے میرا فن نمایاں ”گنبد ِ خضریٰ“ کے سائے میں
یہ دعویٰ بے محل بھی نہیں کہ اُن کے نعتیہ مجموعے ”خوشبو تری جُوئے کرم“ .... ”ہوئے جو حاضر درِ نبی پر“.... اور ”بحر تجلیات“ اہل ِ علم و دانش، صاحبانِ فکر و نظر اور عاشقان ِ رسول مقبول میں واقعی پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ یہ دعویٰ اُن کی اپنی شاعری اور خصوصاً نعتیہ شاعری کے حوالے سے درست ہو سکتا ہے، مگر زیر نظر انتخاب ”گنبد ِ خضریٰ“ کی اکثر نعتوں میں بیان ِ سیرت سے زیادہ ”مَیں“ کے حوالے سے اشعار زیادہ ہیں اور اپنا رونا دھونا یا استغاثہ اپنے بارے میں بیان ِ تفاخر چھایا ہوُا لگتا ہے۔ کتاب کی کوئی ترتیب نہیں، بلکہ بے ترتیبی ہی اس کی ترتیب ہے!
تاہم جدید و قدیم شعراءکی بعض نعتوں کے منتخب اشعار رُوح کی بالیدگی اور ایمان کی تازگی کے لئے دوہرانے میں کوئی حرج نہیں:
خاتمیت کا شرف آپ کو بخشا اور پھر
آپ کی دسترسِ خا ص میں کوثر رکھا
ذاتِ محمد ایک مکمل کتاب ہے
بین السطور جس کی وضاحت ہے دل نشیں
آپ کا سنگِ در ہی دیکھا ہے
آپ کے سنگِ در سے آگے بھی
کوئی مِثل، مصطفےٰ کا کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہو گا
کسی اور کا یہ رُتبہ کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہو گا
نہ مال و زر کی نہ جاہ و حَشم کی خوشبو تھی
سوادِ قلب و نظر میں حَرم کی خوشبو تھی
قریب روضہ¿ اَقدس کی جالیاں تھیں مرے
عقیدتوں میں بسی چشمِ نم کی خوشبو تھی
تھا خوشبوﺅں کے جہاں میں مرا گزر ناصرِ
گہنہ گار بہت تھا، بھرم کی خوشبو تھی
یہ کائناتِ شمس و قمر آپ ہی سے ہے
تابندگی ¿ شام و سحر آپ ہی سے ہے
مقبولِ خاص و عام ہے ناصرِ کی شاعری
اُس کی ریاضتوں کا ثمر، آپ ہی سے ہے
مولانا کوثر نیازی کی نعت کا ایک شعر پڑھ کر فوراً دھیان ایک اور مشہور شعر کی طرف جاتا ہے۔ دونوں شعر ملاحظہ ہوں:
اُس شہر کے ذرّے ہیں مَہ و مہر سے بڑھ کر
جس شہر میں اللہ کے محبوب کا گھر ہے
محمد کا جہاں پر آستاں ہے
زمیں کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے
اِسی طرح ڈاکٹر ریاض مجید کا ایک نعتیہ شعر پڑھ کر ڈاکٹر حسن رضوی مرحوم کے سلام کے ایک شعر کی طرف دھیان گیا دونوں شعر یوں ہیں:
ہے یقیں حشر میں اُٹھوں گا تِرے قدموں سے
کیا غرض اس سے کہ تدفین کہاں ہو میری
مانوس ہوں اتنا تری کربل کی زمیں سے
میں دفن کہیں ہوں مگر اُٹھوں گا وہیں سے
بہرحال.... ”گنبد ِ خضریٰ“ پڑھنے اور محفوظ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
اس نعتیہ مجموعے میں تین شعراءنے اپنی اپنی نعت کے ایک ایک شعر میں اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد کو آنحضور پر فدا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ مُلاحظہ ہوں۔ یہ منفرد اشعار امجد اسلام امجد، آفتاب کریمی اور عظمیٰ جون کی نعتوں سے:
آپ پر ہوں فدا، میرے باپ بھی میری اولاد بھی
آپ کی سمت ہو، میری عمرِ رواں یا نبی، یا نبی
قربان مرے ماں باپ اُن پر اولاد بھی قرباں جاں بھی مری
جو جان سے زیادہ پیارا ہے وہ جانِ جگر ہے طیبہ میں
اے حبیب خدا اے رسول الہ
میرے ماں باپ بھی جان و دل بھی خدا