یہی جی میں ہے ۔ امجد اسلام امجد

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


شاعر: امجد اسلام امجد

نعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہی جی میں ہے

تری رحمتوں کے حصار میں ترے آستاں پہ کھڑا رہوں

تری اُونٹنی کے سفر میں جو ‘اُڑی ریت ‘اُڑ کے دھنک بنی

اُسے اپنی آنکھ سے چوم لوں،اُسے اپنی جاں میں اُتار لوں

اُسی محترم سے غبار میں ،ترے راستوں میں پڑا رہوں

یہی جی میں ہے

یہی جی میں ہے ،ترے شہرمیں کبھی ایسے گھوموں گلی گلی

ترانقشِ پا مرے ساتھ ہو

مجھے یوں لگے کہ قدم قدم

ترے ہاتھ میں مراہاتھ ہو!

ترالطف اس کوسکون دے یہ جو سانس سانس ہے بے کلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرے خوش نظر،مرے چارہ گر ،مرے رازداں ،مرے مہرباں!

یہ جو چارسو ہے خلا مرے ،یہ جووقت بہتا ہے درمیاں

اسے کھول میرے شعور پر

اسے کھول میرے شعور پرکہ نشاں ملے،یہ نشاں ملے

کہ جو واہموں کے چراغ ہیں یہ جلے ہوئے ہیں کہاں کہاں!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہی جی میں ہے ترے درپہ میں

کبھی ایسے جاکے صدا کروں!

توپلٹ کے پوچھے جومُدعا

تومیں بے دھڑک ،تجھے مانگ لوں!!


رسائل و جرائد جن میں یہ کلام شائع ہوا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ ۔شمارہ نمبر 25