’’سرمایہء حیات‘‘ ۔ سید وحید القادری عارفؔ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


سید وحید القادری عارفؔ کا اپنی نعتیہ شاعری پر ایک مضمون

سرمایہء حیات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آقائے دوجہان‘ باعثِ کون و مکان‘ سرورِ انس و جان علیہ افضل الصلوٰۃ و السلامِ فی کل حینٍ و آن کی بارگاہِ بیکس پناہ میں صحابہء کرام علیھم السلام‘ اولیائے عظام علیھم الرحمۃ ‘ عامۃ المومنین سب نے مدح و ثنا کے نذرانہء عقیدت پیش کئے ہیں‘ کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ کبھی ارضِ مکہ میں جب قریش فخر کا اظہار کرنا چاہتے تو جنابِ ابو طالب سلام اللہ علیہ کی آواز آتی :

إذا اجْتَمَعتْ يوماً قُريشُ لِمفْخرٍ

فعبدُ مَنافٍ سِرُّها وَ صَمِيمُها


فإنْ حُصِّلَتْ أشرافُ عبدِ مَنافِها

فَفي هاشمٍ أَشْرافُها وَ قَديمُها


فإنْ فَخرتْ يوماً، فإنَّ محمَّداً

هوَ المُصْطفى مَن سِرُّها وَ كريمُها


تَداعَتْ قُريشٌ غَثُّها وسَمينُها

عَلَيْنا فلم تَظْفَرْ وَ طاشَتْ حُلومُها


وَ كنّا قديماً لا نُقِرُّ ظُلامَة ً

إذا ما ثَنَوْا صُعْرَ الخُدودِ نُقيمُها


وَ نَحْمي حِماها كلَّ يومِ كَريهة ٍ

ونَضْربُ عَن أحجارِها مَن يَرومُها


همُ السَّادة ُ الأعلَوْنَ في كلِّ حالة ٍ

لهمُ صِرمَة ٌ لا يُسْتطاعُ قرومُها


يَدينُ لهُمْ كلُّ البريَّة ِ طاعَة ً

وَ يُكرِمُهم مِلأرضِ عندِي أَديمُها


توکبھی ارضِ مدینہ سے حضرتِ حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ عرض پرداز ہوتے:

شَقَّ لَهُ مِنِ إِسمِهِ كَي يُجِلَّهُ

فَذو العَرشِ مَحمودٌ وَ هَذا مُحَمَّدُ


نَبِيٌّ أَتانا بَعدَ يَأسٍ وَفَترَةٍ

مِنَ الرُسلِ وَ الأَوثانِ في الأَرضِ تُعبَدُ


فَأَمسى سِراجاً مُستَنيراً وَ هَادِياً

وَ أَنذَرَنا ناراً وَ بَشَّرَ جَنَّةً


يَلوحُ كَما لاحَ الصَقيلُ المُهَنَّدُ

وَ عَلَّمَنا الإِسلامَ فَاللَهَ نَحمَدُ


کبھی شہرِ جام سے حضرت عبدالرحمٰن جامیؒ کی سراپا عقیدت آواز آتی ہے ؎

وَ صَلَّی الله عَلی نُورٍ کزو شد نورہا پیدا

زمیں از حُبِِّ او ساکن فلک در عشقِ او شیدا


ازو در ہر تنے ذوقے وزو در ہر دلے شوقے

ازو در ہر زباں ذکرے وزو در ہر سرے سودا


دو چشمِ نرگسینش را کہ مَا زَاغَ الْبَصَرْ خوانند

دو زلفِ عنبرینش را کہ وَ اللَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی


ز سرِّ سینہ اش جامی اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ برخواں

زمعراجش چہ می پرسی کہ سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی


تو کبھی ارضِ کشمیر سے حضرت قدسی مشہدیؒ عرض کناں نظر آتے ہیں ؎

مرحبا سیدِ مکی مدنی العربی

دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی


نخلِ بستانِ مدینہ ز تو سر سبز مدام

زاں شدہ شہرہء آفاق بہ شیریں رطبی


نسبتِ خود بہ سگت کردم و بس منفعلم

زاں کہ نسبت بہ سگِ کوئے تو شد بے ادبی


ماہمہ تشنہ لبانیم و توئی آبِ حیات

لطف فرما کہ ز حد می گذرد تشنہ لبی


چشمِ رحمت بکُشا سوئے من انداز نظر

ائے قریشی لقبی ہاشمی و مطلّبی


اِدھر والیء حیدرآباد آصف جاہِ سابع کی آواز آتی ہے

ائے نطقِ اوّلیں ز ازل خطبہ خوانِ تو

در دوجہاں کسے نہ بود ھم عنانِ تو


ائے باعثِ ظہورِ جہاں فخرِ کائینات

در دھر ھر چہ ھست ھمانا ز آنِ تو


تو اُدھر علامہ اقبالعرض کرتے ہیں :

وہ دانائے سُبُل ختمِ رُسُل مولائے کُل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیء سینا


نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر

وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰس وہی طٰہ


اس طرف امامِ ا ہلِ سنت مولانا احمد رضا خان ؒ کی آواز آتی ہے ؎

واہ کیا جود و سخا ہے شہہ بطحا تیرا

نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا


میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب

یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا


تو اِس طرف بیدمؔ وارثیؒ عرض کناں ہوتے ہیں:

بلائیں لوں تری ائے جذبِ شوق صلِّ علیٰ

کہ آج دامنِ دل کھنچ رہا ہے سوئے رسول


پھر اُن کے نشہء عرفاں کا پوچھنا کیا ہے

جو پی چکے ہیں ازل میں مئی سبوئے رسول


تلاشِ نقشِ کفِ پائے مصطفیٰ کی قسم

چنے ہیں آنکھوں سے ذرّاتِ خاکِ کوئے رسول


یہ نعمتِ رفعِ ذکر ہی تو ہے کہ جو کوئی خالقِ کائینات جل شانہ کا ذکر کرتا ہے وہ سرورِ کائیناتﷺ کا بھی ذاکر ہو جاتا ہے

نعمتِ رفعِ ذکر کیا کہئے

حق کے بعد اُن کا نام کیا کہنا


یا بقول اعلیٰ حضرت فاضل بریلی علیہ الرحمہ

و رفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر

بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا

کون ہے جس نے سرورِ کونین علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بارگاہِ بیکس پناہ میں نذرانہء عقیدت پیش نہ کیا ہو‘ کون سا مقام ہے جہاں حضور پر نور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدح و ثنا نہ بیان کی گئی ہو۔ مداحانِ مصطفیٰ ﷺ میں شاہ بھی ہیں گدا بھی ۔اہلِ ایمان بھی ہیں اور غیر مسلم بھی۔ کیا عرب اور کیا عجم ۔یہ گلہائے رنگا رنگ دنیا کی ہر زبان میں ہر خطہء ارضی سے پیش کئے گئے ‘ کئے جارہے ہیں اور تا قیامِ قیامت کئے جاتے رہیں گے۔ نعتِ رسولِ مقبول ﷺ لکھنا‘ پڑھنا‘ سننا‘ سنانا سب قانونِ قدرت کے عین مطابق ہے اور یہ سب وابستگانِ دامنِ محمدی ﷺ کا سرمایہ ہے۔ میں نے بھی اپنی کم فہمی کے باوجود اس فہرستِ مداحانِ مصطفیٰ ﷺ میں خود کو شامل کرنے کی جسارت کی ہے اور میں اپنے ان نعتیہ اشعار کو اپنا ’’سرمایہء حیات‘‘ سمجھتا ہوں۔میرا یہ ماننا ہے کہ یہ میرے والدِ محترم حضرت ابو الفضل سید محمود قادری علیہ الرحمہ کا فیضِ تربیت ہے جو میرے ان اشعار میں جھلکتا ہے۔ میں دست بدعا ہوں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ درجات پر فائز فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ علاوہ ازیں میرے بزرگوں نے میرا کلام سنا ‘ سراہا اور اپنے بیش قیمت مشوروں سے نوازا ۔ اصحابِ ذوق نے میری کاوشات کی قدر کی اور میری ہمت افزائی فرمائی ۔ اہلِ علم اور اہلِ قلم حضرات نے میرے اس طرزِ سخن پر مضامین لکھے اور مجھے مزید لکھنے کا حوصلہ دیا۔ میری شریکِ حیات نے ان اشعار کو یکجا کرنے اورانہیں ایک مجموعہ کی شکل دینے کی جانب توجہ دلائی بلکہ اصرار کیا۔ میں دل کی گہرائیوں سے ان تما م کا شکر گذار ہوں اور امید کرتا ہوں کہ میری یہ کاوش قارئین کے معیار پر پوری اترے گی ۔

سید وحید القادری عارفؔ

۱۲ نومبر ۲۰۱۳؁ء

جدہ۔ سعودی عرب