آپ «انتقادی اسالیب اور صنفِ نعت ۔ انوار احمد زئی» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:Anwar Ahmad Zai.jpg|link=انوار احمد زئی]]
مضبون نگار: [[انور احمد زئی]]
 
مضمون نگار : [[انوار احمد زئی]]
 
مطبوعہ : [[نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27 ]]


ABSTRACT: The article sheds light on literary movements focusing creative and critical activities in the world. Structuralism, Modernism, Progressive movement , Deconstruction and Ontological theories have also come into discussion. Hali, Shilbi, Muhasmmad Hussain Azad to Mirajee and Muhammad Hsaan Askari 's critical patterns also came into reference besides creative and critical writings in the realm of Naatia domain.
ABSTRACT: The article sheds light on literary movements focusing creative and critical activities in the world. Structuralism, Modernism, Progressive movement , Deconstruction and Ontological theories have also come into discussion. Hali, Shilbi, Muhasmmad Hussain Azad to Mirajee and Muhammad Hsaan Askari 's critical patterns also came into reference besides creative and critical writings in the realm of Naatia domain.


=== انتقادی اسالیب اور صنف ِ نعت ===


ماضی قریب کی بات ہے کہ نعت کو تبرکاً کتاب کے ابتدائی صفحات میں شائع کیا جاتا تھا تاکہ مصنف کے عقیدے اور دین کے ساتھ ساتھ ختمی مرتبت ؐ سے اس کی عقیدت کا اشارہ بھی مل سکے۔ مگر پھربات آگے بڑھی اور خوشبوئے حسانؓ سے ایوانِ ادب مہک اٹھا۔ نعت کو اس مقام پر لانے کا دعویٰ کسی کو زیب نہیں دیتا اس لیے کہ خالق کائنات جس کا ذکر بلندکرنے کا اعلان کرے اس کے نام کا چرچا بہرطور بہرصورت ہونا ہی ہے اور نعت اس کار حسین و جمیل کا استعارہ ہے تاہم جو افراد اور ادارے اس صنف کو بطور ادبی تخصص اپنائے ہوئے ہیں انہیں تسلیم نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔ نعت کہنا عقیدت ہے مگر اسے صنف کی صورت دینا ارادت ہے۔ ان دوکیفیات کے اتصال اورارتباط کے لیے اصول و پیمانے بنانا یا انہیں برتنا اشارت ہے جس کی تفہیم، ترتیب، تنظیم اور تشکیل کی خاطر صنف نعت کے لیے باقاعدگی سے کام کرنا جزوِ عبادت ہے اس لیے اس صنف کو انتقادی اسالیب کے ذریعے سمجھنا اور پرکھنا بھی سعادت ہے۔
ماضی قریب کی بات ہے کہ نعت کو تبرکاً کتاب کے ابتدائی صفحات میں شائع کیا جاتا تھا تاکہ مصنف کے عقیدے اور دین کے ساتھ ساتھ ختمی مرتبت ؐ سے اس کی عقیدت کا اشارہ بھی مل سکے۔ مگر پھربات آگے بڑھی اور خوشبوئے حسانؓ سے ایوانِ ادب مہک اٹھا۔ نعت کو اس مقام پر لانے کا دعویٰ کسی کو زیب نہیں دیتا اس لیے کہ خالق کائنات جس کا ذکر بلندکرنے کا اعلان کرے اس کے نام کا چرچا بہرطور بہرصورت ہونا ہی ہے اور نعت اس کار حسین و جمیل کا استعارہ ہے تاہم جو افراد اور ادارے اس صنف کو بطور ادبی تخصص اپنائے ہوئے ہیں انہیں تسلیم نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔ نعت کہنا عقیدت ہے مگر اسے صنف کی صورت دینا ارادت ہے۔ ان دوکیفیات کے اتصال اورارتباط کے لیے اصول و پیمانے بنانا یا انہیں برتنا اشارت ہے جس کی تفہیم، ترتیب، تنظیم اور تشکیل کی خاطر صنف نعت کے لیے باقاعدگی سے کام کرنا جزوِ عبادت ہے اس لیے اس صنف کو انتقادی اسالیب کے ذریعے سمجھنا اور پرکھنا بھی سعادت ہے۔




اس سفر میں پہلا پڑائو جہاں آتا ہے اسے صنف کی تعریف کہا جاسکتا ہے۔ ادب کے طالب علم کی حیثیت سے یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ [[نعت[[ کی صنف موضوعاتی ہے اسے ہیئتی اعتبار سے محدود کرنا مناسب نہیں۔ بات کو واضح کرنے کی غرض سے کہا جاسکتا ہے کہ جہاں تک ہیئتی اعتبار سے اصنافِ ادب کا تعلق ہے تو اس کے لیے غزل اور نظم ہمارے سامنے ہیں۔ پھر نظم کو بطور مفرد صنف کے ساتھ مرکب صنف کہنا بھی نامناسب نہیں۔ اس لیے اس کی چھتری میں جو اصناف جگہ پاتی ہیں ان میں بیت، ثلاثی، رباعی، مخمس، مسدس، قطعات، مراثی، رجز، مناقب، سلام، دوہے، ہائیکو، کجری، گیت، قصائد، ہجو اور سراپے سب ہی شامل ہیں۔ مگر نعت چوںکہ موضوعاتی صنف ہے اس لیے حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت و تعریف میں جو فکر سامنے آئے وہ نعت تو ہوگی مگر شاعر نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے متذکرہ بالا اسالیب میں سے کس کا انتخاب کیا ہے یوں نعت کی موضوعاتی تشکیل صنف کا مقام پاتے ہوئے بھی نظم کی کسی صنف کا چہرہ اپنائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ قدما نے نعت کہنے کے لیے غزل کی صنف کو اپنایا۔
اس سفر میں پہلا پڑائو جہاں آتا ہے اسے صنف کی تعریف کہا جاسکتا ہے۔ ادب کے طالب علم کی حیثیت سے یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ نعت کی صنف موضوعاتی ہے اسے ہیئتی اعتبار سے محدود کرنا مناسب نہیں۔ بات کو واضح کرنے کی غرض سے کہا جاسکتا ہے کہ جہاں تک ہیئتی اعتبار سے اصنافِ ادب کا تعلق ہے تو اس کے لیے غزل اور نظم ہمارے سامنے ہیں۔ پھر نظم کو بطور مفرد صنف کے ساتھ مرکب صنف کہنا بھی نامناسب نہیں۔ اس لیے اس کی چھتری میں جو اصناف جگہ پاتی ہیں ان میں بیت، ثلاثی، رباعی، مخمس، مسدس، قطعات، مراثی، رجز، مناقب، سلام، دوہے، ہائیکو، کجری، گیت، قصائد، ہجو اور سراپے سب ہی شامل ہیں۔ مگر نعت چوںکہ موضوعاتی صنف ہے اس لیے حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت و تعریف میں جو فکر سامنے آئے وہ نعت تو ہوگی مگر شاعر نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے متذکرہ بالا اسالیب میں سے کس کا انتخاب کیا ہے یوں نعت کی موضوعاتی تشکیل صنف کا مقام پاتے ہوئے بھی نظم کی کسی صنف کا چہرہ اپنائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ قدما نے نعت کہنے کے لیے غزل کی صنف کو اپنایا۔


مرحبا سیدی مکی مدنی العربی
مرحبا سیدی مکی مدنی العربی
سطر 20: سطر 15:
غزل ہی کا روپ تو ہے۔
غزل ہی کا روپ تو ہے۔


[[نسیما جانب بطحا گزر کن]]
نسیما جانب بطحا گزر کن


ز احوالم محمدؐ را خبر کن
ز احوالم محمدؐ را خبر کن
سطر 26: سطر 21:
غزل کی روایت میں نعت کی حکایت ہی تو ہے۔
غزل کی روایت میں نعت کی حکایت ہی تو ہے۔


[[جامی]] کے بعد [[خسرو]] اور دیگر نے یہی انداز اختیار کیا۔
جامی کے بعد خسرو اور دیگر نے یہی انداز اختیار کیا۔


نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم
نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم
سطر 32: سطر 27:
بہر سو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم
بہر سو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم


[[ولی]] کہتے ہیں:
ولی کہتے ہیں:


جس مکاں میں ہے تمہاری فکرِ روشن جلوہ گر
جس مکاں میں ہے تمہاری فکرِ روشن جلوہ گر
سطر 38: سطر 33:
عقلِ اوّل آکے واں اقرارِ نادانی کرے
عقلِ اوّل آکے واں اقرارِ نادانی کرے


[[غالب]] کا انداز:
غالب کا انداز:


منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
سطر 44: سطر 39:
قسمت کھلی ترے خدو رخ سے ظہور کی
قسمت کھلی ترے خدو رخ سے ظہور کی


[[اقبال]] کی شعری میراث سے:
اقبال کی شعری میراث سے:


لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
سطر 50: سطر 45:
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب


[[حفیظ جالندھری]] کا رنگ:
حفیظ جالندھری کا رنگ:


وہ جس کو فاتح ابواب اسرار قدم کہیے
وہ جس کو فاتح ابواب اسرار قدم کہیے
سطر 57: سطر 52:




[[غزل]] کے اس آہنگ میں [[نعت]] کی صنف مرتب ہوتی رہی ہے کہ پھر ادب و شاعری میں نقد و نظر کے حوالے سے ایک انقلاب رونما ہوا۔ بدیسی حکمرانوں نے آ کر جہاں ہمارے شعری ورثے، فکری گنجینے، ادبی خزانے اور تہذیبی اثاثے کو تاراج کیا اور زبان کے ذریعے ہند کی مختلف اکائیوں کو ایک دوسرے سے لڑوانے کی داغ بیل ڈالی اور فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرائسٹ کی سرپرستی میں بظاہر تدوین لسانیات کے نام پر ایسا منظم کام سرانجام دیا جو بڑے بڑوں کی آنکھوں میں دھول جھونک گیا اور نتیجہ کے طور پر ایک جانب فارسی و عربی زبانوں کے ماہر اور عالم افراد کو انگریزی سے ناآشنا ہونے کے سبب درخور اعتنا نہ سمجھا گیا بلکہ اس وقت کی نئی نسل کو بدیسی حکمرانوں کی زبان کو سکۂ رائج الوقت قرار دے کر اپنی روایات سے دور کردیا، اس تبدیلی کے دو اثرات سامنے آئے۔ ایک عقیدے اور عقیدت کے راستے جدا جدا ہوگئے دوسری جانب تنقید کے نام پر ادبی و فکری تخلیقات کو بحور اور عروض کی پہلے سے موجود قیود سے بالاتر رہ کر تنقید کے نئے ضابطوں کا تابع کردیا گیا۔ یہیں وہ مقام آتا ہے جہاں ہمارے تین اکابرین بھی اس تبدیلی کے نہ خود شکار ہوئے بلکہ آئندہ کی وسیع تر تبدیلی کے محرک بھی بنے اور اس تمام کام کو انتقاد اور تنقید کے جدید اصولوں سے موسوم کیا گیا۔
غزل کے اس آہنگ میں نعت کی صنف مرتب ہوتی رہی ہے کہ پھر ادب و شاعری میں نقد و نظر کے حوالے سے ایک انقلاب رونما ہوا۔ بدیسی حکمرانوں نے آ کر جہاں ہمارے شعری ورثے، فکری گنجینے، ادبی خزانے اور تہذیبی اثاثے کو تاراج کیا اور زبان کے ذریعے ہند کی مختلف اکائیوں کو ایک دوسرے سے لڑوانے کی داغ بیل ڈالی اور فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرائسٹ کی سرپرستی میں بظاہر تدوین لسانیات کے نام پر ایسا منظم کام سرانجام دیا جو بڑے بڑوں کی آنکھوں میں دھول جھونک گیا اور نتیجہ کے طور پر ایک جانب فارسی و عربی زبانوں کے ماہر اور عالم افراد کو انگریزی سے ناآشنا ہونے کے سبب درخور اعتنا نہ سمجھا گیا بلکہ اس وقت کی نئی نسل کو بدیسی حکمرانوں کی زبان کو سکۂ رائج الوقت قرار دے کر اپنی روایات سے دور کردیا، اس تبدیلی کے دو اثرات سامنے آئے۔ ایک عقیدے اور عقیدت کے راستے جدا جدا ہوگئے دوسری جانب تنقید کے نام پر ادبی و فکری تخلیقات کو بحور اور عروض کی پہلے سے موجود قیود سے بالاتر رہ کر تنقید کے نئے ضابطوں کا تابع کردیا گیا۔ یہیں وہ مقام آتا ہے جہاں ہمارے تین اکابرین بھی اس تبدیلی کے نہ خود شکار ہوئے بلکہ آئندہ کی وسیع تر تبدیلی کے محرک بھی بنے اور اس تمام کام کو انتقاد اور تنقید کے جدید اصولوں سے موسوم کیا گیا۔




سطر 63: سطر 58:




[[نعت]] کے اگلے انتقادی پہلو کا جائزہ لینے سے قبل ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم باور کریں کہ [[حالی]]، [[شبلی]] اور[[ آزاد ]]کے دور کی شاعری کی وسعت پذیر آدرشوں میں جہاں شعر کے لیے کسی وزن کی ضرورت محسوس کی گئی نہ دیگر ضابطوں کو ملحوظ رکھا گیا۔ وہیں مغرب کے ادب کی بالالتزام تفہیم کی غرض سے اور نام بھی سامنے آئے جن میں میرا جی اور حسن عسکری نمایاں ہیں۔ چوںکہ مغربی ادب کے حوالے سے ان افراد کا مطالعہ وسیع بھی تھا اور وقیع بھی، اس لیے ان حضرات نے بہت سے اشکال کو رفع کیاجو ان سے قبل آنے والی تنقیداور تشریحات کا حصہ بن گئے تھے۔ اسی باعث دیگر تنقید نگاروں نے اپنے اپنے طور پر مغربی تنقید کا مطالعہ کیا اور ڈاکٹر جمیل جالبی کو ارسطو سے ایلیٹ تک کی تحقیق پر مشتمل کتاب کو سامنے لانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔یہ کام بلاشبہ پھیلا ہوا بھی ہے اور فکری اعتبار سے گہرائی و گیرائی آمادہ بھی۔مگر اہل علم جانتے ہیں کہ اس کام سے بہت پہلے میرا جی کی کتاب ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ جمیل جالبی کے بسیط کام کی بنیادرکھ چکی تھی۔ ان کاموں کا اثر یہ ہوا کہ ہمارا ناقد مغرب کے ان ہی پیمانوں میں الجھ گیا اور وہ مشرق کی ہر تخلیق کو مغرب کے تنقیدی اسکیل سے ناپنے لگا۔ استثنیٰ اپنی جگہ تاہم ہمارے دور کے تمام بڑے ناقدین نے یہ انداز اپنالیا کہ وہ اپنی تحریر کا آغاز ارسطو، ایلیٹ، ٹالسٹائی، ایذرا پائونڈ، کارلائل اور روسو سے کرنے لگے۔ ان کا یہ کام مجرمانہ نہ بنتا اگر وہ اپنے اوقاتِ کار میں ان ہی کے دور میں کہی جانے والی نعت کوبھی اپنے احاطۂ نقد و نظر میں سماتے رہتے۔ مگر ان کی یہ غفلت انہیں مغرب زدگی کے الزام سے تو نہ بچاسکی مگر ساتھ ہی عدل و انصاف کے ان تقاضوں سے بھی دور کرگئی جن کے ذریعے وہ خود کو عصری تہذیب اور سماجی تنظیم کو سمجھنے کے داعی گردانتے تھے۔ اسی دوران جدیدیت اور وجودیت کی تحریکیں سامنے آگئیں۔ کانٹ، برگساں اور ہیگل کے فلسفے رونما ہونے لگے جو خدا کو ماننے میںمتعامل تھے اور کائنات کی تخلیق کے قائل ہونے کے باوجود ان کے خالق کے قائل ہونے میں تردد کا اظہار کرتے تھے۔ اسی دوران ہمارے یہاں ترقی پسند تحریک کا اجراء ہوا اور یوں ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی کے نام پر رازق سے بھروسہ اٹھانے اور رزق کو مساویانہ بانٹنے کا گمراہ کن نعرہ لگانے والوں کو ترقی پسند اور باقیوں کو رجعت پسند کہا جانے لگا۔ ظاہر ہے ایسے میں ہمارا نقاد جو خود کو دوسروں سے ممتاز، بڑا اور ہدایت دینے والا سمجھتا تھا وہ اپنے پوڈیم سے نیچے کیسے آتا اور نعت کی صنف پر اظہار خیال کر کے اپنے خودساختہ ادبی الحمرا سے باہر کیوں نکلتا۔
نعت کے اگلے انتقادی پہلو کا جائزہ لینے سے قبل ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم باور کریں کہ حالی، شبلی اور آزاد کے دور کی شاعری کی وسعت پذیر آدرشوں میں جہاں شعر کے لیے کسی وزن کی ضرورت محسوس کی گئی نہ دیگر ضابطوں کو ملحوظ رکھا گیا۔ وہیں مغرب کے ادب کی بالالتزام تفہیم کی غرض سے اور نام بھی سامنے آئے جن میں میرا جی اور حسن عسکری نمایاں ہیں۔ چوںکہ مغربی ادب کے حوالے سے ان افراد کا مطالعہ وسیع بھی تھا اور وقیع بھی، اس لیے ان حضرات نے بہت سے اشکال کو رفع کیاجو ان سے قبل آنے والی تنقیداور تشریحات کا حصہ بن گئے تھے۔ اسی باعث دیگر تنقید نگاروں نے اپنے اپنے طور پر مغربی تنقید کا مطالعہ کیا اور ڈاکٹر جمیل جالبی کو ارسطو سے ایلیٹ تک کی تحقیق پر مشتمل کتاب کو سامنے لانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔یہ کام بلاشبہ پھیلا ہوا بھی ہے اور فکری اعتبار سے گہرائی و گیرائی آمادہ بھی۔مگر اہل علم جانتے ہیں کہ اس کام سے بہت پہلے میرا جی کی کتاب ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ جمیل جالبی کے بسیط کام کی بنیادرکھ چکی تھی۔ ان کاموں کا اثر یہ ہوا کہ ہمارا ناقد مغرب کے ان ہی پیمانوں میں الجھ گیا اور وہ مشرق کی ہر تخلیق کو مغرب کے تنقیدی اسکیل سے ناپنے لگا۔ استثنیٰ اپنی جگہ تاہم ہمارے دور کے تمام بڑے ناقدین نے یہ انداز اپنالیا کہ وہ اپنی تحریر کا آغاز ارسطو، ایلیٹ، ٹالسٹائی، ایذرا پائونڈ، کارلائل اور روسو سے کرنے لگے۔ ان کا یہ کام مجرمانہ نہ بنتا اگر وہ اپنے اوقاتِ کار میں ان ہی کے دور میں کہی جانے والی نعت کوبھی اپنے احاطۂ نقد و نظر میں سماتے رہتے۔ مگر ان کی یہ غفلت انہیں مغرب زدگی کے الزام سے تو نہ بچاسکی مگر ساتھ ہی عدل و انصاف کے ان تقاضوں سے بھی دور کرگئی جن کے ذریعے وہ خود کو عصری تہذیب اور سماجی تنظیم کو سمجھنے کے داعی گردانتے تھے۔ اسی دوران جدیدیت اور وجودیت کی تحریکیں سامنے آگئیں۔ کانٹ، برگساں اور ہیگل کے فلسفے رونما ہونے لگے جو خدا کو ماننے میںمتعامل تھے اور کائنات کی تخلیق کے قائل ہونے کے باوجود ان کے خالق کے قائل ہونے میں تردد کا اظہار کرتے تھے۔ اسی دوران ہمارے یہاں ترقی پسند تحریک کا اجراء ہوا اور یوں ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی کے نام پر رازق سے بھروسہ اٹھانے اور رزق کو مساویانہ بانٹنے کا گمراہ کن نعرہ لگانے والوں کو ترقی پسند اور باقیوں کو رجعت پسند کہا جانے لگا۔ ظاہر ہے ایسے میں ہمارا نقاد جو خود کو دوسروں سے ممتاز، بڑا اور ہدایت دینے والا سمجھتا تھا وہ اپنے پوڈیم سے نیچے کیسے آتا اور نعت کی صنف پر اظہار خیال کر کے اپنے خودساختہ ادبی الحمرا سے باہر کیوں نکلتا۔




یہاں آکر ایک بات کا احساس شدید تر ہوتا ہے کہ مغرب نے نہایت عمدگی سے، چالاکی سے اور ذہانت سے ہمارے ادبی ماحول میں مختلف تحریکات کے ڈول ڈال کر ہمارے نقادوں کو ان کا اسیر بنایا تاکہ وہ ہر اس تخلیق اور نگارش کی نفی کریں یا کم از کم درخوراعتناء نہ سمجھیں جو عقیدت کے سفر سے آراستہ ہو۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جس طرح مغرب نے مشنری اسکولوں اور مشنری صحت کے اداروں کے ذریعے یہاں کے سادہ لوح افراد کو پہلے تو اپنے مذہب سے قریب کرنے کی کوششیں کیں اور پھر یہ اصول برتا کہ اگر مقامی افراد ان کی طرف نہ آسکیں تو کم از کم اپنے عقائد سے بھی دور ہوجائیں یا ان کے لیے شک و شبے کا اظہار ہی شعارِ حیات بنالیں۔ اس طرزِ ادا نے ہمارے ادب کو راہِ راست سے دور کیااور نقاد کو صراطِ مستقیم سے ناآشنا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ان تحریکات کے جلو میں جہاں دین سے بے بہرہ اور عقیدے سے دور ملحدین نے جنم لیا وہاں فرعون کے گھر میں موسیٰ بھی موجود رہے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ سید حسن عسکری جیسے نقاد نے ترقی پسند تحریک کوللکارا تو دوسری طرف نعت رنگ جیسے تحقیقی، عالمی، نظریاتی اور فکری پرچے کو تسلسل سے شائع کر کے [[سید صبیح رحمان]]ی اور ان کی ٹیم نے یہی نعرہ لگایا کہ
یہاں آکر ایک بات کا احساس شدید تر ہوتا ہے کہ مغرب نے نہایت عمدگی سے، چالاکی سے اور ذہانت سے ہمارے ادبی ماحول میں مختلف تحریکات کے ڈول ڈال کر ہمارے نقادوں کو ان کا اسیر بنایا تاکہ وہ ہر اس تخلیق اور نگارش کی نفی کریں یا کم از کم درخوراعتناء نہ سمجھیں جو عقیدت کے سفر سے آراستہ ہو۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جس طرح مغرب نے مشنری اسکولوں اور مشنری صحت کے اداروں کے ذریعے یہاں کے سادہ لوح افراد کو پہلے تو اپنے مذہب سے قریب کرنے کی کوششیں کیں اور پھر یہ اصول برتا کہ اگر مقامی افراد ان کی طرف نہ آسکیں تو کم از کم اپنے عقائد سے بھی دور ہوجائیں یا ان کے لیے شک و شبے کا اظہار ہی شعارِ حیات بنالیں۔ اس طرزِ ادا نے ہمارے ادب کو راہِ راست سے دور کیااور نقاد کو صراطِ مستقیم سے ناآشنا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ان تحریکات کے جلو میں جہاں دین سے بے بہرہ اور عقیدے سے دور ملحدین نے جنم لیا وہاں فرعون کے گھر میں موسیٰ بھی موجود رہے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ سید حسن عسکری جیسے نقاد نے ترقی پسند تحریک کوللکارا تو دوسری طرف نعت رنگ جیسے تحقیقی، عالمی، نظریاتی اور فکری پرچے کو تسلسل سے شائع کر کے سید صبیح رحمانی اور ان کی ٹیم نے یہی نعرہ لگایا کہ


اگرچہ بت ہیں جماعت کے آستینوں میں
اگرچہ بت ہیں جماعت کے آستینوں میں
سطر 73: سطر 68:




اسی طرح دیگر افراد و ادارے مثلاً [[طاہر سلطانی]] کی نگرانی میں مجلہ حمد اور ماہانہ حمدیہ مشاعرے یا [[قمر وارثی]] کی ماہانہ ردیفی مجلسیں اس تحریک میں مہمیز کی دلیل ہیں۔ اس ماحول کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ ان تحریکات میں سب سے زیادہ متحرک اور متاثرکن تحریک کیا ہے جس کا نام وجودیت ہے اور جو دراصل جدیدیت کی ماں اور منصوبے کے تحت علامتی طرز ادا کی نانی کہلائی جاسکتی ہے۔ اس موضوع پر معارفِ اسلامیہ میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دراصل وجودیت کی تحریک ہی نے عالمی ادب کو حقیقی ڈگر سے ہٹا کرتشکیک کی منزل تک پہنچایا۔ اس تحریک نے مذہب، انسان، خدا، کائنات اور مظاہر قدرت کے بارے میں ایسی فضا تیار کی کہ ادباء اور شعراء اسے جدیدیت سے ہم رشتہ سمجھتے ہوئے اپنے قارئین کو مذہب سے دور لے جانے لگے اور اس صورتحال میں سب سے زیادہ صنفِ نعت کومتاثر کرنے کی کوشش کی گئی جس کا تفصیلی مطالعہ ناگزیر ہے۔
اسی طرح دیگر افراد و ادارے مثلاً طاہر سلطانی کی نگرانی میں مجلہ حمد اور ماہانہ حمدیہ مشاعرے یا قمر وارثی کی ماہانہ ردیفی مجلسیں اس تحریک میں مہمیز کی دلیل ہیں۔ اس ماحول کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ ان تحریکات میں سب سے زیادہ متحرک اور متاثرکن تحریک کیا ہے جس کا نام وجودیت ہے اور جو دراصل جدیدیت کی ماں اور منصوبے کے تحت علامتی طرز ادا کی نانی کہلائی جاسکتی ہے۔ اس موضوع پر معارفِ اسلامیہ میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دراصل وجودیت کی تحریک ہی نے عالمی ادب کو حقیقی ڈگر سے ہٹا کرتشکیک کی منزل تک پہنچایا۔ اس تحریک نے مذہب، انسان، خدا، کائنات اور مظاہر قدرت کے بارے میں ایسی فضا تیار کی کہ ادباء اور شعراء اسے جدیدیت سے ہم رشتہ سمجھتے ہوئے اپنے قارئین کو مذہب سے دور لے جانے لگے اور اس صورتحال میں سب سے زیادہ صنفِ نعت کومتاثر کرنے کی کوشش کی گئی جس کا تفصیلی مطالعہ ناگزیر ہے۔




سطر 87: سطر 82:
اسلام کی یا کسی بھی مذہب کی مغربی فلسفوں خصوصاً وجودیت سے تطبیق کی کوشش اور اس سے مماثلتوں کی جستجو اصولاً درست نہیں کیوںکہ اس سے مغالطہ پیدا ہوتا ہے۔ مذاہب معرفتِ ذاتِ الٰہی، اس کے پیغامات لانے والے پیغمبروں کی منزلت، عرفانِ ذات اور تہذیب الاخلاقیاتِ انسانی پر زور دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان پروردگار عالم کی شاہکار مخلوق ہے۔ اس کے برعکس وجودیت کی ایک اساس لاشیئیت (Nothingness) ہے۔ اس کے علاوہ مذہب انسانی وجود کو ایک مربوط اور باہمی متعاون کلّی مانتے ہیں اور ذات کی تکمیل اور شخصیت کی مکملیت کے علاوہ کائنات سے اس کے تعلق میں اعتقاد رکھتے ہیں۔ دوسری طرف وجودیت کا ایک اہم تصور اجنبیت (Alienation) ہے۔ جس کے ایک سے زیادہ مفہوم بتائے گئے ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک منفی ہے اور دین اسلام کی اثباتی روح کے خلاف اور بعض تو سائنس کی مرکزی روح سے بھی متصادم ہیں۔ اس اجنبیت کا ایک مفہوم مجبوری ہے۔
اسلام کی یا کسی بھی مذہب کی مغربی فلسفوں خصوصاً وجودیت سے تطبیق کی کوشش اور اس سے مماثلتوں کی جستجو اصولاً درست نہیں کیوںکہ اس سے مغالطہ پیدا ہوتا ہے۔ مذاہب معرفتِ ذاتِ الٰہی، اس کے پیغامات لانے والے پیغمبروں کی منزلت، عرفانِ ذات اور تہذیب الاخلاقیاتِ انسانی پر زور دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان پروردگار عالم کی شاہکار مخلوق ہے۔ اس کے برعکس وجودیت کی ایک اساس لاشیئیت (Nothingness) ہے۔ اس کے علاوہ مذہب انسانی وجود کو ایک مربوط اور باہمی متعاون کلّی مانتے ہیں اور ذات کی تکمیل اور شخصیت کی مکملیت کے علاوہ کائنات سے اس کے تعلق میں اعتقاد رکھتے ہیں۔ دوسری طرف وجودیت کا ایک اہم تصور اجنبیت (Alienation) ہے۔ جس کے ایک سے زیادہ مفہوم بتائے گئے ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک منفی ہے اور دین اسلام کی اثباتی روح کے خلاف اور بعض تو سائنس کی مرکزی روح سے بھی متصادم ہیں۔ اس اجنبیت کا ایک مفہوم مجبوری ہے۔


[[میرتقی میر]] کا یہ شعر اس کا مظہر ہے۔
میرتقی میر کا یہ شعر اس کا مظہر ہے۔


ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
سطر 100: سطر 95:
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا


یا [[مومن]] کا یہ شعر کہ:
یا مومن کا یہ شعر کہ:


اللہ رے گمرہی بت و بت خانہ چھوڑ کر
اللہ رے گمرہی بت و بت خانہ چھوڑ کر
سطر 106: سطر 101:
مومن چلا ہے کعبے کے ایک پارسا کے ساتھ
مومن چلا ہے کعبے کے ایک پارسا کے ساتھ


اسی طرح [[غالب]] نے کہا تھا کہ:
اسی طرح غالب نے کہا تھا کہ:


دیر و حرم آئینۂ تکرار تمنا
دیر و حرم آئینۂ تکرار تمنا
سطر 113: سطر 108:




جبکہ [[فیض]] تو اپنے ہم خیال دیگر شعراء کے ایک بہت بڑے گروہ کے ساتھ یہ تک کہہ گئے کہ؛
جبکہ فیض تو اپنے ہم خیال دیگر شعراء کے ایک بہت بڑے گروہ کے ساتھ یہ تک کہہ گئے کہ؛


اک فرصتِ گناہ ملی وہ بھی چار دن
اک فرصتِ گناہ ملی وہ بھی چار دن
سطر 119: سطر 114:
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے


حالاں کہ [[اقبال]] کے یہاں مطالعہ اسلام اپنی وسعتوں میں بے کراں ہے اور خود ان کا اسلام کا حرکی فلسفہ بار بار جنتِ گم گشتہ کو بازیاب کرنے کی کوششوں میں ہے تاہم انہوں نے بھی کہہ دیا کہ؛
حالاں کہ اقبال کے یہاں مطالعہ اسلام اپنی وسعتوں میں بے کراں ہے اور خود ان کا اسلام کا حرکی فلسفہ بار بار جنتِ گم گشتہ کو بازیاب کرنے کی کوششوں میں ہے تاہم انہوں نے بھی کہہ دیا کہ؛


باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
سطر 141: سطر 136:




یہاں یہ ذکر شاید بے جا نہ ہو کہ اس تحریک سے متاثر ہو کر جب انجمن ترقی پسند مصنفین بنائی گئی تو اس میں اپنے وقت کے جید شعراء اور ادباء شامل ہوگئے جس کے باعث [[نعت]]، [[حمد]]، [[سلام]]، [[مراثی]]، [[مناقب]] اور [[قصیدہ | قصائد ایمانی]] لکھنے والوں نے اپنی راہ بدل لی۔ جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک کے سالارِ اعظم سید سجاد ظہیر کی بیٹی نے اپنی کتاب ’’میرے حصے کی روشنائی‘‘ میں خود تحریر کیا ہے کہ ایک صبح ناشتے کی میز پر ہمارے یہاں آئی مہمان ہماری پھوپی نے جو عمر میں ہمارے والد سے بڑی تھیں پوچھ لیا کہ سجاد! تم کیا کررہے ہو، دین اور مذہب سے ماوریٰ تحریک چلارہے ہو جبکہ ایک وقت میں تم محلہ کی مسجد میں اذان دیا کرتے تھے اور یوں بھی تم نے پندرہ پارے حفظ کرلیے تھے، تو یہ سن کر سجاد ظہیر نے اپنی بہن سے کہا ’’چھوڑیئے آپا، وہ سب زمانۂ جاہلیت کی باتیں تھیں‘‘ اس ایک جملہ سے منظرنامے کی تبدیلی سے پوری طرح آگاہی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح[[ فیض]] نے جو مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی اور تعلیم کا آغاز عربی سے کیا تھا، ساتھ ہی بارہ پارے حفظ کرلیے تھے، پھر ان کا رخ بھی کسی اور طرف ہوگیا۔
یہاں یہ ذکر شاید بے جا نہ ہو کہ اس تحریک سے متاثر ہو کر جب انجمن ترقی پسند مصنفین بنائی گئی تو اس میں اپنے وقت کے جید شعراء اور ادباء شامل ہوگئے جس کے باعث نعت، حمد، سلام، مراثی، مناقب اور قصائد ایمانی لکھنے والوں نے اپنی راہ بدل لی۔ جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک کے سالارِ اعظم سید سجاد ظہیر کی بیٹی نے اپنی کتاب ’’میرے حصے کی روشنائی‘‘ میں خود تحریر کیا ہے کہ ایک صبح ناشتے کی میز پر ہمارے یہاں آئی مہمان ہماری پھوپی نے جو عمر میں ہمارے والد سے بڑی تھیں پوچھ لیا کہ سجاد! تم کیا کررہے ہو، دین اور مذہب سے ماوریٰ تحریک چلارہے ہو جبکہ ایک وقت میں تم محلہ کی مسجد میں اذان دیا کرتے تھے اور یوں بھی تم نے پندرہ پارے حفظ کرلیے تھے، تو یہ سن کر سجاد ظہیر نے اپنی بہن سے کہا ’’چھوڑیئے آپا، وہ سب زمانۂ جاہلیت کی باتیں تھیں‘‘ اس ایک جملہ سے منظرنامے کی تبدیلی سے پوری طرح آگاہی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح فیض نے جو مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی اور تعلیم کا آغاز عربی سے کیا تھا، ساتھ ہی بارہ پارے حفظ کرلیے تھے، پھر ان کا رخ بھی کسی اور طرف ہوگیا۔




ترقی پسند تحریک کے تناظر میں عہد جدید کے نابغہ روزگار علمی، ادبی اور روحانی شخصیت حضرت ڈاکٹر غلام مصطفی خاںؒ کی تحریر ہماری رہنمائی اور موضوعِ زیربحث کو سمجھنے کے لیے موجود ہے جس کا احاطہ [[مسرو احمد زئی | برادر عزیز ڈاکٹر مسرور احمد زئی]] نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے ’’ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، حالات، علمی و ادبی خدمات‘‘ کے زیرعنوان صفحہ 338پر اس طرح کیا ہے۔
ترقی پسند تحریک کے تناظر میں عہد جدید کے نابغہ روزگار علمی، ادبی اور روحانی شخصیت حضرت ڈاکٹر غلام مصطفی خاںؒ کی تحریر ہماری رہنمائی اور موضوعِ زیربحث کو سمجھنے کے لیے موجود ہے جس کا احاطہ برادر عزیز ڈاکٹر مسرور احمد زئی نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے ’’ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، حالات، علمی و ادبی خدمات‘‘ کے زیرعنوان صفحہ 338پر اس طرح کیا ہے۔




سطر 168: سطر 163:




اس طرح بات سمجھ میں آتی ہے کہ مغرب کے جدید تنقیدی اسلوب نے شاعری پر جو اثر کیا وہ الگ ہے مگر نعت کہنے والوں کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا وہی دراصل اس سارے عمل کا شاخسانہ اور جدید تحریک کی جانب سے تازیانہ ہے۔ اسی نے ہمارے عقیدت کے سفر کو نشانہ بنایا اور وہ بھی اس قدر کہ محمد سہیل عمر کے الفاظ میں ’’ترقی پسند تحریک کے اہم لوگوں میں پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں احمد ندیم قاسمی کا رویہ واضح ہے اور وہ بھی ترقی پسند نقادوں سے نعت لکھنے پر گالیاں کھاچکے ہیں اور یہ سب اعتراضات مطبوعہ صورت میں موجود ہیں۔‘‘ اس تناظر میں [[اقبال'' نے جدید علوم سے بہرہ مند ہو کر بھی جس عقیدے اور عقیدت کا مظاہرہ کیا وہ مغرب کے تخریبی طوفان میں تعمیر کا استعارہ ہے کہ
اس طرح بات سمجھ میں آتی ہے کہ مغرب کے جدید تنقیدی اسلوب نے شاعری پر جو اثر کیا وہ الگ ہے مگر نعت کہنے والوں کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا وہی دراصل اس سارے عمل کا شاخسانہ اور جدید تحریک کی جانب سے تازیانہ ہے۔ اسی نے ہمارے عقیدت کے سفر کو نشانہ بنایا اور وہ بھی اس قدر کہ محمد سہیل عمر کے الفاظ میں ’’ترقی پسند تحریک کے اہم لوگوں میں پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں احمد ندیم قاسمی کا رویہ واضح ہے اور وہ بھی ترقی پسند نقادوں سے نعت لکھنے پر گالیاں کھاچکے ہیں اور یہ سب اعتراضات مطبوعہ صورت میں موجود ہیں۔‘‘ اس تناظر میں اقبال نے جدید علوم سے بہرہ مند ہو کر بھی جس عقیدے اور عقیدت کا مظاہرہ کیا وہ مغرب کے تخریبی طوفان میں تعمیر کا استعارہ ہے کہ


خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوئہ دانشِ فرنگ
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوئہ دانشِ فرنگ
سطر 185: سطر 180:




یہاں [[نعت رنگ]] کے محرک اور نعت ٹرسٹ کے بانی صاحب اسلوب نعت گو[[ صبیح رحمانی |  جناب صبیح رحمانی]] نے ’’اردو نعت کی شعری روایت‘‘ مرتب کر کے تو کمال کیا ہی تھا اس میں اپنی رائے شامل کر کے موضوع کو حسین تر بنادیا ہے۔ ان کا یہ خیال بڑا معنی خیز اور متذکرہ بالا سطور سے ہم آہنگ ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ہمارے یہاں ایک طویل مدت تک نعت نبیؐ کو محض عقیدت و محبت کا پیرایہ سمجھا گیا۔ یہی سبب ہے کہ اردو زبان و ادب کے فروغ کی دو ڈھائی صدیوں میں نعت کو عقیدت کے زمرے میں رکھے جانے کی وجہ سے اس کی علمی، فکری اور جمالیاتی حیثیت سے اغماز کی فضا پیدا ہوگئی اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ حالی اپنے مقدمہ شعر و شاعری میں ادب و سخن کے معیارات، قواعد، اصولوں پر ساری بات کرتے ہیں مگر نعت کے بارے میں کچھ نہیں کہتے… قیام پاکستان سے پہلے کا نعتیہ منظرنامہ نعت کی تخلیقی نہج پر تو بقعۂ نور نظر آتا ہے لیکن تنقیدی اور تحقیقی کام کی نوعیت پر گھٹاٹوپ اندھیرے کا گمان ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ نعت کی اس روایتی تخلیقی نہج کو اس عہد کے بڑے نقادوں نے بہ وجوہ کچھ زیادہ قابل اعتنا نہیں سمجھا اور اس پر وہی پرانا عقیدت کا عنوان چسپاں کر کے اسے ادب کے مرکزی دھارے سے الگ رکھا۔ یہ حقیقت رشید احمد صدیقی جیسی بلند پایہ شخصیت کی رائے سے مترشح ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ رشید احمد صدیقی بائیں بازو کے نظریات کے حامی نہیں تھے بلکہ ان کا جھکائو دائیں بازو کے افکار کی طرف تھا اس کے باوجود روایتی نعتیہ فضا کے بارے میں ان کی رائے یہ تھی۔
یہاں نعت رنگ کے محرک اور نعت ٹرسٹ کے بانی صاحب اسلوب نعت گو جناب صبیح رحمانی نے ’’اردو نعت کی شعری روایت‘‘ مرتب کر کے تو کمال کیا ہی تھا اس میں اپنی رائے شامل کر کے موضوع کو حسین تر بنادیا ہے۔ ان کا یہ خیال بڑا معنی خیز اور متذکرہ بالا سطور سے ہم آہنگ ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ہمارے یہاں ایک طویل مدت تک نعت نبیؐ کو محض عقیدت و محبت کا پیرایہ سمجھا گیا۔ یہی سبب ہے کہ اردو زبان و ادب کے فروغ کی دو ڈھائی صدیوں میں نعت کو عقیدت کے زمرے میں رکھے جانے کی وجہ سے اس کی علمی، فکری اور جمالیاتی حیثیت سے اغماز کی فضا پیدا ہوگئی اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ حالی اپنے مقدمہ شعر و شاعری میں ادب و سخن کے معیارات، قواعد، اصولوں پر ساری بات کرتے ہیں مگر نعت کے بارے میں کچھ نہیں کہتے… قیام پاکستان سے پہلے کا نعتیہ منظرنامہ نعت کی تخلیقی نہج پر تو بقعۂ نور نظر آتا ہے لیکن تنقیدی اور تحقیقی کام کی نوعیت پر گھٹاٹوپ اندھیرے کا گمان ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ نعت کی اس روایتی تخلیقی نہج کو اس عہد کے بڑے نقادوں نے بہ وجوہ کچھ زیادہ قابل اعتنا نہیں سمجھا اور اس پر وہی پرانا عقیدت کا عنوان چسپاں کر کے اسے ادب کے مرکزی دھارے سے الگ رکھا۔ یہ حقیقت رشید احمد صدیقی جیسی بلند پایہ شخصیت کی رائے سے مترشح ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ رشید احمد صدیقی بائیں بازو کے نظریات کے حامی نہیں تھے بلکہ ان کا جھکائو دائیں بازو کے افکار کی طرف تھا اس کے باوجود روایتی نعتیہ فضا کے بارے میں ان کی رائے یہ تھی۔




سطر 191: سطر 186:




[[رشید احمد صدیقی]] کی ان دوا ٓراء کی روشنی میں اگر ایک اور وقیع ادیب کی رائے کو دیکھا جائے تو سکّے کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق فرماتے ہیں کہ ’’ابتدائے اسلام سے اب تک نعتیہ ادب کا ایک عظیم ذخیرہ اور قیمتی خزانہ جمع ہوگیا ہے جو ادبی اور علمی لحاظ سے خود دنیا کا بہترین ادب شمار ہوتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ادب کی تحقیق، تنقید اور تشریح کی طرف دنیائے اسلام میں تاحال کماحقہ توجہ نہ ہوسکی۔ شکر ہے کہ ہمارے دور میں احساس بیدار ہوا ہے اور اب ایسے ارباب علم و ادب اور ادارے فروغ پارہے ہیں جنہوں نے اس کام کو آگے بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔‘‘
رشید احمد صدیقی کی ان دوا ٓراء کی روشنی میں اگر ایک اور وقیع ادیب کی رائے کو دیکھا جائے تو سکّے کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق فرماتے ہیں کہ ’’ابتدائے اسلام سے اب تک نعتیہ ادب کا ایک عظیم ذخیرہ اور قیمتی خزانہ جمع ہوگیا ہے جو ادبی اور علمی لحاظ سے خود دنیا کا بہترین ادب شمار ہوتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ادب کی تحقیق، تنقید اور تشریح کی طرف دنیائے اسلام میں تاحال کماحقہ توجہ نہ ہوسکی۔ شکر ہے کہ ہمارے دور میں احساس بیدار ہوا ہے اور اب ایسے ارباب علم و ادب اور ادارے فروغ پارہے ہیں جنہوں نے اس کام کو آگے بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔‘‘




سطر 215: سطر 210:




[[نعت]] کو عقیدت کا سفر کہیے جو منزل یابی کی تمنائی نہیں منظر شناسی کی کاوش ہے۔ اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ نعت کو شاعری کی تعریف کے ساتھ منظر شناسی کی سرشاری سے بھی ناپا جائے۔ یہی وہ کام ہے جو نعت کو بطور صنف تسلیم کرنے اور کرانے کے لیے اسالیب اور انتقاد کا متقاضی ہے اور یہ اسالیب وہ نہیں جو ایک طرف تو ازکار رفتہ ہوچکے اور دوسری طرف رہبر بننے کے بجائے رہزن بنتے رہے ہیں۔
نعت کو عقیدت کا سفر کہیے جو منزل یابی کی تمنائی نہیں منظر شناسی کی کاوش ہے۔ اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ نعت کو شاعری کی تعریف کے ساتھ منظر شناسی کی سرشاری سے بھی ناپا جائے۔ یہی وہ کام ہے جو نعت کو بطور صنف تسلیم کرنے اور کرانے کے لیے اسالیب اور انتقاد کا متقاضی ہے اور یہ اسالیب وہ نہیں جو ایک طرف تو ازکار رفتہ ہوچکے اور دوسری طرف رہبر بننے کے بجائے رہزن بنتے رہے ہیں۔




سطر 244: سطر 239:
کھلے ہیں جس میں محبت کے پھول ہر جانب
کھلے ہیں جس میں محبت کے پھول ہر جانب


وہی ہے گلشنِ بے خار گفتگو ئے رسولؐ([[راجا رشید محمود]]) ________
وہی ہے گلشنِ بے خار گفتگو ئے رسولؐ(راجا رشید محمود) ________


جہاں پیوندِ ظلمت بن گئے روزن مکانوں کے
جہاں پیوندِ ظلمت بن گئے روزن مکانوں کے


وہیں کھولے گئے سارے دریچے آسمانوں کے ([[غلام محمدناص]]ر) ________
وہیں کھولے گئے سارے دریچے آسمانوں کے (غلام محمدناصر) ________


خزاں کا بطلان کر کے آخر بہار ہی سرخ روئی ہوئی ہے
خزاں کا بطلان کر کے آخر بہار ہی سرخ روئی ہوئی ہے


تری صدا کے محیط میں آ کے زندگی خوب رو ہوئی ہے ([[فیروز شاہ | محمد فیروز شاہ]]) ________
تری صدا کے محیط میں آ کے زندگی خوب رو ہوئی ہے (محمد فیروز شاہ) ________


ترے پنگھٹ سے بادل اپنی گاگر بھرنے آتے ہیں
ترے پنگھٹ سے بادل اپنی گاگر بھرنے آتے ہیں


زمانے بھر کے پیاسے پیاس عمروں کی بجھاتے ہیں ([[مظفر وارثی]]) ________
زمانے بھر کے پیاسے پیاس عمروں کی بجھاتے ہیں (مظفر وارثی) ________


کی دعا ختم تو پھر صلِ علیٰ پڑھتے ہوئے
کی دعا ختم تو پھر صلِ علیٰ پڑھتے ہوئے


ہاتھ یوں جسم پہ پھیرے کہ زرہ پہنی ہے ([[ثنا ء اللہ ظہیر |محمد ثناء اللہ ظہیر]]) ________
ہاتھ یوں جسم پہ پھیرے کہ زرہ پہنی ہے (محمد ثناء اللہ ظہیر) ________


ہوش و خرد سے کام لیا ہے
ہوش و خرد سے کام لیا ہے


انؐ کا دامن تھام لیا ہے ([[صبیح رحمانی]]) ________
انؐ کا دامن تھام لیا ہے (صبیحرحمانی) ________


ہیں مصدق اور صادق، صاحبِ معراج ہیں
ہیں مصدق اور صادق، صاحبِ معراج ہیں


آپؐ ظاہر، آپؐ باطن، آپؐ خاتم اور خبیر ([[مسرور احمد زئی]]) ________
آپؐ ظاہر، آپؐ باطن، آپؐ خاتم اور خبیر (مسرور احمد زئی) ________


اس وقت اک دھیان ہے اور ان کا دھیان ہے
اس وقت اک دھیان ہے اور ان کا دھیان ہے


یہ وقت دل کو آئینہ کرنے کا وقت ہے ([[جمال احسانی]]) ________
یہ وقت دل کو آئینہ کرنے کا وقت ہے (جمال احسانی) ________


میرے ہاتھوں سے اور میرے ہونٹوں سے خوشبوئیں جاتی نہیں
میرے ہاتھوں سے اور میرے ہونٹوں سے خوشبوئیں جاتی نہیں


میں نے اسمِ محمدؐ کو لکھا بہت اور چوما بہت ([[سلیم کوثر]]) ________
میں نے اسمِ محمدؐ کو لکھا بہت اور چوما بہت (سلیمکوثر) ________


ورقِ جاں ہے تیرے نورِ صفا سے روشن
ورقِ جاں ہے تیرے نورِ صفا سے روشن


صفحۂ دل پہ ہر اک تیری ادا لکھی ہے ([[اسلم فرخی]])
صفحۂ دل پہ ہر اک تیری ادا لکھی ہے (اسلم فرخی)




براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)