آپ «حدائقِ بخشش کے صنائع بدایع پرایک اورنظر۔ ڈاکٹرصابر سنبھلی» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 32: سطر 32:
’’بے دام‘‘ دونوں مصرعوں میں ہے مگر الگ الگ معنی میں ہے ۔پہلے ’’بے دام‘‘کا مطلب ہے بلا قیمت ، یعنی ایسے غلام جوخرید ے نہ گئے ہوں ( ظاہر ہے کہ ایسے غلام بے حد وفادار ہوا کرتے تھے)اور دوسرے بے دام کے معنی ہیں ’’بغیر بندھن والے‘‘ یعنی جن کو باندھ کر نہ رکّھا جاتا ہو۔ظاہر ہے کہ یہ صنعت ہمارے علمِ بلاغت میں بہت پہلے سے ہے اوراس کا استعمال شعرا کرتے آئے ہیں ۔ ایسی حالت میں اس صنعت کے استعمال پر شاعر کی بہت زیادہ تحسین نہیں کی جاسکتی اس لیے کہ اس میں کوئی نئی یاخاص بات نہیں ہے لیکن جوخاص بات ہے وہ قاری کو تب معلوم ہوتی ہے جب وہ دونوں مصرعوں میں بے دام صفت کے ہر دو (۲)موصوف پر غور کرتا ہے ۔ بندے یعنی غلام ہیں تو مفت کے ہیں اور بندی یعنی قیدی ہیں تو بغیر بندھن کے ہیں قیدی ہر وقت قید سے رہائی چاہتا ہے ،موقع ملے تو فرار بھی ہوجاتا ہے ۔ لیکن یہ قیدی ایسے ہیں کہ اِن کو’’دام‘‘ یا ’’ کوٹھری‘‘ میں رکھنے کی ضرورت نہیں۔اس پر مزید لطف یہ ہے کہ ’’بندے‘‘ اور’’بندی‘‘ کے تلفُّظ میں بڑی مماثلث ہے اگر ان دونوں لفظوں کو کوئی جلدی میں بولے اور یاے معروف ویا ے مجہول پر زور نہ دے تو دونوں لفظوں کاالگ لفظ ہونا بھی معلوم نہ ہو لطف بالائے لطف یہ ہے کہ یہ بندی ہزار انِ عرب ہیں ۔جوبے عقل پرندے ہیں اورآزادی کے ساتھ ہواؤں میں اُڑنے کے عادی ہیں ان کو قَفَسْ میں بند رہنا بھلا نہیں لگتا ۔ان سب باتوں پر غور فرمائیے تو معلوم ہوگا کہ یہ شاعری کی کوئی معمولی صنعت نہیں ہے ۔
’’بے دام‘‘ دونوں مصرعوں میں ہے مگر الگ الگ معنی میں ہے ۔پہلے ’’بے دام‘‘کا مطلب ہے بلا قیمت ، یعنی ایسے غلام جوخرید ے نہ گئے ہوں ( ظاہر ہے کہ ایسے غلام بے حد وفادار ہوا کرتے تھے)اور دوسرے بے دام کے معنی ہیں ’’بغیر بندھن والے‘‘ یعنی جن کو باندھ کر نہ رکّھا جاتا ہو۔ظاہر ہے کہ یہ صنعت ہمارے علمِ بلاغت میں بہت پہلے سے ہے اوراس کا استعمال شعرا کرتے آئے ہیں ۔ ایسی حالت میں اس صنعت کے استعمال پر شاعر کی بہت زیادہ تحسین نہیں کی جاسکتی اس لیے کہ اس میں کوئی نئی یاخاص بات نہیں ہے لیکن جوخاص بات ہے وہ قاری کو تب معلوم ہوتی ہے جب وہ دونوں مصرعوں میں بے دام صفت کے ہر دو (۲)موصوف پر غور کرتا ہے ۔ بندے یعنی غلام ہیں تو مفت کے ہیں اور بندی یعنی قیدی ہیں تو بغیر بندھن کے ہیں قیدی ہر وقت قید سے رہائی چاہتا ہے ،موقع ملے تو فرار بھی ہوجاتا ہے ۔ لیکن یہ قیدی ایسے ہیں کہ اِن کو’’دام‘‘ یا ’’ کوٹھری‘‘ میں رکھنے کی ضرورت نہیں۔اس پر مزید لطف یہ ہے کہ ’’بندے‘‘ اور’’بندی‘‘ کے تلفُّظ میں بڑی مماثلث ہے اگر ان دونوں لفظوں کو کوئی جلدی میں بولے اور یاے معروف ویا ے مجہول پر زور نہ دے تو دونوں لفظوں کاالگ لفظ ہونا بھی معلوم نہ ہو لطف بالائے لطف یہ ہے کہ یہ بندی ہزار انِ عرب ہیں ۔جوبے عقل پرندے ہیں اورآزادی کے ساتھ ہواؤں میں اُڑنے کے عادی ہیں ان کو قَفَسْ میں بند رہنا بھلا نہیں لگتا ۔ان سب باتوں پر غور فرمائیے تو معلوم ہوگا کہ یہ شاعری کی کوئی معمولی صنعت نہیں ہے ۔


 
==== ایک شعر اور ملاحظہ فرمائیے ====
ایک شعر اور ملاحظہ فرمائیے  
 


مےَ کہاں اور کہاں میں زاہد
مےَ کہاں اور کہاں میں زاہد
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)