"تہنیت ِ ثنا" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{بسم اللہ }}
{{بسم اللہ }}


{|  class="wikitable" style="background-color:##FAFFB1; color:black;  width: 60%; vertical-align:top; margin-left: 10px;"
{|   
|-
|-
| [[ملف:Tehniat e Sana.png|link=تہنیت ِ ثنا]]
| [[ملف:Tehniat e Sana.png|link=تہنیت ِ ثنا]]

نسخہ بمطابق 23:31، 22 اپريل 2022ء


Tehniat e Sana.png


کتاب : تہنیت ِ ثنا

مصنف : واجد امیر

موضوع : نعتیہ کتب اور شخصیات پر لکھے ہوئے مضامین ۔

پبلشر : رنگ ِ ادب پبلیکیشنز، کراچی

صفحات : 144

قیمت : 400 روپے



تہنیت ِ ثنا

کتاب ِ ہذا میں واجد امیر ، خالد احمد کی نعتیہ شاعری پر لکھتے ہوئے فرماتے ہیں ۔

یہ (نعت)، تحریک نظام مصطفی ٰ ﷺ کے نتیجے میں جنم لینے والے مارشل لاء کے بے آب و گیاہ صحرا میں بار ور ہوئی ۔ یعنی شر سے خیر کا پہلو نکل آیا ۔

واجد امیر موجودہ شعری منظر نامے کا ایک اہم نام ہیں ۔ مارشل لاء کے بارے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے "شر سے خیر کے پہلو " کو نکالنے والا تخلیقی جملہ اس بات کا مظہر ہے کہ واجد امیر نثر میں بھی بات کرنے کا سلیقہ جانتے ہیں ۔ اسی خوبی کی بنیاد پر "تہنیت ِ ثنا" مختلف نعت گو شعراء پر لکھتے ہوئے انہوں نے شعراء، مصنفین اور کتابوں کے تاریک و روشن میں ایک خوبصورت توازن رکھا ۔ اپنے ممدوحین کی حوصلہ افزائی بھی کی اور قارئین کے لیے تصویر کی درست عکاسی بھی کی ۔ مختلف مضامین کی تمہیدی پیراگراف کا مطالعہ قارئین کے ذہن میں نعت کی روایت کے بہت سے اہم پہلوووں کو تازہ دم کر دیتا ہے ۔

اس کتاب میں خالد احمد ، جعفر بلوچ ، حسرت حسین حسرت ، عباس مرزا ، اللہ رکھا سیوف اور ریاض حسین زیدی جیسے سینئر شعراء کے ساتھ ساتھ نعتیہ منظر نامے پر اثرانداز ہونے والے تازہ کار شاعروں دلاور علی آزر،ریاض ندیم نیازی، مقصود علی شاہ، سید طاہر ، جاوید عادل سوہاوی، نادر صدیقی، فاضل میسوری اور باسط علی حیدری جیسے نوجوان شعراء کی نعتیہ شاعری اور مجموعوں پر بھی اپنے تااثرات قلم بند کیے ہیں ۔ ایک موضوعاتی تحریر "نعت نگاروں کے پسندیدہ موضوعات" توشہ ء خاص ہے جس میں اساتذہ سے لیکر نو آموز شعراء کے عمدہ اشعار کو نعتیہ موضوعات کے مطابق بڑے سلیقے سے پیش کیا گیا ہے ۔ خالد احمد اور جعفر بلوچ جیسے شعراء پر لکھی ہوئی تحریروں سے قدرے تشنگی کا احساس ہوتا ہے لیکن یہ بات مصنف نے خود بھی محسوس کی اور ایک مضمون میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ چونکہ بات کہیں نہ کہیں ختم کرنا ہوتی ہے تو بعض شعراء پر جتنا بھی لکھا جائے تشنگی کا احساس باقی رہ جاتا ہے ۔

مجموعی طور پر ایک عمدہ کتاب ہے ۔