"بندہ ملنے کو قریب حضرت قادر گیا" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
 
سطر 125: سطر 125:


[[نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا]]
[[نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا]]
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشئیِ رحمت کا قلمدان گیا
لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا
میرے مولیٰ مرے آقا ترے قربان گیا
آہ وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنّا ہی رہی
ہائے وہ دل جو تِرے در سے پُر ارمان گیا
دل ہے وہ دل جو تِری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
اُنہیں جانا، اُنہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہِ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
اور تم پر مِرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا
آج لے اُن کی پناہ ، آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
اُف رے منکر یہ بڑھا جوشِ تعصب آخر
بِھیڑ میں ہاتھ سے کم بخت کے ایمان گیا
جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا ، سارا تو سامان گیا
الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ

حالیہ نسخہ بمطابق 04:06، 10 نومبر 2017ء


نعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


از امام احمد رضا خان بریلوی


بندہ ملنے کو قریب حضرت قادر گیا

لمعہءِ باطن میں گمنے جلوہ ءِ ظاہر گیا


تیری مرضی پا گیا سورج پھرا الٹے قدم

تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجا چر گیا


بڑھ چلی تیری ضیا اندھیر عالم سے گھٹا

کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا


بندھ گئی ہوا سا وہ میں خاک اڑنے لگی

بڑھ چلی تیری ضیا آتش پہ پانی پھر گیا


تیری رحمت سے صفی اللہ کا بیڑا پار تھا

تیرے صدقے سے نجی اللہ کا بجرا تِر گیا


تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا

تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھر تھرا کر گر گیا


مومن ان کا کیا ہوا اللہ اس کا ہو گیا

کافر ان سے کیا پھرا اللہ ہی سے پھر گیا


وہ کہ اس در کا ہوا اللہ اس کا ہو گیا

وہ کہ اس در سے پھرا اللہ اس سے پھر گیا


مجھ کو دیوانہ بتاتے ہو میں وہ ہشیار ہوں

پاﺅں جب طوف حرم میں تھک گئے سر پھر گیا


رحمة للعالمین آفت میں ہوں کیسی کروں

میرے مولیٰ میں تو اس دل سے بلا میں گھر گیا


میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیسی کنکریاں تھیں وہ

جن سے اتنے کافروں کا دفعتاً منہ پھر گیا


کیوں جناب بو ہریرہ تھا وہ کیسا جام شیر

جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منہ بھر گیا


ق واسطہ پیارے کا ایسا ہو کہ جو سنی مرے

یوں نہ فرمائیں ترے شاہد کہ وہ فاجر گیا


عرش پر دھومیں مچیں وہ مومن صالح ملا

فرش سے ماتم اٹھے وہ طیب و طاہر گیا


اللہ اللہ یہ علوِ خاص عبدیت رضا

بندہ ملنے کو قریب حضرت قادر گیا


ٹھوکریں کھاتے پھرو گے ان کے در پر پڑ رہو

قافلہ تو اے رضا اوّل گیا آخر گیا



حدائق بخشش[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حدائق بخشش


پچھلا کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

خراب حال کیا دل کو پُر ملال کیا

اگلا کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا