"مناقب حسین بن علی" کے نسخوں کے درمیان فرق
سطر 672: | سطر 672: | ||
تا قیامت اُن غلاموں کی وفا کو ہو سلام | تا قیامت اُن غلاموں کی وفا کو ہو سلام | ||
=== مزید دیکھیے === | === مزید دیکھیے === |
نسخہ بمطابق 08:03، 9 ستمبر 2019ء
|
|
|
اس صفحے پر شہید کربلا سیدنا حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے سلام اور مناقب اس امید پر یکجا کیے جا رہے ہیں کہ مناقب پر کام کرنے والے محققین و ناقدین کو کافی و شافی ذخیرہ ایک ہی جگہ دستیاب ہو ۔ انتخاب شائع کرنے والے پبلشرز بھی مستفید ہو سکتے ہیں ۔ کوئی بھی اشاعتی ادارہ اگر مناقب حسین کے کسی انتخاب میں ان کلاموں میں سے کوئی کلام یا سارے کلام استعمال کرنا چاہتا ہوتو تو اسے شاعر اور ادارے کی طرف سے اجازت ہوگی ۔
اگر آپ شاعر ہیں اور آپ نے کوئی سلام یا منقبت کہہ رکھی ہو تو تبادلۂ خیال:مناقب حسین بن علی کو ترمیم کرکے پیش کر دیں ۔
منقبت
آصف قادری -حُسینیوں کو بسانا‘ حسین جانتے ہیں
شاعر: محمد آصف قادری ، واہ کینٹ، پاکستان
حُسینیوں کو بسانا‘ حسین جانتے ہیں
یزیدیوں کو مٹانا‘ حسین جانتے ہیں
یہ دشمنوں نے بھی مانا کہ دین کی خاطر
خود اپنا کنبہ لُٹانا‘ حسین جانتے ہیں
اگرچہ سَر ہے جُدا ہو کے نوکِ نیزہ پر
کلام رب کا سُنانا‘ حسین جانتے ہیں
پڑا جو وقت تو ہرگز نہ آنچ آنے دی
نبی کا دین بچانا‘ حسین جانتے ہیں
گواہی دیتی ہے آصف زمینِ کرب و بلا
لہو سے پھول کِھلانا حسین جانتے ہیں
احمد زاہد ـ یہ کس کالاڈلہ ہےاورکون شہسوارہے
شاعر: محمداحمد زاہد، سانگلہ ہل، پاکستان
یہ کس کالاڈلہ ہےاورکون شہسوارہے
فضا سے بھی بلندجس کےپاؤں کاغبارہے
رواں ہیں لے کے ہاتھ میں اٹھا کے شیر خوار بھی
یہ عشق ہے محمدی ، بڑا ہی ذی وقار ہے
حسین اپنے خون سے تھے سینچتے رہے جسے
چہار سو وہ گلستانِ مصطفےٰ تیار ہے
خدا کے سامنے ہی سر کٹائیں گے سجود میں
نماز کو نہ چھوڑنا! حسین کی پکار ہے
لو دیکھ کر حسین کو یزیدیوں میں غل مچا
یہ کون ذی وقار ہے بلا کا شہ سوار ہے
کسی لعیں یزید کو وہ دیں گے ہاتھ کس لیے
نبی کے دین کے لیے تو جاں بھی نثار ہے
اسلم فیضی ۔ صدق ویقین ومہر و محبت حسینؑ ہیں
شاعر : اسلم فیضی ، کوہاٹ ، پاکستان
صدق ویقین ومہر و محبت حسینؑ ہیں
دستورِ زندگی كی حقیقت حسینؑ ہیں
سجدوں كی كہكشاں سے عبارت ہےجن كی ذات
وہ آشناۓ روحِ عبادت حسینؑ ہیں
بخشا گیا ہے اُن كو وقارِ خود آگہی
اپنے لۓ تو نورِ بصیرت حسینؑ ہیں
ہر زوایے سے كیوں نہ انہیں معتبر كہوں
فخرِ حیات و فخرِ شہادت حسینؑ ہیں
جس نے نبیۖ كے دین كو ضو پاش كردیا
اس روشنی كی زندہ علامت حسینؑ ہیں
ہر عہد میں لڑیں گے یزیدوں كے ساتھ ہم
ہر عہد میں ہماری ضرورت حسینؑ ہیں
دیكھو تو كربلا میں ہیں تكمیل انقلاب
سوچو تو پورے دہر كی قیمت حسینؑ ہیں
نوكِ سناں پہ بھی رہا غیرت كا بانكپن
خورشیدِ آسمانِ شجاعت حسینؑ ہیں
اسلم فیضی ۔ صفحہِ زیست پہ تحریر شہادت چمكی
شاعر : اسلم فیضی ، کوہاٹ ، پاکستان
صفحہِ زیست پہ تحریر شہادت چمكی
اِك نۓ رنگ سے انسان كی عظمت چمكی
كس نے خوں بانٹ دیا اپنے جگر پاروں كا
نوكِ شمشیر پہ یہ كس كی سخاوت چمكی
ورنہ تا حشر یزیدوں كی حكومت ہوتی
شكر ہے حضرت شبیرؓ كی جرأت چمكی
بجھ گٸیں ظلم كی سب مشعلیں یارو! لیكن
ریگِ كربل میں فقط اُن كی قیادت چمكی
معتبر كیوں نہ اجالوں كا سفر ہو فیضؔی
راكبِ دوشِ رسالتﷺ كی امامت چمكی
اشفاق احمد غوری ـ شبیہہِ شاہِ انبیاء ہے خوبرو حسین ہے
شاعر: اشفاق احمد غوری، ملتان، پاکستان
شبیہہِ شاہِ انبیاء ہے خوبرو حسین ہے
سخی، متین، باوقار، نرم خو حسین ہے
قرارِ قلب و جان دو جہاں کے تاجدار ہیں
قرارِ قلب و جاں کے دل کی آرزو حسین ہے
جو کھیلتا تھا تاجدارِ انبیاء کی پیٹھ پر
وہ ذی وقار لاڈلا لہو لہو حسین ہے
خبر نہ تھی فرات پر کھڑی ہوئی سپاہ کو
کہ اس کی بوند بوند کی تو جستجو حسین ہے
ملا دیا گیا ہے خاک میں نسب یزید کا
مگر نظر اٹھا کے دیکھ سو بسو حسین ہے
چلا کے تیر شرم سے گڑے نہیں زمین میں
یہ جانتے ہوئے کہ ان کے روبرو حسین ہے
شبابِ خلد کے سروں کا تاج ہے وہ ذی حشم
شبابِ خلد کے لبوں کی گفتگو حسین ہے
ہوئی ہے مات کربلا میں ظالموں کی فوج کو
کٹا کے اپنا خاندان سرخرو حسین ہے
حسین ہے سکھائے جس نے زندگی کے ضابطے
بچائی جس نے دینِ حق کی آبرو، حسین ہے
اشفاق احمد غوری ـ ہے کون رونقِ چمن، حسن بھی ہیں حسین بھی
شاعر: اشفاق احمد غوری، ملتان، پاکستان
ہے کون رونقِ چمن، حسن بھی ہیں حسین بھی
گلاب اور نسترن، حسن بھی ہیں حسین بھی
سخاوتوں کی داستاں زباں زدِ عوام ہے
کرم کے بحرِ موجزن، حسن بھی ہیں حسین بھی
ملی ہیں جن کو فخرِ کائنات کی شباہتیں
مرے نبی کا بانکپن، حسن بھی ہیں حسین بھی
قرارِ قلبِ فاطمہ، سکونِ قلبِ مرتضیٰ
نبی کے باغ کی پھبن، حسن بھی ہیں حسین بھی
لگے ہیں ایک شاخ پر گلاب بے مثال دو
مہک رہے ہیں گلبدن، حسن بھی ہیں حسین بھی
سوال ہوگا کس نے دین کی بچائی آبرو
کہیں گے سارے مرد و زن، حسن بھی ہیں حسین بھی
بلال راز ۔ تاریکیوں میں شمع ہدایت حسین ہیں
شاعر : بلال راز۔ بریلی ، بھارت
تاریکیوں میں شمع ہدایت حسین ہیں
زحمت ہے گر یزید تو رحمت حسین ہیں
ہم کو اسی لئے ہے محبت حسین سے
الله کے نبی کی محبّت حسین ہیں
جن کو کہا نبی نے کہ یہ دو ہیں میرے پھول
حضرت حسن ہیں دوسرے حضرت حسین ہیں
زہرہ کے نور عین ہیں حیدر کے لاڈلے
قلب رسول پاک کی راحت حسین ہیں
شمر و یزید جیتے جی برباد ہو گئے
ہو کر شہید اب بھی سلامت حسین ہیں
پھر سے اٹھا رہی سر اپنا یزیدیت
اس دور پر فتن کی ضرورت حسین ہیں
یہ وقت کے یزید مٹایں گے کیا اسے
دین رسول پاک کی طاقت حسین ہیں
جاوید انور ہاشمی - نم آنکھوں سے ظاہر محبت حقیقتت
نم آنکھوں سے ظاہر محبت حقیقتت
محبت سے بڑھ کر مئو د ت حقیقت
وہ شب اور وہ کا رو اں ز ند گی کا
و ہ د ھو کا د ہی اور وہ جرآت حقیقتت
ر سو ل۔خدا کے گھر ا نے سے ملتی
ر سو ل ۔ خد ا کی ا طا عت حقیقت
و ہ آل۔ محمد (ص) کی قر با نیا ں تھیں
برا ہیم (علیہ السلام) کے خو ا ب و سنت حقیقت
ز ر و مال کیا!جا ن دی راہ۔ حق میں
شہا د ت حقیقت اما مت حقیقت
یقین ا ہے گا حشر میں مو منو ں کو
یقیناً یقیں کی ہے د و لت حقیقت
خد ا ان کے سائے میں ہم سب کو رکھے
و ہ ساعت بنے جب شفا عت حقیقت
ریاض احمد برکاتی ـ اے ابن حیدر قرارِ زہرا ،عظیم کتنا نسب ہے تیرا
شاعر: ریاض احمد برکاتی ، کولکتہ ، انڈیا
اے ابن حیدر قرارِ زہرا ،عظیم کتنا نسب ہے تیرا
تو ہے نواسہ شہِ امم کا نفیس و اعلیٰ حسب ہے تیرا
رشید تو ہے، فرید تو ہے، رہِ وفا کا شہید تو ہے
غم و الم سے بعید تو ہے، شہیدِ اعظم لقب ہے تیرا
ہے شان تیری بلند و بالا، فضیلتوں کا ہے تو منارا
تری ہے دنیا، تری ہے عقبیٰ، رسول تیرے ہیں، رب ہے تیرا
تری محبت ہے فرض ہم پر، کہ تو ہے جانِ حبیبِ داور
ہماری خاطر سبیلِ بخشش اے میرے شبیر ادب ہے تیرا
ہے مومنوں کو تری ضرورت، ضیائے ایماں ہے تیری الفت
طرب کا ساماں ہے تیری مدحت، حسین رتبہ عجب ہے تیرا
تُو مدح خواں جب حسین کا ہے، ریاض کیوں اتنا غمزدہ ہے
تجھے وہ محشر میں بھول جائیں، یہ سوچنا بے سبب ہے تیرا
شفیق رائے پوری ـ سبطِ رسول راکبِ دوشِ نبی حسین
شاعر: شفیق رائے پوری ، انڈیا
سبطِ رسول راکبِ دوشِ نبی حسین
لختِ جگر بتول کے جانِ علی حسین
اسلام کے افق پہ کِھلی روشنی حسین
ہیں تیرہ کائنات کی تابندگی حسین
کیسے قلم احاطہ کرے تیرے وصف کا
تو عالی مرتبت ہے اے ابنِ علی حسین
اسلام کی رگوں میں لہو آپ ہی کا ہے
ہےآپ ہی کےدم سےروش نبض کی حسین
جب بھی کوئی یزید اٹھائے گا اپنا سر
سنت کریں گے ہم بھی ادا آپ کی حسین
آقا نے چن لیا جسے فرزند کے عوض
وہ جانِ مصطفے ہیں فقط آپ ہی حسین
خوابِ شفیق میں بھی چلے آئیے کبھی
چھوٹا سا منہ ہے بات مگر ہے بڑی حسین
محمد خالد - راہ جو بھی لیں ہمیں وہ کربلا لے جائے گی =
بشکریہ : انحراف
راہ جو بھی لیں ہمیں وہ کربلا لے جائے گی
اپنی منزل پر مدینے کی ہوا لے جائے گی
یہ تری دریا دلی ہے موجۂ حُسنِ عطا
جو مرے دل کی پریشانی بہا لے جائے گی
دُھوپ میں سایہ بنے گی، تا سرِ محشر ہمیں
چادرِ زینبؑ، سکینہؑ کی ردا لے جائے گی
گو دئیے کی لو بجھا ڈالی ہے میرے شاہؑ نے
پر غلاموں کو کہاں در سے وفا لے جائے گی
ہم کہ وابستہ رہے ہیں جاودانی نور سے
موت ہے کیا اور کیا ہم سے بھلا لے جائے گی !
ساکنانِ خلد کو حسرت رہے گی تا ابد
کیا شرف یہ سر زمینِ نینوا لے جائے گی !
کیوں بنا انسان کا دل سجدہ گاہِ عرشیاں ؟
بات چل نکلی تو سُوئے کربلا لے جائے گی !
دشت کو مہکار کر ڈالا ہے کس گل رنگ نے
بھر کے دامن میں جسے بادِ صبا لے جائے گی
بر سرِ منبر نہیں ہے وہ سرِ نیزہ بھی ہے
کائناتِ عشق میں جس کی نوا لے جائے گی
اے مرے شاہِ شہیداںؑ، اے اماموں کے امامؑ
دین تیرے گھر کی ہے ، خلق ِ خدا لے جائے گی !
کچھ نہیں پلّے مرے تیری حضوری کے لئے
بس یہی حمد و ثنا آہِ رسا لے جائے گی !
صفدر جعفری - سرورِ قلبِ پَیمبر حسینؑ زندہ باد
سرورِ قلبِ پَیمبر حسینؑ زندہ باد
"خدا کے دین کا محور حسینؑ زندہ باد"
ہمارے ذکر کا محتاج تو نہیں ہے حسین
کہ خود نبی کے ہے لب پر حسین زندہ باد
کسی یزید کا ڈر ہے نہ خوف مرنے کا
مرا ازل سے ہے رہبر حسینؑ زندہ باد
صدا یہ آج بھی آتی ہے صحنِ مقتل سے
مرا نہیں ہوں میں مر کر حسینؑ زندہ باد
بڑے فخر سے ملائک بھی جس کے در پہ جھکیں
اسی کا میں بھی ہوں نوکر حسینؑ زندہ باد
مرے خمیر میں شامل ہے خاک مقتل کی
مرے لہو کے ہے اندر حسینؑ زندہ باد
علیؑ کے جیسا ہو جیون تو موت شبیرؑی
دعا ہے بس یہی صفدرؔ حسینؑ زندہ باد
صفدرؔ جعفری - حسینؑ دیکھ رہے ہیں صفیں سجائے ہوئے
شاعر: صفدر جعفری، لاہور
حسینؑ دیکھ رہے ہیں صفیں سجائے ہوئے
کوئی تو نکلے کفن کو عَلم بنائے ہوئے
تڑپنے لگتے ہو کیوں ذکرِ ابنِ حیدرؑ پر
علؑی کے لال سے کتنا ہو خوف کھائے ہوئے
طلب نہیں ہے کسی قصر کی نہ شاہی کی
ہمیں قبول ہیں یا رب وہ گھر جلائے ہوئے
کبھی تبسمِ اصغر میں بولتے ہیں حسینؑ
سناں کی نوک کو منبر کبھی بنائے ہوئے
فراتِ فکر پہ ان کے ہے اب تلک پہرا
عزائے شہ سے جو صفدؔر ہیں تلملائے ہوئے
عمیر نجمی ۔ بہ وقتِ عصر جو کربل کی خاک بیٹھ گئی
شاعر : عمیر نجمی، رحیم یار خان، پاکستان
بہ وقتِ عصر جو کربل کی خاک بیٹھ گئی
کئی دلوں پہ کٹے سر کی دھاک بیٹھ گئی
اِدھر زمیں پہ گرا ہاشمی چراغ، اُدھر
فلک پہ سوگ میں اک ذاتِ پاک بیٹھ گئی
بدن جو بزمِ عزا سے اٹھا تو روح وہیں
بہ صد نیاز، بہ صد انہماک، بیٹھ گئی
بہ یادِ سجدہِ تشنہ امام، سجدہ کیا
اور اتنی دیر سے اٹھا کہ ناک بیٹھ گئی
جو بے ردا تھی، اٹھی اور دورنِ قصرِ دمشق
بڑے بڑوں کی ردا کر کے چاک، بیٹھ گئی
عدو حسین۴ کا ہو اور نشان چھوڑے زمیں؟
سنا ہے اس کی لحد ٹھیک ٹھاک بیٹھ گئی
فرحت زاہرا - نفس کے مختار تھے راہ خدا تک آ گئے
نفس کے مختار تھے راہ خدا تک آ گئے
حق کو جو پہچان پاۓ کربلا تک آ گئے
آسمان رویا زمیں تڑپی ہوا رکنے لگی
شمر تیرے ہاتھ آل مصطفی تک آ گئے
استغاثے کی صدا نے کر دیا بے چین تو
خیمہء اقدس سے اصغر حرملہ تک آ گئے
منزلیں دشوار تھیں پر قافلہ بنتا گیا
راہ حق کے سب مسافر راہ نما تک آ گئے
شور تھا کہ لوٹ لو آل عبا کی چادریں
اشقیاء کے حوصلے دیکھو کہاں تک آ گئے
اک طرف فسق یزیدی اک طرف صبر حسین
دونوں اطرافی مثال انتہا تک آ گئے
قصیدہ
سلام
عبدالجلیل ۔ بے سہاروں کےسہارے مصطفٰےﷺ کوہوسلام
بے سہاروں کےسہارے مصطفٰےﷺ کوہوسلام
رحمتِ عالم حبیبِ کبریا کو ہو سلام
حیدرؓ و حسنینؓ و زہرؓا آئے جس چادر تلے
المزمل شان والی اس رِدا کو ہو سلام
جن کی عظمت کا بیاں ہے آیئہ تطہیر میں
اہل بیت پاکؓ کی شانِ عُلیٰ کو ہو سلام
جس کا چہرہ دیکھنا بھی ہے عبادت وہ علیؓ
مرتضیٰؓ ، مشکل کشاؓ ، شیر خُداؓ کو ہو سلام
تیری آمد پر ہوئے سر خم سبھی کے حشر میں
نُور چشمِ مصطفٰےﷺ تیری حیا کو ہو سلام
اے حسنؓ تیری فراست پر ہو کُل دانش نثار
راحتِ جانِ نبیﷺ تیری ذکاء کو ہو سلام
جس کی دلجوئی کی خاطر ہو گیا سجدہ طویل
راکبِ دوشِ نبیﷺ کی اس ادا کو ہو سلام
تادمِ آخر رہا تجھ کو پیاسوں کا خیال
اے علمدارِ وفا تیری وفا کو ہو سلام
قاسمؓ و عونؓ و محمدؓ اکبرؓ و اصغرؓ سبھی
غنچہ ہائے نازنین و دلربا کو ہو سلام
اکبرؓ و اصغرؓ کے لاشے دیکھ کر بھیگی نہ آنکھ
کربلا میں صبر کی اُس انتہا کو ہو سلام
دیں بچانے کیلئے جب کر دیا کنبہ نثار
منبعِ جود و سخا تیری سخا کو ہو سلام
جان و مال و آل دے کر زندۂ جاوید ہیں
اے شہیدِ کربلا ایسی بقا کو ہو سلام
دیکھ کر نوکِ سناں پر سر تیرا بولے ملک
مرحبا ! سبطِ نبی تیری انا کو ہو سلام
زیرِ خنجر کی ادا شبّیرؓ نے ایسی نماز
سب عدو کہنے لگے حُسنِ ادا کو ہو سلام
مصطفٰےﷺ کی آل کا جو درد رکھتے ہیں جلیل
تا قیامت اُن غلاموں کی وفا کو ہو سلام
مزید دیکھیے
اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔ |
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659 |
نئے صفحات | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
|