گر تو می بینی حسابم نہ گزیر

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Iqbal Lahori.jpg

یہ مصرع اقبال کی اس رباعی کا غلط العوام مصرع ہے جو انہوں نے ماسٹررمضان عطائی کوعنایت کر دی تھی ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے  : قصہ علامہ اقبال کی ایک رباعی کا

ہمارے محقق عمر فاروق وڑائچ اس پر فرماتے ہیں کہ

یہ رباعی علامہ اقبال نے ماسٹر محمد رمضان عطائی کو دے دی تھی، اس لیے کلیات میں نہیں چھپی۔ پہلا، دوسرا اور چوتھا مصرع سب جگہ یکساں ہے۔ تیسرے مصرعے کے متن میں اختلاف ہے۔اس کی درج ذیل صورتیں ملتی ہیں:


ور حسابم را تو بینی ناگزیر

تو اگر بینی حسابم ناگزیر

یا اگر بینی حسابم ناگزیر

یہ تین متن کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔ پہلا متن شیخ عطاء اللہ نے ماسٹر رمضان کے نام خط کے حاشیے میں نقل کیا ہے۔ دوسرا اسلم جیراج پوری نے اور تیسرا سعید اکبر آبادی نے۔ کلیات مکاتیب اقبال میں ماسٹر رمضان کے نام خط کے حاشیے میں تینوں کا ذکر ہے لیکن شیخ عطاء اللہ کا نام نہیں۔ ایک اور متن بھی مشہور ہے لیکن کسی کتاب میں نہیں دیکھا۔

گر تو می بینی حسابم ناگزیر

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت سے متعلقہ لطائف و واقعات
نئے صفحات

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png