ہے تابانیاں تیری لعل و گہر میں ۔ تنویر پھول
شاعر: تنویر پھول
حمدِ باری تعالی جل جلالہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
ہیں تابانیاں تیری لعل و گہر میں
تو ہی جلوہ افشاں ہے نورِ سحر میں
ہیں مصروف تسبیح میں سارے طائر
ترا ذکر ہوتا ہے نخل و شجر میں
کیا تو نے مخلوق کا رزق پیدا
نہاں تیری قدرت ہے برگ و ثمر میں
ہر اِک شے ہے محتاج مرضی کی تیری
خدایا ہے تو حکم راں بحر و بر میں
سمائی مِرے دل میں ہے تیری وسعت
نہیں لا سکا میں حصارِ نظر میں
لکھا لوحِ محفوظ میں تو نے یا رب
ازل سے ابد تک جو ہے خشک و تر میں
زیارت کروں میں ترے گھر کی اکثر
عطا کر وہ قوت مِرے بال و پر میں
اُنھیں چُن لیا رب نے موتی سمجھ کر
وہ آنسو جو تھے دامنِ چشم ِ تر میں
وہی میرا حافظ ، وہی میرا ناصر
وہی آسرا ہے سفر میں ، حضر میں
چھُپی برگِ گل میں ہے نرمی اُسی کی
نہاں ہے جلال اُس کا برق و شرر میں
تعلق وہی حمد اور نعت میں ہے
تعلق ہے جیسا کہ شمس و قمر میں
کرم کی نظر پھول پر ہو الٰہی
فنا ہو گیا عشق ِ خیر البشر میں