قصیدہ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


قصیدے کی ابتدا عربی شاعری سے ہوئی۔ عربی سے یہ صنفِ سخن فارسی شاعری میں پہونچی اور فارسی کے اثرسے اردو شاعری میں اس صنفِ سخن کو فروغ حاصل ہوا۔ قصیدہ ایک موضوعی صنفِ سخن ہے۔ جس میں کسی کی مدح یا ہجو کی جاتی ہے لیکن زیادہ تر قصائد مدح و توصیف ہی کی غرض سے لکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مناظرِ قدرت، پند و نصائح، معاشی بدحالی، سیاسی انتشار وغیرہ جیسے موضوعات بھی قصیدے میں بیان کیے جاتے ہیں،

اردو نعت گوئی میں قصیدے کی روایت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اردو میں نعتیہ قصائد لکھنے کا آغآز پہلے صاحب کلیات شاعر سلطان محمد قلی قطب شاہ ہی کر دیا تھا ۔ پھر سلطان علی عادل شاہ ثانی ، شاہی نے بھی اس روایت کو اگے بڑھایا ۔ نصرتی ، شاہ افضل قادری ، جنونی گجراتی ، ولی دکنی ، سید امیر الدین ، مرزا رفیع سودا ، قائم چاند پوری ، غلام ہمدانی مصحفی ، مومن خاں مومن ، میر نظام ممنون، کرامت علی خاں شہیدی ، لطف بریلوی ، امیر مینائی ، محسن کاکوروی، امام احمد رضا خان بریلوی ، وغیرہم کے قصائد بڑے معرکے کے قصائد ہیں ۔ پاکستان میں قصیدے کے احیاء کا کام عبد العزیز خالد نے کیا ۔ دیگر شعراء میں خالد احمد ، فدا خالدی دہلوی ، حفیظ تائب ، سرو سہارنپوری وغیرہم نمایاں ہیں ۔ [1]


قصیدے کے اجزائے ترکیبی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قصیدے کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں۔ (1)تشبیب(2)گریز(3)مدح(4) دعا یا حُسنِ طلب۔

پہلا شعر قصیدے کا مطلع کہلا تا ہے یہاں سے قصیدے کا پہلا جز تشبیب شروع ہوتا ہے۔ اس میں شاعر اپنے تعلق سے فخر و امتنان پر مشتمل اشعار کہتا ہے۔ دوسرا جز گریز جیسا کہ نام سے ظاہر ہے شاعر اپنی تعریف ترک کر کے ممدوح کی مدح و توصیف کی سمت رجوع کرتا ہے۔ اس کے بعد مدح کا مرحلہ آتا ہے جو تشبیب سے طویل تر ہوتا ہے اگرچہ ذوقؔ و غالبؔ کے قصیدوں میں مدح کے اشعار کم تعداد میں ملتے ہیں۔ حُسنِ طلب اس کے بعد کی منزل ہے جس میں قصیدہ خواں اپنے ممدوح کی جانب سے لطف و اکرام کی توقع ظاہر کرتا ہے، پھر ممدوح کے لیے دعا پر قصیدہ ختم ہو جاتا ہے۔ جس قصیدے میں اس کے تمام اجزائے ترکیبی موجود ہوں اور جس میں راست ممدوح سے خطاب کیا گیا ہو اسے خطابیہ قصیدہ کہتے ہیں۔ قصیدے میں یوں تو صرف مدح خوانی مقصود ہوتی ہے لیکن اکثر قصائد میں ہجویہ، واعظانہ، اور دوسرے بیانیہ مضامین بھی نظم کیے گئے ملتے ہیں۔ اس اعتبار سے انھیں مدحیہ، ہجویہ، واعظانہ وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔

مشہور قصائد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قصیدہ بردہ بانت سعاد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

از کعب بن زہیر

قصیدہ جنیہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

از

قصیدہ بردہ شریف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قصیدہ بردہ شریف از امام شرف الدین بوصیری

قصیدہ لامیہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

محسن کاکوروی کا قصیدہ سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل اردو شاعری میں اپنا جواب نہیں رکھتا ۔ یہ وہ قصیدہ ہے جس نے نعتیہ شاعری کو ایک نیا آہنگ دیا ۔


قصیدہ لامیہ پر ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی کا ایک مضمون : قصیدہ لامیہ کا جائزہ

مکمل قصیدہ اس ربط پر ملاحظہ فرمائیں : سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

قصیدہ معراجیہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

امام احمد رضا خان بریلوی کے اس قصیدے کے بارے مشہور ہے کہ جب محسن کاکوروی نے اپنا مشہور قصیدہ

سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

لکھا تو سنانے کے لئے بریلی میں امام احمد رضا خاں بریلوی کے تشریف لائے ۔ ظہر کا وقت تھا ۔ دو اشعار سنتے تو امام احمد رضا خاں بریلوی نے فرمایا کہ حضرت باقی قصیدہ عصر کے بعد سنیں گے ۔ ظہر اور عصر کے درمیان امام احمد رضا خاں بریلوی نے معراج کے بارے خود بھی ایک قصیدہ کہا ۔ نماز عصر کے بعد جب دونوں بزرگ اکٹھے ہوئے تو امام احمد رضا خاں بریلوی نے فرمایا کہ میں نے بھی ایک قصیدہ کہا ہے ۔ پہلے وہ سن لو ۔ محسن کاکوروی نے جب قصیدہ معراجیہ سنا تو تو کہتے ہوئے اپنا قصیدہ جیب میں ڈال لیا کہ مولانا ، آپ کے قصیدے کے بعد میں اپنا قصیدہ نہیں سنا سکتا ۔


مکمل قصیدہ معراجیہ کے اس ربط پر ملاحظہ کریں : وہ سرور کشور رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے

قصیدہ نور[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

امام احمد رضا خاں بریلوی کا یہ قصیدہ انسٹھ اشعار پر مشتمل ہے اس کے سینتالیس مطلعے ہیں ۔


صبح طبیہ بھی ہوئی بٹتا ہے باڑہ نور کا

صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

قصیدہ مرصعہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس قصیدے میں امام احمد حسن خان بریلوی نے یہ صنعت رکھی ہے کہ ہر مصرع اولی کا آخری رکن بالترتیب حروف تہجی پر ختم ہوتا ہے ۔ چونکہ ردیف د ہے تو مطلع میں قافیہ الف کی آواز "دجی" ہے ۔ یہ قصیدہ ساٹھ اشعار پر مشتمل ہے ۔ اور ی پر ختم ہوتا ہے ۔

مکمل قصیدہ اس ربط پر ملاحظہ کریں: کعبہ کے بدر الدجی تم پہ کروڑوں درود

قصیدہ بہاریہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قصیدہ بہاریہ پر ایک مضمون : قصیدہ بہاریہ اور حضرت قاسم نانوتوی بشکریہ الغزالی [2]

مزید دیکھیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نظم | آزاد نظم | نظم معری | غزل | قصیدہ | قطعہ | رباعی | مثنوی | مرثیہ | دوہا | ماہیا | کہہ مکرنی | لوری | گیت | سہرا | کافی | ترائیلے | سانیٹ | ہائیکو |

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

  1. نعتیہ ادب کے تنقیدی زاوے ، ص 228، ڈاکٹر عزیز احسن ، نعت ریسرچ سنٹر کراچی
  2. | الغزالی ویب سائٹ