کراچی کا دبستانِ نعت۔ایک مطالعہ ۔ سید معراج جامی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مضمون نگار : سیدمعراج جامی۔کراچی

کراچی کا دبستانِ نعت۔۔۔۔۔ایک مطالعہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: Karachi ka Dabistaan-e-Naat has been introduced in this article. Manzar Aaarfi possesses insight that requires for writing anthology besides highlighting distinguished features of Karachi School of Poetic sensibility. This documentary contains biographical sketches of poets with specimens of poetry in genre of Naat. Manzar Aarfi has consulted collections of Poetry of individual poets and other anthologies to present biographical information in an authentic manner. This work is a good blend of literary history, criticism and life sketches of poets who wrote devotional poetry in praise of Prophet Muhammad (S.A.W) under influence of poetic school of Karachi.

میرے پیش نظر کراچی کے ایک فعال شاعر منظر عارفی کے ایک ضخیم تذکرہ بعنوان’’کراچی کا دبستان نعت‘‘ (کراچی کے صاحب مجموعہ نعت نگار‘) کا مسودہ ہے ۔ اس تذکرے میں 250صاحب مجموعہ نعت نگاروں کی ایک نعت کے علاوہ نعت نگار کے قدرے مفصل سوانحی حالات کے علاوہ اس کا طرزبیان، اسلوب اور آرا بھی شامل ہیںاور اس طرح یہ کتاب تذکرے کے ساتھ ساتھ نعت نگاروںکے بارے میں کافی معلومات بھی فراہم کرتی ہے ۔تذکرہ نگاری ایک بہت ہی دقت طلب کام ہے کیونکہ تذکرہ نگار کو متذکرہ کے بارے میں مکمل معلومات حاصل نہیں ہوتی ہے ، مرحوم افراد کی مفصل اور مستند معلومات کا ملنا تو ویسے ہی بہت مشکل ہوتا ہے چاجائے کہ باحیات افراد کے بارے میں بھی مستند معلومات نہیں ملتی ہے کہ خود لوگ اپنے بارے میں بتانے میں صادق نہیں ہوتے ہیںایسی صورت میں تذکرہ نگار وںکے کام یا تو غیرمکمل ہیں یا ان میں بہت سی خامی رہ گئی ہیں اس لیے ایک مفصل اور مستند تذکرہ لکھنے میں بے پناہ مشکلات دیکھتے ہوئے اکثر تذکرہ نگاراس کام کو چوم کر چھوڑ دیتے ہیںاور جو تذکرے لکھے گئے ہیں ان میں ناکافی معلومات ، غیر معیاری تخلیقات اور غلط اندراج اور غیر مستند حالات ہیں مگر کچھ کے لیے میں یہ کہوں گا کہ اس میں تذکرہ نگاروں کا بھی قصور نہیں ہے ، انھوں نے بہت کوششیں کی اور کامیاب نہیں ہوئے۔ البتہ کچھ نے سہل اندازی برتی اور بس چند احباب کاذکر کرنا تھا سو ایک تذکرہ لکھ دیا ، کچھ نے اپنے تذکرے میں ہما شما کو بھر کر اسے غیر معیاری اور غیر مستند بھی بنا دیا حالاںکہ تذکرے لکھنے کے لیے کسی صاحب تذکرہ کا مجموعہ ، رسائل و جرائد میں ان کی تخلیقات ، کسی رسائل میں ان کا گوشہ یا نمبر یا پھر کسی دوسرے تذکروں میں ان کاذکر ڈھونڈکر تذکرہ کسی حد تک مکمل کیا جا سکتا ہے ۔یہ کام حقیقت میں بہت جاں سوزی کا کام ہے ،ہاں اگر کسی کے مجموعے میں ہی سوانحی حالات نہ ہوں یا کسی تذکرے میں اس کا ذکر نہ ہو تو مجبوری ہے ،اگر صاحب مجموعہ حیات ہیں تو پھر یہ مشکل کافی حد تک آسان ہو جاتی ہے ،مرحوم ہونے کی صورت میں یہ کمی رہ جاتی ہے مگر میں نے مذکورہ تذکرہ دیکھا تو مجھے یہ خوشگوارحیر ت ہوئی کہ منظر عارفی نے ان تمام ۲۵۰صاحب مجموعہ نعت نگاروں کا تذکرہ بڑے بھرپور انداز میں کیا ہے اور ان کے تذکرے میں ایک دو نہیں کئی کئی حوالے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ کام نہ دنوں کا ہے نہ مہینوں کا بلکہ ایسے تذکرے دو چار برس میں مکمل ہوتے ہیں ،منظر عارفی بہت فعال اور بہت متحرک شخص ہیں ، ایک تو ان کی فعالیت اورپھر ان کی خوش نصیبی کہ انھوں نے ان تمام مشکلات کی آسانی کے لیے صبیح رحمانی کی لائبریری سے بھرپور استفاد ہ کیا جہاں شعرا ء کرام کے نعتیہ مجموعے اور نعت کے حوالے سے کئی رسائل، کئی تذکرے اور کئی کتابیں وافر اندازمیں مہیا ہیں ۔ اس طرح بہت کم وقت میں یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچا ہے ۔یہ تذکرہ کراچی کے صاحب مجموعہ نعت نگار وں کا ایک جامع تذکرہ ہے اور اس تذکرہ کی دوسری خوبی یہ بھی ہے کہ اس تذکرے میں جو نعت نگار ہیں وہ نعت کے علاوہ غزلیں ، نظمیں اور دیگر اصناف سخن میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں اس طرح یہ خالصتاً نعت کہنے والوں کا تذکرہ نہیں ہے بلکہ ان شعرا کرام کا تذکرہ ہے جن کے نعتیہ مجموعے کے ساتھ ساتھ شعری مجموعے بھی منظر عام پر آئے ہیں یوں یہ تذکرہ نعت نگاروں کے حوالے ہی سے نہیں بلکہ سخن وروں کے حوالے سے بھی بہت کارآمد تذکر ہ ہے ۔


اردو ادب کا دامن بہت وسیع ہے ، اس کی کئی اصناف ہیںاور اس میں کئی موضوعات ہیں ۔ ہر صنف میں بے شمار اور ہر موضوع پر لاتعداد کتابیں ہیں، رسائل ہیں اور ان سب پر تذکرے بھی ہیں ۔ تذکروں میں شعرا ء کے تذکرے ، ادبا کے تذکرے، مرثیہ نگاروں کے تذکرے ، نعت نگاروں کے تذکرے ، حمد نگاروں کے تذکرے ، افسانہ نگاروں کے تذکرے ، مزاح نگاروں کے تذکرے غرض کے اردو ادب کی ہر صنف سے تعلق رکھنے والوں کے تذکرے موجود ہیں ۔ یہ تذکرے کس حد تک سود مند ہیں اور اردو ادب میں ان تذکروں کے کیا فوائد ہیں اس پر تھوڑی سی گفتگو ہو جائے ۔


یہ جو تذکرے ہوتے ہیں یہ دراصل سوانح ، ادبی تنقید اور تاریخ کی اساس ہوتے ہیں ، ان تذکروں کو کسی حال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ان تذکروں ہی سے اردو زبان اور ادب کی ارتقائی منزلوں کا پتہ چلتا ہے ۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کہتے ہیں:


’’اردو شعرا کے تذکروں کو ادبی تنقید ، سوانح اور تاریخ کی اساس خیال کرنا چاہیے ۔ان تذکروں کو نظر انداز کر کے نہ تو ہم اردو زبان و ادب کی ارتقائی منزلوں کا سراغ لگا سکتے ہیں اور نہ اس کے ماضی، حال اور مستقبل میں کوئی رشتہ قائم کر سکتے ہیں ۔چنانچہ کلاسیکل شاعری اور ادب دونوں کے متعلق آج ہم جو کچھ جانتے ہیں انھیں تذکروں کے توسط سے جانتے ہیں اور آئندہ بھی ادبی تاریخ و تنقید یا تحقیق و سوانح نگاری کا کوئی کام ان قدیم ماخذات سے یکسر بے نیاز رہ کر نہیں کیا جا سکتا ۔تذکروں کی یہی وہ اہمیت ہے جو کسی ادیب یا ناقد کو ان کے تفصیلی مطالعہ پر اکساتی بھی ہے اور مجبور بھی کرتی ہے۔‘‘۱؎


یہ تذکرے اسی لیے مرتب کیے جاتے ہیں تاکہ حال کے طالب علم اور آئندہ کے محقق ان تذکروں کی مدد سے اس دور کے اردو ادب کے ارتقاکا جائزہ بہ آسانی لے سکیں ۔ ان تذکروں سے نہ صرف اردو ادب کی مسلسل رفتار کاپتہ چلتا ہے بلکہ بہت سے ایسے شعر ا ء کرام جو اپنے درویشانہ مزاج کے مطابق ادب کے منظر نامے میں نظر نہیں آتے مگر ان کے مجموعے کی اشاعت کی وجہ سے اپنے دور میں زندہ رہ جاتے ہیں، ان تذکروں کی وجہ سے وہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ تذکرہ نویسی کی ابتدا کب ہوئی، کس زبان میں ہوئی اور کس موضوع پر ہوئی یہ سب باتیں تو بہت تفصیل طلب ہیں جو اس مقدمے کے لیے بہت طویل ہو جائے گی ۔ ہمیں تو صرف اردو زبان کے شعرا کے تذکروں پر بات کرنی ہے مگر چونکہ اردو سخن کا منبع فارسی ادبیات سے نکلا ہے اس لیے یہ بتانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ فارسی شعرا کا پہلا تذکرہ ’’لباب الالباب ‘‘ ہے اور پہلا فارسی کا تذکرہ نگار محمد غوثی ہے ۔ تذکرہ لباب الالباب ۶۱۷ھ سے ۶۱۸ ھ کے درمیان تکمیل کو پہنچا اور اس کی دو جلدیں اور بارہ ابواب ہیں۔


یہ معلوم کرنا کہ اردو شعرا ء کا پہلا تذکرہ کب لکھا گیا اور کس نے لکھا ؟ اس کے بار ے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:


’’اب رہا یہ سوال اردو شعرا کا پہلا تذکرہ کب لکھا گیا اور کس نے لکھا ؟ ان سوالوں کا حتمی جواب ذرا مشکل ہے ۔قدیم تذکروں کے مطالعے سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ اردو میں تذکرہ نگاری کا رواج میر ؔ اور درد ؔ کے عہد ہی سے ہو گیا تھا اور بعض معاصرین مثلاً محمد یار خاں خاکسار ؔ ،رفیع الدین سوداؔ، سراج الدین علی خاں آرزوؔ اور سید امام الدین وغیرہ نے اردو شعرا کے تذکرے بھی مرتب کیے تھے لیکن وہ دست برد زمانہ سے محفوظ نہ رہ سکے ۔چونکہ یہ تذکرے آج ناپید و نایاب ہیں اس لیے ان کے آغاز و انجام یا نوعیت و کیفیت کے متعلق کوئی گفتگو نہیں کی جا سکتی ۔ ہاں قدیم ترین دستیاب تذکروں کو سامنے رکھ کر ان کی تقدیم و تاخیر کا تعین کیا جا سکتا ہے ۔ اردو کے قدیم ترین تذکروں میں مندرجہ ذیل کے نام لیے جا سکتے ہیں:


i۔’’نکات الشعرا ‘‘از:میر تقی میر ،مولفہ ۱۱۶۵ھ

ii۔’گلشن گفتار ‘‘از: حمید اورنگ آبادی، مولفہ ۱۱۶۵ھ

iii۔’’تحفتہ الشعرا ء‘‘از :افضل بیگ قاقشال ،مولفہ ۱۱۶۵ھ

iv۔’’ریختہ گویاں‘‘ از: فتح علی حسینی گردیزی ،مولفہ ۱۱۶۶ھ

v۔’’مخزن نکات ‘‘از: قیام الدین قائم ،مولفہ ۱۱۶۸ھ ‘‘ ۲؎

مجھے ان تذکروں پر بھی اظہار خیال کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ بھی بہت تفصیل طلب تذکرہ ہے اور یہاں قدرے غیر ضروری البتہ تذکرہ نگاری کے محرکات پر بات کی جاسکتی ہے ۔ مثلا تذکرہ نگاری کا اولین محرک بھی انسان کا وہی فطری جذبہ ہے جو اپنے بعد اپنی ایسی یادگار چھوڑجانا چاہتا ہے جس کی وجہ سے اس کا نام تا قیامت دعائوں کے ساتھ لیا جائے اور وہ زندہ جاوید ہو جائے ۔ انتخاب اشعاریا بیاض نگاری کا شوق بھی اس کا دوسرا بڑا محرک ہے ۔


تیسرا محرک اس تذکرے کو ترقی دینے کا یہ ہے کہ شعرا ء کی معاصرانہ چشمک ، باہم رقابت ، گروہ بندی اور علاقائی تعصب کو ہوا دینا ہے ۔


اردو شعرا کی تذکرہ نگاری کے آغاز و ارتقا کے بارے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری فرماتے ہیں:


اردو شعرا کی تذکرہ نگاری کا آغاز تقریباً اٹھارویں صدی عیسوی کے وسط سے ہوتا ہے اور’’ آب حیات ‘‘مولفہ ۱۸۸۰ء تک برابر قائم رہتا ہے اس کے بعد حقیقتاً تذکرہ نگاری کا دور ختم ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ مغرب کے زیر اثر تنقید ، تاریخ اور سوانح نگاری لے لیتی ہے ۔خود آب حیات طر زِ قدیم کے تذکروں سے بالکل مختلف چیز ہے اس میں اردو زبان کی تاریخ ،لسانی مسائل، مختلف ادوار کی خصوصیات اور شعراء کی شخصیت و کلام پررائے زنی کا وہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے جو تاریخ و سوانح کا خاصا ہونا چاہیے چنانچہ ارد و زبان و ادب کے تقریباً سارے ناقدین آب حیات کو اردو ادب کی پہلی تاریخی و تنقیدی کتاب خیال کرتے ہیں ۔‘‘۳؎


اس کے بعد ڈاکٹر فرمان فتح پوری آب حیات کی طرز پر لکھے گئے کئی تذکروں کا ذکر کرتے ہیںجن میں چند یہ ہیں :’’ آثار الشعرائے ہنود‘‘،’’ جلوئہ خضر‘‘،’’ یادگار ضیغم‘‘ ، ’’آثارالشعرا ء‘‘،’’ آب بقا‘‘، تذکرے شعرائے دکن’’ بہار سخن‘‘ وغیرہم ۔


تذکروں کے بارے میں جیسا کہ اوپر بیان ہے کہ تنقید ، سوانح اور تاریخ کے ساتھ مرتب کیے جاتے ہیں مگر ان تذکروں پر ایک عمومی تبصرہ بھی کیا گیا ہے اس کے بارے میں ڈاکٹر فرمان لکھتے ہیں:


’’تذکروں پر عمومی تبصرہ کے طور پر ’’دنیائے تذکرہ‘‘ کے نام سے افسرامروہوی صاحب کا بھی ایک مضمون فاضل زیدی کے توسط سے ہمیں دیکھنے کو ملا ہے ۔ اس مضمون میں اردو ،فارسی کے شعرا کے تذکروں، گلدستوں ،بیاضوں ،شعر ی مجموعوں اور سوانحی و تاریخ کتابوں پر ملا جلا سرسری تبصرہ کیا گیا ہے لیکن اس میں نہ کوئی تاریخی ترتیب یا توقیت ملحوظ رکھی گئی ہے اور نہ تذکرہ نگاری کے ادوار یا عہد متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ابتدا سے لے کر ۱۹۳۷ء تک کی ایسی متعدد مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابوں کے نام اس میں آگئے ہیں جو فارسی یا اردو ادب سے کسی نہ کسی طرح تعلق رکھتی ہیں بلکہ اس مضمون سے بعض ایسی کتابوں کا سراغ بھی مل جاتا ہے جو مضمون کی اشاعت کے وقت زیر ترتیب یازیرِ تکمیل تھیں ۔۴؎


اردو تذکروں میں بھی ایک ہی غرض پر لکھے جانے کے باوجود بڑی رنگا رنگی ہے ۔ اس بارے میں یہ اقتباس دیکھیے ، ڈاکٹر فرمان فتح پوری بتاتے ہیں:


’’اردو تذکروںمیں بھی بڑی رنگا رنگی ہے ۔بظاہر وہ ایک ہی غرض سے لکھے گئے ہیں۔ بہ حیثیت مجموعی ان کا تنقیدی اسلوب اور تحسینی لب و لہجہ بھی ایک سا ہے یہ بھی صحیح ہے کہ ان میں بعض ایک دوسرے کے جواب یا تقلید میں لکھے گئے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بعض نے دوسرے تذکروں کا مواد بہ ادنی تفسیر اپنا لیا ہے اس کے باوجود ان تذکروں میں اکتا دینے والی یکسانگی و یک رنگی نہیں ہے، موئف کے مزاج، تبحر علمی ،انداز تحریر ،علاقہ، ماحول، عہد اور مقامیت کا انفرادی رنگ ان تذکروں میں کم وبیش نظر آتا ہے ۔اس لیے ان تذکروں میں یکسانگی کے باوجود حد فاصل قائم کرنا کچھ مشکل نہیں رہ جاتا۔ چنانچہ ان کی ہیئت و موضوع کو نظر میں رکھ کر ہمارے ناقدین نے انھیں مختلف خانوں میں تقسیم کیا ہے۔


محی الدین زور مرحوم نے مصنفیں کی نوعیت کا لحاظ رکھ کر اردو تذکروں کی تین خاص قسمیں کی ہیں:


i۔وہ جو کسی بڑے شاعر کے نتیجہ قلم ہیں۔

ii۔وہ جن کے مصنف خود بڑے شاعر نہیں لیکن بڑے شاعر کے گرویدہ شاگرد تھے ۔

iii۔وہ جن کے مصنفین کو سخن گو نہیں بلکہ سخن فہم کہنا چاہیے ۔۵؎


تذکروں کی تاریخ و تعارف کے بعد تذکروں کی معنوی حیثیت و اہمیت پربھی ایک نظر ڈال لیں تو بات بہت واضح ہو جائے گی۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری کہتے ہیں: ’’اب اگر ہم تذکروں کے قدیم و جدید ناقدین کی رایوں پر بیک وقت نظر ڈالیںاور تذکروں پر کڑی سے کڑی تنقید کو جائز رکھیں تو زیادہ سے زیادہ ان پر حسب ذیل اعتراضات وارد ہو سکتے ہیں:


i۔تذکروں میں حالات زندگی عموماً بہت مختصر اور انتخابات کلام اکثر طویل ہیں ۔

ii۔سوانح اور شاعر کے انداز سخن گوئی کے سلسلے میں تقریباً سب نے ایک ہی روشن اختیار کی ہے ۔

iii۔شاعروں کے حالات میں ان کے سال پیدائش و وفات اور عمر و عہد کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا گیا ۔

iv۔ایک شاعر کے اشعار دوسرے شاعر سے یا بعض اشعار کئی کئی شاعروں سے منسوب کر دیے گئے ہیں۔

v۔اکثر تذکروں پر ایک دوسرے کی تقلید کا اثر نمایاں ہے اور تازگی و ندرت بہت کم نظر آتی ہے۔

vi۔شعر کے محاسن میں زیادہ تر صنائع لفظی و معنوی کوا ہمیت دی گئی ہے اور حسب ضرورت ان کو ظاہر کیا گیا ہے ۔

vii۔اکثر طرف داری سے کام لیا گیا ہے اور شعر کی تعریف و تنقیص ذاتی تعلقات کی بنا پرکی گئی ہے۔

viii۔تنقیدی لب و لہجہ پر جوشِ اخلاقی غالب ہے اور عموماً سب کو اچھے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے ۔ زندوں کو دارزی عمر کی دعا دی گئی ہے اور متوفین کو مغفرت کی۔

ix۔اکثر شعراء کے اسلوب و سلیقہ شعر کے لیے مبہم الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے شاعر کی حیثیت واضح نہیں ہوتی۔


لیکن ان خامیوں کے باوجود ان تذکروں کی اہمیت کم نہیں ہوتی ۔‘‘۶؎


اب ہم بات کرتے ہیں کراچی کے اہل قلم پر مرتب کیے ہوئے تذکروں کی ۔تقسیم ہند سے پہلے کراچی کی حیثیت و اہمیت اس قد رنہیں تھی جتنی آزادی کے بعد ہوئی کیونکہ تقسیم ہند کے بعد جو یہ کہا گیا کہ پورا ہندوستان اجڑا تو کراچی آباد ہوا ، اس میں سرمو کوئی مبالغہ نہیں ہے ۔ ہندوستان کے قابل ترین اور اجل شخصیات میں سے بہت سوں نے کراچی کا رخ کیا اور پھر ابتدا میں اس کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے کے منصوبے نے تو کراچی کی قدر و قیمت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ۔ یہ الگ بات کہ چند ہی برسوں میں کراچی سے اس کا یہ اعزاز چھین لیا گیا مگرکراچی میں جو صاحبانِ باکمال آ گئے تھے انھوں نے پھر اسی شہرکو اپنا وطن بنا لیا اور اس کے گیسو سنوارنے میں شبانہ روز مصروفِ عمل ہو گئے ۔ کراچی میں شعرا ء و ادبا کی بھی ایک بڑی تعداد ہجرت کر کے آئی تھی اور کراچی تقسیم کے بعد علم و ادب کا ایک بڑا مرکز بن گیا تھا ۔ کراچی میں کراچی کے قلمکاروں کا پہلا تذکرہ کس نے اور کب لکھا اس پر تو میں نے تحقیق نہیں کی مگر یہ بتا سکتا ہوں کہ۱۹۵۲ء میں علامہ سیماب اکبر آبادی کے بڑے صاحبزادے مظہر صدیقی نے ’’شعرستان ‘‘ کے نام سے ایک تذکرہ مرتب کیا تھا جس میں کراچی کے بھی اہل قلم شامل ہیں ، دوسرا تذکرہ ۱۹۶۱ء میںبعنوان ’’تذکرہ شاعرات پاکستان ‘‘ شفیق بریلوی نے لکھا تھا جس میں کراچی کے علاوہ پاکستان کی شاعرات کا بھی تذکر ہ ہے ۔ہو سکتا ہے کہ اس سے قبل کوئی ایسا تذکر ہ لکھا گیا ہو جو صرف کراچی کے اہل قلم کے بارے میں ہو جو میرے علم میں نہ ہو ۔ اس تذکرے کے علاوہ دیگر تذکرے یہ ہیں جن میں کراچی کے سخن ور بھی شامل ہیں۔


i۔’’تذکرہ ٔشاعرات پاکستان‘‘ از: شفیق بریلوی ، ۱۹۶۱ء

ii۔’’تذکرہ نعت گو شاعرات ‘‘از: ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاںپوری سن ندارد

iii۔’’پھول بن‘‘ از: سکندر نامی ، ۱۹۸۲ء

iv۔’’سخن ور‘‘از: سلطانہ مہر ،جلد ۱، ۱۹۸۰ء( سخن ور کے نام سے مزید جلدیں باترتیب) جلد ۲، ۱۹۹۶ء،جلد ۳، ۱۹۹۸ء،جلد۴، ۲۰۰۴ء، جلد ۵، ۲۰۰۴ء

۴۔’’محراب معانی‘‘ از: سید آفاق جعفری ، ۱۹۸۸ء

v۔’’سفیران سخن‘‘ از: شاعر علی شاعر ، ۲۰۰۸ء

یہ وہ تذکرے ہیں جن کے لکھنے والے تو کراچی کے باشندے ہیں مگر انھوںنے اپنے تذکروں میں کراچی کے علاوہ پاکستان بھر سے اہل قلم کا تذکرہ کیا ہے ۔ صرف کراچی کے اہل قلم پر تذکرہ نگار یہ ہیں:


i۔’’دبستان کراچی کے ممتاز شعراء‘‘،صبا ضیائی /نعیم الحق۱۹۹۰ء

ii۔’’دبستانوں کا دبستان کراچی‘‘،احمد حسین صدیقی ،جلد اوّل(۲۰۰۳ء)، جلد۲(اگست ۲۰۰۵ء) ،جلد۳(۲۰۱۰ء )، جلد۴(۲۰۱۴ء)

iii۔’’سفیران سخن ‘‘(۱۹شعرائے کراچی)شاعر علی شاعر،۲۰۰۵ء


ایک دو تذکرے اور بھی ہو سکتے ہیں جو فی الحال میری دسترس میں نہیں ہیں۔


کراچی کے شعرا پر ایک تذکرہ ’’دبستان کراچی‘‘ کے نام سے راقم الحروف ۱۹۸۰ء سے مرتب کر رہا تھا جس زمانے میں کراچی میںبزرگ اور نامور شعراء کی کہکشاں آباد تھی ۔ ان کی تصویر، ان کے مختصر ترین کوائف ،ان کے کلام پر چند سطری رائے اور ایک غزل پر یہ تذکرہ کامل دس برس تک جمع کرتا رہا بعد میں اس کام کو چھوڑ دیا چھوڑنے کی دو وجہ تھی پہلی تو یہ کہ میرا تذکرہ جو ان دس برسوں میں خاصا جمع ہو گیا تھا اس کی اشاعت نہیں ہو سکی دوسری وجہ عہد حاضر کے بیشتر شاعرات و شاعر کے سخن ور ہونے کا کوئی مستند و معتبر حوالہ نہیں ہے جس کی وجہ سے اس سلسلے کو بند کر دیا۔


اب تذکرہ ہو جائے منظر عارفی کے پیش نظرتذکرے ’’کراچی کا دبستان نعت ‘‘(کراچی کے صاحب مجموعہ نعت نگار )کا ۔اس مضمون میں ابتدا میں تذکرے کی تاریخ، تذکرے کی اہمیت و افادیت،تذکرے کے محرکات اور تذکرے کی خوبیوں اور خامیوں کا ذکر ہو ا ہے ، ان سب کو پیش نظر رکھ کر میں نے جب اس تذکرے کو دیکھا تو مجھے تو سب سے بڑی خوبی جو نظر آئی وہ یہ ہے کہ اس میں تذکرہ نگار نے بڑی محنت سے صاحب کتاب کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں، ان معلومات میں نعت نگار کا سوانحی خاکہ بھی بہت حد تک مفصل ہے ، نعت نگار کے کلام پر تجزیہ ، تبصرہ اور تنقید بھی بھرپور ہے اور نعت بھی خوب دیکھ بھال کر لگائی گئی ہے ، تذکرے میں کلام کا انتخاب بہت معنی رکھتا ہے پھر اس کی کتابت میں عموماً کمی بیشی سے کلام کا حسن غارت ہو جاتا ہے ۔ ان سب باتوں کے لیے تذکرہ نگار کو ایک دو نہیں بلکہ دس سے پندرہ کتابوں سے رجوع کرنا پڑا ہے ۔ ان کتابوں ، تذکروں اوربیاضوں سے اس خوبصورتی سے اقتباس اخذ کر کے مضمون تیار کیا ہے کہ یہ خود ایک مختصر سا مقالہ بن گیا ہے جو حو اشی سے مزین ہے ۔ میرے پاس بہت سے قدیم اور جدید تذکرے ہیں مگر اس طرح کا شعرا ء کے بارے میں بھرپور تذکرہ کوئی نہیں ہے ، سلطانہ مہر نے اپنے تذکرئہ منظوم و منثور ( ’’سخن ور ‘‘اور’’ گفتنی ‘‘) میں شعراء و ادبا کے بھر پور تذکرے دیے ہیں مگریہ تذکرے دراصل ایک سوال نامے پر مبنی ہیں جو سلطانہ مہر نے سب کو دیے اور انھوںنے جس قدر اور جس طرح لکھ دیا ، زیب قرطاس بن گیا ۔ یہ طریقہ تذکرئہ نویسی کے لیے سب سے اہم ماخذ ہوتا ہے کہ جس کا تذکرہ لکھا جا رہا ہے وہی ساری تفصیلات بہم پہنچا رہا ہے اس لیے اس میں کسی کمی یا خامی کا احتما ل نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ اپنے بارے میں یہ اطلاعات بہم پہنچانے والا ہی اگر غلط بیانی کرے یا عدم معلوما ت کا شکار ہو جائے ۔


منظر عارفی نے کسی نعت نگار سے کوئی اطلاع حاصل نہیں کی ، ان کے پیش نظر پہلے نعت نگاروں کے مجموعے تھے ، اس میں سے ان کے بارے میں جتنی معلومات ملی انھیں جمع کیاپھر ان میں سے بیشتر کا ذکر دوسرے تذکروں میں بھی آیا ہے ، وہاں سے حاصل کیا، کچھ نعت نگاروں پر رسائل کے نمبر نکلے ہیں یہ دستاویز بھی بڑے کام کی ہوتی ہے ، غرض کہ منظر عارفی نے نعت نگاروں کے تذکرے کے لیے ہر ممکنہ ماخذات کو پیش نظر رکھا اور پھر ان تمام ماخذات سے ایک بھرپور تذکرہ مرتب کیا ۔ یہ بہت جاں سوز کا م ہے ،بہت دقت طلب اور بہت پتہ مارنے کا کام ہے ، اس کو وہی کر سکتا ہے جس میں سلیقے سے کام کرنے کی لگن ،جستجو اور شوق و ذووق ہو ، منظرعارفی نے بہت ہی اچھے انداز میں ہر نعت نگار کا تذکرہ کیا ہے جو اب تک کے تمام تذکروں میں بھرپور ہے ۔


اس تذکرے سے نعت نگاروں کے بارے میں اس کی سوانح ، اسلوب، زبان و بیان ، طرز ادائیگی اور اس کا مقام و مرتبہ سب ہی کچھ آ گیا ہے ۔ اس سے آئندہ کے تذکرہ نگاروں کے لیے جس قدر کام سہل ہو گیا ہے اس کا انداز اس تذکرے کو دیکھ کر بخوبی ہو جاتا ہے ۔اس تذکرے کو الفبائی ترتیب سے مرتب کیا گیا ہے اور اب یہ ترتیب ہی سب سے بہتر اور تمام الزامات سے بچنے کے لیے آسان ہے اگرچہ اسے تخلص کے لحاظ سے مرتب کیا جاتا ہے جس سے تھوڑی سی تکلیف یہ ہوتی ہے کہ نامور بزرگ ترین اور مشاق و بزرگ شاعر اور استاد اپنے تخلص کی وجہ سے نوآموزوں کے بعد جگہ پاتے ہیںمگر ماضی میں ہر طرح کی ترتیب کر کے دیکھ لی کسی میں بھی اتفاق حاصل نہ ہو سکا یہ الفبائی ترتیب ہی کو اکثریت نے منظور کر لیا ہے اس لیے یہی ترتیب افضل ہے ۔ رہی بات بزرگ اور نومشق شعرا ء کے امتیاز کی تو جو شعر و ادب میں رہتے ہیں ان کو سب کے مقام و مرتبے کا علم ہے ۔


اس تذکرے کا خیال تو صبیح رحمانی کو آیا ہے ،صبیح رحمانی نعت کے حوالے سے کئی جہتوں پر تذکرے مرتب کر بھی رہے ہیں اورکرا بھی رہے ہیں، یہ تذکرہ منظر عارفی سے مرتب کرانے میں صبیح رحمانی کا بڑا حصہ ہے ۔ میں دونوں کے لیے دعا گو ہوں۔


حواشی ۱۔ فرمان فتح پوری،ڈاکٹر، تذکروں کا تذکرہ نمبر ، ص ۷، نگار پاکستان، سالنامہ مئی جون ۱۹۶۴ء ۲۔ ایضاً، ص ۱۴ ۳۔ایضاً، ص ۲۲ ۴۔ایضاً، ص ۲۶ ۵۔ایضاً، ص ۲۸ ۶۔ایضاً، ۳۱