التجا ۔ حسن اکبر کمال

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Nasir Zaidi.jpg

مضمون نگار : ناصر زیدی

بشکریہ : نوائے وقت

حسن اکبر کمال کی "التجا"[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حسن اکبر کمال بڑے باکمال شخص و شاعر ہیں وہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر ہیں۔ اُردو ادبیات کے پروفیسر ہیں، شاعر ہیں، ادیب ہیں، دانشور ہیں اور ہر صنفِ سخن میں رواں ہیں۔

’’سخن‘‘۔’’خزاں میرا موسم‘‘ اور ’’خوشبو جیسی بات کرو‘‘ کی صُورت میں اپنے کمالِ فن کا اعتراف کرانے کے بعد ’’التجا‘‘ کو بھی اپنی جدتِ ادا و نوا کے ذریعے وہ پذیرائی حاصل کرائی جو کم کم کسی کو میسر ہوتی ہے۔ مختصر مگر اہم کے مصداق قد و قامت میں معقول اور قدر وقیمت میں گراں بہا مجموعہِ حمد و نعت ’’التجا‘‘ فکرو تخیلّ کے نئے انداز کا حامل ہے۔ حمدِ باری تعالیٰ روشِ عام سے ہٹ کر نیا اسلوبِ سخن لئے ہوئے ہے:

نگر سے کہسار تک

آسماں سے پار تک

بُوند سے ساگر تک

پھیلا ہُوا اک نام!


نعتیہ نظم ’’روشنی کی لکیر‘‘ بھی ندرتِ اظہار کا منفرد نمونہ ہے:


روشنی اُن کا استعارا ہے

اور یہی روشنی ہمارے لئے

جُزوِ ایماں ہے، اک سہارا ہے


اسی عقیدے و عقیدت کا عاجزانہ اظہار غزل کی ہیئت میں رقم کردہ نعت میں یُوں ملتا ہے:


یہ حمد و نعت و سلام میرے لئے وسیلہ نجات کا ہیں

جو، ان سے ہٹ کر ہیں لفظ جوڑے وہ بس کمالِ سخنوری ہے


’’التجا‘‘ کی اثر پذیری کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا کہ حسن اکبر کمال معہ اہلیہ محترمہ حجِ بیت اللہ کی سعادت سے مشرف ہوئے اور وہ بھی اپنے اس شعر کے نتیجے میں:


یقین ہے وہ مری التجا نہ ٹالیں گے

یقین ہے وہ مدینے مجھے بُلا لیں گے


دوسرے ایڈیشن کے بعد ’’التجا‘‘ کے متوقع تیسرے ایڈیشن کی آمد آمد پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں اور اُن کے ناشر طاہر سلطانی صاحب بھی کہ وہ حمدو نعت کے شعری مجموعوں کو اہلِ ذوق تک پہنچانے اور کارِ با ثواب کا ہُنر جانتے ہیں۔متذکرہ کتاب ’’التجا‘‘ کے صفحات85-79، 105 اور 112 پر ایک لفظ ’’مواجے‘‘۔ ’’مواجے‘‘۔ ’’مواجے‘‘۔ ’’مواجے‘‘ چار بار استعمال کیا گیا ہے۔

جبکہ میری ناقص رائے میں اس لفظ کا صحیح تلفظ ’’موَاجہے‘‘ ہے اور یہی ہونا چاہئے تھا:

حسن اکبر کمال کا ایک نعتیہ شعر اس طرح ہے:


وہ سائبانِ کرم پردہ پوش ہے ورنہ!

ہیں کیا ہماری عبادات اور کیا ہم لوگ؟

اس سے پہلے بھی کسی کا ایک مشہورِ زمانہ شعر میرے حافظے میں یُوں محفوظ ہے:

کیا ہماری نماز کیا روزہ،

بخش دینے کے سب بہانے ہیں


ایک عجیب و غریب حقیقت میرے مشاہدے میں ہے کہ جب کبھی کسی نے دِل کی اتھاہ گہرائیوں سے تمنّائی شعر کہا، اُس کی تمنا، آرزو خواہش ضرور پوری ہوئی اور شعر کی تاثیر یُوں ظاہر ہُوئی کہ اُدھر سے بُلاوا آ گیا۔اس سلسلے میں، دو تین شعراء کی سچی طلب والے اشعار ملاحظہ ہُوں:

سکُوں ملے گا جبھی جب مدینے جاؤں گا

سوال یہ ہے کہ مَیں کب مدینے جاؤں گا

محشر بدایونی


آرزو ہے کہ دِر سیّدِؐ والا دیکھوں!

کاش ناصِر مَیں کبھی گُنبدِ خضریٰ دیکھوں

ناصر زیدی


مدینے جاؤں گا اک دن ضرور جاؤں گا

کہ یہ سفر تو مرے ہاتھ کی لکیر میں ہے

سرشار صدیقی


اور ’’التجا‘‘ میں حسن اکبر کمال کا یقینِ محکم:

یقین ہے وہ مری التجا نہ ٹالیں گے

یقین ہے وہ مدینے مجھے بُلا لیں گے


اور پھر ان چاروں شعراء کو بُلا لیا گیا تھا نا!


حاضری و حضوری کی یہ داستان خاصی دل پذیر ہے محشر بدایونی صاحب نے کسی مشاعرے میں کلام سنایا جہاں ایک بینک کے بہت بڑے افسر اور ادب نواز شخصیت اظہر عباس ہاشمی بھی موجود تھے۔ وہ محشر بدایونی کے اس مایوسانہ سوال پر لہلوٹ ہو گئے سوال یہ ہے کہ مَیں کب مدینے جاؤں گا؟اور فوراً کہا آپ ضرور مدینے جائیں گے تیاری پکڑیں اور یوں محشر بدایونی اپنے اس شعر کی بدولت عمرے کی سعادت حاصل کر آئے:

سکوں ملے گا جبھی جب مدینے جاؤں گا سوال یہ ہے کہ مَیں کب مدینے جاؤں گا؟

اوَروں کے ساتھ بھی یہی حُسنِ سلوک ہُوا!

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]