اندازِ بیاں اور از '''سید فاضل میاں میسوری''' ( انڈیا )

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


FAAZIL.jpg

تحریر: سید فاضل اشرفی میسوری

کتاب: مطاف حرف

شاعر : مقصود علی شاہ

مطاف حرف ۔ اندازِ بیاں اور[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت گوئی توفیقِ الہیٰ اور اذنِ مصطفیٰ کے امتزاج کا حسین نقش ہے. جو اپنے دامن میں حسنِ فطرت کے تمام رنگوں کو سمیٹے ہوئے ہے. تخلیقِ کائنات سے گلدۂ مدحِ رسول میں عجب رنگ و خوشبو کے شگوفے کھلتے رہے ہیں اور قیامِ محشر تک اس میں بہارِ نو کا سلسلہ رہے گا. خلاقِ کائنات اس گلدے کے پھول اپنے چنیدہ بندوں کے دامن میں ڈالتا ہے ۔ انہیں فیروز بختوں میں محترم المقام سید مقصود علی شاہ صاحب ہیں. جن کا دامنِ سخن رنگ برنگے گلہائے مدحت سے بھرا ہوا ہے. خدائے کریم نے اپنے محبوب نبی کی مدحت کے لیے جو الہام کے باب موصوف پر وا کیے ہیں اس پر یقیناً رشک کیا جانا چاہیے. کیوں نہ ہو کہ یہ توفیق ان کے یہاں سیادت سے ہوکے آئی ہے جس میں یکتائی اور انفرادیت کا ہونا ایک امرِ حقیقی ہے. شاہ صاحب کا لہجہ اتنا موثر و شاذ ہے کہ پڑھنے والا قاری ان کے حصارِ عقیدت سے باہر نکل نہیں پاتا. کونسا رنگِ سخن ہے جو ان کی نعت گوئی میں نہیں. روایتی مضامین کو بھی اس ندرت و جدت سے باندھا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے. ردیف و قوافی کا استعمال ہو یا بحر کی روانی ہو یا اسلوبِ بیاں ہو یا لفظیاتی جمال ہو یا کیفِ حضوری ہو یا طرزِ استغاثہ ہو ہر جہت سے آپ کا سخنِ دلنواز ایک شہپارہ معلوم ہوتا ہے.

ویسے تو شاہ صاحب کا ہر شعر ہی جمالِ سخن کا آئینہ ہے. لیکن طوالتِ مضمون کے خوف سے بس کچھ شعر درج کر رہا ہوں جن میں موصوف کی خوش اسلوبی، جدتِ نوائی , تنوعِ مضمون, حسنِ نگارش, شعری ساخت اور دیگر محاسن کی بھر پور ترجمانی ہوسکتی ہے.

کمالِ عجز سے ہے عجزِ باکمال سے ہے

یہ نعت ہے یہ عقیدت کے خدوخال سے ہے


بتا مدینے گیا تھا تو کھو گیا تھا کہاں

سوال میرا بجا طور پر سوال سے ہے

ہر شاعر نعت حضور کی بارگاہ میں اپنے کلماتِ فن پیش کرنے کے بعد عجزِ بیاں کی منزل پہ آجاتا ہے. کہیں غالب کہہ اٹھتا ہے کہ [[غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم]], کہیں حسان الہند امام احمد رضا بریلوی کہتے ہیں "حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے". شاہ صاحب کا امتیازِ فن یہ ہے کہ ان کے یہاں عجز ,نعت کا ایک جزوِ لاینفک ہے جسے آپ اول تا آخر محسوس کرسکتے ہیں.

یہ بات عقائد کے باب سے ہے کہ وجودِ مصطفےٰ علیہ السلام ہی سے وجودِ کائنات ہے. وجودِ آنحضور کے بغیر کسی ایک شئے کا بھی وجود ناممکنات سے ہے. یہ ممکنات کی ساری رعنائیاں اسی وجود کی مرہونِ منت ہیں. مندرجہ ذیل شعروں میں اک غلامِ صادق کا اپنے آقا کے جود و کرم پر منحصر ہونے کا مکمل اظہار ملاحظہ کیجے.

تو سراپا خیر ہے اور رحمت و رافت تمام

میں سراپا معصیت ہوں اور تری قدرت میں ہوں


جیسے میں اک ذرہ ہوں اور چاندنی کے شہر میں

جیسے میں اک بوند ہوں اور بحر کی وسعت میں ہوں


بے نمود و نام سا اک جسم تھا جب اسم تھا

اب میں تیرا نعت گو ہوں اور بڑی شہرت میں ہوں

شاہ صاحب کے فن پر یہ کچھ کلمات لکھتے ہوئے مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہونے لگا ہے کہ ان کو جو حسنِ فن بارگاہِ رسالت سے تفویض ہوا ہے وہ کم از کم مجھ جیسے بے مایہ بندے کے بیان کا محتاج نہیں. میرے لیے یہ بات باعثِ مسرت و شادمانی ہے کہ آپ کی نعوت کا اولین مجموعہ منظرِ عام پر آرہا ہے. میں سمجھتا ہوں یہ ادب پارہ صحت مند ادبی ذوق رکھنے والے قارئین کی تشنگی کے لیے جرعۂ تسکین سے کم نہیں ہے. میں بصمیمِ قلب موصوف کو اس مجموعۂ نعت کی اشاعت پر ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ مولیٰ کریم اس مجموعے کو غیر معمولی پذیرائی اور شرفِ قبولیت بخشے.

نجات مدحِ پیمبر کی آبرو سے ہو

نمازِ صبحِ قیامت اسی وضو سے ہو

(محسن کاکوری)


سید فاضل اشرفی میسوری

میسور - انڈیا

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
کتابوں پر تبصرے
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
گذشتہ ماہ زیادہ پڑھے جانے والے موضوعات