شمسہ نورین کی نعتیہ شاعری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

تحریر : جنید آزر

شمسہ نورین کی نعتیہ شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

الحمدللہ ، شہر اسلام آباد اس وقت فروغ حمدونعت کے حوالے سے ملک کے دیگرشہروں سے دو قدم آگے نظرآتا ہے۔ یہاں موجود "ممحفل نعت پاکستان، اسلام آباد" اور "بزم حمدونعت" جیسی ادبی تنظیمیں حمدونعت کی ترویج کے لیے برسوں سے مصروفِ عمل ہیں۔ "محفلِ نعت" گزشتہ36 برسوں سے ماہانہ نعتیہ محافل کا انعقاداسلام آباد کے گوشے گوشے میں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ "بزم حمدونعت" ۲۷۵ ماہانہ نعتیہ محافل منعقد کر چکی ہے۔ ان کے پیچھے قبلہ عرش ہاشمی اور حافظ نوراحمدقادری کی مساعیٔ جلیلہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تقریباً پانچ برس قبل اسلام آباد میں "محفل نعت" کی خواتین شاخ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کی سرپرستی محترمہ سبین یونس فرما رہی ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے اب تک 56 نعتیہ محافل سجائی جا چکی ہیں ۔ "محفل نعت، خواتین شاخ کی برکت سے اس شہر کی شاعرات کو ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آ گیا جہاں وہ مل بیٹھ کر فروغِ نعت جیسی بابرکت سرگرمی میں حصہ لے رہی ہیں اور نعت کی صنف میں لکھنے والوں کے ذوق و شوق میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

گزشتہ چند برسوں میںشمسہ نورین ایک باصلاحیت شاعرہ کے طور پر سامنے آئی ہیں ۔ پوٹھوہاری ان کی مادری زبان ہے جس میں وہ اپنی شعری تخلیقات کا اظہار کر رہی ہیں جبکہاردو زبان میں بھی ان کی طبع سہولت سے رواں دواں ہے۔ یہ بات بہت ہی خوش آئند ہے کہ ہماری شاعرات دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ اب خصوصیت کے ساتھ نعت گوئی کی طرف راغب ہیں جس کی مثال وہ نعتیہ مجموعہ ہیں جو آئے روز منظرِ عام پر آ رہے ہیں۔ "آبجوئے نور" محترمہ شمسہ نورین کا نعتیہ مجموعہ ہے ۔ اس سے قبل وہ پوٹھوہاری شعری مجموعے "پھل چہولی نیں" سے شعری و ادبی حلقوں میں اپنی شناخت بنا چکی ہیں۔

شمسہ نورین نے عشق رسول کو حرزِ جاں بناتے ہوئے نعت کہی ہے ۔ عقیدت و مؤدت اور اخلاص سے بھرپور ان کی نعوتِ مبارکہ قاری کے دل و دماغ پر سحر آفریں اثرات مرتب کرتی ہیں۔ سرکارِ دو عالم ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات پر درود بھیجنا خالقِ کائنات کی سنت ہے۔ یہ فرشتوں کے روزوشب کا وظیفہ ہے ۔ شمسہ نورین نے بھی اسی دعا کو اپنی شاعری کا محور بنایا ہوا ہے ۔ ان اظہار دیکھیں:

خرامِ خامہ سے آئے صدائے صلِ علیٰ

یوں سہل مجھ پہ ثنائے رسول ہو جائے

وہ کہتی ہیں کہ اے رب! میرے قلم کی ہر جنبش، ہر حرکت ایسی ہو جائے کہ جیسے وہ خود ہی درودِ پاک پڑھ رہا ہو۔

میرے لیے نبی پاک ﷺ کی تعریف لکھنا ایسا سہل ہو جائے جیسے سانس لینا — کوئی رکاوٹ نہ ہو، کوئی تصنع نہ ہو، بس اخلاص ہو اور عشق ہو۔شمسہ نورین کے ہاں نعت لکھنا کوئی فنی مشق نہیں بلکہ دل کی صدا بن کر سامنے آتی ہے ۔ وہ قلم کو محض ایک آلہ نہیں، بلکہ ایک "ذاکر" کے طور پر دیکھتی ہیں۔یہ نعت محض ادب کا عمل نہیں، بلکہ عشق کا اظہار بھی ہے۔خرامِ خامہ" ایک نہایت دلکش استعاراتی ترکیب ہے.” صدائے صلِ علیٰ" — اس میں آواز، ذکر اور محبت تینوں کی کیفیت سمائی ہوئی ہے۔سہل مجھ پہ..." میں تمنّا اور عاجزی جھلک رہی ہے۔

ہر شخص کو یہ عظیم مرتبہ حاصل نہیں ہوتا کہ وہ عشقِ رسول ﷺ کی راہ پر چل سکے۔ یہ ایک خاص نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ کچھ چنیدہ (منتخب) بندوں کو عطا فرماتا ہے۔ یہ لوگ اپنے دلوں میں اتنی گہرائی سے نبی کریم ﷺ کی محبت رکھتے ہیں کہ ان کا دل خود نعتِ نبی ﷺ کا مظہر بن جاتا ہے۔ گویا ان کے جذبات، خیالات اور کیفیات خود نعت میں ڈھل جاتی ہیں۔ اس کا اظہارشمسہ نورین کے ہاں اس طرح سے ہوتا ہے:

کچھ لوگ چنیدہ ہیں رہِ عشقِ محمد

کچھ خاص ہیں دل جن پہ عیاں نعتِ نبی ہے

شمسہ نورین عشقِ نبی ﷺ کو ایک راستے کے طور پر دیکھتی ہیں وہ راستہ — جو روحانی سفر کی علامت ہے۔نعتِ نبی عیاں ہونا" کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صرف زبانی کلامی نعت کہہ رہی ہیں، بلکہ ان کا باطن، ان کی سوچ، ان کے جذبات سب کچھ نعت بن چکے ہیں۔یہ شعر ایک روحانی مرتبہ کو بیان کرتا ہے جو عام لوگوں کو نہیں بلکہ خالص دلوں والے، سچے عاشقانِ رسول ﷺ کو ملتا ہے

بلا شبہ، سرکارِ دو جہاں، رحمت اللعالمین بن کر آئے ۔ ان کی شفاعتیں تمام کائنات کے لیے ہیں۔ ان کی تعلیمات سے ہر کوئی فیض اٹھا سکتاہے۔ زمانے ان کے افکار کی روشنی میں اپنے لیے بہترین راستے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے نورِ جمال کی ایک لَو، ایک ہلکی سی چمک پوری دنیا کو منور کرنے کے لیے کافی ہے۔اُن کے نور کی گزرگاہ سے، اُن کے قدموں کی راہ سے روشنی بٹتی ہے — جس میں صرف زمین نہیں، دل بھی روشن ہوتے ہیں۔ شمسہ نورین اس حقیقت کا اظہار اس طرح کرتی ہیں۔

روشن ہے زمانہ ترےکردار کی لَو سے

بٹتی ہے ضیا کوچۂ انوار کی لَو سے

یہ شعر ایک نعتیہ تجلی ہے۔ یہاں "زمانہ" محض وقت یا دنیا نہیں، بلکہ کائناتی وسعت کی علامت ہے۔"انوار کی لَو" وہ روحانی نور ہے جو نبی کریم ﷺ کی ذات سے پھوٹتا ہے۔"کوچۂ انوار" میں شاعرہ نے مدینہ کی گلیوں کو روحانیت کا مرکز بنا دیا ہے۔گویا وہ جگہ نہیں، فیضان کا سرچشمہ ہے۔ شاعرہ نے نور، روشنی، ضیا، لَو جیسے الفاظ سے نوری دنیا کا نقشہ کھینچ دیا ۔یہ شعر بتاتا ہے کہ:دنیا کی اصل روشنی، ترقی، سکون اور ہدایت، نبی کریم ﷺ کے نور سے وابستہ ہےجو اُن کے کوچے سے جڑتا ہے، وہ خود بھی "ضیا بانٹنے والا" بن جاتا ہے۔

درودِ پاک محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ وہ نوری زنجیر ہے جو بندے کو براہِ راست رحمتِ الٰہی سے جوڑ دیتی ہے۔ جو دل ذکرِ مصطفیٰ ﷺ سے مہکنے لگتا ہے، اس پر رحمت کے در کھلنے لگتے ہیں۔ درود وہ مقدس صدا ہے جسے فرشتے اپنی پلکوں پر اٹھاتے ہیں، اور جس کا جواب خود ربِ کریم دیتا ہے۔ جو شخص درود کو اپنا ورد بناتا ہے، اس کی دعائیں رد نہیں ہوتیں، اس کے دل کو سکون نصیب ہوتا ہے اور اس کے اعمال نور میں بدل جاتے ہیں۔ درود، نہ صرف گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے، بلکہ روحانی ترقی اور دنیا و آخرت کی فلاح کی کنجی بھی ہے۔ درود سے انسان کی زبان پاک ہوتی ہے، دل منور ہوتا ہے، اور زندگی پر خیر و برکت کی بارش ہونے لگتی ہے۔ یہ وہ خزانہ ہے جو خرچ کیے بغیر بڑھتا ہے، اور اگر کسی کو دیا جائے تو لوٹ کر کثرت سے آتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ "درود پاک" شمسہ نورین کی شعری کائنات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اس کے فضائل و شمائل کی وسعت کی قائل نظر آتی ہیں۔ ان کے ہاں ایسے متعدد اشعار مل جاتے ہیں جن میں درود پاک کی فضلیت بیان کی گئی ہے۔

بے حد و بے کنار فضائل درود کے

بے پایاں بے شمار شمائل درود کے

بے حد و بے کنار فضائل..." سے ظاہر ہوتا ہے کہ درود شریف کی برکتیں لامحدود ہیں — ان کا کوئی انت نہیں اور ساتھ ہی "شمائل" — یعنی وہ روحانی اوصاف، نورانی اثرات جو درود کے ذریعے عاشق کے باطن پر ظاہر ہوتے ہیں۔درود نہ صرف عبادت ہے، بلکہ روحانی شفافیت، اخلاقی تطہیر، اور باطنی جمال کا ذریعہ بھی ہے۔ اس شعر میں "بے حد و بے کنار"، "بے پایاں بے شمار" — میں صوتی تکرار کا خوبصورت استعمال ہے جو اشعار کو وزن اور ترنم دیتا ہے۔خوشبو کا سفر" اور "خلد کا رستہ" — انتہائی لطیف، استعاراتی تصویریں ہیں۔ہر مصرع میں فکر، جذبہ اور فصاحت ہم آہنگ ہیں۔ شمسہ نورین کا ایک اور شعر دیکھیے:

خوشبو کا سفر، خلد کا رستہ نہیں بھولا

جو اُن پہ درودوں کا سلیقہ نہیں بھولا

خوشبو کا سفر، خلد کا رستہ..." یہاں "خوشبو" علامت ہے ذکرِ مصطفیٰ ﷺ کی روحانی مہک کی، جو دل سے نکل کر کائنات کو معطر کرتی ہے۔جو بندہ درود کا سلیقہ (یعنی ادب، اخلاص، طریقہ) نہیں بھولتا، وہ نہ خوشبو سے جدا ہوتا ہے، نہ جنت کے راستے سے۔یہاں درود کو روحانی ہدایت کا زینہ کہا گیا ہے — گویا جو درود سے جڑ گیا، وہ راہِ جنت پر گامزن ہے۔ درود سے ہیں رحمتوں کے لا زوال سلسلے"یعنی درود صرف ایک ذکر نہیں بلکہ ایک مسلسل بہتا ہوا فیض کا دریا ہے — جو کبھی رکتا نہیں ۔

درود سے ہیں رحمتوں کے لا زوال سلسلے

مکین کائنات کے درود سے نہال ہیں

شمسہ نورین کا عقیدہ ہے کہ یہ کائنات کا سب نظام درود پاک کی خیرو برکت سے ہے۔درود صرف زبان کا ذکر نہیں، یہ دل کی لطافت ہے، اور روح کی جلا ہے۔جو درود سے جڑ گیا، وہ خوشبو، نور، خلد، اور رضائے الٰہی کے راستے پر چل پڑا۔درود پاک ایک لازوال فیض ہے جو قیامت تک جاری ہے — اور ہر اُس دل کو سیراب کرتا ہے جو عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے روشن ہے۔

ایک اور شعر دیکھیے:

وردِ صل ِ علیٰ لب پہ جاری رہا، ہم بھنور سے کناروں تلک آ گئے

ان کے دامانِ رحمت کو تھامے ہوئے کیسی نوری بہاروں تلک آ گئے

اس شعر کے پہلے مصرع میں " — درودِ پاک کو ذکر کے طور پر لیا گیا ہے، جو لبوں سے جاری ہے، یعنی یہ ذکر ایک ایسی عبادت ہے جو دل کی گہرائیوں سے لبوں تک پہنچ کر ہونٹوں کی حرکت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ہم بھنور سے کناروں تلک آ گئے" ، "بھنور" ایک خطرناک ، گہری اور پیچیدہ حالت کی نمائندگی کرتا ہے، جیسے انسان دنیا کی مشکلات اور گناہوں میں گھرا ہوتا ہے۔کناروں تک پہنچنا یعنی امن، سکون، اور نجات کا ملنا — یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کی زندگی میں دینی سکون آتا ہے۔یہ مصرعہ دراصل بتا رہا ہے کہ درودِ پاک کا ورد کرنے والے شخص کی حالت میں ایک روحانی تبدیلی آتی ہے، جو اُسے مشکل حالات سے نکال کر امن و سکون کی طرف لے آتی ہے، اور یہ درودِ مصطفیٰ ﷺ کی برکات سے ممکن ہوتا ہے۔

"ان کے دامانِ رحمت کو تھامے ہوئے کیسی نوری بہاروں تلک آ گئے"

دامانِ رحمت" — یہاں "دامان" سے مراد ہے نبی ﷺ کی رحمت کا دامن، جسے پکڑ کر انسان خود کو نجات اور امن کی طرف گامزن کرتا ہے۔"نوری بہاروں تلک آ گئے" — "نوری" سے مراد ہے روحانی روشنی، اور "بہاروں" کا مطلب ہے خوشی، سکون، اور زندگی کی رنگینی۔یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ نبی ﷺ کی رحمت کا دامن تھامنے سے انسان اپنی روح میں روشنی پاتا ہے اور روحانی خوشی تک پہنچتا ہے۔

درودِ پاک پڑھیں رحمتیں کماتے چلیں ۔۔۔ انہی کے ذکر سے اعمال جگمگاتے چلیں

درودِ پاک پڑھیں" — یہ جملہ ایک دعوت ہے کہ درودِ پاک کو پڑھنا انسان کے لیے رحمت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔"رحمتیں کماتے چلیں" — یہاں رحمتیں کماتے چلنا ایک استعارہ ہے جو درودِ پاک کے ذریعے رحمتوں کے بے شمار خزانے حاصل کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔یعنی جیسے ہم دن رات درود پڑھتے ہیں، ویسے ہی ہم اللہ کی رحمتیں کما کر زندگی میں خوشی، سکون، اور کامیابی پا سکتے ہیں۔ یہ مصرعہ بتاتا ہے کہ جو شخص درودِ پاک پڑھتا ہے، وہ نہ صرف اپنی روحانی ترقی کرتا ہے بلکہ اللہ کی رحمتوں کا مستحق بنتا ہے، اور زندگی کی ہر دُشواری میں رحمتیں کماتا ہے۔

عقیدۂ ختمِ نبوت ، شعائر ایمان کا مرکزی ستون ہے ۔ختمِ نبوت پر ایمان رکھنا اسلامی عقیدہ کی اصل ہے اور اس پر یقین مسلمان کی روحانی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ عقیدہ ختم نبوت ہر مسلمان کے ایمان کا جزوہے۔ ختمِ نبوت نبی کریم ﷺ کی شان اور مقام کا حصہ ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر پورے ایمان سے اعتقاد رکھنا ضروری ہے۔ یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت و عنایت اور نبی ﷺ کی عظمت کی نشانی ہے کہ آپ ہی آخری نبی ہیں اور اس پر ایمان لانا دینِ اسلام کی بنیاد ہے۔ شمسہ نورین کی ایک نعت کا مطلع دیکھیں:

نبی کی شان ہے ختمِ نبوت ۔۔۔ مرا ایمان ہے ختمِ نبوت

اس شعر میں شاعرہ اپنی پختہ عقیدت اور یقین کا اظہار کر رہی ہے کہ ختمِ نبوت پر اس کا پورا ایمان ہے اور اس کا کامل یقین ہے کہ نبی اکرم ﷺ آخری نبی ہیں۔یہ صرف ایک عقیدہ نہیں، بلکہ ہماری روح کا حصہ ہے۔ یہ ایمان ہر مسلمان کی روحانی پہچان ہے، جو اس بات کا گواہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ خاتم النبیین ہیں اور اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔

"تجھ کو حاصل ہے رسولوں کی امامت کا شرف"

"تیرا اعجاز ہے قر آ ن ، مدینے والے"۔

یہ شعر دو عظیم حقیقتوں کو باندھتا ہے: نبی کریم ﷺ کی قیادت تمام انبیاء پر — یعنی آپ کا مقام صرف ایک نبی کا نہیں، بلکہ تمام نبوتوں کا نقطۂ کمال ہے۔ قرآن، جو تا قیامت ایک زندہ معجزہ ہے — یہ نبی ﷺ کی صداقت اور نسبتِ ربانی کا سب سے روشن گواہ ہے۔

"رسولوں کی امامت ، یہ الفاظ نہایت بلند مقام کی نشان دہی کرتے ہیں۔ امامت صرف نماز میں نہیں، بلکہ رہنمائی، قیادت، اور کمالِ رسالت کی جامع علامت ہے۔ آپ ﷺ تمام رسولوں کے امام ہیں۔ اس شرف کا سب سے نمایاں مظہر واقعہ معراج ہے، جہاں تمام انبیاء نے نبی کریم ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی۔ یہ واقعہ اس شعر کی حقیقت کو روحانی دلیل فراہم کرتا ہے۔ یعنی آپ ﷺ صرف نبی نہیں، نبیوں کے بھی رہبر و امام ہیں۔ یہ وہ شرف ہے جو کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔

دوسرا مصرع میں "اعجاز": یعنی معجزہ، وہ چیز جو انسان کے فہم سے بالاتر ہو۔ "قرآن"ایک ایسا ازل تا ابد زندہ معجزہ جو نہ صرف ہدایت ہے بلکہ نبی کریم ﷺ کی صداقت کا جاوداں ثبوت ہے۔ایک ایسا معجزہ جو قیامت تک باقی رہے گا، نہ جھٹلایا جا سکتا ہے، نہ ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ صرف کتاب نہیں بلکہ زندہ نور ہے، جو نبی ﷺ کے ذریعہ نازل ہوا، اور جو ہدایت، فصاحت، بلاغت، اور روحانیت کا سر چشمہ ہے۔ جس کا معجزہ کبھی ختم نہ ہوگا، اور آپ کی نبوت کا فیض تا قیامت جاری رہے گا۔

بے گھر کے لیے جیسے کسی گھر کا تصور

ایسے ہے مرے واسطے اس در کا تصور

یہاں پہلا مصرعہ جذباتی تعلق کی ایک گہری مثال ہے۔ "بے گھر" ہونا صرف جسمانی کیفیت نہیں، بلکہ اندرونی خلا، محرومی اور تڑپ کی علامت ہے۔ اور "گھر کا تصور" ان تمام محرومیوں کا مرہم، پناہ، اور سکون ہے۔ یہاں شاعر نہایت حساس تمثیل کے ذریعے یہ بتاتا ہے کہ جیسے ایک بے سہارا شخص کسی گھر کے تصور میں سکون ڈھونڈتا ہے، اسی طرح میری روح اس درِ اقدس ﷺ کے تصور میں ٹھہرتی ہے۔

"ایسے ہے مرے واسطے اس در کا تصور"

یہاں "اس در" سے مراد ہے: درِ مصطفیٰ ﷺ — درِ مدینہ — وہ در جہاں رحمت ٹھہرتی ہے، اور دلوں کو قرار آتا ہے۔ اس مصرع میں شاعر نے نہ صرف ادب و عقیدت بلکہ روحانی تعلق کو بیان کیا ہے: یہ در محض ایک جگہ نہیں، بلکہ میرے لیے ایک ایسا "روحانی گھر" ہے ۔جو خوابوں میں، دعاؤں میں، اور ہر تڑپ میں موجود ہے۔

ایک ایسا شخص جو دنیا میں تہی دست، خالی، اور پریشان ہے — لیکن جب وہ درِ نبی ﷺ کا تصور کرتا ہے، تو جیسے اس کا وجود سکون اور سائے میں آجاتا ہے۔ یہ تصور صرف ظاہری گھر کی جگہ نہیں لیتا، بلکہ روح کی جائے پناہ بن جاتا ہے۔ یہاں عشق مکان میں نہیں، مقام میں ڈھل جاتا ہے — اور وہ مقام ہے درِ مصطفیٰ ﷺ۔ محبتِ رسول ﷺ وہ واحد سایہ ہے جس کا محض تصور بھی بے گھروں کو گھر عطا کرتا ہے۔

شمسہ نورین نعت گوئی کی اُس روشن روایت قافلے میں شامل ہیں ، جہاں عشقِ رسول ﷺ ادب کی لطافت میں ڈھل کر قاری کے دل میں اترتا ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری محض الفاظ کا تاثر نہیں، بلکہ ایک روحانی تجربہ ہے جہاں جذبات، عرفان اور خلوص کی آمیزش نظر آتی ہے۔ شمسہ نورین کے اشعار میں نبی کریم ﷺ سے عقیدت و محبت مصرع در مصرع جھلکتی ہوئی اس روشنی کی مانند ہے جو قلوب کو منور کر دیتی ہے۔ ان کی نعتیں سادگی اور سچائی کا خوبصورت امتزاج ہیں، جن میں لفظ محبت بن جاتے ہیں، اور جذبہ عبادت۔ ان کے اشعار کی آب جو میں خاموشی سے بہتا ہوا نور دل کی تاریکیوں کو دھو دیتا ہے۔ نورین شمسہ کا اسلوب سادہ مگر دل نشین ہے، کہیں مشکل تراکیب اور ابہام نہیں، وہ لفظوں کے ذریعے ایک ایسی دنیا بساتی ہیں جہاں ادب، عشق اور عقیدت ایک ہو جاتے ہیں۔ان کی نعتوں میں نہ صرف نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کی جھلک ملتی ہے بلکہ ایک اُمتی کے جذبات، التجائیں اور روح کی پکار بھی سنائی دیتی ہے۔ ان کا قلم جب "درِ نبی ﷺ" کی دہلیز کا ذکر کرتا ہے تو محسوس ہوتا ہے جیسے قاری خود اس در کی خاک پر سجدہ ریز ہے۔ شمسہ نورین نعت کو صرف مدحتِ مصطفیٰ ﷺ ہی نہیں، بلکہ بندگی، دعا اور آنسوؤں کا پیغام بھی بناتی ہیں۔ ان کی نعتیہ شاعری میں حمد کی طہارت، مناجات کی تاثیر، اور عشقِ رسالت کا جمال، ایک حسین امتزاج کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ ربِ کریم ان کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔ آمین

حوالہ جات و حواشی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]