"مناقب حسین بن علی" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
 
(ایک ہی صارف کا 9 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 22: سطر 22:
اگر آپ شاعر ہیں اور آپ نے کوئی سلام یا منقبت کہہ رکھی ہو تو  [[تبادلۂ خیال:مناقب حسین بن علی  ]] کو ترمیم کرکے پیش کر دیں ۔
اگر آپ شاعر ہیں اور آپ نے کوئی سلام یا منقبت کہہ رکھی ہو تو  [[تبادلۂ خیال:مناقب حسین بن علی  ]] کو ترمیم کرکے پیش کر دیں ۔


===منقبت ===
===مناقب و ذکر ِ کربلا  ===
 
 
===== ابو الحسن خاور ۔ وہ ایک نور جو غار حرا سے آتا ہے  =====
 
شاعر :  [[ابو الحسن خاور ]] ، [[لاہور ]] ، [[پاکستان ]]،
 
سال : [[2018]]
 
وہ ایک نور جو غار حرا سے آتا ہے
 
اسی کا عکس تو کرب و بلا سے آتا ہے
 
 
ہزاروں سال زمانے نے انتظار کیا
 
کہ کربلا میں کوئی کب منٰی سے آتا ہے
 
 
نہ پیاس میں علی اصغر رگڑتے ہیں ایٹرھی
 
نہ دوڑ کر کوئی کوہ صفا سے آتا ہے
 
 
میں بھول سکتا ہوں کچھ دیر کے لیے سب کچھ
 
مگر وہ تیر کہ جو حرملہ  سے آتا ہے
 
 
یہ جیسے کرب و بلا ہی کا ایک آنسو ہو
 
فرات  بہتا  ہوا نینوا سے آتا ہے
 
 
 
غم ِ حسین  میں اشکوں  کو کیا سمجھتے ہو؟
 
مجھے تو لگتا ہے  پرسہ خدا سے آتا ہے
 
===== احمد جہانگیر - تنویر پر طمانچے ، پھولوں پہ تازیانہ  =====
 
شاعر :  [[احمد جہانگیر ]]، [[کراچی]]، [[پاکستان ]]
 
سال : [[2018]]
 
 
تنویر پر طمانچے، پھولوں پہ تازیانہ
 
عفّت مآب کنبہ، عالی نسب گھرانہ
 
 
تسبیح میں ستارے، آفاق کا مصلّی
 
تطہیر کی قناتیں، رحمت کا شامیانہ
 
 
آیات کا تسلسل، اسرار پر تفکّر
 
تمجید کا ترنّم، توحید کا ترانہ
 
 
گریہ کناں ضریحیں، رنجور تعزیے ہیں
 
تابوت غم رسیدہ، پرچم کا تھرتھرانا
 
 
سورج کا رک کے چلنا، گرنا کبھی سنبھلنا
 
تارے اٹھا اٹھا کر خیمے کی سمت لانا
 
 
گھوڑے سے شہؑ کا گرنا، امّاں کا گرد پھرنا
 
خاتمؐ تری دہائی، فریاد مہربانا
 
 
تسخیر کی منادی، نیزوں کی چمچماہٹ
 
ماتم کناں شریعت، گریاں رسولؐ خانہ
 
 
زنجیر پر مصیبت اور طوق پر قیامت
 
بیڑی کا پاوں پڑنا، رسّی کا گڑگڑانا
 
 
کہرام میں فلک پر خورشید ڈوبتا ہے
 
نیزے پہ اٹھ رہا ہے شبّیرؑ سا یگانہ
 
 
پرسے کی چاندنی پر، شٙیون کا استغاثہ
 
اور عصر کی تلاوت سنتا ہوا زمانہ
 
===== اسلم فیضی ۔ كاتبِ تقدیر نے یہ سانحہ كیسا لكھا؟ =====
 
شاعر  : [[اسلم فیضی ]]، [[کوہاٹ ]] ، [[پاکستان ]]
 
كاتبِ تقدیر نے یہ سانحہ كیسا لكھا؟
 
بہتے دریا كے لبوں پر پیاس كا صحرا لكھا!
 
 
كس نےاُس كی چھاؤں میں كردی ملاوٹ دھوپ كی
 
غیر كے سر پر بھی جس نے دُھوپ میں سایہ لكھا
 
 
سرِنگوں سچاٸی كو كب كرسكی تیغِ ستم
 
جرأتِ شبیرؓ نے حرفِ وفا كیسا لكھا
 
 
كربلا میں كِشتِ دیں كی آبیاری كے لۓ
 
پیاس كے ماروں نے اپنے خُون كا دریا لكھا


===== آصف قادری -حُسینیوں کو بسانا‘ حسین جانتے ہیں =====


شاعر: [[آصف قادری | محمد آصف قادری ]]، [[واہ کینٹ]]، [[پاکستان ]]
رَو پڑی ہوگی اجل اُس سنسناتے تیر پر


گردنِ اصغرؓ پہ جس نے زخم اِك گہرا لكھا


حُسینیوں کو بسانا‘ حسین جانتے ہیں


یزیدیوں کو مٹانا‘ حسین جانتے ہیں
سیّدہ زینبؓ ! تِرے صبر وتحمل كو سلام


تُو نے لوحِ زندگی پر حوصلہ كیسا لكھا


یہ دشمنوں نے بھی مانا کہ دین کی خاطر


خود اپنا کنبہ لُٹانا‘ حسین جانتے ہیں
جب بھی نكلا عدل كو یكسر مٹانے كیلۓ


ظُلم نے فیضی خود اپنی قبر كا كتبہ لكھا


اگرچہ سَر ہے جُدا ہو کے نوکِ نیزہ پر
===== عبد الجلیل ۔ اے حسینؓ ابنِ علیؓ سب کچھ لُٹایا آپ نے =====


کلام رب کا سُنانا‘ حسین جانتے ہیں
شاعر: [[حافظ عبد الجلیل ]]، [[کوہاٹ ]]، [[پاکستان ]]


اے حسینؓ ابنِ علیؓ سب کچھ لُٹایا آپ نے


پڑا جو وقت تو ہرگز نہ آنچ آنے دی
جان و مال و آل دے کر دیں بچایا آپ نے


نبی کا دین بچانا‘ حسین جانتے ہیں


منبرومحراب ومسجد میں تلاوت سب نےکی


گواہی دیتی ہے آصف زمینِ کرب و بلا
بر سرِ نوکِ سناں قرآں سنایا آپ نے


لہو سے پھول کِھلانا حسین جانتے ہیں


آسماں بھی رو پڑا تھا اکبرؓ و قاسمؓ کا جب


کربلا کی ریت سے لاشہ اُٹھایا آپ نے




===== اسلم فیضی ۔ صدق ویقین ومہر و محبت حسینؑ ہیں =====
تین دن پیاسے رہے اور بر لبِ نہرِ فرات


شاعر : [[اسلم فیضی ]] ،  [[کوہاٹ ]]، [[پاکستان ]]
تشنہ اصغرؓ دے دیا ‘ پانی نہ مانگا آپ نے


صدق ویقین ومہر و محبت حسینؑ ہیں


دستورِ زندگی كی حقیقت حسینؑ ہیں
کس طرح اےشاہِ دیں! میدان میں جاتےہوئے


عابدِؓؓ بیمار کو سینے لگایا آپ نے


سجدوں كی كہكشاں سے عبارت ہےجن كی ذات


وہ آشناۓ روحِ عبادت حسینؑ ہیں
لشکر شامی سے آکر وہ حسینی بن گیا


اپنے قدموں میں بلا کر حُر بنایا آپ نے


بخشا گیا ہے اُن كو وقارِ خود آگہی
===== کاشف حیدر ۔ حسینؑ ذکر ترا گام گام کرتے ہوئے =====


اپنے لۓ تو نورِ بصیرت حسینؑ ہیں
شاعر: [کاشف حیدر |  کاشف حیدر رضوی ]]، [[شکاگو]]،




ہر زوایے سے كیوں نہ انہیں معتبر كہوں
حسینؑ ذکر ترا گام گام کرتے ہوئے


فخرِ حیات و فخرِ شہادت حسینؑ ہیں  
گزر رہے ہیں زمانے سلام کرتے ہوئے




جس نے نبیۖ كے دین كو ضو پاش كردیا
حسینؑ آپ نے سجدوں کو زندگی بخشی


اس روشنی كی زندہ علامت حسینؑ ہیں
بس ایک سجدہِ آ خر تمام کرتے ہوئے




ہر عہد میں لڑیں گے یزیدوں كے ساتھ ہم  
اٹھا کے پرچمِ عباسؑ ہم علیؑ والے


ہر عہد میں ہماری ضرورت حسینؑ ہیں  
چلے ہیں فکرِ حسینی کو عام کرتے ہوئے




دیكھو تو كربلا میں ہیں تكمیل انقلاب
چلےہیں جانب مقتل برائے دین نبی


سوچو تو پورے دہر كی قیمت حسینؑ ہیں
حسین ؑ تیغِ علیؑ بے نیام کرتے ہوئے




نوكِ سناں پہ بھی رہا غیرت كا بانكپن
منافقین علیؑ کو علیؑ کی لخت جگر


خورشیدِ آسمانِ شجاعت حسینؑ ہیں
سبق سکھا گئی طے راہ شام کرتے ہوئے


===== اسلم فیضی ۔ صفحہِ زیست پہ تحریر شہادت چمكی =====


شاعر : [[اسلم فیضی ]] ،  [[کوہاٹ ]]، [[پاکستان ]]
اسے شجیعِ عرب تک رہے ہیں حیرت سے


جو مسکرا دیا حجت تمام کرتے ہوئے




صفحہِ زیست پہ تحریر شہادت چمكی
اسے خبر تھی غریبوں پہ شام بھاری ہے


اِك نۓ رنگ سے انسان كی عظمت چمكی
بہت اداس تھا سورج بھی شام کرتے ہوئے




كس نے خوں بانٹ دیا اپنے جگر پاروں كا
زمین کیوں نہ پھٹی جس گھڑی چلے ظالم


نوكِ شمشیر پہ یہ كس كی سخاوت چمكی
ردائے فاطمہ زہراؑ کو عام کرتے ہوئے




ورنہ تا حشر یزیدوں كی حكومت ہوتی
چلیں جو دخترِ شبیر ؑ ڈھونڈنے زینبؑ


شكر ہے حضرت شبیرؓ كی جرأت چمكی
ملی وہ لاشہ شہہ سے کلام کرتے ہوئے




بجھ گٸیں ظلم كی سب مشعلیں یارو! لیكن
لحد سے حشر تلک یوں سفر کرو کاشف


ریگِ كربل میں فقط اُن كی قیادت چمكی
غمِ حسینؑ میں ماتم مدام کرتے ہوئے




معتبر كیوں نہ اجالوں كا سفر ہو فیضؔی


راكبِ دوشِ رسالتﷺ كی امامت چمكی




=====عبدالحلیم گونڈوی ـ کون سمجھے کون  جانے  رتبۂ  ابن علی=====


===== بلال راز ۔ تاریکیوں میں شمع ہدایت حسین ہیں  =====


شاعر : [[بلال راز]]۔  [[بریلی]] ، [[بھارت]]
شاعر: [[عبدالحلیم گونڈوی ]]


تاریکیوں میں شمع ہدایت حسین ہیں


زحمت ہے گر یزید تو رحمت حسین ہیں
کون سمجھے کون  جانے  رتبۂ    ابن علی


بوسہ گاہ  مصطفیٰ  ہے  چہرۂ    ابن  علی


ہم کو اسی لئے ہے محبت حسین سے


الله کے نبی کی محبّت حسین ہیں
ان کی نسبت سے ہے قائم  افتخار زندگی


ٹوٹنے پائے  نہ پھر یہ  رشتۂ  ابن علی


جن کو کہا نبی نے کہ یہ دو ہیں میرے پھول


حضرت حسن ہیں دوسرے حضرت حسین ہیں
جان دے دی پر یزید وقت کی بیعت نہ کی


مرحبا  صد  مرحبا  اے  جذبۂ  ابن  علی


زہرہ کے نور عین ہیں حیدر کے لاڈلے


قلب رسول پاک کی راحت حسین ہیں
اے بہار  گلشن تطہیر  تیرے فیض سے


چارسو مہکا  ہوا  ہے  غنچۂ  ابن علی


شمر و یزید جیتے جی برباد ہو گئے


ہو کر شہید اب بھی سلامت حسین ہیں
بیخودی کہنے لگی ہے ہر دل  بیمار  سے


قلب مضطر کی دوا  ہے  نعرۂ  ابن علی


پھر سے اٹھا رہی سر اپنا یزیدیت


اس دور پر فتن کی ضرورت حسین ہیں
اس لیے ہر فرد اس کا نازش فردوس ہے


دین کا رہبر ہے سارا    کنبۂ    ابن علی


یہ وقت کے یزید مٹایں گے کیا اسے


دین رسول پاک کی طاقت حسین ہیں
روز روشن کی طرح یہ بات ہے سب پر عیاں


عکس  محبوب خدا ہے  جلوۂ  ابن علی


===== جاوید انور ہاشمی - نم آنکھوں سے ظاہر محبت حقیقتت  =====


نم آنکھوں سے ظاہر محبت حقیقتت
مستند ہو جاے گی میری غلامی حشر میں


محبت سے بڑھ کر مئو د ت حقیقت
کاش مل جاے  ذرا سا  صدقۂ ابن علی




وہ شب اور وہ کا رو اں ز ند گی کا
کر خدا کے حکم پر ہر دم عمل عبدالحلیم


و ہ د ھو کا د ہی اور وہ جرآت حقیقتت
درس یہ بھی دے گیا ہے سجدۂ ابن  علی




ر سو ل۔خدا کے گھر ا نے سے ملتی
=====سید حسنین رضا ہاشمی ـ وفا کا دیپ جلا ہے حسین آئے ہیں=====


ر سو ل ۔ خد ا کی ا طا عت حقیقت


شاعر: [[سید حسنین رضا ہاشمی ]]، [[مظفر گڑھ]]


و ہ آل۔ محمد (ص) کی قر با نیا ں تھیں


برا ہیم (علیہ السلام) کے خو ا ب و سنت حقیقت
وفا کا دیپ جلا ہے حسین آئے ہیں


درِ بتول سجا ہے حسین آئے ہیں


ز ر و مال کیا!جا ن دی راہ۔ حق میں


شہا د ت حقیقت اما مت حقیقت
مہک بسی ہے فضا میں علی کے گلشن کی


اک اور پھول کھلا ہے حسین آئے ہیں


یقین ا ہے گا حشر میں مو منو ں کو


یقیناً یقیں کی ہے د و لت حقیقت
اُتر رہے ہیں ملائک مبارکیں دینے


حضور سے بھی سنا ہے حسین آئے ہیں


خد ا ان کے سائے میں ہم سب کو رکھے


و ہ ساعت بنے جب شفا عت حقیقت
نبی کے دین کی نصرت کا ہو گیا ساماں


===== محمد خالد - راہ جو بھی لیں ہمیں وہ کربلا لے جائے گی  ======
خدا کی خاص عطا ہے حسین آئے ہیں


بشکریہ : [[انحراف ]]


راہ جو بھی لیں ہمیں وہ کربلا لے جائے گی
دیارِ صبر میں خوشیوں کا جشن برپا ہے


اپنی منزل پر مدینے کی ہوا لے جائے گی
زمانہ شاد بڑا ہے حسین آئے ہیں




یہ تری دریا دلی ہے موجۂ حُسنِ عطا
ہوائیں خیر مبارک کے گیت گاتی ہیں


جو مرے دل کی پریشانی بہا لے جائے گی
سرور میں یہ فضا ہے حسین آئے ہیں




دُھوپ میں سایہ بنے گی، تا سرِ محشر ہمیں
سکوں کا نور ہے , رحمت ہے اور برکت ہے


چادرِ زینبؑ، سکینہؑ کی ردا لے جائے گی
زمیں کو حُسن ملا ہے حسین آئے ہیں




گو دئیے کی لو بجھا ڈالی ہے میرے شاہؑ نے
لباسِ خلد ہے کس کے لئے رضا دیکھو


پر غلاموں کو کہاں در سے وفا لے جائے گی
یہ آج  سب کو پتا ہے حسین آئے ہیں




ہم کہ وابستہ رہے ہیں جاودانی نور سے


موت ہے کیا اور کیا ہم سے بھلا لے جائے گی !


=====ظفر اقبال نوری ـ امیرِ  شہرِ امانت مرے حسین سلام=====


ساکنانِ خلد کو حسرت رہے گی تا ابد


کیا شرف یہ سر زمینِ نینوا لے جائے گی !
شاعر: [[ظفر اقبال نوری ]]




کیوں بنا انسان کا دل سجدہ گاہِ عرشیاں ؟
امیرِ  شہرِ امانت مرے حسین سلام


بات چل نکلی تو سُوئے کربلا لے جائے گی !
رئیسِ راہِ سعادت مرے حسین سلام




دشت کو مہکار کر ڈالا ہے کس گل رنگ نے
امینِ امن  و امانت مرے حسین سلام


بھر کے دامن میں جسے بادِ صبا لے جائے گی
نقیبِ رشدو ھدایت مرے حسین سلام


بر سرِ منبر نہیں ہے وہ سرِ نیزہ بھی ہے


کشادِ بابِ بسالت مرے حسین سلام


کائناتِ عشق میں جس کی نوا لے جائے گی
فرازِ اوجِ شجاعت مرے حسین سلام




اے مرے شاہِ شہیداںؑ، اے اماموں کے امامؑ
کتابِ عشق و اصالت مرے حسین سلام


دین تیرے گھر کی ہے ، خلق ِ خدا لے جائے گی !
نصابِ دینِ شہادت مرے حسین سلام




کچھ نہیں پلّے مرے تیری حضوری کے لئے
جمالِ رنگِ علی و کمالِ بوئے بتول


بس یہی حمد و ثنا آہِ رسا لے جائے گی !
مثالِ روئے رسالت مرے حسین سلام




===== صفدر جعفری  - سرورِ قلبِ پَیمبر حسینؑ زندہ باد =====
مرادِ آیۂ تطہیر و فخرِ آلِ عبا


سرورِ قلبِ پَیمبر حسینؑ زندہ باد
بہارِ باغِ مودّت مرے حسین سلام


"خدا کے دین کا محور حسینؑ زندہ باد"


بنوکِ نیزہ قراءت تری مثال کہاں


ہمارے ذکر کا محتاج تو نہیں ہے حسین
سوارِ دوشِ نبوت مرے حسین سلام


کہ خود نبی کے ہے لب پر حسین زندہ باد


وہ بوند بوند چراغاں جو کربلا میں ہوا


کسی یزید کا ڈر ہے نہ خوف مرنے کا
رہےگا تا بہ قیامت مرے حسین سلام


مرا ازل سے ہے رہبر حسینؑ زندہ باد


اک ایک کر کے لٹائے گہر بطیب و رضا


صدا یہ آج بھی آتی ہے صحنِ مقتل سے
تری عجیب سخاوت مرے حسین سلام


مرا نہیں ہوں میں مر کر حسینؑ زندہ باد


کہیں پہ بھائی بھتیجے کہیں پہ لختِ جگر


بڑے فخر سے ملائک بھی جس کے در پہ جھکیں
کہیں پہ بہن کی عترت مرے حسین سلام


اسی کا میں بھی ہوں نوکر حسینؑ زندہ باد


میانِ فصلِ شہیداں وہ تیرا پائے ثبات


مرے خمیر میں شامل ہے خاک مقتل کی
نشانِ عزم و عزیمت مرے حسین سلام


مرے لہو کے ہے اندر حسینؑ زندہ باد


ھجومِ تیغ و سناں میں وہ خونچکاں سجدہ


علیؑ کے جیسا ہو جیون تو موت شبیرؑی
زہے یہ ذوقِ عبادت مرے حسین سلام


دعا ہے بس یہی صفدرؔ حسینؑ زندہ باد


===== صفدرؔ جعفری - حسینؑ دیکھ رہے ہیں صفیں سجائے ہوئے =====
کٹا کے سر جو شریعت کو سربلند کیا


شاعر: [[صفدر جعفری]]، [[لاہور]]
پناہِ دین و شریعت مرے حسین سلام




حسینؑ دیکھ رہے ہیں صفیں سجائے ہوئے
منٰی کا سرِّ فدینا تو کربلا میں کھلا


کوئی تو نکلے کفن کو عَلم بنائے ہوئے
ظہورِ شانِ مشیّت مرے حسین سلام




تڑپنے لگتے ہو کیوں ذکرِ ابنِ حیدرؑ پر
کہاں یہ بندۂ نوری غلام ابنِ غلام


علؑی کے لال سے کتنا ہو خوف کھائے ہوئے
کہاں نصیب یہ مدحت مرے حسین سلام




طلب نہیں ہے کسی قصر کی نہ شاہی کی
بنامِ سیّدِ سجّاد اسیرِ کرب و بلا


ہمیں قبول ہیں یا رب وہ گھر جلائے ہوئے
کریں قبول یہ مدحت مرے حسین سلام




کبھی تبسمِ اصغر میں بولتے ہیں حسینؑ
===== عبید بخاری ـ  بنےگامغفرت کایہ جوازآج بھی=====


سناں کی نوک کو منبر کبھی بنائے ہوئے


شاعر: [[عبید بخاری ]]


فراتِ فکر پہ ان کے ہے اب تلک پہرا


عزائے شہ سے جو صفدؔر ہیں تلملائے ہوئے
بنےگامغفرت کایہ جوازآج بھی۔


===== عمیر نجمی ۔ بہ وقتِ عصر جو کربل کی خاک بیٹھ گئی =====
کہ ہوگا ذکر ِآلِ پاکباز آج بھی۔


شاعر : [[عمیر نجمی]]، [[رحیم یار خان]]، [[پاکستان]]


بہ وقتِ عصر جو کربل کی خاک بیٹھ گئی
ہےدس محرم الحرام یومِ کربلا۔


کئی دلوں پہ کٹے سر کی دھاک بیٹھ گئی
حسینؓ نےمگرپڑھی نمازآج بھی۔




اِدھر زمیں پہ گرا ہاشمی چراغ، اُدھر
یزید کا تو نام تک مٹا دیا گیا۔


فلک پہ سوگ میں اک ذاتِ پاک بیٹھ گئی
حسین کی سجی ہےبزمِ نازآج بھی۔




بدن جو بزمِ عزا سے اٹھا تو روح وہیں
رہی ہےکل بھی آنکھ نم غمِ حسین میں۔


بہ صد نیاز، بہ صد انہماک، بیٹھ گئی
غمِ حسین ہے نظر نواز آج بھی۔




بہ یادِ سجدہِ تشنہ امام، سجدہ کیا
حسین عہدِحال میں بھی ناگزیرہے۔


اور اتنی دیر سے اٹھا کہ ناک بیٹھ گئی
کہ شرکی ہورہی ہےسازبازآج بھی۔




جو بے ردا تھی، اٹھی اور دورنِ قصرِ دمشق
نہ دیں گےہاتھ ہاتھ میں اگرچہ کاٹ دے۔


بڑے بڑوں کی ردا کر کے چاک، بیٹھ گئی
یزید کا خلیفہ ٕ مجاز  آج بھی۔




عدو حسین۴ کا ہو اور نشان چھوڑے زمیں؟
یزیدیت ہےسربخاک آج تک، عبید۔


سنا ہے اس کی لحد ٹھیک ٹھاک بیٹھ گئی
حسینیت رہی ہےسرفرازآج بھی۔


===== احمد ندیم  - حسین  حسن    مکمل    کا    مظہر    مشہود =====


===== فرحت زاہرا - نفس کے مختار تھے راہ خدا تک آ گئے =====
شاعر: [[احمد ندیم]]


نفس کے مختار تھے راہ خدا تک آ گئے


حق کو جو پہچان پاۓ کربلا تک آ گئے
حسین  حسن    مکمل    کا    مظہر    مشہود


حسین  نوع    بشر    کی    هے  منزل  مقصود


آسمان رویا زمیں تڑپی ہوا رکنے لگی


شمر تیرے ہاتھ آل مصطفی تک آ گئے
مقام    صبر  و  رضا  کا    وہ  مظہر    کامل


کہ اس کی ذات میں باہم  ہوئے  وجود و شہود


استغاثے کی صدا نے کر دیا بے چین تو


خیمہء اقدس سے اصغر حرملہ تک آ گئے
وہ    پاسدار    وفائے      ذبیح    و    عبدالله


شہید    سر    شہادت    برائے    اصل    وجود


منزلیں دشوار تھیں پر قافلہ بنتا گیا


راہ حق کے سب مسافر راہ نما تک آ گئے
حیات    باقی  و  فانی    کا    امتیاز    حسین


کہ جس نے پیش خدا پیش  کی  متاع  وجود


شور تھا کہ لوٹ لو آل عبا کی چادریں


اشقیاء کے حوصلے دیکھو کہاں تک آ گئے
وہ  سبط    سید  عالم      حسین    ابن  علی


سر سناں بھی کہس جس نے اے  مرے  معبود


اک طرف فسق یزیدی اک طرف صبر حسین


دونوں اطرافی مثال انتہا تک آ گئے
وہ جس کے خون سے صحرا  ہوا گل  و  گلزار


اور اس کی مثل  نہیں کوئی زیر  چرخ  کبود




ندیم  میں بھی ہوں ادنی  گدائے  نور حسین


=== قصیدہ ===
مرے بھی دل میں یو اک روز روشنی کا ورود




=== سلام ===


===== عبدالجلیل ۔ بے سہاروں کےسہارے مصطفٰےﷺ کوہوسلام =====


بے سہاروں کےسہارے مصطفٰےﷺ کوہوسلام
===== احمد ندیم ـ جو  وصل  حق کی تمنا  کیا  کرے  کوئی =====


رحمتِ عالم حبیبِ کبریا کو ہو سلام
شاعر: [[صاحبزادہ احمد ندیم ]]




حیدرؓ و حسنینؓ و زہرؓا آئے جس چادر تلے
جو  وصل  حق کی تمنا  کیا  کرے  کوئی


المزمل شان والی اس رِدا کو ہو سلام
تو  کربلا  کا  مسافر  رہا  کرے  کوئی




جن کی عظمت کا بیاں ہے آیئہ تطہیر میں
نماز عشق  فقط  عاشقوں پہ فرض  ہوئی


اہل بیت پاکؓ کی شانِ عُلیٰ کو ہو سلام
حسین  کی طرح  کیسے  ادا کرے  کوئی




جس کا چہرہ دیکھنا بھی ہے عبادت وہ علیؓ
حجاز  آج  بھی ہے محو  انتظار  حسین


مرتضیٰؓ ، مشکل کشاؓ ، شیر خُداؓ کو ہو سلام
قضا  ہوئے ہیں جو سجدے ادا کرے کوئی




تیری آمد پر ہوئے سر خم سبھی کے حشر میں
اصول  عشق  الہی  ہے  کربلا  کا  سفر


نُور چشمِ مصطفٰےﷺ تیری حیا کو ہو سلام
ظفر  نصیب  اگر  ہو   چلا  کرے کوئی




اے حسنؓ تیری فراست پر ہو کُل دانش نثار
نگاہ    سید    کونین    میں    رہے    دائم


راحتِ جانِ نبیﷺ تیری ذکاء کو ہو سلام
حسینیت    کا  اگر  حق  ادا  کرے کوئی




جس کی دلجوئی کی خاطر ہو گیا سجدہ طویل
حسین  سید  عشاق  ہر زماں  ہے  ندیم


راکبِ دوشِ نبیﷺ کی اس ادا کو ہو سلام
ملے  جو  نقش قدم جاں فدا کرے کوئی


=====ابرار نیّر ـ عزیز ہم کو نہ کیونکر ہو خاندانِ حسین=====


تادمِ آخر رہا تجھ کو پیاسوں کا خیال
شاعر: [[ابرار نیّر]]


اے علمدارِ وفا تیری وفا کو ہو سلام
عزیز ہم کو نہ کیونکر ہو خاندانِ حسین


یہ خاندان ہے دراصل کاروانِ حسین


قاسمؓ و عونؓ و محمدؓ اکبرؓ و اصغرؓ سبھی


غنچہ ہائے نازنین و دلربا کو ہو سلام
نہ خوفِ شمر ، نہ ابن ِ زیاد کا ڈر ہے


ہمارے سر پہ ہے جرآت کا سائبانِ حسین


اکبرؓ و اصغرؓ کے لاشے دیکھ کر بھیگی نہ آنکھ


کربلا میں صبر کی اُس انتہا کو ہو سلام
جو ان کی راہ پہ چل کر لٹا گئے گھر بار


تو ان سے پوچھ کبھی جا کے داستانِ حسین


دیں بچانے کیلئے جب کر دیا کنبہ نثار


منبعِ جود و سخا تیری سخا کو ہو سلام
ملیں گے چاک گریباں، سروں میں خاک لیے


رہیں گے سر بہ گریباں ہی دشمنانِ حسین


جان و مال و آل دے کر زندۂ جاوید ہیں


اے شہیدِ کربلا ایسی بقا کو ہو سلام
سکھا گئے تھے کہ حق کے سوا نہ کچھ کہنا


مرے حضور نے چوسی تھی جب زبانِ حسین


دیکھ کر نوکِ سناں پر سر تیرا بولے ملک


مرحبا ! سبطِ نبی تیری انا کو ہو سلام
ہماری چال میں نیّر ، جو کچھ اٹھان سی ہے


ہمارے سامنے رہتی ہے آن بان ِ حسین


زیرِ خنجر کی ادا شبّیرؓ نے ایسی نماز


سب عدو کہنے لگے حُسنِ ادا کو ہو سلام


=====اصغر شمیم ـ زندگانی آپ کی ہے جاودانی یا حسین=====


مصطفٰےﷺ کی آل کا جو درد رکھتے ہیں جلیل
نعت کائنات ۔ تعارف و رابطہ
نعت بک کارنر
اہم صفحات
سال 2019
وڈیو نعتیں [بیٹا ورژن ]
آن لائن رسائل و جرائد
اہم نعت گو شعراء
حسان بن ثابت، 563
کعب بن زہیر
شرف الدین بوصیری، 1211
عبد الرحمن جامی، 1414
محسن کاکوروی، 1827
امیر مینائی، 1828
الطاف حسین حالی ، 1837
احمد رضا بریلوی، 1856
ظفر علی خان، 1873
بیدم وارثی، 1876
علامہ اقبال، 1877
بہزاد لکھنوی، 1904
ماہر القادری، 1906
منور بدایونی، 1908
اقبال عظیم، 1913
مظہر الدین مظہر 1914
احمد ندیم قاسمی، 1916
عبد العزیز خالد، 1927
ادیب رائے پوری، 1928
حفیظ تائب، 1931
مظفر وارثی، 1933
گوہر ملسیانی، 1934
راجا رشید محمود، 1934
ریاض حسین چودھری، 1941
خالد محمود خالد، 1941
ریاض مجید، 1942
نصیر الدین نصیر، 1949
دیگر شعراء
اہم روائتی نعت خواں
اعظم چشتی، 1921
محمد علی ظہوری، 1932
عبدالستار نیازی، 1938
منظور الکونین، 1944
وحید ظفر قاسمی، 1952؟
خورشید احمد، 1956
صبیح رحمانی، 1965
سرور حسین نقشبندی، 1976
بین الاقوامی نعت خواں
مشارے راشد الفاسے، 1976
سمیع یوسف، 1980
اہم جدت پسند نعت خواں
اویس رضا قادری، 1960
عبد الروف روفی
آلات
ادھر کونسا ربط ہے
متعلقہ تبدیلیاں
خصوصی صفحات
معلومات صفحہ
Powered by MediaWiki
اصول براۓ اخفائے راز تعارف "نعت کائنات" اعلانات


تا قیامت اُن غلاموں کی وفا کو ہو سلام
شاعر: [[اصغر شمیم ]]، [[کولکتہ]]، [[ انڈیا]]


=== کرب و بلا ===


===== ابو الحسن خاور ۔ وہ ایک نور جو غار حرا سے آتا ہے =====
زندگانی آپ کی ہے جاودانی یا حسین


شاعر :  [[ابو الحسن خاور ]] ، [[لاہور ]] ، [[پاکستان ]]،
دو جہاں میں آپ کی ہے کامرانی یا حسین


سال : [[2018]]


وہ ایک نور جو غار حرا سے آتا ہے
آپ کے محسن جو تھے وہ قتل سارے ہو گئے


اسی کا عکس تو کرب و بلا سے آتا ہے  
پھر بھی لب پر آپ کے ہے شادمانی یا حسین




ہزاروں سال زمانے نے انتظار کیا
جو مٹانا چاہتے تھے مٹ گئے دنیا سے وہ


کہ کربلا میں کوئی کب منٰی سے آتا ہے  
ہار میں بھی آپ کی ہے کامرانی یا حسین




نہ پیاس میں علی اصغر رگڑتے ہیں ایٹرھی
جب کہ صادق کا علم لے کر کٹایا اپنا سر


نہ دوڑ کر کوئی کوہ صفا سے آتا ہے
آپ نے لکھی ہے خوں سے یہ کہانی یا حسین




میں بھول سکتا ہوں کچھ دیر کے لیے سب کچھ
قطرے قطرے کو ترستے رہ گئے اصغر کے ہونٹ


مگر وہ تیر کہ جو حرملہ  سے آتا ہے
آج بھی ہے شرم میں ڈوبا وہ پانی یا حسین




یہ جیسے کرب و بلا ہی کا ایک آنسو ہو
میں شمیمِ سوختہ جاں لکھتے لکھتے رو پڑا


فرات  بہتا  ہوا نینوا سے آتا ہے
تجھ پہ ہو رحمت کی بارش آسمانی یا حسین




===== ساحر کلکتوی ـ رک گئے یہ کہتے کہتے ذاکرانِ  اہلبیت =====


غم ِ حسین میں اشکوں  کو کیا سمجھتے ہو؟
شاعر: [[ساحر کلکتوی ]]


مجھے تو لگتا ہے  پرسہ خدا سے آتا ہے


===== احمد جہانگیر - تنویر پر طمانچے ، پھولوں پہ تازیانہ =====
رک گئے یہ کہتے کہتے ذاکرانِ اہلبیت


شاعر : [[احمد جہانگیر ]]، [[کراچی]]، [[پاکستان ]]
ہے قیامت سی قیامت داستانِ اہلبیت


سال : [[2018]]


سنتِ  شبیر ہوجائے ادا، اس واسطے


تنویر پر طمانچے، پھولوں پہ تازیانہ
صبر کرتے ہیں ہمیشہ عاشقانِ  اہلبیت


عفّت مآب کنبہ، عالی نسب گھرانہ


ظلم کی گردن اڑانےصبر کی تلوار سے


تسبیح میں ستارے، آفاق کا مصلّی
جارہے ہیں کربلا  ،  شہزادگانِ  اہلبیت


تطہیر کی قناتیں، رحمت کا شامیانہ


سوگ کی چادر فضانےکربلامیں اوڑھ لی


آیات کا تسلسل، اسرار پر تفکّر
اٹھی جب ہر سمت سے آہ وفغانِ  اہلبیت


تمجید کا ترنّم، توحید کا ترانہ


"اذھما فی الغار“ میں ان کا ہوا ہے تذکرہ


گریہ کناں ضریحیں، رنجور تعزیے ہیں
ہیں جو اہلبیت کی جاں،اور شانِ اہلبیت


تابوت غم رسیدہ، پرچم کا تھرتھرانا


چار یاروں کے تصدق اے مرے پروردگار


سورج کا رک کے چلنا، گرنا کبھی سنبھلنا
رکھ  مجھے ہر  وقت  زیرِ سائبانِ اہلبیت


تارے اٹھا اٹھا کر خیمے کی سمت لانا


میرا دعویٰ ہے یقیناً دربدر کی ٹھوکریں


گھوڑے سے شہؑ کا گرنا، امّاں کا گرد پھرنا
حشر تک کھاتے رہینگے دشمنان اہلبیت


خاتمؐ تری دہائی، فریاد مہربانا


خواجہ ومخدوم،شرف الدین ساحرسب کےسب


تسخیر کی منادی، نیزوں کی چمچماہٹ
سرزمینِ  ہند  پر  ہیں  ارمغانِ  اہلبیت


ماتم کناں شریعت، گریاں رسولؐ خانہ
===== آصف قادری -حُسینیوں کو بسانا‘ حسین جانتے ہیں =====


شاعر: [[آصف قادری | محمد آصف قادری ]]، [[واہ کینٹ]]، [[پاکستان ]]


زنجیر پر مصیبت اور طوق پر قیامت


بیڑی کا پاوں پڑنا، رسّی کا گڑگڑانا
حُسینیوں کو بسانا‘ حسین جانتے ہیں


یزیدیوں کو مٹانا‘ حسین جانتے ہیں


کہرام میں فلک پر خورشید ڈوبتا ہے


نیزے پہ اٹھ رہا ہے شبّیرؑ سا یگانہ
یہ دشمنوں نے بھی مانا کہ دین کی خاطر


خود اپنا کنبہ لُٹانا‘ حسین جانتے ہیں


پرسے کی چاندنی پر، شٙیون کا استغاثہ


اور عصر کی تلاوت سنتا ہوا زمانہ
اگرچہ سَر ہے جُدا ہو کے نوکِ نیزہ پر


===== اسلم فیضی ۔ كاتبِ تقدیر نے یہ سانحہ كیسا لكھا؟ =====
کلام رب کا سُنانا‘ حسین جانتے ہیں


شاعر  : [[اسلم فیضی ]]، [[کوہاٹ ]] ، [[پاکستان ]]


كاتبِ تقدیر نے یہ سانحہ كیسا لكھا؟
پڑا جو وقت تو ہرگز نہ آنچ آنے دی


بہتے دریا كے لبوں پر پیاس كا صحرا لكھا!
نبی کا دین بچانا‘ حسین جانتے ہیں




كس نےاُس كی چھاؤں میں كردی ملاوٹ دھوپ كی
گواہی دیتی ہے آصف زمینِ کرب و بلا


غیر كے سر پر بھی جس نے دُھوپ میں سایہ لكھا
لہو سے پھول کِھلانا حسین جانتے ہیں




سرِنگوں سچاٸی كو كب كرسكی تیغِ ستم
=====احمد زاہد ـ یہ کس کالاڈلہ ہےاورکون شہسوارہے=====


جرأتِ شبیرؓ نے حرفِ وفا كیسا لكھا
شاعر: [[محمداحمد زاہد]]، [[سانگلہ ہل]]، [[پاکستان ]]


یہ کس کالاڈلہ ہےاورکون شہسوارہے


كربلا میں كِشتِ دیں كی آبیاری كے لۓ
فضا سے بھی بلندجس کےپاؤں کاغبارہے


پیاس كے ماروں نے اپنے خُون كا دریا لكھا


رواں ہیں لے کے ہاتھ میں اٹھا کے شیر خوار بھی


رَو پڑی ہوگی اجل اُس سنسناتے تیر پر
یہ  عشق  ہے  محمدی ، بڑا  ہی  ذی  وقار  ہے


گردنِ اصغرؓ پہ جس نے زخم اِك گہرا لكھا


حسین اپنے خون سے تھے سینچتے رہے جسے


سیّدہ زینبؓ ! تِرے صبر وتحمل كو سلام
چہار سو وہ گلستانِ مصطفےٰ تیار ہے


تُو نے لوحِ زندگی پر حوصلہ كیسا لكھا


خدا کے سامنے ہی سر کٹائیں گے  سجود میں


جب بھی نكلا عدل كو یكسر مٹانے كیلۓ
نماز کو نہ چھوڑنا! حسین کی پکار ہے


ظُلم نے فیضی خود اپنی قبر كا كتبہ لكھا


===== عبد الجلیل ۔ اے حسینؓ ابنِ علیؓ سب کچھ لُٹایا آپ نے =====
لو دیکھ کر حسین کو یزیدیوں میں غل مچا


شاعر: [[حافظ عبد الجلیل ]]، [[کوہاٹ ]]، [[پاکستان ]]
یہ کون ذی وقار ہے بلا کا شہ سوار ہے


اے حسینؓ ابنِ علیؓ سب کچھ لُٹایا آپ نے


جان و مال و آل دے کر دیں بچایا آپ نے
کسی لعیں یزید کو وہ دیں گے ہاتھ کس لیے


نبی  کے  دین  کے لیے تو جاں بھی نثار ہے


منبرومحراب ومسجد میں تلاوت سب نےکی


بر سرِ نوکِ سناں قرآں سنایا آپ نے




آسماں بھی رو پڑا تھا اکبرؓ و قاسمؓ کا جب


کربلا کی ریت سے لاشہ اُٹھایا آپ نے
===== اسلم فیضی ۔ صدق ویقین ومہر و محبت حسینؑ ہیں =====


شاعر : [[اسلم فیضی ]] ،  [[کوہاٹ ]]، [[پاکستان ]]


تین دن پیاسے رہے اور بر لبِ نہرِ فرات
صدق ویقین ومہر و محبت حسینؑ ہیں


تشنہ اصغرؓ دے دیا ‘ پانی نہ مانگا آپ نے
دستورِ زندگی كی حقیقت حسینؑ ہیں




کس طرح اےشاہِ دیں! میدان میں جاتےہوئے
سجدوں كی كہكشاں سے عبارت ہےجن كی ذات


عابدِؓؓ بیمار کو سینے لگایا آپ نے
وہ آشناۓ روحِ عبادت حسینؑ ہیں




لشکر شامی سے آکر وہ حسینی بن گیا
بخشا گیا ہے اُن كو وقارِ خود آگہی


اپنے قدموں میں بلا کر حُر بنایا آپ نے
اپنے لۓ تو نورِ بصیرت حسینؑ ہیں


===== کاشف حیدر ۔ حسینؑ ذکر ترا گام گام کرتے ہوئے =====


شاعر: [کاشف حیدر |  کاشف حیدر رضوی ]]، [[شکاگو]]،
ہر زوایے سے كیوں نہ انہیں معتبر كہوں


فخرِ حیات و فخرِ شہادت حسینؑ ہیں


حسینؑ ذکر ترا گام گام کرتے ہوئے


گزر رہے ہیں زمانے سلام کرتے ہوئے
جس نے نبیۖ كے دین كو ضو پاش كردیا


اس روشنی كی زندہ علامت حسینؑ ہیں


حسینؑ آپ نے سجدوں کو زندگی بخشی


بس ایک سجدہِ آ خر تمام کرتے ہوئے
ہر عہد میں لڑیں گے یزیدوں كے ساتھ ہم


ہر عہد میں ہماری ضرورت حسینؑ ہیں


اٹھا کے پرچمِ عباسؑ ہم علیؑ والے


چلے ہیں فکرِ حسینی کو عام کرتے ہوئے
دیكھو تو كربلا میں ہیں تكمیل انقلاب


سوچو تو پورے دہر كی قیمت حسینؑ ہیں


چلےہیں جانب مقتل برائے دین نبی


حسین ؑ تیغِ علیؑ بے نیام کرتے ہوئے
نوكِ سناں پہ بھی رہا غیرت كا بانكپن


خورشیدِ آسمانِ شجاعت حسینؑ ہیں


منافقین علیؑ کو علیؑ کی لخت جگر
===== اسلم فیضی ۔ صفحہِ زیست پہ تحریر شہادت چمكی =====


سبق سکھا گئی طے راہ شام کرتے ہوئے
شاعر : [[اسلم فیضی ]] ،  [[کوہاٹ ]]، [[پاکستان ]]




اسے شجیعِ عرب تک رہے ہیں حیرت سے


جو مسکرا دیا حجت تمام کرتے ہوئے
صفحہِ زیست پہ تحریر شہادت چمكی


اِك نۓ رنگ سے انسان كی عظمت چمكی


اسے خبر تھی غریبوں پہ شام بھاری ہے


بہت اداس تھا سورج بھی شام کرتے ہوئے
كس نے خوں بانٹ دیا اپنے جگر پاروں كا


نوكِ شمشیر پہ یہ كس كی سخاوت چمكی


زمین کیوں نہ پھٹی جس گھڑی چلے ظالم


ردائے فاطمہ زہراؑ کو عام کرتے ہوئے
ورنہ تا حشر یزیدوں كی حكومت ہوتی


شكر ہے حضرت شبیرؓ كی جرأت چمكی


چلیں جو دخترِ شبیر ؑ ڈھونڈنے زینبؑ


ملی وہ لاشہ شہہ سے کلام کرتے ہوئے
بجھ گٸیں ظلم كی سب مشعلیں یارو! لیكن


ریگِ كربل میں فقط اُن كی قیادت چمكی


لحد سے حشر تلک یوں سفر کرو کاشف


غمِ حسینؑ میں ماتم مدام کرتے ہوئے
معتبر كیوں نہ اجالوں كا سفر ہو فیضؔی


راكبِ دوشِ رسالتﷺ كی امامت چمكی


====اشفاق احمد غوری ـ شبیہہِ شاہِ انبیاء ہے خوبرو حسین ہے====
=====اشفاق احمد غوری ـ شبیہہِ شاہِ انبیاء ہے خوبرو حسین ہے=====




سطر 749: سطر 910:
بچائی جس نے دینِ حق کی آبرو، حسین ہے
بچائی جس نے دینِ حق کی آبرو، حسین ہے


 
=====اشفاق احمد غوری ـ ہے کون رونقِ چمن، حسن بھی ہیں حسین بھی=====
====اشفاق احمد غوری ـ ہے کون رونقِ چمن، حسن بھی ہیں حسین بھی====


شاعر: [[اشفاق احمد غوری]]، [[ملتان]]، [[پاکستان ]]
شاعر: [[اشفاق احمد غوری]]، [[ملتان]]، [[پاکستان ]]
سطر 785: سطر 945:




====محمد احمد زاہد ـ یہ کس کالاڈلہ ہےاورکون شہسوارہے====
===== بلال راز ۔ تاریکیوں میں شمع ہدایت حسین ہیں  =====


شاعر: [[محمداحمد زاہد]]، [[سانگلہ ہل]]، [[پاکستان ]]
شاعر : [[بلال راز]]۔  [[بریلی]] ، [[بھارت]]


یہ کس کالاڈلہ ہےاورکون شہسوارہے
تاریکیوں میں شمع ہدایت حسین ہیں


فضا سے بھی بلندجس کےپاؤں کاغبارہے
زحمت ہے گر یزید تو رحمت حسین ہیں




رواں ہیں لے کے ہاتھ میں اٹھا کے شیر خوار بھی
ہم کو اسی لئے ہے محبت حسین سے


یہ  عشق  ہے  محمدی ، بڑا  ہی  ذی  وقار  ہے
الله کے نبی کی محبّت حسین ہیں




حسین اپنے خون سے تھے سینچتے رہے جسے
جن کو کہا نبی نے کہ یہ دو ہیں میرے پھول


چہار سو وہ گلستانِ مصطفےٰ تیار ہے
حضرت حسن ہیں دوسرے حضرت حسین ہیں




خدا کے سامنے ہی سر کٹائیں گے  سجود میں
زہرہ کے نور عین ہیں حیدر کے لاڈلے


نماز کو نہ چھوڑنا! حسین کی پکار ہے
قلب رسول پاک کی راحت حسین ہیں




لو دیکھ کر حسین کو یزیدیوں میں غل مچا
شمر و یزید جیتے جی برباد ہو گئے


یہ کون ذی وقار ہے بلا کا شہ سوار ہے
ہو کر شہید اب بھی سلامت حسین ہیں




کسی لعیں یزید کو وہ دیں گے ہاتھ کس لیے
پھر سے اٹھا رہی سر اپنا یزیدیت


نبی  کے  دین  کے لیے تو جاں بھی نثار ہے
اس دور پر فتن کی ضرورت حسین ہیں




====عبدالحلیم گونڈوی ـ کون سمجھے کون  جانے  رتبۂ  ابن علی====
یہ وقت کے یزید مٹایں گے کیا اسے


دین رسول پاک کی طاقت حسین ہیں


شاعر: [[عبدالحلیم گونڈوی ]]


===== جاوید انور ہاشمی - نم آنکھوں سے ظاہر محبت حقیقتت  =====


کون سمجھے کون  جانے  رتبۂ    ابن علی
نم آنکھوں سے ظاہر محبت حقیقتت


بوسہ گاہ  مصطفیٰ  ہے  چہرۂ    ابن  علی
محبت سے بڑھ کر مئو د ت حقیقت




ان کی نسبت سے ہے قائم  افتخار زندگی
وہ شب اور وہ کا رو اں ز ند گی کا


ٹوٹنے پائے  نہ پھر یہ  رشتۂ  ابن علی
و ہ د ھو کا د ہی اور وہ جرآت حقیقتت




جان دے دی پر یزید وقت کی بیعت نہ کی
ر سو ل۔خدا کے گھر ا نے سے ملتی


مرحبا  صد  مرحبا  اے  جذبۂ  ابن  علی
ر سو ل ۔ خد ا کی ا طا عت حقیقت




اے بہار  گلشن تطہیر  تیرے فیض سے
و ہ آل۔ محمد (ص) کی قر با نیا ں تھیں


چارسو مہکا  ہوا  ہے  غنچۂ  ابن علی
برا ہیم (علیہ السلام) کے خو ا ب و سنت حقیقت




بیخودی کہنے لگی ہے ہر دل  بیمار  سے
ز ر و مال کیا!جا ن دی راہ۔ حق میں


قلب مضطر کی دوا  ہے  نعرۂ  ابن علی
شہا د ت حقیقت اما مت حقیقت




اس لیے ہر فرد اس کا نازش فردوس ہے
یقین ا ہے گا حشر میں مو منو ں کو


دین کا رہبر ہے سارا    کنبۂ    ابن علی
یقیناً یقیں کی ہے د و لت حقیقت




روز روشن کی طرح یہ بات ہے سب پر عیاں
خد ا ان کے سائے میں ہم سب کو رکھے


عکس  محبوب خدا ہے  جلوۂ  ابن علی
و ہ ساعت بنے جب شفا عت حقیقت




مستند ہو جاے گی میری غلامی حشر میں
===== ریاض احمد برکاتی ـ اے ابن  حیدر قرارِ  زہرا ،عظیم  کتنا  نسب  ہے  تیرا=====


کاش مل جاے  ذرا سا  صدقۂ ابن علی


شاعر: [[ریاض احمد برکاتی ]]، [[کولکتہ ]]، [[انڈیا ]]


کر خدا کے حکم پر ہر دم عمل عبدالحلیم


درس یہ بھی دے گیا ہے سجدۂ ابن علی
اے ابن  حیدر قرارِ  زہرا ،عظیم  کتنا  نسب  ہے  تیرا


تو ہے نواسہ شہِ امم کا نفیس و اعلیٰ حسب ہے تیرا


====سید حسنین رضا ہاشمی ـ وفا کا دیپ جلا ہے حسین آئے ہیں====


رشید تو ہے، فرید تو ہے، رہِ وفا کا شہید تو ہے


شاعر: [[سید حسنین رضا ہاشمی ]]، [[مظفر گڑھ]]
غم و الم سے بعید تو ہے، شہیدِ اعظم لقب ہے تیرا




وفا کا دیپ جلا ہے حسین آئے ہیں
ہے شان تیری بلند و بالا، فضیلتوں کا ہے تو منارا


درِ بتول سجا ہے حسین آئے ہیں
تری ہے دنیا، تری ہے عقبیٰ، رسول تیرے ہیں، رب ہے تیرا




مہک بسی ہے فضا میں علی کے گلشن کی
تری محبت ہے فرض ہم پر، کہ تو ہے جانِ حبیبِ داور


اک اور پھول کھلا ہے حسین آئے ہیں
ہماری خاطر سبیلِ بخشش اے میرے شبیر ادب ہے تیرا




اُتر رہے ہیں ملائک مبارکیں دینے
ہے مومنوں کو تری ضرورت، ضیائے ایماں ہے تیری الفت


حضور سے بھی سنا ہے حسین آئے ہیں
طرب کا ساماں ہے تیری مدحت، حسین رتبہ عجب ہے تیرا




نبی کے دین کی نصرت کا ہو گیا ساماں
تُو مدح خواں جب حسین کا ہے، ریاض کیوں اتنا غمزدہ ہے


خدا کی خاص عطا ہے حسین آئے ہیں
تجھے  وہ محشر میں بھول جائیں، یہ سوچنا بے سبب ہے تیرا




دیارِ صبر میں خوشیوں کا جشن برپا ہے


زمانہ شاد بڑا ہے حسین آئے ہیں
=====شفیق رائے پوری ـ سبطِ رسول راکبِ دوشِ  نبی حسین=====


شاعر: [[شفیق رائے پوری ]]، [[انڈیا ]]


ہوائیں خیر مبارک کے گیت گاتی ہیں


سرور میں یہ فضا ہے حسین آئے ہیں
سبطِ رسول راکبِ دوشِ  نبی حسین  


لختِ جگر بتول کے  جانِ علی حسین


سکوں کا نور ہے , رحمت ہے اور برکت ہے


زمیں کو حُسن ملا ہے حسین آئے ہیں
اسلام کے افق پہ کِھلی  روشنی حسین


ہیں    تیرہ کائنات  کی تابندگی حسین


لباسِ خلد ہے کس کے لئے رضا دیکھو


یہ آج  سب کو پتا ہے حسین آئے ہیں
کیسے قلم احاطہ کرے تیرے وصف کا


تو عالی مرتبت ہے اے ابنِ علی حسین




اسلام کی رگوں میں لہو آپ  ہی کا ہے


====ظفر اقبال نوری ـ امیرِ  شہرِ امانت مرے حسین سلام====
ہےآپ ہی کےدم سےروش نبض کی حسین




شاعر: [[ظفر اقبال نوری ]]
جب  بھی کوئی  یزید اٹھائے گا اپنا سر


سنت کریں گے ہم بھی ادا آپ کی حسین


امیرِ  شہرِ امانت مرے حسین سلام


رئیسِ راہِ سعادت مرے حسین سلام
آقا  نے  چن لیا جسے  فرزند کے عوض


وہ جانِ مصطفے ہیں فقط آپ ہی حسین


امینِ امن  و امانت مرے حسین سلام


نقیبِ رشدو ھدایت مرے حسین سلام
خوابِ شفیق  میں بھی چلے آئیے کبھی


چھوٹا سا منہ ہے بات مگر ہے بڑی حسین


کشادِ بابِ بسالت مرے حسین سلام


فرازِ اوجِ شجاعت مرے حسین سلام


===== محمد خالد - راہ جو بھی لیں ہمیں وہ کربلا لے جائے گی  ======


کتابِ عشق و اصالت مرے حسین سلام
بشکریہ : [[انحراف ]]


نصابِ دینِ شہادت مرے حسین سلام
راہ جو بھی لیں ہمیں وہ کربلا لے جائے گی


اپنی منزل پر مدینے کی ہوا لے جائے گی


جمالِ رنگِ علی و کمالِ بوئے بتول


مثالِ روئے رسالت مرے حسین سلام
یہ تری دریا دلی ہے موجۂ حُسنِ عطا


جو مرے دل کی پریشانی بہا لے جائے گی


مرادِ آیۂ تطہیر و فخرِ آلِ عبا


بہارِ باغِ مودّت مرے حسین سلام
دُھوپ میں سایہ بنے گی، تا سرِ محشر ہمیں


چادرِ زینبؑ، سکینہؑ کی ردا لے جائے گی


بنوکِ نیزہ قراءت تری مثال کہاں


سوارِ دوشِ نبوت مرے حسین سلام
گو دئیے کی لو بجھا ڈالی ہے میرے شاہؑ نے


پر غلاموں کو کہاں در سے وفا لے جائے گی


وہ بوند بوند چراغاں جو کربلا میں ہوا


رہےگا تا بہ قیامت مرے حسین سلام
ہم کہ وابستہ رہے ہیں جاودانی نور سے


موت ہے کیا اور کیا ہم سے بھلا لے جائے گی !


اک ایک کر کے لٹائے گہر بطیب و رضا


تری عجیب سخاوت مرے حسین سلام
ساکنانِ خلد کو حسرت رہے گی تا ابد


کیا شرف یہ سر زمینِ نینوا لے جائے گی !


کہیں پہ بھائی بھتیجے کہیں پہ لختِ جگر


کہیں پہ بہن کی عترت مرے حسین سلام
کیوں بنا انسان کا دل سجدہ گاہِ عرشیاں ؟


بات چل نکلی تو سُوئے کربلا لے جائے گی !


میانِ فصلِ شہیداں وہ تیرا پائے ثبات


نشانِ عزم و عزیمت مرے حسین سلام
دشت کو مہکار کر ڈالا ہے کس گل رنگ نے


بھر کے دامن میں جسے بادِ صبا لے جائے گی


ھجومِ تیغ و سناں میں وہ خونچکاں سجدہ
بر سرِ منبر نہیں ہے وہ سرِ نیزہ بھی ہے


زہے یہ ذوقِ عبادت مرے حسین سلام


کائناتِ عشق میں جس کی نوا لے جائے گی


کٹا کے سر جو شریعت کو سربلند کیا


پناہِ دین و شریعت مرے حسین سلام
اے مرے شاہِ شہیداںؑ، اے اماموں کے امامؑ


دین تیرے گھر کی ہے ، خلق ِ خدا لے جائے گی !


منٰی کا سرِّ فدینا تو کربلا میں کھلا


ظہورِ شانِ مشیّت مرے حسین سلام
کچھ نہیں پلّے مرے تیری حضوری کے لئے


بس یہی حمد و ثنا آہِ رسا لے جائے گی !


کہاں یہ بندۂ نوری غلام ابنِ غلام


کہاں نصیب یہ مدحت مرے حسین سلام
===== صفدر جعفری  - سرورِ قلبِ پَیمبر حسینؑ زندہ باد =====


سرورِ قلبِ پَیمبر حسینؑ زندہ باد


بنامِ سیّدِ سجّاد اسیرِ کرب و بلا
"خدا کے دین کا محور حسینؑ زندہ باد"


کریں قبول یہ مدحت مرے حسین سلام


ہمارے ذکر کا محتاج تو نہیں ہے حسین


==== عبید بخاری ـ  بنےگامغفرت کایہ جوازآج بھی====
کہ خود نبی کے ہے لب پر حسین زندہ باد




شاعر: [[عبید بخاری ]]
کسی یزید کا ڈر ہے نہ خوف مرنے کا


مرا ازل سے ہے رہبر حسینؑ زندہ باد


بنےگامغفرت کایہ جوازآج بھی۔


کہ ہوگا ذکر ِآلِ پاکباز آج بھی۔
صدا یہ آج بھی آتی ہے صحنِ مقتل سے


مرا نہیں ہوں میں مر کر حسینؑ زندہ باد


ہےدس محرم الحرام یومِ کربلا۔


حسینؓ نےمگرپڑھی نمازآج بھی۔
بڑے فخر سے ملائک بھی جس کے در پہ جھکیں


اسی کا میں بھی ہوں نوکر حسینؑ زندہ باد


یزید کا تو نام تک مٹا دیا گیا۔


حسین کی سجی ہےبزمِ نازآج بھی۔
مرے خمیر میں شامل ہے خاک مقتل کی


مرے لہو کے ہے اندر حسینؑ زندہ باد


رہی ہےکل بھی آنکھ نم غمِ حسین میں۔


غمِ حسین ہے نظر نواز آج بھی۔
علیؑ کے جیسا ہو جیون تو موت شبیرؑی


دعا ہے بس یہی صفدرؔ حسینؑ زندہ باد


حسین عہدِحال میں بھی ناگزیرہے۔
===== صفدرؔ جعفری - حسینؑ دیکھ رہے ہیں صفیں سجائے ہوئے =====


کہ شرکی ہورہی ہےسازبازآج بھی۔
شاعر: [[صفدر جعفری]]، [[لاہور]]




نہ دیں گےہاتھ ہاتھ میں اگرچہ کاٹ دے۔
حسینؑ دیکھ رہے ہیں صفیں سجائے ہوئے


یزید کا خلیفہ ٕ مجاز  آج بھی۔
کوئی تو نکلے کفن کو عَلم بنائے ہوئے




یزیدیت ہےسربخاک آج تک، عبید۔
تڑپنے لگتے ہو کیوں ذکرِ ابنِ حیدرؑ پر


حسینیت رہی ہےسرفرازآج بھی۔
علؑی کے لال سے کتنا ہو خوف کھائے ہوئے


==== صاحبزادہ احمد ندیم ـ جو  وصل  حق کی تمنا  کیا  کرے  کوئی ====


شاعر: [[صاحبزادہ احمد ندیم ]]
طلب نہیں ہے کسی قصر کی نہ شاہی کی


ہمیں قبول ہیں یا رب وہ گھر جلائے ہوئے


جو  وصل  حق کی تمنا  کیا  کرے  کوئی


تو  کربلا  کا  مسافر  رہا  کرے  کوئی
کبھی تبسمِ اصغر میں بولتے ہیں حسینؑ


سناں کی نوک کو منبر کبھی بنائے ہوئے


نماز عشق  فقط  عاشقوں پہ فرض  ہوئی


حسین  کی  طرح  کیسے  ادا کرے  کوئی
فراتِ فکر پہ ان کے ہے اب تلک پہرا


عزائے شہ سے جو صفدؔر ہیں تلملائے ہوئے


حجاز  آج  بھی  ہے  محو  انتظار  حسین
===== عمیر نجمی ۔ بہ وقتِ عصر جو کربل کی خاک بیٹھ گئی =====


قضا  ہوئے ہیں جو سجدے ادا کرے کوئی
شاعر : [[عمیر نجمی]]، [[رحیم یار خان]]، [[پاکستان]]


بہ وقتِ عصر جو کربل کی خاک بیٹھ گئی


اصول  عشق  الہی  ہے  کربلا  کا  سفر
کئی دلوں پہ کٹے سر کی دھاک بیٹھ گئی


ظفر  نصیب  اگر  ہو  چلا  کرے کوئی


اِدھر زمیں پہ گرا ہاشمی چراغ، اُدھر


نگاہ    سید    کونین    میں   رہے    دائم
فلک پہ سوگ میں اک ذاتِ پاک بیٹھ گئی


حسینیت    کا  اگر  حق  ادا  کرے کوئی


بدن جو بزمِ عزا سے اٹھا تو روح وہیں


حسین  سید  عشاق  ہر زماں  ہے  ندیم
بہ صد نیاز، بہ صد انہماک، بیٹھ گئی


ملے  جو  نقش قدم جاں فدا کرے کوئی 


بہ یادِ سجدہِ تشنہ امام، سجدہ کیا


====ابرار نیّر ـ عزیز ہم کو نہ کیونکر ہو خاندانِ حسین====
اور اتنی دیر سے اٹھا کہ ناک بیٹھ گئی


شاعر: [[ابرار نیّر]]


عزیز ہم کو نہ کیونکر ہو خاندانِ حسین
جو بے ردا تھی، اٹھی اور دورنِ قصرِ دمشق


یہ خاندان ہے دراصل کاروانِ حسین
بڑے بڑوں کی ردا کر کے چاک، بیٹھ گئی




نہ خوفِ شمر ، نہ ابن ِ زیاد کا ڈر ہے
عدو حسین۴ کا ہو اور نشان چھوڑے زمیں؟


ہمارے سر پہ ہے جرآت کا سائبانِ حسین
سنا ہے اس کی لحد ٹھیک ٹھاک بیٹھ گئی




جو ان کی راہ پہ چل کر لٹا گئے گھر بار
===== فرحت زاہرا - نفس کے مختار تھے راہ خدا تک آ گئے =====


تو ان سے پوچھ کبھی جا کے داستانِ حسین
نفس کے مختار تھے راہ خدا تک آ گئے


حق کو جو پہچان پاۓ کربلا تک آ گئے


ملیں گے چاک گریباں، سروں میں خاک لیے


رہیں گے سر بہ گریباں ہی دشمنانِ حسین
آسمان رویا زمیں تڑپی ہوا رکنے لگی


شمر تیرے ہاتھ آل مصطفی تک آ گئے


سکھا گئے تھے کہ حق کے سوا نہ کچھ کہنا


مرے حضور نے چوسی تھی جب زبانِ حسین
استغاثے کی صدا نے کر دیا بے چین تو


خیمہء اقدس سے اصغر حرملہ تک آ گئے


ہماری چال میں نیّر ، جو کچھ اٹھان سی ہے


ہمارے سامنے رہتی ہے آن بان ِ حسین
منزلیں دشوار تھیں پر قافلہ بنتا گیا


راہ حق کے سب مسافر راہ نما تک آ گئے


==== ریاض احمد برکاتی ـ اے ابن  حیدر قرارِ  زہرا ،عظیم  کتنا  نسب  ہے  تیرا====


شور تھا کہ لوٹ لو آل عبا کی چادریں


شاعر: [[ریاض احمد برکاتی ]]، [[کولکتہ ]]، [[انڈیا ]]
اشقیاء کے حوصلے دیکھو کہاں تک آ گئے




اے ابن  حیدر قرارِ  زہرا ،عظیم  کتنا  نسب  ہے  تیرا
اک طرف فسق یزیدی اک طرف صبر حسین


تو ہے نواسہ شہِ امم کا نفیس و اعلیٰ حسب ہے تیرا
دونوں اطرافی مثال انتہا تک آ گئے


===== جنید نسیم سیٹھی ۔ خُسروی چاہی نہ سطوت کے طلبگار بنے ======


رشید تو ہے، فرید تو ہے، رہِ وفا کا شہید تو ہے
شاعر : [[جنید نسیم سیٹھی ]]]


غم و الم سے بعید تو ہے، شہیدِ اعظم لقب ہے تیرا


خُسروی چاہی نہ سطوت کے طلبگار بنے


ہے شان تیری بلند و بالا، فضیلتوں کا ہے تو منارا
وہ بہتَّر 72 جو فقط تیرے وفادار بنے


تری ہے دنیا، تری ہے عقبیٰ، رسول تیرے ہیں، رب ہے تیرا


تُو نے یہ درس زمانے کو دیا کربل میں


تری محبت ہے فرض ہم پر، کہ تو ہے جانِ حبیبِ داور
سر کٹا سکتا ہو جو کوئی وہ سردار بنے


ہماری خاطر سبیلِ بخشش اے میرے شبیر ادب ہے تیرا


اُن کے حصے میں نہ دین آیا نہ دُنیا آئی


ہے مومنوں کو تری ضرورت، ضیائے ایماں ہے تیری الفت
تجھ سے مُنہ پھیر کے جو صاحبِ دستار بنے


طرب کا ساماں ہے تیری مدحت، حسین رتبہ عجب ہے تیرا


اُن لعینوں کو بھی سیراب کیا تھا تُو نے


تُو مدح خواں جب حسین کا ہے، ریاض کیوں اتنا غمزدہ ہے
رَن میں جو تیرے لئے باعثِ آزار بنے


تجھے  وہ محشر میں بھول جائیں، یہ سوچنا بے سبب ہے تیرا


کوئی باقی نہ تھا بیمار کی دل جوئی کو


====شفیق رائے پوری ـ سبطِ رسول راکبِ دوشِ  نبی حسین====
چند لاشے تھے جو سجاد کے غمخوار بنے


شاعر: [[شفیق رائے پوری ]]، [[انڈیا ]]


ایک وہ تُو کہ تجھے جُراتِ اظہار ملی


سبطِ رسول راکبِ دوشِ  نبی حسین
ایک یہ ہم کہ کہیں صُورتِ اظہار 'بنے'


لختِ جگر بتول کے  جانِ علی حسین
=== قصیدہ ===




اسلام کے افق پہ کِھلی  روشنی حسین
=== سلام ===


ہیں    تیرہ کائنات  کی تابندگی حسین
===== عبدالجلیل ۔ بے سہاروں کےسہارے مصطفٰےﷺ کوہوسلام =====


بے سہاروں کےسہارے مصطفٰےﷺ کوہوسلام


کیسے قلم احاطہ کرے تیرے وصف کا
رحمتِ عالم حبیبِ کبریا کو ہو سلام


تو عالی مرتبت ہے اے ابنِ علی حسین


حیدرؓ و حسنینؓ و زہرؓا آئے جس چادر تلے


اسلام کی رگوں میں لہو آپ  ہی کا ہے
المزمل شان والی اس رِدا کو ہو سلام


ہےآپ ہی کےدم سےروش نبض کی حسین


جن کی عظمت کا بیاں ہے آیئہ تطہیر میں


جب  بھی کوئی  یزید اٹھائے گا اپنا سر
اہل بیت پاکؓ کی شانِ عُلیٰ کو ہو سلام


سنت کریں گے ہم بھی ادا آپ کی حسین


جس کا چہرہ دیکھنا بھی ہے عبادت وہ علیؓ


آقا  نے  چن لیا جسے  فرزند کے عوض
مرتضیٰؓ ، مشکل کشاؓ ، شیر خُداؓ کو ہو سلام


وہ جانِ مصطفے ہیں فقط آپ ہی حسین


تیری آمد پر ہوئے سر خم سبھی کے حشر میں


خوابِ شفیق  میں بھی چلے آئیے کبھی
نُور چشمِ مصطفٰےﷺ تیری حیا کو ہو سلام


چھوٹا سا منہ ہے بات مگر ہے بڑی حسین


اے حسنؓ تیری فراست پر ہو کُل دانش نثار


====اصغر شمیم ـ زندگانی آپ کی ہے جاودانی یا حسین====
راحتِ جانِ نبیﷺ تیری ذکاء کو ہو سلام


شاعر: [[اصغر شمیم ]]، [[کولکتہ]]، [[ انڈیا]]


جس کی دلجوئی کی خاطر ہو گیا سجدہ طویل


زندگانی آپ کی ہے جاودانی یا حسین
راکبِ دوشِ نبیﷺ کی اس ادا کو ہو سلام


دو جہاں میں آپ کی ہے کامرانی یا حسین


تادمِ آخر رہا تجھ کو پیاسوں کا خیال


آپ کے محسن جو تھے وہ قتل سارے ہو گئے
اے علمدارِ وفا تیری وفا کو ہو سلام


پھر بھی لب پر آپ کے ہے شادمانی یا حسین


قاسمؓ و عونؓ و محمدؓ اکبرؓ و اصغرؓ سبھی


جو مٹانا چاہتے تھے مٹ گئے دنیا سے وہ
غنچہ ہائے نازنین و دلربا کو ہو سلام


ہار میں بھی آپ کی ہے کامرانی یا حسین


اکبرؓ و اصغرؓ کے لاشے دیکھ کر بھیگی نہ آنکھ


جب کہ صادق کا علم لے کر کٹایا اپنا سر
کربلا میں صبر کی اُس انتہا کو ہو سلام


آپ نے لکھی ہے خوں سے یہ کہانی یا حسین


دیں بچانے کیلئے جب کر دیا کنبہ نثار


قطرے قطرے کو ترستے رہ گئے اصغر کے ہونٹ
منبعِ جود و سخا تیری سخا کو ہو سلام


آج بھی ہے شرم میں ڈوبا وہ پانی یا حسین


جان و مال و آل دے کر زندۂ جاوید ہیں


میں شمیمِ سوختہ جاں لکھتے لکھتے رو پڑا
اے شہیدِ کربلا ایسی بقا کو ہو سلام


تجھ پہ ہو رحمت کی بارش آسمانی یا حسین


دیکھ کر نوکِ سناں پر سر تیرا بولے ملک


==== ساحر کلکتوی ـ رک گئے یہ کہتے کہتے ذاکرانِ  اہلبیت ====
مرحبا ! سبطِ نبی تیری انا کو ہو سلام


شاعر: [[ساحر کلکتوی  ]]


زیرِ خنجر کی ادا شبّیرؓ نے ایسی نماز


رک گئے یہ کہتے کہتے ذاکرانِ  اہلبیت
سب عدو کہنے لگے حُسنِ ادا کو ہو سلام


ہے قیامت سی قیامت داستانِ  اہلبیت


مصطفٰےﷺ کی آل کا جو درد رکھتے ہیں جلیل


سنتِ  شبیر ہوجائے ادا، اس واسطے
تا قیامت اُن غلاموں کی وفا کو ہو سلام
 
صبر کرتے ہیں ہمیشہ عاشقانِ  اہلبیت
 
 
ظلم کی گردن اڑانےصبر کی تلوار سے
 
جارہے ہیں کربلا  ،  شہزادگانِ  اہلبیت
 
 
سوگ کی چادر فضانےکربلامیں اوڑھ لی
 
اٹھی جب ہر سمت سے آہ وفغانِ  اہلبیت
 
 
"اذھما فی الغار“ میں ان کا ہوا ہے تذکرہ
 
ہیں جو اہلبیت کی جاں،اور شانِ اہلبیت
 
 
چار یاروں کے تصدق اے مرے پروردگار
 
رکھ  مجھے ہر  وقت  زیرِ سائبانِ اہلبیت
 
 
میرا دعویٰ ہے یقیناً دربدر کی ٹھوکریں
 
حشر تک کھاتے رہینگے دشمنان اہلبیت
 
 
خواجہ ومخدوم،شرف الدین ساحرسب کےسب
 
سرزمینِ  ہند  پر  ہیں  ارمغانِ  اہلبیت
 


=== مزید دیکھیے  ===
=== مزید دیکھیے  ===

حالیہ نسخہ بمطابق 19:07، 14 ستمبر 2019ء


حسین بن علی
شاعری
مناقب ِحسین

اس صفحے پر شہید کربلا سیدنا حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے سلام اور مناقب اس امید پر یکجا کیے جا رہے ہیں کہ مناقب پر کام کرنے والے محققین و ناقدین کو کافی و شافی ذخیرہ ایک ہی جگہ دستیاب ہو ۔ انتخاب شائع کرنے والے پبلشرز بھی مستفید ہو سکتے ہیں ۔ کوئی بھی اشاعتی ادارہ اگر مناقب حسین کے کسی انتخاب میں ان کلاموں میں سے کوئی کلام یا سارے کلام استعمال کرنا چاہتا ہوتو تو اسے شاعر اور ادارے کی طرف سے اجازت ہوگی ۔

اگر آپ شاعر ہیں اور آپ نے کوئی سلام یا منقبت کہہ رکھی ہو تو تبادلۂ خیال:مناقب حسین بن علی کو ترمیم کرکے پیش کر دیں ۔

مناقب و ذکر ِ کربلا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ابو الحسن خاور ۔ وہ ایک نور جو غار حرا سے آتا ہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر : ابو الحسن خاور ، لاہور ، پاکستان ،

سال : 2018

وہ ایک نور جو غار حرا سے آتا ہے

اسی کا عکس تو کرب و بلا سے آتا ہے


ہزاروں سال زمانے نے انتظار کیا

کہ کربلا میں کوئی کب منٰی سے آتا ہے


نہ پیاس میں علی اصغر رگڑتے ہیں ایٹرھی

نہ دوڑ کر کوئی کوہ صفا سے آتا ہے


میں بھول سکتا ہوں کچھ دیر کے لیے سب کچھ

مگر وہ تیر کہ جو حرملہ سے آتا ہے


یہ جیسے کرب و بلا ہی کا ایک آنسو ہو

فرات بہتا ہوا نینوا سے آتا ہے


غم ِ حسین میں اشکوں کو کیا سمجھتے ہو؟

مجھے تو لگتا ہے پرسہ خدا سے آتا ہے

احمد جہانگیر - تنویر پر طمانچے ، پھولوں پہ تازیانہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر : احمد جہانگیر ، کراچی، پاکستان

سال : 2018


تنویر پر طمانچے، پھولوں پہ تازیانہ

عفّت مآب کنبہ، عالی نسب گھرانہ


تسبیح میں ستارے، آفاق کا مصلّی

تطہیر کی قناتیں، رحمت کا شامیانہ


آیات کا تسلسل، اسرار پر تفکّر

تمجید کا ترنّم، توحید کا ترانہ


گریہ کناں ضریحیں، رنجور تعزیے ہیں

تابوت غم رسیدہ، پرچم کا تھرتھرانا


سورج کا رک کے چلنا، گرنا کبھی سنبھلنا

تارے اٹھا اٹھا کر خیمے کی سمت لانا


گھوڑے سے شہؑ کا گرنا، امّاں کا گرد پھرنا

خاتمؐ تری دہائی، فریاد مہربانا


تسخیر کی منادی، نیزوں کی چمچماہٹ

ماتم کناں شریعت، گریاں رسولؐ خانہ


زنجیر پر مصیبت اور طوق پر قیامت

بیڑی کا پاوں پڑنا، رسّی کا گڑگڑانا


کہرام میں فلک پر خورشید ڈوبتا ہے

نیزے پہ اٹھ رہا ہے شبّیرؑ سا یگانہ


پرسے کی چاندنی پر، شٙیون کا استغاثہ

اور عصر کی تلاوت سنتا ہوا زمانہ

اسلم فیضی ۔ كاتبِ تقدیر نے یہ سانحہ كیسا لكھا؟[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر  : اسلم فیضی ، کوہاٹ ، پاکستان

كاتبِ تقدیر نے یہ سانحہ كیسا لكھا؟

بہتے دریا كے لبوں پر پیاس كا صحرا لكھا!


كس نےاُس كی چھاؤں میں كردی ملاوٹ دھوپ كی

غیر كے سر پر بھی جس نے دُھوپ میں سایہ لكھا


سرِنگوں سچاٸی كو كب كرسكی تیغِ ستم

جرأتِ شبیرؓ نے حرفِ وفا كیسا لكھا


كربلا میں كِشتِ دیں كی آبیاری كے لۓ

پیاس كے ماروں نے اپنے خُون كا دریا لكھا


رَو پڑی ہوگی اجل اُس سنسناتے تیر پر

گردنِ اصغرؓ پہ جس نے زخم اِك گہرا لكھا


سیّدہ زینبؓ ! تِرے صبر وتحمل كو سلام

تُو نے لوحِ زندگی پر حوصلہ كیسا لكھا


جب بھی نكلا عدل كو یكسر مٹانے كیلۓ

ظُلم نے فیضی خود اپنی قبر كا كتبہ لكھا

عبد الجلیل ۔ اے حسینؓ ابنِ علیؓ سب کچھ لُٹایا آپ نے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: حافظ عبد الجلیل ، کوہاٹ ، پاکستان

اے حسینؓ ابنِ علیؓ سب کچھ لُٹایا آپ نے

جان و مال و آل دے کر دیں بچایا آپ نے


منبرومحراب ومسجد میں تلاوت سب نےکی

بر سرِ نوکِ سناں قرآں سنایا آپ نے


آسماں بھی رو پڑا تھا اکبرؓ و قاسمؓ کا جب

کربلا کی ریت سے لاشہ اُٹھایا آپ نے


تین دن پیاسے رہے اور بر لبِ نہرِ فرات

تشنہ اصغرؓ دے دیا ‘ پانی نہ مانگا آپ نے


کس طرح اےشاہِ دیں! میدان میں جاتےہوئے

عابدِؓؓ بیمار کو سینے لگایا آپ نے


لشکر شامی سے آکر وہ حسینی بن گیا

اپنے قدموں میں بلا کر حُر بنایا آپ نے

کاشف حیدر ۔ حسینؑ ذکر ترا گام گام کرتے ہوئے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: [کاشف حیدر | کاشف حیدر رضوی ]]، شکاگو،


حسینؑ ذکر ترا گام گام کرتے ہوئے

گزر رہے ہیں زمانے سلام کرتے ہوئے


حسینؑ آپ نے سجدوں کو زندگی بخشی

بس ایک سجدہِ آ خر تمام کرتے ہوئے


اٹھا کے پرچمِ عباسؑ ہم علیؑ والے

چلے ہیں فکرِ حسینی کو عام کرتے ہوئے


چلےہیں جانب مقتل برائے دین نبی

حسین ؑ تیغِ علیؑ بے نیام کرتے ہوئے


منافقین علیؑ کو علیؑ کی لخت جگر

سبق سکھا گئی طے راہ شام کرتے ہوئے


اسے شجیعِ عرب تک رہے ہیں حیرت سے

جو مسکرا دیا حجت تمام کرتے ہوئے


اسے خبر تھی غریبوں پہ شام بھاری ہے

بہت اداس تھا سورج بھی شام کرتے ہوئے


زمین کیوں نہ پھٹی جس گھڑی چلے ظالم

ردائے فاطمہ زہراؑ کو عام کرتے ہوئے


چلیں جو دخترِ شبیر ؑ ڈھونڈنے زینبؑ

ملی وہ لاشہ شہہ سے کلام کرتے ہوئے


لحد سے حشر تلک یوں سفر کرو کاشف

غمِ حسینؑ میں ماتم مدام کرتے ہوئے



عبدالحلیم گونڈوی ـ کون سمجھے کون جانے رتبۂ ابن علی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: عبدالحلیم گونڈوی


کون سمجھے کون جانے رتبۂ ابن علی

بوسہ گاہ مصطفیٰ ہے چہرۂ ابن علی


ان کی نسبت سے ہے قائم افتخار زندگی

ٹوٹنے پائے نہ پھر یہ رشتۂ ابن علی


جان دے دی پر یزید وقت کی بیعت نہ کی

مرحبا صد مرحبا اے جذبۂ ابن علی


اے بہار گلشن تطہیر تیرے فیض سے

چارسو مہکا ہوا ہے غنچۂ ابن علی


بیخودی کہنے لگی ہے ہر دل بیمار سے

قلب مضطر کی دوا ہے نعرۂ ابن علی


اس لیے ہر فرد اس کا نازش فردوس ہے

دین کا رہبر ہے سارا کنبۂ ابن علی


روز روشن کی طرح یہ بات ہے سب پر عیاں

عکس محبوب خدا ہے جلوۂ ابن علی


مستند ہو جاے گی میری غلامی حشر میں

کاش مل جاے ذرا سا صدقۂ ابن علی


کر خدا کے حکم پر ہر دم عمل عبدالحلیم

درس یہ بھی دے گیا ہے سجدۂ ابن علی


سید حسنین رضا ہاشمی ـ وفا کا دیپ جلا ہے حسین آئے ہیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: سید حسنین رضا ہاشمی ، مظفر گڑھ


وفا کا دیپ جلا ہے حسین آئے ہیں

درِ بتول سجا ہے حسین آئے ہیں


مہک بسی ہے فضا میں علی کے گلشن کی

اک اور پھول کھلا ہے حسین آئے ہیں


اُتر رہے ہیں ملائک مبارکیں دینے

حضور سے بھی سنا ہے حسین آئے ہیں


نبی کے دین کی نصرت کا ہو گیا ساماں

خدا کی خاص عطا ہے حسین آئے ہیں


دیارِ صبر میں خوشیوں کا جشن برپا ہے

زمانہ شاد بڑا ہے حسین آئے ہیں


ہوائیں خیر مبارک کے گیت گاتی ہیں

سرور میں یہ فضا ہے حسین آئے ہیں


سکوں کا نور ہے , رحمت ہے اور برکت ہے

زمیں کو حُسن ملا ہے حسین آئے ہیں


لباسِ خلد ہے کس کے لئے رضا دیکھو

یہ آج سب کو پتا ہے حسین آئے ہیں



ظفر اقبال نوری ـ امیرِ شہرِ امانت مرے حسین سلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: ظفر اقبال نوری


امیرِ شہرِ امانت مرے حسین سلام

رئیسِ راہِ سعادت مرے حسین سلام


امینِ امن و امانت مرے حسین سلام

نقیبِ رشدو ھدایت مرے حسین سلام


کشادِ بابِ بسالت مرے حسین سلام

فرازِ اوجِ شجاعت مرے حسین سلام


کتابِ عشق و اصالت مرے حسین سلام

نصابِ دینِ شہادت مرے حسین سلام


جمالِ رنگِ علی و کمالِ بوئے بتول

مثالِ روئے رسالت مرے حسین سلام


مرادِ آیۂ تطہیر و فخرِ آلِ عبا

بہارِ باغِ مودّت مرے حسین سلام


بنوکِ نیزہ قراءت تری مثال کہاں

سوارِ دوشِ نبوت مرے حسین سلام


وہ بوند بوند چراغاں جو کربلا میں ہوا

رہےگا تا بہ قیامت مرے حسین سلام


اک ایک کر کے لٹائے گہر بطیب و رضا

تری عجیب سخاوت مرے حسین سلام


کہیں پہ بھائی بھتیجے کہیں پہ لختِ جگر

کہیں پہ بہن کی عترت مرے حسین سلام


میانِ فصلِ شہیداں وہ تیرا پائے ثبات

نشانِ عزم و عزیمت مرے حسین سلام


ھجومِ تیغ و سناں میں وہ خونچکاں سجدہ

زہے یہ ذوقِ عبادت مرے حسین سلام


کٹا کے سر جو شریعت کو سربلند کیا

پناہِ دین و شریعت مرے حسین سلام


منٰی کا سرِّ فدینا تو کربلا میں کھلا

ظہورِ شانِ مشیّت مرے حسین سلام


کہاں یہ بندۂ نوری غلام ابنِ غلام

کہاں نصیب یہ مدحت مرے حسین سلام


بنامِ سیّدِ سجّاد اسیرِ کرب و بلا

کریں قبول یہ مدحت مرے حسین سلام


عبید بخاری ـ بنےگامغفرت کایہ جوازآج بھی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: عبید بخاری


بنےگامغفرت کایہ جوازآج بھی۔

کہ ہوگا ذکر ِآلِ پاکباز آج بھی۔


ہےدس محرم الحرام یومِ کربلا۔

حسینؓ نےمگرپڑھی نمازآج بھی۔


یزید کا تو نام تک مٹا دیا گیا۔

حسین کی سجی ہےبزمِ نازآج بھی۔


رہی ہےکل بھی آنکھ نم غمِ حسین میں۔

غمِ حسین ہے نظر نواز آج بھی۔


حسین عہدِحال میں بھی ناگزیرہے۔

کہ شرکی ہورہی ہےسازبازآج بھی۔


نہ دیں گےہاتھ ہاتھ میں اگرچہ کاٹ دے۔

یزید کا خلیفہ ٕ مجاز آج بھی۔


یزیدیت ہےسربخاک آج تک، عبید۔

حسینیت رہی ہےسرفرازآج بھی۔


احمد ندیم - حسین حسن مکمل کا مظہر مشہود[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: احمد ندیم


حسین حسن مکمل کا مظہر مشہود

حسین نوع بشر کی هے منزل مقصود


مقام صبر و رضا کا وہ مظہر کامل

کہ اس کی ذات میں باہم ہوئے وجود و شہود


وہ پاسدار وفائے ذبیح و عبدالله

شہید سر شہادت برائے اصل وجود


حیات باقی و فانی کا امتیاز حسین

کہ جس نے پیش خدا پیش کی متاع وجود


وہ سبط سید عالم حسین ابن علی

سر سناں بھی کہس جس نے اے مرے معبود


وہ جس کے خون سے صحرا ہوا گل و گلزار

اور اس کی مثل نہیں کوئی زیر چرخ کبود


ندیم میں بھی ہوں ادنی گدائے نور حسین

مرے بھی دل میں یو اک روز روشنی کا ورود



احمد ندیم ـ جو وصل حق کی تمنا کیا کرے کوئی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: صاحبزادہ احمد ندیم


جو وصل حق کی تمنا کیا کرے کوئی

تو کربلا کا مسافر رہا کرے کوئی


نماز عشق فقط عاشقوں پہ فرض ہوئی

حسین کی طرح کیسے ادا کرے کوئی


حجاز آج بھی ہے محو انتظار حسین

قضا ہوئے ہیں جو سجدے ادا کرے کوئی


اصول عشق الہی ہے کربلا کا سفر

ظفر نصیب اگر ہو چلا کرے کوئی


نگاہ سید کونین میں رہے دائم

حسینیت کا اگر حق ادا کرے کوئی


حسین سید عشاق ہر زماں ہے ندیم

ملے جو نقش قدم جاں فدا کرے کوئی

ابرار نیّر ـ عزیز ہم کو نہ کیونکر ہو خاندانِ حسین[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: ابرار نیّر

عزیز ہم کو نہ کیونکر ہو خاندانِ حسین

یہ خاندان ہے دراصل کاروانِ حسین


نہ خوفِ شمر ، نہ ابن ِ زیاد کا ڈر ہے

ہمارے سر پہ ہے جرآت کا سائبانِ حسین


جو ان کی راہ پہ چل کر لٹا گئے گھر بار

تو ان سے پوچھ کبھی جا کے داستانِ حسین


ملیں گے چاک گریباں، سروں میں خاک لیے

رہیں گے سر بہ گریباں ہی دشمنانِ حسین


سکھا گئے تھے کہ حق کے سوا نہ کچھ کہنا

مرے حضور نے چوسی تھی جب زبانِ حسین


ہماری چال میں نیّر ، جو کچھ اٹھان سی ہے

ہمارے سامنے رہتی ہے آن بان ِ حسین


اصغر شمیم ـ زندگانی آپ کی ہے جاودانی یا حسین[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت کائنات ۔ تعارف و رابطہ نعت بک کارنر اہم صفحات سال 2019 وڈیو نعتیں [بیٹا ورژن ] آن لائن رسائل و جرائد اہم نعت گو شعراء حسان بن ثابت، 563 کعب بن زہیر شرف الدین بوصیری، 1211 عبد الرحمن جامی، 1414 محسن کاکوروی، 1827 امیر مینائی، 1828 الطاف حسین حالی ، 1837 احمد رضا بریلوی، 1856 ظفر علی خان، 1873 بیدم وارثی، 1876 علامہ اقبال، 1877 بہزاد لکھنوی، 1904 ماہر القادری، 1906 منور بدایونی، 1908 اقبال عظیم، 1913 مظہر الدین مظہر 1914 احمد ندیم قاسمی، 1916 عبد العزیز خالد، 1927 ادیب رائے پوری، 1928 حفیظ تائب، 1931 مظفر وارثی، 1933 گوہر ملسیانی، 1934 راجا رشید محمود، 1934 ریاض حسین چودھری، 1941 خالد محمود خالد، 1941 ریاض مجید، 1942 نصیر الدین نصیر، 1949 دیگر شعراء اہم روائتی نعت خواں اعظم چشتی، 1921 محمد علی ظہوری، 1932 عبدالستار نیازی، 1938 منظور الکونین، 1944 وحید ظفر قاسمی، 1952؟ خورشید احمد، 1956 صبیح رحمانی، 1965 سرور حسین نقشبندی، 1976 بین الاقوامی نعت خواں مشارے راشد الفاسے، 1976 سمیع یوسف، 1980 اہم جدت پسند نعت خواں اویس رضا قادری، 1960 عبد الروف روفی آلات ادھر کونسا ربط ہے متعلقہ تبدیلیاں خصوصی صفحات معلومات صفحہ Powered by MediaWiki اصول براۓ اخفائے راز تعارف "نعت کائنات" اعلانات

شاعر: اصغر شمیم ، کولکتہ، انڈیا


زندگانی آپ کی ہے جاودانی یا حسین

دو جہاں میں آپ کی ہے کامرانی یا حسین


آپ کے محسن جو تھے وہ قتل سارے ہو گئے

پھر بھی لب پر آپ کے ہے شادمانی یا حسین


جو مٹانا چاہتے تھے مٹ گئے دنیا سے وہ

ہار میں بھی آپ کی ہے کامرانی یا حسین


جب کہ صادق کا علم لے کر کٹایا اپنا سر

آپ نے لکھی ہے خوں سے یہ کہانی یا حسین


قطرے قطرے کو ترستے رہ گئے اصغر کے ہونٹ

آج بھی ہے شرم میں ڈوبا وہ پانی یا حسین


میں شمیمِ سوختہ جاں لکھتے لکھتے رو پڑا

تجھ پہ ہو رحمت کی بارش آسمانی یا حسین


ساحر کلکتوی ـ رک گئے یہ کہتے کہتے ذاکرانِ اہلبیت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: ساحر کلکتوی


رک گئے یہ کہتے کہتے ذاکرانِ اہلبیت

ہے قیامت سی قیامت داستانِ اہلبیت


سنتِ شبیر ہوجائے ادا، اس واسطے

صبر کرتے ہیں ہمیشہ عاشقانِ اہلبیت


ظلم کی گردن اڑانےصبر کی تلوار سے

جارہے ہیں کربلا ، شہزادگانِ اہلبیت


سوگ کی چادر فضانےکربلامیں اوڑھ لی

اٹھی جب ہر سمت سے آہ وفغانِ اہلبیت


"اذھما فی الغار“ میں ان کا ہوا ہے تذکرہ

ہیں جو اہلبیت کی جاں،اور شانِ اہلبیت


چار یاروں کے تصدق اے مرے پروردگار

رکھ مجھے ہر وقت زیرِ سائبانِ اہلبیت


میرا دعویٰ ہے یقیناً دربدر کی ٹھوکریں

حشر تک کھاتے رہینگے دشمنان اہلبیت


خواجہ ومخدوم،شرف الدین ساحرسب کےسب

سرزمینِ ہند پر ہیں ارمغانِ اہلبیت

آصف قادری -حُسینیوں کو بسانا‘ حسین جانتے ہیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: محمد آصف قادری ، واہ کینٹ، پاکستان


حُسینیوں کو بسانا‘ حسین جانتے ہیں

یزیدیوں کو مٹانا‘ حسین جانتے ہیں


یہ دشمنوں نے بھی مانا کہ دین کی خاطر

خود اپنا کنبہ لُٹانا‘ حسین جانتے ہیں


اگرچہ سَر ہے جُدا ہو کے نوکِ نیزہ پر

کلام رب کا سُنانا‘ حسین جانتے ہیں


پڑا جو وقت تو ہرگز نہ آنچ آنے دی

نبی کا دین بچانا‘ حسین جانتے ہیں


گواہی دیتی ہے آصف زمینِ کرب و بلا

لہو سے پھول کِھلانا حسین جانتے ہیں


احمد زاہد ـ یہ کس کالاڈلہ ہےاورکون شہسوارہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: محمداحمد زاہد، سانگلہ ہل، پاکستان

یہ کس کالاڈلہ ہےاورکون شہسوارہے

فضا سے بھی بلندجس کےپاؤں کاغبارہے


رواں ہیں لے کے ہاتھ میں اٹھا کے شیر خوار بھی

یہ عشق ہے محمدی ، بڑا ہی ذی وقار ہے


حسین اپنے خون سے تھے سینچتے رہے جسے

چہار سو وہ گلستانِ مصطفےٰ تیار ہے


خدا کے سامنے ہی سر کٹائیں گے سجود میں

نماز کو نہ چھوڑنا! حسین کی پکار ہے


لو دیکھ کر حسین کو یزیدیوں میں غل مچا

یہ کون ذی وقار ہے بلا کا شہ سوار ہے


کسی لعیں یزید کو وہ دیں گے ہاتھ کس لیے

نبی کے دین کے لیے تو جاں بھی نثار ہے



اسلم فیضی ۔ صدق ویقین ومہر و محبت حسینؑ ہیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر : اسلم فیضی ، کوہاٹ ، پاکستان

صدق ویقین ومہر و محبت حسینؑ ہیں

دستورِ زندگی كی حقیقت حسینؑ ہیں


سجدوں كی كہكشاں سے عبارت ہےجن كی ذات

وہ آشناۓ روحِ عبادت حسینؑ ہیں


بخشا گیا ہے اُن كو وقارِ خود آگہی

اپنے لۓ تو نورِ بصیرت حسینؑ ہیں


ہر زوایے سے كیوں نہ انہیں معتبر كہوں

فخرِ حیات و فخرِ شہادت حسینؑ ہیں


جس نے نبیۖ كے دین كو ضو پاش كردیا

اس روشنی كی زندہ علامت حسینؑ ہیں


ہر عہد میں لڑیں گے یزیدوں كے ساتھ ہم

ہر عہد میں ہماری ضرورت حسینؑ ہیں


دیكھو تو كربلا میں ہیں تكمیل انقلاب

سوچو تو پورے دہر كی قیمت حسینؑ ہیں


نوكِ سناں پہ بھی رہا غیرت كا بانكپن

خورشیدِ آسمانِ شجاعت حسینؑ ہیں

اسلم فیضی ۔ صفحہِ زیست پہ تحریر شہادت چمكی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر : اسلم فیضی ، کوہاٹ ، پاکستان


صفحہِ زیست پہ تحریر شہادت چمكی

اِك نۓ رنگ سے انسان كی عظمت چمكی


كس نے خوں بانٹ دیا اپنے جگر پاروں كا

نوكِ شمشیر پہ یہ كس كی سخاوت چمكی


ورنہ تا حشر یزیدوں كی حكومت ہوتی

شكر ہے حضرت شبیرؓ كی جرأت چمكی


بجھ گٸیں ظلم كی سب مشعلیں یارو! لیكن

ریگِ كربل میں فقط اُن كی قیادت چمكی


معتبر كیوں نہ اجالوں كا سفر ہو فیضؔی

راكبِ دوشِ رسالتﷺ كی امامت چمكی

اشفاق احمد غوری ـ شبیہہِ شاہِ انبیاء ہے خوبرو حسین ہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: اشفاق احمد غوری، ملتان، پاکستان


شبیہہِ شاہِ انبیاء ہے خوبرو حسین ہے

سخی، متین، باوقار، نرم خو حسین ہے


قرارِ قلب و جان دو جہاں کے تاجدار ہیں

قرارِ قلب و جاں کے دل کی آرزو حسین ہے


جو کھیلتا تھا تاجدارِ انبیاء کی پیٹھ پر

وہ ذی وقار لاڈلا لہو لہو حسین ہے


خبر نہ تھی فرات پر کھڑی ہوئی سپاہ کو

کہ اس کی بوند بوند کی تو جستجو حسین ہے


ملا دیا گیا ہے خاک میں نسب یزید کا

مگر نظر اٹھا کے دیکھ سو بسو حسین ہے


چلا کے تیر شرم سے گڑے نہیں زمین میں

یہ جانتے ہوئے کہ ان کے روبرو حسین ہے


شبابِ خلد کے سروں کا تاج ہے وہ ذی حشم

شبابِ خلد کے لبوں کی گفتگو حسین ہے


ہوئی ہے مات کربلا میں ظالموں کی فوج کو

کٹا کے اپنا خاندان سرخرو حسین ہے


حسین ہے سکھائے جس نے زندگی کے ضابطے

بچائی جس نے دینِ حق کی آبرو، حسین ہے

اشفاق احمد غوری ـ ہے کون رونقِ چمن، حسن بھی ہیں حسین بھی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: اشفاق احمد غوری، ملتان، پاکستان


ہے کون رونقِ چمن، حسن بھی ہیں حسین بھی

گلاب اور نسترن، حسن بھی ہیں حسین بھی


سخاوتوں کی داستاں زباں زدِ عوام ہے

کرم کے بحرِ موجزن، حسن بھی ہیں حسین بھی


ملی ہیں جن کو فخرِ کائنات کی شباہتیں

مرے نبی کا بانکپن، حسن بھی ہیں حسین بھی


قرارِ قلبِ فاطمہ، سکونِ قلبِ مرتضیٰ

نبی کے باغ کی پھبن، حسن بھی ہیں حسین بھی


لگے ہیں ایک شاخ پر گلاب بے مثال دو

مہک رہے ہیں گلبدن، حسن بھی ہیں حسین بھی


سوال ہوگا کس نے دین کی بچائی آبرو

کہیں گے سارے مرد و زن، حسن بھی ہیں حسین بھی


بلال راز ۔ تاریکیوں میں شمع ہدایت حسین ہیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر : بلال راز۔ بریلی ، بھارت

تاریکیوں میں شمع ہدایت حسین ہیں

زحمت ہے گر یزید تو رحمت حسین ہیں


ہم کو اسی لئے ہے محبت حسین سے

الله کے نبی کی محبّت حسین ہیں


جن کو کہا نبی نے کہ یہ دو ہیں میرے پھول

حضرت حسن ہیں دوسرے حضرت حسین ہیں


زہرہ کے نور عین ہیں حیدر کے لاڈلے

قلب رسول پاک کی راحت حسین ہیں


شمر و یزید جیتے جی برباد ہو گئے

ہو کر شہید اب بھی سلامت حسین ہیں


پھر سے اٹھا رہی سر اپنا یزیدیت

اس دور پر فتن کی ضرورت حسین ہیں


یہ وقت کے یزید مٹایں گے کیا اسے

دین رسول پاک کی طاقت حسین ہیں


جاوید انور ہاشمی - نم آنکھوں سے ظاہر محبت حقیقتت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نم آنکھوں سے ظاہر محبت حقیقتت

محبت سے بڑھ کر مئو د ت حقیقت


وہ شب اور وہ کا رو اں ز ند گی کا

و ہ د ھو کا د ہی اور وہ جرآت حقیقتت


ر سو ل۔خدا کے گھر ا نے سے ملتی

ر سو ل ۔ خد ا کی ا طا عت حقیقت


و ہ آل۔ محمد (ص) کی قر با نیا ں تھیں

برا ہیم (علیہ السلام) کے خو ا ب و سنت حقیقت


ز ر و مال کیا!جا ن دی راہ۔ حق میں

شہا د ت حقیقت اما مت حقیقت


یقین ا ہے گا حشر میں مو منو ں کو

یقیناً یقیں کی ہے د و لت حقیقت


خد ا ان کے سائے میں ہم سب کو رکھے

و ہ ساعت بنے جب شفا عت حقیقت


ریاض احمد برکاتی ـ اے ابن حیدر قرارِ زہرا ،عظیم کتنا نسب ہے تیرا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: ریاض احمد برکاتی ، کولکتہ ، انڈیا


اے ابن حیدر قرارِ زہرا ،عظیم کتنا نسب ہے تیرا

تو ہے نواسہ شہِ امم کا نفیس و اعلیٰ حسب ہے تیرا


رشید تو ہے، فرید تو ہے، رہِ وفا کا شہید تو ہے

غم و الم سے بعید تو ہے، شہیدِ اعظم لقب ہے تیرا


ہے شان تیری بلند و بالا، فضیلتوں کا ہے تو منارا

تری ہے دنیا، تری ہے عقبیٰ، رسول تیرے ہیں، رب ہے تیرا


تری محبت ہے فرض ہم پر، کہ تو ہے جانِ حبیبِ داور

ہماری خاطر سبیلِ بخشش اے میرے شبیر ادب ہے تیرا


ہے مومنوں کو تری ضرورت، ضیائے ایماں ہے تیری الفت

طرب کا ساماں ہے تیری مدحت، حسین رتبہ عجب ہے تیرا


تُو مدح خواں جب حسین کا ہے، ریاض کیوں اتنا غمزدہ ہے

تجھے وہ محشر میں بھول جائیں، یہ سوچنا بے سبب ہے تیرا


شفیق رائے پوری ـ سبطِ رسول راکبِ دوشِ نبی حسین[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: شفیق رائے پوری ، انڈیا


سبطِ رسول راکبِ دوشِ نبی حسین

لختِ جگر بتول کے جانِ علی حسین


اسلام کے افق پہ کِھلی روشنی حسین

ہیں تیرہ کائنات کی تابندگی حسین


کیسے قلم احاطہ کرے تیرے وصف کا

تو عالی مرتبت ہے اے ابنِ علی حسین


اسلام کی رگوں میں لہو آپ ہی کا ہے

ہےآپ ہی کےدم سےروش نبض کی حسین


جب بھی کوئی یزید اٹھائے گا اپنا سر

سنت کریں گے ہم بھی ادا آپ کی حسین


آقا نے چن لیا جسے فرزند کے عوض

وہ جانِ مصطفے ہیں فقط آپ ہی حسین


خوابِ شفیق میں بھی چلے آئیے کبھی

چھوٹا سا منہ ہے بات مگر ہے بڑی حسین


محمد خالد - راہ جو بھی لیں ہمیں وہ کربلا لے جائے گی =[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بشکریہ : انحراف

راہ جو بھی لیں ہمیں وہ کربلا لے جائے گی

اپنی منزل پر مدینے کی ہوا لے جائے گی


یہ تری دریا دلی ہے موجۂ حُسنِ عطا

جو مرے دل کی پریشانی بہا لے جائے گی


دُھوپ میں سایہ بنے گی، تا سرِ محشر ہمیں

چادرِ زینبؑ، سکینہؑ کی ردا لے جائے گی


گو دئیے کی لو بجھا ڈالی ہے میرے شاہؑ نے

پر غلاموں کو کہاں در سے وفا لے جائے گی


ہم کہ وابستہ رہے ہیں جاودانی نور سے

موت ہے کیا اور کیا ہم سے بھلا لے جائے گی !


ساکنانِ خلد کو حسرت رہے گی تا ابد

کیا شرف یہ سر زمینِ نینوا لے جائے گی !


کیوں بنا انسان کا دل سجدہ گاہِ عرشیاں ؟

بات چل نکلی تو سُوئے کربلا لے جائے گی !


دشت کو مہکار کر ڈالا ہے کس گل رنگ نے

بھر کے دامن میں جسے بادِ صبا لے جائے گی

بر سرِ منبر نہیں ہے وہ سرِ نیزہ بھی ہے


کائناتِ عشق میں جس کی نوا لے جائے گی


اے مرے شاہِ شہیداںؑ، اے اماموں کے امامؑ

دین تیرے گھر کی ہے ، خلق ِ خدا لے جائے گی !


کچھ نہیں پلّے مرے تیری حضوری کے لئے

بس یہی حمد و ثنا آہِ رسا لے جائے گی !


صفدر جعفری - سرورِ قلبِ پَیمبر حسینؑ زندہ باد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سرورِ قلبِ پَیمبر حسینؑ زندہ باد

"خدا کے دین کا محور حسینؑ زندہ باد"


ہمارے ذکر کا محتاج تو نہیں ہے حسین

کہ خود نبی کے ہے لب پر حسین زندہ باد


کسی یزید کا ڈر ہے نہ خوف مرنے کا

مرا ازل سے ہے رہبر حسینؑ زندہ باد


صدا یہ آج بھی آتی ہے صحنِ مقتل سے

مرا نہیں ہوں میں مر کر حسینؑ زندہ باد


بڑے فخر سے ملائک بھی جس کے در پہ جھکیں

اسی کا میں بھی ہوں نوکر حسینؑ زندہ باد


مرے خمیر میں شامل ہے خاک مقتل کی

مرے لہو کے ہے اندر حسینؑ زندہ باد


علیؑ کے جیسا ہو جیون تو موت شبیرؑی

دعا ہے بس یہی صفدرؔ حسینؑ زندہ باد

صفدرؔ جعفری - حسینؑ دیکھ رہے ہیں صفیں سجائے ہوئے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر: صفدر جعفری، لاہور


حسینؑ دیکھ رہے ہیں صفیں سجائے ہوئے

کوئی تو نکلے کفن کو عَلم بنائے ہوئے


تڑپنے لگتے ہو کیوں ذکرِ ابنِ حیدرؑ پر

علؑی کے لال سے کتنا ہو خوف کھائے ہوئے


طلب نہیں ہے کسی قصر کی نہ شاہی کی

ہمیں قبول ہیں یا رب وہ گھر جلائے ہوئے


کبھی تبسمِ اصغر میں بولتے ہیں حسینؑ

سناں کی نوک کو منبر کبھی بنائے ہوئے


فراتِ فکر پہ ان کے ہے اب تلک پہرا

عزائے شہ سے جو صفدؔر ہیں تلملائے ہوئے

عمیر نجمی ۔ بہ وقتِ عصر جو کربل کی خاک بیٹھ گئی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر : عمیر نجمی، رحیم یار خان، پاکستان

بہ وقتِ عصر جو کربل کی خاک بیٹھ گئی

کئی دلوں پہ کٹے سر کی دھاک بیٹھ گئی


اِدھر زمیں پہ گرا ہاشمی چراغ، اُدھر

فلک پہ سوگ میں اک ذاتِ پاک بیٹھ گئی


بدن جو بزمِ عزا سے اٹھا تو روح وہیں

بہ صد نیاز، بہ صد انہماک، بیٹھ گئی


بہ یادِ سجدہِ تشنہ امام، سجدہ کیا

اور اتنی دیر سے اٹھا کہ ناک بیٹھ گئی


جو بے ردا تھی، اٹھی اور دورنِ قصرِ دمشق

بڑے بڑوں کی ردا کر کے چاک، بیٹھ گئی


عدو حسین۴ کا ہو اور نشان چھوڑے زمیں؟

سنا ہے اس کی لحد ٹھیک ٹھاک بیٹھ گئی


فرحت زاہرا - نفس کے مختار تھے راہ خدا تک آ گئے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
نفس کے مختار تھے راہ خدا تک آ گئے 

حق کو جو پہچان پاۓ کربلا تک آ گئے


آسمان رویا زمیں تڑپی ہوا رکنے لگی

شمر تیرے ہاتھ آل مصطفی تک آ گئے


استغاثے کی صدا نے کر دیا بے چین تو

خیمہء اقدس سے اصغر حرملہ تک آ گئے


منزلیں دشوار تھیں پر قافلہ بنتا گیا

راہ حق کے سب مسافر راہ نما تک آ گئے


شور تھا کہ لوٹ لو آل عبا کی چادریں

اشقیاء کے حوصلے دیکھو کہاں تک آ گئے


اک طرف فسق یزیدی اک طرف صبر حسین

دونوں اطرافی مثال انتہا تک آ گئے

جنید نسیم سیٹھی ۔ خُسروی چاہی نہ سطوت کے طلبگار بنے =[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر : جنید نسیم سیٹھی ]


خُسروی چاہی نہ سطوت کے طلبگار بنے

وہ بہتَّر 72 جو فقط تیرے وفادار بنے


تُو نے یہ درس زمانے کو دیا کربل میں

سر کٹا سکتا ہو جو کوئی وہ سردار بنے


اُن کے حصے میں نہ دین آیا نہ دُنیا آئی

تجھ سے مُنہ پھیر کے جو صاحبِ دستار بنے


اُن لعینوں کو بھی سیراب کیا تھا تُو نے

رَن میں جو تیرے لئے باعثِ آزار بنے


کوئی باقی نہ تھا بیمار کی دل جوئی کو

چند لاشے تھے جو سجاد کے غمخوار بنے


ایک وہ تُو کہ تجھے جُراتِ اظہار ملی

ایک یہ ہم کہ کہیں صُورتِ اظہار 'بنے'

قصیدہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عبدالجلیل ۔ بے سہاروں کےسہارے مصطفٰےﷺ کوہوسلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بے سہاروں کےسہارے مصطفٰےﷺ کوہوسلام

رحمتِ عالم حبیبِ کبریا کو ہو سلام


حیدرؓ و حسنینؓ و زہرؓا آئے جس چادر تلے

المزمل شان والی اس رِدا کو ہو سلام


جن کی عظمت کا بیاں ہے آیئہ تطہیر میں

اہل بیت پاکؓ کی شانِ عُلیٰ کو ہو سلام


جس کا چہرہ دیکھنا بھی ہے عبادت وہ علیؓ

مرتضیٰؓ ، مشکل کشاؓ ، شیر خُداؓ کو ہو سلام


تیری آمد پر ہوئے سر خم سبھی کے حشر میں

نُور چشمِ مصطفٰےﷺ تیری حیا کو ہو سلام


اے حسنؓ تیری فراست پر ہو کُل دانش نثار

راحتِ جانِ نبیﷺ تیری ذکاء کو ہو سلام


جس کی دلجوئی کی خاطر ہو گیا سجدہ طویل

راکبِ دوشِ نبیﷺ کی اس ادا کو ہو سلام


تادمِ آخر رہا تجھ کو پیاسوں کا خیال

اے علمدارِ وفا تیری وفا کو ہو سلام


قاسمؓ و عونؓ و محمدؓ اکبرؓ و اصغرؓ سبھی

غنچہ ہائے نازنین و دلربا کو ہو سلام


اکبرؓ و اصغرؓ کے لاشے دیکھ کر بھیگی نہ آنکھ

کربلا میں صبر کی اُس انتہا کو ہو سلام


دیں بچانے کیلئے جب کر دیا کنبہ نثار

منبعِ جود و سخا تیری سخا کو ہو سلام


جان و مال و آل دے کر زندۂ جاوید ہیں

اے شہیدِ کربلا ایسی بقا کو ہو سلام


دیکھ کر نوکِ سناں پر سر تیرا بولے ملک

مرحبا ! سبطِ نبی تیری انا کو ہو سلام


زیرِ خنجر کی ادا شبّیرؓ نے ایسی نماز

سب عدو کہنے لگے حُسنِ ادا کو ہو سلام


مصطفٰےﷺ کی آل کا جو درد رکھتے ہیں جلیل

تا قیامت اُن غلاموں کی وفا کو ہو سلام

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔

نئے اضافہ شدہ کلام
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات