سر نگوں ہو گئے ظلمت کے نشاں آج کی رات
نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
شاعر : زکی کیفی
شبِ معراج[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
سرنگوں ہو گئے ظلمت کے نشاں آج کی رات
ہر طرف نور کے دریا ، ہیں رواں آج کی رات
نکہتِ گُل ہے طبیعت پہ گَراں آج کی رات
بے خودی لے گئی تو مجھکو کہاں آج کی رات
عشق ہے اپنی بلندی پہ رواں آج کی رات
چشمِ مشتاق ہے اور حُسنِ نہاں آج کی رات
گردشِ شام و سحر اپنا چلن بھول گئی
جادہِ شوق پہ ہے کون رواں آج کی رات
جس طرف سے وہ گئے راستے گلزار بنے
نقشِ پا بن گئے منزل کے نشاں آج کی رات
سانس لینے کی فرشتوں کو جہاں تاب نہیں
کون یہ محوِ تکلّم ہے وہاں آج کی رات
آج ہے مژدہِ " لَولاک لما " کی تفسیر
قربتِ خاص میں ہیں سَرورِ جاں آج کی رات
عشق اور حسن ہیں اس طرح سے یکجا کیفی
حسن کا عشق پہ ہوتا ہے گماں آج کی رات