مجھے اس جان سے پیارا مدینہ اور مکّہ ہے ۔ شاہد کوثری
شاعر: شاہد کوثری
نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
مجھے اس جان سے پیارا مدینہ اور مکّہ ہے
یہ ارض طیبہ وبطحا تقدس کی علامت ہے
یہ دونوں شہر میری آرزؤں اور تمناؤں کے مرکز ہیں
اپنی خاک سر ہے مری بے نور آنکھوں کا
یہ وہ دھرتی ہے جس پر میرے آقا کے قدم آئے
جہاں وہ اور سب اصحاب مل کر بارگاہِ ایزدی میں سر جھکاتے تھے
جہاں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نورِ ایمانی کی کرنیں پھوٹ کر انسانِ عالم کو منّور کرگئی تھیں
اور جہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بافل کے کرّ وفَر کو نوکِ نیزہ شمشیر پر رکھا گیا تھا
اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدائے لم یزل کا آخری پیغام مہِ اکملیت آشنا ہو کر ہمیشہ کے لیے سب نسلِ انسان کی خاطر
ضابطہٰ آخری سمجھا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور
وہ بیت اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ
جس کی سطوت و طہیت سے سب اجسام خاکی دم بخود رہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمارت کب کوئی کعبے کی عظمت کے مقابل تھی؟
کہ زائر کعبتہ اللہ دیکھتے تھے اور خدا کے خوف سے ان کے بدن بھی تھر تھراتے تھے
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔ اب چاروں جانب آسماں سے باتیں کرتی بلڈنگیں ہیں
اور ان میں مکّہ ٹاور خوف ودہشت کی علامت ہے کہ جس سیڑھیاں، زینے حرم میں آکے کھلتے ہیں
اگر اس کی بلندی سے ذرا جھانکو تو بیت اللہ فقط بالشت بھر معلوم ہوتا ہے
میرے پیشِ نطر پھر وہ حدیث سرور کونینؐ آتی ہے کہ جس میں آپ کا فرمان ہے،قربِ قیامت کی
یہ سب سے آخری حتمیٰ نشانی ہے، عرب کے ننگے پاؤں چلنے والے گلہ بان اونچی سے اونچی بلنڈنگیں تعمیر کرلیں گے۔
یہی صورت مدینے میں ہے جس کی سمت آنے والے خفیہ راستوں پر پھر یہودی اور نصراتی نطر رکھے ہوئے۔
اب یہ یہونی ونصرائی چکانا چاہتے ہیں خیبردیرموک کا بدلہ۔
یہ میرا سبز گنبد،
متبر وحواب سب حیرت زدہ ہیں،
اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب مینارِ مسجد گنبدِ خضرا کی جانب جھک کے کہتے ہیں۔
کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آقا!
بم دھماکے کرنے والے شرپسند اب تو ہمارے سر پہ آپہنچے
مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روضے سے لا تَحزَن کی آوازیں نہیں آتیں،
اُدر سے پھر لَتا عتریٰ ولا عتریٰ لَکُم کے نعرے لگتے ہیں۔
جواباً پھر لَنا مولا ولا مولا لکم کوئی نہیں کہتا۔
بدل جائیں جو ترجیحات تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
نظر مرکوز رہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاں کی ٹوپیوں پڑ تسبیوں پر، آبِ زمزم اور مدینہ پاک کی عجوہ کھجوریں کے فوائد پر۔
میں پاکستان سے جا کر وہاں محسوس کرتا تھا۔
نبیؐ کے شہر دونوں
اب نئے فتؤں کی زہ میں پھر صلاح الدین ونور الدین زنگی کو بلاتے ہیں۔
کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دجال کے بیٹے
ہماری عزت وتوقیر کے در پہ ہوئے ہیں۔ اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عرب کے کوہساروں سے وہ اپنا سر اٹھاتے ہیں۔
شمالی اور جنوبی سمت سے باغی قبائل دیکھیے۔
صنعأ سے لے کرتا حضر موت اپنے ہی اہداف کی تکمیل میں رُو بہ عمل ہیں۔
اور اب ارضِ فلسطین پر نہتے بوڑھے، بچوں کا لہو آواز دیتا ہے۔
اے پاکستانیو!
اے عالمِ اسلام کی واحد نظریاتی ریاست اور پہلی ایٹمی طاقت کے لوگو۔
آؤ عشقِ سیّد الابرارؐ کی خاطر، زرومال وجواہر کیا؟
یہ اپنی جان بھی قربان کرڈالیں
چلے آؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمدؐ سے عقیدت کا نیا معیار اپنا لیں۔
اے میرے شاعرو!
اب نعت کو جذبات میں ڈوبے ہوئے خوش رنگ/ لفظوں کی بجائے ایک پیغام آفریں صنفِ نحن کے طور لکھو۔
محمدؐ رسول اللہ کے فرمان کو مقصد بناکر نوٹوں کے انباروں پہ بیٹھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت خوانو!
تم بھی اُٹھو اور رَجَز کے شعرا پڑھنے کے لیے تیار ہوجاؤ وگرنہ امتِ موحوم کا نوحہ تمہارا منتظر ہوگا۔
اے میرے واعظو! شعلہ بیانو!
وقت آپہنچا ہے اب خاشاکِ غیر اللہ کو اپنی خطا بہت سے جلا کر راکھ کر ڈالو۔
خدا کے آخری پیغام کو لوگوں کے دل میں اور رگ وپے میں اتارو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور
اے میرے زاہد و! شب زندہ دارو ! خانقاہوں میں پڑے گوشہ نشیں لوگو!
اٹھو تم بھی
مصلّے بیچو، تلواریں خریدو