جلیل عالی کی حمد و نعت اور منقبت و سلام - خاور اعجاز

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


تحریر : خاور اعجاز

جلیل عالیؔ کی حمد و نعت اور منقبت و سلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۱)

اُردو کے قدیم ترین دوواین کی ابتدا میں حمد و نعت سے آغازہو کر آج کے جدید ترین شعرا تک سبھی نے اگر اپنے مجموعہ ہائے کلام کی ابتدا حمد ونعت اور منقبت و سلام سے نہیں بھی کی تو شاید ہی کوئی شاعر ایسا ہو جس نے ان اصناف کی شمولیت سے اپنے مجمو عۂ کلام کو منور نہ کیا ہو۔ہر شاعر کے ہاں ایک نئی بو قلمونی اور قلبی واردات کا مظاہرہ ہوتا ہے۔جلیل عالیؔؔ کے ہاں بھی حمد و نعت اور منقت و سلام کے وسیلے سے خدا ، اُس کے رسولؐ اور صحابۂ کرام سے عقیدت و محبت کا اظہار اُن کے جذبۂ ایمانی کی ترجمانی کرتا ہے۔

حمد کے ذریعے وہ کائنات کی سب سے بڑی ذات کی رفاقت کا احساس بیدار کرتے ہیں اور اُس سے تعلق و ربط کو اپنے لیے حوصلہ کا سبب خیال کرتے ہیں۔عالیؔؔ کی حمد سیاہیوں کو مِٹا کر دِلوں کونورِ خدا سے منور کرتی جاتی اور اِنسان کے رتبے بڑھاتی چلی جاتی ہے۔عقائد کی پختگی اورذاتِ باری تعالیٰ سے تعلق کو فروغ دیتی ہُوئی عالیؔؔ کی حمد کسی انمول خزینے سے کم نہیں جو دل پر رقت طاری کرتی اور شرمساری کے احساسات کو اُبھارتی ہے۔ وہ اِن جذبوں کی بیداری سے ربِ عظیم کے دَر سے کچھ لے کر لوٹنے کے متمنی نظر آتے ہیں۔اُ ن کی حمد جہاں اُن کے الفاظ کا رشتہ براہ ِ راست خالقِ کائنات سے جوڑتی اور فکر کے آفاق کو وسیع کرتی ہے وہاں پڑھنے والوں کو بھی روحانی لطافتیں بخشتی ، اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین و اعتقاد کو مستحکم کرتی، خدا شناسی کے مرحلوں سے آشنائی بہم پہنچاتی، خالقِ کائنات کی عظمت و جلالت بیان کرتی ، انسان سے اُس کی بے پایاں محبت کی ترجمانی کرتی اور کائنات کی تغیر پذیری کے ساتھ اُس کے خالق کی ہر آن نئی شان کے ساتھ جلوہ گری اور نت نئی صورت گری کا احاطہ کرتی ہے۔عالی ؔکی فکر کے انفرادی زاویے اُن کی حمدوں میں الفاظ کے برتاووں، نفسِ مضمون ، شعری ہیئت اورلہجے کے آہنگ سے خود کو دسیوں حمدنگاروں کے اِنھی عناصر سے خود کو جدا محسوس کراتے ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ عالیؔ کی فکری رَو اجتماعی عصری لوازمات سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ روحِ عصر کی زیریں فکری لہروں سے بھی سیر حاصل مستفید ہو رہی ہے۔عالیؔ نے محبوبِ حقیقی سے تعلقِ خاطر کی شعری روایت کو مزید مستحکم اور حمد کی مالا میں چنداور موتیوں کا اضافہ کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ موجودہ زمانے کی تخلیقی حسیت اور اسالیبِ نگارش کو سامنے رکھتے ہُوئے کچھ نئے رنگوں سے حمد کے کینوس کو مزین کیا جا سکے ۔ عالیؔ کی یہ سعی اِس صنفِ سخن کو جدید رجحانات اور انوکھے طرزِ احساس سے روشناس کراتی ہے اور اللہ تعالی کی صفات کے بیان میں اُسی نظامِ فکر کا حصہ معلوم ہوتی ہے جو اُن کی دیگر شعری تصنیفات میں جاری و ساری ہے۔ عالیؔ کے داخلی احساسات اُن کے تخلیقی تجربے کا جزو بن کر حقیقتِ کبریٰ تک رسائی کے راستے سجھاتے ہیں اور تصورِ خالق کو ذہنِ انسانی کے قریب تر کرتے ہیں۔اُن کی حمد محض جذبہ و احساس کا روایتی اظہار یااپنی پریشاں حالی کا تذکرہ نہیں بلکہ عاجزی و انکساری سے دِلی تمنائوں کو خدا کے حضور پیش کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔عالیؔ کی دِلی آرزوئیں اُن کی حمدوں کے ہر لفظ سے مترشح ہیں اور حاجت روائی کے ضمن میں وہ مالک الملک سے زیادہ کسی کو مشکل کشا خیال نہیں کرتے۔لہٰذا جب بھی دستِ سوال دراز کرنے کا موقع آتا ہے وہ حمد و ثنا کا نذرانہ لیے مالکِ دو جہاں کے حضور سر بسجود نظر آتے ہیں۔


عالیؔ کی حمد کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اُنھوں نے زورِ بیان کی بجائے حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہُوئے صدائے کن کی ترجمانی کی ہے۔ہرچند کہ عالیؔ لغوی معانی میں صوفی نہیں لیکن اُن کی حمدیہ شاعری میں متصوفانہ انداز کی جھلک ضرور مِلتی ہے۔غیب کے اسرار و رموز سے واقفیت کی خواہش اُنھیں ایک صوفی کے درجے کے قریب کرتی ہے۔کہیں کہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی کشفی کیفیت سے گذر رہے ہیں اور کوئی رازِ حقیقت اُن پر کھُلنے والا ہے۔وہ مظاہرِ قدرت کی سحر طرازیوں اور فطرت کی نیرنگیوں سے پیدا ہونے والے سوالات کے تعاقب میں چاند ستاروں، غنچہ و گل اور دریا و کہسار سے مکالمہ کرتے اور عالمِ اسباب پر غور و فکر کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔یوں تو خالقِ کائنات کی صفات کا احاطہ کرنا محال ہی نہیں ناممکن ہے تاہم عالیؔ نے ذاتِ باری تعالیٰ کے لا محدود اوصاف کو اپنے باطنی تجربوں کی بنیاد پر احاطۂ فہم میں لانے کی اپنی سی سعی کی ہے جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔یہ رتبہ اُنھیں اللہ تعالیٰ کی عملی تحمید کے ساتھ ساتھ شعری تسبیح کے عوض بھی حاصل ہُوا ہے کیونکہ اُنھوں نے تبرکاً نہیں بلکہ مکمل شعورِ عبودیت کے ساتھ عقیدتاً یہ فریضہ انجام دیا ہے۔وہ جانتے ہیں کہ راہِ حیات کی دشوار گھاٹیوں میںاعانت کی نوید ہادیِ کامل ہی کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے اِس لیے اُسی سے لو لگائے رکھنے میں عافیت ہے۔وہی ذات ہے جو محافظ و مستجیب ہو سکتی ہے؛ وہی ہے جو تمام مشکلات کو حل کر کے استغنا کے درجہ پر فائز کر سکتا ہے اوراُسی کے فیض سے دِلوں کو اطمینان کی دولت نصیب ہو سکتی ہے۔


عالیؔ نے اپنی حمد کونہایت موزوں حدوں سے باہر نہیں جانے دیا۔ اُن کی حمد سبک خرامی کے ساتھ فرحت بخش کیفیات کو اپنے جلو میں لیے آگے بڑھتی ہے اور مضطرب قلوب کو سکون کی فضا سے معمور کرتی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کی بے حساب نعمتوں کا شکر اور اُس کی روشن نشانیوں کا نیازمندانہ اعتراف عالیؔ کی حمد کا خاص پہلو ہے۔وہ اِنھی کے توسط سے معرفتِ الٰہی کی منزلوں کو فہم و ادراک میں لانے کی اِس طرح کوشش کرتے ہیں کہ عبد و معبود کے رشتہ کو سمجھنے میں آسانی ہوتی چلی جاتی ہے۔وہ اِس صنف سے دُنیاوی رنج و الم کا مداوا کرتے ہیں اور مسرت و شادمانی کے اِس سرچشمہ کو وظیفۂ حیات اور ایمان کی جان سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ قلم کی زبان سے ہوتا ہُوایہ ورد دل کی دھڑکنوں میں سما کر طہارتِ قلب کا موجب بن جائے۔


یوں ضیا بار مِرا گریہ و نالہ کر دے

گھپ اندھیروں میں بھی دل دیکھنے والا کر دے


یورشِ جور ہے اے ربِ شہِ بدر و احد

حوصلہ دے مجھے تنکے سے ہمالہ کر دے


جس میں محفوظ کِیا ارض و سما کو تُو نے

ڈھال میری بھی وہی نور کا ہالہ کر دے


عالیؔ کی حمد سے اُن کی قرآن فہمی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔وہ حمد کہتے ہُوئے عاجزی کا پیکر اورعالمِ امکاں کے ہر گوشے اور ہر ذرّہ میں موجود ذات کی نشانیاں نمایاں کرنے میں مستغرق نظر آتے ہیں۔اُن کی حمد کے مابعدالطبیعاتی عناصر ذاتِ ماورا کے تصور کو ذہن میں اِس طرح اُجاگر کرتے ہیں کہ قلبِ انسانی خود بخود اُس ذاتِ احد کی طرف رجوع کرنے لگتا ہے۔ اگرچہ عقلِ انسانی معبودِ مطلق کے ادراک سے قاصر ہے تاہم اچھی حمد خالقِ کائنات کا یوں احساس دِلاتی ہے کہ اُس ذاتِ واجب الوجود پر یقین کامل ہونے لگتا ہے۔ عالیؔ کی حمد بھی اِسی زمرے میں آتی ہے اور ادراکِ انسانی سے ماورا حی و قیوم ذات کو معرفت کے نور سے پہچاننے کی دعوت دیتی ہے جس کا آغاز خود شناسی ہے اور منزل عین الیقین ہے۔وہ کبھی بالتصریح اور کبھی بالکنایہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور کمالات کو اپنے حمدیہ اشعار کی زینت بناتے ہیں۔ اُن کے اشعار کی یہ خوبی ہے کہ وہ روزمرہ بول چال کے ذخیرے سے ہٹ کر فکری و معنوی گہرائی رکھنے والے الفاظ کو زیرِ استعمال لاتے ہیں جو لہجے کی انفرادیت کو اور واضح کر دیتے ہیں۔ جلیل عالیؔ اِس ہنر میں اپنے عہد کے منفرد لوازماتِ شعری برتنے والے شعرا کے کندھے سے کندھا مِلائے کھڑے ہیں۔ قرآنی آیات کے پس منظر میں اُن کے تلمیحی اشعار حمد و ثنا اور مناجاتی اندازِ بیان کو مزید پُر اثر بنا دیتے ہیں، اُن کا فکری عمق اور فلسفہٗ الٰہیات کا گہرا مطالعہ اسرار و رموزِ ذاتِ باری تعالیٰ کو اس طرح زود فہم بنا دیتا ہے کہ بظاہرخاموش اشیا بھی زبانِ حال سے تسبیح و تہلیل کرتی محسوس ہوتی ہیں۔عالیؔ بحیثیت انسان اور بحیثیت شاعر اپنی تہذیبی وابستگی کو کبھی فراموش نہیں کرتے ، یہی وجہ ہے کہ اُن کا تصورِ توحید اور تصورِ رسالت آپس میں گڈ مڈ نہیں ہوتے۔


(۲)

اردو نعت کے قدیم نمونے میلاد ناموں ، معراج ناموں اور مثنویوں یا قصیدوں میں مِلتے ہیں۔غزل کی ہیئت کو بھی مستعمل رکھا گیا تاہم اسلوب اور لب و لہجہ کے اعتبار سے یہ روایتی اور رسمی نعت ہی کہلائے گی۔ ملا دائود غالباٍ وہ پہلے صوفی شاعر ہیں جن کی مثنوی’’چندائن‘‘ میں نعت کا ایک بند انھیں اِس صنف کا پہلا شاعر شمار کرنے کے لیے کافی ہے۔نعت کے اظہار و بیان کے پیرائے میں نمایاں تبدیلی مولانا حالیؔ کی مسدس سے آغاز ہوتی ہے جس کے بعد آگے چل کر طویل، معرا اور آزاد نظم کے سانچے بھی نعت کے لیے برتے گئے حتیٰ کہ موجودہ دَور میں ماہیے اور ہائیکو کی فارم میں بھی نعتیہ اشعار کہے جانے لگے ہیں۔


ہر چند نعت کا موضوع دینیات کے دائرے میں آتا ہے لیکن صاحبِ اسلوب شعرا نے اِس کو ادبی موضوع کے طور پر بھی اپنایا ہے جن میں جلیل عالیؔ کا نام بھی شامل ہے۔حمد کی طرح نعت گوئی بھی عالیؔؔ کے سوزِ دروں کا کیف آور اظہار ہے تاہم متعدد شعرا کی طرح اُن کاجذب و شوق حدِ ادب سے باہر نہیں نکلتا اور عجز و انکسار اور طاعتِ رسولؐ کے دائرے میں رہتا ہے۔وہ سیرت اور اخلاقِ حسنہ کے مضامین کو اعتدال کے ساتھ برتتے ہیں جن سے اخلاص و محبت کی مہک آتی ہے اورالفاظ شمعوں کی طرح روشن نظر آتے ہیں۔اُنھوں نے نعت گوئی میں حدودِ شرعیہ کا خیال رکھا، تغزل کے مضامین سے شعر کو محفوظ رکھا ہے اور غلو سے کام نہیں لیابل کہ اِس کی جگہ سیرت اور محاسن کو سامنے رکھا ہے۔اُنھوں نے آنحضرتؐ کی ذاتِ گرامی کے انسانی ہمدردی، مساوات اور حسنِ عمل کے پہلوئوں کو بطورِ خاص موضوع بنایا ہے:

ایک لمحہ کہ مِلیں سارے زمانے جس میں

ایک نکتہ سبھی حکمت کے خزانے جس میں


وسعتِ موضوع کے اعتبار سے نعت حیاتِ اِنسانی کا مکمل چارٹر ہے۔ہلکی سی بے احتیاطی شاعر کا قدم شرک کی حدود میں لے جا سکتی ہے۔اِسی لیے جید علما نعت کہنے کو تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔فرطِ جذبات میں بعض اوقات شعرا شعوری توازن کو ہاتھ سے کھو بیٹھتے ہیں اورآپؐ کی ذاتِ اقدس سے والہانہ محبت میں وہ کچھ بھی کہہ بیٹھتے ہیں جو مدحِ سرکارؐ کی حدود سے نکل جاتا ہے۔مجھے یہ دیکھ کر انتہائی اطمینان ہوتا ہے کہ عالیؔؔ کی نعت اسلامی عقائد کے دائرے سے ایک قدم آگے نہیں بڑھتی۔ یہ اُن کی حقیقت پسندانہ طبیعت اور نعت کی ادبی نزاکتوں سے بخوبی آگاہ ہونے کا ثبوت ہے۔


یہ سچ ہے کہ ہم اُسؐ کی پرستش نہیں کرتے

رہتا ہے مگر دل میں عبادت سے زیادہ

جب فرطِ ندامت سے نہ ہو تابِ دعا بھی

کیا کوئی سبیل اُسؐ کی شفاعت سے زیادہ

عالیؔؔ کی نعت کسی مبتدی کی کوشش یا کچے شعری مواد سے بُنی ہُوئی نہیں بلکہ ایک راسخ العقیدہ اور پختہ فکر شاعر کی تخلیق دکھائی دیتی ہے۔رسولؐ کی محبت اُن کے ایمان کا حصہ اورزندگی کا سرمایہ ہے۔اُن کی یہ قلبی وابستگی اُن کے اندازِ فکر اور اندازِ بیان کا جزو بن کر سامنے آتی ہے۔حضورؐ کی ذاتِ مطہر اوراُنؐ کی حیاتِ مبارکہ کا تذکرہ کرتے ہُوئے وہ صرف شعری مواد پر ہی توجہ نہیں دیتے بلکہ بحیثیت ایک مسلمان اپنی اخلاقی ذمہ داریوں سے بھی کما حقہہ عہدہ برآ ہوتے ہیں۔سیرتِ پاکؐ کے موضوعات اور معجزاتِ نبویؐ کے بیان میں اُن کا انداز روایتی نہیں۔ اِس ضمن میں عالیؔؔ کی نظمیہ نعت ’’ ؐ ‘‘ دیکھیے جس کا ہر مصرع نہ صرف اوصافِ حمیدہ کے پہلوئوں کو اُجاگر کرتا ہے بلکہ عقیدت و محبت سے لبریز الفاظ کے باہمی ربط سے ایک نئی بوطیقا ترتیب دیتا ہُوا محسوس ہوتا ہے:

وہ دل زمینوں میں

فصلِ صدق و صفا اُگاتا ہُوا تکلم

میانِ غیب و حضور

بابِ مکالمت کھولتی خموشی

وجود اور ماورا کو

اِک دوسرے میں پہچانتی نگاہیں

ہَوا سے

رفتار کے توازن کا

بھید کہتا خرامِ موزوں

وہ ریگ زارِ حیات کی

سب جہات کو

پھول پھول کرتا ہُوا تبسم

[ایضاً،ص۱۱۷]


یہ نعتیہ نظم عالیؔؔ کے جذباتِ عالیہ کا دلکش نمونہ ہے۔احتیاط کا دامن تھامے وہ عشق و مستی کی راہ میں ایک عاشقِ صادق کی طرح نبیِ پاکؐ کا سراپا اور اُن کی سیرت کو پھولوں کی طرح الفاظ کی لڑی میں پروتے چلے گئے ہیں۔

عالیؔ نے جہاں قواعدِ شعری کی پابندی کرتے ہُوئے نعت کہی وہاں قواعدِ توصیف کو بھی پیشِ نظر رکھا۔اِس سلسلے میں وہ عشقِ رسولؐ کے علاوہ صداقتِ مضمون ، موزونیتِ الفاظ، پاسِ واقعیت اور احترامِ نبیؐ جیسے مراحل سے بھی سلامت روی کے ساتھ گذرے ہیں۔ اُن کی نعت یقیناً ستائشِ رسولؐ کے اعلیٰ نمونوں میں سے ہے جس میں رنگینیِ خیال سے زیادہ ندرتِ تخیل کو اہمیت دی گئی ہے۔ اُنھوں نے کلاسیکی نعت کے صوری محاسن پر توجہ مبذول رکھنے کی روش کی بجائے مقصدِ نبوت کے بیان کو اولیت دی ہے اور ایسی دل بستگی ، دل جمعی اور تعلقِ قلبی کے نقوش مرتب کیے ہیں کہ طبیعت جھوم اُٹھتی ہے۔عالیؔ نے اوصافِ ظاہری تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ حضورؐ کے باطنی فیوض و برکات پر غور و فکر کی روایت کو بھی مستحکم کیا ہے۔اُن کی نعت کا مزاج و محاورہ، الفاظ و تراکیب اور اسلوب و انداز نعتیہ ادب کے وسیع و وقیع ذخیرے میں خوشگوار اضافہ ہے۔ اُنھوں نے رسول ؐ اللہ کی سیرت، اُنؐ کے احکامات و اوامر کو شعروں میں اِس طرح سمویا ہے کہ اسوہ حسنہ ایک متحرک تصویر کی طرح نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔


اکثر اردو نعت گوئوں نے آورد اور زور آزمائی سے کام لیا ہے سو اُن کے نعتیہ اشعار سے اخلاص، عقیدت اور لگائو کی کمی صاف جھلکتی ہے۔اِن میں سے بعض شعرا حضرات نے تو یہ ہنر محض شہرت اور دولت کے حصول کے لیے اپنا رکھا ہے لہٰذا اُن کے ہاں حبِ رسولؐ کا کوئی اتا پتا نہیں مِلتا بس ایک میکانکی عمل ہے جو قافیہ و ردیف کی شکل میں چلتا نظر آتا ہے جب کہ جلیل عالیؔ کا دل بحضورِ سرور کائنات جھکا ہُوا محسوس ہوتا ہے، اِسی لیے اُن کی نعت میں ایک خاص لذت کا احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسا قلبی اظہار ہے جس میں کسی قسم کی کوئی آمیزش نہیں۔عالی ؔ کی نعت کی ایک اور خوبی اس میں مبالغہ کا قطعاً نہ ہونا ہے، یوں لگتا ہے جیسے وہ دربارِ نبوت میں کھڑے ہیں اور قیاس آرائیوں کی بجائے آپؐ کی ذاتِ مبارک کا مشاہدہ کرتے ہُوئے نعت نگاری کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالیؔ کے خیالات اور بیانات نہایت پاکیزہ اور مطہر ہیں، حضورؐ کی عظمت و رفعت کو آشکارکرنے ، حبِ رسول ؐ کو ایمان و ایقان کا حصہ بنانے اور امتِ مسلمہ کو رسالت سے گہری وابستگی کی جانب مائل کرنے میں عالیؔ کی نعت اپنے قارئین سے ہمکلامی کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔


عالیؔؔ عشقِ رسول کے اظہار کو فروغ دینے والے ایسے شعرا میں شمار ہوں گے جو حضورؐ کی ذات کے ساتھ غیر مشروط عقیدت رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سیرت و کردار کے اُس عظیم الشان منبع کی روشنی ہی اِنسانیت کے لیے مشعلِ راہ اور سرمایۂ افتخار ہے۔ عالیؔؔ اُنؐ کی ذاتِ با برکات سے نفسی تہذیب اور فکری تربیت کا سبق لیتے ہیں۔ اُنھوں نے سیرت و شمائل پر مبنی مضامین کو اپنے اشعار کی زینت بناتے ہُوئے میلاد یا معراج ناموں کا سا انداز اختیار نہیں کیا جن میں مضامین کو منظوم کرتے ہُوئے اکثر غیر ثقہ اوروضعی حکایات در آتی ہیں بلکہ اُنھوں نے اپنے موضوعات کا منبع و مصدر قرآن و سنت کو بنایا ہے اور احادیث سے بھی استفادہ کیا ہے۔عالیؔ کی نعت بھی اُن کی دیگر شعری اصناف کی طرح دعوتِ فکر دیتی، خیال کو مہمیز لگاتی اور سوچ بچار کی جانب مائل کرتی ہے۔ اُن کے اشعار میں کوئی نہ کوئی پیغام ہوتا ہے جو وہ اپنے پڑھنے سننے والوں کے گوش گذار کرنا چاہتے ہیں۔ وہ محض اسلوب یا جذبات نگاری سے متاثر کرنے کی بجائے کسی نظریاتی اساس کو جذبے میں آمیز کر کے شعر میں ڈھالتے ہیں اور یہ خصوصیت اُن کی نعت نگاری میں بھی واضح دِکھائی دیتی ہے ۔جلیل عالیؔ کوئی روایتی نعت گو نہیں، اُنھیں پرت در پرت فکر و شعور کی تہیں پلٹ کر شعری اعجاز کی سطح تک پہنچ کر بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے جس کا اظہار اُن کے نعتیہ اشعار میں بھی جھلک دکھاتاہے:عالیؔ اِس امر سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ رسولِ کریمؐ کل جہانوں اور تمام انسانوں کے لیے رہنما و رہبر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔یہی سبب ہے کہ امتِ مسلمہ انفرادی اور اجتماعی مشکلات میں بالخصوص آپؐ کی ذاتِ گرامی کی جانب رجوع کرتی ہے اور احادیثِ نبویؐ کے چراغوں سے اپنے فکری راستوں کو منور کرتی ہے۔سیرتِ طیبہ کی روشنی، کلامِ نبیؐ کی دل نشینی اور مساواتِ محمدیؐ کی مثالوں نے عالیؔ کی نعت کو معنوی امکانات کی نئی سے نئی دُنیائیں سجھائی ہیں۔


عالیؔ کی نعت عہدِ حاضر کے موضوعات کو چھُوتے ہُوئے بھی اپنی تلمیحات، تشبیہات اور استعاروں کا اہتمام حیاتِ طیبہ کے بلند ترین معیاروں سے کرتی ہے۔ اسوۂ حسنہ کی پیروی اور اُس کی تلقین ہی قومی اور بین الاقوامی منظر ناموں میں اہلِ اسلام کے درمیان اخوت و محبت اور اپنے مشترکہ دشمنوں کے خلاف عمل پیرا ہونے کی جرات مہیا کر سکتی ہے۔ یہ بات ایک متصوفانہ خیال آرائی بھی ہو سکتی ہے لیکن دین و دُنیا میں سرخروئی کے لیے آپؐ سے فیض حاصل کرنے کا جو سبق عالیؔ کی نعت سے مِلتا ہے وہ توحید و رسالت کو اپنے اپنے مقامات پر رکھ کر مشاہدہ و مطالعہ کی دعوت دیتا ہے۔قرآنی حوالوں اور احادیثِ نبویؐ کو عالیؔ نے اِس طور اپنی نعت میں برتا ہے کہ اُن کے الفاظ میں فصاحت اور اشعار میں علویت پیدا ہو گئی ہے۔اُن کے ہاں جذب و شوق کی بے انتہافراوانی ہے مگر اس رَو میں احتیاط کا دامن اُن کے ہاتھ سے کبھی نہیں چھوٹتا۔


جلیل عالیؔ کو الفاظ کے چنائو اور اُن کے برمحل استعمال پر جو قدرت حاصل ہے وہ اُن کے تجربے کو ایک دلگداز باطنی عمل سے گذار کر مفاہیم کے نئے آفاق پر ستارے ٹانکنے کے مترادف ہے۔اُن کی نعت سوز و ساز، کیف و سرور ، جذب و شوق اور عجز و انکسار کے ساتھ سیرت اوراخلاقِ حسنہ کے نقوش واضح کرتی ہے۔ آپ ؐ کی ذاتِ پاک سے عالیؔ کا باطنی ربط اُن کے نعت نگینوں کو انمول بناتا ہے۔ نعت بذاتِ خود ایک عملِ خیر ہے جو زندگی کے تعمیری اور تطہیری پہلوئوں کو شمعِ رسالتؐ کے وسیلے سے روشن تر کر تی اور مضطرب اذہان کو سکون و طمانیت سے مالا مال کرتی ہے۔حبِ رسولؐ کے سرمائے نے عالیؔ کو حضور ؐ سے جو قلبی وابستگی فراہم کی ہے اُس کا اظہار مدحتِ رسول ؐ کے علاوہ آپ ؐ کے شمائل، اخلاق و عادات اور معجزات کو لفظوں میں محفوظ کرنے کی صلاحیت سے بھی ہوتا ہے جس نے سیرت اور سراپا کے باہمی ربط سے سخن کے نئے پھول کھِلائے ہیں:

اُس کی سیرت ہو نگاہوں میں تو دیکھے دُنیا

کس طرح راہ کے پتھر بھی گہر بنتے ہیں

اُسؐ کی جانب ہو سفر تو خس و خاشاکِ قبا

دیکھتے دیکھتے سُرخاب کے پر بنتے ہیں

نام لیں اُسؐ کا تو وہ بادِ نمو چلتی ہے

بانجھ احساس کی شاخوں پہ ثمر بنتے ہیں


(۳)

منقبت کے لفظ کو وسیع تر معانی میں کسی بھی بزرگ مذہبی ہستی کی شان میں کہے گئے اشعار پر منطبق کیا جاسکتا ہے جس میں ممدوح کے کردار، فضائل اور خوبیوں کا ذکر کیا گیا ہو۔صحابۂ کرام سے لے کر آئمہ عظام ، اولیا اللہ ،مشائخ اور صوفیا کی تعریف بھی اِسی زمرے میں آئے گی۔جلیل عالیؔ نے حمد و نعت کے ساتھ منقبت کو اپنے عقیدے اور مسلک کے مطابق، نیز اُردو شاعری میں مدحِ صحابۂ کرام کی روایت کے پیشِ نظر اپنے شعری ذخیرے میں شامل کرنا ضروری خیال کیا ہے۔اُن کے ہاں منقبت خلفائے راشدین سے محبت و عقیدت کے علاوہ حصولِ ثواب کی خاطر بھی لکھی گئی ہے۔عالیؔ کا سرمایۂ منقبت تعداد کے لحاظ سے اگرچہ کم ہے مگر یہ محض رسمی نہیں بلکہ جذبہ و خلوص اور کیف و سرور سے لبریز ہے۔ انھوں نے اسے بڑے انہماک، بھرپور فنی لوازمات اور اعلیٰ ادبی معیارات کو سامنے رکھتے ہُوئے تخلیق کیا ہے:

ایک معیارِ دیانت ہے عدالت اُس کی

ایک شہ کارِ نیابت ہے خلافت اُس کی

وہ کہ معراج کی تصدیق سے صدیق ہُوا

تا ابد زندہ و پائندہ صداقت اُس کی

نعمتِ حق کا تشکر کوئی اُس سے سیکھے

وقف اسلام کی خاطر ہُوئی دولت اُس کی

[صدیقِ اکبرؓ ]


جو دل جیتے جاں گرمائے

گفتار علیؓ ، کردار علیؓ

خوشبوئے محبت سب کے لیے

باطل پہ تنی تلوار علیؓ

گر فکر کو فیض بنانا ہو

ہر نکتے پر درکار علیؓ

[گفتار علیؓ ، کردار علیؓ ]


عالیؔ کے ہاں منقبت کی صنفِ سخن صحابۂ کرام کی خدمت میں نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کا اہم وسیلہ ہے۔


(۴)

مرثیہ اور سلام کی ابتدا تو غالباً دکن سے ہُوئی لیکن پھر اہلِ دہلی اور بعد ازاں اہلِ لکھنو نے اِن اصناف کو فنی اور موضوعاتی وسعت عطا کی۔ جلیل عالیؔ نے سولھویں صدی عیسوی میں قائم ہونے والی اِس ادبی روایت کو اکیسویں صدی کے فکری چراغوں سے روشن تر بنایا ہے۔ اُن کے ہاں یہ روایت محض معرکۂ حق و باطل نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاقی معیارات کی ترجمان بھی ہے۔واقعۂ کربلا حق پرستی کی تحریک ہے جس پر خون کی گواہی ثبت ہے، اُس خون کی گواہی جس کی تابندگی وقت کے ساتھ مزید بڑھتی اور ہر عہد میں ایک نئی چمک کے ساتھ نمودار ہوتی ہے۔عالیؔ نے کربلا کے واقعات، متعلقات اور جزئیات کو عہدِ نو کے استعاراتی نظام کے ساتھ مربوط کر کے پیش کیا ہے جس سے یہ خوبی پیدا ہو گئی ہے کہ صدیوں پیشتر رونما ہونے والے ظلم و جبر کے اِس واردات کی عکاسی عہدِ حاضر میں حق و صداقت کے لیے نبرد آزما طبقوں کی بھی ترجمان ہو گئی ہے۔ یوں کربلا کی تحریک عالیؔ کے تفکر سے فیض یاب ہو کر نہ صرف ملتِ اسلامیہ کی حریت پسندی کی علامت بنی بلکہ ’’ تا قیامت قطعِ استبداد کرد۔موجِ خونِ اُو چمن ایجاد کر‘‘ کے مصداق پوری نسلِ انسانی کے واسطے بنائے لا الہ اور سامراجی قوتوں سے ٹکرا جانے کا حوصلہ اور عزم فراہم کرتی ہے۔

دامِ دُنیا نہ کوئی پیچِ گماں لایا ہے

سوئے مقتل تو اُسے حکمِ اذاں لایا ہے


اقبالؔ کے بعد سانحۂ کربلا کو نئی جہت عطا کرنے کا سہرا تو اور کسی شاعر کے سر نہیںبندھتا تاہم جلیل عالیؔ اور ان کی قبیل کے دیگر چند شعرا کے ہاں اِس موضوع کو وسعت اور رفعت سے ہمکنار کرنے اور مقامِ شبیری کو نئے علامتی نظام کی روشنی میں واضح کرنے کی سعی کہا جا سکتا ہے۔ عالیؔ کے سلام مداحیِ شبیر کے جذبہ سے سرشار اور دلائل و شواہد کی روشنی میں کہے گئے اشعار پر مشتمل ہیں جن میں نہ کوئی مبالغہ ہے نہ شاعرانہ تعلی ۔یہ موضوع جس رنج و الم اور درد و غم میں ڈوبا ہُوا ہے اُس میں اِن لوازمات کی گنجائش نہیں۔ عالیؔ نے ذکرِ کربلا کو صرف عقیدہ ہی نہیں جانا بلکہ اِس کو دورِ حاضر کے مسائل کے ساتھ جوڑ کر اِس واقعہ کی معنویت کو دو چند کیا ہے اور ثبات و استقلال کے پیکروں کی قربانی سے جنم لینے والی انقلابی فکر کی حامل تابندہ روایت کو مظلوم انسانیت کے لیے ایک تہذیبی سرمایہ میں ڈھالنے کا کام لیا ہے۔ اُنھوںنے واقعات کو تاریخی تسلسل میں بیان کرنے کی بجائے امام حسینؓ کے کردار سے اُبھرنے والی روشنی کو اپنے خیالات کی بنیاد بنایا ہے اور سلام کی صنف پر ماضی کے منڈلاتے ہُوئے روایتی سایوں سے نجات کی سبیل نکالی ہے۔ وہ کربلا کے واقعات میں عقیدت مندانہ اظہار کی پابندی کرنے کے علاوہ اُن کے پس منظر میں کارفرما غرض و غایت کو بھی مدِ نظر رکھتے ہیں جس سے اِس سانحہ کی تفہیم میں ہمہ گیری کا احساس ہوتا ہے۔ یوں ایک طرف شہادتِ حسینؓ کی مقصدیت واضح ہوتی ہے اوردوسری طرف ملتِ اسلامیہ کے سیاسی شعور اور جذبۂ قومی کے لیے اساس مہیا ہوتی ہے۔

سانحۂ کربلا اُردُو شاعری کا نہایت نمایاں موضوع رہا ہے۔یہ محض ایک واقعہ ہی نہیں بلکہ عزمِ صمیم اور استقلال کی عظیم داستان ہے۔اُردُو کے تقریباً ہر شاعر نے اِس کی منظر کشی کی ہے۔شہیدِ کربلا حضرت امام حسینؓ سے عقیدت و محبت کا یہ سفر صدیوں سے چلتا چلا آ رہا ہے۔اہلِ بیت سے وابستگی کو ہر شاعر نے اپنے لیے قابلِ اعزاز سمجھا ہے۔بلند آہنگ اور پر شکوہ الفاظ سے لے کر دُکھ اور کرب کی ترجمانی کرنے والے الفاظ تک ہر سطح پر شعرائے کرام نے آلِ بیتِ نبی کی مشکلات اور اُن پر روا رکھے گئے ظلم و ستم کی کتھا کو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔اہلِ بیت کے عزمِ صمیم اور استقلال کی تصویر کشی ہر عقیدت مند شاعر کے کلام میں موجود ہے۔ عالیؔ کے ہاں بھی واقعات و متعلقاتِ کربلا سے آگہی اور آلِ نبیؐ سے دلی وابستگی کا گہرا احساس پایا جاتا ہے:


سفر شہادتِ سید کا یاد ہو تو کھُلے

قیام کرتے ہیں کیسے ستم پرستوں میں


سلام اُن پہ لہو جن کا آج بھی عالیؔؔ

کیے ہُوئے ہے چراغاں وفا کے رستوں میں


عالیؔ نے واقعۂ کربلا کی کربناکی کو براہِ راست الفاظ میں منتقل کرنے کی بجائے کربلا کے دُکھ کا سامنا کرتے ہُوئے اہلِ بیت کی حوصلہ مندی اور ارادے کی پختگی کو اُجاگر کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ وہ کہیں بھی مبالغہ آرائی یا بعید از حقیقت روایت کا سہارا نہیں لیتے اور نہایت احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ اپنے جذبات کو قاری تک پہنچاتے ہیں۔


اِن معروضات کی روشنی میں مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ جلیل عالیؔ نہ صرف غزل بلکہ حمد و نعت او ر منقبت و سلام میں بھی اپنی راہ بنانے والے جدید شعرا کی فہرست میں اوپر کے چند ناموں میں شامل ہیں۔میری دعا ہے کہ ان کا یہ اعزاز ہمیشہ برقرار ر ہے(آمین)

مزید دیکھے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
مضامین میں تازہ اضافہ
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات