کلام اقبال میں نعتیہ عناصر

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat kainaat aziz ahsan 10.jpg


کلام اقبال میں نعتیہ عناصر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

از ڈاکٹر عزیزؔ احسن

اللہ کی وحدانیت کا اعلان کرنے والے انسانی معاشرے میں اللہ کے قانون کے عملی نفاذ کا نمونہ دکھانے والے نفوسِ قدسیہ صرف انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں۔حضور اکرمﷺ جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر اللہ کا دین مکمل ہوگیا ہے اس لیے رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے کیوں کہ انسانی معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی عمل کی تمام حدود نبیء آخر الزمان حضرت محمد ﷺ نے اپنے عمل کے ذریعے متعین فرمادی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنی فکری تحریروں اور تخلیقی نقوش میں توحید و رسالت پر ایمان ہی کو ملت اسلامیہ کی اساس قراردیا ہے۔ اقبال کا عرفان رسالت شش ابعادی ہے:


(الف) منصب رسالت کی ایمانی سطح پر قبولیت

(ب) ذات رسالت مآب ﷺ سے عشق کی سطح کا تعلق

(ج) جذبہء خود سپردگی کے لحاظ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قلبی تعلق کا شعری اظہار

(د) پیغام رسالت کو عام کرنے کا جذبہ

(ہ) بھٹکے ہوئے (مسلمان) راہی کو سوئے حرم لیجانے کی آرزو کا مسلسل اظہار اور انتھک قلمی کاوش ۔۔۔اور

(و) مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی سعی کہ اللہ کے بعد صرف اور صرف حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی ہی کائنات کی ’’مرکزی مطاع ذات ‘‘ ہے۔انﷺ سے قبل [کیوں کہ سابق انبیائے کِرام کا عہدِ نبوت گزرچکا ہے ]اور نہ انﷺ کے بعد کوئی ایسی ہستی ہے جس کو ’’مطاع‘‘ [لائقِ اطاعت] تسلیم کرکے اس کی محبت اختیار کی جائے یا اس کی اتباع کی جائے۔ نبی علیہ السلام کے بعد آپ کی امت میں جو بھی تقویٰ اختیار کرے اور آپ ﷺ کی اتباع کرے وہ لائقِ تعظیم و تکریم ہے۔


بمصطفیٰ ؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر باو نرسیدی تمام بو لہبی است[1]


(ترجمہ:حضورِ اکرم ﷺ کی ذات تک خود کو پہنچادو [تاکہ مسلمان بن سکو۔۔۔کیوں کہ]اگر تم ان تک نہیں پہنچ سکے تو سمجھ لو کہ باقی دنیا میں تو صرف کفر ہی ہے)

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

ا اقبال فرماتے ہیں:


می توانی منکر یزداں شدن

منکر از شان نبیؐ نتواں شدن[2]

’’تو(اے مخاطب) کسی نہ کسی طرح خدا کا تو منکر ہوسکتا ہے لیکن رسالت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم کا منکر نہیں ہوسکتا‘‘۔


پروفیسر ڈاکٹر این میری شمل نےConstance E. Padwick کی کتاب Muslim Devotions سے ایک اقتباس دیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی مفکرین بھی جانتے ہیں کہ حضورِ اکرم ﷺ کی محبت ہی میں امتِ مسلمہ کی قوت کا راز پنہاں ہے:

’’جس کسی کو مسلمانوں کی حُبِّ رسول ؐکی خبر نہ ہو، وہ اسلام کی قوت کا احساس کرہی نہیں سکتا۔۔۔یہ جذبہء حُب ایسا شدید ہے کہ اسے تصوف کی گرمیء نفس کے مماثل کہہ سکتے ہیں۔ذاتِ رسول ؐسے محبت مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد کا ایک بڑا موجب ہے‘‘۔ [3]

حضور اکرم ﷺ کی ذات والا صفات سے اقبال کا عشق جدید و قدیم فکری زاویوں سے روشناس لوگوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے اور مبنی بر اخلاص بھی۔شدتِ حُبِّ رسول ﷺ کا اظہار ان کے متعدد اشعار میں جا بجا ملتا ہے۔مثلاً


تب و تابِ بتکدہء عجم نرسد بسوز وگدازِ من

کہ بیک نگاہِ محمدِ عربی ،گرفت حجازِ من [4]

’’غیر عرب دنیا کی چمک دمک میرے قلبی سوزوگداز تک نہیں پہنچتی کیوں کہ میرے حجاز یعنی دل کو میرے آقا جنابِ محمد رسول اللہ (ﷺ) نے ایک ہی نگاہ میں اپنا کرلیا ہے۔ (اب مجھے آپﷺ کی تعلیمات کے سوا سب ہیچ نظر آتا ہے)۔


با خدا در پردہ گویم با تو گویم آشکار

یا رسولؐ اللہ ! او پنہاں و تو پیدائے من [5]

’’یا رسول ؐاللہ! میں تو اللہ سے بھی آپﷺ کے توسط سے بات کرتا ہوں اس لیے کہ وہ میری آنکھ سے پوشیدہ ہے اور آپ ﷺ میرے سامنے ظاہر ہیں‘‘۔


غالباً اسی شعر کی وضاحت ان کے ایک مکتوب میں ملتی ہے جو انہوں نے خان نیاز الدین خان کو لکھا تھا:

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

’’میرا عقیدہ ہے کہ نبیء کریمؐ زندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی ان کی صحبت سے اسی طرح مستفیض ہوسکتے ہیں جس طرح صحابہؓ ہوا کرتے تھے۔ لیکن اس زمانے میں تو اس قسم کے عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں کو ناگوار ہوگا۔اس واسطے خاموش رہتا ہوں‘‘۔ [6]

یہی وجہ ہے کہ اقبال کہتے ہیں کہ اللہ کے وجود کا انکار ممکن ہے لیکن رسول ﷺ کی ذات کا انکار ممکن نہیں ہے۔

اقبال پوری قوم کو حب رسول ﷺ اور اتباع رسول کی دعوت دیتے ہیں۔ اقبال کے شعری سرمائے میں جہاں جہاں حضور نبیء کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا ذکر مبارک آیا ہے اس میں عمومیت سے زیادہ محرکات عشق کا اختصاصی پہلو جھلکتا ہے۔ اقبال کی فکری دنیا میں جتنے نکات منصبِ رسالت کی تفہیم کے ضمن میں منصہء شہود پر آئے وہ شاید ہی کسی اور شاعر یا مسلمان مفکر کی تحریروں میں آئے ہوں۔مثلاً اپنی کتاب جاوید نامہ میں وہ حضرت شیخ جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ سے رسالت کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور پھر ان کے جوابات مثنوی کے اشعار میں موتیوں کی طرح پروتے ہیں:


گفت اقوام و ملل آیات اوست

عصر ہائے ماز مخلوقات اوست

از دم او ناطق آمد سنگ و خشت

ما ہمہ مانند حاصل او چو کشت

پاک سازد استخوان و ریشہ را

بالِ جبریلے دہد اندیشہ را

آفتابش را‘ زوالے نیست نیست

منکرِ او را کمالے نیست نیست [7]


’’[ترجمہ](میں نے رومی سے درخواست کی کہ مجھے پیغمبری کے بارے میں آگاہ فرمایئے ) تو انہوں نے فرمایا !قومیں اور ملتیں پیغمبری کی ہی نشانیاں ہیں۔یعنی پیغمبر اپنی تعلیمات کے ذریعے ایک پیغام رساں قوم تیار کرتا ہے۔ ہمارے زمانے بھی پیغمبر کے دیئے ہوئے پیغام کی پیداوارہیں[کیوں کہ] پیغمبر ،زمانے کو اپنی تعلیمات کے مطابق ڈھالتا ہے۔پیغمبر کے دم سے اینٹ ،پتھر بھی گویائی حاصل کرلیتے ہیں۔ پیغمبر کی حیثیت کھیت کی سی ہے اور ہم سب اس کا حاصل ہیں۔ پیغمبر ،ہڈیوں اور ریشوں کو پاک کرکے ، فکرِانسانی کو شہپرِ جبریل کی قوت عطا کردیتاہے۔اس(پیغمبر) کی تعلیمات کے سورج کو زوال نہیں، [ہرگز] نہیں ہے۔ اس کی تعلیمات سے منہ موڑنے والے کو کبھی کمال حاصل نہیں ہوسکتا، ہرگز نہیں ہوسکتا‘‘۔


پیامِ مشرق میں بھی اقبال نے حضورِ اکرم ﷺ کی ذات کے فیضان سے آشنا کرنے کے لیے واشگاف الفاظ میں کہا:


امتے بود کہ ما از اثرِ حکمتِ او

واقف از سِرِّ نہاں خانہء تقدیر شدیم [8]

’’[ہم مسلمان ایک امت تھے جو] حضورِ اکرم ﷺ کی حکمت آمیز تعلیمات کے نتیجے میں رازِ تقدیر سے آشنا ہوکر عمل کی وادیوں کو سر کرنے لگے تھے‘‘۔


مقامِ رسالت، عظمتِ رسول ﷺ اور حُبِّ رسول ﷺ کے تقاضوں سے آشنا ہوکر ہی اقبال نے اپنی شاعری میں ’’رسالت‘‘ کے حوالے سے بڑے فکر انگیز نکات پیش کیے ہیں۔ مثلاً رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی معراج کا پیغام اور معراج کا منشاء جتنے بھرپور انداز میں اقبال کے در ج ذیل شعر میں جلوہ آراہوا ہے وہ اسلامی ادب میں نایاب چیز ہے:


سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی ؐ سے مجھے

کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں (۹) [9]

یا مقام رسالت مآب کے اظہار کی یہ کوشش:

وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیء سینا

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر

وہی قرآں ، وہی فرقاں، وہی یسٓ وہی طٰہٰ [10]


اقبال زندگی بھر بھٹکے ہوئے راہی کو سوئے حرم لیجانے کی آرزو کرتے رہے۔ درج ذیل قطعہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے:


بمنزل کوش مانند مہ نو

دریں نیلی فضا ہر دم فزوں شو

مقامِ خویش اگر خواہی دریں دہر

بحق دل بند و راہِ مصطفیٰؐ رو [11]


’’اے مسلمان تو منزل کی طرف اسی طرح بڑھتا رہ جس طرح نیا چاند اپنی تکمیل کے منازل بلا رکاوٹ طے کرتا رہتا ہے۔ تو بھی چاند کی طرح اس نیلی فضا میں ہر لمحہ بڑھتا رہ۔اگر تو اس زمانے میں اپنا کوئی مقام چاہتا ہے تواپنے دل کا تعلق حق سے جوڑ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے راستے پر چل پڑ‘‘۔

مسلمانوں کو نبیء کریم ﷺ کی اتباع کی ترغیب دیتے ہیں تو زور پیدا کرنے کے لیے انہیں تنبیہ بھی کرتے ہیں کہ اگر یہ راہ اختیار کرنا تمہارے بس میں نہیں تو دین کے راستے سے ہٹ جاؤ اور کافر ہو کر مرجاؤ!


کشودم پردہ را از روئے تقدیر

مشو نومید و راہِ مصطفی ؐ گیر

اگر باور نہ داری آنچہ گفتم

زدیں بگریز و مرگِ کافرے میر [12]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

’’[ترجمہ]میں نے تقدیر کے چہرے سے پردہ اٹھا دیا ہے(تقدیر عمل میں پوشیدہ ہے۔۔۔اے مسلمان! تو زوال و ادبار کے تسلسل سے) ما یوس نہ ہو، بس حضور اکرم ﷺ کے راستے اور ان کی لائی ہوئی شریعت پر چلنا شروع کردے۔لیکن اگر تجھے میری بات (پُرخلوص نصیحت ) پر یقین نہیں ہے، تو دین کی راہ سے ہٹ جااور کافر کی موت مر‘‘۔

ایک اور مقام پرحضور رسالت مآب ﷺ کی محبت کے عملی تقاضوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:


محبت از نگاہش پائدار است

سلوکش عشق و مستی را عیار است

مقامش عبدہٗ آمد و لیکن

جہانِ عشق را پروردگار است [13]


’’حضور اکرم ﷺ کی نگاہِ کرم ہوجائے (تیری محبت ان ﷺکے دربار میں قبول ہوجائے ) تو تیری محبت پائدار (تسلیم کی جا سکتی )ہے۔ ان ﷺ سے عشق کرنے کا معیار یہ ہے کہ انہی ﷺ کا راستہ عملی زندگی میں اپنایا جائے۔ ان کا مقام ’’عبدہٗ‘‘ (اس [اللہ ]کا بندہ) بتایا گیا ہے لیکن وہ بندہ عشق کے جہان کا پروردگار ہے۔جہانِ عشق آپ ﷺ ہی کی وجہ سے زندہ ہے‘‘۔

اقبال نے بحیثیت ’’زندہ رود‘‘ حسین بن منصور حلاج سے سوال کیا :


از تو پرسم، گرچہ پرسیدن خطاست

سِرِّ آں جوہر کہ نامش مصطفیٰ ست !

آدمے یا جوہرے اندر وجود

آں کہ آید گاہے گاہے در وجود؟ [14]

(اے حلاج!) میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں‘ اگرچہ یہ بھی خطا ہے۔۔۔کہ وہ جوہر جس کا نام مصطفیٰ ﷺہے ، آخر اس کا بھید کیا ہے؟؟؟۔۔۔کیا وہ آدم ہے یا اپنے وجود کے اندر کوئی جوہر۔جوہر بھی ایسا جو کبھی کبھی وجود میں آتا ہے[جو صرف ان کی ذات میں آشکار ہوا؟]‘‘۔


اس سوال کے جواب میں حضور نبیء کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی شان کا اظہار حُسین بن منصور حلاج کی زبان میں اس طرح ہوا :


پیش او گیتی جبیں فرسودہ است

خویش را خود عبدہٗ فرمودہ است

عبدہٗ از فہمِ تو بالا تر است

زانکہ او ہم آدم و ہم جوہر است

جوہرِ او نے عرب نے اعجم است

آدم است و ہم ز آدم اقدم است

عبدہٗ صورت گرِ تقدیر ہا

اندرو ویرانہ ہا تعمیرہا

عبدہٗ ہم جا نفزا ہم جانستاں

عبدہٗ ہم شیشہ ہم سنگِ گراں

عبد دیگر، عبدہٗ چیزے دگر

ما سراپا انتظار او منتظر

عبدہٗ دہر است و دہر از عبدہٗ ست

ما ہمہ رنگیم، او بے رنگ و بوست

عبدہٗ با ابتدا بے انتہا ست

عبدہٗ را صبح و شامِ ما کجاست

کس ز سرِّ عبدہٗ آگاہ نیست

عبدہٗ جز سر الا اللہ نیست

لا الہٰ تیغ و دم او عبدہٗ

فاش تر خواہی بگو ھو عبدہٗ

عبدہٗ چند و چگونِ کائنات

عبدہٗ رازِ درونِ کائنات

مدعا پیدا نگردد زیں دو بیت

تا نہ بینی از مقامِ ما ر میت [15]


’’[ترجمہ]محمدمصطفی ﷺکے سامنے کائنات بھی پیشانی ٹیکے ہوئے ہے۔آپﷺ نے خود اپنا تعارف ’عبدہٗ‘ کہکر کرایا ہے۔عبد ہٗ تیری سمجھ سے بالا ترہے۔کیونکہ وہ آدم بھی ہے اور جوہر بھی۔اس کا جوہر (مقامی نہیں ہے) نہ عرب سے ہے نہ عجم سے۔وہ آدم ہونے کے باوجود آدم سے مقدم وجود رکھتا ہے۔عبدہٗ تقدیروں کا صورت گر ہے(جو انﷺ کا ہوگیا اس کی تقدیر سنور گئی ورنہ تقدیر بگڑ جاتی ہے)۔ اسی عبدہٗ کے اندر انسانی تقدیر کے ویرانے اور آبادیاں پوشیدہ ہیں۔عبدہٗ روح کو خوشی دینے والا(مومنوں کوجنت کی خوشخبری) بھی ہے اور روح کو چھین لینے والا بھی ہے (کافروں کوعذاب کی وعیدسناکر)۔ عبد اور چیز ہے اور ’عبدہٗ‘ اور چیز ہے۔ہم مجسم انتظار ہیں وہ منتظر (جس کا انتظار ہے)۔عبدہٗ زمانہ ہے اور زمانہ ’عبدہٗ ہے۔ہم سب رنگ ہیں وہ رنگ اور خوشبو کا محتا ج نہیں ہے۔عبدہٗ کی ابتداء تو اس کی تخلیق کے عمل سے ہوگئی لیکن اس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔عبدہٗ کا زمانہ ہمارے زمانے کی طرح روزوشب کے مرور سے وجود میں نہیں آتا۔کوئی بھی مخلوق ’عبدہٗ‘ کے راز سے آگاہ نہیں ہے۔عبدہٗ دراصل کلمہء طیب’لا الہٰ الا اللہ‘ کا ایک بھید ہے اور کچھ نہیں۔غیراللہ کی نفی کا کلمہ ایک تلوار ہے جس کی دھار ’عبدہٗ‘ ہے۔ اگر تو زیادہ کھل کر بات سننا چاہتا ہے تو سن ’ھو‘ (وہی عبدہٗ) ہے۔(عبد اپنی نفلوں کی کثرت سے اللہ کی صفات کا حامل بن جاتا ہے۔یہ ہر بندۂ مومن کے ساتھ ہوسکتا ہے۔بندۂ مومن بننے کے لیے آقائے نامدار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتباع ضروری ہے، اسی بات سے عبدہٗ کا مقام ’ھو‘ ہوگا)۔عبدہٗ کائنات کی حقیقت ہے۔عبدہٗ کائنات کے اندر کا راز ہے۔(اے مخاطب!)پہلے دواشعار کا مطلب سمجھ میں نہیں آسکتا اگر عبدہٗ کو قرآن کی آیت ’وَمَا رَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَلٰٰکِنّ َاللّٰہَ رَمٰی‘ (تم نے مٹھی بھر خاک نہیں پھینکی تھی جب پھینکی تھی، بلکہ اللہ نے پھینکی تھی ۔۔۔۱۷:۸) کی روشنی میں نہ دیکھا جائے‘‘۔


جوہر کی وضاحت کرتے ہوئے معروف مستشرق این میری شمل نے بڑی خوبصورت اور بصیرت افروز گفتگو کی ہے:


’’یہ جو حضرت محمدؐ کو ’انسان اور جوھر‘ کا امتزاج کہا گیا، یہ ابنِ عربی اور الجیلی کی تقلید میں ہے۔ جنھوں نے انسان کامل کا نظریہ پیش کیا اور ایسے انسان کو [کی]دنیوی اور خدائی صفات بتائی ہیں ۔اب عبدہٗ کی حقیقت پر زور دینے کا مسئلہ۔ قدیم صوفیاء کی روایات کے بموجب‘ مثلاً دیکھیں رسالہ قنبریہ[قشیریہ؟] اور پنجابی شاعر بلھے شاہ کے اشعار‘ عبدہٗ کے کلمات حضرت محمد ؐ کی عظیم شان کے مظہر ہیں کیوں کہ واقعہء معراج کے بیان میں بھی (۱:۱۷) قرآنِ مجید نے پیغمبر ؐ کو عبدہٗ (اس کا خاص بندہ) کہاہے۔ واقعہء اسرا ء میں اور معراج میں چونکہ آں حضرتؐ نے حقائق و معارف کو بے نقاب دیکھا تھا۔ لہٰذا عبدہٗ بے حد بلند روحانی مقام تھا جو انھیں نصیب ہوا۔۔۔


مردِ مومن در نسا زد با صفات

مصطفیٰؐ راضی نشد الاَّ بذات

تاز مازاغ البصر، گیرد نصیب

بر مقامِ عبدہٗ گردد رقیب‘‘ [16]


’’مردِ مومن صفات کے مشاہدے پر قناعت نہیں کرتا۔کیوں کہ رہبرِ اعظم حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے بھی ذات کے دیدار کے علاوہ کسی نعمت کو نہیں چاہا تھا‘‘ [17]

’’یہاں تک کہ حضورِ اکرم ﷺ نے وہ مقام حاصل کرلیا جسے اللہ نے ’ما زاغ البصر و ما طغیٰ ‘ (نہ تو آپﷺ کی نگاہ میں کجی پیدا ہوئی اور نہ حد سے بڑھی) کہا ہے اور پھر مقامِ عبدہ ٗ بھی حاصل کرلیا۔ [بندہء مومن آپﷺ کی پیروی میں کامل ہوکر ذاتِ واجب الوجود کے دیدارکی منزل تک پہنچ سکتا ہے]‘‘ ۔ [18]

جمالِ ذات کا عاشق ہی جملہ کائنات کا سردار ہوسکتا ہے۔ اس لیے صرف حضورِ اکرم ﷺ ہی کی ذاتِ گرامی تمام عالمین کی سردار ہے۔ یہ بات اشارۃً حضرت جلال الدین رومیؒ نے کہی تھی اور اقبال نے ان کا ایک شعر جاوید نامہ میں نقل کیا ہے:


ہر کہ عاشق شد جمالِ ذات را

اوست سید جملہ موجودات را

(جو کوئی [اللہ تعالیٰ] کی ذات کے حسن کا طالب ہوا ۔وہ ساری کائنات کا سردار ٹھہرا۔ [19]


حضور ﷺ ہی وجہ تخلیق کائنات ہیں اور آپ ﷺ ہی کی ذات میں وہ جوہر ہے جس کی تلاش و جستجو میں بنی نوع آدم سرگرداں ہے۔جس نے اس نور (نور مصطفیٰﷺ) کے ذریعے اپنی شناخت کرلی اس کی قیمت اسی کے باعث متعین ہوچکی ہے ورنہ اسی نور کی تلاش میں انسان گھومتا پھر رہا ہے۔


ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو

آں کہ از خاکش بروید آرزو

یازِ نورِ مصطفیؐ او را بہاست

یا ہنوز اندر تلاش مصطفی است [20]

’’[ترجمہ]جہاں جہاں بھی رنگ و خوشبو کی دنیاتمہیں نظر آرہی ہے، ہر وہ دنیا جس کی خاک سے آرزوئیں جنم لیتی ہیں(جس میں کمال حاصل کرنے کی تڑپ موجود ہے) یا تو اس کی قیمت نور محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے ہے یا وہ دنیا نورِ محمدی ﷺ کی تلاش میں سرگرداں ہے‘‘۔


ہر کجا ہنگامہء عالم بود

رحمۃٌ للعالمینی ہم بود [21]


’’[ترجمہ]جہاں جہاں بھی دنیا کی رونقیں ہیں وہاں وہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صفت رحمۃٌ للعالمینی موجود ہے‘‘۔


خلق و تقدیر و ہدایت ابتدا ست

رحمۃٌ للعالمینی انتہا ست [22]

’’[ترجمہ]مخلوق ، تقدیر اور ہدایت مرحلہء تخلیق میں پہلے ہیں۔ رحمۃٌ للعالمینی اس تخلیق کے مرحلے کی انتہا ہے‘‘۔

مقام رسالت کے اظہار کے مختلف پیرائے علامہ کی ہر تحریر میں ملتے ہیں۔مثنوی اسرار خودی میں بڑے مربوط انداز میں لکھتے ہیں:


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

در دلِ مسلم مقامِ مصطفیؐ است

آبروئے مازِ نامِ مصطفیؐ است

طورِ موجے از غبارِ خانہ اش

کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش

کمتر از آنے ز اوقاتش ابد

کاسبِ افزائش از ذاتش ابد

بوریا ممنونِ خوابِ راحتش

تاجِ کسریٰ زیرِ پائے امتش

درشبستانِ حرا خلوت گزید

قوم و آئین و حکومت آفرید

ماند شبہا چشم او محروم نوم

تابہ تخت خسروی خوابیدہ قوم

در جہاں آئینِ نو آغاز کرد

مسندِ اقوامِ پیشیں در نورد

از کلیدِ دیں درِ دنیا کشاد

ہمچو او بطنِ اَمِ گیتی نزاد

در نگاہِ او یکے بالا و پست

با غلامِ خویش بر یک خواں نشست

روزِ محشر اعتبارِ ماست او

در جہاں ہم پردہ دارِ ماست او

لطف و قہرِ او سر اپا رحمتے

آں بیاراں ایں باعدا رحمتے

آنکہ بر اعدا درِ رحمت کشاد

مکہ را پیغام ’ لا تثریب‘ داد

مستِ چشمِ ساقیِ بطحاستیم

در جہاں مثلِ مے و میناستیم

امتیازاتِ نسب را پاک سوخت

آتشِ او ایں خس و خاشاک سوخت

چوں گلِ صد برگ مارا بو یکیست

اوست جانِ ایں نظام و او یکیست

سرِّ مکنونِ دلِ او ما بدیم

نعرہ بے باکانہ زد، افشا شدیم

شورِ عشقش در نئے خاموشِ من

می تپد صد نغمہ در آغوشِ من

من چہ گویم از تولَّایش کہ چیست

خشک چوبے در فراقِ او گریست

نسخہء کونین را دیباچہ اوست

جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست [23]


’’[ترجمہ]حضرت محمد مصطفی ﷺ کا مقام مسلمان کے دل میں ہے۔ہم مسلمانوں کی عزت و آبرو بھی آپ ﷺ ہی کے نام سے قائم ہے۔آپ کے گھر کے غبار کی لہر ’طور سینا‘ ہے۔آپ ﷺ کا حجرہ مبارک ، بیت اللہ کے لیے بھی کعبہ کا درجہ رکھتا ہے۔ابد آپ کے اوقات کے مقابلے میں ایک لمحے سے بھی کم وقفہ ہے۔دراصل آپ ہی کی ذات سے ابد نے بھی ابدیت حاصل کی ہے۔ آپ بوریئے پر آرام فرماتے تھے اس لیے بوریا بھی آپ کے احسان کا ممنون ہے۔آپ کی امت کے پاؤں کے نیچے کسریٰ کا تاج آیا۔آپ ﷺنے غار حرا میں تنہائی کی راتیں گزاریں۔آپ ﷺنے ایک نئی قوم، ایک نیا آئین اور ایک نئی حکومت عطا فرمائی۔ آپ ﷺ نے بہت سی راتیں بغیر نیند گزاریں تاکہ آپ ﷺ کی امت تخت خسروی پر آرام کرے۔ دنیا میں آپﷺ نے نئے دستور کا آغاز فرمایا۔ سابقہ قوموں کی مسند اقتدار کو آپﷺ نے لپیٹ دیا۔ آپﷺ نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا۔آپ جیسا سپوت مادر گیتی نے بھی نہ جنا۔ (حضرت حسان بن ثابتؓ نے فرمایا تھا و اجمل منک لم تلدالنساءٗ اور آپ سے زیادہ خوبصور ت کسی ماں نے نہیں جنا)۔آپ ﷺ کی نگاہ میں بلند اور پست سب انسان برابر ہیں۔آپؐ اپنے غلام کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھاتے تھے۔حشر کے دن ہم مسلمانوں کا بھروسہ (شفاعت کے لیے) آپﷺ ہی کی ذات پر ہوگا۔ دنیا میں بھی آپ ﷺ ہی ہماری کمزوریوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔ آپ ﷺکا لطف اور قہر، دونوں سراپا رحمت ہیں۔ لطف دوستوں کے لیے اور قہر دشمنوں کے لیے رحمت ہے۔آپ ﷺ وہ ہیں جنہوں نے دشمنوں پر رحمت کے دروازے کھو ل دیئے۔ فتح مکہ کے وقت اپنے جانی دشمنوں سے فرمایا ’آج تم پر کوئی گرفت نہیں‘ (جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر میں اپنے بھائیوں کو معاف فرمایا تھا)۔ ہم بطحا کے ساقی کی آنکھوں سے پی کر مست ہیں۔ہم دنیا میں شراب اور صراحی کی طرح ہیں۔آپ ﷺ نے نسل و نسب کے فرق کو یکسر بھسم کردیا۔دنیا کے باغ کو اس کوڑے کرکٹ سے پاک فرمادیا۔ سو پتیوں کے پھول کی طرح ہماری خوشبو ایک ہی ہے۔(کیونکہ) آپ ﷺ اس نظام کی روح ہیں اور آپ ﷺ ایک ہیں۔ہم آپ ﷺ کے قلب میں چھپے ہوئے بھید کی طرح تھے۔جب آپ نے بے باکانہ نعرۂ توحید بلند فرمایا تو ہم ظاہر ہوگئے۔میری خاموش بنسری میں آپ ﷺ کے عشق کا شور ہے۔میرے سینے میں سینکڑوں نغمے تڑپ رہے ہیں۔ میں آپ ﷺ کی محبت کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں کہ کیا ہے۔ آپ ﷺ کی جدائی کے خیال سے تو سوکھا ہوا تنا (حنانہ) بھی رونے لگا تھا۔(المختصر) ساری کائنات کتاب ہے تو اس کا دیباچہ (مغز، جوہر) آپ ﷺ کی ذات گرامی ہے۔تمام عوالم غلام ہیں اور آپ ﷺ ہی آقا ہیں‘‘۔


اقبال نے ’’مثنوی رموزِ بیخودی‘‘ میں یہ بتایا ہے کہ ’’ ملت کے پیکر میں رسالت ہی کی وجہ سے روح پھونکی گئی ہے‘‘، وہ فرماتے ہیں:


حق تعالیٰ پیکرِ ما آفرید

وز رسالت در تنِ ما جاں دمید

از رسالت در جہاں تکوینِ ما

از رسالت دینِ ما آئینِ ما

آں کہ شان اوست یہدی من یرید

از رسالت حلقہ گردِ ما کشید

ما ز حکم نسبت او ملتیم

اہل عالم را پیام رحمتیم

زندگی، قوم از دم او یافت است

ایں سحر از آفتابش تافت است

فرد از حق ملت از وی زندہ است

از شعاع مہر او تابندہ است [24]

’’[ترجمہ] اللہ تعالیٰ نے ہمارا (ملی) پیکر تیار فرماکر اس میں ’’رسا لتِ محمدیہﷺ‘‘کی وجہ سے روح پھونکی۔رسالت ہی کی وجہ سے بحیثیت ملت ہماری پیدائش ہوئی اور رسالت ہی کے طفیل ہمیں دین اور دستورحیات میسر آیا۔ وہ (اللہ تعالیٰ) جس کی شان یہ ہے کہ جسے چاہے ہدایت دے، اسی نے ہمارے گرد رسالت کا حلقہ کھینچ دیا۔ہم اس رسالت ہی کی نسبت سے ایک ملت ہوکر عالم انسانی کے لیے باعث رحمت ہیں۔اس قوم کے ہر فرد نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی کی بدولت زندگی پائی ہے اور اس کی صبح کی روشنی آفتابِ رسالت ہی کی عطا کردہ ہے‘‘۔


حرف بے صوت اندریں عالم بدیم

از رسالت مصرعے موزوں شدیم

از رسالت صد ہزار ما یک است

جزو ما از جزو مالا ینفک است

از میانِ بحر او خیزیم ما

مثلِ موج از ہم نمی ریزیم ما

از رسالت ہم نوا گشتیم ما

ہم نفس ہم مدعا گشتیم ما

کثرتِ ہم مدعا وحدت شود

پختہ چوں وحدت شود ملت شود

زندہ ہر کثرت ز بندِ وحدت است

وحدتِ مسلم، ز دینِ فطرت است

دینِ فطرت از نبی آموختیم

در رہِ حق مشعلے افروختیم

ایں گہر از بحر بے پایانِ اوست

ما کہ یکجا نیم از احسانِ اوست

تا نہ ایں وحدت ز دست ما رود

ہستی ما با ابد ہمدم شود [25]

’’[ترجمہ] ہم لوگ دامن رسالت میں پناہ لینے سے قبل اس طرح تھے جیسے بے آواز حرف۔پھر رسالت (ﷺ)کے فیض سے ہم اس طرح آہنگ اور معانی والے بن گئے جیسے بیت کا مصرعہء دلکش ہو۔ ہم مسلمان عددی اعتبار سے لاکھوں ہونے کے باوجود محض رسالت(ﷺ) کی بدولت وحد ت ملّی میں ضم ہوکر اس طرح ایک ہوگئے کہ ہمارا چھوٹے سے چھوٹا جزو بھی پوری ملت اسلامیہ کا حصہ بن گیا۔ ہم مسلمان، رسالت کے سمندر کے درمیان سے موجوں کی طرح اٹھتے ہیں اور بحری موجوں کی طرح ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے، ایک ہی رہتے ہیں۔ ہم( مسلمان ) رسالت کے طفیل ہی ایک آواز ہوگئے۔ ایک دوسرے کے ساتھی بنے اور ہمارے مقاصد میں ہم رنگی پیدا ہوگئی۔ مقصد کی یک رنگی سے افراد کی کثرت ، وحدت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور جب یہ وحدت پختگی حاصل کرلیتی ہے تو ’’ملت‘‘ وجود میں آجاتی ہے۔ ہر کثرت خود کو زنجیر میں پابند کرلینے سے ، وحدت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مسلمان کی وحدت دین فطرت (اسلام) کی بدولت قائم ہے۔ ہم (مسلمانوں ) نے دین فطرت(اسلام) اپنے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ سے ہی سیکھا ہے۔اس طرح ہم نے حق کی راہ میں مشعل روشن کی ہے۔ (ملت مسلمہ کے وجود اور اس کی وحدت کا ) یہ موتی حضر ت محمد مصطفی ﷺ ہی کے بحر بے کراں سے نکلا ہے۔ہماری (ذہنی، فکری،عملی اور روحانی) یکجائی بھی انہی ﷺ کے احسان عظیم کی مرہون منت ہے۔ جب تک( فکرو خیال و عمل کی) یہ وحدت ہمارے ہاتھ سے نہیں جاتی، ہماری ملت کی زندگی، ابدالآباد تک باقی رہے گی‘‘۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مثنوی رموزِ بیخودی ہی میں اقبال نے یہ نکتہ بھی واضح کیا ہے کہ ملت افراد کے باہم ملاپ سے پیدا ہوتی ہے اور اس کی پرورش کی تکمیل نبوت سے ہوتی ہے:


تا خدا صاحبدلے پیدا کند

کو ز حرفے دفترے املا کند

ذرہء بے مایہ ضو گیرد ازو

ہر متاعے ارج می گیرد ازو

دیدہء او می کشد لب جاں دہد

تا دوئی میرد یکے پیدا شود

رشتہ اش کو بر فلک دارد سرے

پارہ ہائے زندگی را ہم گرے

تازہ اندازِ نظر پیدا کند

گلستاں در دشت و در پیدا کند

از تف او ملتے مثل سپند

بر جہد شو ر ا فگن و ہنگامہ بند

یک شرر می افگند اندر دلش

شعلہء در گیر میگردد گلش [26]

مثنوی کے اس حصے میں پہلے تو اقبال ، آدم کی سرگزشت بیان فرماتے ہیں کہ اس نے اپنی عقل خام کے ساتھ کیسے کیسے دن دیکھے تھے اور انسانوں کے باہمی میل جول کی کیا کیفیت تھی ، ہم اس سے آگاہ نہیں ہیں۔اس کے بعد فرماتے ہیں:

’’[ترجمہ]یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نبی پیدا کردیا جس نے ایک حرف کے ذریعے ایک کتب خانہ لکھوادیا یعنی ایک مکمل نظام زندگی عطا کردیا۔اس (نبی) کی وساطت سے ایک حقیر ذرہ بھی روشنی حاصل کرلیتا ہے۔ انسان کی ہر متاع (پونجی ) ایک نئی قیمت پالیتی ہے۔ ہر جنس کی قدر بڑھ جاتی ہے۔ نبی کی آنکھ( باطل کو) مارڈالتی ہے اور اس کے لبوں سے (حق اس طرح جاری ہوتا ہے کہ) بے روح جسموں میں جان پڑجاتی ہے۔ (یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ) اس نبی کا تعلق آسمان سے (بذریعہء وحی) استوارہوتا ہے۔ (جس کی بدولت وہ) زندگی کے ٹکڑوں (افراد) کو جوڑ دیتا ہے۔ وہ (نبی) انسانوں میں ایک نیا زاویہء نظر پیدا کردیتا ہے اور (اس طرح زندگی کے بے آب و گیاہ ) صحراؤں میں باغ لگا دیتا ہے۔ اس کی عطا کردہ (مقاصد کی ) گرمی سے قوم حرمل کے دانے کی طرح اچھلنے کودنے اور ہنگامہ بر پا کرنے لگتی ہے[اس میں زندگی کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں اور وہ راہ حق میں ہر باطل سے گرم ستیز ہوجانے کے لیے تڑپ اٹھتی ہے]۔ وہ(نبی ) قوم کے دل میں ایک چنگاری ڈال کر ولولہ پیدا کردیتا ہے۔جس کی بدولت ملت کے وجود میں ایک شعلہ پیدا ہوجاتا ہے‘‘۔

یہ ہے وہ تصورِ رسالت جس کے طفیل ملتِ اسلامیہ ایک ملتِ واحدہ کے طور پر ابھری تھی۔ اللہ نے تو مسلمانوں کو ’’توحید‘‘ پر ایمان کے بعد صرف اور صرف ’’رسالت ‘‘ پر ایمان لانے کا حکم دیا تھا اور حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس پر نبوت کے خاتمے کا اعلان فرماکر اس بات کا امکان ہی ختم فرمادیا تھا کہ حضورِ اکرم ﷺ کے بعد کوئی فرد یا گروہ اس بات کا دعویٰ کرے کہ تکمیلِ دینِ اسلام کے بعد بھی اس کی ذات اسی طرح واجب التعظیم اور واجب الاتباع ہے جیسے حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی! یہی وجہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی اکثریت نے کبھی بھی حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ والا کے بعد کسی بھی بزرگ کو صرف اور صرف اتباعِ رسول ﷺ کی بنیاد پر بزرگ جانا۔ نہ تو انہیں بذاتہٖ واجب الاتباع جانا اور نہ معصوم عن الخطاء قرار دیا۔ ہاں حضورِ اکرم ﷺکے تمام مومن اقرباء اور صحابہ کرام و ازواجِ مطہرات ، سب کے سب محفوظ عن الخطاء تسلیم کیے گئے۔

اقبال نے یہ نکتہ اپنے ایک خطبے میں واضح کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں :

’’اسلام کی آفرینش ‘ عقلِ استقرائی کی آفرینش ہے۔اسلام میں نبوت اپنی تکمیل کو پہنچی ہے کیوں کہ اس نے اپنے ہی خاتمے کی ضرورت کو محسوس کرلیا ہے۔ اس میں یہ ادراک گہرے طور پر موجود ہے کہ زندگی کو ہمیشہ بیساکھیوں کے سہارے نہیں رکھا جاسکتا اور یہ کہ ایک مکمل خود شعوری حاصل کرنے کے لیے انسان کو بالآخر اس کے اپنے وسائل کی طرف موڑدینا چاہیے۔اسلام میں پاپائیت اور موروثیت کا خاتمہ، قرآن میں استدلال اور عقل پر مسلسل اصرار اور اس کا باربار فطرت اور تاریخ کے مطالعے کو انسانی علم کا ذریعہ قراردینا ، ان سب کا تصور ختمِ نبوت کے مختلف پہلوؤں سے گہر ا تعلق ہے۔۔۔انسانی فکر کی تاریخ میں اب ہر قسم کا شخصی تحکم جو کسی مافوق الفطرت سرچشمے کا دعویٰ کرتا ہے ختم ہوچکا ہے۔(۲۷) [27]

پاپائیت اور موروثیت کے خاتمے کی ایک دلیل یہ ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم نے اپنے بعد اپنی اولاد میں سے کسی کو خلیفہ بنانے کا اعلان نہیں کیا۔حضرتِ حسن ﷺکوحضرت علی ﷺ کے بعد بحا لتِ مجبوری خلافت کا عہدہ سنبھالنے کی ضرورت پیش آئی لیکن بعد میں انہوں نے بھی شاید ملوکیت کے آغازکا خطرہ ‘ بھانپ کر خود کو خلافت کی ذمہ داریوں سے علاحدہ کرلیا!!!

’’انسانی فکر کی تاریخ میں اب ہر قسم کا شخصی تحکم جو کسی مافوق الفطرت سرچشمے کا دعویٰ کرتا ہے ختم ہوچکا ہے‘‘۔

علامہ اقبال کی اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں جاننا ہوگا کہ اقبال دینِ اسلام کے اس version کو تسلیم کرتے ہیں جس میں عربیت غالب ہو۔عجمی نظریات کے ضمن میں اقبال کے بے شمار تحفظات ہیں۔اسی لیے وہ برملا کہتے ہیں :


تب و تابِ بتکدۂ عجم نرسد بسوز و گدازِ من

کہ بیک نگاہِ محمدِؐ عربی گرفت حجاز من [28]


(ترجمہ: غیر عرب بتکدہ کی چمک دمک میرے سوزوگداز کو نہیں پہنچتی۔۔۔یعنی غیر عربی یا غیر اسلامی تصورات و نظریات میری طبیعت کو راس نہیں ہیں۔[کیوں کہ] میرے دل پر حضورِ اکرم ﷺ کی نگاہِ لطف و کرم کا اثر بہت گہرا ہوچکا ہے۔ گویا آپ کی تعلیمات کے ارتکاز کی وجہ سے میرا دل ہی حجاز بن گیا ہے)۔

پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے اقبال کے درجِ بالا شعر کی بہت اچھی تشریح کی ہے۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہ من و عن یہاں نقل کردی جائے:

’’تب و تاب بتکدۂ عجم کنایہ ہے غیر اسلامی تصورات سے۔ محمد عربیﷺ کنایہ ہے اسلامی تعلیمات سے۔اور حجازِ من کنایہ ہے قلبِ عاشق سے۔کہتے ہیں کہ سرکارِ مدینہ ﷺ کی پاکیزہ تعلیمات نے آنِ واحد میں میرے دل و دماغ پر اس طرح قبضہ کرلیا ہے کہ اب عجمی تصورات (غیر اسلامی خیالات) میری نگاہ میں بالکل بے قیمت ہو کر رہ گئے ہیں یعنی عاشقِ رسول ﷺ غیر اسلامی خیالات سے متاثر نہیں ہوسکتا‘‘۔ [29]

یہی وجہ ہے کہ اقبال نے عام مسلمان کو حضورِ اکرم ﷺ کے لائے ہوئے دین کی حدود ہی میں رہنے کا مشورہ دیا :


شکوہ سنجِ سختیء آئیں مشو

از حدودِ مطفیؐ بیروں مرو [30]

’’آئین و احکامات کی سختیوں کی شکایت مت کرو۔ حضورِ اکرم ﷺ کی متعین کردہ حدودِ شریعت سے کبھی اپنا قدم باہر مت نکالو‘‘


اقبال نے حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ والا صفات کی تفہیم کا انداز اسی طرح اختیار کیا جیسا ان کے معنوی رہنما حضرت جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا یا تھا۔ مولانا فرماتے ہیں:


من بندہء قرآنم اگر جاں دارم

من خاکِ رہِ محمدِؐ مختارم

گر نقل کند، جز ایں، کس از گفتارم

بیزارم و ازاں سخن بیزارم


’’ میں اگر زندہ ہوں تو قرآن کی وابستگی کی وجہ سے زندہ ہوں۔ میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے راستے کی مٹی ہوں۔ اگر کوئی شخص [قرآن و صاحبِ قرآن سے وابستگی کے علاوہ] مجھ سے کوئی اور بات منسوب کرے تو میں اس سے ہزار بار بیزاری کا اظہار کرتا ہوں‘‘۔

لیکن اقبال بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اتباعِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم کی بنیاد پر عہدِ رسالت مآب سے قیامت تک آنے والا ہر مسلمان لائقِ تعظیم ہے۔ کیوں کہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ نبی علیہ السلام کی اتباع کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور ایمان اور اعمالِ صالحہ کے معیارات کو برقرار رکھنے والوں کے لیے اپنی مخلوق کے دلوں میں ان کی محبت پیدا فرمادیتا ہے۔ [31]۔۔۔۔ اقبال کے کلام میں بزرگانِ دین کے مناقب کی موجودگی اس بات کی واضح دلیل ہے۔

لیکن بزرگانِ دین کی محبت میں بھی غلو کا عنصر مٹانے ، نبوت کے تصور میں جزوی شرکت کے رجحان کو بھی زائل کرنے اور ختم نبوت کے مسئلے کو دو ٹوک انداز میں سمجھانے کے لیے ہی اقبال نے اپنے ایک شعر میں اس حقیقت کو مزید واضح فرمادیا کہ حضورِ اکرم ﷺ کے بعد کسی بھی مفہوم میں وحی کے تسلسل کا تصور ’’شرک فی النبوت‘‘ ہے اور نبی علیہ السلام کے بعد کوئی بھی نبیءِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی ذاتِ مبارکہ کی طرح واجب الاتباع نہیں ہے نہ ہوسکتا ہے ۔

اے کہ بعد از تو نبوت شد بہر مفہوم شرک

بزم را روشن ز نورِ شمعِ ایماں کردہ ای [32]


’’ اے نبیء کریم علیہ السلام! آپ ﷺ کے بعد نبوت ہر مفہوم میں [ظاہر یا پوشیدہ مفہوم میں ، جیسے کسی کونبی کی طرح واجب الاتباع قراردینا ]شرک ٹھہری ۔۔۔آپ ﷺ نے محفلِ امکاں کو ایمان کے نور کی شمع سے جگمگا دیا‘‘۔

الحاصل، امتِ مسلمہ کا اتحاد اس بات پر منحصر ہے کہ بلا شک و ریب حضورِ اکرم ﷺ کے جو اعمال و افعال و گفتار و تقریری آثار امت تک تواتر کے ساتھ پہنچے ہیں صرف ان کو اخیتار کرلیا جائے۔حضورِ اکرم کی ذات پر دین کی تکمیل ہوئی ہے اس پرکامل ایمان لا کر بعد میں پیدا ہونے والی بدعتوں اور تاریخ میں رونما ہونے والے واقعات کی بنا پر بننے والے عقائد سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ، پورے اخلاص سے دین کی رسی(قرآنِ کریم) کو مضبوط پکڑ لیا جائے۔

حافظ شیرازی نے کیا پتے کی بات کہی ہے:


مصلحت دیدِ من آنست کہ یاراں ہمہ کار

بگزارند و خمِ طُرَّۂ یارے گیرند [33]

’’میرے نزدیک تو اب یہی ایک مصلحت رہ گئی ہے کہ سارے دوست سارے کام چھوڑ چھاڑ کر محبوب کی زلف کے خم کی طرف مشغول ہوجائیں۔ یعنی محبوب کی زلفوں کا حلقہ تھام لیں کیوں کہ محبوب کی زلف سے وابستگی ہی دنیا کے تمام غموں سے نجات کا ذریعہ ہے‘‘۔

حافظ کے اس شعر میں محبوب ‘ حضورِ اکرم ﷺ کی ذات ہی کو سمجھنا چاہیے اور خمِ طُرَّۂ یار سے ’’دین‘‘ کی رسی مراد لینی چاہیے ۔ اقبال کا سارا پیغام یہی ہے مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ ساری توجہ[حُبِّ رسولﷺ اور اتباعِ رسولﷺ کی غرض سے] حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ والا صفات پر مرکوز کردی جائے ‘‘۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

بال جبریل میں شامل نظم ’’ذوق و شوق‘‘ فکرو فلسفہء اقبال کا ایک ایسا شاہکار ہے جس میں حضورِ اکرم ﷺ کی عظمت کے بھرپور ادراک کے ساتھ انہوں نے اسلامی تاریخ کے روشن ماضی کے نقوش کی طرف تخلیقی قوت کے ساتھ اشارے کیے ہیں۔ کمزور حال کا نقشہ بھی کھینچا ہے۔ لیکن عشقِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی قوت حاصل کرکے اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کا نسخہ بھی بتایا ہے:


آیہء کائنات کا معنئ دیر یاب تو

نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو

جلوتیانِ مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق

خلوتیانِ میکدہ کم طلب و تہی کدو

میں، کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ

میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو!

بادِ صبا کی موج سے نشو و نما ئے خاروخس!

میرے نفس کی موج سے نشونمائے آرزو!

خونِ دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش

ہے رگِ ساز میں رواں صاحبِ ساز کا لہو! [34]

اقبال نے اس نظم کے اکثر اشعار فلسطین میں لکھے تھے اورغیر منقسم ہندوستان کی بنسبت فلسطین چوں کہ مدینہ منورہ سے زیادہ قریب تھا اس لیے ان کے دل میں مدینہ منورہ کی حاضری کا ذوق و شوق انتہائی درجہ بڑھ گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظم کے ابتدائی اشعار پر عرب کے جاہلی عہد کے شعراء کے سبعہ معلقہ قصائد اور شرف الدین بو صیری رحمۃ اللہ علیہ کے قصیدہء میمیہ کا اثر ہے۔ جاہلی شعراء کے قصائد کی تشبیب میں ان کی محبوبہ کی یاد کا احوال رقم ہوتا تھا اسی کی مناسبت سے بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے قصیدے میں موضع ذی سلم اور وادیء کاظِمَہ اور پہاڑی سلسلے اضَمْ کا ذکر کیا تھا۔ اقبال نے بھی کوہِ اَضَم اور ریگِ نواحِ کاظِمَہ کا ذکر کیا ہے۔


سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب!

کوہِ اضَمْ کو دے گیا رنگ برنگ طَیلساں!

گرد سے پاک ہے ہوا‘ برگِ نخیل دھل گئے

ریگِ نواحِ کاظِمَہ نرم ہے مثلِ پرنیاں! [35]


نظم کے تیسرے بند میں اقبال نے براہِ راست نبیء کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے مخاطب ہوتے ہوئے آپﷺ کی عظمت کا بیان کیا ہے۔ کائنات ایک لفظ ہے تو اس کی روح ‘معنی اور منبع و غایت حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ والاصفات ہے۔لیکن معنی کی تلاش میں نکلنے والوں کو آپ ﷺ کی عظمت و رفعت کا ادراک ہونا ذرا مشکل ہے۔ کیوں کہ انسانی عقل ’عَبْد‘ کو تو سمجھ سکتی ہے ’’عَبْدُہ ٗ ‘‘ کا ادراک اس کے بس کی بات نہیں ۔ اس لیے اقبال نے حضورِ اکرم ﷺ کو ’’معنیء دیر یاب‘‘ کہا۔

پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے اس شعر کی شرح کرتے ہوئے بڑی پُر مغز باتیں کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تحریر کا کچھ حصہ بطورِ اقتباس یہاں پیش کردیا جائے:

’’حضور(ﷺ) تو بالاتفاق ’’برزَخِ کبریٰ‘‘ ہیں۔ پس حقیقتِ محمدیہ (ﷺ) جو حقیقۃ الحقائق ہے‘ اس کا سمجھنا بلا شبہ نہایت مشکل ہے ۔ کائنات کے مختلف مراتب میں اللہ نے برزخ کا سلسلہ قائم فرمایا ہے۔ چنانچہ :

جمادات اور نباتات کے درمیان، مرجان ، برزخ ہے۔

نباتات اور حیوانات کے درمیان چھوئی موئی کا پودا برزخ ہے

حیوانات اور انسان کے درمیان بن مانس برزخ ہے

انسان اور خدا کے درمیان حقیقۃ محمدی (ﷺ) برزخ ہے۔

اسی بات کا ایک عاشقِ رسول ﷺ نے یوں بیان کیا ہے:


اِدھر مخلوق میں شامل ‘اُدھر اللہ سے واصل!

خواص اُس برزخِ کبریٰ میں ہے حرفِ مشدد کا


خلاصہء کلام یہ ہے کہ کائنات کی ساری قدروقیمت اور خوبی آپ ﷺ ہی کے دم سے ہے۔یعنی جس شئے میںآپﷺ کا نور نسبتاً زیادہ ہے وہ شئے دوسری اشیاء سے زیادہ قیمتی ہے۔ اسی لیے ساری دنیا آپ ﷺ کے نور سے فیضیاب ہونے کے لیے بیتاب اور بے قرار ہے‘ اسی لیے ساری دنیا آپ ﷺ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔۔۔یا زنورِ مصطفےٰ ؐ اورا بہاست۔۔۔یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفےٰ ؐ است ) ۔۔۔ [36]

اگلے شعر میں اقبال نے اپنے عہد کے علماء کو بے بصیرت و بے ذوق کہا ہے کیوں کہ وہ اپنی دنیا بنانے میں اپنے منصب کے تقاضوں سے آنکھیں بند کرچکے ہے۔ صوفیوں کی خانقاہوں میں بھی اللہ کی محبت کے ساغر پلانے کے بجائے دنیا طلبی کا درس مل رہا ہے۔ پھر اقبال کہتے ہیں کہ میں اسلامی تاریخ کے سنہرے دور کی بازیابی کا خواہش مند ہوں اور کھوئے ہوئے عظیم فرزندانِ اسلام کے کردار کی جھلک دیکھنے کی جستجو رکھتا ہوں۔ عمومی فضا میں تو صرف کانٹے اور گھاس اگتی ہے جبکہ میرے فکر و فن سے اعلیٰ مقاصد کے حصول کی آرزو پیدا ہوتی ہے۔۔۔اس نکتے کو اقبال کے ایک فارسی شعر سے سمجھا جاسکتا ہے :


ما زتخلیقِ مقاصد زندہ ایم

از شعاعِ آرزو تابندہ ایم (۳۷) [37]

’’ہم اپنے مقاصد کی شعوری تخلیق ہی سے زندہ ہیں اور اس مقصد اور آرزو کی کرن ہی سے ہماری چمک دمک قائم ہے۔۔۔۔۔۔[انسان اور بہائم میں فرق ہی نصب العین کے ہونے نہ ہونے کا ہے]‘‘ ذوق و شوق کے مذکورہ شعر میں بھی اقبال نے اپنا شعری مسلک یہی بتایا ہے کہ مقاصد کی تخلیق اور آرزوکی نشو و نما کے لیے ہی میں شعر کہتا ہوں۔ پھر اقبال کہتے ہیں کہ میں نے اپنے فن کی پرورش اپنے خونِ جگر سے کی ہے ، میری آواز[شعر] میں میرالہو شامل ہے۔


اس کے بعد انہوں نے اپنی تصنیف زَبورِ عجم سے ایک شعر نقل کیا ہے۔ وہ حضورِ اکرم ﷺ سے استدعا کرتے ہیں کہ میرے دلِ بے قرار کو [میری تخلیقِ آرزوکی جدوجہد سے] کبھی فرصت نہ دیجیے ۔بلکہ مجھے عشقِ کی پیچیدگیوں میں مزید الجھائے رکھیے!!!


فرصتِ کشمکش مدہ ایں دلِ بے قرار را یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را [38]

’’اے میرے محبوب[حضورِ اکرم ﷺ]! آپ مجھے اپنے جمالِ جہاں آرا کے فیضان سے مسلسل متمتع ہونے کا موقع عطا فرماتے رہیے۔اپنے بل کھائے ہوئے گیسوؤں میں اور ایک دو شکن کا اور اضافہ فرمالیجیے تاکہ میں تا حیات اسی عشق میں مبتلا رہ سکوں‘‘۔

اگلے بند میں اقبال نے وہ شاہکار اشعار پیش کیے ہیں جن کی مثال پوری اردو نعت کی تخلیقی تاریخ میں نہیں ملتی۔


لوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب

گُنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ

ذرہِ ریگ کو دیا تُو نے طلوعِ آفتاب

شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود

فقر جُنید و بایزید تیرا جمالِ بے نقاب

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب

تیریﷺ نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے

عقل، غیاب و جستجو! عشق، حضور و اضطراب

تیِرہ و تار ہے جہاں گردشِ آفتاب سے طبعِ زمانہ تازہ کر جلوہء بے حجاب سے [39]

حضورِ اکرم ﷺ کی حدیثِ مبارک ہے’’اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ‘‘(پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی وہ میرا نور ہے ) [40] ایک حدیثِ میں ارشاد فرمایا ’’اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ا لْقَمْ‘‘۔۔۔(پہلے جو چیز اللہ نے پیدا کی وہ قلم ہے) [41] ۔۔۔ایک اور حدیث میں ہے ’’اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ الْعَقْلَo ‘‘(سب سے پہلے جو چیز اللہ نے پیدا کی وہ عقل ہے) [42] ۔۔۔۔۔۔

صاحبِ سرِّ دلبراں لکھتے ہیں :

’’حضور سرورِ کائنات ﷺ عقل کی صورت ہیں اور خدا کا قلم ہیں اور دعوت الی اللہ کی حقیقت اور شریعت کے وضع کرنے میں آپ عقولِ جزویہ ہیں اور تینوں احادیث سے آپ ہی کی ذات مراد ہے۔ [43]

حضرت ذوقیؒ مزید لکتے ہیں:

’’جب اللہ تعالیٰ نے عالمِ روحانی کا ابداع کیا اور عالمِ جسمانی کی تخلیق فرمائی تو نورِ نبوت کو عقلِ اول کی ذات سے اس طرح نکالا جس طرح مکان کا نقشہ انجینئر کے ضمیر سے نکلتا ہے۔چنانچہ اسی نور سے چاند سورج روشن ہوئے اور اسی نور سے عرش و کرسی اور لوح و قلم کو قیام ملا‘‘۔ [44]


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’اِنَّ خُلُقَ نَبِیِّ اللّٰہِ ﷺ کَانَ الْقُرْاٰنُ‘‘(حضورِ اکرم ﷺقرآنِ پاک میں بیان کردہ تمام اخلاقِ جلیلہ اور اوصافِ حمیدہ کا مجسمہ تھے)۔۔۔(۴۵) [45]


ان تمام روایتوں کو پیشِ نظر رکھیں تو اقبال کی استعاراتی زبان ’’لوح‘‘، ’’قلم‘‘ اور ’’الکتاب‘‘ کے مفاہیم سمجھ میں آسکتے ہیں۔کیوں کہ آپ ﷺ کے نور کی تخلیق ہی تخلیقِ اول ہے بقیہ تخلیقات نورِ اولیں کی تخلیق کا تتمہ ہیں اس لیے ان کے نام بھی حضورِ اکرم ﷺکے اسمائے گرامی کے دائرے میں آسکتے ہیں۔’’ الکتاب ‘‘ قرآنِ صامت ہے اور حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ والا صفات قرآنِ ناطق اور مجسم، اس لیے آپ ﷺ کے وجود کو ’’الکتاب‘‘ کہنے میں بڑی معنویت ہے۔رہا آسمان کا آپﷺ کی ذات کے محیط میں ایک بلبلہ ہونا۔۔۔تو حقیقتِ محمدیہ اصلِ کائنات ہے اس محیط میں آسمان کی حیثیت سمندر میں بلبلے کی سی ہی ہے۔ اس خاکداں کو آپ کی تشریف آوری کے باعث فروغ حاصل ہوا ہے کیوں کہ آپ نے خاک کے ہر ذرے کو سورج جیسی چمک عطا فرمادی۔یعنی انسانی سرشت میں جو حیوانیت تھی اور جس کا مظاہرہ آپﷺ کی تشریف آوری سے قبل ہر لمحہ ہورہا تھا، آپﷺ نے اس حیوانیت کا رخ انسانیت کی اعلیٰ اقدار کی طرف پھیر دیا۔ اس طرح آپ نے ذروں کو آفتاب کی چمک دمک عطافرمادی۔تاریخِ عالم میں آپ کی امت کے بادشاہوں کی شان و شوکت سے آپﷺ کے جلال کی جہت سامنے آتی ہے اور صوفیہ کرام کے فقر میں آپﷺ کے حسنِ معاشرت و سلوک کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔سلطان سنجر ، سلجوقی خاندان کا بڑی شان و شوکت والا بادشاہ تھا اور سلطان سلیم اول سلطنتِ عثمانیہ ء ترکی کا نامور فرماں روا تھا۔ حضرت جنید بغدادی اور حضرت بایزید بسطامی رحمہم اللہ صوفیہ کرام کے سرخیل ہیں۔فقر و شاہی کا مفہوم اقبال کے درجِ ذیل شعر سے زیادہ واضح ہوسکتا ہے:


فقرو شاہی وارداتِ مصطفیٰ است

ایں تجلیہاتِ ذاتِ مصطفیٰ است [46]


’’فقیری اور بادشاہت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی واردات اور شانیں ہیں۔ امت میں جس کو بھی بادشاہت ملی وہ حضورِ اکرم ﷺ کی شان اور تجلی کے طفیل اور کسی کو دولتِ فقر ملی تو وہ بھی حضورِ اکرم ﷺ کی شان اور تجلی کے ظہور کی علامت ہے‘‘۔


اگلے شعر میں اقبال نے اپنی ذات کو واسطہ بناکر ایک نکتہ بیان کیا ہے جو ہر مسلمان کے لیے ایک کلیہ ، ایک ضابطہ اور ایک اصول کی حیثیت رکھتا ہے کہ اگر حضورِ اکرم ﷺ کی اتباع اور پیروی کا بالکل ایسا انداز نہ ہو جیسا نماز میں پیش امام کی پیروی کا ہوتا ہے تو زندگی کے ہر عمل میں راہ سے بھٹکنے کے علاوہ کوئی اور صورت پیدا نہیں ہوسکتی ہے۔یہاں نماز ، قیام اور سجود کہہ کر انسان کی پوری زندگی کے اعمال کی طرف اشارہ کردیا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے اور حضورِ اکرم ﷺ کی پیروی میں انسان (اور جن)کا ہر عمل عبادت بن جاتا ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ کی توجہ ہی سے عقل کو بھی منزل ملی اور عشق کو بھی مقصود حاصل ہوا۔ عقل کی سرشت میں جستجو ہے اور کائنات کی گتھیاں سلجھانے کی تڑپ ہے اس لیے اسے ما بعدالطبیعاتی رموز سے آشنا کرکے مطمئن کردیا اور عشق کو روحانی طور پر نوازکر اطمینان کی دولت عطا فرمادی۔

ٹیپ کے شعر میں اقبال نے استغاثے کے انداز میں کہا ہے کہ حضور! میرا زمانہ بڑا تاریک ہے۔ زمانے کی گردش نے اس عہد کو ظلمت بداماں کردیا ہے ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اپنی توجہِ خاص سے ہماری دنیا کو پھر منور فرمادیجیے!

بعد کے بند میں اقبال نے اپنی کیفیات کے اظہار کے ساتھ ساتھ یہ نکتہ بیان کردیا ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کی ذات مکمل عشق کی علامت ہے جس کے بغیر منزل مل ہی نہیں سکتی ہے۔چنانچہ منزل رسی کا واحد ذریعہ آپﷺ کی ذات سے انسلاک ہے۔ کیوں کہ محض عقل [جسے اپنے زعم میں برتری کا دعویٰ ہے اور جو پیکرِ محسوس کی خوگر ہے]کفر ہی کفر ہے۔


تازہ مرے ضمیر میں مارکہء کہن ہوا

عشق تمام مصطفی! عقل تمام بو لہب! [47]

مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق میں اقبال نے براہِ حضورِ اکرم ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے ان انقلابی اقدامات کا احوال درج کیا ہے جو حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ والا صفات کے ظہور کے بعد آپﷺ کی وساطت سے انسانیت کے لیے باعثِ خیر و فلاح بنے تھے۔ اقبال کہتے ہیں:

اے توما بیچارگاں را ساز و برگ

وارہا ایں قوم را از ترسِ مرگ

سوختی لات و مناتِ کہنہ را

تازہ کر دی کائناتِ کہنہ را

در جہانِ ذکر و فکرِ انس و جاں

تو صلوٰتِ صبح، تو بانگ اذاں

لذتِ سوز و سرور از لا الہ

در شبِ اندیشہ نور از لا الہ

نے خداہا ساختیم از گاؤخر

نے حضورِ کاہناں افگندہ سر

نے سجودے پیشِ معبودانِ پیر

نے طوافِ کوشکِ سلطان و میر

ایں ہمہ از لطفِ بے پایانِ تست

فکرِ ما پروردۂ احسانِ تست [48]


’’یا نبی اللہ ! آپ ہی ہم بے یارومددگار لوگوں کا سازوسامان ہیں۔ آپﷺ اس مسلمان قوم کو [پہلے کی طرح]موت کے خوف سے نجات دلائیے![کیوں کہ موت کے خوف نے اسے جہاد سے دور کردیا ہے]۔آپ ﷺ ہی کی ذات تو ہے جس نے بتوں کو آگ میں جھونک کراس پرانی کائنات میں نقشِ توحید از سرِ نو اجاگر فرمایا۔انسانوں اورجنات کی دنیا میں صرف آپ ﷺ ہی کی ذات ہے جس نے ان کے ذکر و فکر میں ایسی جہتیں پیدا فرمائی ہیں کہ اب ذکر و فکر کی دنیا صرف آپ کی ذات سے منسوب ہوگئی ہے۔ [آپ ﷺہی کی بدولت ہمیں]الٰہِ واحد کے اقرار اور باطل خداؤں سے انکار کی لذتِ سوزو سرور حاصل ہوئی ۔اسی کلمہء طیب کی بدولت ہمیں فکر کی رات میں نور میسر آیا۔ آپﷺ کی تعلیماتِ توحید ہی کا یہ فیضان ہے کہ ہم نے مشرک قوموں کی طرح گائے اور گدھے کو نہیں پوجا اور نہ ہی ہم کاہنوں کے آگے جھکے۔ ہم نے پرانے نقلی خداؤں کے آگے سجدہ ریزی بھی نہیں کی اور نہ ہی ہم نے امیروں اور بادشاہوں کے محلوں کے چکر کاٹے۔یہ سب خصلتیں ہم میں آپ ہی کی تعلیمات کی بدولت پیدا ہوسکی ہیں۔ ہماری فکر کی راست سمتی آپ ہی کے احسانات کی مرہونِ منت ہے‘‘۔

علامہ نے رموزِ بیخودی میں ایک باب قائم کیا ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کی رسالت کا مقصد انسانی معاشرے کومساوات کی بنیاد پر اسطوار کرنا ہے۔

بود انساں در جہاں انساں پرست

ناکس و نابود مندو زیردست

سطوت کسریٰ و قیصر رہزنش

بندہا در دست و پا و گردنش

کاہن و پاپا و سلطان و امیر

بہریک نخچیر صد نخچیر گیر

صاحبِ او رنگ و ہم پیر کنشت

باج برکشتِ خرابِ او نوشت

از غلامی فطرت او دوں شدہ

نغمہ ہا اندر نئے او خوں شدہ

تا امینِ حق بحقداراں سپرد

بندگاں را مسندِ خاقاں سپرد

حرِّیت زاد از ضمیرِ پاکِ او

ایں مئے نوشیں چکید از تاکِ او [49]

’’[نبیء کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی تشریف آوری سے قبل اس دنیا میں] انسان اپنے جیسے انسان کی پرستش کرتا تھا۔ نوعِ انساں انتہائی کمزور تھی۔ ایران کے بادشاہ اور روم کے شہنشاہ کی شان و شوکت نے، راہزن بن کر انسان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ‘گردن میں رسی اور پیروں میں بیٹریاں ڈال رکھی تھیں۔[اس دنیا میں انسان کے شکار کے لیے] سینکڑوں شکاری تھے۔ کوئی غیب کی خبریں بتانے والا کاہن تھا تو کوئی پاپا کا روپ دھارے ہوئے تھا ۔کوئی بادشاہ کی صورت میں تھا تو کوئی امیر تھا۔ بادشاہ اور کلیسا کا مذہبی رہنما دونوں ہی انسانیت کی اجڑی ہوئی کھیتی پر لگان وصول کرتے تھے۔انسان کی فطرت بھی غلامی کے باعث پست ہوگئی تھی۔اس کی بانسری میں نغمے خون آلود ہوگئے تھے۔ایسی فضا میں محمد مصطفےٰ ﷺ کا ظہور ہوا اور آپ نے بادشاہوں کے تخت ،غلاموں کے سپرد کرکے حقداروں کو ان کا حق دلوادیا۔ [اس طرح انسان کی ] آزادی نے آپﷺ کے قلبِ پاک سے جنم لیا اور یہ نئی اور میٹھی شرابِ [طہور] آپ کی[لگائی ہوئی] انگور کی بیل سے دستیاب ہوئی‘‘۔

دشمنانِ اسلام کا منفی پراپیگنڈا بھی بعض اوقات اسلام کی حقانیت اور رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے تعارف کا باعث بنتا ہے۔علامہ نے’’ ابوجہل کا نوحہ‘‘ بھی اشعار میں ڈھالا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تعلیماتِ اسلام انسانیت کے لیے کس قدر سود مند اور دشمنانِ انسانیت کے لیے کتنی مہلک ہیں۔


سینہِ ما از محمد داغ داغ

از دم او کعبہ را گل شد چراغ

از ہلاک قیصر و کسری سرود

نوجواناں راز دست مار بود

ساحر و اندر کلامش ساحری است

ایں دو حرف لا الہ خود کافری است

تابساط دینِ آبا در نورد

با خداوندانِ ما کرد آنچہ کرد

پاش پاش از ضربتش لات و منات

انتقام از وی بگیر ای کائنات

مذہب او قاطعِ ملک و نسب

از قریش و منکر از فضل عرب

در نگاہ او یکے بالا و پست

با غلام خویش بر یک خواں نشست

قدر احرارِ عرب نشناختہ

با کلفتانِ حبش در ساختہ

احمراں با اسوداں آمیختند

آبروے دو دمانے ریختند

ایں مساوات ایں مواخات اعجمی است

خوب میدانم کہ سلماں مزدکی است [50]


’’ہمارا سینہ محمد ﷺ کی وجہ سے داغ داغ ہے [کیوں کہ ] ان ہی کی دی ہوئی تعلیم کے باعث ہمارے کعبے کا چراغ بجھ گیا ہے یعنی انہوں نے ہمارے ہاتھ سے بنائے ہوئے خداؤں کو پاش پاش کردیا ہے۔ انہوں [ﷺ]نے قیصر و کسریٰ کی ہلاکت و بربادی کی بات کی اور مجھ سے میرے زیرِ اثر نوجوانون کو چھین لیا۔ وہ [ﷺ‘ نعوذُ باللہ] جادو گر ہے اور اس[ﷺ] کے کلام میں جادوگری ہے۔لااِلٰہ کے دو حرفوں ہی میں در اصل کفر ہے [کیوں کہ اس میں الٰہِ واحد کے سوا سب کی نفی ہے]۔جب اس[ﷺ] نے ہمارے آبا و اجداد کے دین کی بساط الٹ دی تو ہمارے بتوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جو نا قابلِ بیان ہے۔اس [ﷺ] نے ہمارے بتوں کو اپنی ضرب سے پاش پاش کردیا [اب تو یہ بد دعا ہے کہ ]اے کائنات [توہی]اس سے انتقام لے!۔۔۔ اس کا مذہب وطنی اور نسبی [تفاخر کی] جڑ کاٹتا ہے۔وہ[ﷺتو]قریش اور عرب کی فضیلت کا [بھی]منکر ہے۔ اس[ﷺ]کی نظر میں چھوٹے بڑے سب برابر ہیں۔ وہ تو [کھانے کے لیے بھی]اپنے غلام کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر بیٹھا۔ اس [ﷺ] نے عرب کے آزاد بندوں کی ناقدری کی اور حبش کے بد صورت غلاموں کے ساتھ راہ و رسم بڑھالی۔[ان کے لائے ہوئے نظام کی بدولت]کالے ،گورے شیروشکر ہوگئے۔انہوں نے اعلیٰ خاندانوں کی عزت و آبرو خاک میں ملا دی۔ انسانی برابری اور بھائی چارے کا یہ تصور ایرانی ہے کیوں کہ سلمان [نبی ﷺکا صحابیؓ] ایرانی ہے[ اور اسی نے مزدک کا دیا ہوا درس محمدﷺ کو دیا ہے]‘‘۔

اس طرح اقبال نے حضورِ اکرم ﷺ کے لائے ہوئے دین کی خوبیاں گِنا کر ،دشمنانِ دین کی طرف سے ان کے اپنے نظام کے تلپٹ ہوجانے کا نوحہ پیش کیا ہے۔

ہندوستان پر برطانوی قبضے کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کی فکر ی صلاحتیں کند ہونے لگیں اور انہیں مغربی آقاؤں کی ہر چیز میں حسن نظر آنے لگا۔ حتیٰ کہ وہ اپنے مذہب میں بھی تاویلات کے ذریعے ردو و قبول کے نکات نکالنے لگے۔ اقبال نے اس مہلک بیماری کی علامتوں سے مسلمانوں کو نہ صرف آگاہ کیا بلکہ انہیں نبیء کریم کا درسِ حریت یاد دلاکر صاف صاف کہہ دیا کہ شئے کی حقیقت دیکھنے کے لیے صرف آزاد بندوں کی نگاہ درکار ہے:


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حُسنِ زیبائی سے محرومی

جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا

بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر

کہ دُنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا [51]


ہندی مسلمانوں کو غلامی کے باعث عمل سے زیادہ اظہارِ عشق کا چسکا تھا۔ دیدارِ رسول ﷺ کی آرزو تھی جس کا اظہار کرتے ہوئے مسلمان نہیں تھکتے تھے لیکن یہ نہیں سوچتے تھے کی حضورِ اکرم ﷺ کے دیدار کا اصل مفہوم و مدعا کیا ہے؟۔۔۔ اقبال نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں حسین بن منصور حلاج سے سوال کیا :


کم شناسم عشق را، ایں کار چیست؟

ذوقِ دیداراست؟ پس دیدار چیست؟ [52]


’’میں عشق کا مفہوم کم سمجھتا ہوں [بتایئے کہ] یہ کیا کام ہے؟ ۔۔۔۔۔۔مجھے دیدارِ’رسول ﷺ کا ذوق تو ہے لیکن اصل دیدار کیا ہے؟‘‘


جواب میں حلاج نے کہا:


معنیء دیدارِ آں آخر زماںؐ

حکمِ او‘ بر خویشتن کردن رواں

درجہاں زی چوں رسولِ انس و جاں

تا چو او باشی قبولِ انس و جاں

باز خود را بیں‘ ہمیں دیدارِ دوست

سنتِ او سِرِّے از اسرارِ دوست [53]

’’نبیء آخرالزماں ﷺ کے دیدار کا مطلب ہے کہ تو ان کے حکم کو خود [اپنی ذات]پرجاری کرلے۔یعنی ان کی لائی ہوئی شریعت پر عمل پیرا ہوجا۔ دنیا میں انسانوں اور جنوں کے رسول ﷺ کے مانند زندگی بسر کر۔ تاکہ تو بھی ان کی طرح عالمِ انسانی اور عالمِ جنَّات میں مقبول ہوجائے۔ بعد ازاں خود کو دیکھ کہ یہی ان کا دیدار ہے۔ ان کی سنت [پر عمل کرنے ہی سے معلوم ہوگا کہ]یہی ان کے بھیدوں سے ایک بھید ہے۔حضورِ اکرم ﷺ کی صورت اور سیرت کی پیروی ہی سے دیدارکی آرزو کرنے والے کی ذات آئینہ ہوجائے گی جس میں حضورِ اکرم ﷺ کا دیدار نصیب ہوسکے گا‘‘ ۔ اس طرح اقبال نے امت کو یہ پیغام دیا کہ پیروی کے بغیر حضور علیہ السلام کی محبت کا دعویٰ اورآپ ﷺ کے دیدار کی تمنا بے سود ہے۔ سچی آرزو اور سچی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان فنا فی الرسول ﷺ ہوجائے اور پھر اپنے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی قربت کا تمنائی ہو!

اقبال کا اپنا حال یہ تھا کہ وہ بیشتر اوقات قلب و ذہن و روح کے ساتھ اپنے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ اسی کیفیت کی ایک نظم ’’بانگِ درا‘‘ میں ہے جس کا عنوان ہے ’’حضورِرسالت مآبﷺ میں‘‘۔اس نظم کے اکثر اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال حضورِ اکرم ﷺ کی محفل میں حاضر ہیں:


فرشتے بزمِ رسالت میں لے گئے مجھ کو

حضورِ آیہء رحمتؐ میں لے گئے مجھ کو

۔۔۔کہا حضورؐ نے اے عندلیبِ باغِ حجاز

۔۔۔ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟


اس کے بعد اقبال عرض کرتے ہیں:


حضورﷺ! دہر میں آسودگی نہیں ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی

ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاضِ ہستی میں

وفا کی جس میں ہو بو، وہ کلی نہیں ملتی

مگر میں نذر کو اِک آبگینہ لایا ہوں

جو شے ہے اِس میں وہ جنت میں بھی نہیں ملتی

جھلکتی ہے تری اُمت کی آبرو اِس میں

طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اِس میں

(حضورﷺ رسالتِ مآب میں) [54]

اس نظم سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اقبال نے جنابِ رسولِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے دربار میں بھی امت کا احوال ہی پیش کیا اپنی ذاتی روحانی و قلبی واردا ت کا ذکر نہیں کیا۔ امت کو اسلامی اقدار کا پابند رہنے کی تلقین اور حضورِ اکرم ﷺ کی سچی پیروی اور محبت کی دعوت دینا ہی اقبال کافکری و شعری مسلک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ انہوں نے تو شاعری کو پیغام پہنچانے کا ذریعہ بنایا ہے ۔محض شاعری نہیں کی ہے۔

نہ شعر است ایں کہ بروے دل نہادم

گرہ از رشتہء معنی کشادم

بامیدے کہ اکسیرے زند عشق

مسِ ایں مفلساں را تاب دادم [55]

’’یہ محض شاعری نہیں ہے کہ جس میں میرا دل اٹکا ہوا ہے۔ میں تو معانی کی گرہیں کھول رہا ہوں۔اس امید پر کہ میری قوم کو عشقِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ، اکسیر بنادے۔ میں اس مفلس قوم کے تانبے کو آگ میں تپا رہا ہوں تاکہ یہ اکسیر بن جائے‘‘ ۔

مفلس قوم کے تانبے کو اکسیر بنانے کے لیے ہر ہر زاویئے سے دعوتِ عمل دی اور عشقِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی غایت کا احساس دلایا:


قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسمِ محمدﷺ سے اُجالا کر دے [56]

اور:


عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری

مرے درویش! خلافت ہے جہانگیر تری

ما سوی اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری

تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

(جوابِ شکوہ) [57]


روحِ اسلام سے مملو پیغام اپنے اشعار ،اپنی گفتار اور اپنی تحریروں میں بار بار پیش کرنے کے بعد بھی جب مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے تو اقبال نے اپنے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی جناب میں یہ عرض داشت پیش کی:


بآں رازے کہ گفتم پے نبردند

زِ شاخِ نخلِ من خرما نخوردند

من اے میرِ اممؐ داد از تو خواہم

مرا یاراں غزل خوانے شمردند [58]


’’میں نے سرفرازی حاصل کرنے کا راز مسلمانوں کے سامنے پیش کردیا، لیکن انہوں نے میری باتوں کی طرف دھیان نہیں دیا۔انہوں نے میرے شجرِ فکر کا پھل نہیں کھایا۔اب میرے آقاﷺ! آپ امتوں کے امام ہیں ، میں آپ سے اپنی فکری سچائی اور پیامی شاعری کی داد چاہتا ہوں۔ مسلمان قوم نے تو مجھے محض شاعر سمجھ رکھا ہے‘‘۔

اقبال کی شعری و فکری تحریروں کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کا مماثل اسلامی دنیا میں بالعمو م اور ہندو پاک اسلامی معاشرے میں بالخصوص کوئی نہ ہوا۔ایک ایسا شاعر جس کے کلام میں عشقِ رسول ﷺ کی گرمی، امتِ مسلمہ کی اجتماعیت کا احساس اور قومِ مسلم کے اِدبار و زوال کوعروج میں بدلنے کا اتنا شدید ولولہ ہو۔ اقبال کی مثال صحرائے حیات میں قیس کی سی ہے جس کے لیے غالبؔ نے کہا تھا:


جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

صحرا، مگر بہ تنگیِ چشمِ حسود تھا [59]


کاش امتِ مسلمہ ’’رسالت‘‘ کے جملہ مفاہیم اور مقاصد و اغراض سے واقف ہوکر ( اقبال کے فکری نکات کی روشنی میں) حضورِ اکرم ﷺ سے محبت کرنے والی بن جائے اور آپ ﷺ کی پیروی کرکے خود کو جمالِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا آئینہ بنالے !!!

شمارے جہاں یہ مضمون شائع ہوا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ماہنامہ کاروان نعت لاہور ۔ مارچ 2017

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات
مضامین میں تازہ اضافہ
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

حوالہ جات و حواشی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

  1. قبال، کلیاتِ اردو، سروسز کلب، 1995 ء، ص 49/691
  2. اقبال،جاوید نامہ، سیخ محمد بشیر اینڈ سنز، ،لاہور، س۔ن، ص97/933
  3. این میری شمل، شہپرِ جبریل،مترجمہ: ڈاکٹر محمد ریاض،گلوب پبلیشرز، لاہور، ۱۹۸۷ء، ص۱۸۷
  4. اقبال،پیامِ مشرق،شیخ بشیر اینڈ سنز، لاہور،س۔ن، ص 185/678 ، غزل 34
  5. مکاتیبِ اقبال بنام خان نیاز الدین خان، اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۸۶ء، ص۶۰
  6. جاوید نامہ، ص 63/899 ۸۔پیامِ مشرق، ص 147/640
  7. جاوید نامہ، ص 63/899 ۸۔پیامِ مشرق، ص 147/640
  8. پیامِ مشرق، ص 147/640
  9. کلیاتِ اقبال، اردو،( بالِ جبریل)، سروسز کلب، ۱۹۹۵ء، ص ۲۷؍۳۱۹
  10. ایضاً ۲۵؍۳۱۷ ۱۱۔اقبال، ارمغانِ حجاز، شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور، س۔ن، ص ۴۸
  11. پیامِ مشرق، ص 147/640
  12. ایضاً ص۵۰
  13. ۱۳۔ایضاً ص ۷۱
  14. ۱۴۔جاویدنامہ،180/1016
  15. ایضاً ص 181/1017
  16. این میری شمل، پروفیسر، ڈاکٹر، مترجم:محمد ریاض، ڈاکٹر،گلوب پبلشرز، لاہور، ۱۹۸۷ء،ص۱۹۷
  17. جاویدنامہ ص 24/860 ۱
  18. ۔ایضاً ص122/958
  19. ۔جاویدنامہ ص ۱۹؍۸۵۵
  20. ایضاًص179/1015
  21. ایضاً ص 176/1012
  22. ایضاً ص 178/1014
  23. اقبال ،اسرارِ خودی، شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور، س۔ن،ص 31 to 35/247 to 251
  24. اقبال،رموزِ بیخودی، شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور، س۔ن، ص 161 to 163/377 to 379
  25. ایضاً ص 163
  26. 165/379 to 381 ایضاً ص 145/361
  27. اقبال، ترجمہ: خطباتِ اقبال، تجدیدِ فکریاتِ اسلام، مترجم:ڈاکٹر وحید عشرت، نظرِ ثانی:ڈاکٹر عبدالخالق،اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۲ء، ص ۱۵۵
  28. اقبال،پیامِ مشرق،شیخ بشیر اینڈ سنز، لاہور،س۔ن، ص 185/678 ، غزل 34
  29. یوسف سلیم چشتی،پروفیسر،شرحِ پیامِ مشرق، عشرت پبلسنگ ہاؤس، لاہور، س۔ن۔، ص ۴۹۹
  30. اسرارِ خودی، ص 67/283
  31. ’’یقناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور کیے انہوں نے نیک کام [تو]عنقریب پیدا کردے گا ان کے لیے ،رحمٰن [دلوں میں]محبت۔۔۔القرآن، آیت نمبر۹۶ سورۂ مریم۔
  32. کلیاتِ باقیاتِ شعرِ اقبال ، ڈاکٹر صابر کلوروی، اقبال اکادمی پاکستان،۲۰۰۴ء،ص۹۹
  33. شرحِ دیوانِ حافظ شیراز ی رحمۃ اللہ علیہ، پروفیسر میاں مقبول احمد، مشتاق بک کارنر، الکریم مارکیٹ، اردو بازار،س۔ن، لاہور، ص 534 ۳۴۔ کلیاتِ اقبال، اردو،( بالِ جبریل)، سروسز کلب، ۱۹۹۵ء، ص ۱۱۲؍۴۰۳
  34. کلیاتِ اقبال، اردو،( بالِ جبریل)، سروسز کلب، ۱۹۹۵ء، ص ۱۱۲؍۴۰۳
  35. ایضاً ص ۱۱۱؍۴۰۳
  36. پروفیسر یوسف سلیم چشتی، شرح بالِ جبریل‘عشرت پبلسنگ ہاؤس، غزنی سٹریٹ ، لاہور، س۔ن۔ ص۵۵۲
  37. اسرارِ خودی ، ص 29/245
  38. کلیاتِ اقبال (اردو)، ص ۱۱۳؍۴۰۵
  39. ایضاً ۱۱۳؍۴۰۵
  40. حضرت شاہ سید محمد ذوقیؒ ، سِرِّ دلبراں، نارتھ کراچی، کراچی، طبع پنجم: ۱۴۱۸ھ ؁، ۳۷۶
  41. ایضاً
  42. ایضاً
  43. ایضاً ص ۳۷۸ ۴۴
  44. ایضاً ص ۳۶ ۴۵۔ صحیح مسلم
  45. صحیح مسلم
  46. مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق مع مثنوی مسافر، شیخ بشیر اینڈ سنز،لاہور، س۔ن، ص82/1222
  47. کلیاتِ اقبال(اردو) ص ۱۱۴؍۴۰۶
  48. اقبال، مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق،شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور، صفحہ 73 ؍1213
  49. رموزِ بیخودی، ص 167/383
  50. جاوید نامہ، ص 78/914
  51. کلیاتِ اقبال (اردو)، ص24/316
  52. جاوید نامہ، ص1 185/102
  53. ایضاًص 185/1021
  54. کلیاتِ اقبال (اردو) ص ۱۹۷
  55. ارمغانِ حجاز،ص 32/747
  56. کلیاتِ اقبال (اردو) ص ۲۰۷
  57. کلیاتِ اقبال (اردو) ص ۲۰۸
  58. ارمغانِ حجاز،ص 32/747
  59. دیوانِ غالب (ردیف ،الف)